16 سیدوں کا روزہ، 18 سیدوں کی نماز، 20 سیدوں کی کہانی...

16 سیدوں کا روزہ، 18 سیدوں کی نماز، 20 سیدوں کی کہانی...

دور حاضر کا ایک المیہ یہ بھی ہے کہ اہل عقیدت کی عقیدت مندی دیکھ کر ان کے اعتقاد سے کھلواڑ کیا جانے لگا۔ اس سلسلے میں جوشیلی اور نشیلی تقریریں کی جانے لگیں، نشے میں ڈوب کر اشعار پڑھے جانے لگے ، جوش میں ہوش کھو کر طرح طرح کے بے ڈھنگے نعرے لگائے جانے لگے، ایسی ایسی روایتیں گڑھی جانے لگیں جن کا کوئی سر  پیر نہیں اور اسے مسلکی سربلندی ،اعلیٰ دینی خدمات اور طرح طرح کے مبارک نام دیے جانے لگے حالاں کہ یہ سب صرف اور صرف اپنا بزنس چمکانے کے لیے ہوا۔
بات صرف تقریر خوانی، اشعار گوئی اور روایت گڑھی تک محدود نہیں بلکہ اس سلسلے کی سب سے خطرناک کڑٰی وہ کتابیں ہیں، جن میں طرح طرح کی روایتیں وضع کر کے لوگوں کی عقیدت اور آستھاسے کھلواڑ کیا گیا۔ لوگوں کو 16 سیدوں کا روزہ رکھنے کو کہا گیا، 18 سیدوں کی نماز پڑھنے کو کہا گیا۔20 سیدوں کی کہانی سنانے پر ڈھیروں ثواب کا وعدہ کیا گیا اور یہ سب نہ کرنے پر سخت ترین دنیوی وعید کا خوف دلایا گیا، جس کا اثر مردوں پر تو کم ہوا، البتہ صنف نازک ایسے فرضی وعدوں وعیدوں کے چکر میں بہت جلد آ گئی۔
میری فہم ناقص کے مطابق روزہ، نماز عبادت ہے، اور عبادت، عبد و معبود کے مابین رشتۂ عبدیت کی بجا آوری کو کہتے ہیں، اس کی روشنی میں ہم 16 سیدوں کو کس صف میں رکھیں گے عبد کی صف میں یا معبود کی؟ اگر عبد کی صف میں رکھیں گے تو پھر عبادت کیوں؟ اور اگر معبود کی صف میں رکھیں گے تو پھر حکم شرک سے کیسے بچ پائیں گے؟ نتیجۃً 16 سیدوں کا روزہ اور نماز کا کیا حال ہوگا؟؟؟ (نماز روزے کا ثواب انھیں ایصال کیا جائے یہ مسئلہ الگ ہے۔)
ایسی تحریروں کے پیچھے زیادہ  تر کارفرمائیاں پریس والوں کی معلوم ہوتی ہے۔ اپنا بزنس چمکانے کے چکر میں زیادہ سے زیادہ چھاپنے اور بیچنے کی جسارتیں کرتے ہیں۔ ابھی چند سالوں سے ایک پرچہ کثیر تعداد میں چھپوایا اور بنٹوایا جا رہا ہے،جس میں کسی فرضی شیخ صاحب کا فرضی واقعہ مذکور ہوتا ہے، اس میں بھی خوب وعدوں وعیدوں کا تذکرہ ہوتا ہے،  اس کے رد عمل میں جب ہم نےقرآن و حدیث کی روشنی میں موقع بہ موقع پمفلٹس چھپوا کر بنٹوانا شروع کیا تو پہلے تو لوگوں نے اسے بھی فرضی سمجھ لیا۔ ہمارے والینٹیرس  نے بتایا کہ لوگ یہ کہہ کر لینے سے انکار کر رہے ہیں کہ کہیں ہمیں بھی چھپوانا اور بنٹوانا نہ پڑ جائے۔یہ اسی فرضی واڑے کا نتیجہ تھا۔
افسوس صد افسوس ہوتا ہے اس وقت جب کوئی اصلاح معاشرہ کا جذبہ لے کر اس طرح کے مسئلے اپنی تحریروں یا تقریروں کے ذریعے اٹھاتا ہے تو اس کی آواز بند کروانے اور قلم رکوانے اور اسے وہابیت کاٹائٹل دینے کی ناپاک کوششیں کی جاتی ہے۔
اللہ پاک ہمارے حال پر کرم فرمائے۔

#ناصر_منیری
منیری فاونڈیشن دہلی
رابطہ نمبر : 9654812767

Comments

Popular posts from this blog