مرشد سلطان الہند، خواجہ عثمان ہارونی --- حیات و تعلیمات

تحریر : محمد ناصرؔ منیری
بانی و صدر منیری فاونڈیشن، دہلی
رابطہ نمبر: +919654812767

محمد عربی ﷺ کی  بعثت مقدسہ کے بعد انبیاے کرام علیہم السلام کی آمد کا سلسلہ تو منقطع ہو گیا مگر آپ کے تصدق سے آپ کی امت پر رب کائنات نے یہ انعام فرمایا کہ ہر دور میں اسے اپنے محبوبین اور مقربین سے نوازا۔ یہ مقبولان بارگاہ الٰہی تا قیام قیامت اپنے روحانی فیوض و برکات سے اہل عالم کو متمتع کرتے رہیں گے اور حضور ﷺ کے سر چشمۂ نبوت سے دلوں کی مردہ زمینوں کو سیراب کرتے رہیں گے۔ رسول کریم علیہ الصلاۃ والتسلیم نے انھی بزرگان دین کی شان میں ارشاد فرمایا ہے:
علماء امتی کانبیاء بنی اسرائیل (1)
یعنی: میری امت کے علما (من وجہٍٍ) انبیاے بنی اسرائیل کی مانند ہیں۔
انھی محبوبان دربار الٰہی میں سے ایک رفیع الشان اور عظیم المرتبت شخصیت سلطان العارفین، زبدۃ السالکین، مرشد سلطان الہند، حضر ت خواجہ عثمان ہارونی چشتی قدس سرہ القوی کی ہے۔
ولادت باسعادت:
آپ کی ولادت علاقۂ خراسان  نیشاپور کے قریب موضع "ہارون" میں  526ھ میں ہوئی۔(2)

نام و نسب:
آپ کا اسم گرامی عثمان ہے۔ آپ کے مبارک وطن قصبہ "ہارون" کی طرف نسبت کرتے ہوئے آپ کو ہارونی کہا جاتا ہے۔ آپ کا سلسلۂ نسب گیارہویں پشت میں مولاے کائنات حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم سے ملتا ہے۔(3)
تعلیم و تربیت:
آپ نے ابتدائی تعلیم اپنے والد ماجد سے حاصل کی پھر  اعلیٰ تعلیم کے لیے نیشاپور تشریف لے گئے۔ وہاں مشاہیر علما و فضلا کی سرپرستی میں بے شمار علوم و فنون حاصل کیے۔  آپ کے سوانح نگاروں نے لکھا ہے کہ "آپ کا خاندان چوں کہ  عمدہ تہذیب و تمدن کا گہوارہ  اور علم دوست تھا۔ والد ماجد بھی بڑے پایے کے عالم تھے، اس لیے شعور کی دہلیز پر قدم رکھتے ہی علم کی طرف راغب ہو گئے اور  والد ماجد کی بارگاہ میں رہ کر  ابتدائی تعلیم حاصل کی، قرآن شریف حفظ کیا، پھر اعلیٰ تعلیم کے لیے اس زمانے کے علمی و فنی مرکز نیشاپور کا رخ کیا اور وقت کے مشاہیر علما و فضلا سے اکتساب علم کر کے جملہ علوم مروجہ و متداولہ میں دست رس حاصل کی۔" (4)
بیعت و  خلافت:
حضرت خواجہ شریف زندنی چشتی قدس سرہ القوی سے آپ کو بیعت و خلافت حاصل ہے۔ اس سلسلے میں آپ کے تذکرہ نگار لکھتے ہیں:
  "علوم ظاہری کی تکمیل کے بعد حصول علم باطن کے لیے شیخ طریقت کی تلاش و جستجو میں نکل پڑے اور بہت سارے مقامات کی سیاحت فرماتے ہوئے موضع "زندنہ" نواح بخارا میں وارد ہوئے ، جہاں شہریار ولایت ٖحضرت خواجہ شریف زندنی مسند ارشاد پر متمکن تھے۔ آپ رضی اللہ عنہ حضرت خواجہ شریف زندنی کے ظاہری و باطنی کمالات سے متاثر ہو کر انھیں کے حلقۂ ارادت میں شامل ہو گئے۔ مرید کرنے کے بعد پیر و مرشد نے کچھ نصیحتیں فرمائیں، پھر تین سال کے مجاہدے میں بٹھا دیا۔ آپ گوشہ نشیں ہو کر تین سال تک ذکر لاالٰہ الا اللہ میں مشغول رہے، پھر حضرت پیر و مرشد نے آپ کو  خرقۂ خلافت پہنایا، اسم اعظم کی تعلیم دی، جس سے علم معرفت کے اسرار اور شریعت و طریقت کے رموز آپ پر منکشف ہو گئے۔ " (5)
صاحب سبع سنابل حضرت میر عبد الواحد بلگرامی علیہ الرحمہ نے بیعت و خلافت کا تذکرہ یوں فرمایا ہے، لکھتے ہیں:
"خواجہ عثمان ہارونی کی عمر کافی تھی، آپ نے سفر بھی بہت کیے، جب حضرت خواجہ شریف زندنی کی خدمت میں پہنچے تو عرض کی: بندۂ عثمان کی تمنا ہے کہ حضور والا کے مریدوں میں شمار  کیا جائے۔ خواجہ شریف زندنی نے قبول کیا، خلافت کی کلاہ چار ترکی عنایت کی، قینچی (بالوں پر) چلائی اور فرمایا: مصطفیٰ ﷺ نے کلاہ چار ترکی استعمال فرمائی ہے، تمام کائنات کو خدا کی محبت میں چھوڑ کر  فقر و فاقہ اختیار  فرمایا ہے، فقیروں اور غریبوں سے محبت رکھی ہے، لہذا جو شخص کلاہ چار ترکی سر پر رکھے، اسے چاہیے کہ مصطفیٰ ﷺ کی پیروی کرے اور ہر شخص کو اپنے سے برتر جانے۔ جو شخص تکبر اختیار کرے اور اپنی فوقیت چاہے وہ درویش نہیں، نفس پرست ہے۔ راہ نما نہیں رہ زن ہے۔ مشائخ کے خرقے کے لائق نہیں، چور ہے۔ اہل نعمت نہیں، بے نصیب ہے۔ مشائخ اس سے بے زار ہیں۔ درویشی کا لباس اس پر حرام ہے۔  اسے خرقہ پہنانا جائز نہیں اور نہ کلاہ چار ترکی سر پر رکھنا اور  مرید کرنا۔ خواجہ عثمان ہارونی نے شیخ کی نصیحت قبول کی اور گوشہ نشیں ہو کر ذکر لا الٰہ الا اللہ میں مشغول ہو گئے۔ تین برس کے بعد خواجہ شریف زندنی نے خلافت کی کملی پہنائی اور فرمایا: اے عثمان! تمھیں میں نے پیدا کرنے والے کی بارگاہ میں پیش کیا۔ تمھیں پسند کیا گیا  ہے پھر خواجہ شریف زندنی نے اسم اعظم جسے اپنے مرشد سے حاصل کیا تھا،خواجہ عثمان کو سکھادیا، جس سے علم معرفت کے اسرار اور شریعت و طریقت و حقیقت کے رموز آپ پر منکشف  ہو گئے۔" (6)
عبادت و ریاضت:
خواجہ عثمان ہارنی علیہ الرحمہ صاحب ریاضت و مجاہدہ تھے۔ ستر (70) سال کی مدت تک کسی وقت نفس کو پیٹ بھر کھانا پانی نہ دیا۔ رات کو نہ سوئے، تین چار روز کے بعد روزہ رکھتے، کبھی  کبھی چار پانچ ہی لقمے پر اکتفا کر لیتے۔ حضرت میر عبد الواحد بلگرامی علیہ الرحمہ اس کا تذکرہ یوں فرماتے ہیں:
"خواجہ عثمان ہارونی   نے دس سال تک  خود کو کھانا نہ دیا۔ آپ سات روز کے بعد ایک گھونٹ پانی پیتے، اور عرض کرتے: خدایا! ہمیں نفس کے ظلم سے بچا، نفس مجھ پر غالب آنا چاہتا ہے۔ مجھ سے پانی مانگتا ہے تو میں ایک گھونٹ   منہ بھر دیتا ہوں۔  خواجہ عثمان ہارونی سماع میں بہت روتے کبھی کبھی زرد پڑ جاتے ۔ آنکھوں کا پانی خشک ہو جاتا، جسم مبارک میں خون نہ رہتا۔ ایک زوردار نعرہ لگاتے اور آپ پر وجد طاری ہوجاتا۔"(7)
دوسری جگہ فرماتے ہیں:
"جب خواجہ عثمان ہارونی نماز ادا کر لیتے تو غیب سے آواز آتی کہ ہم نے تمھاری نمازپسند کی۔ مانگو کیا مانگتے ہو؟ خواجہ صاحب عرض کرتے: خدایا!میں تجھے چاہتا ہوں۔  آواز آتی کہ عثمان! میں نے جمال لا زوال تمھارے نصیب کیا، کچھ اور مانگو کیا  مانگتے ہو؟ عرض کرتے : الٰہی! مصطفیٰ ﷺ کی امت سے گناہ گاروں کو بخش دے۔ آواز آتی کہ امت محمد ﷺ کے تیس ہزار(30000) گناہ گار تمھاری وجہ سے بخشے، آپ کو  پانچوں وقت یہ بشارت ملتی۔" (8)
ولایت و کرامت:
حضرت خواجہ عثمان ہارونی ریاضت و مجاہدے میں بے مثل تھے۔ اسی بے مثل مجاہدے کا نتیجہ تھا کہ آپ کی روحانی طاقت اس قدر بڑھی ہوئی تھی کہ نظر کیمیا اثر  جس شخص پر پڑ جاتی تھی وہ چشم زدن میں زر خالص بن جاتا تھا۔ آپ خود بھی تقرب الی اللہ کی منزل پر فائز تھے۔ بلا شبہ اللہ تبارک و تعالیٰ نے آپ کو ولایت کے اعلیٰ منصب پر فائز فرمایا۔ آپ سے بے شمار کرامتوں کا صدور ہوا جن میں سے چند یہاں ذکر کیے جا رہے ہیں:
(1)کافروں کا قبول اسلام:
حضرت میر عبد الواحد بلگرامی تحریر فرماتے ہیں:
"ایک دفعہ خواجہ عثمان ہارونی آدھی رات کے وقت گھر میں تشریف فرما تھے کہ انیاسی (79)  کافروں نے مشورہ کیا کہ آدھی رات کو خواجہ عثمان ہارونی کے پاس چلیں اور کہیں کہ ہم بھوکے ہیں۔ ہر ایک کو نئے طباق میں علاحدہ علاحدہ کھانا دیجیے اور  ہر ایک کو جدا گانہ نوع  کا ۔ اس باہمی مشورے کے بعد جب وہ  آپ کی خدمت میں آئے تو خواجہ صاحب نے فرمایا: اے آدم و حوا کے بیٹو! بیٹھ جاؤ اور ہاتھ دھو لو۔ پھر خود ﷽ پڑھ کر آسمان کی جانب ہاتھ اٹھائے اور  ہر جنس کے مختلف  کھانوں سے بھرے طباق جیسا کہ وہ لوگ سوچ کر آئے تھے غیب سے لیتے اور ان کے سامنے رکھ دیتے۔ وہ لوگ بھی مسلسل نظریں جمائے ہوئے دیکھتے رہے کہ طباق غیب سے آ رہے ہیں۔ خیر جب وہ کھانے سے فارغ ہوئے تو آپ نے فرمایا: خداے تعالیٰ کی نعمت کھا لی؟ اب اس پر ایمان لاؤ۔ انھوں نے کہا: اگر ہم تمھارے خدا و رسول  پر ایمان لے آئیں اور مسلمان ہو جائیں تو کیا خدائے تعالیٰ ہمیں بھی تمھاری طرح کر دے گا؟ فرمایا: میں غریب کس گنتی میں ہوں؟ خدائے تعالیٰ تو اس پر قادر ہے کہ مجھ سے ہزار درجے تمھیں بلند فرمائے۔ وہ سب ایمان لے آئے اور خواجہ صاحب کی مبارک صحبت میں رہ کر ان میں سے ہر ایک اللہ کا ولی ہو گیا، ان کی نظروں میں عرش بریں سے لے کر تحت الثریٰ تک سب منکشف ہو گیا۔ (9)
خواجہ ہارونی اور مسئہ ءسماع:
حضرت عبد الواحد بلگرامی لکھتے ہیں:
اس وقت (خواجہ عثمان ہارونی کے عہد) کا خلیفہ خانوادۂ سہرورد میں مرید تھا اور سماع سے روکتا تھا۔ ایک دربان خواجہ صاحب کی خدمت میں بھیجا اور عرض کی کہ خواجہ جنید نے سماع سے توبہ کر لی ہے، اگر سماع روا ہوتا تو وہ ایسا نہ کرتے، جب کہ وہ سات سال کی عمر میں ہی مقام اجتہاد کو پہنچ چکے تھے۔ جب انھوں نے اس سے توبہ کی ہے تو ہمیں بھی چاہیے کہ توبہ کر لیں اور اس کے قریب بھی نہ جائیں، بلکہ جو شخص اس سے باز نہ آئے اسے پھانسی پر چڑھائیں اور قوالوں کو قتل کر دیں۔
خواجہ ہارونی نے فرمایا: سماع ایک سر ہے ان اسرار میں سے جو بندے اور مولیٰ کے درمیان ہیں۔  اگر ہم اس سے توبہ کر لیں گے تو گناہ گار، نیک کو بد کہنے والے اور اپنے  مشائخ کی پیروی سے باز رہنے والے ہوں گے ۔ لہذا ہم توبہ نہ کریں گے۔ ہم علما کی مجلس میں حاضر ہوں گے اور دیکھیں گے کہ وہ ہمارے سماع کو (دلائل سے) قبول کرتے ہیں یا نہیں؟  خلیفہ نے  پھر دربان بھیجا کہ تشریف لایئے۔ خواجہ صاحب نے استخارہ کیا اور چل کر علما کی مجلس میں تشریف لائے۔ علما نے جوں ہی آپ کا چہرہ مبارک دیکھا ان پر دہشت غالب آگئی، علم فراموش ہو گیا، گویا انھیں حروف تہجی بھی یاد نہ رہے اور ان میں سے ہر ایک خواجہ صاحب کے پیروں پر گر پڑا اور فریاد کی کہ آپ کو سماع مباح ہے کیوں کہ آپ اللہ والوں میں سے ہیں۔ خواجہ صاحب نے فرمایا: جس زمانے میں خواجہ جنید نے سماع سے توبہ کی تھی یہ نہ فرمایا تھا کہ سماع اہل سماع کے لیے بھی حرام ہے۔ اس وقت جب کہ خواجہ ناصر الدین چشت میں تھے فرمایا تھا کہ اگر جنید چشت میں ہوتے یا ناصر الدین بغداد میں ہوتے تو جنید نے سماع سے توبہ نہ کی ہوتی۔ لہذا ہمارے مشائخ نے توبہ  نہ کی اور سب نے سماع سنا۔ حضرت جنید کی توبہ ہم پر حجت نہیں۔ تمام علما نے خواجہ کے پیروں پر اپنا سر  رکھ دیا اور عرض کی: ہم سب آپ کے پسر و غلام ہیں۔ جو راستہ جناب نے اختیا ر فرمایا ہےوہی ہمارا مطلوب ہے۔ خواجہ صاحب نے ان علما پر لطف و کرم کی نگاہ ڈالی تو ان میں سے ہر ایک اللہ کا ولی بن گیا۔ اس پر علم لدنّی کے دروازے کھل گئے اور ہر ایک نے دنیا اور دنیا داروں کو چھوڑ دیا اور گوشہ نشیں ہو گئے۔ خلیفہ نے جب یہ کرامت دیکھی تو کہا: خواجہ سے کہو کہ وہ اپنے مشائخ کی اتباع میں سماع سنیں اور ہم اپنے مشائخ کی پیروی میں اس سے توبہ کرتے ہیں۔ (10)
(2)آتش پرستوں کا قبول اسلام:
صاحب مرآۃ الاسرار حضرت  علامہ عبد الرحمن بن عبد الرسول علیہ الرحمہ تحریر فرماتے ہیں:
ایک مرتبہ خواجہ عثمان ہارونی کا گذر ایسی جگہ سے ہوا جہاں آتش پرست آباد تھے۔ ان کا ایک بہت بڑا آتش کدہ تھا، جس پر انھوں نے گنبد بنا رکھا تھا۔ اس میں شب و روز آگ جلتی رہتی تھی۔ روزانہ بے شمار لکڑیاں جلائی جاتی تھیں اور ہر وقت آتش پرستوں اور مجوسیوں کی بھیڑ لگی رہتی تھی۔ حضرت خواجہ نے وہاں سے دور ایک درخت کے نیچے ندی کے کنارے قیام فرمایا۔ آپ نے اپنے خادم فخر الدین کو حکم دیا کہ افطار کا وقت قریب ہے لہذا افطاری تیار کرو۔ خادم آگ لینے گیا تو آتش پرستوں نے آگ دینے سے انکار کر دیا۔ خادم نے جا کر ماجرا  بیان کیا تو خواجہ صاحب خود آتش کدے کے پاس تشریف لائے، جہاں آتش پرستوں کا سردار اپنے سات سالہ بچے کو گود میں لے کر تخت پر بیٹھا تھا اور اس کے ارد گرد تمام مجوسی بیٹھ کر آگ کی پوجا کر رہے تھے۔ حضرت خواجہ نے مجوسیوں کے سردار سے فرمایا: جو آگ تھوڑے سے پانی سے ختم ہو جاتی ہے اسے پوجنے کا کیا فائدہ؟ اس خالق و مالک کی عبادت کیوں نہیں کرتے جس نے آگ اور ساری چیزوں کو پیدا کیا ہے؟ آگ کو پوجتے ہو جو ایک مخلوق ہے۔ مجوسیوں کے سردار نے جواب دیا: ہمارے مذہب میں آگ کا بڑا درجہ ہے۔ آگ ہمارا معبود ہے، اس لیے ہم اس کی پوجا کرتے ہیں تا کہ مرنے کے بعد ہمیں نہ جلائے۔
خواجہ صاحب نے فرمایا: برسوں سے تم اس کی پوجا کرتے چلے آ رہے ہو۔ ذرا  اس میں ہاتھ ڈال کر دکھاؤ ! یہ تمھیں جلاتی ہے یا چھوڑ دیتی ہے؟ اس نے کہا: جلانا آگ کا  کام ہے۔ کس کی مجال جو اس کے قریب جا سکے؟ یہ سن کر خواجہ صاحب نے اس کی گود سے اس کے سات سالہ بچے کو لیا اور آگ کی طرف بڑھے، پھر

یٰنَارُ کُوۡنِیۡ بَرْدًا وَّ سَلٰمًا عَلٰۤی اِبْرٰہِیۡمَ
پڑھ کر  دہکتے ہوئے آتش کدے میں چلے گئے۔ ادھر مجوسیوں میں شور شور و غل مچ گیا۔ کچھ دیر تک خواجہ صاحب نگاہوں سے اوجھل رہے ، پھر آپ آگ سے اس حال  میں نکلے کہ آپ کے اور اس بچے کے کپڑوں پر آگ تو کیا اس کے دھوئیں کا اثر بھی نہ تھا۔ اس دوران ہزاروں آتش پرست جمع ہو گئےتھے۔ یہ کرامت دیکھ کر سب حیران و ششدر رہ گئے۔ انھوں نے بچے سے پوچھا: تو نے آگ کے اندر کیا دیکھا؟ بچے نے کہا: گل و گل زار کے علاوہ کوئی چیز نظر نہیں آئی۔خواجہ صاحب کی یہ کرامت دیکھ کر تمام آتش پرست مجوسیوں نے آپ کے قدموں پر سر رکھ دیا اور سب کے سب مسلمان ہو گئے۔ آپ نے ان کے سردار کا نام عبد اللہ اور بیٹے کا نام ابراہیم رکھا۔ آپ نے دونوں کی تربیت فرمائی۔ یہاں تک کہ دونوں منصب ولایت پر فائز ہوئے اور آتش کدے کی جگہ مسجد تعمیر کی گئی۔ (11)
(4)چالیس سال سے گم شدہ بچہ گھر آیا:
دوسرے مقام  پر علامہ عبد الرحمن  علیہ الرحمہ لکھتے ہیں:
حضرت خواجہ غریب نواز علیہ الرحہ نے فرمایا: ایک دن ایک بوڑھا شخص حیرانی و پریشانی کے عالم میں خواجہ عثمان ہارونی کی خدمت میں حاضر ہوا، عرض کی: میرا لڑکا چالیس سال سے گم ہے۔ اس کی زندگی اور موت کی بھی مجھے خبر نہیں۔ آپ کی خدمت میں اس لیے حاضر ہوا ہوں تا کہ دعا فرمائیں کہ میرا بیٹا مل جائے۔ آپ نے سر جھکا کر مراقبہ کیا۔ تھوڑی دیر کے بعد سر اٹھایا اور حاضرین سے ارشاد فرمایاکہ دعا کرو اس کا بیٹا مل جائے، جب دعا کر چکے تو  آپ نے اس بوڑھے شخص سے فرمایا: تم گھر جاؤ، تمھارا بیٹا گھر پہنچ گیا ہے۔ جب وہ بوڑھا شخص گھر پہنچا تو کسی نے مبارک باد دی کہ تمھارا بیٹا گھر آ گیا ہے۔ جب باپ بیٹے کی ملاقات ہوئی تو دونوں خواجہ عثمان ہارونی کی خدمت میں پہنچے۔ خواجہ صاحب نے لڑکے سے پوچھا: تم اتنے سالوں سے کہاں تھے؟ اس نے کہا: مجھے جنّاتوں نے پکڑ لیا تھا اور وہاں زنجیروں میں جکڑ رکھا تھا۔ میں نے وہاں آپ کی شکل کے ایک بزرگ کو دیکھا کہ وہ آئے اور زنجیروں پر نگاہ ڈالی تو بیڑیاں ٹوٹ کر گر پڑیں اور انھوں نے میرا ہاتھ پکڑ کر فرمایا کہ آنکھیں بند کرو۔ میں نے آنکھیں بند کر لیں اور جب میں نے آنکھیں کھولیں تو دیکھا کہ میں اپنے گھر کے دروازے پر کھڑا ہوں۔ (12)
(5)آنکھیں بند کروا کے دریا پار کرایا:
صاحب سیر الاولیا شیخ مبارک علوی لکھتے ہیں:
حضرت خواجہ غریب نواز علیہ الرحمہ نے فرمایا کہ ایک دفعہ میں  اپنے پیر و مرشد خواجہ عثمان ہارونی کے ساتھ سفر کرتے ہوئے دریاے دجلہ کے کنارے پہنچا۔ وہاں دریا پار کرنے لیے ایک بھی کشتی نہ تھی، شیخ نے فرمایا: آنکھیں بند کرو۔ میں نے آنکھیں بند کیں، پھر تھوڑی دیر کے بعد فرمایا: آنکھیں کھول لو۔ جب میں نے کھولیں تو ہم دونوں دریا کےپار دوسرے ساحل پر کھڑے تھے۔ (13)
ارشادات و تعلیمات:
خواجہ عثمان ہارونی قدس سرہ کے ارشادات و تعلیمات نے رشد و ہدایت کا اہم فریضہ انجام دیا ہے۔ آپ کے ملفوظات کا مجموعہ "انیس الارواح" ہے، جسے آپ کے مرید رشید سلطان الہند خواجہ معین الدین حسن سنجری چشتی اجمیری قدس سرہ القوی نے جمع کیا ہے۔ جب خواجہ ہارونی نے بغداد میں گوشہ نشینی اختیار فرمائی اس وقت خواجہ غریب  نواز آپ کے پاس پہنچے۔ آپ نے فرمایا: چاشت کے وقت آؤ تا کہ میں فقر کی ترغیب دوں، جو میرے بعد میرے مریدوں کے لیے یادگار رہے۔ چناں چہ حکم کے بموجب خواجہ غریب نواز حاضر ہوئے اور جو کچھ آپ کی زبان گوہر فشاں سے سنتے اسے لکھ لیتے۔ ذیل میں آپ کی انھیں تعلیمات کو بیان کیا جا رہا ہے:
(1)ایمان کی حقیقت:
خواجہ غریب نوازعلیہ الرحمہ تحریر فرماتے ہیں کہ پہلی مجلس میں ایمان کا ذکر ہوا۔ آپ نے ارشاد فرمایا: حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ پیغمبر خدا علیہ التحیۃ والثنا ارشاد فرماتے ہیں: ایمان ننگا ہے، اس کا لباس  پرہیز گاری ہے، سرہانہ فقر ہے، دوا علم ہے اور اس بات کی شہادت کہ لاالٰہ الا اللہ محمد رسول اللہ  یہ ایمان ہے۔ (14)
(2)مومن کی علامت:
مومن کے بارے میں گفتگو ہوئی تو آپ نے ارشاد فرمایا: مومن وہ شخص ہے جو ان تین چیزوں کو دوست رکھے:
(1) موت
(2) درویشی
(3) فاتحہ
لہذا جو شخص ان تین چیزوں کو دوست رکھتا ہے فرشتے اسے دوست رکھتے ہیں اور اس کا بدلہ جنت ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ درویشوں کو دوست رکھتا ہے اور مومن خداوند تعالیٰ کا دوست ہوتا ہے۔ (15)
(3)یوم الست اور طبقات انسانی:
روز الست کے متعلق فرماتے ہیں:
خواجہ جنید بغدادی کے عمدہ میں لکھا دیکھا کہ خواجہ یوسف چشتی سے روایت ہے: جس وقت  الست بربکم؟ (کیا میں تمھارا رب نہیں؟) کی آواز آئی تو اس وقت تمام مسلمانوں اور کافروں کی روحیں ایک جگہ تھیں۔ آواز آتے ہی ان کی چار قسمیں ہو گئیں، پہلی قسم کی روحوں نے جب آواز سنی تو اسی وقت سجدے میں گر پڑیں اور دل و زبان سے کہا: بلیٰ (کیوں نہیں) دوسری قسم کی روحوں نے بھی سجدہ کیا اور زبان سے کہا: بلیٰ۔ لیکن دل سے نہیں کہا۔ تیسری قسم کی روحوں نے دل سے کہا اور چوتھی قسم کی روحوں نے نہ دل سے کہا نہ ہی زبان سے۔ خواجہ صاحب نے اس کی تفصیل یوں بیان فرمائی کہ
جنھوں نے  سجدہ کیا اور دل وزبان سے اقرار کیا وہ  انبیا ، اولیا اور مومنین تھے۔
جنھوں نے زبان سے کہا اور دل سے نہ کہا وہ ان مسلمانوں کا گروہ تھا جو پہلے مسلمان ہوئے ہیں پھر مرتد ہو کر دنیا سے جاتے ہیں۔
  تیسری قسم جنھوں نے زبان سے نہ کہا لیکن دل سے کہا وہ ایسے کافر تھے جو پہلے کافر ہوتے ہیں بعد میں مسلمان ہو جاتے ہیں۔
اور چوتھی قسم جنھوں نے نہ دل سے کہا نہ زبان سے وہ ایسے کافر تھے، جو پہلے  ہی کافر ہوتے ہیں اور بعد میں بھی کافر ہو کر دنیا سے جاتے ہیں۔ (16)
(4)محبت الٰہی اور اس کا انعام:
محبت الٰہی کے تعلق سے فرماتے ہیں:
ایک دفعہ میں سیوستان کی طرف سفر میں تھا تو وہاں اک غار کے اندر ایک درویش کو دیکھا جنھیں شیخ سیوستانی کہتے تھے۔ وہ اس قدر بزرگی اور ہیبت رکھتے تھے کہ میں نے آج تک کسی کو نہیں دیکھا۔ وہ عالم تحیر میں مشغول تھے۔ جب میں ان کے پاس گیا تو میں نے سر جھکا لیا۔ انھوں نے کہا : سر اٹھا،  تو میں نے اٹھا لیا۔ فرمایا: اے درویش ! آج تقریباًٍ  ستر (70) سال کا عرصہ گذرا ہے کہ سواے خدا کے کسی اور چیز میں مشغول نہیں ہوا، لیکن تیرے ساتھ جو میں مشغول ہوتا ہوں یہ حکم الٰہی ہے۔ سن! اگر تو محبت کا دعویٰ کرتا ہے تو اس کے سوا کسی اور میں مشغول نہ ہونا۔ کسی سے میل جول نہ کرنا۔ تاکہ تو جلایا نہ جائے کیوں کہ غیرت کی آگ عاشقوں کے ارد گرد رہتی ہے جب عاشق نے معشوق کے سوا کسی چیز کا خیال کیا تو اسی وقت غیرت کی آگ نے اسے جلایا لیکن تجھے یاد رہے کہ محبت کی راہ میں جو درخت ہے اس کی دو شاخیں ہیں:
(1) نرگس وصال
(2) نرگس فراق
جو شخص سب سے فارغ ہو کر دوست میں مشغول ہو وہ دوست کے وصال کی  دولت سے مشرف ہوتا ہے  اور جو اس کے سوا کسی اور سے رغبت کرتا ہے وہ فراق میں مبتلا ہوتا ہے ۔ (17)
پھر فرمایا:  جس روز خواجہ ابراہیم رحمۃ اللہ علیہ نے توبہ کی، آپ کے پاس جتنے بردے (غلام) تھے سب کو آزاد کر دیا اور حج کے لیے روانہ ہو ئے، اور پا پیادہ ہر قدم پر دوگانہ ادا کرتے ہوئے چودہ سال کے عرصے میں خانۂ کعبہ پہنچے تو کیا دیکھتے ہیں کہ کعبہ اپنی جگہ پر نہیں ہے۔ آپ کو حیرت ہوئی۔ آواز آئی کہ اے ابراہیم! صبر کرو کعبہ ایک ضعیفہ کی زیارت کے لیے گیا ہوا ہے۔ ابھی آ جائے گا۔ جوں ہی خواجہ صاحب نے یہ بات سنی آپ پہلے کی بہ نسبت اور زیادہ حیرت زدہ ہوئے اور کہا کہ وہ بڑھیا کون ہے؟ انھیں دیکھنے کے لیے روانہ ہوئے۔ جوں ہی جنگل پہنچے حضرت رابعہ بصری کو دیکھا کہ بیٹھی ہیں اور کعبہ ان کے ارد گرد طواف کر رہا ہے۔ خواجہ ابراہیم کے دل میں غیرت آئی۔ انھوں نے رابعہ بصری کو زور سے آواز دی کہ تو نے یہ شور کیسا بپا کر  رکھا ہے؟ انھوں نے کہا: میں نے یہ شور برپا نہیں کیا بلکہ تو نے کیا ہے ۔ چودہ سال کے بعد خانۂ کعبہ پہنچا ہے اور دیدار نصیب نہیں ہوا ۔ کیوں کہ تیری خواہش خانۂ کعبہ کی زیارت تھی اور میری غرض خانۂ کعبہ کے مالک سے تھی۔(18)
مزید فرماتے ہیں:
ایک دفعہ ایک یہودی راستے میں کھڑا ایک کتّے کو روٹی کا ٹکڑا کھلا رہا تھا۔ اتفاق سے خواجہ حسن بصری رحمۃ اللہ علیہ کا ادھر سے گذر ہوا۔ آپ نے پوچھا: اپنا ہے یا بے گانہ؟ اس نے کہا : مرد بے گانہ ہے ۔ خواجہ صاحب  نے فرمایا: جب یہ حالت ہے تو کیا کرتا ہے؟ کیوں کہ یہ مقبول نہیں ۔ اس نے کہا کہ اگر چہ یہ مقبول نہیں تاہم وہ (خدا) تو دیکھتا ہےکہ میں کیا کر رہا ہوں۔ الغرض ایک مدت کے بعد خواجہ صاحب مکہ معظمہ پہنچے تو پرنالے کے نیچے سے آواز آئی۔ ربی! (اے میرے رب!) پھر غیب سے آواز آئی: لبیک عبدی (اے میرے بندے ! میں حاضر ہوں۔)  خواجہ حسن بصری حیران ہوئے کہ چل کر دیکھوں تو سہی وہ کیسا نیک بخت بندہ ہے۔ جوں ہی آپ وہاں پہنچے کیا دیکھتے ہیں کہ ایک شخص سجدے میں سر رکھ کر ربی(اے میرے رب!) پکارتا ہے۔آپ تھوڑی دیر وہاں ٹھہرے۔ اتنے میں اس شخص نے سر اٹھایا اور خواجہ صاحب سے کہا: کیا تو مجھے پہچانتا ہے؟ خواجہ صاحب نے کہا: نہیں۔ اس نے کہا: میں وہی آدمی  ہوں جسے تو کہتا تھا کہ تیری نیکی مقبول نہیں۔ دیکھا! اس نے قبول کیا اور مجھے بلا لیا۔ (19)
(5) توبہ کی فضیلت:
توبہ کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ قرآن کریم میں حکم الٰہی ہے:
یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا تُوۡبُوۡۤا اِلَی اللہِ تَوْبَۃً نَّصُوۡحًا
اے ایمان والو اللّٰہ کی طرف ایسی توبہ کرو جو آ گے کو نصیحت ہوجائے
آگے خواجہ صاحب نے فرمایا:
میں نے ہدیہ میں لکھا دیکھا ہے کہ مسلمان کے لیے تو بہ کرنا فرض ہے۔ مزید فرماتے ہیں: جب حضرت آدم علیہ السلام دنیا میں  تشریف لائے تو بارگاہ الٰہی میں عرض کی: مولا! تو نے شیطان کو مجھ پر مقرر کیا ہے اور مجھ میں یہ طاقت نہیں کہ اسے روک سکوںمگر تیری توفیق سے۔ تو حکم آیا: جب میں تجھے اور تیری اولاد کو محفوظ رکھوں گا تو وہ   ہرگز   قابو نہ پا سکے گا۔  پھر حضرت آدم نے عرض کی: مولا: اور زیادہ واضح فرما۔ آواز آئی: اے آدم! میں نے توبہ فرض  کر دی ہے۔ جب تک مخلوق اس جہان میں ہے ۔ جب تیرے فرزند توبہ کریں گے تو میں ان کی توبہ قبول کروں گا۔
خواجہ صاحب فرماتے ہیں: مرنے سے پہلے توبہ کر لو بعد میں افسوس کرنے کا کچھ فائدہ نہ ہوگا۔ حدیث پاک میں ہے: رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: اللہ تعالیٰ نے مغرب کی طرف رات کی توبہ کے لیے ایک دروازہ بنایا ہے  جس کی فراخی ستر (70) سال کی راہ  کے برابرہے۔ آگے خواجہ صاحب فرماتے ہیں: توبہ کی دو قسمیں ہیں:
(1) توبۂ نصوح کہ اس کے بعد انسان گناہ کے نزدیک نہ پھٹکے۔
(2) وہ توبہ کہ دن رات توبہ کرےا ور توڑ  ڈالے ایسی توبہ اچھی نہیں۔ (20)
(6)موت کی یاد:
جب موت کو یاد کرنے کے بارے میں گفتگو شروع  ہوئی تو آپ نے فرمایا: حدیث پاک میں ہے: رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: موت کو یادکرنا دن رات کے قیام اور عبادت نافلہ سے بہتر ہے۔ آگے خواجہ صاحب فرماتے ہیں: زاہدوں میں سب سے اچھا زاہد وہ ہے جو موت کو یاد رکھے اور ہمیشہ موت کے شغل میں رہے۔ ایسا زاہد اپنی قبر میں جنت کا سبزہ زار دیکھے گا۔ (21)
(7)علم کی فضیلت:
علم کی فضیلت بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں: جو شخص علم سیکھتا ہے خداے تعالیٰ حکم دیتا ہے کہ اس کا نام اولیا کے آسمان پر لیا جائے۔ دوسری جگہ فرماتے ہیں:علم کی دو قسمیں ہیں:
(1) خاص خدا کے لیے علم حاصل کرنا۔
(2) علم عام۔
جو شخص علم کا ایک کلمہ سنے یہ اس سے بہتر ہے کہ ایک سال  عبادت کرے اور جو شخص ایسی جگہ بیٹھتا ہے جہاں علم کا تذکرہ ہوتا ہے اس کا ثواب غلام آزاد کرنے کے برابر ہوتا ہے اور علم اندھے کے لیے بہشت کا راہ نما ہے۔ اور اللہ جل شانہ علم کو دنیا اور آخرت میں ضائع نہیں کرتا۔ (24)
(8)کسب معاش کی فضیلت:
روزی کمانے اور کام کرنے کے بارے میں آپ نے فرمایا:
ایک دفعہ رسول اللہ ﷺ بیٹھے ہوئے تھے۔ ایک شخص نے اٹھ کر پوچھا: یا رسول اللہ ! (ﷺ) میرے پیشے کے بارے میں آپ کیا فرماتے ہیں؟ حضور نے پوچھا: تمھارا پیشہ کیا ہے؟ اس نے عرض کی: درزی کا کام۔  آپ نے فرمایا: اگر تم سچائی سے یہ کام کرو تو بہت اچھا ہے۔ قیامت کے دن تم حضرت ادریس علیہ السلام کے ساتھ جنت میں جاؤ گے۔ دوسرے آدمی نے اٹھ کر عرض کی: یا رسول اللہ! (ﷺ) میرے پیشے کے بارے میں آپ کیا فرماتے ہیں؟  حضور نے پوچھا: تم کیا کام کرتے ہو؟ اس نے عرض کی: میرا کام تعلیم و تدریس ہے۔ آپ نے فرمایا: تمھارے کام کو اللہ تعالیٰ بہت پسند کرتا ہے۔ اگر تم لوگوں کو وعظ و نصیحت کرو تو قیامت کے دن حضرت خضر علیہ السلام کی طرح تمھیں ثواب ملے گا اور اور اگر تم عدل و انصاف کرو تو  آسمان پر فرشتے تمھارے لیے معافی کے خواست گار ہوں گے۔
پھر عرض کی: یا رسول اللہ !(ﷺ) میرے پیشے کے تعلق سے آپ کی کیا راے ہے؟ حضور نے پوچھا: تمھارا پیشہ کیا ہے؟ اس نے عرض کی: تجارت و سوداگری۔ آپ نے فرمایا: اگر تم سچائی سے کام کرو گے تو جنت میں پیغمبروں کے ہم راہی ہو گے۔ آگے خواجہ ہارونی فرماتے ہیں: روزی کمانے والا خدا کا دوست ہوتا ہے، لیکن اسے چاہیے کہ نماز ہر وقت ادا کرے اور شریعت کی حد سےباہر قدم نہ رکھے، کیوں کہ حدیث پاک میں ہے کہ ایسا روزی کمانے والا خدا کا پیارا اور صدیق ہوتا ہے۔(23)
(9) صدقے کی فضیلت:
صدقہ دینے کے بارے میں آپ نے فرمایا : خواجہ یوسف چشتی کے فتاویٰ میں میں نے لکھا دیکھا ہے کہ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کی بارگاہ میں عرض کی کہ سب سے اچھا عمل کون سا ہے؟ حضور نے فرمایا: صدقہ دینا جہنم کی آگ کے لیے پردہ ہوتا ہے۔ (آگے خواجہ ہارونی فرماتے ہیں:) حضرت عبد اللہ بن مبارک رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ میں نے ستر (70) سال تک اپنے نفس کے ساتھ مجاہدہ کیا۔ میں نے بہت مصیبتیں اٹھائیں، لیکن بارگاہ الٰہی کا دروازہ نہیں کھلا۔ جوں ہی میں نے اپنی طرف خیال کیا اور جو مال میری ملکیت میں تھا سب راہ خدا میں خرچ کیا تو دوست (خدا) میرا ہو گیا۔ اور جو دوست کی ملکیت تھی سب میری ملکیت ہو گئی۔  (خواجہ صاحب فرماتے ہیں:) حضرت ابراہیم بن ادہم رحمۃ اللہ علیہ نے آثار اولیا میں لکھا ہے : ایک درہم صدقہ کرنا ایک سال کی اس عبادت سے بہتر ہے جس میں دن کو روزہ رکھا جائے اور رات کو کھڑے ہو کر عبادت کی جائے۔  (خواجہ صاحب فرماتے ہیں:) جس روز امیر المومنین حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے آٹھ ہزار (8000) دینار راہ خدا میں خرچ کیے اور گدڑی پہن کر بارگاہ رسالت میں حاضر ہوئے تو حضور ﷺ نے پوچھا: اے ابو بکر ! دنیا کے ذخیرے میں سے کچھ باقی رکھا ہے؟  آپ نے عرض کی: یا رسول اللہ ﷺ خدا اور رسول۔ (یعنی خدا اور اس کا رسول کافی ہے۔) جوں ہی حضرت ابو بکر نے یہ کہا ۔ فوراً حضرت جبریل علیہ السلام ہزاروں مقرب فرشتوں کے ساتھ حاضر ہوئے اور بعد سلام عرض کی: یا رسول اللہ ! ﷺ فرمان باری تعالیٰ ہے کہ آج ابو بکر نے ہماری راہ میں اپنا مال خرچ کیا ہے اسے ہمارا سلام ہو۔ اس سے کہو کہ تو نے وہ کام کیا ہے جس میں ہماری رضا تھی اور ہم وہ کام کرتے ہیں جس میں تیری رضا ہے۔
آگے خواجہ ہارنی فرماتے ہیں: آثار اولیا میں میں نے لکھا دیکھا ہے کہ صدقہ نوری ہے اور حوروں کی خوب صورتی کا باعث ہے۔ صدقہ ہزار رکعت (نفل) سے بہتر ہے ۔ خواجہ صاحب فرماتے ہیں: جب قیامت کا دن ہوگا تو صدقہ دینے والوں کا ایک گروہ عرش کے نیچے مقام پائے گا اور جن لوگوں نے موت سے پہلے صدقہ دیا ہے موت کے بعد وہ ان کے لیے گنبد بنے گا۔ فرمایا: صدقہ بہشت کی سیدھی راہ ہے اور جو شخص صدقہ دیتا ہے وہ خدا کی رحمت سے دور نہیں ہوتا۔ خواجہ صاحب فرماتے ہیں: اے درویش! زمین سخی آدمی پر فخر کرتی ہے اور رات دن وہ زمین پر چلتا ہے تو اس کے نامہ ء اعمال  میں نیکیاں لکھی جاتی ہیں۔ (24)
(10)محتاجوں کی حاجت روائی:
حاجت روائی کے بارے میں گفتگو ہوئی تو آپ نے ارشاد فرمایا: اس مومن سے خداے تعالیٰ خوش ہوتا ہے جو مومن کی ضرورت پوری کرتا ہے اور اس کا مقام جنت میں ہوتا ہے ۔ آگے فرمایا: جو شخص مومن کی عزت کرتا ہے اس کی جگہ بہشت میں ہوتی ہے اور خدا تعالیٰ اس کے تمام گناہ بخش دیتا ہے۔ اگر بندہ کسی کی جوتی سیدھی کرے یا مومن کے پاؤں سے کانٹا نکالے تو اللہ تعالیٰ اسے صدیقوں اور شہیدوں میں شمار کرتا ہے۔
آگے فرماتے ہیں: مشائخ طبقات اولیا نے فرمایاہے: اگر بالفرض درودں اور بندگی میں مشغول ہو، کوئی حاجت مند آئے اور اس سے ملنا چاہے تو اسے لازم ہے کہ سب کام چھوڑ کر اس کے کام میں مشغول ہو جائے اور  جس قدر ہوسکے اس میں کوشش کرے  اور ایک حدیث پاک میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: جو شخص اپنے مومن بھائی کی حاجت پوری کرتا ہے خداے تعالیٰ اس کی دنیا و آخرت کی حاجتیں پوری کرتا ہے اور قیامت کے دن وہ جنت میں جائے گا اور حضرت آدم علیہ السلام کا ہم سایہ ہوگا۔ (25)
مزید فرماتے ہیں: جوشخص فقیروں کو کھانا کھلاتا ہے وہ تمام گناہوں سے پاک ہو جاتا ہے۔(26)
دوسری جگہ فرماتے ہیں: جو شخص بھوکے کو کھانا کھلائے اللہ تعالیٰ اس کی ہزاروں حاجتیں پوری فرماتا ہے، جہنم سے آزاد کرتا ہے اور جنت میں اس کے لیے محل تعمیر کرتا ہے۔ پھر فرمایا: جس وقت کوئی آدمی پیاسے کو پانی پلاتا ہے اس گھڑی اس کے تمام گناہ بخش دیے جاتے ہیں۔ گویا وہ ابھی ماں کے شکم سے نکلا ہے اور وہ بغیر حساب  جنت میں جائے گا اور اگر اسی دن موت ہو جائے تو شہید  کی موت مرے گا۔ (27)
پھر فرمایا: تین قسم کے لوگ جنت میں نہیں جائیں گے۔
(1) جھوٹ بولنےوالا درویش
(2) بخیل دولت مند
(3) خیانت کرنے والا تاجر۔
ان تینوں کو سخت عذاب ہوگا۔ تو جب درویش جھوٹا، مال دار بخیل اور سوداگر خائن ہو جائے تو اللہ تعالیٰ دنیا سے برکت اٹھا لیتا ہے۔(28)
(11) نفس کا مجاہدہ:
مجاہدۂ نفس کے متعلق خواجہ عثمان ہارونی فرماتے ہیں:
ایک مرتبہ حضرت با یزید بسطامی رحمۃ اللہ علیہ سے لوگوں نے کہا کہ اپنے مجاہدے کا حال بیان کریں۔آپ نے فرمایا کہ اگر میں اپنے مجاہدے کا حال بیان کر دوں تو تمھیں اس کے سننے کی طاقت نہیں۔ لیکن ہاں! جو میں نے اپنے نفس  کے ساتھ معاملہ کیا ہے اگر وہ سننا چاہتے ہو تو میں سناتا ہوں۔
ایک مرتبہ رات کے وقت میں نے نفس کو نماز کے لیے طلب کیا تو اس نے موافقت نہ کی اور نماز قضا ہو گئی۔ اس کا سبب یہ تھا کہ میں نے مقررہ مقدار سے کچھ زیادہ کھانا کھا لیا تھا۔ جب دن چڑھا تو میں نے یہ ٹھان لی کہ سال بھر میں نفس کو پانی نہیں دوں گا۔
خواجہ ہارونی فرماتے ہیں:
ایک مرتبہ حضرت ابو تراب بخشی کو سفید روٹی اور مرغی کے انڈے کھانے کی خواہش ہوئی کہ اگر آج مل جائیں تو ان سے روزہ افطار کر لوں ۔ اتفاقاً عصر کی نماز کے وقت خواجہ صاحب تازہ وضو کرنے کو باہر نکلے تو ایک لڑکے نے آکر خواجہ صاحب کا دامن پکڑ لیا اور کہا کہ یہ چور ہے، اس دن میرا سامان چوری کر کے لے گیا تھا۔ آج پھر آیا ہے تاکہ کسی اور کا مال چراکر لے جائے۔  یہ شور سن کر لوگ اکٹھے ہوئے۔ لڑکا اور اس کے باپ  مکّے مارنے لگے، خواجہ صاحب نے ان کی گنتی کی تو چھ (6) مکّے لگ چکے تھے۔ اتنے میں ایک شخص آیا۔ اس نے خواجہ صاحب کو پہچان لیا اور کہا: اے لوگو! یہ چور نہیں، یہ تو خواجہ ابو تراب بخشی ہیں۔ لوگوں نے معافی مانگی کہ آپ معاف کر دیں ، ہمیں معلوم نہیں تھا۔ جب وہ آدمی شام کو انھیں اپنے گھر لے گیا اور شام کی نماز کے بعد وہ بیٹھے تو مرغی کے انڈے اور سفید روٹی جو اتفاقاً ان کے گھر میں موجود تھے پیش کیے۔ جب خواجہ صاحب نے دیکھا تو مسکرائے اور فرمایا کہ اٹھا لے ، میں نہیں کھاؤں گا ۔ اس نے پوچھا کیوں؟  آپ نے فرمایا: آج میں نے صرف اس کی خواہش کی تھی تو چھ (6) مکّے کھائے۔ اگر کھا لوں تو پتہ نہیں کون سی مصیبت نازل ہو جائے۔
خواجہ ہارونی فرماتے ہیں: میں نے اپنے پیر خواجہ حاجی رحمۃ اللہ علیہ کے رسالے میں لکھا دیکھا کہ خواجہ یوسف چشتی علیہ الرحمہ چاہتے کہ نماز شروع کریں۔ ہزار دفعہ تکبیر کہہ کر بیٹھ جاتے جب مکمل حضوری حاصل ہوتی تب نماز  شروع کرتے اور جب ایاک نعبد وایاک نستعین پر پہنچتے تو دیر تک ٹھہرے رہتے۔ الغرض ان سے جب اس کا سبب پوچھا گیا تو آپ نے فرمایا: جس وقت مکمل حضوری حاصل ہوتی ہے اس وقت نماز شروع کرتا ہوں کیوں کہ جس نماز میں مشاہدہ نہ ہوا  اس میں کیا نعمت ہو سکتی ہے؟
خواجہ ہارونی فرماتے ہیں:
ایک مرتبہ میں کعبۂ معظمہ کے پاس مجاوروں کے درمیان کچھ عرصے سے گوشہ نشیں رہا۔  ان میں ایک بزرگ تھے جنھیں خواجہ عمر تسفی کہتے تھے۔ ایک دن وہ بزرگ امامت کر رہے تھے کہ حالت عجیب ہو گئی۔ سر مراقبے میں لے گئے اور اہل مجلس سے فرمایا: سر اٹھاؤ  اور دیکھو، میں نے دیکھا، پھر فرمایا: کیا دیکھتے ہو؟ اور  کیاکہتے ہو؟ میں نے کہا: میں دیکھ رہا ہوں کہ پہلے آسمان کے فرشتے رحمت کے تھال ہاتھ میں لیے کھڑے ہیں اور کچھ کہہ رہے ہیں۔ جانتے ہو یہ کیا کہہ رہے ہیں؟ میں نے کہا: یہ کہہ رہے ہیں کہ شیخ صاحب کی بندگی ہماری بندگی کی بہ نسبت بہتر معلوم ہوتی ہے۔ جوں ہی میں نے کہا، انھوں نے سر اٹھایا اور مناجات کی: مولا! جو کچھ تیرے بندے سن رہے ہی اہل مجلس بھی اسے سنیں، فوراً غیبی فرشتے نے آواز دی : اے عزیزو! یہ فرشتے جو لبوں کو ہلا رہے ہیں یہ کہہ رہے ہیں کہ مولا! خواجہ تسفی کے مجاہدے اور علم کی عزت کے صدقے ہمی بخش دے۔ (30)
(12) شراب کی حرمت:
شراب پینے کے بارے میں آپ نے فرمایا:مشارق الانوار میں لکھا ہے کہ امیر المومنین حضرت عمر بن خطاب  رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: اے عمر! یہ (شراب) حلال نہیں، محض حرام اور خراب ہے اور یہ شراب مومنوں کی نہیں۔ آگے خواجہ ہارونی فرماتے ہیں: رسول اللہ ﷺ نے اس شخص پر لعنت فرمائی ہے جو شراب پیے یا بیچے یا اس کی قیمت میں سے کچھ کھائے۔
پھر خواجہ صاحب آنکھوں میں آنسو بھر لائے اور فرمایا: یہ شریعت ہے جو اسے حرام کہتی ہے ورنہ طریقت میں تو ندی کا پانی پینے سے خدا کی عبادت میں سستی ہوتی ہے۔ شراب تو بہت دور کی بات ہے۔ (34)
(13) ایذاے مومن:
مومن کو تکلیف دینے کے بارے میں آپ نے فرمایا: 
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: جس نے کسی مومن کو ستایا اس نے مجھے ناراض کیا ، جس نے مجھے ناراض کیا اس نے اللہ کو ناراض کیا ۔ ہر مومن کے دل میں آٹھ (8) پردے ہوتے ہیں، ہر پردے پر ایک  فرشتہ کھڑا ہوتا ہے۔ جوشخص کسی مومن کو ستاتا ہے وہ ایسا ہی ہے جیسا کہ اس نے اسی (80) فرشتوں کو ناراض کیا۔(32)
(14) لڑکیوں کی پرورش کا انعام:
خواجہ صاحب  فرماتے ہیں:
لڑکیاں خدا کا ہدیہ ہیں لہذا  جو انھیں خوش رکھتا ہے اللہ اور اس کے رسول اس سے خوش ہوتے ہیں۔ جسے اللہ تعالیٰ لڑکیاں عنایت فرماتا ہے اس سے خوش ہوتا ہے لہذا جو شخص لڑکیوں کی پیدائش پر خوشی منائے اس کے لیے یہ خوشی خانۂ کعبہ کی ستر (70) بار زیارت کرنے سے بھی زیادہ فضیلت والی ہے۔ جو والدین اپنی لڑکیوں پر رحم کرتے ہیں اللہ ان پر رحم کرتا ہے۔
آگے خواجہ صاحب فرماتے ہیں:
میں نے آثار اولیا میں لکھا دیکھا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: جس شخص کے یہاں ایک لڑکی ہوگی قیامت کے دن اس کے اور جہنم کے درمیان پانچ سو سال کی راہ کا فاصلہ ہوگا ۔ مزیدخواجہ صاحب  فرماتے ہیں: انبیا و اولیا  لڑکوں کی بہ نسبت لڑکیوں کو زیادہ پیار کیا کرتے تھے۔(33)
(15) حقوق شوہر کی ادائیگی :
اس سلسلے میں  خواجہ عثمان ہارونی فرماتے ہیں: جو عورت اپنے شوہر کی فرماں برداری کرتی ہے وہ حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کے ساتھ جنت میں داخل ہوگی۔
آگے خواجہ صاحب فرماتے ہیں:
جس عورت کو شوہر بستر پر بلائے اور وہ نہ آئے تو اس کی تمام نیکیاں برباد ہو جاتی ہیں۔ اور وہ ایسی رہ جاتی ہے جیسے سانپ کینچلی کو اتار کر رہ جاتا ہے۔ اس کے شوہر کی طرف سے اس کے ذمے اتنی بدیاں ہو جاتی ہیں جتنی کہ جنگل کی ریت۔ اگر وہ عورت مر جائے اور اس کا شوہر راضی نہ ہو تو اس کے لیے جہنم کے ساتوں دورازے کھول دیے جاتے ہیں اور اگر عورت سے شوہر راضی ہو اور عورت وفات پا جائے تو اس کے لیے جنت کے ستر(70) درجات بلند کر دیے جاتے ہیں۔
خواجہ صاحب فرماتے ہیں:
میں نے   تنبیہ میں لکھا دیکھا ہے کہ جو عوت شوہر کے ساتھ ترش روئی سے پیش آئے اور اس کی طرف نہ دیکھے تو اس کے نامہ ءاعمال میں آسمان کے ستاروں کے برابر گناہ لکھے جاتے ہیں۔ اے درویش! اگر اللہ کے سوا کسی کو سجدہ کرنا جائز ہوتا تو رسول اللہ ﷺ فرماتے کہ عورتیں اپنے شوہروں کو سجدہ کریں۔ (34)
وصال پر ملال:
آپ کے آخری  سفر کے متعلق مولانا ڈاکٹر عاصم اعظمی لکھتے ہیں:
حضرت خواجہ عثمان ہارونی نے دعا مانگی تھی کہ آپ کا مدفن مکہ معظمہ ہو۔ چناں چہ آپ اپنی حیات کے آخری دنوں میں مکہ معظمہ میں حاضر ہوئے اور بقیہ عمر   مکہ شریف میں بسر فرمائی اور وہیں 5 شوال المکرم 617ھ/ 1220ء کو وصال فرمایا اور مکہ معظمہ کے قبرستان جنت المعلیٰ میں یا اس کے قریب مدفون ہوئے۔ (35)
ابر رحمت ان کے مرقد پر گہر باری کرے
حشر تک شان کریمی ناز برداری کرے
بارگاہ رب العزت میں دست بدعا ہوں کہ مولاے رحیم اپنے حبیب کریم علیہ الصلاۃ  والتسلیم  کے صدقے حضرت خواجہ کے درجات بلند فرمائے اور ہمیں ان کے نقوش قدم پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین۔ بجاہ النبی الکریم علیہ اکرم الصلاۃ وافضل التسلیم۔
مصادر و مراجع:
(1) مشکاۃ المصابیح، ص: 35 از: علامہ خطیب تبریزی ، مطبوعہ: مجلس برکات جامعہ اشرفیہ مبارک پور، ایڈیشن: 2007ء
(2) سیرت خواجہ غریب نواز، ص: 42، از: مولانا شاہد علی مصباحی، مطبوعہ: مکتبہ فقیہ ملت، دہلی، ایڈیشن: 2012ء ملخصاً۔
(3) مصدر سابق
(4) مصدر سابق، ص: 42،43
(5) مصدر سابق، ص: 43
(6) سبع سنابل شریف، ص: 434، از: میر عبد الواحد بلگرامی، مطبوعہ: رضوی کتاب گھر، دہلی، غیر مورخ۔ ملخصاً
(7) مصدر سابق، ص: 434،433
(8) مصدر سابق، ص: 434، 435
(9) مصدر سابق، ص: 431
(10) مصدر سابق، ص: 432، 433
(11) مرآۃ الاسرار، ص: 559، از: علامہ عبد الرحمن بن عبد الرسول، مطبوعہ: رضوی کتاب گھر، دہلی، غیر مورخ ۔ ملخصاً
(12) مصدر سابق، ص: 558
(13) سیر الاولیا ، ص: 53، از: شیخ محمد مبارک علوی، مطبوعہ: رضوی کتاب گھر، دہلی، غیر مورخ، ملخصاً
(14) انیس الارواح مشمولہ ہشت بہشت، ص: 9، از: خواجگان چشت علیہم الرحمہ، مطبوعہ: ادبی دنیا، دہلی، غیر مورخ۔ ملخصاً
(15) مصدرسابق، ص:41
(16) مصدرسابق، ص:10
(17) مصدرسابق، ص:17
(18) مصدرسابق، ص:16
(19) مصدرسابق، ص:19
(20) مصدرسابق، ص:48
(21) مصدرسابق، ص:44،45
(22) مصدرسابق، ص:4344
(23) مصدرسابق، ص:27
(24) مصدرسابق، ص:18-20
(25) مصدرسابق، ص:42،43
(26) مصدرسابق، ص:46
(27) مصدرسابق، ص:29
(28) مصدرسابق، ص:46
(29) مصدرسابق، ص:21
(30) مصدرسابق، ص: 22،23
(31) مصدر سابق، ص:20،21
(32) مصدر سابق: ص: 21
(33) مصدر سابق، ص:22
(34) مصدر سابق، ص: 29،30
(35) سلطان الہند غریب نواز، ص: 77، از: مولانا ڈاکٹر عاصم اعظمی

Comments

Popular posts from this blog