اسلام میں اخوت و بھائی چارے کا تصور۔۔۔قرآن و حدیث کی روشنی میں

اسلام میں اخوت و بھائی چارے کا تصور۔۔۔قرآن و حدیث کی روشنی میں

اِنَّمَا الْمُؤْمِنُوْنَ اِخْوَةٌ فَاَصْلِحُوْا بَیْنَ اَخَوَیْكُمْ وَ اتَّقُوا اللّٰهَ لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُوْنَ۠
(القرآن، السورة: الحجرات، الآیة: 10)

یقینا ایمان والے آپس میں بھائی بھائی ہیں۔ سو تم اپنے دو بھائیوں کے درمیان صلح کرایا کرو، اور اﷲ سے ڈرتے رہو تاکہ تم پر رحم کیا جائے۔

مذکورہ آیت کی تفسیر میں امام خازن و نسفی اپنی اپنی تفسیروں میں ارشاد فرماتے ہیں :
"مسلمان توآپس میں بھائی بھائی ہی ہیں  کیوں کہ یہ آپس میں  دینی تعلق اور اسلامی محبت کے ساتھ مَربوط ہیں اور یہ رشتہ تمام دُنْیَوی رشتوں  سے مضبوط تر ہے، لہٰذا جب کبھی دو بھائیوں  میں  جھگڑا واقع ہو تو ان میں  صلح کرادو اور اللہ تعالیٰ سے ڈروتا کہ تم پر رحمت ہو کیوں کہ اللہ تعالیٰ سے ڈرنا اور پرہیزگاری اختیار کرنا ایمان والوں  کی باہمی محبت اور اُلفت کا سبب ہے اور جو اللہ تعالیٰ سے ڈرتا ہے اس پر اللہ تعالیٰ کی رحمت ہوتی ہے۔"
( تفسیر خازن، الحجرات، تحت الآیۃ: ۱۰، ۴/۱۶۸، مدارک التنزیل، الحجرات، تحت الآیۃ: ۱۰، ص۱۱۵۳، ملتقطاً)

مسلمانوں  کے باہمی تعلق کے بارے میں 3 اَحادیث :

یہاں  آیت کی مناسبت سے مسلمانوں  کے باہمی تعلق کے بارے میں  3اَحادیث ملاحظہ ہوں ،

(1)…حضرت عبداللہ بن عمر رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، رسولِ اکرم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا
’’مسلمان ،مسلمان کابھائی ہے وہ اس پرظلم کرے نہ اس کورُسواکرے، جوشخص اپنے بھائی کی ضرورت پوری کرنے میں  مشغول رہتا ہے اللہ تعالیٰ اس کی ضرورت پوری کرتا ہے اورجو شخص کسی مسلمان سے مصیبت کو دور کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اس کے مَصائب میں  سے کوئی مصیبت دُور فرما دے گا اور جو شخص کسی مسلمان کا پردہ رکھتا ہے قیامت کے دن اللہ تعالیٰ اس کا پردہ رکھے گا۔
( بخاری، کتاب المظالم والغصب، باب لا یظلم المسلم... الخ، ۲/۱۲۶، الحدیث: ۲۴۴۲)

(2)…حضر ت نعمان بن بشیر رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، رسولُ اللہ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا’’سارے مسلمان ایک شخص کی طرح ہیں  ،جب اس کی آنکھ میں  تکلیف ہوگی توسارے جسم میں  تکلیف ہوگی اور اگراس کے سرمیں  دردہوتوسارے جسم میں  دردہوگا۔
( مسلم، کتاب البرّ والصّلۃ والآداب، باب تراحم المؤمنین... الخ، ص۱۳۹۶، الحدیث: ۶۷(۲۵۸۶))

(3)…حضرت ابو موسیٰ اشعری رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،سیّد المرسَلین صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا
’’ایک مسلمان دوسرے مسلمان کے لئے عمارت کی طرح ہے جس کی ایک اینٹ دوسری اینٹ کو مضبوط کرتی ہے۔
(مسلم، کتاب البرّ والصّلۃ والآداب، باب تراحم المؤمنین... الخ، ص۱۳۹۶، الحدیث: ۶۵(۲۵۸۵))

اللہ تعالیٰ مسلمانوں  کو اپنے باہمی تعلقات سمجھنے اور اس کے تقاضوں کے مطابق عمل پیرا ہونے کی توفیق عطا فرمائے، اٰمین۔

Comments

Popular posts from this blog