مختصر سوانحِ حیات --- والدِ مخدومِ جہاں
حضرت کمال الدین یحیی منیری رَحِمَہٗ اللہ القوی

از قلم: محمد ناصر منیری
منیری فاونڈیشن، دہلی
رابطہ نمبر: +919654812767

سلطان المخدومین، زین الساجدین، برہان العاشقین، زبدة السالکین، تاج العارفین، والدِ مخدومِ جہاں، شہزادہء قطب زماں، نبیرء تاج الفقہا حضرت مخدوم کمال الدین احمد یحییٰ منیری رضی اللہ تعالی عنہ و ارضاہ عنا اپنے وقت کے جلیل القدر، عظیم المرتبت، رفیع الدرجت، فقید المثال اور عدیم النظیر صوفی بزرگ گذرے ہیں۔ آپ کا شمار اپنے وقت کے عظیم صوفیہ میں ہوتا ہے۔ آپ مذہب مہذب اسلام کے مخلص داعی، تصوف و روحانیت کے سچے مبلغ، علوم دینیہ کے اچھے مدرس، اولیا و صوفیہ کے لائق و فائق نقیب اور 'العلماء ورثة الانبیا' کے بہترین مصداق تھے۔ منیر شریف اور اس کے اطراف و اکناف میں آپ نے جو شمع اسلام روشن فرمائی ہے وہ اب تک درخشاں و تاباں ہے۔ دعوت و تبلیغ، تصوف و روحانیت اور رشد و ہدایت کے باب میں آپ کی خدمات کافی اہمیت کی متحمل ہیں۔ ذیل میں آپ کی حیات کے چند گوشوں پر مختصرا روشنی ڈالنے کی کوشش کی گئی ہے۔

ولادتِ باسعادت:
آپ کی ولادت 572ھ مطابق  1174ء کو بیت المقدس کے علاقے "الخلیل" (ہیبرون،  فلسطین) میں ہوئی۔ جو یروشلم سے 30 کلومیٹر جنوب میں واقع ہے اور جو مغربی فلسطین کا سب سے بڑا اور دارالحکومت غزہ کے بعد  پورے فلسطین کا سب سے بڑا شہر ہے۔

اسمِ گرامی :
آپ کا پورا نام حضرت مخدوم کمال الدین احمد یحیی منیری ہے۔

والدِ ماجد:
آپ کے والدِ گرامی حضرت مخدوم عماد الدین اسرائیل منیری بن امام محمد تاج فقیہ ہاشمی ہیں۔

جدِ کریم:
آپ کے دادا جان فاتحِ منیر، تاج الفقہا امام محمد تاج فقیہ ہاشمی مُطَّلَبی  ہیں، جن کا سلسلۂ نسب گیارہویں پشت پہ حضرت عبد اللہ بن زبیر بن عبد المطلب رضی اللہ عنہ سے جا ملتا ہے۔ آپ بشارتِ نبوی کے مطابق ہندستان میں تبلیغ اسلام کی خاطر اپنے وطن عزیز بیت المقدس سے ہجرت کر کے منیر شریف تشریف لائے، اور یہاں کے ظالم راجا "منیر راے" سے جہاد کر کے اسے شکست فاش دی۔ پھر یہاں شمع اسلام روشن فرماکر اپنی اولادوں کو اسلام کی تبلیغ و اشاعت کی خاطر مفتوحہ علاقے سپرد فرماکر اپنے وطن واپس ہو گئے۔

تعلیم و تربیت :
آپ کی ابتدائی تعلیم آپ کے گھر میں ہی  آپ کے  والدین کریمین کے زیر نگرانی ہوئی۔ اعلیٰ تعلیم مصنف ہدایہ علامہ برہان الدین مرغینانی رحمہ اللہ کے برادرِ محترم علامہ رکن الدین مرغینانی ثم منیری رحمہ اللہ کے زیر نگرانی ہوئی۔ جو آپ کے دادا جان حضور فاتحِ منیر کے قافلے میں لشکر اسلام کے ہم راہ جذبۂ جہاد و تعلیم و تعلم و درس و تدریس لے کر آئے تھے،  مزار مبارک منیر شریف کے قاضی محلہ میں مسجدِ رکن الدین کے سامنے  واقع ہے۔ مزید تعلیم کے لیے آپ نے بغداد شریف کا رخ کیا اور وہاں  حضرت بہاء الدین زکریا ملتانی و حضرت مصلح الدین سعدی شیرازی جیسے جید صوفیہ کے ہم راہ حضرت خواجہ شہاب الدین سہروردی و خواجہ نجم الدین فردوسی جیسے اکابر صوفیہ کے پاس روحانی تعلیم و تربیت حاصل کی۔

بیعت و خلافت :
بیعت و خلافت آپ کو حضرت خواجہ شہاب الدین سہروردی رحمہ اللہ سے حاصل ہے۔ جو حضرت خواجہ  ضیاء الدین ابو نجیب سہروردی رحمہ اللہ کے مرید و خلیفہ اور حضور غوث پاک محی الدین عبد القادر جیلانی رضی اللہ عنہ کے فیض یافتہ و خرقۂ خلافت یافتہ ہیں۔

عقدِ مناکحت:
آپ کا نکاح تارک السلطنت حضرت مخدوم شہاب الدین پیر جگ جوت عظیم آبادی رحمہ اللہ کی دختر نیک اختر  رابعۂ عصر ، ولیہ کاملہ حضرت بی بی رضیہ علیہا الرحمہ سے ہوا۔ جو کاشغر کی سلطنت کو چھوڑ کر  اسلام کی دعوت و تبلیغ، ترویج و اشاعت ، خلقِ خدا کی خدمت اور رشد و ہدایت کی خاطراپنے وطن سے ہجرت کر کے ہندستان تشریف لائے تھے، بیعت و خلافت حضرت خواجہ شہاب الدین سہروردی رحمہ اللہ سے حاصل ہے۔ آپ خود بھی ولیِ کامل تھے اور آپ کی صاحب زادی حضرت بی بی رضیہ بھی ولیہ کاملہ تھیں، جنھوں نے اپنے صاحب زادے حضرت مخدومِ جہاں کو کبھی بھی بغیر وضو  کے دودھ نہیں پلایا۔

اولادِ امجاد:
آپ کی اولاد میں چار صاحب زادے اور ایک صاحب زادی ہیں، جن میں مخدومِ جہاں حضرت شرف الدین احمد یحیی منیری رحمہ اللہ کو بے انتہا مقبولیت اور عالمی شہرت حاصل ہے۔ 

وصالِ پر ملال:
آپ کا وصال 11 شعبان  المعظم 690ھ/1291ء کو منیر شریف (پٹنہ، بہار) میں ہوا اور وہیں بڑی درگاہ میں آپ کا مزارِ مبارک ہے۔ ہر سال 10،11،12 شعبان المعظم کو آپ کا عرس سراپا قدس انتہائی تزک و احتشام اور صوفیانہ طرز و روش پر منعقد کیا جاتا ہے۔

اخیر میں بارگاہ پردگار کائنات میں دست بدعا ہوں کہ مولاے پاک اپنے محبوب پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے طفیل مخدوم پاک کے مرقد منور پر رحمت و انوار کی بارشیں برسائے۔ ہمیں ان کی تعلیمات پر عمل پیرا ہونے اور ان کے نقوش قدم پر چلنے کی توفیق رفیق مرحمت فرمائے اور ان کے صدقے ہماری بے جساب مغفرت فرمائے۔
آمین۔ یارب العالمین۔ بحق طہ و یاسین، صلی اللہ علیہ وآلہ وصحبہ ومن تبعھم اجمین۔

(مصادر و مراجع:  مناقب الاصفیا،  وسیلۂ شرف وذریعۂ دولت،  تاریخ سلسلۂ فردوسیہ، آثار منیر،  مرآت الکونین وغیرہ)

Comments

Popular posts from this blog