نظم: انصاف کا چرچا کون کرے
شاعر: پروفیسر شمس الدین احمد شمسؔ منیری
یہ دور ہے بے انصافی کا انصاف کا چرچا کون کرے
مقصود بہت اعلیٰ ہی سہی مقصود کی پروا کون کرے
مٹ مٹ کر نقش ابھرتے ہیں کٹ کٹ کر تودے بھرتے ہیں
فطرت کا اشارہ کافی ہے انساں کو اشارہ کون کرے
اخلاص نہیں ایمان نہیں اخلاق نہیں اعمال نہیں
معلوم ہے اپنی نااہلی تقدیر کا شکوہ کون کرے
منجدھار میں کشتی بہنے دو خطرہ ہے تو خطرہ رہنے دو
ساحل پہ ہے جب طوفان بپا دریا سے کنارہ کون کرے
رہ بر کی تمنا لا حاصل سامان سفر کی فکر عبث
ہیں پاؤں ہی چلنے سے عاری پیمائش صحرا کون کرے
اے شمسؔ چمن میں یاروں نے لالے کو دیکھا جام بکف
اس جام میں کس کا خوں ہے بھرا اس راز کو افشا کون کرے
(ماخوذ از شعراے منیر اور ان کی شاعری تالیف: ناصرؔ منیری)
Comments
Post a Comment