حضرت علی حسین اشرفیؔ کچھوچھوی علیہ ا
حضرت علی حسین اشرفیؔ کچھوچھوی علیہ الرحمہ کی شاعری کا ادبی مطالعہ
از قلم: ناصر منیری، بانی و صدر منیری فاؤنڈیشن منیر شریف، پٹنہ
زبان و ادب کی اہمیت اور قدر و منزلت بہت ہی زیادہ ہے۔ دنیا
کے مختلف خطے اور علاقے میں بھانت بھانت کی بولیاں بولی جاتی ہیں۔ انواع و اقسام کی
زبانیں موجود ہیں۔ ماہر لسانیات کا کہنا ہے کہ ہر بارہ کوس پر پانی اور بانی میں
تبدیلی آجاتی ہے۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ دنیا کے الگ الگ ملکوں، خطوں اور علاقوں
میں الگ الگ زبانیں اپنا وجود رکھتی ہیں انھی میں سے ایک شیریں، سہل اور بہترین زبان
اردو ہے۔ جو بیش تر ممالک میں نہ صرف بولی اور سمجھی جاتی ہے بلکہ لکھی اور پڑھی
بھی جاتی ہے۔ ہند آریائی میں سے کھڑی بولی سے معرض وجود میں آنے والی اس زبان کو بین
الاقوامی زبان ہونے کا شرف حاصل ہے۔ داغؔ دہلوی کے شعر کو قدرے تصرف کے ساتھ پیش
کرنا بےجا نہ ہوگا کہ
اردو ہے جس کا نام ہم ہی جانتے ہیں داغؔ
سارے جہاں میں دھوم ہماری زباں کی ہے
اس میں کوئی دو راے نہیں کہ کسی بھی زبان کی بقا اور سالمیت
کے ضامن اس کے ادبا اور شعرا ہوا کرتے ہیں۔ اگر زبانوں کی تاریخ کی بات کریں تو یہ
حقیقت بھی ہے کہ ہر زمانے میں ہر زبان کی بقا اور تحفظ فراہم کرنے والے اس زبان کے
ادبا و شعرا ہی رہے ہیں۔ ادیبوں نے نثر کے ذریعے تو شاعروں نے شاعری کے ذریعے اپنی
اپنی زبان کی حفاظت و صیانت کا فریضہ انجام دیا۔ ان ہی ادبا
و شعرا میں ایک اہم نام حضرت علی حسین اشرفی ؔ کچھوچھوی علیہ الرحمہ کا ہے
جنھوں نے اپنی شاعری اور نثر نگاری کے ذریعے خون جگر سے زبان اردو کی آب یاری کی۔
اس مقالے میں ان ہی شاعری کا ادبی مطالعہ
پیش کیا جا رہاہے۔
حسن مطلع
جس کلا م کے دوسرے شعر کے دونوں مصرع میں ردیف و قافیہ ہوں
اس کو حسن مطلع کہا جاتا ہے۔ عموماً ہر شاعر اپنے کلام کے مطلع یعنی پہلے شعر کے
دونوں مصرع میں ردیف اور قافیے کا استعمال کرتا ہے۔ کیوں کہ فن و ادب کے اعتبار سے
وہ ضروری امر ہے۔ مطلع کے بعد دیگر اشعار میں وہ صرف دوسرے مصرع میں ردیف و قافیے
کا التزام کرتا ہے۔ دونوں مصرعوں میں ردیف و قافیے کا استعمال ضروری نہیں لیکن پھر
بھی کبھی کبھی شاعر مطلع کے بعد کے شعر میں اس امر کی طرف التفات کر کے دونوں
مصرعوں میں ردیف و قافیے کا استعمال کرلیتا ہے اور اس کا شمار شاعر کے فن کی خوبی
میں ہوتا ہے اور شاعر کے اس فن کو سراہنے کے لیے ایسے شعر کو حسن مطلع سے ملقب کیا جاتا ہے۔ اردو ادب کے نام
ور شعرا کے کلاموں میں حسن مطلع کی بہت ساری مثالیں پائی جاتی ہیں۔ مثلاً:
مرزا غالبؔ:
آبرو کیا خاک اس گل
کی کہ گلشن میں نہیں
ہے گریباں ننگِ پیراہن جو دامن میں نہیں
ضعف ہاے گریہ کچھ باقی مرے تن میں نہیں
رنگ ہو کر اڑ گیا جو خوں کہ دامن میں نہیں
فانی ؔبدایونی:
ابتداے عشق ہے لطفِ شباب آنے کوہے
صبر رخصت ہو رہا ہے اضطراب آنے کو ہے
قبر پر کس شان سے وہ بے نقاب آنے کو ہے
آفتاب صبحِ محشر ہم رکاب آنے کو ہے
اصغرؔ گونڈوی:
مستی میں فروغِ رخ جاناں نہیں دیکھا
سنتے ہیں بہار آئی گلستاں نہیں دیکھا
زاہد نے مرا حاصل ایماں نہیں دیکھا
رخ پہ تری زلفوں کو پریشاں نہیں دیکھا
شکیل ؔبدایونی:
ہوں دل میں عشرتِ غم جاناں لیے ہوئے
صحرا ہے رنگ و بوے
گلستاں لیے ہوئے
ذوقِ گناہ عزم پشیماں لیے ہوئے
کیا کیا ہنر ہیں حضرتِ انساں لیے ہوئے
فیض احمد فیضؔ:
شاخ پر خونِ گل رواں ہے وہی
شوخیِ رنگِ گل سِتاں ہے وہی
سر وہی ہے تو آستاں ہے وہی
جاں وہی ہے تو جانِ جاں ہے وہی
جگرؔ مرادآبادی:
نظر ملتے ہی دل کو وقفِ تسلیم و رضا کر دے
جہاں سے ابتدا کی ہے وہیں سے انتہا کر دے
وفا پر دل کو صدقے، جان کو نذرِ وفا کر دے
محبت میں یہ لازم ہے کہ، جو کچھ ہے فنا کر دے
اردو ادب کے نام ور شعرا کے کلاموں میں حسن مطلع کی مثالیں
دیکھنے کے بعد اب حضرت اشرفیؔ میاں کچھوچھوی کے کلام حسن مطلع کی مثالیں ملاحظہ
کریں:
(1)
جب کوہِ مفرح سے وہ روضہ نظر آیا
تسکینِ دلِ زار کا نقشہ نظر آیا
وہ روضۂ شاہنشہِ طہ نظر آیا
یا جنتِ ماوا کا بھی ماوا نظر آیا
(2)
سلامت رہو میرے سر پر سلامت
ہمیشہ رہو سایہ گستر سلامت
رہے گا جو قاتل تِرا گھر سلامت
نہ جائے گا لے کر کوئی سر سلامت
(3)
رو رہا ہے کس قلق سے دل ہمارا زار زار
چبھ گئے سینے میں غم سے اے گلِ بے خار خار
بختِ خوابیدہ پہ حسرت آرہی ہے باربار
ہم تو چھوٹے یار سے اور ہو گئے اغیار یار
(4)
زلفِ بتاں کے پیچ سے خالق بچائے دل
مرنا جسے قبول ہو جاکر پھنسائے دل
یارب کبھی کوئی نہ کسی سے لگائے دل
مر جائے زہر کھا کے کسی پر جو آئے دل
(5)
پوچھے ہم سے کوئی کہ کیا ہیں ہم
مظہرِ ذاتِ کبریا ہیں ہم
گو کہ ظاہر میں یاں گدا ہیں ہم
لیکن باطن میں بادشاہ ہیں ہم
صنعتِ استعارہ
صنعتِ استعارہ اس صنعت کو کہتے ہیں کہ شاعر اپنے کلام میں
کسی لفظ کے حقیقی معنی ترک کر کے اس کو مجازی معنی میں استعمال کرتا ہےاور ان
حقیقی و مجازی معنی کے درمیان تشبیہ کا تعلق ہوتا ہے ۔ اس صنعت کے تحت اردو ادب کے
نام ور شاعر شکیلؔ بدایونی کا شعردیکھیں:
شکیلؔ بدایونی:
اے میرے ماہِ کامل پھر آشکار ہو جا
اکتا گئی طبیعت تاروں کی روشنی سے
اس شعر میں شاعر نے اپنی محبوبہ کے لیے حقیقی معنی ترک کر
کے ماہ کامل کے مجازی معنی کا استعمال کیا ہے یعنی ماہ کامل سے مراد اپنی محبوبہ
ہے۔
صنعتِ استعارہ کے تحت حضرت اشرفیؔ میاں کچھوچھوی کے اشعار
دیکھیں:
نقد جاں دے کے بھی نہ ہاتھ لگا
تیرا سودا ہوا گراں ایسا
دلا یہ کعبۂ اہلِ یقیں ہے
در و دالانِ سلطان المشائخ
ملا ہے کیا ہی بخشش کا وسیلہ
ہمیں دامانِ سلطان المشائخ
سراج الدیں علاؤالدیں و اشرف
گلِ بستانِ سلطان المشائخ
آئے تو بہرِ عیادت اگر اے رشکِ مسیح
ابھی اچھا ہو تِرا طالبِ دیدار مریض
بنا کر ان کو نقاشِ ازل نے
نہ کھینچی ایسی تصویرِ حسینہ
صنعتِ تشبیہ
ایک چیز کو دوسری چیز کی مانند ٹھہرانا یا اس کی صفت میں
شریک قرار دینا تشبیہ ہے۔ اس کی مثالیں اردو ادب کے شعرا کے یہاں یوں ملتی ہیں:
میر تقی میر:
نازکی ان کے لب کی کیا کہیے
پنکھڑی اک گلاب کی سی ہے
ماہر چاند پوری:
چاند سے چہرے پہ بکھری ہے وہ زلفِ عنبریں
رات کیوں ہے آج اتنی دل ربا معلوم ہے
اس صنعت کے تحت حضرت اشرفیؔ میاں کچھوچھوی کے اشعار ملاحظہ
ہوں:
نکہتِ گل ہو جس طرح گل میں
یار دل میں ہوا نہاں ایسا
ذبح کرو خنجرِ ابرو سے تم
پر کبھی گردن نہ ہلائیں گے ہم
چشمِ جاناں ہے شبیہِ چشمِ آہو ہو بہو
عنبریں ہیں کاکل شب رنگ کے مو مو بہ مو
مست ہوگا ایک عالم مثلِ آہوے ختن
اے صبا مت کر پریشاں بوئے گیسو سو بہ سو
عشقِ سروِ قدِ جاناں میں ہے عاشق کا یہ رنگ
کر رہا ہے فاختہ کی مثل کو کو کو بہ کو
صنعتِ اقتباس
چنا ہوا کلام یعنی شاعر اپنے شعر میں قرآن مجید کی آیت یا
حدیث کی عبارت کا ٹکڑا لے لے اور اس عبارت کو عربی زبان میں ہی شعر میں نقل کر دے
اسے صنعتِ اقتباس کہتے ہیں۔ صنعت اقتباس کی مثالیں اردو زبان کے نام ور شعرا کے
کلام میں بہت کم پائی جاتی ہیں بلکہ یوں کہنے میں کوئی مبالغہ نہیں کہ ان شعرا کے
کلام میں یہ صنعت براے نام ہی پائی جاتی ہے، بجز علامہ اقبال کے۔ علامہ اقبال کے
کلام میں صنعت اقتباس ضرور پائی جاتی ہے لیکن محدود تعداد میں۔ اردو ادب کے کچھ شعرا کے میں کلام میں صنعتِ
اقتباس کی مثالیں یہ ہیں:
مرزا غالبؔ:
دھوپ کی تابش آگ کی گرمی
وقنا ربنا عذاب النار
جاں مطرب ِترانۂ ھل من مزید ہے
لب پر وہ سنج زمزمۂ الاماں نہیں
علامہ اقبالؔ:
رنگِ او ادنی میں رنگیں ہو کے اے ذوقِ طلب
کوئی کہتا تھا کہ لطفِ ما خلقنا اور ہے
زندگی از دہر
و دہر از زندگی ست
لا تسبو الدھر فرمان نبی ست
کس کی ہیبت سے صنم سہمے ہوئے رہتے تھے
منہ کے بل گر کے ھواللہ احد کہتے تھے
حکمت و تدبیر سے یہ فتنۂ آشوب خیز
ٹل نہیں سکتا "وقد کنتم بہ تستعجلون"
چشمِ اقوام یہ نطارہ ابد تک دیکھے
رفعتِ شانِ رفعنا لک ذکرک دیکھے
مرزا غالبؔ اور علامہ اقبالؔ کے کلام سے صنعتِ اقتباس کی
مثال میں چند اشعار پیش کیے گئے۔ علامہ اقبالؔ کے علاوہ دیگر شعراے اردو کے کلام
میں اس صنعت کی مثالیں مشکل سے ملتی ہیں۔ جگرؔ مرادآبادی، فیض احمد فیضؔ، فانیؔ
بدایونی، فراقؔ گورکھ پوری، اصغر ؔگونڈوی، کے کلام تو اس صنعت سے محرومی پر ماتم
کناں محسوس ہوتے ہین۔ لیکن حضرت اشرفیؔ میاں
کچھوچھوی کے کلام میں صنعتِ اقتباس کی مثالیں اتنی کثرت سے پائی جاتی ہیں کہ عقلیں
حیران ہیں کچھ مثالیں پیش خدمت ہیں:
رگِ جاں سے قریب تر وہ ہے
"نحن اقرب" سے ہے عیاں ایسا
مضمون "لحمک" سے یہ راز جس نے جانا
خود شانِ مصطفائی صل علیٰ علی ہے
مقصود "ھل اتیٰ" کا منسوب "انما" کا
مطلوب "قل کفیٰ" کا ہاں مرتضیٰ علی ہے
جب سرِّ "اینما" نے کیا اپنا کچھ ظہور
جو شکل دیکھی سمجھے یہ صورت خدا کی
"فی انفسکم" سے ہم نے جانا
جو کچھ ہے وہ اللہ ھو ہے
صنعتِ مبالغہ
کسی بات کوبہت بڑھا چڑھا کر بیان کرنا حد سے زیادہ تعریف و
بڑائی کرنا مبالغہ کہلاتا ہے اسے غلو بھی
کہا جاتا ہے یعنی حد سے زیادہ مبالغہ کرنا اردو ادب کے شعرا نے اس صنعت نے بہت ہی
زیادہ گل کھلائے ہیں۔ مثلاً: امیرؔ مینائی کا شعر ہے:
ہنس پڑے آپ تو بجلی چمکی
بال کھولے تو گھٹا لوٹ آئی
صنعتِ مبالغہ کے تحت حضرت اشرفیؔ میاں کچھوچھوی کے اشعار
ملاحظہ کریں:
نہ قبر پر بھی اگر بعدِ مرگ آیا تو
رہے گی تیرے ہی تاحشر انتظار میں روح
اگر نہ آئے عیادت کو وقتِ نزع بھی تم
تڑپ تڑپ کے رہے گی مِرے مزار میں روح
اشرفیؔ ناز کر تو اشرف پر
کون پاتا ہے خانداں ایسا
شہِ سمناں کی مدحت سے نویدِ مغفرت پائی
سخن کی اشرفیِ خستہ غایت ہو تو ایسی ہو
یہ ہے معمور فیضِ ِ انبیا سے
میرا سینہ ہے تابوتِ سکینہ
صنعتِ تلمیح
کلام میں کسی قصے کی طرف اشارہ کرنا یا کسی مشہور شعر اور
کہاوت یا قرآن و حدیث کے واقعے کی طرف اشارہ کرنے کو تلمیح کہتے ہیں۔
شکیلؔ بدایونی کا شعر:
مئے کوثر پلاتے ہیں جناب مصطفیٰ شاید
علی اصغر کے رونے کی صدا کم ہوتی جاتی ہے
مرزا غالبؔ کا شعر:
قید میں یعقوب نے لی گونہ یوسف کی خبر
لیکن آنکھیں روزنِ دیوارِ زنداں ہو گئیں
فانیؔ بدایونی کا شعر:
طور نے جل کر ہزاروں طور پیدا کر دیے
ذرہ ذرہ میرے دل کی خاک کا دل ہو گیا
مذکورہ شعرا کے دیوان کی ورق گردانی کرنے کے ثمرے میں مشکل
سے دو ، پانچ اشعار صنعتِ تلمیح کے نظر آئیں گے اور وہ اشعار
بھی کوئی خاص دم دار نہیں۔ فن شاعری کی صنعت
تلمیح میں اسلامی تاریخ کے واقعات کی طرف اشارہ کرنے میں اکثر شعرا کی
معلومات محدود ہی رہی ہیں۔ صنعتِ تلمیح کے
تحت حضرت اشرفیؔ میاں کچھوچھوی کے اشعار ملاحظہ کریں:
شہِ سمناں تھے پہلے پھر ہوئے کونین کے سرور
ہدایت ہو تو ایسی ہو نہایت ہو تو ایسی ہو
جہاں جس نے مدد چاہی وہیں مشکل ہوئی آساں
غلاموں پر جو آقا کی عنایت ہو تو ایسی ہو
مریدوں کی قیامت میں رہائی نارِ دوزخ سے
کریں گے اشرفِ سمناں حمایت ہو تو ایسی ہو
علم تیری جہاں گیری کا ہر جا سایہ گستر ہے
شہنشاہی کی خاطر شانِ رایت ہو تو ایسی ہو
تمھارے عشق کا قصہ کوئی عشاق سے پوچھے
تڑپ جاتا ہے دل سن کر حکایت ہو تو ایسی ہو
صنعتِ مراعات النظیر
شعر میں ایسی کےی چیزوں کا ذکر کرنا جن میں باہم مناسبت ہو
مراعات النظیر کہلاتا ہےاس کو رعایت لفظی بھی کہتے ہیں یعنی ایسی چیزوں کا ذکر کرنا جس میں آپس میں
تضاد نہ ہو اور ان میں ایک دوسرے کے ساتھ مناسبت ہو۔ مثلاً: چمن کے ذکر کے ساتھ گل
و بلبل کا ذکر کرنا۔
مرزا غالبؔ کا شعر
قاصد کے آتے آتے خط اک اور لکھ رکھوں
میں جانتا ہوں جو وہ لکھیں گے جواب میں
شکیلؔ بدایونی کا شعر:
نہ ساغر ہے نہ پیمانہ نہ ساقی ہے نہ مے خانہ
شکیل اب چند اشکوں پر گزارا کر رہا ہوں میں
فیض احمد فیضؔ کا شعر:
شمعِ نظر خیال کے انجم جگر کے داغ
جتنے چراغ ہیں تری محفل سے آئے ہیں
علامہ اقبالؔ کا شعر:
نہ بادہ ہے، نہ صراحی، نہ دورِ پیمانہ
فقط نگاہ سے رنگیں ہے بزمِ مے خانہ
اصغر ؔگونڈوی کا شعر:
نہ یہ شیشہ نہ یہ ساغر، نہ یہ پیمانہ بنے
جانِ مے خانہ تری نرگسِ مستانہ بنے
فانی ؔبدایونی کا شعر:
تیرے بغیر باغ میں پھول نہ کھل کے ہنس سکے
کوئی بہار کی سی بات اب کے بہار میں نہیں
جگرؔ مرادآبادی کا شعر:
سمجھائے کون، بلبلِ غفلت شعار کو
محدود کر لیا ہے چمن تک بہار کو
حضرت اشرفیؔ میاں کچھوچھوی کے کلام کو فن و ادب کی حیثیت سے
دیگر شعرا ے اردو ادب کے کلام کے مقابلے میں جس حیثیت سے بھی لاتے ہیں تو ایسا
محسوس ہوتا ہے کہ تمام شعراے ادب و فن جمع ہو کر مجموعی طور پر فن و ادب کی جو
خوبی پیدا نہ کر سکے وہ مولانا اشرفی نے تن تنہا پیدا کردی بلکہ ایک نیا حسن پیدا
کر دیاہے۔ مولانا اشرفی کے کلام میں جو طمطراق، تجمل، شان و شوکت انوکھا پن اور
طنطنہ ہے وہ دیگر شعرا کے کلام میں نہیں
ہے۔ ہمارے اس دعوے کی صداقت کی شہادت ان اشعار سے آپ کو مل جائے گی۔
کوے جاناں میں ہوئے چاکِ گریباں کتنے
جان پر کھیل گئے عاشقِ بے جاں کتنے
طے کیے عشق کی منزل میں بیاباں کتنے
میرے تلووں میں چبھے خارِ مغیلاں کتنے
سیرِ گلشن کا ذرا قصد نہ کیجے للہ
صید ہو جائیں گے مغِ خوش الحاں کتنے
منزلِ عشق کی اب تک نہیں طے ہوتی راہ
اے جنوں تو نے دکھائے ہین بیاباں کتنے
اشرفی ؔکو جو سنا دے خبرِ کوچۂ یار
اے صبا ہم پہ رہیں گے تِرے احساں کتنے
Comments
Post a Comment