غزل: کبھی ایسی تو نہ تھی
شاعر: پروفیسر شمس الدین احمد شمسؔ  منیری

ہم سفر دوریِ منزل کبھی ایسی تو نہ تھی
راہ پر خار تھی مشکل کبھی ایسی تو نہ تھی

نہ حرم تک ہے رسائی نہ درِ صومعہ تک
سعیِ آوارۂ منزل کبھی ایسی تو نہ تھی

نہ طلب ہے، نہ تمنا، نہ تپش ہے نہ سکوں
بے دلی سی روِشِ دل کبھی ایسی تو نہ تھی

عافیت کا کوئی سامان نہ پرساں کوئی
بے پناہی سرِ منزل کبھی ایسی تو نہ تھی

باغ باں آپ ہی صیاد بنا ہے شاید
تلخ آوازِ عنادل کبھی ایسی تو نہ تھی

اب گذر ہی نہیں ہے اہل وفا کا اس میں
تنگ اس شوخ کی محفل کبھی ایسی تو نہ تھی

اپنے دریا میں نہ سیلاب نہ گرداب نہ لہر
موج شرمندۂ ساحل کبھی ایسی تو نہ تھی

آج خم ٹھونک کے شر، خیر سے ہے بر سر جنگ
شیطنت مدِّ مقابل کبھی ایسی تو نہ تھی

شاید آباد ہوا اہلِ وفا سے زنداں
دلکش آوازِ سلاسل کبھی ایسی تو نہ تھی

شمسؔ جو تجھ پہ گذر جاتی ہے سَہ لیتا ہے
تیری فطرت متحمل کبھی ایسی تو نہ تھی

(ماخوذ از شعراے منیر اور ان کی شاعری تالیف: ناصرؔ  منیری)

Comments

Popular posts from this blog