تراویح کی فضیلتیں اور بیس رکعتوں کا ثبوت ۔۔۔ حدیثوں کی روشنی میں

تحریر : محمد ناصرؔ منیری
بانی و صدر منیری فاونڈیشن، دہلی
رابطہ نمبر: +919654812767

تراویح مرد و عورت سب کے ليے بالاجماع سنت مؤکدہ ہے اس کا ترک جائز نہیں۔
(الدرالمختار، کتاب الصلاۃ، باب الوتر و النوافل، ج۲، ص۵۹۶)
اس پر خلفاے راشدین رضوان اللہ علیہم اجمعین نے مداومت فرمائی اور نبی ﷺ کا ارشاد ہے کہ
''میری سنت اور خلفاے راشدین کی سنت کو اپنے اوپر لازم سمجھو۔''
(جامع الترمذي، أبواب العلم، باب ماجاء في الأخذ بالسنۃ... إلخ، الحدیث: ۲۶۸۵، ج۴، ص۳۰۸)
اور خود حضور ﷺ نے بھی تراویح پڑھی اور اسے بہت پسند فرمایا۔  چناں چہ ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، ارشاد فرماتے ہیں:
''جو رمضان میں قیام کرے ایمان کی وجہ سے اور ثواب طلب کرنے کے ليے، اس کے اگلے سب گناہ بخش ديے جائیں گے۔ یعنی صغائر۔''
(مسلم شریف، کتاب صلاۃ المسافرین، باب الترغيب في قیام رمضان وہو التراويح، الحدیث: ۷۵۹، ص۳۸۲)
پھر اس اندیشے سے کہ امت پر فرض نہ ہو جائے ترک فرمائی پھر فاروق اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ رمضان میں ایک رات مسجد کو تشریف لے گئے اور لوگوں کو متفرق طور پر نماز پڑھتے پایا کوئی تنہا پڑھ رہا ہے، کسی کے ساتھ کچھ لوگ پڑھ رہے ہیں، فرمایا: میں مناسب جانتا ہوں کہ ان سب کو ایک امام کے ساتھ جمع کر دوں تو بہتر ہو، سب کو ایک امام ابی بن کعب رضی اللہ عنہ کے ساتھ اکٹھا کر دیا پھر دوسرے دن تشریف لے گئے ملاحظہ فرمایا کہ لوگ اپنے امام کے پیچھے نماز پڑھتے ہیں فرمایا نِعْمَتِ الْبِدْعَۃُ ھٰذِہٖ یہ اچھی بدعت ہے۔
(بخاري شریف، کتاب صلاۃ التروایح، باب فضل من قام رمضان، الحدیث : ۲۰۱۰، ج۱، ص۶۵۸، و الموطأ لإمام مالک، کتاب الصلاۃ في رمضان، باب ماجاء في قيام رمضان، رقم ۲۵۵، ج۱، ص۱۲۰)
جمہور کا مذہب یہ ہے کہ تراویح کی بیس رکعتیں ہیں
(الدرالمختار و ردالمحتار، کتاب الصلاۃ، باب الوتر و النوافل، مبحث صلاۃ التراويح، ج۲، ص۵۹۹)
اور یہی احادیث سے ثابت، بیہقی نے بسند صحیح سائب بن یزید رضی اللہ عنہما سے روایت کی کہ لوگ فاروقِ اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے زمانہ میں بیس رکعتیں پڑھا کرتے تھے۔

(معرفۃ السنن و الآثار للبیہقی، کتاب الصلاۃ، باب قيام رمضان، رقم ۱۳۶۵، ج۲، ص۳۰۵)

اور عثمان و علی رضی اللہ تعالیٰ عنہما کے عہد میں بھی یوں ہی تھا۔
(فتح باب العنایۃ شرح النقایۃ، کتاب الصلاۃ، فصل في صلاۃ التراويح، ج۱، ص۳۴۲)
اور موطا ميں یزید بن رومان سے روایت ہے، کہ عمر رضی اللہ عنہ کے زمانے میں لوگ رمضان ميں تیئس ۲۳ رکعتیں پڑھتے۔

(الموطأ لإمام مالک، کتاب الصلاۃ في رمضان، باب ماجاء في قيام رمضان، رقم ۲۵۷، ج۱، ص۱۲۰)

بیہقی نے کہا اس میں تین رکعتیں وتر کی ہیں۔ مولیٰ علی رضی اللہ عنہ نے ایک شخص کو حکم فرمایا: کہ رمضان میں لوگوں کو بیس ۲۰ رکعتیں پڑھائے۔
(السنن الکبری، کتاب الصلاۃ، باب ما روی في عدد رکعات القيام في شھر رمضان، الحدیث: ۴۶۲۱، ج۲، ص۶۹۹)
نیز اس کے بیس رکعت ہونے میں یہ حکمت ہے کہ فرائض و واجبات کی اس سے تکمیل ہوتی ہے اور کل فرائض و واجب کی ہر روز بیس ۲۰ رکعتیں ہیں، لہٰذا مناسب کہ یہ بھی بیس ہوں کہ مکمل و مکمل برابر ہوں۔

1.
عَنْ عَائِشَةَ أُمِّ الْمُؤْمِنِيْنَ رضي اﷲ عنها: أَنَّ رَسُولَ اﷲِ ﷺ صَلَّی ذَاتَ لَيْلَةٍ فِي الْمَسْجِدِ، فَصَلَّی بِصَلَاتِهِ نَاسٌ، ثُمَّ صَلَّی مِنَ الْقَابِلَةِ، فَکَثُرَ النَّاسُ، ثُمَّ اجْتَمَعُوا مِنَ اللَّيْلَةِ الثَّالِثَةِ أَوِ الرَّابِعَةِ، فَلَمْ يَخْرُجْ إِلَيْهِمْ رَسُولُ اﷲِ ﷺ، فَلَمَّا أَصْبَحَ، قَالَ: قَدْ رَأَيْتُ الَّذِي صَنَعْتُمْ، وَلَمْ يَمْنَعْنِي مِنَ الْخُرُوْجِ إِلَيْکُمْ إِلَّا أَنِّي خَشِيْتُ أَنْ تُفْرَضَ عَلَيْکُمْ، وَ ذَلِکَ فِي رَمَضَانَ.
مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ وَ هَذَا لَفْظُ الْبُخَارِيِّ.

(بخاري شریف، کتاب: صلاۃ التروایح، باب: فضل من قام رمضان، 2 / 708، حدیث نمبر : 1908، و مسلم شریف، کتاب: صلاۃ المسافرین و قصرھا، باب: الترغیب في قیام رمضان و ھو التراویح، 1 / 524، حدیث نمبر: 761)

وَ زَادَ ابْنُ خُزَيْمَةَ وَابْنُ حِبَّانَ:
وَ کَانَ رَسُولُ اﷲِ ﷺ يُرَغِّبُهُمْ فِي قِيَامِ رَمَضَانَ مِنْ غَيْرِ أَنْ يَأْمُرَ بِعَزِيْمَةِ أَمْرٍ فَيَقُولُ: مَنْ قَامَ رَمَضَانَ إِيْمَانًا وَ احْتِسَابًا غُفِرَلَهُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِهِ، فَتُوُفِّيَ رَسُولُ اﷲِ ﷺ فَکَانَ الْأَمْرُ کَذَلِکَ فِي خِلَافَةِ أَبِي بَکْرٍ رضي اﷲ عنه وَ صَدْرًا مِنْ خِلَافَةِ عُمَرَ رضي اﷲ عنه حَتَّی جَمَعَهُمْ عُمَرُ رضي اﷲ عنه عَلَی أُبِّيِ بْنِ کَعْبٍ وَ صَلَّی بِهِمْ فَکَانَ ذَلِکَ أَوَّلُ مَا اجْتَمَعَ النَّاسُ عَلَی قِيَامِ رَمَضَانَ.

(صحیح ابن حبان، 1 / 353، حدیث نمبر: 141، و صحیح ابن خزیمۃ، 3 / 338، حدیث نمبر: 2207)

و أخرجه العسقلاني في ’’التلخيص‘‘:
أَنَّهُ ﷺ صَلَّی بِالنَّاسِ عِشْرِيْنَ رَکْعَةً لَيْلَتَيْنِ فَلَمَّا کَانَ فِي اللَّيْلَةِ الثَّالِثَةِ اجْتَمَعَ النَّاسُ فَلَمْ يَخْرُجْ إِلَيْهِمْ ثُمَّ قَالَ مِنَ الْغَدِ: خَشِيْتُ أَنْ تُفْرَضَ عَلَيْکُمْ فَلَا تَطِيْقُوهَا.

(تلخیص الحبیر للعسقلانی، 2 / 21)

’’اُمّ المؤمنین حضرت عائشہ رضی اﷲ عنہا سے مروی ہے کہ
ایک رات رسول اللہ ﷺ نے مسجد میں (نفل) نماز پڑھی تو لوگوں نے بھی آپ ﷺ کے ساتھ نماز پڑھی. پھر آپ ﷺ نے اگلی رات نماز پڑھی تو اور زیادہ لوگ جمع ہوگئے پھر تیسری یا چوتھی رات بھی اکٹھے ہوئے لیکن رسول اللہ ﷺ ان کی طرف تشریف نہ لائے۔ جب صبح ہوئی تو فرمایا: میں نے دیکھا جو تم نے کیا اور مجھے تمھارے پاس (نماز پڑھانے کے لیے) آنے سے صرف اس اندیشہ نے روکا کہ یہ تم پر فرض کر دی جائے گی۔ اور یہ رمضان المبارک کا واقعہ ہے۔‘‘

امام ابن خزیمہ اور امام ابن حبان نے ان الفاظ کا اضافہ کیا:
اور حضور نبی اکرم ﷺ انھیں قیام رمضان (تراویح) کی رغبت دلایا کرتے تھے لیکن حکماً نہیں فرماتے تھے چناں چہ (ترغیب کے لیے) فرماتے کہ جو شخص رمضان المبارک میں ایمان اور ثواب کی نیت کے ساتھ قیام کرتا ہے تو اس کے سابقہ تمام گناہ بخش دیے جاتے ہیں۔ پھر حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وصال مبارک تک قیام رمضان کی یہی صورت برقرار رہی اور یہی صورت خلافت ابوبکر رضی اللہ عنہ اور خلافت عمر رضی اللہ عنہ کے اوائل دور تک جاری رہی یہاں تک کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے انھیں حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ کی اقتداء میں جمع کر دیا اور وہ انھیں نماز (تراویح) پڑھایا کرتے تھے لہٰذا یہ وہ ابتدائی زمانہ ہے جب لوگ نماز تراویح کے لیے (باجماعت) اکٹھے ہوتے تھے۔‘‘

اور امام عسقلانی نے ’’التلخیص‘‘ میں بیان کیا ہے کہ
حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے لوگوں کو دو راتیں 20 رکعت نماز تراویح پڑھائی جب تیسری رات لوگ پھر جمع ہوگئے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ان کی طرف (حجرہ مبارک سے باہر) تشریف نہیں لائے۔ پھر صبح آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: مجھے اندیشہ ہوا کہ (نماز تراویح) تم پر فرض کر دی جائے گی لیکن تم اس کی طاقت نہ رکھوگے۔‘‘

2.
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رضي اﷲ عنه، قَالَ:
خَرَجَ رَسُولُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم فَإِذَا أُنَاسٌ فِي رَمَضَانَ يُصَلُّونَ فِي نَاحِيَةِ الْمَسْجِدِ فَقَالَ: مَا هَؤُلَاءِ؟ فَقِيْلَ: هَؤُلَاءِ نَاسٌ لَيْسَ مَعَهُمْ قُرْآنٌ وَ أُبِيُّ بْنُ کَعْبٍ يُصَلِّي وَ هُمْ يُصَلُّونَ بِصَلَاتِهِ، فَقَالَ النَّبِيُّ صلی الله عليه وآله وسلم : أَصَابُوا وَ نِعْمَ مَا صَنَعُوا.
رَوَاهُ أَبُو دَاوُدَ وَ ابْنُ خَزَيْمَةَ وَ ابْنُ حِبَّانَ وَ الْبَيْهَقِيُّ.
وَ فِي رِوايَةٍ لِلْبَيْهَقِيِّ: قَالَ: قَدْ أَحْسَنُوا أَوْ قَدْ أَصَابُوا وَلَمْ يَکْرَهْ ذَلِکَ لَهُمْ.

(سنن ابوداود، کتاب: الصلاۃ، باب: في قیام شہر رمضان، 2 / 50، حدیث نمبر: 1377، صحیح ابن خزیمۃ، 3 / 339، الرقم: 2208، صحیح ابن حبان، 6 / 282، حدیث نمبر: 2541، السنن الکبری للبیھقی، 2 / 495، حدیث نمبر: 4386۔ 4388)

’’حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے فرمایا کہ
حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم (حجرہ مبارک سے) باہر تشریف لائے تو رمضان المبارک میں لوگ مسجد کے ایک گوشے میں نماز پڑھ رہے تھے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: یہ کون ہیں؟ عرض کی گئی: یہ وہ لوگ ہیں جنھیں قرآن پاک یاد نہیں اور حضرت ابی بن کعب نماز پڑھتے ہیں اور یہ لوگ ان کی اقتداء میں نماز پڑھتے ہیں تو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: انھوں نے درست کیا اور کتنا ہی اچھا عمل ہے جو انھوں نے کہا کیا۔‘‘

اور بیہقی کی ایک روایت میں ہے فرمایا: انھوں نے کتنا احسن اقدام یا کتنا اچھا عمل کیا اور ان کے اس عمل کو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ناپسند نہیں فرمایا۔‘‘

3.
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رضي اﷲ عنه قَالَ: کَانَ رَسُولُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم ، يُرَغِّبُ فِي قِيَامِ رَمَضَانَ، مِنْ غَيْرِ أَنْ يَأْمُرَ بِعَزِيْمَةٍ، فَيَقُولُ: مَنْ قَامَ رَمَضَانَ إِيْمَانًا وَ احْتِسَابًا، غُفِرَلَهُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِهِ. فَتُوُفِّيَ رَسُولُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم، وَالْأَمْرُ عَلَی ذَلِکَ، ثُمَّ کَانَ الْأَمْرُ عَلَی ذَلِکَ فِي خِلَافَةِ أَبِي بَکْرٍ وَ صَدْرًا مِنْ خِلَافَةِ عُمَرَ عَلَی ذَلِکَ. مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ وَ هَذَا لَفْظُ مُسْلِمٍ.

(بخاري شریف، کتاب: صلاۃ التروایح، باب: فضل من قام رمضان، 2 / 707، حدیث نمبر: 1905، و مسلم شریف، کتاب: صلاۃ المسافرین و قصرھا، باب: الترغیب في قیام رمضان و ھو التراویح، 1 / 523، حدیث نمبر: 759)

’’حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نماز تراویح پڑھنے کی رغبت دلایا کرتے تھے لیکن حکماً نہیں فرماتے تھے چنانچہ فرماتے کہ جس نے رمضان المبارک میں حصول ثواب کی نیت سے اور حالتِ ایمان کے ساتھ قیام کیا تو اس کے سابقہ (تمام) گناہ بخش دیئے جاتے ہیں۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وصال مبارک تک نمازِ تراویح کی یہی صورت برقرار رہی اور خلافت ابوبکر رضی اللہ عنہ میں اور پھر خلافت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے شروع تک یہی صورت برقرار رہی۔‘‘

4.
عَنْ عَبْدِالرَّحْمَنِ بْنِ عَبْدِالْقَارِيِّ أَنَّهُ قَالَ: خَرَجْتُ مَعَ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ هُرَيْرَةَ رضي اﷲ عنه لَيْلَةً فِي رَمَضَانَ إِلَی الْمَسْجِدِ، فَإِذَا النَّاسُ أَوْزَاعٌ مُتَفَرِّقُوْنَ يُصَلِّي الرَّجُلُ لِنَفْسِهِ، وَ يُصَلِّي الرَّجُلُ فَيُصَلِّي بِصَلَا تِهِ الرَّهْطُ، فَقَالَ عُمَرُ هُرَيْرَةَ رضي اﷲ عنه: إِنِّي أَرَی لَوْ جَمَعْتُ هَؤُلَاءِ عَلَی قَارِيئٍ وَاحِدٍ لَکَانَ أَمْثَلَ، ثُمَّ عَزَمَ فَجَمَعَهُمْ عَلَی أُبَيِّ بْنِ کَعْبٍ، ثُمَّ خَرَجْتُ مَعَهُ لَيْلَةً أُخْرَی وَالنَّاسُ يُصَلُّوْنَ بِصَلاَةِ قَارِئِهِمْ، قَالَ عُمَرُ هُرَيْرَةَ رضي اﷲ عنه: نِعْمَ الْبِدْعَةُ هَذِهِ، وَالَّتِي يَنَامُوْنَ عَنْهَا أَفْضَلُ مِنَ الَّتِي يَقُوْمُوْنَ، يُرِيْدُ آخِرَ اللَّيْلِ، وَکَانَ النَّاسُ يَقُوْمُوْنَ أَوَّلَهُ. رَوَاهُ الْبُخَارِيُّ وَ مَالِکٌ.

(بخاری شریف، کتاب: صلاۃ التراویح، باب: فضل من قام رمضان، 2 / 707، حدیث نمبر: 1906، وموطا امام مالک، کتاب: الصلاۃ فی رمضان، باب: الترغیب في الصلاۃ في رمضان، 1 / 114، حدیث نمبر: 650)

’’حضرت عبدالرحمن بن عبد القاری روایت کرتے ہیں: میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے ساتھ رمضان کی ایک رات مسجد کی طرف نکلا تو لوگ متفرق تھے کوئی تنہا نماز پڑھ رہا تھا اور کسی کی اقتداء میں ایک گروہ نماز پڑھ رہا تھا۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: میرے خیال میں انہیں ایک قاری کے پیچھے جمع کر دوں تو اچھا ہو گا پس آپ رضی اللہ عنہ حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ کے پیچھے سب کو جمع کر دیا، پھر میں ایک اور رات ان کے ساتھ نکلا اور لوگ ایک امام کے پیچھے نماز پڑھ رہے تھے حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے (ان کو دیکھ کر) فرمایا: یہ کتنی اچھی بدعت ہے، اور جو لوگ اس نماز (تراویح) سے سو رہے ہیں وہ نماز ادا کرنے والوں سے زیادہ بہتر ہیں اور اس سے ان کی مراد وہ لوگ تھے (جو رات کو جلدی سو کر) رات کے پچھلے پہر میں نماز ادا کرتے تھے اور تراویح ادا کرنے والے لوگ رات کے پہلے پہر میں نماز ادا کرتے تھے۔‘‘

5.
عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَوْفٍص، عَنْ رَسُولِ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم أَنَّهُ ذَکَرَ شَهْرَ رَمضَانَ فَفَضَّلَهُ عَلَی الشُّهُورِ، وَ قَالَ: مَنْ قَامَ رًَمَضَانَ إِيمَانًا واحْتِسَاباً خَرَجَ مِنْ ذُنُوبِهِ کَيَوْمِ وَلَدَتْهُ أُمُّهُ. رَوَاهُ النَّسَائِيُّ.

(سنن نسائی، کتاب: الصیام، باب: ذکر اختلاف یحیی بن ابی کثیر والنضر بن شیبان فیہ، 4 / 158، حدیث نمبر: 2208۔2210)

وَ فِي رِوَايَةٍ لَهُ قَالَ رَسُولُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم : إِنَّ اﷲَ تَبَارَکَ وَ تَعَالَی فَرَضَ صِيَامَ رَمَضَانَ عَلَيْکُمْ، وَ سَنَنْتُ لَکُمْ قِيَامَهُ، فَمَنْ صَامَهُ وَقَامَهُ إِيْمَاناً وَاحْتِسَاباً خَرَجَ مِنْ ذُنُوبِهِ کَيَوْمِ وَلَدَتْهُ أُمُّهُ. رَوَاهُ النَّسَائِيُّ وَابْنُ مَاجَةَ.(سنن ابن ماجہ، کتاب: اقامۃ الصلاۃ و السنۃ فیھا، باب: ماجاء فی قیام شھر رمضان، 1 / 421، حدیث نمبر: 1328)

’’حضرت عبد الرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے رمضان المبارک کا ذکر فرمایا تو سب مہینوں پر اسے فضیلت دی۔ بعد ازاں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: جو شخص ایمان اور حصول ثواب کی نیت کے ساتھ رمضان کی راتوں میں قیام کرتا ہے تو وہ گناہوں سے یوں پاک صاف ہو جاتا ہے جیسے وہ اس دن تھا جب اسے اس کی ماں نے جنم دیا تھا۔‘‘

’’اور ایک روایت میں ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: بے شک اللہ تعالیٰ نے رمضان کے روزے فرض کیے ہیں اور میں نے تمہارے لئے اس کے قیام (نماز تراویح) کو سنت قرار دیا ہے لہٰذا جو شخص ایمان اور حصول ثواب کی نیت کے ساتھ ماہ رمضان کے دنوں میں روزہ رکھتا اور راتوں میں قیام کرتا ہے وہ گناہوں سے یوں پاک صاف ہو جاتا ہے جیسے وہ اس دن تھا جب اسے اس کی ماں نے جنم دیا تھا.‘‘

6.
عَنْ يَزِيْدَ بْنِ رُوْمَانَ، أَنَّهُ قَالَ: کَانَ النَّاسُ يَقُومُونَ فِي زَمَانِ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ رضي اﷲ عنه فِي رَمَضَانَ، بِثَلَاثٍ وَ عِشْرِيْنَ رَکْعَةً.
رَوَاهُ مَالِکٌ

(موطا امام مالک، کتاب: الصلاۃ في رمضان، باب: الترغیب في الصلاۃ في رمضان، 1 / 115، حدیث نمبر: 252،

’’حضرت یزید بن رومان نے بیان کیا کہ حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے دور میں لوگ (بشمول وتر) 23 رکعت پڑھتے تھے۔

7.
عَنْ مَالِکٍ، عَنْ دَاوُدَ بْنِ الْحُصَيْنِ، أَنَّهُ سَمِعَ الْأَعْرَجَ يَقُولُ: مَا أَدْرَکْتُ النَّاسَ إِلَّا وَهُمْ يَلْعَنُونَ الْکَفَرَةَ فِي رَمَضَانَ، قَالَ: وَ کَانَ الْقَارِيئُ يَقْرَأُ سُوْرَةَ الْبَقَرَةِ فِي ثَمَانِ رَکَعَاتٍ، فَإِذَا قَامَ بِهَا فِي اثْنَتَي عَشْرَةَ رَکْعَةً، رَأَی النَّاسُ أَنَّهُ قَدْ خَفَّفَ.
وقال الإمام ولي اﷲ الدهلوي:
هو مذهب الشافعيه والحنفيه، و عشرون رکعة تراويح و ثلاث وتر عند الفريقين هکذا قال المحلِّي عن البيهقي.

(موطا امام مالک، کتاب: الصلاۃ في رمضان، باب: ماجاء في قیام رمضان، 1 / 115، حدیث نمبر: 753، المسوی من احادیث الموطا لولي اﷲ الدھلوي، 1 / 175)

’’حضرت مالک نے داود بن حصین سے روایت کیا، انہوں نے حضرت اعرج کو فرماتے ہوئے سنا کہ میں نے لوگوں کو اس حال میں پایا کہ وہ رمضان میں کافروں پر لعنت کیا کرتے تھے انہوں نے فرمایا (نمازِ تراویح میں) قاری سورہ بقرہ کو آٹھ رکعتوں میں پڑھتا اور جب باقی بارہ رکعتیں پڑھی جاتیں تو لوگ دیکھتے کہ امام انہیں ہلکی (مختصر) کر دیتا۔‘‘

’’حضرت شاہ ولی اللہ دہلوی نے (اس حدیث کی شرح میں) بیان کیا کہ بیس رکعت تراویح اور تین وتر شوافع اور احناف کا مذہب ہے۔ اسی طرح محلّی نے امام بیہقی سے بیان کیا۔‘‘

8.
عَنْ عُرْوَةَ رضي اﷲ عنه: أَنَّ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ رضی الله عنه جَمَعَ النَّاسَ عَلَی قِيَامِ شَهْرِ رَمَضَانَ الرِّجَالَ عَلَی أُبَيِّ بْنِ کَعْبٍ وَالنِّسَاءَ عَلَی سُلَيْمَانَ بْنِ أَبِي حَثْمَةَ. رَوَاهُ الْبَيْهَقِيُّ.

(السنن الکبری للبیہقي، 2 / 493، حدیث نمبر: 4380)

’’حضرت عروہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے لوگوں کو ماہ رمضان میں تراویح کے لئے اکٹھا کیا۔ مردوں کو حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ اور عورتوں کو حضرت سلیمان بن حثمہ رضی اللہ عنہ تراویح پڑھاتے۔‘‘

9.
و قال الإمام أبوعيسی الترمذي في سننه: وَ أَکْثَرُ أَهْلِ الْعِلْمِ عَلَی مَا رُوِيَ عَنْ عُمَرَ، وَ عَلِيٍّ رضي اﷲ عنهما وَ غَيْرِهِمَا مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صلی الله عليه وآله وسلم عِشْرِيْنَ رَکْعَةً، وَ هُوَ قَولُ الثَّورِيِّ، وَابْنِ الْمُبَارَکِ، وَالشَّافِعِيِّ. وَ قَالَ الشَّافِعِيُّ: وَ هَکَذَا أَدْرَکْتُ بِبَلَدِنَا بِمَکَّةَ يُصَلُّونَ عِشْرِيْنَ رَکْعَةً.
(ترمذي شریف، کتاب: الصوم عن رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ، باب: ماجاء في قیام شہر رمضان، 3 / 169، الرقم: 806)

’’امام ابو عیسیٰ ترمذی رضی اللہ عنہ نے اپنی سنن میں فرمایا: اکثر اہل علم کا مذہب بیس رکعت تراویح ہے جو کہ حضرت علی حضرت عمر رضی اﷲ عنہما اور حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دیگر اصحاب سے مروی ہے اور یہی (کبار تابعین) سفیان ثوری، عبداللہ بن مبارک اور امام شافعی رحمہ اﷲ علیہم کا قول ہے اور امام شافعی نے فرمایا: میں نے اپنے شہر مکہ میں (اہل علم کو) بیس رکعت تراویح پڑھتے پایا۔‘‘

10.
عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رضي اﷲ عنهما قَالَ: أَنَّ النَّبِيَّ صلی الله عليه وآله وسلم کَانَ يُصَلِّي فِي رَمَضَانَ عِشْرِيْنَ رَکْعَةً سِوَی الْوِتْرَ.

رَوَاهُ ابْنُ أَبِي شَيْبَةَ وَالْبَيْهَقِيُّ وَالطَّبَرَانِيُّ وَاللَّفْظُ لَهُ وَ ابْنُ حُمَيْدٍ.

(مصنف ابن ابي شیبہ، 2 / 164، حدیث نمبر: 7692، المعجم الکبیرللطبرانی، 11 / 393، حدیث نمبر: 12102، السنن الکبری للبیھقی، 2 / 496، حدیث نمبر: 4391)

’’حضرت ابن عباس رضي اﷲ عنہما سے مروی ہے فرمایا کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم رمضان المبارک میں وتر کے علاوہ بیس رکعت تراویح پڑھا کرتے تھے۔‘‘

11.
عَنِ السَّائِبِ بْنِ يَزِيْدَ قَالَ: کُنَّا نَنْصَرِفُ مِنَ الْقِيَامِ عَلَی عَهْدِ عُمَرَ رضي اﷲ عنه وَ قَدْ دَنَا فُرُوعُ الْفَجْرِ وَ کَانَ الْقِيَامُ عَلَی عَهْدِ عُمَرَ رضي اﷲ عنه ثَلَاثَةً وَ عِشْرِيْنَ رَکْعَةً. رَوَاهُ عَبْدُ الرَّزَّاقِ.

(مصنف عبد الرزاق ، 4 / 261، حدیث نمبر: 7733)

’’حضرت سائب بن یزید نے بیان کیا کہ ہم حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے زمانہ میں فجر کے قریب تراویح سے فارغ ہوتے تھے اور ہم (بشمول وتر) تئیس رکعات پڑھتے تھے۔‘‘

12.
عَنِ السَّائِبِ بْنِ يَزِيْدَ قَالَ: کَانُوا يَقُومُوْنَ عَلَی عَهْدِ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِص فِي شَهْرِ رَمَضَانَ بِعِشْرِيْنَ رَکْعَةً، قَالَ: وَکَانُوْا يَقْرَأُوْنَ بِالْمِئَيْنِ وَ کَانُوا يَتَوَکَّؤُنَ عَلَی عَصِيِّهِمْ فِي عَهْدِ عُثْمَانَ بْنِ عَفَّانَ رضي اﷲ عنه مِنْ شِدَّةِ الْقِيَامِ.

(السنن الکبری للبیہقي ، 2 / 496، حدیث نمبر: 4393)

’’حضرت سائب بن یزید سے مروی ہے انہوں نے بیان کیا کہ حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے عہد میں صحابہ کرام رضوان اللہ اجمعین ماہ رمضان میں بیس رکعت تراویح پڑھتے تھے اور ان میں سو آیات والی سورتیں پڑھتے تھے اور حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے عہد میں شدت قیام کی وجہ سے وہ اپنی لاٹھیوں سے ٹیک لگاتے تھے۔‘‘

13.
عَنْ أَبِي الْخَصِيْبِ، قَالَ: کَانَ يُؤَمُّنَا سُوَيْدُ بْنُ غَفْلَةَ فِي رَمَضَانَ فَيُصَلِّي خَمْسَ تَرْوِيْحَاتٍ عِشْرِيْنَ رَکْعَةً.

(السنن الکبری للبیہقي، 2 / 446، حدیث نمبر: 4395)

’’ابو خصیب نے بیان کیا کہ ہمیں حضرت سوید بن غفلہ ماہ رمضان میں نماز تراویح پانچ ترویحوں (بیس رکعت میں) پڑھاتے تھے۔‘‘

14.
عَنْ شُتَيْرِ بْنِ شَکَلٍ وَ کَانَ مِنْ اَصحاب علي رضي اﷲ عنه: أَنَّهُ کَانَ يُؤُمُّهُمْ فِي شَهْرِ رَمَضَانَ بِعِشْرِيْنَ رَکْعَةً وَ يُوْتِرُ بِثَ.لَاثٍ.

(مصنف ابن ابي شیبۃ، 2 / 163، حدیث نمبر: 7680، السنن الکبری للبیھقی، 2 / 496، حدیث نمبر: 4395)

’’حضرت شُتیر بن شکل سے روایت ہے اور وہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے اصحاب میں سے تھے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ رمضان میں بیس رکعت تراویح اور تین وتر پڑھاتے تھے۔‘‘

15.
عَنْ أَبِي عَبْدِ الرَّحْمَنِ السُّلَمِيِّ، عَنْ عَلِيٍّ رضي اﷲ عنه قَالَ: دَعَا الْقُرَّاءَ فِي رَمَضَانَ فَأَمَرَ مِنْهُمْ رَجُلًا يُصَلِّي بِالنَّاسِ عِشْرِيْنَ رَکْعَةً، قَالَ: وَ کَانَ عَلِيٌّص يُوْتِرُ بِهِمْ. وَ رَوَی ذَلِکَ مِنْ وَجْهٍ آخَرَ عَنْ عَلِيٍّص.
رَوَاهُ الْبَيْهَقِيُّ.
(السنن الکبری للبیھقی، 2 / 496، حدیث نمبر: 4396)

’’حضرت ابو عبدالرحمن سلمی سے مروی ہے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے رمضان المبارک میں قاریوں کو بلایا اور ان میں سے ایک شخص کو بیس رکعت تراویح پڑھانے کا حکم دیا اور خود حضرت علی رضی اللہ عنہ انہیں وتر پڑھاتے تھے۔‘‘

16.
عَنْ أَبِي الْحَسَنَاءِ أَنَّ عَلِيَّ بْنَ أَبِي طَالِبٍ رضي اﷲ عنه أَمَرَ رَجُلًا أَنْ يُصَلِّيَ بِالنَّاسِ خَمْسَ تَرْوِيْحَاتٍ عِشْرِيْنَ رَکْعَةً.

(مصنف ابن ابي شیبۃ، 2 / 163، حدیث نمبر: 7681 السنن الکبری للبیھقی، 2 / 497، حدیث نمبر: 4397)

’’حضرت ابو الحسناء بیان کرتے ہیں کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے ایک شخص کو رمضان میں پانچ ترویحوں میں بیس رکعت تراویح پڑھانے کا حکم دیا۔‘‘

17.
وَ فِي رِوَايَةٍ: أَنَّ عَلِيًّا رضي اﷲ عنه کَانَ يُؤُمُّهُمْ بِعِشْرِيْنَ رَکْعَةً وَ يُوْتِرُ بِثَلَاثٍ.
رَوَاهُ ابْنُ الإِسْمَاعِيْلِ الصَّنْعَانِيُّ وَ قَالَ: فِيْهِ قُوَّةٌ.
(سبل السلام للصنعاني ، 2 / 10)

’’ایک روایت میں ہے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ انہیں بیس رکعت تراویح اور تین وتر پڑھایا کرتے تھے۔‘‘

18.
عَنْ عَلِيٍّ رضي اﷲ عنه أَنَّهُ أَمَرَ رَجُلًا يُصَلِّي بِهِمْ فِي رَمَضَانَ عِشْرِيْنَ رَکْعَةً وَ هَذَا أَيْضًا سِوَی الْوِتْرَ.
رَوَاهُ ابْنُ عَبْدِالْبَرِّ.

(التمھید لابن عبدالبر، 8 / 115)

’’حضرت علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ انہوں نے ایک شخص کو حکم دیا کہ وہ رمضان المبارک میں مسلمانوں کو بیس رکعت تراویح پڑھائے اور یہ رکعات وتر کے علاوہ تھیں۔‘‘

19.
عَنْ يَحْيیَ بْنِ سَعِيْدٍ: أَنَّ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ رضي اﷲ عنه أَمَرَ رَجُلًا يُصَلِّيَ بِهِمْ عِشْرِيْنَ رَکْعَةً.
رَوَاهُ ابْنُ أَبِي شَيْبَةَ. إِسْنَادُهُ مُرْسَلٌ قَوِيٌ.

(مصنف ابن ابي شیبۃ، 2 / 163، حدیث نمبر: 7682)

’’حضرت یحییٰ بن سعید بیان کرتے ہیں کہ حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے ایک شخص کو حکم دیا کہ وہ انہیں (مسلمانوں کو) بیس رکعت تراویح پڑھائے۔‘‘

20.
عَنْ نَافِعِ بْنِ عُمَرَ قَالَ: کَانَ ابْنُ أَبِي مُلَيْکَةَ يُصَلِّي بِنَا فِي رَمَضَانَ عِشْرِيْنَ رَکْعَةً. رَوَاهُ ابْنُ أَبِي شَيْبَةَ. إِسْنَادُهُ صَحِيْحٌ.

(مصنف ابن ابي شیبۃ، 2 / 163، حدیث نمبر: 7683)

’’حضرت نافع بن عمر نے بیان کیا کہ ابن ابی ملیکہ ہمیں رمضان المبارک میں بیس رکعت تراویح پڑھایا کرتے تھے۔‘‘

21.
عَنْ عَبْدِالْعَزِيْزِ بْنِ رَفِيْعٍ قَالَ: کَانَ أُبَيُّ بْنُ کَعْبٍ يُصَلِّي بِالنَّاسِ فِي رَمَضَانَ بِالْمَدِيْنَةِ عِشْرِيْنَ رَکْعَةً وَ يُوْتِرُ بِثَلَاثٍ.

(مصنف ابن ابي شیبۃ، 2 / 163، حدیث نمبر: 7684)

’’حضرت عبدالعزیز بن رفیع نے بیان کیا کہ حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ مدینہ منورہ میں لوگوں کو رمضان المبارک میں بیس رکعت تراویح اور تین رکعت وتر پڑھاتے تھے۔‘‘

22.
عَنِ الْحَارِثِ أَنَّهُ کَانَ يَؤُمُّ النَّاسَ فِي رَمَضَانَ بِاللَّيْلِ بِعِشْرِيْنَ رَکْعَةً وَ يُوتِرُ بِثَلَاثٍ وَ يَقْنُتُ قَبْلَ الرُّکُوعِ. رَوَاهُ ابْنُ أَبِي شَيْبَةَ.

(مصنف ابن ابي شیبۃ، 2 / 163، حدیث نمبر: 7685)

’’حضرت حارث سے مروی ہے کہ وہ لوگوں کو رمضان المبارک کی راتوں میں (نماز تراویح) میں بیس رکعتیں اور تین وتر پڑھایا کرتے تھے اور رکوع سے پہلے دعا قنوت پڑھتے تھے۔‘‘

23.
عَنْ أَبِي الْبُخْتَرِيِّ أَنَّهُ کَانَ يُصَلِّي خَمْسَ تَرْوِيْحَاتٍ فِي رَمَضَانَ وَ يُوتِرُ بِثَلَاثٍ. رَوَاهُ ابْنُ أَبِي شَيْبَةَ. إِسْنَادُهُ صَحِيْحٌ.

(مصنف ابن ابي شیبۃ، 2 / 163، حدیث نمبر: 7686)

’’حضرت ابوالبختری سے روایت ہے کہ وہ رمضان المبارک میں پانچ ترویح (یعنی بیس رکعتیں) اور تین وتر پڑھا کرتے تھے۔‘‘

24.
عَنْ عَطَاءٍ قَالَ: أَدْرَکْتُ النَّاسَ وَهُمْ يُصَلُّونَ ثَلَاثًا وَ عِشْرِيْنَ رَکْعَةً بِالْوِتْرِ. رَوَاهُ ابْنُ أَبِي شَيْبَةَ. إِسْنَادُهُ حَسَنٌ.

(مصنف ابن ابي شیبۃ، 2 / 163، حدیث نمبر: 7688)

’’حضرت عطاء فرماتے ہیں کہ میں نے لوگوں کو دیکھا کہ وہ بشمول وتر 23 رکعت تراویح پڑھتے تھے۔‘‘

25.
عَنْ سَعِيْدِ بْنِ عُبَيْدٍ أَنَّ عَلِيَّ بْنَ رَبِيْعَةَ کَانَ يُصَلِّي بِهِمْ فِي رَمَضَانَ خَمْسَ تَرْوِيْحَاتٍ وَ يُوتِرُ بِثَلَاثٍ.
رَوَاهُ ابْنُ أَبِي شَيْبَةَ. إِسْنَادُهُ صَحِيْحٌ.

(مصنف ابن ابي شیبۃ، 2 / 163، حدیث نمبر: 7690)

’’حضرت سعید بن عبید سے مروی ہے کہ حضرت علی بن ربیعہ انہیں رمضان المبارک میں پانچ ترویح (یعنی بیس رکعت) نماز تراویح اور تین وتر پڑھاتے تھے۔‘‘

26.
عَنِ الْحَسَنِ أَنَّ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ رضي اﷲ عنه جَمَعَ النَّاسَ عَلَی أُبَيِّ بْنِ کَعْبٍ فِي قِيَامِ رَمَضَانَ فَکَانَ يُصَلِّي بِهِمْ عِشْرِيْنَ رَکْعَةً.

(سیر اعلام النبلاء للذھبي، 1 / 400، تلخیص الحبیر للعسقلاني، 2 / 21، حدیث نمبر: 540)

’’حضرت حسن (بصری) رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے لوگوں کو حضرت ابی ابن بن کعب رضی اللہ عنہ کی اقتداء میں قیام رمضان کے لئے اکٹھا کیا تو وہ انہیں بیس رکعت تراویح پڑھاتے تھے۔‘‘

27.
عَنِ الزَّعْفَرَانِيِّ عَنِ الشَّافِعِيِّ قَالَ: رَأَيْتُ النَّاسَ يَقُومُونَ بِالْمَدِيْنَةِ بِتِسْعٍ وَ ثَلَاثِيْنَ وَ بِمَکَّةَ بِثَلَاثٍ وَ عِشْرِيْنَ.
رَوَاهُ الْعَسْقَلَانِيُّ وَالشُّوکَانِيُّ عَنْ مَالِکٍ.
(فتح الباري للعسقلاني، 4 / 253، نیل الاوطار للشوکاني ، 3 / 64)

’’حضرت زعفرانی امام شافعی رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: میں نے لوگوں کو مدینہ منورہ میں انتالیس (39) اور مکہ مکرمہ میں تئیس (23) رکعت (بیس تراویح اور تین وتر) پڑھتے دیکھا۔‘‘

28.
و قال ابن رشد القرطبي: فَاخْتَارَ مَالِکٌ فِي أَحَدِ قَوْلَيْهِ وَ أَبُوحَنِيْفَةَ وَالشَّافِعِيُّ وَ أَحْمَدُ وَ دَاوُدُ الْقِيَامَ بِعِشْرِيْنَ رَکْعَةً سِوَی الْوِتْرِ . . . أَنَّ مَالِکًا رَوَی عَنْ يَزِيْدَ بْنِ رُومَانَ قَالَ: کَانَ النَّاسُ يَقُوْمُونَ فِي زَمَانِ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ رضي اﷲ عنه بِثَلَاثٍ وَ عِشْرِيْنَ رَکْعَةً.
(بدایۃ المجتھد لابن رشد ، 1 / 152)

’’ابن رشد قرطبی نے فرمایا کہ امام مالک رضی اللہ عنہ نے اپنے دو اقوال میں سے ایک میں اور امام ابوحنیفہ، امام شافعی، امام احمد اور امام داود ظاہری رضی اللہ عنہم نے بیس ترایح کا قیام پسند کیا ہے اور تین وتر اس کے علاوہ ہیں . . . اسی طرح امام مالک رضی اللہ عنہ نے یزید بن رومان سے روایت بیان کی فرمایا کہ حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے زمانہ میں لوگ تئیس (23) رکعت (تراویح) کا قیام کیا کرتے تھے۔‘‘

29.
و قال ابن تيمية في ’’الفتاوی‘‘: ثَبَتَ أَنَّ أُبَيَّ بْنَ کَعْبٍ کَانَ يَقُومُ بِالنَّاسِ عِشْرِيْنَ رَکْعَةً فِي رَمَضَانَ وَ يُوتِرُ بِثَلَاثٍ فَرَأَی کَثِيْرًا مِنَ الْعُلَمَاءِ أَنَّ ذَلِکَ هُوَ السُّنَّةُِلأَنَّهُ قَامَ بَيْنَ الْمُهَاجِرِيْنَ وَالْأَنْصَارِ وَلَمْ يُنْکِرْهُ مُنْکِرٌ.
(فتاویٰ ابن تیمیہ، 1 / 191)

’’ابن تیمیۃ نے ’’اپنے فتاویٰ‘‘ میں کہا کہ ثابت ہوا کہ حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ رمضان المبارک میں لوگوں کو بیس رکعت تراویح اور تین وتر پڑھاتے تھے تو اکثر اہل علم نے اسے سنت مانا ہے۔ اس لئے کہ وہ مہاجرین اور انصار (تمام) صحابہ کرام کے درمیان (ان کی موجودگی میں) قیام کرتے (بیس رکعت پڑھاتے) اور ان میں انہیں سے کبھی بھی کسی نے نہیں روکا۔

30.
وَ فِي مَجْمُوْعَةِ الْفَتَاوَی النَّجْدِيَّةِ: أَنَّ الشَّيْخَ عَبْدَ اﷲِ بْنَ مُحَمَّدِ بْنِ عَبْدِالْوَهَّابِ ذَکَرَ فِي جَوَابِهِ عَنْ عَدَدِ التَّرَاوِيْحِ أَنَّ عُمَرَ رضي اﷲ عنه لَمَّا جَمَعَ النَّاسَ عَلَی أُبَيِّ بْنِ کَعْبٍ، کَانَتْ صَلَاتُهُمْ عِشْرِيْنَ رَکْعَةً.
(تصحیح حدیث صلاۃ التراویح عشرین رکعۃ لاسماعیل بن محمد الانصاري، 1 / 35)

مجموعہ الفتاویٰ النجدیہ میں ہے کہ شیخ عبداﷲ بن محمد بن عبدالوہاب نے تعداد رکعات تراویح سے متعلق سوال کے جواب میں بیان کیا کہ جب حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے لوگوں کو حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ کی اقتداء میں نماز تراویح کے لئے جمع کیا تو وہ انہیں بیس رکعت پڑھاتے تھے۔‘‘

Comments

Popular posts from this blog