سلطان المخدومین حضرت سیدنا کمال الدین یحییٰ منیری علیہ الرحمہ اور حفاظتِ زباناز قلم: ناچیز ناصرؔ منیری کان اللہ لہڈائریکٹر :ریسرچ سینٹر، خانقاہ منیر شریفرابطہ نمبر: 9905763238سلطان المخدومین حضرت سیدنا کمال الدین یحییٰ منیری علیہ الرحمہ والرضوان اپنے وقت کے عظیم المرتبت، رفیع الشان اور عدیم النظیر صوفی بزرگ گذرے ہیں۔ آپ کا شمار اپنے وقت کے کبار صوفیہ میں ہوتا ہے۔ آپ مذہب مہذب اسلام کے مخلص داعی اور تصوف و روحانیت کے سچے مبلغ تھے۔ آپ نے اپنی پوری زندگی خلقِ خدا کی خدمت، متلاشیانِ راہِ حق کی رہ نمائی و ہدایت اور تعلیماتِ تصوف کی ترویج و اشاعت میں گذاری۔ ذیل میں صوفی ازم کی تعلیمات میں سے حفاظتِ زبان پر روشنی ڈالی جا رہی ہے۔زبان کاخطرہ بہت بڑاہے اوراس کے خطرے سے نجات صرف خاموشی میں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ تاج دارِ کائنات ﷺنے خاموشی کی تعریف کی اورخاموش رہنے کی ترغیب دی ۔ جیسا کہ تاج دارِ کائنات ﷺ کافرمانِ عالی شان ہے: ''مَنْ صَمَتَ نَجَا یعنی:جوخاموش رہااس نے نجات پائی۔'' (جامع الترمذی، ابواب صفۃ القیامۃ، باب حدیث من کان یؤمن اﷲ فلیکرم ضیفہ، الحدیث۲۵۰۱،ص۱۹۰۳)تاج دارِ کائنات ﷺ مزید فرماتے ہیں:''اَلصَّمَتُ حِکَمٌ وَقَلِیْلٌ فَاعِلُہٗ یعنی: خاموشی حکمت ہے اوراِسے اختیارکرنے والے کم ہیں۔'' (شعب الایمان للبیھقی، باب فی حفظ اللسان، فصل فی فضل السکوت عما لا یعنیہ، الحدیث۵۰۲۶،ج۴،ص۲۶۴)ایک اور مقام پر تاج دارِ کائنات ﷺ فرماتے ہیں:مَنْ یَّتَکَفَّلُ لِیْ مَابَیْنَ لِحْیَیْہِ وَرِجْلَیْہِ اَتَکَفَّلُ لَہُ بِالْجَنَّۃِیعنی:جوشخص مجھے دوجبڑوں کے درمیان والی چیز( یعنی زبان) اور دو ٹانگوں کے درمیان والی چیز( یعنی شرم گاہ)کی ضمانت دے میں اسے جنت کی ضمانت دیتا ہوں۔(صحیح البخاری، کتاب الرقاق، باب حفظ اللِّسان، الحدیث۶۴۷۴،ص۵۴۳،مفہومًا)ایک روایت میں ہے کہ حضرت سیِّدُنا معاذبن جبل رضی اللہ عنہ نے عرض کی: '' یارسول اللہ ﷺ!مجھے وصیت فرمائیں۔'' آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا:'پروردگارِ کائنات کی اس طرح عبادت کرگویا تواسے دیکھ رہا ہے، اپنے آپ کومرنے والوں میں شمارکر،اوراگرتو چاہے تومیں تجھے بتاؤں ،کہ تیرے لیے کون سی چیز بہتر ہے، پھرآپ ﷺ نے اپنی زبان مبارک کی طرف اشارہ فرمایا۔'' (موسوعۃ لابن ابی الدنیا، کتاب الصَّمْت وآداب اللِّسان، باب حفظ اللسان وفضل الصَمت، الحدیث۲۲، ج۷، ص۲ ۴۔۴۳) حضرت سیِّدُنا معاذبن جبل رضی اللہ عنہ سے مروی ہے آپ فرماتے ہیں کہ میں نے عرض کی: ''یارسول اللہ ﷺ!کیاہماری گفتگوپربھی مؤاخذہ ہوگا؟ '' آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا: ''اے ابنِ جبل!تیری ماں تجھ پر روئے، لوگوں کوان کے نتھنوں کے بل جہنم میں گرانے والی زبان کی کاٹی ہوئی کھیتی (یعنی گفتگو)کے سوا اور کیا ہے۔ (جامع الترمذی، ابواب الایمان، باب ماجاء فی حرمۃ الصلاۃ، الحدیث۲۶۱۶،ص۱۹۱۵) امیرالمؤمنین حضرت سَیِّدُناابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ اپنے منہ میں چھوٹے چھوٹے پتھررکھتے تھے، جن کے ذریعے گفتگو سے پرہیزکرتے ،نیزآپ رضی اللہ عنہ اپنی زبان کی طرف اشارہ کرکے فرماتے:''اس نے مجھے ہلاکت کی جگہوں میں پہنچایا۔'' حضرت سیِّدُنا عبداللہ ابن مسعودرضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: ''اُس پروردگارِ کائنات کی قسم جس کے سواکوئی معبودنہیں!کوئی چیز زبان سے زیادہ قیدکی محتاج نہیں۔''(1) بے مقصد کلام کرنا: جان لو!جب تم بے مقصدگفتگوکروگے، یعنی ایسی گفتگوجس کی تمھیں حاجت نہیں،تواپناوقت ضائع کروگے اوراس کے ذریعے اپنے آپ کوحساب وکتاب کے لیے پیش کروگے، تواس طرح تم اچھی چیزدے کراس کے بدلے بری چیزلینے والے بن جاؤ گے ،کیوں کہ اگرتم اس کی بجاے پروردگارِ کائنات کاذکرکرتے یاخاموش رہتے یاغورو فکر میں مشغو ل رہتے تواس کے نتیجے میں بلند درجات پالیتے۔تاج دارِ کائنات ﷺ کافرمان ہے:مِنْ حُسْنِ اِسْلاَمِ الْمَرْءِ تَرْکُہ، مَالَایَعْنِیْہِ۔یعنی:انسان کے اسلام کی اچھائی، فضول باتوں کو ترک کر دینا ہے۔(جامع الترمذی، ابواب الزھد، باب حدیث: من حسن اِسلام المرء ترکہ مالایعنیہ، الحدیث۲۳۱۷،ص۱۸۸۵) حضرت سَیِّدُناانس رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ اُحد کے دن ہماراایک غلام شہیدہوگیا،ہم نے اسے بھوک کی وجہ سے پیٹ پرپتھرباندھے ہوئے پایا،اس کی ماں نے اس کے چہرے سے گردوغبارصاف کرتے ہوئے کہا: اے بیٹے !تمھیں جنت مبارک ہو۔تو تاج دارِ کائنات ﷺ نے ارشاد فرمایا:''تمھیں کیسے معلوم ہوا ؟(کہ یہ جنتی ہے)ہوسکتاہے یہ فضول کلام کرتا ہو اور ایسی گفتگوسے منع کرتاہوجو اسے نقصان نہ پہنچاتی تھی۔'' (موسوعۃ لابن ابی الدنیا، کتاب الصَّمْت وآداب اللِّسان، باب النھی عن الکلام فیما لایعنیک، الحدیث۱۰۹، ج ۷ ، ص ۸۵) بے مقصد کلام یہ ہے کہ مجلس میں ایسے سچے واقعات بیان کیا جائے جو دورانِ سفر پہاڑوں اور جنگلوں میں پیش آئیں۔(2) فضول گوئی کرنا: دوسری آفت یہ ہے کہ توایسی بات کا تکرار کرے جس کے تکرار کرنے کاکوئی فائدہ نہ ہواور اس میں زیادہ الفاظ استعمال کرے جن کی ضرورت نہ ہو۔حضرت سَیِّدُناعطابن ابی رباح رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ ارشاد فرماتے ہیں: تم سے پہلے لوگ فضول کلام کوناپسندکرتے تھے۔ مثال کے طور پر یہ بات بھی فضول ہے کہ تم کہو،''اے پروردگارِ کائنات !اس کُتّے کودورفرما۔'' حضرت سیِّدُنا مطرَّف رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ ارشاد فرماتے ہیں کہ:'' پروردگارِ کائنات کی عظمت کالحاظ رکھا کرواور کُتّے یاگدھے کانام لیتے وقت بھی پروردگارِ کائنات کاذکرنہ کرومثلاً یہ نہ کہو:اے پروردگارِ کائنات !انہیں دورکردے وغیرہ وغیرہ۔'' فضول گوئی کی کوئی حدنہیں۔ تاج دارِ کائنات ﷺ کافرمانِ عالی شان ہے:طُوْبٰی لِمَنْ اَمْسَکَ الْفَضْلَ مِنْ لِّسَانِہٖ وَ اَنْفَقَ الْفَضْلَ مِنْ مَّالِہٖیعنی:اس شخص کو مبارک ہو جواپنی زبان کو فضول گوئی سے روک لے اوراپنے زائد مال کوخرچ کردے۔(شعب الایمان للبیھقی، باب فی الزکاۃ، فصل فی کراھیۃ ۔۔۔۔۔۔الخ، الحدیث۳۳۸۸،ج۳،ص۲۲۵، لسانہ:بدلہ: قولہ) حضرت سیِّدُنا بلال بن حارث رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں، تاج دارِ کائنات ﷺ نے ارشاد فرمایا:''کوئی شخص پروردگارِ کائنات کی رضاوالا ایساکلمہ کہتاہے جس کے بارے میں اس کاخیال نہیں ہوتاکہ وہ کس بلندی تک پہنچے گا مگراس کی وجہ سے پروردگارِ کائنات قیامت تک اس کے لیے اپنی رضالکھ دیتاہے اورکوئی آدمی پروردگارِ کائنات کی ناراضی والا ایک کلمہ کہتاہے ،حالاں کہ وہ شخص اسے معمولی سمجھتاہے لیکن پروردگارِ کائنات اس کے سبب قیامت تک اس کے لیے ناراضی لکھ دیتا ہے۔'' (موسوعۃ لابن ابی الدنیا، کتاب الصَّمْت وآداب اللِّسان، باب النھی عن فضول الکلام والخوض فی الباطل، الحدیث۷۰،ج۷،ص۶۷۔۶۸) حضرت سیِّدُنا علقمہ رضی اللہ عنہ ارشاد فرماتے تھے: حضرت سیِّدُنا بلال بن حارث رضی اللہ عنہ کی اس روایت نے مجھے اکثرباتوں سے روکاہے کہ تاج دارِ کائنات ﷺ نے ارشاد فرمایا: ''ایک شخص ایسی بات کہتاہے جس کے ذریعے اپنے پاس بیٹھنے والوں کوہنساتا ہے ،مگر وہ اس کے باعث ثریا(ستارے)سے بھی زیادہ دور جا گرتا ہے ۔'' (الموسوعۃ لابن ابی الدنیا، کتاب الصَّمْت وآداب اللِّسان، باب النھی عن فضول الکلام، الحدیث ۷۱، ج۷، ص۶۸۔۶۹)(3)گناہوں کے بارے میں کرنا: گناہوں کے متعلق گفتگوکرنا ، عورتوں کے حالات، شراب کی مجالس اوربدکاروں کے مقامات کا ذکر کرنا بھی گناہ ہے۔اسی جانب پروردگارِ کائنات کے اس فرمان میں اشارہ ہے:وَ کُنَّا نَخُوۡضُ مَعَ الْخَآئِضِیۡنَ ۙ﴿45﴾یعنی: بیہودہ فکروالوں کے ساتھ بیہودہ فکر یں کرتے تھے۔ (پ29،المدثر:45)(4)بحث و مباحثہ کرنااورجھگڑنا: گذشتہ بیان کی گئی ممنوع چیزوں کے بارے میں جھگڑنا یا ان تک پہنچنے کی ترکیبیں بنانا بھی منع ہے۔تاج دارِ کائنات ﷺ کافرمان ہے:لَا تُمَارِ اَخَاکَ وَلَا تُمَازِحْہ، وَلَا تَعِدْہُ مَوْعِدًا فَتُخْلِفَہ،۔یعنی:اپنے بھائی سے جھگڑا نہ کرو،نہ اس سے مذاق کرو اور اس سے وعدہ کرو تو اس کی خلاف ورزی نہ کرو۔(جامع الترمذی، ابواب البروالصلۃ، باب ماجاء فی المراء، الحدیث۱۹۹۵، ص۱۸۵۲) تاج دارِ کائنات ﷺ مزید فرماتے ہیں:''جوشخص حق پرہونے کے باوجودجھگڑا چھوڑدے، اس کے لیے جنت کے اعلیٰ درجے میں گھربنایاجاتاہے، اورجو باطل ہونے کی وجہ سے جھگڑا چھوڑدے اس کے لیے جنت کے گردونواح میں گھربنایاجاتاہے۔ (جامع الترمذی، ابواب البروالصلۃ، باب ماجاء فی المراء، الحدیث۱۹۹۳،ص۱۸۵۱، اعلٰی بدلہ وسط)(5) لڑائی جھگڑا کرنا: یعنی انسان کا دوسرے کاحق یامال حاصل کرنے کے لیے جھگڑنا اور یہ بھی قابلِ مذمت ہے۔اُمُّ المؤمنین حضرت سیِّدَتُنا عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہاسے مروی ہےکہ تاج دارِ کائنات ﷺ نے ارشاد فرمایا:اَبْغَضُ الرِّجَالِ اِلَی اللہِ اَلْاَلَدُّ الْخَصَمُیعنی:پروردگارِ کائنات کے ہاں سب سے ناپسندیدہ شخص وہ ہے جو بہت زیادہ جھگڑا لو ہو۔(صحیح البخاری، کتاب المظالم، باب قول اﷲ تعالی:وَہُوَ أَلَدُّ الْخِصَامِ، الحدیث۲۴۵۷، ص ۱۹۳) حضرت سیِّدُنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، تاج دارِ کائنات ﷺ نے ارشاد فرمایا:مَنْ جَادَلَ فِی خُصُوْمَۃٍ بِغَیْرِ عِلْمٍ لَمْ یَزَلْ فِیْ سُخْطِ اللہِ حَتّٰی یَنْزِعَ۔یعنی:جوشخص بے جاجھگڑتاہے، وہ ہمیشہ پروردگارِ کائنات کی ناراضی میں ہوتاہے ،یہاں تک کہ اسے چھوڑدے۔(موسوعۃ لابن ابی الدنیا، کتاب الصَّمْت وآداب اللِّسان، باب ذم الخصومات، الحدیث۱۵۳،ج۷،ص۱۱۱)(6)تکلّف اوربناوٹ سے بات چیت کرنا: تکلّف کے ساتھ بناوٹی کلام کرنا یہ بھی غلط ہے۔تاج دارِ کائنات ﷺ نے ارشاد فرمایا:اَنَاوَاَتْقِیَاءُ اُمَّتِیْ بَرَاءٌ مِّنَ التَّکَلُّفِ۔یعنی:میں اورمیری امت کے پرہیزگارلوگ تکلف سے بری ہیں ۔ حضرت سیِّدَتُنا فاطمہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں ،تاج دارِ کائنات ﷺ نے ارشاد فرمایا: ''میری امت کے بُرے لوگ وہ ہیں جوطرح طرح کی نعمتوں سے پروان چڑھتے ہیں،مختلف قسم کے کھانے کھاتے ہیں، طرح طرح کے لباس پہنتے ہیں اور(تکلف کے ساتھ) گفتگو کرتے ہیں۔(الکامل فی ضعفاء الرجال لابن عدی، الرقم۱۴۶۶۔عبدالحمید بن جعفر بن الحکم الانصاری،ج۷،ص۴)(7)گالی گلوچ اور بد گوئی کرنا: یہ بھی قابلِ مذمّت ہے۔جیسا کہ تاج دارِ کائنات ﷺ نے ارشاد فرمایا:اِیَّاکُمْ وَالْفُحْشَ فَاِنَّ اللہَ لَا یُحِبُّ الْفُحْشَ وَلَاالتَّفَحُّشَ۔یعنی:فحش کلامی سے بچو،بے شک پروردگارِ کائنات فحش کلامی اور بتکلف فحش کلام کرنے کوپسندنہیں فرماتا۔(الاحسان بترتیب صحیح ابن حبان، کتاب الغصب، الحدیث۵۱۵۴،ج۷،ص۳۰۷) آپ ﷺ نے غزوۂ بدرمیں قتل ہونے والے مشرکین کوگالی دینے سے منع فرمایااور ارشاد فرمایا : ''اَلْبَذَاءُ وَالْبَیَانُ شُعْبَتَانِ مِنَ النِّفَاقِ یعنی: فحش گوئی اور کثرتِ کلام نفاق کے دو شعبے ہیں۔'' (جامع الترمذی، ابواب البروالصلۃ، باب ماجاء فی العَیِّ، الحدیث۲۰۲۷،ص۱۸۵۴)(8)لعنت کر نا: لعنت خواہ حیوانات وجمادات پرکی جائے یاانسان پر( مذموم ہے)،تاج دارِ کائنات ﷺ کافرمانِ نصیحت نشان ہے : ''اَلْمُوْمِنُ لَیْسَ بِلَعَّانٍ یعنی:مؤمن لعنت کرنے والانہیں ہوتا۔'' (جامع الترمذی، ابواب البروالصلۃ، باب ماجاء فی اللعنۃ، الحدیث۱۹۷۷،ص۱۸۵۰) حضرت سیِّدُنا حذیفہ رضی اللہ عنہ ارشاد فرماتے ہیں:'' جوقوم کسی پرلعنت بھیجتی ہے تو اس پرپروردگارِ کائنات کاعذاب ثابت ہو جاتا ہے۔'' اُمُّ المؤمنین حضرت سیِّدَتُناعائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہاارشاد فرماتی ہیں، تاج دارِ کائنات ﷺ نے حضرت سیِّدُنا ابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ کو اپنے ایک غلام کولعن طعن کرتے سنا ، تواُن کی طرف متوجہ ہو کردویاتین مرتبہ ارشاد فرمایا: ''اے ابوبکر!کیا صدیق بھی ہو اورلعن طعن بھی کرے ،ربِّ کعبہ کی قسم! ایسانہیں ہوسکتا۔''حضرت سیِّدُنا ابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ نے اسی دن اپناغلام آزاد کر دیا اور تاج دارِ کائنات ﷺ کی بارگاہ میں حاضرہوئے اورعرض کی: '' میں دوبارہ یہ کلمات نہیں کہوں گا۔'' (الادب المفرد للبخاری، باب من لعن عبدہ فأعتقہ، الحدیث۳۲۲، ص۱۰۰۔۱۰۱)(9)گانے گانا اورشعرکہنا: گانے کے بارے میں سماع کے باب میں ذکرگزرچکا ہے،اورجہاں تک شعرکاتعلق ہے توکلام اچھاہوتواچھاہے اور برا ہو تو برا۔ لیکن شعر کہنے کو پیشہ بنا لینا مذموم ہے۔ جیسا کہ تاج دارِ کائنات ﷺ ارشاد فرماتے ہیں:لَأَنْ یَّمْتَلِیَ بَطْنُ اَحَدِکُمْ قَیْحاً خَیْرٌ لَّہ، مِنْ أَنْ یَّمْتَلِیَ شِعْرًا۔یعنی:تم میں سے کسی کے پیٹ کا پیپ سے بھرجانا اشعار سے بھر جانے سے بہتر ہے۔(صحیح البخاری، کتاب الادب، باب مایکرہ أن یکون الغالب علی الانسان الشِعْر۔۔۔۔۔۔الخ، الحدیث۶۱۵۴،ص ۵۱۹) (غلط)اشعار پر مداومت اختیارکرنااوران کے لیے سفرکرناممنوع ہے مگر صحیح اشعار کے جوازپربہت سی احادیث وارد ہیں۔(10) ہنسی مذاق کرنا : مزاح کی اصل یہ ہے کہ اس سے روکاگیاہے اوریہ مذموم ہے البتہ تھوڑاساہوتوجائزہے،تاج دارِ کائنات ﷺ کافرمانِ عالی شان ہے : '' لَا تُمَارِ اَخَاکَ وَلاَ تُمَازِحْہ، یعنی:نہ اپنے بھائی کی بات کاٹو اور نہ اس کا مذاق اڑاؤ۔'' (جامع الترمذی، ابواب البروالصلۃ، باب ماجاء فی المراء، الحدیث۱۹۹۵، ص۱۸۵۲) جان لو!اس میں حد سے بڑھنا منع ہے کہ کثرتِ مذاق سے زیادہ ہنسی پیدا ہوتی ہے اور نتیجۃً دِل مُردہ ہو جاتا ہے۔ تاج دارِ کائنات ﷺ کافرمان ہے: ''اِنِّیْ لَأمْزَحُ وَلَااَقُوْلُ اِلَّاحَقًّا یعنی:میں مزاح کرتاہوں ،لیکن حق بات کے سواکچھ نہیں کہتا۔'' (أخلاق النبی لابی الشیخ الاصبہانی ،باب ما روی فی کظمہ الغیظ وحلمہ ،الحدیث۱۷۴،ج۱،ص۱۸۶) تاج دارِ کائنات ﷺ نے حضرت سیِّدُنا صہیب رضی اللہ عنہ سے ارشاد فرمایا:''تم کھجوریں کھارہے ہو،جب کہ تمھاری آنکھوں میں دردہے توحضرت سیِّدُنا صہیب رضی اللہ عنہ نے عرض کی: '' میں دوسری طرف سے کھارہا ہوں۔'' یہ سُن کر آپ ﷺ مسکرادیے۔''(سنن ابن ماجۃ، ابواب الطب، باب الحمیۃ، الحدیث۳۴۴۳، ص۲۶۸۴)(11)مذاق اُڑانااورتَمَسْخُر کرنا: یہ بھی حرام ہے، پروردگارِ کائنات نے ارشادفرمایا:لَا یَسْخَرْ قَوۡمٌ مِّنۡ قَوْمٍیعنی:نہ مرد مردوں سے ہنسیں۔(پ26،الحُجُرٰت:11) اس کامعنٰی دوسرے کی توہین کرنا،اسے حقیرجاننااوراس کے عیبوں سے آگاہ کرنا ہے اور بعض اوقات یہ چیز اس کے قول وفعل کی نقل اتارنے کے ذریعے پائی جاتی ہے۔تاج دارِ کائنات ﷺ نے ارشاد فرمایا:''لوگوں کامذاق اڑانے والے کے لیے جنت کادروازہ کھولاجائے گااورکہاجائے گا آؤ! آؤ! وہ غم اور تکلیف کی حالت میں آئے گا جب وہ آئے گا تواس پردروازہ بندکردیاجائے گا۔ پھردوسرادروازہ کھولاجائے گا اور کہا جائے گاآؤ!آؤ!وہ غم والم میں آئے گا جب وہ آئے گاتواس پروہ دروازہ بندکردیاجائے گا،اسی طرح مسلسل ہوتارہے گا،یہاں تک کہ اس کے لیے دروازہ کھولاجائے گااورکہاجائے گاآؤ!آؤ!تووہ نہیں آئے گا۔''(موسوعۃ لابن ابی الدنیا، کتاب الصَّمْت وآداب اللِّسان، باب ما نُھی عنہ العباد ان یسخر بعضھم من بعض، الحدیث ۲۸۷،ج۷،ص۱۸۴) حضرت سَیِّدُنامعاذبن جبل رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، تاج دارِ کائنات ﷺ نے ارشاد فرمایا:مَنْ عَیَّرَاَخَاہُ بِذَنْبٍ قَدْ تَابَ مِنْہُ لَمْ یَمُتْ حَتّٰی یَعْمَلَہٗ۔یعنی:جوآدمی اپنے( مسلمان)بھائی کواس کے کسی گناہ پر عار دِلاتا ہے جس سے وہ توبہ کرچکاہو، توعار دِلانے والامرنے سے پہلے اس عمل میں مبتلاہوگا۔(جامع الترمذی، ابواب صفۃ القیامۃ، باب فی وعید من عیرأخاہ بذنب، الحدیث۲۵۰۵،ص۱۹۰۳)(12) رازکوظاہرکرنا: کسی کے رازکوظاہرکرنے سے منع کیاگیاہے، کیوں کہ اس کے ذریعے تکلیف پہنچائی جاتی ہے اوردودسروں کے حق کو معمولی سمجھاجاتاہے،تاج دار، کائنات ﷺ کافرمانِ نصیحت نشان ہے: ''اَلْحَدِیْثُ بَیْنَکُمْ اَمَانَۃٌ یعنی:گفتگوتمہارے درمیان امانت ہے۔'' (موسوعۃ لابن ابی الدنیا، کتاب الصَّمْت وآداب اللِّسان، باب حفظ السِر، الحدیث۴۰۶،ج۷،ص۲۴۴)(13)جھوٹاوعدہ کرنا: جھوٹاوعدہ کرنے سے بھی منع کیاگیاہے اوریہ نفاق کی علامات میں سے ہے،پروردگارِ کائنات کافرمانِ عالی شان ہے:یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡۤا اَوْفُوۡا بِالْعُقُوۡدِ ۬ؕیعنی:اے ایمان والو!اپنے قول پورے کرو۔ (پ6 ،المائدہ: 1) تاج دارِ کائنات ﷺ کافرمان ہے:''اَلْعِدَۃُ عَطِیَّۃٌ یعنی:وعدہ پورا کرنا عطیہ ہے۔'' (المعجم الاوسط، الحدیث۱۷۵۲،ج۱،ص۴۷۵)(14)جھوٹ بولنا اورجھوٹی قسم کھانا: یہ نہایت قبیح گناہوں میں سے ہے ،مروی ہے کہ امیر المؤمنین حضرت سیِّدُنا ابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ نے تاج دارِ کائنات ﷺ کے وصالِ ظاہری کے بعدخطبہ دیتے ہوئے ارشاد فرمایا: ''تاج دارِ کائنات ﷺ اس مقام پرتشریف فرما ہوئے، جہاں آج میں کھڑاہوں ،پھرآپ رضی اللہ عنہ روپڑے اور فرمایا:تاج دارِ کائنات ﷺ نے ارشاد فرمایا: ''اِیَّاکُمْ وَالْکِذْبَ،فَإنَّہ، مَعَ الْفَجُوْرِوَھُمَا فِی النَّار یعنی :جھوٹ سے بچوکیوں کہ جھوٹ بولنے والابدکارکے ساتھ ہوتا ہے اوروہ دونوں دوزخ میں ہوں گے۔'' (سنن ابن ماجۃ، ابواب الدعاء، باب الدعاء بالعفووالعافیۃ، الحدیث۳۸۴۹،ص۲۷۰۶)تاج دارِ کائنات ﷺ کافرمانِ عبرت نشان ہے: ''اِنَّ الْکِذْبَ بَابٌ مِّنْ اَبْوَابِ النِّفَاقِ یعنی:بے شک جھوٹ منافقت کے دروازوں میں سے ایک دروازہ ہے۔''(مساوی الأخلاق للخرائطی، باب ماجاء فی الکذب وقبح ما أتی بہ أھلہ، الحدیث۱۰۷،ج۱، ص۱۱۷)(15)غیبت: ہم پہلے شریعت میں اس کے متعلق وارد ہونے والی مذمت کو ذکرکرتے ہیں ۔جیسا کہ پروردگارِ کائنات نے ارشاد فرمایا:وَلَا یَغْتَبۡ بَّعْضُکُمۡ بَعْضًا ؕ اَیُحِبُّ اَحَدُکُمْ اَنۡ یَّاۡکُلَ لَحْمَ اَخِیۡہِ مَیۡتًایعنی: ایک دوسرے کی غیبت نہ کروکیا تم میں کوئی پسند کرے گاکہ اپنے مرے بھائی کا گوشت کھائے۔ (پ26 ،الحُجُرٰت:12) حضرت سیِّدُنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ تاج دارِ کائنات ﷺ نے ارشاد فرمایا:'' ایک دوسرے سے حسد نہ کرو، آپس میں بغض نہ رکھو،بیع نجش نہ کرو۔ایک دوسرے سے روگردانی نہ کرو اور ایک دوسرے کی غیبت بھی نہ کرو،اے پروردگارِ کائنات کے بندو!بھائی بھائی بن جاؤ۔''(صحیح مسلم، کتاب البر، باب تحریم ظلم المسلم ۔۔۔۔۔۔الخ، الحدیث۶۵۴۱،ص۱۱۲۷) (موسوعۃ لابن ابی الدنیا، کتاب الصَّمْت وآداب اللِّسان، باب الغیبۃ وذمھا، الحدیث۱۶۳،ج۷،ص۱۱۶تا۱۱۷) تاج دارِ کائنات ﷺ کافرمان ہے:''غیبت سے بچو،بے شک غیبت زناسے سخت تر ہے، کیوں کہ جب آدمی زناکرکے توبہ کرتاہے توپروردگارِ کائنات اس کی توبہ قبول فرماتاہے اورغیبت کرنے والے کی بخشش اس وقت تک نہیں ہوتی ،جب تک وہ شخص معاف نہ کر دے جس کی غیبت کی ہے۔'' (موسوعۃ لابن ابی الدنیا، کتاب الصَّمْت وآداب اللِّسان، باب الغیبۃ وذمھا، الحدیث۱۶۴،ج۷، ص۱۱۸) حضرت سیِّدُنا اَنَس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ تاج دارِ کائنات ﷺکافرمان ہے:'' شبِ معراج میں ایسی قوم کے پاس سے گزرا،جواپنے چہروں کواپنے ناخنوں سے نوچ رہے تھے، میں نے جبریل علیہ السلام سے پوچھا:''یہ کون لوگ ہیں؟ '' انہوں نے جواب دیا:''یہ وہ ہیں جولوگوں کی غیبت کرتے تھے اوران کی عزّتوں کے پیچھے پڑتے تھے۔'' (موسوعۃ لابن ابی الدنیا، کتاب الصَّمْت وآداب اللِّسان، باب الغیبۃ وذمھا، الحدیث۱۶۵،ج۷،ص۱۱۸)پروردگارِ کائنات نے حضرت سَیِّدُناموسیٰ علیٰ نبیناوعلیہ الصلوٰۃو السلام کی طرف وحی بھیجی اور فرمایا:'' جو شخص غیبت سے توبہ کرتے ہوئے فوت ہوا، وہ جنت میں سب سے آخرمیں داخل ہوگا اورجو غیبت پراصرارکی حالت میں فوت ہوا، وہ جہنّم میں سب سے پہلے داخل ہو گا۔''غیبت کی تعریف: غیبت یہ ہے کہ تم اپنے کسی بھائی کاذکران الفاظ میں کروکہ اگراس تک یہ بات پہنچے تووہ اِسے ناپسندکرے۔ خواہ تم اس کے بدن یا خاندان کے عیب کاذکرکرو یااس کی فعلی، قولی، دینی یادنیوی کوتاہی بیان کرو۔یہاں تک کہ اس کے لباس، مکان اور جانور کا عیب بیان کرنا بھی غیبت ہے۔ جان لو!غیبت کے سلسلے میں اشارۃً گفتگوکرنااورسمجھنا صراحتاًگفتگو کرنے کی طرح ہے اورایسی حرکت جس سے مقصود سمجھ میں آجائے اس میں اورصریح گفتگو کرنے میں کوئی فرق نہیں اورغیبت سننے والاغیبت کرنے والے کے ساتھ(گناہ میں) شریک ہوتاہے، غیبت توجہ سے سننا اورغیبت کرنے والے کی بات پر اظہارِتعجب بھی غیبت ہے ،کیوں کہ یہ بھی غیبت کرنے والے کی مدد کرنا اوراس کے ساتھ شریک ہوناہے۔ حضرت سیِّدُنا ابودرداء رضی اللہ عنہ سے مروی ہے ،شہنشاہِ مدینہ،قرارِ قلب و سینہ، صاحبِ معطر پسینہ، باعثِ نُزولِ سکینہ، فیض گنجینہ ﷺ کافرمانِ بشارت نشان ہے:''جوشخص اپنے (مسلمان)بھائی کی غیرموجودگی میں اس کی عزت کی حفاظت کرے، پروردگارِ کائنات کے ذمۂ کرم پرہے ، کہ وہ قیامت کے دن اس کی عزت کی حفاظت فرمائے گا۔'' (موسوعۃ لابن ابی الدنیا، کتاب الصَّمْت وآداب اللِّسان، باب ذب المسلم عن عرض أخیہ، الحدیث۲۴۰، ج۷، ص۹ ۱۵)غیبت کے کفارے کا بیان: جان لو! غیبت کرنے والے پر لازم ہے کہ وہ شرمندہ ہو، توبہ کرے اور اپنے کئے پر افسوس کا اظہار کرے ،تاکہ پروردگارِ کائنات کے حق سے باہر آجائے۔ پھر جس کی غیبت کی تھی اس سے معافی مانگے تاکہ زیادتی سے برئ الذمہ ہو جائے۔ لیکن جب معافی مانگے تو غمگین اور شرمندہ ہو۔ اورحضرت سیِّدُنا حسن بصری رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ اِرشاد فرماتے ہیں:''غیبت کرنے والے کے لیے استغفار کافی ہے، معافی مانگنے کی ضرورت نہیں۔'' حضرت سَیِّدُنااَنَس بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، نور کے پیکر، تمام نبیوں کے سَرْوَر، دو جہاں کے تاجْوَر، سلطانِ بَحرو بَرﷺ کافرمانِ خوشبودارہے: ''کَفَّارَۃُ مَنِ اغْتَبْتَ اَنْ تَسْتَغْفِرَلَہٗ یعنی:غیبت کا کفارہ یہ ہے کہ جس کی تم نے غیبت کی اس کے لیے دعائے مغفرت کرو۔'' (موسوعۃ لابن ابی الدنیا، کتاب الصَّمْت وآداب اللِّسان، باب کفارۃ الاغتیاب، الحدیث۲۹۳،ج۷،ص۱۸۸۔۱۸۹) حضرت سیِّدُنا مجاہد رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں:''جب تم اپنے بھائی کا گوشت کھاؤ( یعنی اُس کی غیبت کرو)، تو اس کا کفارہ یہ ہے کہ اس کی تعریف کرو اور اس کے لیے بھلائی کی دعا مانگو۔'' بہتر یہی ہے کہ اظہارِ ندامت کے ساتھ ساتھ معافی مانگی جائے۔(16)چغلی کھانا: پروردگارِ کائنات نے ارشاد فرمایا:ہَمَّازٍ مَّشَّآءٍۭ بِنَمِیۡمٍ ﴿ۙ11﴾یعنی:بہت طعنے دینے والا بہت اِدھر کی اُدھر لگاتا پھرنے والا۔ (پ29، القلم:11) حضرت سیِّدُنا عبد اللہ بن مبارک رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ ارشاد فرماتے ہیں: '' غیر ثابت النسب(یعنی بغیر نکاح کے پیدا ہونے والا ) راز کو نہیں چھپاتا۔'' اس میں اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ جو شخص(راز کی) بات کو نہیں چھپاتا اور چغلی کھاتا ہے، تو یہ اس کے حرامی ہونے کی دلیل ہے، انہوں نے پروردگارِ کائنات کے اس فرمان سے اِستدلال کیا ہے:عُتُـلٍّ بۢـَعْدَ ذٰلِکَ زَنِیۡـمٍ ﴿ۙ13﴾یعنی: دُرُشت خُو ا س سب پر طرہ یہ کہ اس کی اصل میں خطا۔(پ29،القلم:13) زَنِیم سے مراد حرامی ہے اور پروردگارِ کائنات کا فرمانِ حقیقت نشان ہے :وَیۡلٌ لِّکُلِّ ہُمَزَۃٍ لُّمَزَۃِۣۙ﴿1﴾یعنی: خرابی ہے اس کے لیے جو لوگوں کے منہ پر عیب کرے، پیٹھ پیچھے بدی کرے۔ (پ30، الہمزۃ: ا) ھُمَزَۃٍ سے مراد بہت زیادہ چغلی کھانے والا ہے۔پروردگارِ کائنات نے ارشاد فرمایا:حَمَّالَۃَ الْحَطَبِ ۚ﴿4﴾یعنی: لکڑیوں کا گٹھا سر پر اٹھاتی۔ (پ30 ،اللہب:4) کہتے ہیں کہ وہ چغلی کھانے والی اور باتوں کو اِدھر اُدھر پہنچانے والی تھی۔پروردگارِ کائنات نے ارشاد فرمایا:فَخَانَتٰہُمَا فَلَمْ یُغْنِیَا عَنْہُمَا مِنَ اللہِ شَیْـًٔایعنی: پھر انہوں نے ان سے دغا کی تو وہ اللہ کے سامنے انھیں کچھ کام نہ آئے۔(پ28 ،التحریم:10)حدیث ِ پاک میں ارشاد ہے: ''لَایَدْخُلُ الْجَنَّۃَ قَتَّاتٌ یعنی:چغل خور جنت میں داخل نہ ہوگا۔''(صحیح البخاری، کتاب الادب، باب مایکرہ من النمیمۃ، الحدیث۶۰۵۶،ص۵۱۲) قتَّات سے مراد چغل خور ہے، اس کے متعلق بہت سی احادیث ِمبارکہ وارد ہیں۔چغلی کی تعریف: چغلی کی تعریف یہ ہے کہ ایسی بات ظاہر کرنا جس کا ظاہر کرنا ناپسند ہو۔خواہ وہ ناپسند کرے جس سے سنی گئی یا جس کےبارے ميں سنی گئی یا کوئی تیسراآدمی ناپسند کرے۔ خواہ بول کریا لکھ کر اس کا اظہار ہو یا اشارہ، کنایہ سے ہو۔ پس چغلی کی حقیقت پوشیدہ بات کو ظاہر کرنا اور اس سے پردہ ہٹانا ہے۔(17)منافقت: منافقت یہ ہے کہ کوئی شخص آپس میں مخالف دو اشخاص میں سے ہر ایک کے پاس جائے اورہر ایک سے اس کے موافق بات کرے، یہ عین نفاق ہے۔چنانچہ حضرت سیِّدُنا عمار بن یاسررضی اللہ عنہماسے مروی ہے،حضور سیِّدُ المبلغین، رَحْمَۃٌ لِّلْعٰلَمِیْن ﷺ کافرمانِ عبرت نشان ہے:مَنْ کَانَ لَہٗ وَجْھَانِ فِی الدُّنْیَا کَانَ لَہٗ لِسَانَانِ مِنْ نَّارٍ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ۔یعنی:جو شخض دنیا میں دو چہروں والا ہو بروزِ قیامت اس کی آگ کی دوزبانیں ہوں گی۔(سنن ابی داؤد، کتاب الادب، باب فی ذی الوجھین، الحدیث۴۸۷۳،ص۱۵۸۱) حضرت سیِّدُنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبئ رحمت، شفیعِ امّت، قاسمِ نعمت ﷺ کافرمانِ عالیشان ہے:''بروزِقیامت تم پروردگارِ کائنات کے بندوں میں سے سب سے برا اس شخص کو پاؤ گے جس کے دوچہرے ہیں جواِدھر کچھ کہتا ہے اور اُدھر کچھ کہتا ہے۔'' دوسری روایت کے الفاظ یہ ہیں:''جو ان کے پاس ایک چہرے سے آتا ہے اور دوسروں کے پاس دوسرا چہرہ لے کر آتا ہے۔''(صحیح مسلم، کتاب فضائل الصحابۃ، باب خیار الناس، الحدیث۶۴۵۴،ص۱۱۲۰) (موسوعۃ لابن ابی الدنیا، کتاب الصَّمْت وآداب اللِّسان، باب ذم ذی اللِّسانین، الحدیث۲۷۷، ج۷، ص۸ ۷ ۱۔۱۷۹)اخیر میں بارگاہ قاضی الحاجات میں دعا گو ہوں کہ موالے پاک اپنے محبوب پاک، صاحب لولاک، سیاح افلاک صلی اللہ علیہ وسلم کے صدقے و طفیل حضرت مخدوم پاک کے مرقد منور پہ رحمت و انوار کی بارشیں برسائے۔ ان کے درجات بلند فرمائے اور ہمیں ان کی یاد منانے اور ان کے نام نذر و نیاز کرنے کے ساتھ ساتھ ان کی تعلیمات پر عمل پیرا ہونے کی بھی توفیق خیر مرحمت فرمائے۔آمین۔ یا رب العالمین۔ بجاہ النبی الامین۔صلی اللہ علیہ وآلہ وصحبہ ومن تبعھم اجمعین۔
نیت کی اہمیت و افضلیت قرآن و حدیث کی روشنی میں تحریر : ناصر منیری ارشاد خداوندی ہے: وَلَا تَطْرُدِ الَّذِیۡنَ یَدْعُوۡنَ رَبَّہُمۡ بِالْغَدٰوۃِ وَ الْعَشِیِّ یُرِیۡدُ...
اسلام میں اخوت و بھائی چارے کا تصور۔۔۔قرآن و حدیث کی روشنی میں اِنَّمَا الْمُؤْمِنُوْنَ اِخْوَةٌ فَاَصْلِحُوْا بَیْنَ اَخَوَیْكُمْ وَ اتَّقُوا اللّٰهَ لَعَلَّكُم...
16 سیدوں کا روزہ، 18 سیدوں کی نماز، 20 سیدوں کی کہانی... دور حاضر کا ایک المیہ یہ بھی ہے کہ اہل عقیدت کی عقیدت مندی دیکھ کر ان کے اعتقاد سے کھلواڑ کیا جانے لگا۔ اس سلسلے میں جوشیلی اور ...
Comments
Post a Comment