زکات کی فضیلت و اہمیت ۔۔۔ قرآن و حدیث کی روشنی میں

تحریر : محمد ناصرؔ منیری
بانی و صدر منیری فاونڈیشن، دہلی
رابطہ نمبر: +919654812767

زکات اسلام کا بنیادی رکن ہے۔ رسولِ پاک ﷺ کا فرمانِ پاک ہے :
''اسلام کی بنیاد پانچ باتوں پر ہے، اس بات کی گواہی دینا کہ اللہ پاک کے سوا کوئی معبود نہیں اور محمد (ﷺ) اس کے رسول ہیں، نماز قائم کرنا، زکات ادا کرنا، حج کرنا اوررمضان کے روزے رکھنا۔''
(بخاری شریف، کتاب الایمان ،باب دعا ء کم ایمانکم ،حدیث نمبر۸،ج۱،ص۱۴)

    زکات کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ قرآنِ حکیم میں نماز اور زکات کا ایک ساتھ 32 مرتبہ ذکر آیا ہے۔
(ردالمحتار،کتاب الزکاۃ، ج۳، ص۲۰۲)
علاوہ ازیں زکات دینے والا خوش نصیب دنیوی واُخری سعادتوں کو اپنے دامن میں سمیٹ لیتا ہے۔ زکات کی فرضیت قرآن و حدیث سے ثابت ہے۔ اللہ پاک قرآنِ حکیم میں ارشاد فرماتا ہے :

وَاَقِیۡمُوا الصَّلٰوۃَ وَاٰتُوا الزَّکٰوۃَ

اور نماز قائم رکھو اور زکات دو۔
(پ ۱،البقرۃ:۴۳)
اس آیت میں نمازو زکات کی فرضیت کا بیان ہے ۔

خُذْ مِنْ اَمْوَالِہِمْ صَدَقَۃً تُطَہِّرُہُمْ وَتُزَکِّیۡہِمۡ بِہَا

اے محبوب! ان کے مال میں سے زکات کی تحصیل کرو جس سے تم انھیں ستھرا اور پاکیزہ کردو۔
(پ۱۱، التوبۃ:۱۰۳)
   اس آیت میں جو صدَقہ وارِد ہوا ہے اس کے معنٰی میں مفسِّرین کے کئی قول ہیں۔
ایک تو یہ کہ
وہ صدَقہ غیر واجِبہ تھا جو بطورِ کَفّارہ کے اِن صاحبوں نے دیا تھا جن کا ذکر اُوپر کی آیت میں ہے۔
دوسرا قول یہ ہے کہ
اس صدَقہ سے مراد وہ زکات ہے جو ان کے ذمّہ واجب تھی، وہ تائب ہوئے اور انہوں نے زکات ادا کرنی چاہی تو اللہ پاک نے اس کے لینے کا حکم دیا ۔ امام ابوبکر رازی جصاص رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے اس قول کو ترجیح دی ہے کہ صدَقہ سے زکات مراد ہے ۔
(خازن و احکام القرآن بحوالہ خزائن العرفان)

    زکات 2 ہجری میں روزوں سے قبل فرض ہوئی ۔
(الدرالمختار،کتاب الزکات،ج۳،ص۲۰۲)
    زکات کا فرض ہونا قرآن سے ثابت ہے ،اس کا اِنکار کرنے والا کافر ہے ۔
(الفتاویٰ الھندیۃ،کتاب الزکات ،الباب الاول،ج۱،ص۷۰ ۱)

احادیثِ فرضیت زکات
فرضیتِ زکات پر بے شمار حدیثیں آئیں ہیں، جن میں سے چند یہاں ذکر کی جا رہی ہیں :
    (1) حضرت عبد اللہ ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روا یت ہے کہ رسول پاک ﷺ نے فرمایا :
''مجھے اللہ پاک نے اس پر مامور کیا ہے کہ مَیں لوگوں سے اس وقت تک جہاد کروں جب تک وہ یہ گواہی نہ دیں کہ اللہ کے سوا کو ئی سچا معبود نہیں اور محمد (ﷺ )خدا کے سچے رسول ہیں، ٹھیک طرح نماز ادا کریں، زکات دیں، پس اگر ایسا کر لیں تو مجھ سے ان کے مال اور جا نیں محفوظ ہو جائیں گے سواے اس سزا کے جو اِسلام نے (کسی حد کے سلسلہ میں)ان پر لازم کر دی ہو ۔''

(صحیح البخاری،کتاب الایمان،باب فان تابواواقامواالصلوۃ،حدیث نمبر ۲۵،ج۱،ص۲۰)

  (2) نبی پاک ﷺ نے حضرت معاذ رضی اللہ عنہ کو جب یمن کی طر ف بھیجا تو فرمایا:
ان کو بتاؤ کہ اللہ پاک نے ان کے مالوں میں زکات فرض کی ہے مال داروں سے لے کر فقرا کو دی جائے ۔''

(سنن الترمذی، کتاب الزکاۃ ،باب ما جاء فی کراھیۃ اخذ خیار المال فی الصدقۃ ،حدیث نمبر۶۲۵،ج۲،ص۱۲۶)

   (3) حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ فرما تے ہیں:
جب رسول پاک ﷺ کا وصالِ ظاہری ہو گیا اور حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ خلیفہ بنے اور کچھ قبا ئل عرب مرتد ہو گئے (کہ زکات کی فرضیت سے انکار کر بیٹھے) تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: آپ لوگوں سے کیسے معاملہ کریں گے جب کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا : ''مَیں لو گوں سے جہاد کرنے پر ما مور ہوں جب تک وہ لَا اِلٰہَ اِلَّا اللہ نہ پڑھیں ۔ جس نے لَا اِلٰہَ اِلَّا اللہ کا اقرار کر لیا اس نے اپنی جان اور اپنا مال مجھ سے محفوظ کر لیا مگر یہ کہ کسی کا حق بنتا ہو اور وہ اللہ پاک کے ذمے ہے۔'' (یعنی یہ لوگ تو لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللہُ کہنے والے ہیں، ان پر کیسے جہاد کیا جائے گا)
    حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے کہا: ''اللہ کی قسم! مَیں اس شخص سے جہاد کروں گا جو نماز اور زکات میں فرق کرے گا (کہ نماز کو فرض مانے اور زکاۃ کی فرضیت سے انکار کرے) اور زکات مال کا حق ہے بخدا اگر انھوں نے (واجب الاداء) ایک رسی بھی روکی جو وہ رسول اللہ ﷺ کے دور میں دیا کرتے تھے تو مَیں ان سے جنگ کروں گا۔'' حضرت عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں :''واﷲ! میں نے دیکھا کہ اﷲ پاک نے صدیق کا سینہ کھول دیا ہے۔ اُس وقت میں نے بھی پہچان لیا کہ وہی حق ہے ۔''

(صحیح البخاری ،کتاب الزکاۃ،باب وجوب الزکوۃ،حدیث نمبر ۱۳۹۹،۱۴۰۰،ج۱،ص۴۷۲،۴۷۳)

اس حدیث سے معلوم ہوا کہ صرف کلمہ گوئی اِسلام کے لیے کافی نہیں، جب تک تمام ضروریاتِ دِین کا اِقرار نہ کرے اورامیر المومنین فاروق اعظم رضی اللہ عنہ کا بحث کرنا اس وجہ سے تھا کہ ان کے علم میں پہلے یہ بات نہ تھی، کہ وہ فرضیت کے منکر ہیں یہ خیال تھا کہ زکات دیتے نہیں اس کی وجہ سے گنہگار ہوئے، کا فر تو نہ ہوئے کہ ان پر جہاد قائم کیا جائے، مگر جب معلوم ہوگیا تو فرماتے ہیں میں نے پہچان لیا کہ وہی حق ہے، جو حضرت صدیق رضی اللہ عنہ نے سمجھا اور کیا۔ ''
(بہارِ شریعت ،ج۱،حصہ ۵،ص ۸۷۰)

زکات ادا کرنے کے فضائل وفوائد

زکات ادا کرنے کی بے شمار فضیلتیں اور بے انتہا فائدے ہیں ذیل میں چند فضائل و فوائد ملاحظہ کریں:

(1)تکمیل ایمان کا ذریعہ

     زکات دینا تکمیل ِ ایمان کا ذریعہ ہے جیسا کہ رسول پاک ﷺ نے ارشاد فرمایا:
'' تمہارے اسلام کا پورا ہونا یہ ہے کہ تم اپنے مالوں کی زکات ادا کرو۔''

(الترغیب والترھیب ،کتاب الصدقات ،باب الترغیب فی اداءِ الزکوٰۃ،حدیث نمبر۱۲، ج۱، ص۳۰۱ )

    ایک مقام پر ارشاد فرمایا:
''جو اللہ اور اس کے رسول پر ایمان رکھتا ہو اسے لازم ہے کہ اپنے مال کی زکات ادا کرے ۔''
(المعجم الکبیر ،حدیث نمبر ۱۳۵۶۱،ج۱۲،ص۳۲۴)

(2)رحمتِ الہٰی کی برسات

    زکات دینے والے پر رحمتِ الہٰی کی برسات ہوتی ہے۔ سورۃُ الاعراف میں ہے :
وَ رَحْمَتِیۡ وَسِعَتْ کُلَّ شَیۡءٍ ؕ فَسَاَکْتُبُہَا لِلَّذِیۡنَ یَتَّقُوۡنَ وَ یُؤْتُوۡنَ الزَّکٰوۃَ
اور میری رحمت ہر چیز کو گھیرے ہے تو عنقریب میں نعمتوں کو ان کے لئے لکھ دوں گا جو ڈرتے اور زکات دیتے ہیں ۔
(پ۹،الاعراف۱۵۶)

(3)تقویٰ وپرہیزگاری کا حصول

     زکات دینے سے تقویٰ حاصل ہوتا ہے ۔قرآنِ پاک میں مُتَّقِیْن کی علامات میں سے ایک علامت یہ بھی بیان کی گئی ہے چناں چہ ارشاد ہوتا ہے :

وَمِمَّا رَزَقْنٰہُمۡ یُنۡفِقُوۡنَ

اورہماری دی ہوئی روزی ميں سے ہماری راہ ميں اٹھائيں۔
(پ۱،البقرۃ:۳)

(4)کام یابی کا راستہ

     زکات دینے والا کام یاب لوگوں کی فہرست میں شامل ہوجاتا ہے۔ جیسا کہ قرآن پاک میں فلاح کو پہنچنے والوں کا ایک کام زکات بھی گنوایا گیا ہے چناں چہ ارشاد ہوتا ہے :

قَدْ اَفْلَحَ الْمُؤْمِنُوۡنَ ۙ﴿۱﴾الَّذِیۡنَ ہُمْ فِیۡ صَلَاتِہِمْ خَاشِعُوۡنَ ۙ﴿۲﴾وَالَّذِیۡنَ ہُمْ عَنِ اللَّغْوِ مُعْرِضُوۡنَ ﴿ۙ۳﴾وَالَّذِیۡنَ ہُمْ لِلزَّکٰوۃِ فٰعِلُوۡنَ ۙ﴿۴﴾

بے شک مراد کو پہنچے ایمان والے جو اپنی نماز میں گڑگڑاتے ہیں اور وہ جو کسی بیہودہ بات کی طرف التفات نہیں کرتے اور وہ کہ زکات دینے کا کام کرتے ہیں۔
(پ ۱۸،المؤمنون ۱تا۴)

(5)نصرتِ الہٰی کا مستحق

اللہ تعالیٰ زکات ادا کرنے والے کی مدد فرماتا ہے۔ چناں چہ ارشاد ہوتا ہے :

وَ لَیَنۡصُرَنَّ اللہُ مَنۡ یَّنۡصُرُہٗ ؕ اِنَّ اللہَ لَقَوِیٌّ عَزِیۡزٌ ﴿۴۰﴾اَلَّذِیۡنَ اِنۡ مَّکَّنّٰہُمْ فِی الْاَرْضِ اَقَامُوا الصَّلٰوۃَ وَ اٰتَوُا الزَّکٰوۃَ وَ اَمَرُوۡا بِالْمَعْرُوۡفِ وَ نَہَوْا عَنِ الْمُنۡکَرِ ؕ وَ لِلہِ عَاقِبَۃُ الْاُمُوۡرِ ﴿۴۱﴾

اور بے شک اللہ ضرور مدد فرمائے گا اس کی جو اس کے دین کی مدد کرے گا بے شک ضرور اللہ قدرت والا غالب ہے، وہ لوگ کہ اگر ہم انہیں زمین میں قابو دیں تو نماز برپا رکھیں اور زکات دیں اور بھلائی کا حکم کریں اور برائی سے روکیں اور اللہ ہی کے لئے سب کاموں کا انجام۔
(پ ۱۷،الحج:۴۰،۴۱)

(6)اچھے لوگوں میں شمارہونے والا

    زکوۃادا کرنا اللہ کے گھروں یعنی مساجد کو آباد کرنے والوں کی صفات میں سے ہے چناں چہ ارشاد پاک ہے :

اِنَّمَا یَعْمُرُ مَسٰجِدَ اللہِ مَنْ اٰمَنَ بِاللہِ وَالْیَوْمِ الۡاٰخِرِ وَاَقَامَ الصَّلٰوۃَ وَاٰتَی الزَّکٰوۃَ وَلَمْ یَخْشَ اِلَّا اللہَ ۟ فَعَسٰۤی اُولٰٓئِکَ اَنۡ یَّکُوۡنُوۡا مِنَ الْمُہۡتَدِیۡنَ ﴿۱۸﴾

اللہ کی مسجدیں وہی آباد کرتے ہیں جو اللہ اور قیامت پر ایمان لاتے اور نماز قائم کرتے ہیں اور زکات دیتے ہیں اور اللہ کے سوا کسی سے نہیں ڈرتے تو قریب ہے کہ یہ لوگ ہدایت والوں میں ہوں۔
(پ۱۰،التوبۃ: ۱۸)

(7)غربا کے دل میں خوشی داخل کرنے کا ثواب

    زکات کی ادائیگی سے غریب لوگوں کی ضرورت پوری ہوجاتی ہے اور ان کے دل میں خوشی داخل ہوتی ہے ۔

(8) بھائی چارے کا بہترین اظہار

    زکات دینے کا عمل اخوتِ اسلامی کی بہترین تعبیر ہے کہ ایک غنی مسلمان اپنے غریب مسلمان بھائی کو زکات دے کر معاشرے میں سر اٹھا کر جینے کا حوصلہ مہیا کرتا ہے۔ نیز غریب مسلمان بھائی کا دل کینہ وحسد کی شکارگاہ بننے سے محفوظ رہتا ہے کیوں کہ وہ جانتا ہے کہ اس کے غنی اسلامی بھائی کے مال میں اس کا بھی حق ہے چناں چہ وہ اپنے بھائی کے جان، مال اور اولاد میں برکت کے لیے دعاگو رہتا ہے، نبی ﷺ نے فرمایا:
''بیشک مؤمن کیلئے مؤمن مثل عمارت کے ہے، بعض بعض کو تقویت پہنچاتا ہے۔''

(صَحِیْحُ الْبُخَارِیْ،کتاب الصلوۃ،باب تشبیک الاصابع...الخ،حدیث نمبر۴۸۱،ج۱،ص۱۸۱)

(9)فرمان ِ مصطفی ﷺ کا مصداق

    زکات مسلمانوں کے درمیان بھائی چارہ مضبوط بنانے میں بہت اہم کردار ادا کرتی ہے جس سے اسلامی معاشرے میں اجتماعیت کو فروغ ملتا ہے اور امدادِ باہمی کی بنیاد پر مسلمان اپنے پیارے آقا مدینے والے مصطفی ﷺ کے اس فرمانِ عظیم کا مصداق بن جاتے ہیں: مسلمانوں کی آپس میں دوستی اوررحمت اور شفقت کی مثال جسم کی طرح ہے، جب جسم کا کوئی عضو بیمار ہو تا ہے تو بخار اور بے خوابی میں سارا جسم اس کا شریک ہو تا ہے۔

(صحیح مسلم ،کتاب البر والصلۃ والآداب،باب تراحم المؤمنین ..الخ،حدیث نمبر۲۵۸۶،ص۱۳۹۶)

(10)مال کا  پاک ہونا

     زکات دینے سے مال پاک ہوجاتا ہے جیسا کہ حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول پاک ﷺ نے فرمایا:
''اپنے مال کی زکات نکال کہ وہ پاک کرنے والی ہے، تجھے پاک کردے گی ۔''
(المسندللامام احمد بن حنبل،مسند انس بن مالک ،حدیث نمبر ۱۲۳۹۷،ج۴،ص۲۷۴)

(۱۱)بُری صفات سے چھٹکارا

    زکات دینے سے لالچ وبخل جیسی بُری صفات سے (اگر دل میں ہوں تو)چھٹکارا پانے میں مدد ملتی ہے اور سخاوت وبخشش کا محبوب وصف مل جاتا ہے ۔

(12)مال میں برکت

     زکات دینے والے کا مال کم نہیں ہوتا بلکہ دنیا وآخرت میں بڑھتا ہے ۔ اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے :

وَ مَاۤ اَنۡفَقْتُمۡ مِّنۡ شَیۡءٍ فَہُوَ یُخْلِفُہٗ ۚ وَ ہُوَ خَیۡرُ الرّٰزِقِیۡنَ ﴿۳۹﴾

اور جو چیز تم اللہ کی راہ میں خرچ کرو وہ اس کے بدلے اور دے گا اور وہ سب سے بہتر رزق دینے والا۔''
(پ۲۲،سبا:۳۹ )

ایک مقام پر ارشاد ہوتا ہے :

مَثَلُ الَّذِیۡنَ یُنۡفِقُوۡنَ اَمْوَالَہُمْ فِیۡ سَبِیۡلِ اللہِ کَمَثَلِ حَبَّۃٍ اَنۡۢبَتَتْ سَبْعَ سَنَابِلَ فِیۡ کُلِّ سُنۡۢبُلَۃٍ مِّائَۃُ حَبَّۃٍ ؕ وَاللہُ یُضٰعِفُ لِمَنۡ یَّشَآءُ ؕ وَاللہُ وَاسِعٌ عَلِیۡمٌ ﴿۲۶۱﴾اَلَّذِیۡنَ یُنۡفِقُوۡنَ اَمْوَالَہُمْ فِیۡ سَبِیۡلِ اللہِ ثُمَّ لَا یُتْبِعُوۡنَ مَاۤ اَنۡفَقُوۡا مَنًّا وَّلَاۤ اَذًی ۙ لَّہُمْ اَجْرُہُمْ عِنۡدَ رَبِّہِمْ ۚ وَلَا خَوْفٌ عَلَیۡہِمْ وَلَا ہُمْ یَحْزَنُوۡنَ ﴿۲۶۲﴾

ان کی کہاوت جو اپنے مال اللہ کی راہ میں خرچ کرتے ہیں اس دانہ کی طرح جس نے اگائیں سات بالیں، ہربال میں سو دانے اور اللہ اس سے بھی زیادہ بڑھائے جس کے لیے چاہے اور اللہ وسعت والا علم والا ہے، وہ جو اپنے مال اللہ کی راہ میں خرچ کرتے ہیں، پھر دیے پیچھے نہ احسان رکھیں نہ تکلیف دیں ان کا نیگ (انعام) ان کے رب کے پاس ہے اور انہیں نہ کچھ اندیشہ ہو نہ کچھ غم۔
(پ۳،البقرۃ:۲۶۱،۲۶۲)

    پس زکات دینے والے کو یہ یقین رکھتے ہوئے خوش دلی سے زکات دینی چاہیے کہ اللہ پاک اس کو بہتر بدلہ عطا فرمائے گا ۔ رسول پاک ﷺ کا فرمان ہے:
''صدقہ سے مال کم نہیں ہوتا ۔''
(المعجم الاوسط ،حدیث نمبر ۲۲۷۰،ج۱،ص۶۱۹)
    اگرچہ ظاہری طور پر مال کم ہوتا لیکن حقیقت میں بڑھ رہا ہوتا ہے جیسے درخت سے خراب ہونے والی شاخوں کو اُتارنے میں بظاہر درخت میں کمی نظر آرہی ہے لیکن یہ اُتارنا اس کی نشوونما کا سبب ہے۔
زکات دینے والے کی زکات ہر سال بڑھتی ہی رَہتی ہے۔ یہ تجرِبہ ہے۔ جو کسان کھیت میں بیج پھینک آتا ہے وہ بظاہِر بوریاں خالی کر لیتا ہے لیکن حقیقت میں مع اضافہ کے بھر لیتا ہے۔ گھر کی بوریاں چوہے، سُرسُری وغیرہ کی آفات سے ہلاک ہو جاتی ہیں یا یہ مطلب ہے کہ جس مال میں سے صَدَقہ نکلتا رہے اُس میں سے خرچ کرتے رہو، اِن شاءَ اللہ بڑھتا ہی رہے گا، کُنویں کا پانی بھرے جاؤ، تو بڑھے ہی جائے گا۔
(مرأۃ المناجیح شرح مشکوٰۃ المصابیح ج ۳ ص ۹۳)

(13) شر سے حفاظت

زکات دینے والا شر سے محفوظ ہوجاتا ہے جیسا کہ رسول پاک ﷺ کا فرمان ہے:
''جس نے اپنے مال کی زکات ادا کردی بے شک اللہ پاک نے اس سے شر کو دور کردیا۔''

(المعجم الاوسط،باب الالف من اسمہ احمد،حدیث نمبر،۱۵۷۹،ج۱،ص۴۳۱)

(14)حفاظتِ مال کا سبب

زکات دینا حفاظتِ مال کا سبب ہے جیسا کہ نبی پاک ﷺ نے فرمایا:'
'اپنے مالوں کو زکات دے کر مضبوط قلعوں میں کر لو اور اپنے بیماروں کا علاج خیرات سے کرو۔''

(مراسیل ابی داؤد مع سن ابی داؤد ،باب فی الصائم یصیب اھلہ،ص۸ )

(15)حاجت روائی

    اللہ پاک زکات دینے والوں کی حاجت روائی فرمائے گا جیسا کہ حضور پاک ﷺ نے فرمایا :
''جو کسی بندے کی حاجت روائی کرے اللہ پاک دین و دنیا میں اس کی حاجت روائی کرے گا۔''

(صحیح مسلم ،کتاب الذکر والدعائ،باب فضل الاجتماع....الخ، حدیث نمبر۲۶۹۹، ص۱۴۴۷)

   ایک اور مقام پر ارشاد فرمایا:
''جو کسی مسلمان کودنیاوی تکلیف سے رہائی دے تو اللہ پاک اس سے قیامت کے دن کی مصیبت دور فرمائے گا ۔''

(جامع الترمذی ،کتاب الحدود،باب ماجاء فی السترعلی المسلم،حدیث نمبر، ج۳، ص۱۱۵)

(16)دُعاؤں کی حصول یابی

    غریبوں کی دعائیں ملتی ہیں جس سے رحمتِ خداوندی اور مدد الہٰی حاصل ہوتی ہے جیسا کہ رسول پاک ﷺ نے ارشاد فرمایا:
''تمھیں اللہ پاک کی مدد اور رزق ضعیفوں کی برکت اور ان کی دعاؤں کے سبب پہنچتا ہے ۔''

(صحیح البخاری،کتاب الجہاد،باب عن استعان بالضعفاء،...الخ، حدیث نمبر،۲۸۹۶، ج۲،ص۲۸۰)

زکات نہ د ینے کے نقصانات

    زکات کی عدم ادائیگی کے متعدد نقصانات ہیں جن میں چند یہ ہیں :
   
(1) ان فوائد سے محرومی جو اسے ادائیگیِ زکات کی صورت میں مل سکتے تھے ۔
   
(2) بخل یعنی کنجوسی جیسی بُری صفت سے(اگر کوئی اس میں گرفتار ہوتو)چھٹکارا نہیں مل پائے گا۔ رسول پاک ﷺ کا فرمانِ پاک ہے :
''سخاوت جنت میں ایک درخت ہے جو سخی ہوا اس نے اس درخت کی شاخ پکڑ لی ،وہ شاخ اسے نہ چھوڑے گی یہاں تک کہ اسے جنت میں داخل کر دے اور بخل آگ میں ایک درخت ہے ،جو بخیل ہوا ،اس نے اس کی شاخ پکڑی ،وہ اسے نہ چھوڑے گی ،یہاں تک کہ آگ میں داخل کر ے گی ۔''

(شعب الایمان ،باب فی الجود ِوالسخاء،حدیث نمبر،۱۰۸۷۷،ج۷،ص۴۳۵)

    (3)مال کی بربادی کا سبب ہے جیسا کہ رسول پاک ﷺ فرماتے ہیں:
''خشکی وتری میں جو مال ضائع ہوا ہے وہ زکات نہ دینے کی وجہ سے تلف ہوا ہے ۔''

(مجمع الزوائد،کتاب الزکوٰۃ،باب فرض الزکوٰۃ،حدیث نمبر۴۳۳۵،ج۳،ص۲۰۰)

ایک مقام پر ارشاد فرمایا:
''زکات کا مال جس میں ملا ہوگا اسے تباہ وبرباد کردے گا ۔''

(شعب الایمان،باب فی الزکوٰۃ،فصل فی الاستعفاف،حدیث نمبر۳۵۲۲،ج۳،ص۲۷۳)

     بعض ائمہ نے اس حدیث کے یہ معنی بیان کیے کہ
زکاۃ واجب ہوئی اور ادا نہ کی اور اپنے مال میں ملائے رہا تو یہ حرام اُس حلال کو ہلاک کر دے گا اور امام احمد رحمہ اللہ نے فرمایا کہ معنی یہ ہیں کہ مال دار شخص مالِ زکاۃ لے تویہ مالِ زکاۃ اس کے مال کو ہلاک کر دے گا کہ زکات تو فقیروں کے لیے ہے اور دونوں معنی صحیح ہیں۔  (بہارشریعت،ج۱،حصہ ۵،ص۸۷۱)

    (4)زکات ادا نہ کرنے والی قوم کو اجتماعی نقصان کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے۔ رسول پاک ﷺ نے فرمایا:
''جوقوم زکات نہ دے گی اللہ پاک اسے قحط میں مبتلاء فرمائے گا ۔'' 
(المعجم الاوسط ،حدیث نمبر۴۵۷۷،ج۳،ص۲۷۵)

    ایک اورمقام پر فرمایا:
''جب لوگ زکات کی ادا ئیگی چھوڑ دیتے ہیں تو اللہ پاک بارش کو روک دیتا ہے اگر زمین پر چوپا ئے مو جود نہ ہو تے تو آسمان سے پا نی کا ایک قطرہ بھی نہ گرتا ۔''

(سنن ابن ماجہ ،کتاب الفتن،باب العقوبات،حدیث نمبر۴۰۱۹،ج۴،ص۳۶۷)

    (5) زکات نہ دینے والے پر لعنت کی گئی ہے جیسا کہ حضرت سیدناعبداللہ ابن مسعود رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں:
''زکات نہ دینے والے پر رسول اللہ ﷺ نے لعنت فرمائی ہے ۔''

(صَحِیْحُ ابْنِ خُزَیْمَۃ،کتاب الزکاۃ،باب جماع ابواب التغلیظ،ذکر لعن لاوی...الخ،حدیث نمبر ۲۲۵۰،ج۴،ص۸)

(6)بروزِقیامت یہی مال وبال جان بن جائے گا۔
سورہ توبہ میں ارشاد ہوتا ہے:

وَالَّذِیۡنَ یَکْنِزُوۡنَ الذَّہَبَ وَالْفِضَّۃَ وَلَا یُنۡفِقُوۡنَہَا فِیۡ سَبِیۡلِ اللہِ ۙ فَبَشِّرْہُمۡ بِعَذَابٍ اَلِیۡمٍ ﴿ۙ۳۴﴾یَّوْمَ یُحْمٰی عَلَیۡہَا فِیۡ نَارِجَہَنَّمَ فَتُکْوٰی بِہَا جِبَاہُہُمْ وَجُنُوۡبُہُمْ وَظُہُوۡرُہُمْ ؕ ہٰذَا مَاکَنَزْتُمْ لِاَنۡفُسِکُمْ فَذُوۡقُوۡا مَاکُنۡتُمْ تَکْنِزُوۡنَ ﴿۳۵﴾

اور وہ کہ جوڑ کر رکھتے ہيں سونا اور چاندی اور اسے اللہ کی راہ ميں خرچ نہيں کرتے انہيں خوش خبری سناؤدرد ناک عذاب کی جس دن وہ تپایا جائے گا جہنم کی آگ ميں پھر اس سے داغيں گے ان کی پیشانياں اورکروٹيں اور پیٹھيں يہ ہے وہ جو تم نے اپنے لئے جوڑ کر رکھا تھا اب چکھو مزا اس جوڑنے کا۔
(پ۱۰،التوبۃ:۳۴،۳۵)
    رسول پاک ﷺ کا فرمان ہے:
''جس کو اللہ تعالیٰ نے مال دیا اور وہ اس کی زکات ادا نہ کرے تو قیامت کے دن وہ مال گنجے سانپ کی صورت میں کر دیا جائے گا جس کے سر پر دو چتیاں ہوں گی (یعنی دو نشان ہوں گے)، وہ سانپ اس کے گلے میں طوق بنا کر ڈال دیا جائے گا ۔پھر اس (یعنی زکات نہ دینے والے) کی باچھیں پکڑے گا اور کہے گا : ''میں تیرا مال ہوں،میں تیرا خزانہ ہوں ۔'' اس کے بعد نبی کریم ﷺ نے اس آیت کی تلاوت فرمائی :
وَلَا یَحْسَبَنَّ الَّذِیۡنَ یَبْخَلُوۡنَ بِمَاۤ اٰتٰىہُمُ اللہُ مِنۡ فَضْلِہٖ ہُوَ خَیۡرًا لَّہُمْ ؕ بَلْ ہُوَ شَرٌّ لَّہُمْ ؕ سَیُطَوَّقُوۡنَ مَا بَخِلُوۡا بِہٖ یَوْمَ الْقِیٰمَۃِ ؕ

اور جو بخل کرتے ہیں اس چیز میں جو اللہ نے انہیں اپنے فضل سے دی ، ہرگز اسے اپنے لئے اچھا نہ سمجھیں بلکہ وہ ان کے لئے برا ہے عنقریب وہ جس میں بخل کیا تھا قیامت کے دن ان کے گلے کا طوق ہوگا۔
(پ۴، اٰل عمران:۱۸۰ )

(صحیح البخاری،کتاب الزکات ، باب اثم مانع الزکوٰۃ،حدیث نمبر۱۴۰۳،ج۱،ص۴۷۴)

    (7) حساب میں سختی کی جائے گی
جیسا کہ رسول پاک ﷺ نے فرمایا:
''فقیر ہر گز ننگے بھوکے ہونے کی تکلیف نہ اٹھائیں گے مگر اغنیاء کے ہاتھوں ، سن لو ایسے مالداروں سے اللہ تعالیٰ سخت حساب لے گا اور انہیں درد ناک عذاب دے گا ۔''

(مجمع الزوائد،کتاب الزکوٰۃ،باب فرض الزکوٰۃ،حدیث نمبر۴۳۲۴،ج۳،ص۱۹۷)

    (8) عذاب ِ جہنم میں مبتلا ہوسکتا ہے
رسول پاک ﷺ نے کچھ لوگ دیکھے جن کے آگے پیچھے غرقی لنگوٹیوں کی طرح کچھ چیتھڑے تھے اور جہنم کے گرم پتھر اور تھوہر اور سخت کڑوی جلتی بدبو دارگھاس چوپایوں کی طرح چرتے پھرتے تھے۔ جبرائیل امین علیہ السلام سے پوچھا یہ کون لوگ ہیں ؟ عرض کی : یہاں پر مالوں کی زکات نہ دینے والے ہیں اور اللہ پاک نے ان پر ظلم نہیں کیا ،اللہ تعالیٰ بندوں پر ظلم نہیں فرماتا ۔

(الزواجر ،کتاب الزکوٰۃ،الکبیرۃ السابعۃ،الثامنۃ والعشرون....الخ،ج۱،ص۳۷۲)

    ایک مقام پر نبی کریم ﷺ نے فرمایا:
زکات نہ دینے والا قیامت کے دن دوزخ میں ہوگا ۔

(مجمع الزوائد ،کتاب الزکوٰۃ،باب فرض الزکوۃ،حدیث نمبر۴۳۳۷،ج۳،ص۲۰۱)

    ایک اور مقام پر فرمایا:
''دوزخ میں سب سے پہلے تین شخص جائیں گے ان میں سے ایک وہ مال دار جو اپنے مال میں اللہ پاک کا حق ادا نہیں کرتا۔''

(صحیح ابن خزیمہ، کتاب الزکوٰۃ،باب لذکر ادخال مانع الزکات النار....الخ ،حدیث نمبر۲۲۴۹،ج۴،ص۸ ملخصاً)

اخیر میں بارگاہ پروردگار میں دست بہ دعا ہوں کہ مولاے پاک اپنے محبوب پاک صاحب لولاک ﷺ کے طفیل ہم میں سے جو صاحب نصاب ہیں انھیں اپنے مال کی زکات نکالنے کی توفیق عطا فرمائے۔ مستحقین تک اسے پہنچانے کی توفیق بخشے۔ اور خصوصاً ہم خادمانِ امت کو زیادہ سے زیادہ خدمات دینیہ و علمیہ کی توفیق خیر مرحمت فرمائے۔
(آمین۔ بجاہ النبی الکریم علیہ اکرم الصلاۃ و افضل التسلیم)

Comments

Popular posts from this blog