مخدوم جہاں اور خدمت خلق
تالیف: ناصر منیری
ناشر: منیری فاونڈیشن، دہلی

سلطان المحققین، برہان العارفین، مخدوم جہاں، قطب زماں حضرت مخدوم شرف الدین احمد یحیی منیری قدس سرہ القوی اپنے عہد کے عظیم محقق، محدث، مصنف اور صوفی بزرگ گذرے ہیں۔

آپ 661ھ کو صوبہ بہار ضلع پٹنہ کے عظیم و قدیم شہر "منیر شریف" میں تولد ہوئے۔ تعلیم و تربیت اپنے والد ماجد مخدوم منیر حضرت کمال الدین یحیی منیری (570ھ – 690ھ) اور علامہ ابو توامہ بخاری علیہ الرحمہ سے حاصل کی۔ بیعت و خلافت حضرت خواجہ نجیب الدین فردوسی دہلوی علیہ الرحمہ (م:690ھ) سے حاصل ہے۔ آپ کا وصال پر ملال 6 شوال المکرم 782ھ کو ہوا۔ اور مزار مبارک صوبہ بہار ضلع نالندہ کے قصبہ "بہار شریف" میں ہے۔

آپ جہاں صوفیِ با صفا تھے وہیں ولیِ کامل، مرشد برحق، شیخ طریقت اور عظیم فلسفی بھی تھے۔
آپ کی تحریروں میں منقولات کے ساتھ ساتھ معقولات کا بھی خاصا مواد ملتا ہے۔ آپ اپنی باتوں کو جہاں منقولاتی دلائل مثلا قرآن و حدیث اور اقوال ائمہ، فقہا و صوفیہ سے مدلل و مبرہن کرتے ہیں وہیں فلسفیانہ ابحاث سے معقول بھی کرتے نظر آتے ہیں۔
شیخ عبدالماجد دریاآبادی کے بقول علم فلسفہ میں آپ کا مرتبہ بہت بلند تھا۔ وہ اپنی کتاب 'نظام تعلیم و تربیت' میں یہاں تک لکھتے ہیں کہ حیرت ہوتی ہے کہ ان کے کلام میں سطر دو سطر نہیں بلکہ صفحے کے صفحے ایسے نظر آتے ہیں کہ گویا موجودہ زمانے کے مغربی مفکرین کی کتابوں کا لفظی ترجمہ ہے۔ کانٹ، ہیگل، برکلے اور ہیوم ازیں قبیل فلاسفہء جدید کے نظریات جن پر موجودہ فلسفے کو ناز ہے ان کی کتابوں میں بھرے پڑے ہیں۔

اس کے علاوہ تفسیر و حدیث اور فقہ و افتا میں بھی آپ کا مرتبہ بہت بلند ہے۔ صاحب سیرة الشرف کے بقول آپ فقہ میں اجتہاد کے مرتبے پر فائز تھے۔ آپ کے تفقہ فی الدین کا عالم یہ تھا کہ قرآن و حدیث سے مسائل کا استنباط کرنا، اور پھر اس پر عقلی دلایل قایم کرنا آپ کے نزدیک معمولی بات تھی۔

جہاں آپ عظیم محقق، مفسر، محدث، مجتہد اور فقیہ و فلسفی تھے وہیں آپ کا مجددانہ کردار بھی انتہائی اہم رہا ہے۔ آپ کے تجدید و احیا کے کارہاے نمایاں ایک صدی پر محیط ہیں۔ بندگان خدا کی خاصی تعداد آپ کے دست حق پرست پر تائب و مشرف بہ اسلام ہوئی۔ آج بھی آپ کے مکتوبات خلق خدا کے لیے مشعل راہ ہیں اور دنیا کی مختلف زبانوں میں منتقل ہو کر لوگوں کے فلاح و اصلاح کا ضامن ہیں۔ آپ کے تجدیدی کارناموں کو شیخ ابوالحسن علی ندوی نے اپنی تاریخی کتاب 'تاریخ دعوت و عزیمت' کی تیسری جلد میں بڑی شرح و بسط کے ساتھ تحریر کیا ہے۔

ان سب کے ساتھ ساتھ وہ ایک عظیم انسان بھی تھے اور انسانیت کے ہم درد بھی۔ اپنے سینے میں ایک درد مند دل بھی رکھتے تھے۔ کسی بھی غیر انسانی و غیر اخلاقی حرکت پر ان کا دل دھڑک اٹھتا تھا بقول امیر مینائی۔۔

خنجر لگے کسی کو تڑپتے ہیں ہم امیر
سارے جہاں کا درد ہمارے جگر میں ہے

آپ نے اپنی تعلیمات میں جگہ جگہ انسانیت کا پیغام اور خدمت خلق کا درس دیا ہے۔ آپ کی انھی تعلیمات کو اس کتاب میں پیش کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔
اس کتاب میں ابتدائیہ اور اختتامیہ کے علاوہ پانچ ابوب ہیں جو درج ذیل تفصیل کے مطابق ہیں:
ابتدائیہ
باب اول: خدمت خلق۔۔۔تعارف و اقسام
باب دوم: خدمت خلق۔۔۔ضرورت و اہمیت
باب سوم: خدمت خلق۔۔۔قرآن کی روشنی میں
باب چہارم: خدمت خلق۔۔۔حدیثوں کی روشنی میں
باب پنجم: خدمت خلق اور مخدوم جہاں
اختتامیہ

پہلے باب میں خدمت خلق کا تعارف اور اس کی قسمیں بیان کی گئی ہیں۔ دوسرے باب میں اس کی ضرورت و اہمیت پر روشنی ڈالی گئی ہے۔ تیسرے باب میں قرآن کریم کی روشنی میں اور چوتھے میں حدیثوں کی روشنی میں خدمت خلق کی فضیلتیں بیان کی گئی ہیں اور پانچویں باب میں مخدوم جہاں کی تعلیمات سے خدمت خلق کا درس دیا گیا ہے۔
سلسلہء تعلیمات مخدوم جہاں کی یہ پہلی کڑی ہے۔ ان شاء اللہ العزیز اس سلسلے کی اور بھی کتابیں سلسلہ وار پیش کی جاتی رہیں گی۔

اخیر میں بارگاہ قاضی الحاجات میں دست بہ دعا ہوں کہ مولاے رحمان و رحیم اپنے حبیب رءوف و رحیم علیہ الصلاة والتسلیم کے بطفیل عمیم ہمیں اپنے بزرگوں سے وابستہ رکھے، ان کے نقوش قدم پر چلائے اور ان کی تعلیمات پر عمل پیرا رہنے کی توفیقِ خیر مرحمت فرمائے۔
آمین۔ یارب العالمین۔ بجاہ النبی الامین۔ علیہ اکرم الصلاة وعلی آلہ وصحبہ ومن تبعھم اجمعین۔

Comments

Popular posts from this blog