ایک طوطا ہے ایک کبوتر ہے...
ایک طوطا ہے ایک کبوتر ہے...
ان دنوں یہ شعر بڑٰی تیزی سے گردش کر رہا ہے، جس میں کچھ کٹر وادی لوگوں نے اپنی دنیوی رذالت کا ثبوت فراہم کرتے ہوئے اور اخروی ندامت کا سامان کرنے کے لیے دعوت اسلامی والوں کو سبز عمامہ باندھنے کے سبب "طوطا" اور سنی دعوت اسلامی والوں کو سفید عمامہ باندھنے کی وجہ سے "کبوتر" کہا ہے۔ شعر کا شاعر کون ہے یہ تو پتا نہیں البتہ اتنا ضرور معلوم ہے کہ ملک کا ایک معروف "ثنا خواں" کٹروادی اسٹیجوں پر اسے پڑھ پڑھ کر خوب داد و دہش وصول کرتا ہے۔ اور اس کی تقلید میں مدرسوں کے بچوں نے بھی پڑھنا شروع کر دیا ہے۔
افسوس صد افسوس کی بات تو یہ ہے کہ مدرسوں کے مدرسین اپنی تخریبی ذہیت کا ثبوت پیش کرتے ہوئے اپنے بچوں کو آڈر اور فرمائش کر کر کے اس طرح کے کلام پڑھواتے ہیں۔
گذشتہ دنوں ایک جگہ پروگرام میں خطاب کے لیے جانا تھا وہاں میرے خطاب سے پہلے فرمائش کر کے یہ کلام پڑھوایا گیا۔ ہم نے اپنے خطاب میں اس کا جواب بھی دیا اور ساتھ ہی ہم نے یہ بھی ٹھان لی کہ اپنے خطابات میں سفید و سبز عمامے باندھ کر دعوت اسلامی و سنی دعوت اسلامی کے ساتھ اظہار یک جہتی کا مظاہرہ کرنا ہے اور طوطا کبوتر کر کے تخریب کاری کرنے والوں کی ناپاک کوششوں کو ناکام کرنا ہے۔ اسی سلسلے کی ایک کڑی مذکورہ تصویریں ہیں۔
اللہ پاک ہم سب کو تخریب کاروں کی کارفرمائیوں سے بچائے اور اپنے دین کا مخلص خادم بنائے۔
#ناصرـمنیری
خادم جامعہ منیریہ تغلق آباد، نئی دہلی
رابطہ نمبر: 9654812767
Comments
Post a Comment