اسلام اور گوشت خوری قرآن، سائنس اور ہندو دھرم کی روشنی میں از: ناصرؔ منیری
اسلام اور گوشت خوری قرآن، سائنس اور ہندو دھرم کی روشنی میں
تحریر : ناصرؔ منیری
منیری فاونڈیشن دہلی
رابطہ نمبر: +91 9654812767
اسلام ایک فطری مذہب ہے، جس کے تمام احکام حکمت سے لبریز ہیں۔ خداے احکم الحاکمین نے جو بھی حکم صادر فرمایا ہے اس میں کوئی نہ کوئی مصلحت ضرور ہے۔ نماز، روزہ، زکات اور قربانی وغیرہ تمام معمولات پر از حکمت ہیں۔ یوں ہی گوشت خوری بھی حکمت سے خالی نہیں۔ آج کل کچھ لوگ اسلام پر یہ اعتراض کرتے ہیں کہ جانور کو ہلاک کرنا ایک ظالمانہ فعل ہے پھر مسلمان گوشت کیوں کھاتے ہیں؟ یہ محض جاہلانہ و احمقانہ اعتراض ہے۔ ذیل میں اس کے دفاع میں نقلی و عقلی دلائل ملاحظہ کریں:
گوشت خوری قرآن کی روشنی مین:
قرآنِ حکیم میں پروردگار کائنات کا ارشاد پاک ہے:
(1)
إِنَّ اللّهَ يَأْمُرُكُمْ أَنْ تَذْبَحُواْ بَقَرَةً
بے شک اللہ تمھیں حکم دیتا ہے کہ ایک گاے ذبح کرو۔
(سورۃ البقرہ ،آیت: 67)
(2)
فَكُلُواْ مِمَّا ذُكِرَ اسْمُ اللّهِ عَلَيْهِ إِن كُنتُمْ بِآيَاتِهِ مُؤْمِنِينَ
سو تم اس (ذبیحہ) سے کھایا کرو جس پر (ذبح کے وقت) ﷲ کا نام لیا گیا ہو اگر تم اس کی آیتوں پر ایمان رکھنے والے ہو۔
(سورۃ الانعام، آیت : 116)
(3)
وَمَا لَكُمْ أَلاَّ تَأْكُلُواْ مِمَّا ذُكِرَ اسْمُ اللّهِ عَلَيْهِ وَقَدْ فَصَّلَ لَكُم مَّا حَرَّمَ عَلَيْكُمْ إِلاَّ مَا اضْطُرِرْتُمْ إِلَيْهِ وَإِنَّ كَثِيرًا لَّيُضِلُّونَ بِأَهْوَائِهِم بِغَيْرِ عِلْمٍ إِنَّ رَبَّكَ هُوَ أَعْلَمُ بِالْمُعْتَدِينَ
اور تمھیں کیا ہے کہ تم اس (ذبیحہ) سے نہیں کھاتے جس پر (ذبح کے وقت) ﷲ کا نام لیا گیا ہے (تم ان حلال جانوروں کو بلاوجہ حرام ٹھہراتے ہو)؟ حالاں کہ اس نے تمھارے لیے ان (تمام) چیزوں کو تفصیلاً بیان کر دیا ہے جو اس نے تم پر حرام کی ہیں، سواے اس (صورت) کے کہ تم (محض جان بچانے کے لیے) ان (کے بقدرِ حاجت کھانے) کی طرف انتہائی مجبور ہو جاؤ (سو اب تم اپنی طرف سے اور چیزوں کو مزید حرام نہ ٹھہرایا کرو)۔ بےشک بہت سے لوگ بغیر (پختہ) علم کے اپنی خواہشات (اور من گھڑت تصورات) کے ذریعے (لوگوں کو) بہکاتے رہتے ہیں، اور یقینا آپ کا ربّ حد سے تجاوز کرنے والوں کو خوب جانتا ہے۔
(سورۃ الانعام ، آیت: 117)
(4)
وَالْأَنْعَامَ خَلَقَهَا لَكُمْ فِيهَا دِفْءٌ وَمَنَافِعُ وَمِنْهَا تَأْكُلُونَ
اور اُسی نے تمھارے لیے چوپائے پیدا فرمائے، ان میں تمہارے لیے گرم لباس ہے اور (دوسرے) فوائد ہیں اور ان میں سے بعض کو تم کھاتے (بھی) ہو۔
(سورۃ النحل، آیت : 5)
(5)
وَإِنَّ لَكُمْ فِي الْأَنْعَامِ لَعِبْرَةً نُّسقِيكُم مِّمَّا فِي بُطُونِهَا وَلَكُمْ فِيهَا مَنَافِعُ كَثِيرَةٌ وَمِنْهَا تَأْكُلُونَ
اور بےشک تمھارے لیے چوپایوں میں (بھی) غور طلب پہلو ہیں، جو کچھ ان کے شکموں میں ہوتا ہے ہم تمھیں اس میں سے (بعض اجزا کو دودھ بنا کر) پلاتے ہیں اور تمھارے لیے ان میں (اور بھی) بہت سے فوائد ہیں اور تم ان میں سے (بعض کو) کھاتے (بھی) ہو۔
(سورۃ المومنون، آیت : 21)
گوشت خوری سائنس کی روشنی مین:
سائنس کی رو سے غیر نباتاتی خوراک (یعنی انڈا، مچھلی اور گوشت وغیرہ) پروٹین کا بہت اچھا ذریعہ ہے۔ اس میں حیاتیاتی طور پر مکمل پروٹین یعنی آٹھ (8) ضروری امائنو ایسڈز پائے جاتے ہیں، جنھیں جسم تیار نہیں کرتا۔ اس لیے یہ خوراک کے ذریعے سے لینے چاہیئیں۔ گوشت میں فولاد، ویٹامن بی-1 (Vitamin B1) اور نیاسن (Niacin) بھی شامل ہوتے ہیں۔
نیز اگر آپ سبزی خور (Vegetarian) جانوروں یعنی گاے، بھیڑ اور بکری وغیرہ کے دانتوں کا مشاہدہ کریں تو آپ حیران کن حد تک ایک جیسے پائیں گے۔ ان تمام جانوروں کے دانت چوڑے ہوتے ہیں، جو سبز پتوں والی خوراک کے لیے موزوں ہیں۔ اور اگر آپ گوشت خور جانور جیسے شیر، چیتا اور کتا وغیرہ کے دانتوں کا مشاہدہ کریں تو ان کے دانت نوکیلے ہوتے ہیں، جو گوشت خوری کے لیے موزوں ہوتے ہیں۔ اور اگر آپ انسانی دانتوں کا مشاہدہ کریں تو آپ دیکھیں گے کہ ان میں چوڑے اور نوکیلے دونوں قسم کے دانت پائے جاتے ہیں۔ اس لیے ان کے دانت سبزی اور گوشت دونوں قسم کی خوراک کے لیے موزوں ہیں۔ یعنی وہ ہمہ خور ہیں۔ یہاں ایک سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر اللہ نے انسان کو محض سبزی خور بنایا ہوتا تو اس کے نوکیلے دانت کیوں ہوتے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔؟؟؟
یہ منطقی بات ہے کہ وہ جانتا تھا کہ انسان کو دونوں قسم کی خوراک کی ضرورت پڑے گی۔
یوں ہی چرندوں کا نظام انہضام صرف پتوں والی خوراک ہضم کر سکتا ہے اور اگر گوشت خور جانوروں کا نظام انہضام صرف گوشت ہضم کر سکتا ہے۔ لیکن انسان کا نظام انہضام سبزیوں اور گوشت دونوں قسم کی غذا ہضم کر سکتا ہے۔ اگر اللہ چاہتا کہ ہم صرف سبزیاں کھائیں تو پھر اس نے ہمیں ایسا نظام انہضام کیوں دیا جو سبزیوں اور گوشت دونوں قسم کی غذاؤں کو ہضم کر سکے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔؟؟؟
گوشت خوری ہندو دھرم کی روشنی مین:
ہندو دھرم کی مذہبی کتابوں سے بھی گوشت خوری کا ثبوت ملتا ہے۔ آج کل کے ہندو جو گوشت خوری سے روکتے ہیں در اصل وہ دوسرے مذاہب جیسے : جین دھرم اور بودھ دھرم وغیرہ سے متاثر ہو گئے ہیں اور اپنے راستے سے بھٹک گئے ہیں ورنہ ان کی مذہبی کتابیں تو گوشت خوری کا حکم دیتی ہیں مزید بر آں اس کی فضیلتیں بیان کرتی ہیں۔ ذیل میں دلیلیں ملاحظہ ہوں:
(1)
جو شخص ان جانوروں کا گوشت کھائے جن کا گوشت کھایا جاتا ہے تو وہ کوئی برا کام نہیں کرتا خواہ وہ ایسا روزانہ کرے کیوں کہ خدا نے کچھ چیزیں کھانے کے لیے پیدا کی ہیں اور کچھ کو ان چیزوں کو کھانے کے لیے پیدا کیا ہے۔
(منو سمرتی، باب: 5، سطر: 3)
(2)
قربانی کا گوشت کھانا صحیح ہے کیوں کہ یہی دیوتاؤں کا روایتی طریقہ رہا ہے۔
(منو سمرتی، باب:5، سطر: 31)
.(4)
مہا بھارت میں تو یہاں تک لکھا ہے کہ اگر چاول، جَو، چقندر اور پھل وغیرہ باپ دادا کو پیش کیے جائیں تو ان کی آتما کو ایک مہینے تک شانتی ملتی رہے گی۔
مچھلی پیش کرنے سے 2 مہینے تک
بھیڑ کے گوشت سے 3 مہینے تک
خرگوش کے گوشت سے 4 مہینے تک
بکری کے گوشت سے 5 مہینے تک
خنزیر کے گوشت سے 6 مہینے تک۔
پرندوں کے گوشت سے 7 مہینے تک
ہرن کے گوشت سے 8،9 مہینے تک
گاے کے گوشت سے 10 مہینے تک۔
بھینس کے گوشت سے 11 مہینے تک۔
اور نیل گاے کے گوشت سے پورے سال آتما کو شانتی ملتی رہے گی۔
(مہا بھارت، انوساشن پوروا، باب:88)
قارئین! آپ نے ملاحظہ فرمایا کہ گوشت خوری صرف اسلامی اور سائنسی نقطۂ نظر سے ہی نہیں بلکہ ہندو دھرم کے اعتبار سے بھی صحیح ہے جیسا کہ ان کی مذہبی کتابوں سے ثابت ہوا۔
اخیر میں بارگاہِ پروردگار میں دست بہ دعا ہوں کہ اللہ پاک اپنے حبیبِ پاک ﷺ کے طفیل ہمیں حق بات قبول کرنے اور اس پر عمل کرنے کی توفیق مرحمت فرمائے۔ (آمین۔ بجاہ النبی الکریم علیہ اکرم الصلاۃ والتسلیم)
فقیر محمد ناصر حسین ناصرؔ منیری
خادم : منیری فاؤنڈیشن
سینٹرل آفس : تغلق آباد، نئی دہلی
رابطہ نمبر : 9654812767،7499340533
Mashaa Allah. Bhut acchi koshish
ReplyDelete