ماں کا حق، باپ کے حق سے زائد ہے
ماں کا حق، باپ کے حق سے زائد ہے
تحریر : ناصر منیری
اللہ پاک کا فرمان ہے:
وَ وَصَّیۡنَا الْاِنۡسَانَ بِوَالِدَیۡہِ اِحْسٰنًا ؕ حَمَلَتْہُ اُمُّہٗ کُرْہًا وَّ وَضَعَتْہُ کُرْہًا ؕ وَ حَمْلُہٗ وَ فِصٰلُہٗ ثَلٰثُوۡنَ شَہۡرًا (پارہ:26، سورۃ الاحقاف، آیت: 15۔)۔
اور ہم نے انسان کو اپنے والدین کے ساتھ نیک سلوک کرنے کا حکم فرمایا۔ اس کی ماں نے اس کو تکلیف سے (پیٹ میں) اٹھائے رکھا اور اسے تکلیف کے ساتھ جنا، اور اس کا (پیٹ میں) اٹھانا اور اس کا دودھ چھڑانا (یعنی زمانۂ حمل و رضاعت) تیس ماہ (پر مشتمل) ہے۔
اس آیت کریمہ میں اللہ پاک نے پہلے تو ماں اور باپ دونوں کے حق میں تاکید فرمائی، پھر ماں کو الگ کر کے خاص طور سے گِنا اور اس کی ان سختیوں اور تکلیفوں کو شمار فرمایا جو اسے حمل و ولادت اور دو برس تک دودھ کی شکل میں اپنا خون جگر پلانے میں پیش آئیں، جن کے باعث اس کا حق بہُت زیادہ ہوگیا۔
اسی طرح دوسری آیت میں ارشاد فرمایا:
وَوَصَّیۡنَا الْاِنۡسَانَ بِوَالِدَیۡہِ ۚ حَمَلَتْہُ اُمُّہٗ وَہۡنًا عَلٰی وَہۡنٍ وَّ فِصٰلُہٗ فِیۡ عَامَیۡنِ اَنِ اشْکُرْ لِیۡ وَ لِوَالِدَیۡکَ (پارہ: 21، سورہ لقمان، آیت: 16۔)
اور ہم نے انسان کو اس کے والدین کے بارے میں (نیکی کا) تاکیدی حکم فرمایا، جسے اس کی ماں تکلیف پر تکلیف کی حالت میں (اپنے پیٹ میں) برداشت کرتی رہی اور جس کا دودھ چھوٹنا بھی دو سال میں ہے (اسے یہ حکم دیا) کہ تو میرا (بھی) شکر ادا کر اور اپنے والدین کا بھی۔
یہاں ماں باپ کے حق کی کوئی انتہا نہ رکھی کیوں کہ انھیں اپنے حقِ جلیل کے ساتھ شمار کیا۔
حکم دیا کہ تو میرا بھی شکر ادا کر اور اپنے والدین کا بھی۔
اللہ أکبر! یہ دونوں آیتیں اور اسی طرح کی بہت ساری حدیثیں اس بات پر دلالت کرتی ہیں کہ ماں کا حق، باپ کے حق سے زائد ہے، ذیل میں احادیث طیبہ ملاحظہ فرمائیں۔
ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں:
سألت رسول اللہ ﷺ: أيّ الناس أعظم حقّاً علی المرأۃ؟ قال: زوجھا، قلت: فأيّ الناس أعظم حقّاً علی الرجل؟ قال: أمّہ۔
رواہ البزار بسند حسن والحاکم
(المستدرک علی الصحیحین، کتاب البرّ والصلۃ، باب بر أمّک ثمّ أباک ثمّ الأقرب فالأقرب، ج:5، ص:208، الحدیث: 7324۔)۔
یعنی میں نے حضور اقدس ﷺ سے عرض کی: عورت پر سب سے بڑا حق کس کا ہے ؟ فرمایا: شوہر کا
میں نے عرض کی: اور مرد پر سب سے بڑا حق کس کا ہے؟
فرمایا: اس کی ماں کا۔
(بزار نے بسندِ حسن اور حاکم نے اسے روایت کیا۔)
ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں:
جاء رجل إلی رسول اللہ ﷺ فقال: یا رسول اللہ ﷺ! من أحقّ الناس بحسن صحابتي؟ قال: أمّک، قال: ثمّ من؟ قال: أمّک، قال: ثم من؟ قال: أمّک، قال: ثم من؟ قال: أبوک۔
رواہ الشیخان في ''صحیحھما''
(صحیح البخاري، کتاب الأدب، باب من أحقّ الناس بحسن الصحبۃ، ج:4، ص:93، الحدیث: 5971۔)۔
ایک شخص نے حضور ﷺ خدمت میں حاضر ہو کر عرض کی: یا رسول اللہ ﷺ! سب سے زیادہ کون اس کا مستحق ہے کہ میں اس کے ساتھ نیک رفاقت کروں؟
فرمایا: تیری ماں
عرض کی: پھر
فرمایا: تیری ماں
عرض کی: پھر
فرمایا: تیری ماں
عرض کی:پھر
فرمایا: تیرا باپ
(اما م بخاری اور مسلم نے اپنی اپنی ''صحیح'' میں اسے روایت کیا۔)
تیسری حدیث میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ فرماتے ہیں:
أوصي الرجل بأمّہ، أوصي الرجل بأمّہ، أوصي الرجل بأمّہ، أوصيالرجل بأبیہ،
رواہ الإمام أحمد وابن ماجہ والحاکم والبیھقي في ''السنن'' عن أبي سلامۃ
(المستدرک علی الصحیحین، کتاب البرّ والصلۃ، باب برّ أمّک ثمّ أباک ثمّ الأقرب فالأقرب، ج: 5، ص: 208، الحدیث: 7325، إنّ ہذہ الروایۃ بالمعنی واللفظ غیرھا۔)۔
میں ایک آدمی کو
وصیت کرتا ہوں اس کی ماں کے حق میں
وصیت کرتا ہوں اس کی ماں کے حق میں
وصیت کرتا ہوں اس کی ماں کے حق میں
وصیت کرتا ہوں اس کے باپ کے حق میں۔
(امام احمد اور ابن ما جہ اور حاکم اور بیہقی نے'' سنن'' میں ابو سلامہ سے اسے روایت کیا۔)
مذکورہ قرآنی آیات اور نبوی ارشادات سے معلوم ہوا کہ والدین میں ماں کا مقام و مرتبہ افضل و اعلیٰ ہے۔ مگر یہ افضلیت کن چیزوں میں ہے اس کی وضاحت اعلیٰ حضرت نے اپنی کتاب "الحقوق لطرح العقوق" میں بڑے نفیس انداز میں فرمائی ہے۔ لکھتے ہیں:
"اس زیادت کے یہ معنٰی ہیں کہ خدمت میں ، دینے میں باپ پر ماں کو ترجیح دے مثلاً سو روپے ہیں اور کوئی خاص وجہ مانعِ تفضیلِ مادر نہیں تو باپ کو پچیس دے ماں کو پچھتر، یا ماں باپ دونوں نے ایک ساتھ پانی مانگا تو پہلے ماں کو پلائے پھر باپ کو، یا دونوں سفر سے آئے ہیں پہلے ماں کے پاؤں دبائے پھر باپ کے، وعلی ھذا القیاس۔
نہ یہ کہ اگر والدین میں باہم تنازع ہو تو ماں کا ساتھ دے کر معاذ اللہ! باپ کے درپے ایذا ہو یا اس پر کسی طرح درشتی کرے یا اُسے جواب دے یا بے ادبانہ آنکھ ملا کر بات کرے، یہ سب باتیں حرام اوراللہ پاک کی معصیت ہیں، نہ ماں کی اطاعت ہے نہ باپ کی، تو اسے ماں باپ میں سے کسی کا ایسا ساتھ دینا ہر گز جائز نہیں ، وہ دونوں اس کی جنّت ونار ہیں ، جسے ایذا دے گا دوزخ کا مستحق ہوگا والعیاذ باللہ، معصیتِ خالق میں کسی کی اطاعت نہیں، اگر مثلاً ماں چاہتی ہے کہ یہ باپ کو کسی طرح کا آزار پہنچائے اور یہ نہیں مانتا تو وہ ناراض ہوتی ہے، ہونے دے اور ہر گز نہ مانے ، ایسے ہی باپ کی طرف سے ماں کے معاملے میں ۔ ان کی ایسی ناراضیاں کچھ قابلِ لحاظ نہ ہوں گی کہ یہ ان کی نِری زیادتی ہے کہ اس سے اللہ تعالیٰ کی نافرمانی چاہتے ہیں بلکہ ہمارے علماے کرام نے یوں تقسیم فرمائی ہے کہ خدمت میں ماں کو ترجیح ہے جس کی مثالیں ہم لکھ آئے ہیں، اور تعظیم باپ کی زائد ہے کہ وہ اس کی ماں کا بھی حاکم وآقا ہے۔"
(الحقوق لطرح العقوق، ص: 36)
فتاویٰ عالم گیری میں ہے:
إذا تعذّر علیہ جمع مراعاۃ حقّ الوالدین بأن یتأذّی أحدھما بمراعاۃ الآخر یرجح حقّ الأب فیما یرجع إلی التعظیم والاحترام وحقّ الأمّ فیما یرجع إلی الخدمۃ والإنعام وعن علاء الأئمّۃ الحمامي قال مشایخنا رحمھم اللہ تعالٰی: الأب یقدم علی الأمّ في الاحترام والأمّ في الخدمۃ حتی لو دخلا علیہ في البیت یقوم للأب ولو سألا منہ مآء ولم یأخذ من یدہ أحدھما فیبدأ بالأمّ کذا في ''القنیۃ''، واللہ سبحانہ وتعالٰی أعلم وعلمہ جلّ مجدہ أحکم
(الفتاوی العالم کیریہ، کتاب الکراھیۃ، الباب السادس والعشرون في الرجل یخرج إلی السفر، ج:5، ص:345۔)۔
جب آدمی کے لیے والدین میں سے ہر ایک کے حق کی رعایت مشکل ہو جائے مثلاً ایک کی رعایت سے دوسرے کو تکلیف پہنچتی ہے تو تعظیم واحترام میں والد کے حق کی رعایت کرے اور خدمت میں والدہ کے حق کی۔
علامہ حمامی نے فرمایا ہمارے امام فرماتے ہیں کہ احترام میں باپ مقدم ہے اور خدمت میں والدہ مقدم ہوگی حتّٰی کہ اگر گھر میں دونوں اس کے پاس آئے ہیں تو باپ کی تعظیم کے لیے کھڑا ہو اور اگر دونوں نے اس سے پانی مانگا اور کسی نے اس کے ہاتھ سے پانی نہیں پکڑا تو پہلے والدہ کو پیش کرے ، اسی طرح ''قنیہ'' میں ہے۔
اخیر میں بارگاہ رب ذوالجلال میں دعا ہے کہ مولاے رحیم اپنے حبیب کریم علیہ الصلاۃ والتسلیم کے بطفیل عمیم ہمارے والدین کریمین پر رحم و کرم فرمائے جس طرح وہ ہماری صغر سنی میں رحم و کرم سے پیش آئے (رَّبِّ ارْحَمْهُمَا كَمَا رَبَّيَانِي صَغِيرًا) اور ہمیں اپنے ماں باپ کا فرماں بردار بنائے۔
آمین۔ بجاہ النبی الامین علیہ اکرم الصلاۃ وافضل التسلیم
گداے دربار منیری
فقیر محمد ناصر حسین ناصرؔ منیری
خادم : منیری فاؤنڈیشن آف انڈیا تغلق آباد، نئی دہلی
اتوار، 8، مئی 2016
رابطہ نمبر: 9654812767،7499340533
Comments
Post a Comment