معمولات عید الاضحیٰ۔۔۔حدیثوں کی روشنی میں از: ناصرؔ منیری
معمولات عید الاضحیٰ۔۔۔حدیثوں کی روشنی میں
تحریر : محمد ناصرؔ منیری
منیری فاونڈیشن، دہلی
رابطہ نمبر: +91 9654812767
اللہ پاک نے ہمیں تین عیدوں کا تحفہ عنایت فرمایا۔ عید میلاد النبیﷺ عید الفطر اور عید الاضحی۔ عید میلاد النبی ﷺ عیدوں کی عید ہے کہ اسی دن حضور ﷺ کی ولادت ہوئی۔ عید الفطر رمضان کی عبادتوں کے بعد اللہ پاک ہمیں انعام کی شکل میں عطا فرماتا ہے اور عید الاضحیٰ کو ہم حضرت ابراہیم علیہ السلام کی یادگار کے طور پر مناتے ہیں۔ یہاں عید الاضحیٰ کے کچھ احکام و مسائل بیان کیے جا رہے ہیں۔
تکبیرِ تشریق :نویں ذی الحجہ کی فجر سے تیرہویں کی عصر تک ہر نماز فرض پنج گانہ کے بعد جو مستحب جماعت کے ساتھ ادا کی گئی ہو، ایک بار بلند آواز سے تکبیر کہنا واجب ہے اور تین بار افضل۔ اسے تکبیر تشریق کہتے ہیں، وہ یہ ہے:
اَللہُ اَکْبَرْ اَللہُ اَکْبَرْ لَآ اِلٰـہَ اِلَّا اللہُ وَاللہُ اَکْبَرْ اَللہُ اَکْبَرْ وَلِلّٰہِ الْحَمْدُ ؕ (تنوير الابصار،3/ 71-74)
عید الاضحیٰ کے مستحبات: بقر عیدکے دن یہ چیزیں مستحب ہيں: حجامت بنوانا ، ناخن ترشوانا، غسل کرنا، مسواک کرنا، اچھے کپڑے پہننا، خوش بو لگانا، عیدگاہ اطمینان و وقار کے ساتھ پیدل جانا۔ایک راستے سے جانا اور دوسرے سے واپس آنا۔جانے سے پہلے کچھ نہ کھانا۔ راستے میں بلند آواز سے تکبیر کہنا۔ خوشی ظاہر کرنا اور خوب صدقہ و خیرات کرنا وغیرہ۔ (فتاوی ہندیۃ، 1/ 149، دُرِّمختار،3/ 54 وغیرہ)
نمازِ عیدالاضحیٰ کا طریقہ:پہلے یوں نیت کریں “نیت کی میں نے دو رکعت نماز واجب عید الاضحیٰ کی چھ زائد تکبیروں کے ساتھ اللہ تعالیٰ کے لیے پیچھے اس امام کے منہ میرا کعبے کی طرف اللہ اکبر” اور ہاتھ باندھ کر ثنا پڑھیں۔ پھر تین تکبیریں کہیں۔ ہر تکبیر میں ہاتھ کانوں تک اٹھا کر چھوڑ دیں۔ تیسری تکبیر کے بعد ہاتھ باندھ لیں۔ پھر امام صاحب قراءت کریں گے، مقتدی سنیں۔ دوسری رکعت میں قراءت ختم کر کے تین تکبیر یں کہیں۔ ہر تکبیر میں ہاتھ کانوں تک اٹھائیں اور چھوڑ دیں۔چھوتھی تکبیر کہہ کر رکوع کریں۔ چوتھی تکبیر میں ہاتھ نہ اٹھائیں نہ باندھیں۔ پھر دوسری نمازوں کی طرح نماز پوری کریں۔ نماز کے بعد خطبہ سنیں۔
قربانی کی فضیلت : قربانی اسلام کا ایک شعار ہے، جس کی بہت فضیلت و اہمیت ہے۔ رسولِ پاک ﷺ کو قربانی کا حکم دیا گیا۔ اللہ پاک نے فرمایا: اپنے رب کے لیے نماز پڑھو اور قربانی کرو۔ (سورۂ کوثر، آیت: 2) حدیث شریف میں اس کی بڑی تاکید آئی ہے۔ اس کے کرنے پر ثواب اور چھوڑنے پر عذاب ہے۔ رسولِ پاک ﷺ نے فرمایا: قربانی کے دنوں میں انسان کا کوئی عمل اللہ پاک کے نزدیک قربانی کرنےسے زیادہ پیارا نہیں اور وہ جانور قیامت کے دن اپنے سینگ اور بال اور کھروں کے ساتھ آئے گا اور قربانی کا خون زمین پر گرنے سے پہلے اللہ پاک کے نزدیک قبولیت کے مقام پر پہنچ جاتا ہے لہٰذا اس کو خوش دلی سے کرو۔ (ترمذی شریف، 3/ 162، حدیث نمبر : 1498) دوسری حدیث میں ہے: جس میں وسعت ہو اور قربانی نہ کرے وہ ہماری عیدگاہ کے قریب نہ آئے۔(سننِ ابنِ ماجہ 3/ 529، حدیث نمبر : 3123)
قربانی کے مسائل :
(1)قربانی ہر مسلمان، مکلف، آزاد،مقیم، صاحبِ نِصاب پر واجب ہے۔
(2)صاحبِ نِصاب وہ ہے جس کے پاس حاجتِ اصلیہ کے علاوہ ساڑھے باون تولہ (653.184گرام) چاندی یا ساڑھے سات تولہ (93.312گرام) سونا یا اتنی قیمت کی کوئی چیز ہو۔
(3) حاجتِ اصلیہ وہ چیز ہے، جو زندگی گذارنے کے لیے ضروری ہے۔ جیسے:مکان وغیرہ۔
(4)قربانی واجب ہونے کے لیے مرد ہونا ضروری نہیں عورت پر بھی واجب ہے۔
(5) گھر میں جتنے لوگ صاحبِ نصاب ہیں سب پر اپنی طرف سے قربانی واجب ہے۔
(6)صاحبِ نصاب اگر کسی دوسرے کے نام سے جیسے رسولِ پاک ﷺ یا کسی بزرگ یا کسی مرحوم کے نام سے کرنا چاہے تو اس کے لیے دوسری قربانی کرنی ہوگی۔
(7)صاحبِ نصاب جب تک نصاب کا مالک ہے اس پر ہر سال قربانی واجب ہے ۔
(8)صاحبِ نصاب نے اگر قربانی کی منت مانی تو اس پر دو قربانیاں واجب ہو گئیں۔ ایک وہ جو اس پر واجب ہوتی ہے اور دوسری منت کی وجہ ہے۔ اور دو یا دو سے زیادہ کی منت مانی تو جتنی کی منت مانی سب واجب ہیں۔
(9)بالغ لڑکوں یا بیوی کی طرف سے قربانی کرنا چاہیں تو ان سے اجازت لینی ہوگی۔ بغیر اجازت کرنے سے ان کی طرف سے واجب ادا نہیں ہوگا۔
(10)قربانی کے دنوں میں قربانی ہی ضروری ہے ، اس کی جگہ کوئی دوسری چیز نہیں ہو سکتی، یعنی قربانی کے بدلے اس کی قیمت صدقہ کر دینا کافی نہیں۔
(11)قربانی کا وقت دسویں ذی الحجہ کی صبح سے بارہویں کی عصر تک ہے۔
(12)جہاں نمازِ عید ہوتی ہو وہاں نماز سے پہلے قربانی درست نہیں۔
(13)قربانی کے جانور کے لیے ضروری ہے کہ اونٹ : پانچ سال، گاے، بیل، بھینس: دو سال اور بکرا ایک سال کا ہو۔ اس سے ایک دن کا بھی کم ہو تو اس کی قربانی نہیں ہوگی ۔
(14)قربانی کا جانور بے عیب ہو، ورنہ اگر کان ، دُم ایک تہائی سے زیادہ کٹے ہوں ، سینگ جڑ سے ٹوٹا ہو تو ایسے جانور کی قربانی جائز نہیں۔ اسی طرح کوئی جانور اتنا کم زور ہے کہ قربان گاہ تک خود نہیں پہنچ سکتایا لنگڑا ہے یا کھجلی کی بیماری ہے، جو گوشت تک پہنچ چکی ہے تو ان کی قربانی نہیں ہوگی۔
(15)قربانی کا جانور خریدنے کے بعد اگر لنگڑا ہوا یا کوئی قابلِ اعتبار عیب پیدا ہو گیا تو اگر جانور خریدنے والا اب بھی صاحبِ نصاب ہے تو اس پر نیا جانور خرید کر قربانی کرنا واجب ہے۔
(16)ایک جانور میں جتنے لوگ شریک ہیں سب کا عقیدہ صحیح ہونا ضروری ہے، اگر ان میں کوئی بدمذہب ہو یا کسی کی نیت صرف گوشت کھانے کی ہو تو کسی کی قربانی نہیں ہوگی۔
(17)جس کے نام سے قربانی ہونی ہے اسے چاند دیکھ کر قربانی کرنے تک بال اور ناخن نہ کاٹنا اور بقرعید کے دن قربانی ہونے تک کچھ نہ کھانا مستحب ہے، لیکن اس دن روزے کی نیت سے بھوکا رہنا حرام ہے۔
ذبح کے مسائل :
(18)ایک جانور کے سامنے دوسرے کو ذبح کرنا منع ہے۔ رات میں ذبح کرنا مکروہ ہے۔ ذبح کے وقت تین رگیں کاٹنا اور ذبح سے پہلے بسم اللہ اللہ اکبر پڑھنا ضروری ہے۔
گوشت کے مسائل :
(19)قربانی کا گوشت غیر مسلم کو دینا صحیح نہیں ہے۔ قصاب کو اجرت کے طور پر دینا نا جائز ہے۔ قربانی کا گوشت اندازے سے بانٹنا جائز نہیں بلکہ وزن کر کے تقسیم کرنا ضروری ہے۔
کھال کے مسائل :
(20)قربانی کی کھال یا اسے بیچ کر اس کی قیمت مدرسہ، مسجد اور ہر کارِ خیر میں دی جا سکتی ہے۔ اسے قصاب کو اجرت کے طور پر دینا جائز نہیں۔ حدیثِ پاک میں جو بیچنے کے لیے منع کیا گیا ہے وہ اپنے لیے بیچنا ہے۔
قربانی کا طریقہ :
جانور کو بائیں پہلو پر اس طرح لٹائیں کہ اُس کا مُنہ کعبے کی طرف ہو اور اپنا داہنا پاؤں اُس کے پہلو پر رکھ کر تیز چُھری سے جلد ذبح کر یں اور ذبح سے پہلے یہ دُعا پڑھیں:
اِنِّیْ وَجَّھْتُ وَجْھِیَ لِلَّذِیْ فَطَرَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ حَنِیْفًا وَّمَا اَنَا مِنَ الْمُشْرِکِیْنَ اِنَّ صَلَا تِیْ وَنُسُکِیْ وَمَحْیَایَ وَ مَمَاتِیْ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ لاشَرِیْکَ لَہٗ وَ بِذٰلِکَ اُمِرْتُ وَاَنَا مِنَ الْمُسْلِمِیْنَ اَللّٰھُمَّ لَکَ وَمِنْکَ بِسْمِ اللہِ اَللہُ اَکْبَرُ.
اِسے پڑھ کر ذبح کر یں۔ قربانی اپنی طرف سے ہو تو ذبح کے بعد یہ دُعا پڑھیں۔
اَللّٰھُمَّ تَقَبَّلَ مِنِّی کَمَا تَقَبَّلْتَ مِنْ خَلِیْلِکَ اِبْرَاھِیْمَ عَلَیْہِ السَّلَامُ وَحَبِیْبِکَ مُحَمَّدٍ ﷺ
اور اگر دوسرے کی طرف سے ہو تو مِن کہہ کر اس کا نام لیں اور بِن کہہ کر اس کے والد کا نام لیں۔
(ماخوذ از: در مختار، تنویر الابصار، فتاویٰ خانیہ، فتاویٰ ہندیہ، بہارِ شریعت وغیرہ)
اخیر میں اللہ پاک کی بارگاہ میں دعا ہےکہ مولاے پاک اپنے حبیبِ پاک ﷺ کے طفیل ہمیں خلوصِ نیت کے قربانی کرنے کی توفیق مرحمت فرمائے اور ہماری قربانیوں کو اپنی بارگاہ میں قبول و مقبول فرمائے۔ (آمین۔ بجاہ النبی الکریم علیہ اکرم الصلاۃ والتسلیم)
Comments
Post a Comment