شرح آداب المریدین --- ایک مختصر تبصرہ

شرح آداب المریدین --- ایک مختصر تبصرہ

تحریر : مولانا ناصر حسین 'ناصر' منیری
بانی و صدر: منیری فاؤنڈیشن، نئی دہلی

انسانی تاریخ میں تصوف یا  صوفی ازم ایک عالم گیر تحریک رہی ہے۔ مشہور مشتشرق ایچ۔ اے۔ آر۔ گب (H.A.R.Gibb) کا کہنا ہے:
"تاریخ اسلام میں بارہا ایسے مواقع آئے ہیں کہ اسلامی کلچر کا شدت سے مقابلہ کیا گیا لیکن بایں ہمہ مغلوب نہ ہو سکا۔ اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ تصوف یا صوفیہ کا انداز فکر فوراً اس کی مدد کو آ جاتا ہے اور اس کو  قوت و توانائی بخش دیتا ہے کہ کوئی طاقت اس کا مقابلہ نہیں کر سکتی۔" (1)
تصوف کی حقیقت بیان کرتے ہوئے علامہ ابن خلدون (م:808ھ) فرماتے ہیں:
"تصوف کی حقیقت یہ ہے کہ  دنیاوی آرائش و زیبائش سے کنارہ کش ہو کر عبادت کے لیے گوشہ نشینی اختیار کی جائے اور ہمہ تن اللہ رب العزت کی جانب  اپنی عنان توجہ موڑ لی جائے اور بہ غرض عبادت عام انسانون کے برعکس حب دنیا، طلب مال و جاہ سے بچا جائے اور مخلوق سے دنیاوی تعلقات منقطع کر لیے جائیں۔" (2)
زیر تبصرہ کتاب "شرح آداب المریدین" آداب المریدین (مصنف: خواجہ ابو نجیب سہروردی علیہ ارحمہ) کی شرح "مطالب الطالبین" (شارح: مخدوم جہاں حضرت شرف الدین یحییٰ منیری علیہ الرحمہ) کا اردو ترجمہ ہے، جسے مولانا قسیم الدین فردوسی اور ڈاکٹر علی ارشد فردوسی صاحبان نے بڑی عرق ریزی اور جاں فشانی سے پایۂ تکمیل تک  پہنچایا ہے۔ کتاب تصوف کے باب میں ایک حسین گل دستہ ہے۔
خواجہ ابو نجیب سہروردی علیہ الرحمہ پانچویں صدی ہجری کے ایک عظیم صوفی بزرگ گذرے ہیں۔ 490ھ کو قصبہ "سہرورد" بغداد میں آپ کی ولادت ہوئی، قاضی وجہ الدین ابو حفص علیہ الرحمہ سے بیعت و خلافت حاصل کی۔ صحبت و اخذ طریقت حضرت امام غزالی علیہ الرحمہ اور حضور غوث اعظم رضی اللہ عنہ سے بھی ہے۔ حضرت امام غزالی علیہ الرحمہ آپ کے متعلق فرماتے ہیں:
"ابو نجیب بہ ظاہر مجھ سے تصوف کے کمال حاصل کرتے ہیں، لیکن حقیقۃً یہ کمال میں ان سے حاصل کرتا ہوں۔" (3)
حضرت خواجہ ابو نجیب نے جب آداب المریدین تصنیف فرمائی تو آپ سے اس کی شرح لکھنے کی درخواست کی گئی، ارشاد ہوا:
"یہ خدمت میرے فرزندوں میں سے ایک انجام دے گا۔" (4)
اسی فرمان کے مطابق آپ کے فرزند معنوی میں سے ایک عظیم محقق، سلطان المحققین، مخدوم جہاں حضرت شرف الدین احمد یحییٰ منیری قدس سرہ القوی نے آداب المریدین کی ایک عظیم شرح لکھی، جس کا اردو ترجمہ زیر تبصرہ کتاب ہے۔
مخدوم جہاں علیہ الرحمہ 661ھ کو صوبہ بہار ضلع پٹنہ کے قصبہ "منیر شریف" میں تولد ہوئے۔ تعلیم و تربیت اپنے والد ماجد مخدوم منیری حضرت کمال الدین یحیی منیری (570ھ – 690ھ) اور علامہ ابو توامہ بخاری علیہ الرحمہ سے حاصل کی بیعت و خلافت حضرت نجیب الدین فردوسی دہلوی علیہ الرحمہ (م:690ھ) سے حاصل ہے۔ آپ کا وصال پر ملال 6 شوال المکرم 782ھ کو ہوا۔ آپ کا مزار مبارک صوبہ بہار ضلع نالندہ کے قصبہ "بہار شریف" میں ہے۔
مصنف آداب المریدین خواجہ ابو نجیب سہروردی علیہ الرحمہ ایک جانب شارح کتاب حضرت مخدوم جہاں  قدس سرہ کے شیخ ہیں تو دوسری جانب خود مخدوم جہاں سلطان المحققین ہیں ۔ اس بنا پر کتاب کے مطالعے میں خاص لطف آتا ہے۔ ایک جانب مخدوم جہاں کے طریقۂ استدلال کا حسن ہوتا ہے تو دوسری طرف یہ کمال کہ ادب شیخ میں ذرہ برابر فرق نہ آئے۔ ایسے موقع پر اگر شیخ کی روش کے علاوہ کسی محاکمے کا عنوان اختیار فرماتے ہیں تو دوسری طرف ان کے عنوان کی تاویل بھی فرما دیتے ہیں۔ مثلاً: معتقدات صوفیہ کے سلسلے میں ماتن علیہ الرحمہ نے ذات باری تعالیٰ سے جسمیت اور جوہریت کی نفی کا عنوان اختیار فرمایا تو شرح میں حضرت مخدوم جہاں، خواجہ عین القضاۃ علیہ الرحمہ کا قول نقل فرماتے ہیں کہ
"مجھے اس بات سے شرم آتی ہے کہ متکلمین خداے تعالیٰ کی تنزیہ و تقدیس اس طرح کرتے ہیں کہ خدا جسم نہیں، جوہر نہیں، عرض نہیں اور اپنے خیال میں یہ سمجھتے ہیں کہ یہ بہت بڑا کام ہے۔ یہ ایسا ہی ہے جیسے کوئی کہے اس شہر کا بادشاہ اینٹ نہیں، پتھر نہیں۔ کب یہ اس کی مدح ہوگی؟ قسم ہے اس خداوند جل و علا کی، اس نے اٹھارہ ہزار عالم بنائے ہیں اور تمام عالمین میں کم ترین عالم اجسام ہے۔" (5)
اس قول کے نقل کرنے سے ذہن اس بات کی طرف مائل ہوسکتا ہے کہ ماتن علیہ الرحمہ نے جو عنوان اختیار فرمایا ہے اس کے مقابل یہ عنوان درج کرنا کہیں اس بنا پر تو نہیں کہ شارح کو ماتن پر اعتراض ہے، لیکن سرسری طور پر فیصلہ نہ کیا جائے تو قول کی جتنی عبارت کتاب مین درج کی گئی ہے اس سے یہ اشارہ ملتا ہے کہ یہ عنوان تو  آداب صوفیہ میں نہیں، لیکن ماتن نے در اصل متکلمین کے فکری انداز میں سوچنے والوں کی اصلاح فرمائی ہے، تاکہ ہر شخص متکلمین کے انداز فکر پر غلطی میں مبتلا نہ ہو جائے۔
سبحان اللہ! کیا کمال ہے۔ محض قول کے نقل ہی میں بہ یک وقت دو باتیں بیان کی جا رہی ہیں۔ ایک تو یہ بتایا جا رہا ہے کہ شان توحید کا یہ انداز ماتن اپنی تنزیہ و ادب کے مقام سے نہیں کہ رہے ہیں، بلکہ ان کا اپنا مقام و ادب تو  بہت اونچا ہے، البتہ یہ عنوان مخاطب کی سطح کو ملحوظ رکھتے ہوئے اختیار کیا جا رہا ہے اور یہ دونوں باتیں قول کی نقل اور اس کی عبارت کی مقدار سے حاصل کر لی گئی ہیں۔ پھر آخر میں اعتذار پیش کرتے ہوئے مفہوم کو ظاہر و مبین کر دیا گیا کہ
"اب جب کہ ہم نا جنسیوں کی صحبت میں مبتلا ہو گئے ہیں تو ایسے لوگوں کی زبان میں ہی گفتگو کرنی چاہیے۔" (6)
قارئین کو اس کتاب کے مطالعے کے بعد اندازہ ہوگا کہ اس کتاب میں کیا نہیں ہے؟ جلال کبریائی بھی ہے اور جمال مصطفائی بھی--- سند عشق بھی ہے اور جام شریعت بھی --- دعوت فکر بھی ہے اور عزیمت ذکر بھی --- حقوق نفس بھی ہے اور حظوظ نفس بھی --- غضب الٰہی کا خوف بھی ہے اور رحمت الٰہی کی بشارت بھی --- پھر انداز تحریر کہیں مفسرانہ ہے تو کہیں محدثانہ --- کہیں متکلمانہ ہے تو کہیں فقیہانہ --- اور سب رنگوں میں ہم رنگ ہونے کے با وجود اس میں جو عارفانہ ترنگ ہے وہ اس کتاب کا خاص رنگ ہے، جو کہیں اور نہیں پایا جاتا۔ اس لیے  امید ہے کہ یہ کتاب ارباب ذوق  کے حلقے میں دل چسپی اور شوق سے پڑھی جائے گی۔

مصادر و مراجع:
(1) ماہ نامہ اشرفیہ مبارک پور، مارچ 2011ء، ص: 34
(2) مصدر سابق، ص: 32
(3) شرح اداب المریدین، ص: 24
(4) مصدر سابق، ص: 12
(5) مصدر سابق، ص: 14
(6) مصدر سابق، ص: 15

Comments

Post a Comment

Popular posts from this blog