نیت کی اہمیت و افضلیت ۔۔۔ قرآن و حدیث کی روشنی میں

تحریر : محمد ناصرؔ منیری
بانی و صدر منیری فاونڈیشن، دہلی
رابطہ نمبر: +919654812767

نیت دل کے ارادے کو کہتے ہیں۔ قران حکیم میں اللہ تبارک و تعالیٰ کا ارشاد گرامی ہے:
وَلَا تَطْرُدِ الَّذِیۡنَ یَدْعُوۡنَ رَبَّہُمۡ بِالْغَدٰوۃِ وَ الْعَشِیِّ یُرِیۡدُوۡنَ وَجْہَہٗ ؕ

اور دور نہ کرو انھیں جو اپنے رب کو پکارتے ہیں صبح و شام اس کی رضا چاہتے۔
(پارہ ۷ 'سورہ انعام 'آیت ۵۲)
یہاں ارادے سے مراد نِیّت ہی ہے جیسا کہ نبی اکرم ﷺ  نے فرمایا:

''اِنَّمَا الْاَعْمَالُ بِالنِّیَّاتِ وَ لِکُلِّ امْرِیءٍ مَا نَوٰی فَمَنْ کَانَتْ ھِجْرَتُہٗ اِلٰی اللہِ وَ رَسُوْلِہٖ فَھِجْرَتُہٗ اِلٰی اللہِ وَرَسُوْلِہٖ وَ مَنْ کَانَتْ ھِجْرَتُہٗ اِلٰی دُنْیَا یُصِیْبُہَا اَوِ امْراَۃٍ یَنْکِحُہَا فَھِجْرَتُہٗ اِلٰی مَا ھَاجَرَ اِلَیْہِ''
''اعمال (کے ثواب) کا دارو مدار نِیّت پر ہے اور ہرشخص کے لیے وہی کچھ ہے جس کی اس نے نِیّت کی پس جس کی ہجرت اللہ اور اس کے رسول ﷺ  کی طرف ہو تو اس کی ہجرت اللہ اور اس کے رسول ﷺ  کی طرف ہوگی اور جس کی ہجرت دنیا کی طرف ہوکہ اسے حاصل کرنا مقصود ہو یا کسی عورت کی طرف کہ اس سے نکاح کرنا چاہے تو وہ جس کی طرف ہجرت کرے گا اس کی ہجرت اسی طرف شمار ہوگی''۔
(صحیح بخاری ج اول ص ۲، کیف کان بدأ الوحی)

ایک اور مقام پر رسول پاک ﷺ  نے ارشا فرمایا:
''اَکْثَرُ شُھَدَاءِ اُمَّتِیْ اَصْحَابُ الْفِرَاشِ وَ رُبَّ قَتِیْلٍ بَیْنَ الصَّفَّیْنِ اللہُ اَعْلَمُ بِنِیّتِہٖ''
''میری امت کے اکثر شہداء بستر پر فوت ہونے والے ہوں گے اور دو فوجوں کے درمیان قتل ہونے والے اکثر لوگوں کی نِیّت اللہ جانتا ہے''۔

اللہ نے نِیّت کو باہم اتفاق کا سبب بھی قرار دیا ہے چناں چہ قرآن مجید فرقان حمید میں فرمان خداے رحمان ہے:
اِنۡ یُّرِیۡدَاۤ اِصْلَاحًا یُّوَفِّقِ اللہُ بَیۡنَہُمَا ؕ
'' یہ دونوں اگر صلح کراناچاہیں گے تو اﷲ  ان میں میل کردے گا''
(پارہ ۴' سورہ نساء' آیت ۳۵)

اسی طرح رسول پاک ﷺ کا فرمان  ہے:
''اِنَّ اللہَ تَعَالیٰ لَا یَنْظُرُ اِلٰی صُوَرِکُمْ وَ اَمْوَالِکُمْ وَ اَنَّمَا یَنْظُرُ اِلٰی قُلُوْبِکُمْ''
''بے شک اللہ  تمھاری صورتوں اور تمہارے مالوں کو نہیں دیکھتا بلکہ وہ تمھارے دلوں اور اعمال کو دیکھتا ہے''۔
(مسند امام احمد بن حنبل ۔ ج۳، ص ۳۸۵، مرویات ابو ہریرۃ رضی اﷲ عنہُ)

اور وہ دلوں کو اس لیے دیکھتاہے کہ یہی نِیّتوں کی جگہ ہے چناں چہ سرکار دو عالم ﷺ  کا فرمان عبرت نشان ہے :
'' جب بندہ اچھے عمل کرتا ہے تو فرشتے اسے (یعنی ان اعمال کو) مہر لگائے ہوئے صحیفوں میں لے کر اوپر جاتے ہیں اور اس کے عمل رب کائنات کے حضور پیش کردیتے ہیں۔ اللہ  فرماتا ہے اس صحیفے کو پھینک دو کیوں کہ اس میں جو عمل ہے اس میں میری رضا کی نِیّت نہیں کی گئی۔ پھر فرشتوں کو حکم دیتا ہے کہ اس شخص کے لیے فلاں فلاں بات لکھ دو ، وہ عرض کرتے ہیں، اے ہمارے رب! اس نے تو یہ کام نہیں کیا۔ اللہ ارشاد فرماتا ہے کہ اس نے اس کام کی نِیّت کی تھی''۔

ایک او رمقام پر رسول کریم ﷺ  ارشاد فرماتے ہیں:
اَلنَّاسُ اَرْبَعَۃٌ رَجُلٌ اٰتَاہُ اللہُ عِلْمًا وَ مَالاً فَھُوَ یَعْمَلُ بِعِلْمِہٖ فِیْ مَالِہٖ فَیَقُوْلُ رَجُلٌ لَوْ اٰتَانِیَ اللہْ تَعَالیٰ مِثْلَ مَا اٰتَاہُ فَعَمِلْتُ کَمَا یَعْمَلُ فَھُمَا فِیْ الْاَجْرِ سَوَاء وَ رَجُلٌ اٰتَاہُ اللہُ تَعَالیٰ مَالَا یُوْئتِہِ عِلْماً فَھُوَ یَتَخَبَّطُ بِجَھْلِہٖ فِیْ مَالِہٖ فَیَقُوْلُ رَجُلٌ لَوْ اٰتَاِنِیَ اللہُ مِثْلَ مَا اٰتَاہُ عَمِلْتُ کَمَا یَعْمَلْ فَھْمَا فِی الْوِزْرِ سَوَاء''
'' لوگ چار قسم کے ہیں' ایک قسم ان لوگوں کی ہے جنھیں اللہ  نے علم اور مال عطا فرمایا تو وہ اپنے مال میں علم کے مطابق عمل کرتے ہیں دوسرا شخص کہتا ہے اگر اللہ نے مجھے اس کی مثل دیا ہوتا تو میں بھی اس کی طرح عمل کرتا ، پس ان دونوں کا اجر ایک جیسا ہے دوسرا وہ شخص ہے جسے اللہ نے مال دیا اور علم نہیں دیا وہ اپنی جہالت کی وجہ سے مال کو فضول کاموں میں خرچ کرتا ہے تو ایک اور شخص کہتا ہے کہ اگر اللہ مجھے بھی مال دیتا تو میں بھی اس کی طرح خرچ کرتا تو یہ دونوں گناہ میں برابر ہیں''    
( سنن ابن ماجہ ص ۳۲۲، ابواب الزھد)

اسی طرح حضرت سیدنا انس بن مالک رضی اﷲ عنہُ کی حدیث مبارکہ ہے کہ جب نبی اکرم ﷺ غزوہ تبوک کے لیے تشریف لے گئے تو فرمایا '' ہم جو بھی وادی طے کرتے ہیں یا کسی ایسی جگہ کو برباد کرتے ہیں جس کی وجہ سے کفار کو غصہ آئے یا ہم راہ خدا میں مال خرچ کرتے ہیں یا ہم بھوکے ہوتے ہیں تو مدینہ طیبہ میں بھی کچھ لوگ ہیں جو ان تمام باتوں میں ہمارے ساتھ شریک ہوتے ہیں صحابہ کرام علیہم الرضوان نے عرض کی: یا رسول اللہ ﷺ وہ کیسے؟ جب کہ وہ تو ہمارے ساتھ نہیں ہیں۔ فرمایا، انھیں عذر نے روک رکھا ہے''۔   
(سنن کبریٰ للبیہقی جلد ۹، ص ۲۴، کتاب السیر)

اس روایت سے معلوم ہوا کہ وہ لوگ اچھی نِیّت کی وجہ سے اجر حاصل کر رہے تھے چناں چہ حضرت سَیِّدُنَا عبد اللہ بن مسعود رضی اﷲ عنہُ روایت فرماتے ہیں:
مَنْ ھَاجَرَ یَبْتَغِیْ شَیْئًا فَھُوَ لَہٗ
''جو شخص کسی چیز کی تلاش میں ہجرت کرتا ہے تو اسکے لیے وہی ہے''۔
ایک روایت میں کچھ یوں آتا ہے کہ ایک شخص نے ہمارے خاندان کی ایک خاتون (اُمّ قیس) سے شادی کرنے کے لیے ہجرت کی چناں چہ اس شخص کا نام ''اُمِ قیس کا مہاجر'' پڑ گیا۔
( مجمع الزوائد جلد ۲، ۱۰۱، کتاب الصلوۃ)

اسی طرح ایک حدیث شریف میں آیا کہ ایک شخص بظاہر اللہ (عزوجل) کی راہ میں شہید ہوا لیکن اس کا نام ''قتیل الحمار''(گدھے کی خاطر قتل ہونے والا) پڑ گیا کیوں کہ وہ اس لیے لڑا تھا تاکہ کافرسے اس کا سامان اور گدھا حاصل کرے چناں چہ اس کی نِیّت کی وجہ سے اسے یہ لقب ملا ۔ یوں ہی حضرت سَیِّدُنَا عبادہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہُ حضور سرور دوعالم  سے روایت کرتے ہیں، فرمایا:
''مَنْ غَزَا وَ ھُوَ لاَ یَنْوِیْ اِلاَّ عِقَالاً فَلَہٗ مَانَوٰی''
''جو ایک رسی کی خاطر لڑا تو اس کے لیے وہی ہے جس کی اس نے نِیّت کی''
(مسند امام احمد بن حنبل ص جلد ۵، ص ۳۲۰، مرویات عبادہ بن صامت رضی اﷲ تعالیٰ عنہُ)

ایسے ہی ایک روایت میں حضرت سَیِّدُنَا ابی ابن کعب رضی اﷲ تعالیٰ عنہُ فرماتے ہیں کہ میں نے ایک شخص سے مدد طلب کی جو کہ میرے ساتھ مل کر جہاد کر رہا تھا۔ اس نے مدد کرنے سے انکار کر دیا۔ میں نے سوچا کہ اجرت مقرر کر دی جائے چناں چہ میں نے اس کے لیے اجرت مقرر کی پھر میں نے یہ بات حضور انور ﷺ  کی بارگاہ میں عرض کی تو آپ ﷺ  نے ارشاد فرمایا کہ اس کے لیے دنیا اور آخرت میں وہی کچھ ہے جو تم نے اس کے لیے مقرر کیا''۔
(مسند امام احمد بن حنبل رضی اﷲ تعالیٰ عنہُ، جلد ۴، ص ۲۲۳، مرویات یعلیٰ ابن عامرص)

''مَنْ ھَمَّ بِحَسَنَۃٍ وَ لَمْ یَعْمَلْھَا کُتِبَتْ لَہٗ حَسَنَۃٌ''

''جو شخص کسی نیکی کا ارادہ کرے لیکن اسپر کسی وجہ سے عمل نہ کر سکے تو اس کے لیے اتنا ہی ثواب لکھا جاتا ہے''۔
(صحیح مسلم جلد اول، ص ۷۸، کتاب الایمان)

حضرت سَیِّدُنَا عبد اللہ بن عمرو رضی اﷲ عنہُ سے مروی ہے آپ فرماتے ہیں

''مَنْ کَانَتِ الدُّنْیَا نِیَّتَہٗ جَعَلَ اللہُ فَقْرَہٗ بَیْنَ عَیْنَیْہِ وَ فَارَقَھَا اَرْغَبَ مَا یَکُوْنُ فِیْھَا وَ مَنْ تَکُنِ الْاٰخِرَۃُ نِیَّتَہٗ جَعَلَ اللہُ تَعَالیٰ غِنَاہٗ فِیْ قَلْبِہٖ وَ جَمَعَ عَلَیْہِ ضَیْعَتَہٗ وَ فَارَقَھَا اَزْھَدَ مَا یَکُوْنُ فِیْھَا''

''جو شخص دنیاکی نِیّت کرے اللہ  اس کا فقر اس کی آنکھوں کے سامنے کر دیتا ہے اور جب اسے دنیا کی رغبت زیادہ ہوتی ہے تب اسے دنیا سے جدا کرتا ہے اور جو شخص آخرت کی نِیّت کرے تو اللہ عزوجل اس کے دل کو غنی کر دیتا ہے اس کا سامان اس کے لیے جمع فرما دیتا ہے اور جب اسے دنیا سے جد افرماتا ہے تو وہ دنیا سے بہت زیادہ بے رغبت ہوتا ہے''۔
( المعجم الکبیر للطبرانی۔ جلد ۱۱ ص ۳۶۶ حدیث ۱۱۶۹۰)

حضرت سیدتنا ام سلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے روایت ہے کہ آپ رضی اﷲ عنہا فرماتی ہیں کہ حضور تاجدار مدینہ ﷺ نے ایک لشکر کا ذکر فرمایا جو جنگل میں دھنسا دیا جائے گا تو میں نے عرض کی یا رسول اللہ ﷺ  ان میں وہ لوگ بھی ہوں گے جنھیں زبردستی لایا گیا ہے، اور وہ لوگ بھی ہوں گے جو اجرت پر لڑیں گے؟۔ آپ ﷺ  نے فرمایا ''ان سب کا حشر ان کی نِیّتوں کے مطابق ہوگا''۔                       
( المستدرک، ج۴، ۴۳۱، کتاب الفتن)

ایسے ہی حضرت سَیِّدُنَا عمر فاروق رضی اﷲ عنہُ سے روایت ہے ، فرماتے ہیں کہ میں نے آقاے دو جہاں ﷺ  سے سنا، آپ ﷺ  نے ارشاد فرمایا:
اِنِّمَا یُقْتَتَلُ الْمُقْتَتِلُوْنَ عَلَی النِّیَّاتِ
'' لڑنے والے اپنی اپنی نِیّتوں پر لڑتے ہیں''
(میزان الاعتدال ج۳، ۲۶۹، ترجمہ ۶۳۸۴)

ایک اور مقام پر رسول کریم ﷺ  نے ارشاد فرمایا:
''اِذَا الْتَقَی الصَّفَّانِ نَزَلَتِ الْمَلاَئِکَۃُ تَکْتُبُ الْخَلْقَ عَلٰی مَرَاتِبِھِمْ فُلاَنٌ یُقَاتِلُ لِلدُّنْیَا فُلاَنٌ یُقَاتِلُ حَمِیَّۃً فُلاَنٌ یُقَاتِلُ عَصْبِیَّۃً اَلاَ فَلاَ تَقُوْلُوْا فُلاَنٌ قُتِلَ فِیْ سَبِیْلِ اللہِ فَمَنْ قَاتَلَ لِتَکُوْنِ کَلِمَۃُ اللہِ ھِیَ الْعُلْیَا فَھُوَ فِیْ سَبِیْلِ اللہِ''
ترجمہ: ''جب دو لشکر باہم مقابل ہوتے ہیں تو فرشتے اترتے ہیں اور مخلوق کو درجہ بدرجہ لکھتے ہیں کہ فلاں آدمی دنیا کے لیے لڑا ہے فلاں شخص غیرت کے لیے لڑا ہے فلاں آدمی قوم کی خاطر لڑا ہے ۔ خبردار ! یہ نہ کہو کہ فلاں اللہ کے راستے میں شہید ہو گیا پس جو شخص اس لیے لڑے کہ اللہ  کا کلمہ بلند ہوصِرف وہی اللہ کی راہ میں لڑنے والا شمار ہوگا''۔

روایت میں آتا ہے کہ جو شخص جس نِیّت پر زندگی گزارے گا قیامت کے دن اسی پر اٹھایا جائے گا ، چناں چہ۔
حضرت سَیِّدُنَا جابر رضی اﷲ عنہُ نبی کریم ﷺ سے روایت کرتے ہیں :
یُبْعَثُ کُلُّ عَبْدٍ عَلٰی مَا مَاتَ
''ہر بندے کواُسی (نِیّت) پر اٹھایا جا ئے گا جس پر وہ دنیا سے گیا''۔
(صحیح مسلم ، ج ۲، ص ۳۸۷، کتاب الجنۃ)

نیز اگر نِیّت درست نہ ہو تو بظاہر مظلوم ہونے کے باوجود انسان جہنم کا مستحق ہو جاتا ہے،جیسے کہ حضرت سَیِّدُنَا اَحنف رضی اﷲ تعالیٰ عنہُ ، حضرت سَیِّدُنَا ابو بِکرہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہُ سے روایت کرتے ہیں۔ کہ سرکاری دو عالم صلی اﷲ تعالیٰ علیہ والہ وسلم  نے ارشاد فرمایا :

اِذَا الْتَقَی الْمُسْلِمَانِ بِسَیْفَیْھِمَا فَالْقَاتِلُ وَ الْمَقْتُوْلُ فِی النَّارِ
'' جب دو مسلمان اپنی تلواروں کے ساتھ ایک دوسرے کے مقابل ہوتے ہیں تو قتل کرنے والا اور قتل کیا جانے والادونو ں جہنمی ہیں''۔
عرض کی گئی اے اللہ کے رسول ﷺ قاتل کا جہنمی ہونا تو ٹھیک ہے لیکن مقتول کے جہنم میں جانے کی کیا وجہ ہے۔
تو کونین کے والی ﷺ  نے ارشاد فرمایا:
''کیوں کہ اس مرنے والے نے بھی اپنے قاتل کو قتل کرنے ہی کی نِیّت کی تھی''۔
(صحیح مسلم، ج۲،ص ۳۸۹، کتاب الفتن)۔

یوں ہی نکاح اگر مہر ادا کرنے کی نِیّت سے کیا جائے تو فبہا ، ورنہ دیکھیے ،کیا انجام ہوتا ہے حضرت ابو ھریرہ رضی اﷲ عنہُ روایت کرتے ہیں
مَنْ تَزَوَّجَ اِمْرَأَۃً عَلٰی صُدَاقٍ وَ ھُوَ لاَ یَنْوِیْ اَدَاءَ ہٗ فَھُوَ زَانٍ وَ مَنْ اَدَّانَ دَیْنًا وَ ھُوَ لاَ یَنْوِیْ اَدَاءَ ہٗ فَھُوَ سَارِقٌ
"جو شخص کسی عورت سے مہر پر نکاح کرے لیکن اسکی نِیّت ادائیگی کی نہ ہو تو وہ زانی ہے اور جو قرض لے اور ادا کرنے کی نِیّت نہ کرے تو وہ چور ہے''۔
(الترغیب و الترھیب، ج۲، ص ۶۰۲، کتاب البیوع)۔

یوں ہی کوئی شخص اگر خوش بو لگانے جیسا معمولی کام بھی کسی برے مقصد سے کرے تو یہ عمل بھی اسے قیامت کی ہول ناکیوں میں مزید پریشان کرنے کا باعث بن سکتا ہے۔ جیسا کہ
حضور پر نورﷺ کا فرمان ہے۔
مَنْ تَطَیَّبَ لِلّٰہِ تَعَالیٰ جَاءَ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ وَ رِیْحُہٗ اَطْیَبُ مِنَ الْمِسْکِ وَمَنْ تَطَیَّبَ لِغَیْرِ اللہِ جَاءَ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ وَ رِیْحُہٗ اَنْتَنُ مِنَ الْجِیْفَۃِ
'' جو اللہ کے لیے خوش بو لگائے تو قیامت کے دن اس حال میں آئے گا کہ اس کی خوش بو کستوری سے زیادہ مہک رہی ہوگی اور جو غیر اللہ (کو راضی کرنے) کے لیے خوش بو لگائے تو قیامت کے دن اس حال میں آئے گا کہ اس کی بومردار سے زیادہ بد بو دار ہوگی'' ۔
(مصنّف عبد الرزّاق، ج۴، ص ۳۱۹، حدیث ۷۹۳۲)

خلیفہ دوم حضرت سَیِّدُنَا عمر بن خطاب رضی اﷲ عنہُ فرماتے ہیں کہ بہترین عمل اللہ کے فرائض کو ادا کرنا ، اللہ تعالیٰ کی حرام کردہ اشیاء سے بچنا اور اللہ کے یہاں نِیّت کا سچّا ہونا ہے۔
حضرت سالم بن عبد ﷲ نے ایک مرتبہ حضرت عمربن عبد العزیز کو لکھا:
''خبردار ! بندے کو اپنی نِیّت کے مطابق اللہ تعالیٰ کی طرف سے مدد و نصرت حاصل ہوتی ہے، جس کی نِیّت مکمل ہو اس کے لیے رب کائنات کی مدد بھی مکمل ہوتی ہے اور جس کی نِیّت میں نقص ہو تو مدد میں بھی کمی واقع ہوتی ہے''۔

بعض بزرگان دین رحمۃاﷲ علیہم فرماتے ہیں:
"اکثر چھوٹے اعمال کو نِیّت بڑے درجے تک پہنچا دیتی ہے اور کئی بڑے بڑے کام نِیّت کی وجہ سے چھوٹے ہو جاتے ہیں"۔

حضرت داؤد طائی  فرماتے ہیں:
''وہ نیک بندہ جو تقویٰ کی نِیّت رکھتا ہے اگر( کسی وجہ سے) اس کے تمام اعضاء دنیا میں پھنس جائیں تو کسی نہ کسی دن اس کی نِیّت اسے اچھی حالت کی طرف لوٹا دے گی لیکن جاہل کا حال اس کے بر عکس ہے''۔

حضرت سفیان ثوری فرماتے ہیں:
'' پہلے زمانے کے لوگ عمل کرنے کیلئے نِیّت کی باقاعدہ اس کی تربیت حاصل کرتے تھے جسطرح وہ عمل کی تربیت حاصل کرتے تھے''۔

بعض علماء رحمہم اﷲ فرماتے ہیں:
"عمل سے پہلے اپنی نِیّت کو درست کرو اس لیے کہ جب تک تم نیکی کی نِیّت پر قائم رہو گے بھلائی پر رہو گے"۔

اخیر میں بارگاہ رب ذوالجلال میں دعا ہے کہ مولاے رحیم اپنے حبیب کریم علیہ الصلاۃ والتسلیم کے بطفیل عمیم ہمیں ہر اچھے کام سے پہلے اچھی اچھی نیتیں کرنے کی توفیق خیر سے نوازے اور ہر اچھے اخلاص نیت اور للہیت کے ساتھ کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔
آمین۔ بجاہ النبی الامین علیہ اکرم الصلاۃ وافضل التسلیم

Comments

Popular posts from this blog