سلطان المخدومین حضرت سیدنا کمال الدین یحییٰ منیری علیہ الرحمہ اور حسنِ اخلاقاز قلم: ناچیز ناصرؔ منیری کان اللہ لہڈائریکٹر : ریسرچ سینٹر، خانقاہ منیر شریفرابطہ نمبر: 9905763238عظیم الشان ہے رتبہ مِرے یحییٰ منیری کارفیع المرتبت اسوہ مِرے یحیٰ منیری کاسلطان المخدومین حضرت سیدنا کمال الدین یحییٰ منیری علیہ الرحمۃ والرضوان اپنے وقت کے جلیل القدر صوفی بزرگ گذرے ہیں۔آپ نے تصوف کی تعلیمات عام کرنے میں اپنا تن من دھن سب کچھ تج دیا۔ آپ کے اخلاق بہت عمدہ تھے۔ جو بھی آپ سے ملتا متاثر ہوئے بغیر نہیں رہتا۔ جو اہل ایمان ہوتا، وہ تائب ہوتا اور جو اہل کفر ہوتا، مشرف بہ اسلام ہوجاتا۔وہ ہو جاتا مشرف دولتِ ایمان سے اس دمکوئی گر دیکھتا چہرا مِرے یحییٰ منیری کاآپ نے اخلاقیات پہ بہت زور دیا۔ لوگوں کے اخلاق سنوارنے میں آپ نے بہت محنت کی۔ ذیل میں حسنِ اخلاق کا درس پیش کیا جا رہاہے:حسن اخلاق آیاتِ قرآنیہ کی روشنی میں:قرآنِ پاک میں جا بہ جا حسن اخلاق کی فضیلت بیان کی گئی ہے۔ قرآن نے اخلاقیات پہ بہت زور دیا ہے۔کہا جاتاہے کہ فلاں اچھے خَلْق اور اچھے خُلُق یعنی اچھے ظاہر وباطن والا ہے۔ ظاہر کا حُسن خوب صورتی ہے جیسا کہ آپ جانتے ہيں اورباطنی حُسن سے مراد بُری صفات پر اچھی صفات کا غالب ہونا ہے اورباطن میں تفاوُت(یعنی فرق)، ظاہر میں تفاوت سے زیادہ ہوتا ہے اوراسی کی طرف پروردگارِ کائنات نے اپنے اس فرمانِ اقدس میں اشارہ فرمایا،جیسا کہ ارشاد ِخدا وندی ہے:اِنِّیۡ خَالِقٌۢ بَشَرًا مِّنۡ طِیۡنٍ ﴿71﴾فَاِذَا سَوَّیۡتُہٗ وَ نَفَخْتُ فِیۡہِ مِنۡ رُّوۡحِیۡیعنی: میں مٹی سے انسان بناؤں گا پھر جب میں اسے ٹھیک بنا لوں اوراس میں اپنی طرف کی روح پھونکوں گا۔(پ23،ص:71۔72)پروردگارِ کائنات نے اس آیتِ مبارکہ میں آگاہ فرمایا کہ انسان کی ظاہری صورت مِٹی سے بنی ہوئی ہے اوراس کی باطنی صورت پروردگارِ کائنات کے عالَمِ اَمر سے ہے ۔ لہٰذا حُسنِ خُلق سے ہماری مراد باطنی صورت کا اچھاہونا ہے پس جس قدر بندہ بری صفات سے کنارہ کشی اختیار کرتاہے، اس کے بدے میں اچھی صفات پائی جاتی ہیں، یہی اچھے اخلاق ہیں اورحُسنِ اخلاق کی مکمل صورت تاج دارِ کائنات ﷺ کے لیے ہے، کیوں کہ تاج دارِ کائنات ﷺ حُسنِ اخلاق کے اس معنی میں درجۂ کمال پر فائز ہوئے۔ پروردگارِ کائنات نے آپ کے لیے ارشاد فرمایا:وانک لعلی خلق عظیمیعنی: (اے نبی مکرم ﷺ) آپ کے اخلاق انتہائی عظیم الشان ہیں۔(پ29،سورہ قلم)حسن اخلاق احادیثِ نبویہ کی روشنی میں: قرآن کے علاوہ حدیثوں میں بھی جگہ جگہ حسنِ اخلاق کی فضیلتیں بیان کی گئی ہیں۔ جا بہ جا اخلاق سنوارنے کے احکام وارد ہوئے ہیں۔ جیسا کہ تاج دارِ کائنات ﷺ کافرمانِ عالیشان ہے:رَجَعْنَا مِنَ الْجِھَادِ الْاَصْغَرِاِلَی الْجِھَادِ الْاَکْبَرِ.یعنی:ہم چھوٹے جہادسے بڑے جہاد کی طرف پلٹے۔(الزھد الکبیر للبیھقی،الجز الثانی، فصل فی ترک الدنیا ومخالفۃ النفس والھوی، الحدیث۳۷۳،ص۱۶۵، مفہوماً)معلوم ہونا چاہیے کہ نفس کی کچھ بیماریاں ہیں جن سے اس کا پاک وصاف ہونا ضروری ہے اس طرح وہ ہمیشہ کی سعادت اوراللہ کا قُرب حاصل کرسکتا ہے۔حُسنِ اخلا ق کے تعلق سے تاج دارِ کائنات ﷺ مزید ارشاد فرماتے ہیں:اِنَّ حُسْنَ الْخُلْقِ یُذِیْبُ الْخَطِیْئَۃَ کَمَا تُذِیْبُ الشَّمْسُ الْجَلِیْدَ.یعنی:بے شک اچھے اخلاق گناہ کو اس طرح مٹا دیتے ہیں جس طرح سورج برف کو پگھلا دیتاہے۔(شعب الایمان للبیھقی، باب فی حسن الخلق ،الحدیث۸۰۳۶،ج۶،ص۲۴۷۔۲۴۸) حضرت سیِّدُنا عبدالرحمن بن سمرہ رضی اللہ عنہ ارشاد فرماتے ہیں کہ ہم تاج دارِ کائنات ﷺ کی بارگاہ میں حاضر تھے ،آپ نے ارشاد فرمایا:'' گذشتہ رات میں نے ایک عجیب بات دیکھی، میں نے اپنی امت کے ایک شخص کو دیکھا جو اپنے گھٹنوں کے بل جُھکا ہوا تھا ،اس کے اور پروردگارِ کائنات کے درمیان حجاب تھا پس حُسنِ اخلاق آیا اوراس نے اسے پروردگارِ کائنات کے قرب میں پہنچا دیا۔''(مکارم الاخلاق للخرائطی، باب ثواب حسن الخلیقۃوجسیم خطرھا، الحدیث۴۹،ج۱،ص۵۲)مذکورہ حدیثوں سے حسن اخلاق کی اہمیت کا اندازہ ہوتا ہے۔تاج دارِ کائنات ﷺ مزید فرماتے ہیں: ''حَسِّنُوْا اَخْلاَ قَکُمْ یعنی: اپنے اخلاق کو سنوارو۔''(جامع الترمذی، ابواب البروالصلۃ، باب ما جاء فی معاشرۃ الناس، الحدیث۱۹۸۷، ص۱۸۵۱، مفھومًا)تاج دارِ کائنات ﷺ نے یہ فرما کر اس بات سے آگاہ فرمایا، کہ اخلاق، تبدیلی کو قبول کرتے اور تصرف سے متاثر ہوتے ہیں۔ لہٰذا غصہ، شہوت اورحرص سے بچنے کی کوشش کرنی چاہے اوریہ تمام صفات حکمِ شرع کے مطابق ہونی چاہئيں ، جب ہوگا تو مقصد حاصل ہوجائے گااوریہ چیزناپسندیدہ اشیا پر صبر کرنے اورمجاہدہ سے حاصل ہوتی ہے تاکہ اس کے بعد یہ عادت بن جائے۔تاج دارِ کائنات ﷺ کا فرمانِ والاشان ہے: ''اَلْخَیْرُ عَادَۃٌ یعنی:بہترین چیز عادت ہے۔'' (سنن ابن ماجۃ، کتاب السنۃ، باب فضل العلماء والحث علی طلب العلم، الحدیث۲۲۱،ص۲۴۹۰) مثال کے طور پر جو شخص اصل فطرت سے سخی نہ ہو تو وہ تکلف سے اس عادت کو اپناتا ہے اوراسی طرح جس کی تخلیق تواضع پر نہ ہو تو اسے اس چیز کو عادت بنانے میں مشقت ہوتی ہے اوراسی طرح وہ تمام صفات جن کا علاج ان کی ضد کے ساتھ کیا جاتا ہے حتّٰی کہ مقصد حاصل ہوجائے ۔عبادات پر ہمیشگی اورخواہشات کی مخالفت باطنی صورت کو حسین بنادیتے ہیں اوراللہ سے اُنس حاصل ہوجاتاہے۔تاج دارِ کائنات ﷺ کا فرمانِ عالی شا ن ہے: اُعْبُدِ اللہَ فِی الرِّضَا فَاِنْ لَّمْ تَسْتَطِعْ فَفِی الصَّبْرِ عَلٰی مَا تَکْرَہُ خَیْرٌ کَثِیْرٌ۔یعنی:اللہ کی عبادت رضا مندی سے کرو اگر ایسا نہ ہوسکے تو ناگوار بات پر صبر کرنے میں بہت زیادہ بھلائی ہے ۔(شعب الایمان للبیھقی، باب فی الصبر علی المصائب، فصل فی ذکرما فی الأوجاع ۔۔۔۔۔۔الخ، الحدیث۱۰۰۰۰،ج۷،ص۲۰۳،بتغیرٍ)لہذا ابتدا میں صبر کرنا چاہیے یہاں تک کہ راضی ہوجائے، کیوں کہ اصل فطرت بھی باطنی صورت کے حُسن کا تقاضا کرتی ہے اور اسی طرف مائل ہوتی ہے اور تاج دارِ کائنات ﷺ نے اپنے اس فرمانِ عالیشان میں اسی جانب اشارہ فرمایا: ''اَلْحَسَنَۃُ بِعَشَرِ اَمْثَالِھَا یعنی:ایک حسنہ دس نیکیوں کے برابر ہے۔ '' (صحیح البخاری، کتاب الصوم، باب فضل الصوم، الحدیث۱۸۹۴،ص۱۴۸) اوریہی اصلِ فطرت کی موافقت ہے۔اخلاق سنوارنے کا بہترین طریقہ:یہ تو ہم جان چکے ہیں، کہ جسم کی بیماری کا علاج اس کی ضد کے ساتھ ہوتاہے۔ اسی طرح مرضِ دل کا معاملہ ہے۔ اور یہ چیز لوگوں کے مختلف ہونے کے اعتبار سے مختلف ہوتی ہے کیونکہ طبیعتیں مختلف ہوتی ہیں اورشیخ اپنی قوم میں اس طرح ہوتا ہے جیسے نبی اپنی اُمّت میں، وہ مرید کا حال دیکھتاہے اوراس پر غالب آنے والی صفات کو جانتاہے اور ان چیزوں کو بھی جانتاہے جن سے مُرید کا علاج ممکن ہوتاہے، لہٰذا وہ اسے ابتدائی مرحلے میں عبادات، کپڑوں کو پاک وصاف رکھنے، نمازوں پر پابندی اختیار کرنے اورتنہائی میں پروردگارِ کائنات کا ذکر کرنے میں مشغول رکھتاہے۔ پس اس طرح اس کے پوشیدہ عیوب ظاہر ہوجاتے ہیں جس طرح پتھر میں چھپی آگ (ایک پتھر کو دوسرے پر مارنے سے) ظاہر ہوجاتی ہے اوراگر اس کے پاس زائد مال ہوتو شیخ اسے لے کر محتاجوں میں بانٹ دیتاہے تاکہ اس کا دِل فارغ ہوجائے اوراس کے دِل کا فارغ ہونا ہی اصل چیز ہے۔ پھر اس کے غیر کے دل کا فارغ ہونا اس کے مال کے لیے وبال ہے اوراس کے غموں کو بڑھاتا ہے اوران غموں کی برکت سے اس پر اس کا مقصود آسان ہو جاتا ہے اور تہذیبِ اخلاق کا طریقہ یہ بھی ہے، کہ اس کی بعض صفات کو دوسری صفات پر مسلَّط کردیا جائے۔ چناں چہ وہ عارضی ریا کے ذریعے سخاوت میں رغبت اختیار کرے (جب کہ اسے دل میں نہ جمنے دے )، تاکہ وہ بخل، دنیا کی محبت اور اس کے جمع کرنے کو ترک کر دے اور غصہ وشہوت کا استعمال ترک کردے، تاکہ وہ اسے پاک دامنی اوردرستگی پر ابھارے ،پھر اس کے بعد ریاکاری کی طرف متوجہ ہو اور ریاضت کی مدت میں حاصل ہونے والی دین کی قوت اور اللہ کی طرف اپنی توجہ کے ذریعے اس کاقلع قمع کر دے اور نفس کی ضد کے ساتھ عبادات کی پابندی کر کے اس کا علاج کرے اوربعض شیوخ کے بارے میں مروی ہے، کہ اگر ان کا نفس رات کے کسی حصہ میں قیام سے سستی کرتا، تو ایک مدّت تک سر کے بل کھڑا ہونا اس پر لازم کر دیتے ،تاکہ وہ قدموں پر کھڑا ہونا خوشی سے اختیارکرے اور اسے غنیمت جانے۔بد اخلاقی سے بچنے کا طریقہ:تاج دارِ کائنات ﷺ کا فرمانِ والاشان ہے :اِذَا اَرَادَاللہُ بِعَبْدٍخَیْرًا بَصَّرَہ، بِعُیُوْبِ نَفْسِہٖ۔یعنی:جب پروردگارِ کائنات کسی بندے کے ساتھ بھلائی کا ارادہ فرماتاہے تو اسے اس کے عیوب دکھا دیتاہے۔(شعب الایمان للبیھقی، باب فی الزھد وقصر الأمل، الحدیث۱۰۵۳۵،ج۷،ص۳۴۷) اپنے عیوب پہچاننے کے طریقوں میں سے سب سے بہترین طریقہ یہ ہے، کہ انسان اپنے مُرشِد کے سامنے بیٹھے اور اس کے حکم کے مطابق عمل کرے، کبھی اسی وقت اس پر اپنے عیوب ظاہر ہوجاتے ہیں اورکبھی اس کا مُرشِد اسے اس کے عیوب سے آگاہ کر دیتا ہے۔ یہ طریقہ سب سے اعلیٰ وبہترین ہے، مگر آج کل یہ بہت مشکل ہے ۔ دوسرا طریقہ یہ ہے کہ کوئی نیک دوست تلاش کرے ،جو اس معاملہ کے اسرار سے واقف ہو،اس کی صحبت اختیارکرے اوراسے اپنے نفس کا نگران بنائے، تاکہ وہ اس کے اَحوال کو ملاحظہ کرکے اس کے عیوب سے آگاہ کرے ۔ اَکابِر اَئمہ دین اسی طرح کیا کرتے تھے۔ امیر المؤمنین حضرت سَیِّدُناعمر فاروق اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ ارشاد فرماتے تھے :''پروردگارِ کائنات اس شخص پر رحم فرمائے جو مجھے میرے عیوب بتائے۔''جب حضرت سَیِّدُنا سَلمان رضی اللہ عنہ آپ کی خدمت میں حاضر ہوئے تو آپ نے ان سے اپنے عیبوں کے بارے میں پوچھا:''کیا آپ تک میری کوئی ایسی بات پہنچی ہے جو آپ کو ناپسند ہو؟'' انھوں نے بتانے سے معذرت کی، لیکن آپ نے اصرار کیا تو حضرت سیِّدُنا سلمان رضی اللہ عنہ نے عرض کی: ''میں نے سنا ہے کہ آپ اپنے دسترخوان پر دوسالن جمع کرتے ہیں اور آپ کے پاس دو جوڑے ہیں، ایک دن کا اورایک رات کا۔ ''آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے پھر پوچھا:'' اس کے علاوہ بھی کوئی بات پہنچی ہے؟ ''تو انھوں نے عرض کی:'' نہیں۔'' امیرالمؤمنین حضرت سیِّدُنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے ارشاد فرمایا: ''اگر صرف یہی دو ہیں تو میں انھیں کافی ہو جاؤں گا۔'' حضرت سیِّدُنا حذیفہ رضی اللہ عنہ جو کہ منافقین کی پہچان کے معاملے میں تاج دارِ کائنات ﷺ کے راز دار تھے، امیرالمؤمنین حضرت سیِّدُنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ ان سے پوچھتے: کیا آپ کو مجھ میں منافقت کے آثار نظر آتے ہیں؟ تو امیرالمؤمنین حضرت سیِّدُنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ اس قدر بلند مرتبہ اورعظیم منصب پر فائز ہونے کے باوجود اس طرح اپنے نفس کو اس قدر تہمت لگاتے تھے۔ لہذا اگر آپ کوئی دوست نہ ملے تو اپنے حاسدین کی باتوں پر غور کریں، آپ ایسے حاسد کو پائیں جو آپ کے عیبوں کا متلاشی ہوتا ہے اوراس میں اضافہ کرتاہے، تو آپ اس سے فائدہ اٹھائیں اوراس کی طرف سے بتائے جانے والے تمام عیوب کے ساتھ اپنے نفس کو متَّہم جانیں اوراگر کوئی شخص آپ کو آپ کے عیب بتائے تو اس پر غضب و غصہ نہ کریں کیوں کہ عیوب سانپ اوربچھو ہیں جو دنیا وآخرت میں آپ کو ڈستے ہیں۔کیوں کہ جو شخص آپ کو بتائے کہ آپ کے کپڑوں کے نیچے سانپ ہے توآپ اس شخص کے احسان مند ہوتے ہیں ،لیکن اگر آپ اس پر غصہ کریں گے تو یہ آخرت میں آپ کے ایمان کی کمزوری کی دلیل ہے ۔اوراگر آپ اس کی نصیحت سے فائدہ اٹھائیں تو یہ آپ کی قوّتِ ایمانی کی دلیل ہے اورجان لیں کہ ناراض ہونے والی آنکھ برائیوں کو ظاہر کرتی ہے ،اور ایمان کاقوِّی ہونا آپ کو اس وقت فائدہ دے گاجب آپ حاسدوں کی ملامت کو غنیمت جانیں اوران عیوب سے بچیں۔حضرت سیِّدُنا عیسیٰ علیہ الصلوٰۃو السلام سے پوچھا گیا:'' آپ کو ادب کس نے سکھایا ؟'' آپ علیہ السلام نے ارشاد فرمایا: '' مجھے کسی نے ادب نہیں سکھایا،میں نے جاہل کی جہالت (کہ یہ بھی ایک عیب ہے)کو دیکھاتو اس سے کنارہ کشی اختیار کر لی ۔''جان لیں ! جو کچھ ہم نے بیان کیا ہے جب آپ اس پر غوروفکر کریں گے تو آپ کی بصیرت کی آنکھ کھل جائے گی، اور آپ اس سے فائدہ حاصل کریں گے، اگر آپ کو یہ چیز نہ حاصل ہو تو کم از کم اس پر ایمان لانا اوراس کی تصدیق کرنا ضروری ہے۔ کیوں کہ پہلی چیز ایمان ہے اورپھر اس منزل تک پہنچنا ہے۔ پروردگارِ کائنات کا فرمان عالیشان ہے:یَرْفَعِ اللہُ الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا مِنۡکُمْ ۙ وَ الَّذِیۡنَ اُوۡتُوا الْعِلْمَ دَرَجٰتٍ ؕیعنی: اللہ تمہارے ایمان والوں کے اوران کے جن کو علم دیا گیا درجے بلند فرمائے گا۔(پ28،المجادلۃ:11)تقوی ان اعمال کے حصول میں اصل مال کی حیثیت رکھتاہے۔ پروردگارِ کائنات نے ارشاد فرمایا: وَ مَنۡ یَّـتَّقِ اللہَ یَجْعَلْ لَّہٗ مَخْرَجًا ۙ﴿2﴾وَّ یَرْزُقْہُ مِنْ حَیۡثُ لَا یَحْتَسِبُ ؕیعنی: اورجو اللہ سے ڈرے اللہ اس کے لیے نجات کی راہ نکال دے گا اوراسے وہاں سے روزی دے گا جہاں اس کا گمان نہ ہو۔(پ28، الطلاق:2۔3)منقول ہے کہ عزیز ِمصرکی بیوی نے حضرت سیِّدُنا یوسف علیٰ نبیناوعلیہ الصلوٰۃو السلام سے کہا:''اے یوسف (علیہ السلام) ! بے شک حرص اورخواہش نے بادشاہوں کو غلام بنایا اورصبروتقوی نے غلاموں کو بادشاہ بنادیا۔''توحضرت سَیِّدُنایوسف علیٰ نبیناوعلیہ الصلوٰۃو السلام نے فرمایا : پروردگارِ کائنات کا فرمانِ حقیقت نشان ہے :اِنَّہٗ مَنۡ یَّـتَّقِ وَیَصْبِرْ فَاِنَّ اللہَ لَایُضِیۡعُ اَجْرَ الْمُحْسِنِیۡنَ ﴿90﴾یعنی: بے شک جو پرہیزگاری اورصبر کرے تو اللہ نیکوں کا نیگ (اجر ) ضائع نہیں کرتا۔(پ13،یوسف:90)حضرت سیِّدُنا جنیدبن محمد خزارعلیہ رحمۃ اللہ الغفار فرماتے ہیں : '' ایک مرتبہ میں رات کو جاگا اوراپنے وظیفہ میں مشغول ہوگیا، لیکن میں نے اس میں وہ لذّت نہ پائی جو پہلے پایا کرتا تھا چناں چہ میں نے سونے کا ارادہ کیا لیکن سونہ سکا، لہٰذا بیٹھ گیا لیکن بیٹھ بھی نہ سکا تو باہر نکل گیا،کیا دیکھتا ہوں کہ ایک شخص کمبل میں لپٹا ہوا راستے میں پڑا ہے، جب وہ میرے آنے پر مطلع ہوا تو کہنے لگا: ''اے ابوقاسم! ذرا میرے پاس تشریف لائیے۔'' میں نے کہا: ''اے محترم! پہلے سے آپ نے کوئی اطلاع نہیں دی۔'' اس شخص نے کہا:'' جی ہاں! میں نے پروردگارِ کائنات کی بارگاہ میں التجا کی کہ وہ تیرے دل کو میری طرف متوجہ کر دے۔'' میں نے کہا:''وہ تیری طرف متوجہ ہو گیا ہے ،(اب بتاؤ )تمہاری کیاحاجت ہے؟'' اس نے کہا:'' نفس کی بیماری اس(نفس)کا علاج کب بنتی ہے ؟''میں نے کہا: ''جب تو نفس کی خواہش میں اس کی مخالفت کرے۔'' پس وہ اپنے نفس کی طرف متوجہ ہوکر کہنے لگا:'' اے نفس! اب سن لیا! میں نے تجھے سات باراس بات کا جواب دیا لیکن تو نے انکار کیا اورکہا: میں حضرت سَیِّدُناجنیدرحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ سے ہی سنوں گا (تواب تو نے سن لیا)۔''آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں کہ وہ شخص چلا گیا اورمیں اسے نہ پہچان سکا۔اچھے اَخلاق کی نشانیاں:پروردگارِ کائنات کا ارشادِ پاک ہے :(1) قَدْ اَفْلَحَ الْمُؤْمِنُوۡنَ ۙ﴿1﴾الَّذِیۡنَ ہُمْ فِیۡ صَلَاتِہِمْ خَاشِعُوۡنَ ۙ﴿2﴾وَالَّذِیۡنَ ہُمْ عَنِ اللَّغْوِ مُعْرِضُوۡنَ ﴿ۙ3﴾وَالَّذِیۡنَ ہُمْ لِلزَّکٰوۃِ فٰعِلُوۡنَ ۙ﴿4﴾وَالَّذِیۡنَ ہُمْ لِفُرُوۡجِہِمْ حٰفِظُوۡنَ ۙ﴿5﴾اِلَّا عَلٰۤی اَزْوَاجِہِمْ اَوْ مَا مَلَکَتْ اَیۡمَانُہُمْ فَاِنَّہُمْ غَیۡرُ مَلُوۡمِیۡنَ ۚ﴿6﴾فَمَنِ ابْتَغٰی وَرَآءَ ذٰلِکَ فَاُولٰٓئِکَ ہُمُ الْعٰدُوۡنَ ۚ﴿7﴾وَالَّذِیۡنَ ہُمْ لِاَمٰنٰتِہِمْ وَ عَہۡدِہِمْ رَاعُوۡنَ ۙ﴿8﴾وَالَّذِیۡنَ ہُمْ عَلٰی صَلَوٰتِہِمْ یُحَافِظُوۡنَ ۘ﴿9﴾اُولٰٓئِکَ ہُمُ الْوَارِثُوۡنَ ﴿ۙ10﴾یعنی:بے شک مراد کو پہنچے ایمان والے جو اپنی نماز میں گڑ گڑاتے ہیں اوروہ جو کسی بے ہودہ بات کی طرف التفات نہیں کرتے اوروہ کہ زکوۃ دینے کا کام کرتے ہیں اور وہ جو اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کرتے ہیں مگر اپنی بیبیوں یاشرعی باندیوں پر جوان کے ہاتھ کی مِلک ہیں کہ ان پر کوئی ملامت نہیں تو جو ان دو کے سوا کچھ اورچاہے وہی حد سے بڑھنے والے ہیں اوروہ جو اپنی امانتوں اور اپنے عہد کی رعایت کرتے ہیں اوروہ جو اپنی نمازوں کی نگہ بانی کرتے ہیں یہی لوگ وارث ہیں۔(پ18،المؤمنون:1تا10)(2) اَلتَّآئِبُوۡنَ الْعٰبِدُوۡنَیعنی:تو بہ والے عبادت والے۔(پ11،التوبہ:112)(3) اِنَّمَا الْمُؤْمِنُوۡنَ الَّذِیۡنَ اِذَا ذُکِرَ اللہُ وَجِلَتْ قُلُوۡبُہُمْ وَ اِذَا تُلِیَتْ عَلَیۡہِمْ اٰیٰتُہٗ زَادَتْہُمْ اِیۡمَانًایعنی:ایمان والے وہی ہیں کہ جب اللہ یاد کیا جائے ان کے دل ڈرجائیں اورجب ان پر اس کی آیتیں پڑھی جائیں ان کا ایمان ترقی پائے ۔ (پ9،الانفال:2)(4) وَ عِبَادُ الرَّحْمٰنِ الَّذِیۡنَ یَمْشُوۡنَ عَلَی الْاَرْضِ ہَوْنًایعنی:اوررحمن کے وہ بندے کہ زمین پر آہستہ چلتے ہیں۔ (پ19 ،الفرقان:63)اخلاقی تربیت کا طریقہ:بعض لوگ ایسے ہوتے ہیں کہ انہیں اگر ابتدائی عمر میں مشفِق کی معمولی سی توجہ حاصل ہوجائے، تو وہ ان کے لیے کافی ہوتی ہے ۔ جس طرح حضرت سیِّدُنا سہل تستری علیہ رحمۃ اللہ الولی سے منقول ہے ،آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں:'' میری عمر تین سال تھی اور میں رات کو اٹھ کر اپنے ماموں حضرت سَیِّدُنامحمد بن محمدبن سوّار علیہ رحمۃ اللہ الوھاب کو خلوت میں نمازپڑھتے دیکھتا تھا۔ ایک دن میرے ماموں نے مجھ سے پوچھا: ''کیا تو اس پروردگارِ کائنات کویاد نہیں کرتا جس نے تجھے پیدا کیا ؟'' میں نے پوچھا:'' میں اسے کس طرح یاد کروں ؟'' انھوں نے فرمایا:''جب تم بستر پر لیٹنے لگو تو تین بار زبان کو حرکت دئیے بغیر محض دل میں یہ کلمات کہو: '' اَللہُ مَعِیَ،اَللہُ نَاظِرٌ اِلَیَّ،اَللہُ شَاھِدِیْ یعنی پروردگارِ کائنات میرے ساتھ ہے ، پروردگارِ کائنات مجھے دیکھ رہا ہے اورپروردگارِ کائنات میرا گواہ ہے ۔'' آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ ارشاد فرماتے ہیں:میں نے چند راتیں یہ کلمات پڑھے پھر انہیں بتایا تو انھوں نے فرمایا:''ہر رات سات مرتبہ پڑھو۔'' میں نے انہیں پڑھا پھر انہیں بتایا تو انھوں نے فرمایا:'' ہر رات گیارہ مرتبہ یہ کلمات پڑھو۔'' میں نے اسی طرح پڑھا، تو میرے دل میں اس کی لذّت پائی گئی، جب ایک سال گزرگیا تو میرے ماموں نے مجھ سے فرمایا:'' میں نے جو کچھ تمہیں سکھایا ہے اسے یاد رکھو اورقبر میں جانے تک ہمیشہ پڑھتے رہنا، تمہیں دنیا وآخرت میں نفع دے گا۔'' میں نے کئی سال تک ایسا کیا تو اپنے اندر اس کا مزہ پایا پھر ایک دن میرے ماموں نے فرمایا:'' اے سہل ! پروردگارِ کائنات جس شخص کے ساتھ ہو، اسے دیکھتا ہو اوراس کا گواہ ہو ،وہ اس کی نافرمانی کیسے کر سکتاہے ؟ گناہ سے بچو۔''میں تنہائی میں یہ ذکر کرتا رہا پھر انھوں نے مجھے مکتب میں بھیجا،تو میں نے عرض کی:'' مجھے ڈر ہے کہ کہیں میرے ذکر میں خلل نہ آجائے۔چنانچہ انھوں نے استاد صاحب سے یہ شرط مقرر کی ،کہ میں ان کے پاس جاکر صرف ایک گھنٹہ پڑھوں گا، پھر لوٹ آؤں گا، میں مکتب جاتارہا اورقرآن مجید حفظ کرلیا، اسوقت میری عمر چھ ،سات سال تھی، میں روزانہ روزہ رکھتا ، بارہ سال تک میں جَو کی روٹی کھاتا رہا، تیرہ سال کی عمر میں مجھے ایک مسئلہ پیش آیا ، میں نے گھروالوں سے کہا:''مجھے بصرہ بھیج دو تاکہ میں وہاں کے علماء سے اس کے بارے میں دریافت کروں لیکن ان میں کسی نے مجھے شافی جواب نہ دیا، پھر میں عبادان کی طرف نکلا۔میں نے وہاں پر حضرت سیِّدُنا ابو حبیب حمزہ بن عبداللہ عبادانی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نامی بزرگ سے مسئلہ پوچھا تو انھوں نے مجھے قابلِ اطمینان جواب دیا،میں ان کے پاس ٹھہر گیا، ان کے کلام سے نفع حاصل کرتااورآداب سیکھتا رہا، پھر میں تستر کی طرف آگیا، میں نے اپنی روزی کا انتظام یوں کیا کہ میرے لیے ایک درہم کے ایک فِرق (چارکلو) جَو خریدے جاتے ،انہیں پیس کر روٹی پکائی جاتی،میں ہر رات سحری کے وقت ایک اوقیہ روٹی کھاتا جو نمک اورسالن کے بغیر ہوتی، چنانچہ ایک درہم مجھے سال بھر کے لیے کافی ہوجاتا پھر میں نے ارادہ کیا، کہ تین دن مسلسل روزہ رکھوں گا، پھر افطار کروں گا پھر پانچ دن ، پھر سات دن اورپھر پچیس دن کا مسلسل روزہ رکھا اوربیس سال تک میرا یہی معمول رہا۔ پھر میں زمین میں سیروسیاحت کے لیے نکلا، پھر تستر واپس لوٹ آیا اورمیں ساری رات قیام کرتا تھا۔ پروردگارِ کائنات جو قوّی اورکریم ہے وہی اس کی توفیق عطافرمانے والا ہے۔ ''مریدین کے لیے نصیحت:جان لیں ! جو شخص آخرت کی کھیتی کا ارادہ کرتاہے، اس کی علامت یہ ہے کہ وہ دنیا کی کھیتی کو چھوڑ دیتاہے۔ لہٰذا جو شخص اپنے دل سے آخرت کا یقینی مشاہدہ کرلیتاہے اس کی علامت یہ ہے کہ وہ دنیا کو حقیر سمجھتا ہے اورجو شخص نفیس جوہر دیکھ لے اوراس کے ہاتھ میں منکا ہوتو اب اسے منکے کی رغبت نہیں رہتی جو ایسا نہیں کرتا ( یعنی آخرت کی کھیتی کا ارادہ نہیں رکھتا)تو اس کا مطلب ہے کہ وہ پروردگارِ کائنات اورآخرت پر ایمان نہیں رکھتا۔(پس معلوم ہوا )پروردگارِ کائنات تک رسائی کا نہ ہونا راہ سلوک پر گامزن نہ ہونے کی وجہ سے ہے ، اس راہ پر گامزن نہ ہونا ارادہ نہ ہونے کی وجہ سے ہے اورارادہ میں رکاوٹ ایمان کا نہ ہوناہے، اورظاہری طور پر عدمِ ایمان کا سبب سیدھا راستہ دکھانے والوں اور پروردگارِ کائنات کے راستے کی طرف رہنمائی کرنے والے علماء کا نہ پایا جانا ہے ۔چنانچہ جو شخص اپنے نفس سے یا اس کے غیر سے آگاہ ہوجائے تو اس کے لیے چند شرائط ہیں (مرید بننے سے پہلے)انکا پایا جانا ضروری ہے۔ پہلی شرط:پردے اوررکاوٹ کو اٹھادینا ہے اوریہ چار ہیں: (۱) مال (۲) جا ہ ومرتبہ(۳)تقلید اور (۴)گناہ۔جہاں تک مال کا تعلق ہے تو وہ ضرورت سے زائد تقسیم کردے، اورجاہ سے خلاصی اس طرح ممکن ہے کہ وہ وطن سے دور چلا جائے، یا تواضع وپوشیدگی کو اختیار کرے اور اس چیز کی طرف متوجہ ہوجو جاہ ومرتبہ کو ختم کردیتی ہے، اورتقلید کا حجاب اس طرحدور ہوتاہے کہ وہ مذاہب کے تعصُّب کو چھوڑ دے اور لَااِلٰہَ اِلاَّ اللہُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللہ کے معنی کی ایمان کے ساتھ تصدیق کرے ،اور ان اعمال پر عمل پیرا ہو جو اس کلمہ کی تصدیق کرتے اوراسے ثابت کرتے ہیں ،اوردنیا اوراس کی خواہشات اوران تمام چیزوں کو چھوڑ دے جن کی طرف نفس مائل ہوتاہے، تو اس وقت وہ اپنی پوری ہمت کے ساتھ حقیقت میں پروردگارِ کائنات کی طرف متوجہ ہوگا اور اس کے لیے درست اعتقادظاہر ہوجائے گا، جیسا کہ پروردگارِ کائنات کا فرمانِ عالیشان ہے:وَالَّذِیۡنَ جَاہَدُوۡا فِیۡنَا لَنَہۡدِیَنَّہُمْ سُبُلَنَا ؕیعنی:اورجنہوں نے ہماری راہ میں کوشش کی ضرور ہم انہیں اپنے راستے دکھا دیں گے۔ (پ21،العنکبوت:69)جہاں تک گناہوں کا تعلق ہے تووہ انہیں چھوڑدے ،اوران کی جگہ عبادات بجالائے، گذشتہ گناہوں پر شرمندہ ہو اور توبہ کرے اور لوگوں کے حقوق لوٹا دے۔ جب وہ ایسا کرے اوران چاروں امور سے فارغ ہوجائے تووہ اس شخص کی طرح ہوگیا جو وضو کرتا ہے، ناپاکی کو دور کرتاہے، شرمگاہ کو ڈھانپتا ہے اورنماز کے لیے تیار ہوجاتاہے۔ اس وقت اسے راہ ِآخرت سے واقف ایک شیخ کی ضرورت ہوتی ہے، کہ وہ اس کی رہنمائی کرے اوراس وقت وہ شیخ کے سامنے اس طرح ہوتاہے ،جس طرح غسل دینے والے کے ہاتھوں میں میت ہوتی ہے کہ وہ خودبخود حرکت نہیں کرتی بلکہ غسل دینے والا جس طرح چاہتا ہے، اسے حرکت دیتاہے۔ اس وقت اسے چاہے کہ وہ حضرت سیِّدُنا موسیٰ وحضرت سیِّدُنا خضر علیٰ نبیناوعلیہما الصلوٰۃو السلام کے واقعہ کو یاد کرے اوراپنے شیخ پر کسی حالت کے بارے میں اعتراض نہ کرے۔ اس وقت اسے چار چیزوں کا حکم دیا جائے گا: (۱)خلوت (۲)خاموشی (۳) بھوک (۴) بیداری ۔جہاں تک بھوک کا تعلق ہے تو اس سے مراد دل کا خون کم ہوناہے ،اس میں دل کی سفیدی ونور ہے،بھوک سے دل کی چربی پگھل جاتی ہے ،یہ دل کی نرمی کا سبب ہے ،یہ نرمی مکاشفہ کی چابی ہے، جس طرح سختی جو نرمی کی ضد ہے، حجاب کا باعث ہوتی ہے اورآپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم نے اُمُّ المؤمنین حضرت سَیِّدَتُناعائشہ رضی ا للہ تعالیٰ عنہا کو ارشادفرمایا:''بھوک سے شیطان کی گزرگاہوں کو تنگ کرو۔'' اس فرمان میں اسی طرف اشارہ ہے اورحضرت سیِّدُنا عیسیٰ علٰی نبیناوعلیہ الصلٰوۃو السلام نے اپنے رفقاء سے ارشاد فرمایا: ''اپنے پیٹوں کو بھوکا رکھو تاکہ تم دل (کی آنکھوں) سے اپنے رب کا دیدار کرو۔''حضرت سیِّدُنا سہل رضی اللہ تعالیٰ عنہ ارشاد فرماتے ہیں:''چارخصلتوں کے بغیر ابدال کا مرتبہ حاصل نہیں ہوتا:(۱)پیٹ کو بھوکا رکھنا (۲)بیداری(۳)خاموشی (۴)لوگوں سے دور رہنا۔''جہاں تک بیداری کا تعلق ہے تویہ دل کو روشن ومنوّر کرتی ہے ،اوربھوک بیداررہنے میں مدددیتی ہے اوریہ دونوں چیزیں دل کو منوّر کرنے میں مددگار ثابت ہوتی ہيں ۔ نیند دل کو سخت اور مردہ کردیتی ہے مگر یہ کہ بقدرِ ضرورت ہو(تودل کے لیے نقصان دِہ نہیں) ابدال کی یہ صفات بیان کی گئی ہیں، کہ ان کی نیند غلبہ کے وقت ، کھانا فاقے کے وقت اورکلام ضرورت کے وقت ہوتاہے۔حضرت سیِّدُنا ابراہیم خوّاص رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ ارشادفرماتے ہیں: ''ستر صدّیقین اس بات پر متفق ہیں،کہ نیند کی کثرت کا سبب زیادہ پانی پینا ہے۔''خاموشی گوشہ نشینی اورخلوت کی صورت میں آسان ہوتی ہے اورکلام کازیادہ حریص وہ شخص ہوتا ہے جو صاحبِ علم ہو، کیونکہ اس سے رکنا بہت مشکل ہوتاہے لیکن اس کا فائدہ ونفع بھی بہت زیادہ ہے، کیونکہ اسی کے ذریعے باطن غیب کی طرف متوجہ ہوتاہے اوراس دنیاوی زندگی سے اعراض کرتاہے ۔جبکہ خلوت کا فائدہ یہ ہے کہ انسان غفلت سے بچ جاتاہے، تاکہ مقصد کے لیے فارغ ہوسکے اور اس مقصد کے لیے حواس کا سکون ضروری ہے، کہ اس سے انسان کا دل حرکت کے قابل ہوجاتاہے اوراس کے لیے خلوت ضروری ہے، پھر بہتر یہ ہے کہ وہ ایسے کمرے میں خلوت اختیار کرے، جس میں اندھیرا ہو، تاکہ اس کی نظر کسی ایسی چیز پر نہ پڑے جو اسے غافل کردے، لیکن اگر تاریک کمرہ میسر نہ ہوتو وہ اپنے سر کو کسی چیز سے لپیٹ لے یا آنکھیں بند کرلے ،اور حواس کے سکون کی صورت وہ ندائے حق سنے گا،نیز اللہ ربّ العزّت کے جمال کا مشاہدہ کریگا ،کیا تم نہیں دیکھتے !کہ نبئ اَکرم صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کو جب ندا دی گئی تو ارشاد فرمایاگیا :(1) یٰۤاَیُّہَا الْمُزَّمِّلُ ۙ﴿1﴾یعنی: اے جھرمٹ مارنے والے۔(پ29،المزمل:1)(2) یٰۤاَیُّہَا الْمُدَّثِّرُ ۙ﴿1﴾یعنی: اے بالاپوش اوڑھنے والے۔(پ29،المدثر:1)جب بندہ بھوک ، خلوت ، بیداری اورخاموشی اختیار کرے تو اسے چاہے کہ وہ پروردگارِ کائنات کا ذکر کرے ،اس کا طریقہ یہ ہے کہ گھر کے ایک کونے میں باوضو، قبلہ رو ہو کربیٹھ جائے اوراپنی زبان سے اللہ، اللہ کا ورد کرے ،اورمسلسل ذکر کرتا رہے ، اپنے دل اور تمام حواس کو زبان سے ادا ہونے والے کلمات کو سننے کے لیے حاضر رکھے اور مسلسل اس ذکر میں مصروف رہے، یہاں تک کہ زبان کی حرکت ختم ہوجائے گویایہ کلماتِ طیبات خود بخود زبان پر جاری ہيں، پھر وہ زبان سے دل کی طرف لوٹے ، جب دِل ذکر سے رک جائے تو زبان سے ذِکر جاری رہے۔ جب دِل ذکر میں راسخ ہوجائے تو زبان سے خاموش ہوجائے اوراسی طرح کرتا رہے ،یہاں تک کہ دِل سے حروف مٹ جائیں اورحروف کے بغیر صاف و شفاف ذکر باقی رہے، پھر ذکر سےآگے بڑھ کر ہمیشگی کی حالت اختیار کرے اورجب اس پر کچھ چیزوں کا ظہور ہو جائے تو سابقہ حالت کی طرف لوٹ آئے، اوراپنے شیخ سے اس کاذکر کرے، کیونکہ وہ ان اسرار ورموز کو جانتا ہے جومرید پر صفائی و کدورت کے معاملے میں طاری ہوتے ہیں،اورمرید پرجو خیالات، وساوس اورصحیح احوال پائے جاتے ہیں ان کا خود بخود جاننا ممکن نہیں۔ لہٰذا وہ اپنے شیخ کو بتا دے کیونکہ وہ اسے زیادہ جانتاہے اورجب تک وہ سمجھتا ہے کہ اس کا نفس ابھی تک زِیر نہیں ہواتو تمام احوال میں اس کے لیے ذکر کرناضروری ہے۔پروردگارِ کائنات ارشاد فرماتاہے:قُلِ اللہُ ۙ ثُمَّ ذَرْہُمْیعنی: اللہ کہو ، پھر انہیں چھوڑ دو۔ (پ7،الانعام:91)چنانچہ اس پر جب کوئی وسوسہ یا بُر اخیال غالب ہو،اور اس کے غائب ہونے تک وہ اسے جان نہیں پاتا تو اس میں کوئی حرج نہیں، لہٰذا جب اس کے دل سے وسوسہ نکل جائے اوروہ حقیقت سے آگاہ ہو جائے تو پروردگارِ کائنات کا ذکر کرنا شروع کردے۔پروردگارِ کائنات نے ارشاد فرمایا:(1) اِنَّ الَّذِیۡنَ اتَّقَوۡا اِذَا مَسَّہُمْ طٰٓئِفٌ مِّنَ الشَّیۡطٰنِ تَذَکَّرُوۡا فَاِذَا ہُمۡ مُّبْصِرُوۡنَ ﴿201﴾یعنی: بے شک وہ جو ڈر والے ہیں جب انہیں کسی شیطانی خیال کی ٹھیس لگتی ہے ہوشیار ہوجاتے ہیں ۔ اسی وقت ان کی آنکھیں کھل جاتی ہیں ۔(پ9،الاعراف:201)(2) وَ اِمَّا یَنۡزَغَنَّکَ مِنَ الشَّیۡطٰنِ نَزْغٌ فَاسْتَعِذْ بِاللہِ ؕ اِنَّہٗ سَمِیۡعٌ عَلِیۡمٌ ﴿200﴾یعنی: اوراے سننے والے! اگر شیطان تجھے کوئی کو نچا دے (کسی برے کام پر اکسائے )تو اللہ کی پناہ مانگ بے شک وہی سنتا جانتاہے ۔(پ9،الاعراف: 200)اور اپنی ساری زندگی پابندی سے ذکرکرتا رہے،ہوسکتا ہے کہ عنقریب وہ ملوکِ دین( یعنی دین کے بادشاہوں )میں سے ہو جائے جن پر حقائق ظاہر ہوجاتے ہیں ،اوروہ ان چیزوں کو دیکھتے ہیں جنہیں نہ کسی آنکھ نے دیکھا،نہ کسی کان نے سنا اور نہ ہی کسی دل پر ان کاگمان گزرا۔ اگر اس پر کوئی شئے ظاہر نہ ہو تو وہ ذکر پر ہمیشگی اختیار کرے ،کہ حضرت مَلَکُ الموت علیہ السلام کی آمد کے وقت اس پر وہ اشیا ظاہر ہو جائیں اوراگر پروردگارِ کائنات نے چاہا تو وہ مقصود تک پہنچ جائے گا۔اس بات کو سمجھ لو تمہیں فائدہ ہوگا۔اخیر میں بارگاہ قاضی الحاجات میں دعا گو ہوں کہ موالے پاک اپنے محبوب پاک، صاحب لولاک، سیاح افلاک صلی اللہ علیہ وسلم کے صدقے و طفیل حضرت مخدوم پاک کے مرقد منور پہ رحمت و انوار کی بارشیں برسائے۔ ان کے درجات بلند فرمائے اور ہمیں ان کی یاد منانے اور ان کے نام نذر و نیاز کرنے کے ساتھ ساتھ ان کی تعلیمات پر عمل پیرا ہونے کی بھی توفیق خیر مرحمت فرمائے۔آمین۔ یا رب العالمین۔ بجاہ النبی الامین۔صلی اللہ علیہ وآلہ وصحبہ ومن تبعھم اجمعین۔

Comments

Popular posts from this blog