ویلنٹائن ڈے-برائیوں میں ڈوبا ایک برا تہوار

تحریر : محمد ناصرؔ منیری
بانی و صدر منیری فاونڈیشن، دہلی
رابطہ نمبر: +919654812767

اسلام ایک پاکیزہ مذہب ہے، جس کا ہر ہر قانون پاکیزہ اور فطری ہے، اس میں کوئی بھی ایسا کام جائز و روا نہیں ہو سکتا جو اخلاقی طور پر جرم سمجھا جاتا ہو۔ اسلام محبت کا پیغام دیتا ہےلیکن غیرمحرم لڑکی یا لڑکے سے نہیں بلکہ ماں باپ، بھائی بہن اور بیوی بچوں سے محبت کا حکم دیتا ہے۔ اسلام نے محبت کو ایک دن کے لیے خاص نہیں کیا کہ “مدرس ڈے ”مناکر ماں سے ، “فادرس ڈے” منا کر باپ سے ، ”چلڈرنس ڈے” منا کر بچوں سے اور ”ویلنٹائن ڈے” مناکر بیوی سے محبت کی جائے،  بلکہ  اسلام میں ہر دن محبت  کا دن ہے۔  آج کل مسلمانوں کو اسلام اور تعلیمات اسلام سے دور کرنے کے لیے طرح طرح کے طریقے استعمال کیے جا رہے ہیں انھیں میں سے ایک “ویلنٹائن ڈے” بھی ہے۔

ویلنٹائن ڈے کیا ہے:  
ویلنٹائن نامی ایک عیسائی پادری تیسری صدی عیسوی میں رومی بادشاہ کلوڈیس ثانی کے زیرِ حکومت رہتا تھا، کسی نافرمانی کے سبب پادری کو جیل ہو گئی، اور وہاں اسےجیلر کی لڑکی کے سے پیار ہوگیا، لڑکی نے اس  کے عشق میں  اپنا مذہب چھوڑ کر پادری کا عیسائی مذہب اپنا لیا، لڑکی روزانہ ایک گلاب لے کر پادری سے ملنے جاتی۔ بادشاہ کو جب یہ باتیں معلوم ہوئیں تو اس نے پادری کی پھانسی کا حکم جاری کر دیا، پادری کو جب معلوم ہوا کہ پھانسی ہونے والی ہے تو اس نے اپنا آخری وقت اپنی محبوبہ کے ساتھ گذارنے کی خواہش ظاہر کی،  اور اسے ایک کارڈ بھیجا جس پر یہ لکھا  تھا ’’تمھارے ویلنٹائن کی طرف سے‘‘   آخرکار 14 فروری کو اس پادری کو پھانسی ہو گئی ا س کے بعد سے ہر 14 فروری کو یہ محبت کا دن اس پادری کے نام  سے“ویلنٹائن ڈے ”کے روپ  میں منایا جانے لگا۔(دی انسائیکلوپیڈیا آف سینٹس، ص:341)

ویلنٹائن ڈے کی برائیاں: 
محبت کے نام پر برائیاں پھیلانے والے اس ناپاک تہوار میں طرح طرح کی بےحیائیوں اور بدتمیزیوں   والے برے کام انجام دیے جاتے ہیں، اور محبت کے نام پر بے حیائیوں اور بدتمیزیوں  کا بازار گرم رہتا ہے۔ یہ سلسلہ ایک ہفتے تک (یعنی 7 فروری سے لے کر 14 فروری تک) چلتا رہتا ہے،  روزڈے، پروپوز ڈے، چاکلیٹ ڈے، ٹیڈی ڈے، پرومس ڈے، ہگ ڈے، کس ڈے اور ویلنٹائن ڈے کے روپ میں ناجائز محبت میں گرفتار عاشق جوڑے پورا کا پورا ایک ہفتہ بے حیائیوں اور بدتمیزیوں میں سر گرم رہتے ہیں۔ اسلام جیسے پاک و صاف مذہب میں ایسی بے حیائیوں، بدتمیزیوں اور برائیوں کے لیے کوئی جگہ نہیں ۔ ایک مسلمان کے لیے ایسی بے حیائیاں اور برائیاں ہرگز ہرگز جائز و روا نہیں ہو سکتیں، جیسے : غیرمحرم لڑکی یا لڑکے کو اپنی طرف مائل کرنا، اسے بری نیت سے دیکھنا، جان بوجھ کر اسے چھونا، اسے بوسہ لینا، اسے گلے لگانا، اسے کہیں لے جاکر تنہائی میں اس کے ساتھ وقت گذارنا،  اسے کوئی تحفہ دینا یا لینا وغیرہ۔  یہ  سب کے سب ناجائز و حرام اور جہنم میں لے جانے والے کام ہیں۔ اسلامی شریعت نے ان سب کو زنا اور بدکاری کہا ہے اور بدکاری حرام کاری ہے۔ یہ چیزیں اگر جائز اور شرعی بیوی کے ساتھ ہوں تب تو جائز ہیں لیکن غیرمحرم لڑکی یا عورت کے ساتھ ہوں تو یقیناً ناجائز و حرام ہیں۔ ذیل میں قرآن و حدیث کی روشنی میں ان کی برائیاں بیان کی جا رہی ہیں۔

بے حیائی کی برائیاں:  
شرم و حیا انسان کا زیور اور ایمان کا حصہ ہے،جب تک یہ باقی ہوتی ہے انسانیت باقی رہتی ہے ۔ شرم وحیا ختم ہوتے ہی انسان و حیوان کی تمیز ختم ہو جاتی ہے،   قرآن  و حدیث میں جگہ جگہ شرم و حیا اپنانے اور بے حیائی سے بچنے کا حکم دیا گیا ہے۔ اللہ پاک کا فرمان ہے:“مسلمان مردوں کو حکم دو اپنی نگاہیں  نیچی رکھیں  اور اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کریں  یہ ان کے لیے بہت ستھرا ہے بے شک اللّٰہ کو ان کے کاموں کی خبر ہے اور مسلمان عورتوں کو حکم دو اپنی نگاہیں  نیچی رکھیں اور اپنی پارسائی کی حفاظت کریں ۔(سورۂ نور، آیت:۳۰،۳۱) اورزمین پر پاؤں زور سے نہ رکھیں  کہ ان کا چھپا ہوا سنگار ظاہر ہو۔” (سورۂ نور:۳۱)

بد نگاہی کی برائیاں: 
بد نگاہی یعنی غیرمحرم لڑکی کا غیرمحرم لڑکے کو یا غیرمحرم لڑکے کا غیرمحرم لڑکی کو بری نیت سے دیکھنا اور گھورنا یہ انتہائی برا کام اور ناجائز و حرام ہے۔ “رسولِ پاک ﷺ فرماتے ہیں: بدنگاہی کرنے والوں پر اللہ پاک کی لعنت ہوتی ہے۔”(مشکات شریف، حدیث:3125)

پرائی لڑکی یا لڑکے کو اٹریکٹ کرنا: 
غیرمحرم لڑکی کا غیرمحرم لڑکے کو یا غیرمحرم لڑکے کا غیرمحرم لڑکی کو اپنی طرف اٹریکٹ اور مائل کرنے والا کوئی کام کرنا ناجائز و حرام ہے۔ رسولِ پاک ﷺ فرماتے ہیں:“ آخری زمانے میں ایسی عورتیں پیدا ہوں گی جو پہن کر بھی ننگی ہوں گی، دوسروں کو اپنی طرف مائل(Attract) کرنے والی ہوں گی وہ جنت کی خوش بو بھی نہیں پا سکیں گی۔” (مسلم شریف، حدیث:2128)

پرائی  لڑکی یا لڑکے کو ٹَچ کرنا:
غیرمحرم لڑکی یا لڑکے کو جان بوجھ کر چھونا یا Touch کرنا بھی ناجائز و حرام ہے۔رسولِ پاک ﷺ فرماتے ہیں:“کسی کے سر میں کیل گھونپ دی جائے اس سے زیادہ برا یہ ہے کہ وہ کسی غیرمحرم عورت کو چھوئے۔” (معجم کبیر، حدیث:289)

پرائی  لڑکی یا لڑکے کو کِس کرنا:
غیرمحرم لڑکی کا غیرمحرم لڑکے کو اور غیرمحرم لڑکے کا غیرمحرم لڑکی کو بوسہ لینا یا Kiss کرنا اسلامی شریعت میں حرام اور بدکاری ہے۔ رسولِ پاک ﷺ فرماتے ہیں:“ ہاتھ کا زنا (بدکاری) حرام پکڑنا ہے، پیر کا زنا حرام کی طرف چلنا ہے اور منہ کا زنا بوسہ لینا (یعنی Kissکرنا) ہے۔ ”(سنن ابو داؤد، حدیث:2153)

پرائی  لڑکی یا لڑکے کو ہَگ کرنا:
غیر محرم  لڑکی کا غیر محرم لڑکے کو اور غیرمحرم لڑکے کا غیر محرم لڑکی کو Hug کرنا یعنی     گلے لگانا شریعت کی روشنی میں انتہائی برا کام اور ناجائز و حرام ہے۔ رسولِ پاک ﷺ فرماتے ہیں: “بدبودار کیچڑ میں ڈوبا ہوا خنزیر ٹکرا جائے اس سے زیادہ برا یہ ہے کہ کسی  غیرمحرم عورت سے کندھا ملائے۔” (الزواجر، 2/6)

پرائی  لڑکی یا لڑکے کو ڈیٹ کرنا:
کسی  غیرمحرم لڑکی یا لڑکے کو کسی ہوٹل یا ریسٹورینٹ میں لے جاکر   اس کے ساتھ تنہائی میں وقت گذارنا یہ بھی ایک حرام اور بدکاری والا کام ہے۔ رسولِ پاک ﷺ فرماتے ہیں: “غیرمحرم عورت کے ساتھ تنہا رہنے سے بچو۔ اللہ کی قسم اگر کوئی کسی غیرمحرم عورت کے ساتھ تنہا ہوتا ہے تو اس کے ساتھ شیطان ہوتا ہے۔”(الزواجر، 2/6) اور شیطان کچھ بھی کر وا سکتا ہے۔

پرائی  لڑکی یا لڑکے کو گِفٹ کرنا:
اس دن غیرمحرم لڑکے لڑکیاں آپس میں ایک دوسرے کو تحفے دیتے ہیں ایسا کرنا بھی ناجائز و حرام ہے اور وہ  تحفے لوٹانا واجب و ضروری ہے۔ صاحب بحر الرائق فرماتے ہیں: “ناجائز محبت میں گرفتار لڑکے اور لڑکیاں آپس میں جو تحفے (Gift) لیتے یا دیتے ہیں وہ  ناجائز و حرام ہیں  اور ان کا لوٹانا واجب ہے”(بحر الرائق 6/441)

اخیر میں اللہ پاک کی بارگاہ میں دعا ہے کہ مولاے پاک اپنے محبوبِ پاک ﷺ کے وسیلے سے ہمیں اچھی باتوں پر عمل کرنے اور بری باتوں سے بچنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین

Comments

Popular posts from this blog