سلطان المخدومین حضرت سیدنا کمال الدین یحییٰ منیری علیہ الرحمہ اور حسنِ احوالاز قلم: ناچیز ناصر منیری کان اللہ لہڈائریکٹر: ریسرچ سینٹر، خانقاہ منیر شریف، پٹنہرابطہ نمبر: 9905763238۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔سلطان المخدومین حضرت سیدنا کمال الدین یحییٰ منیری علیہ الرحمۃ والرضوان جلیل القدر صوفی بزرگ گذرے ہیں۔ آپ چوں کہ اللہ کے ولی تھے اور آپ کو اللہ نے لوگوں کو سیدھی راہ بتانے کے لیے بھیجا تھا اس لیے آپ لوگوں کو اچھی اچھی باتیں سکھاتے تھے۔ ذیل میں تعلیماتِ تصوف سے حسن احوال کا بیان پیش کیا جا رہا ہے:(1)غصہ و غضب کی برائیاں:غصہ ایک چھپی ہوئی آگ ہے جو دل میں ہوتی ہے۔ جس طرح راکھ کے نیچے چھپی ہوئی چنگاری ہوتی ہے۔ اوریہ چھپے ہوئے تکبر کو باہر نکالتی ہے۔ شاید غصہ اسی آگ سے ہو جس سے شیطان کو پیدا کیا گیاہے۔ حضرت سیِّدُنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، ایک شخص نے عرض کی:'' یا رسول اللہ ﷺ! مجھے کوئی مختصر سا عمل بتائيے؟'' تاج دارِ کائنات ﷺ نے ارشاد فرمایا: '' لَا تَغْضَبْ یعنی :غصہ نہ کرو۔'' اس نے دوبارہ یہی سوال کیاتو تاج دارِ کائنات ﷺ نے فرمایا: '' لَا تَغْضَبْ یعنی :غصہ نہ کرو۔'' (صحیح البخاری، کتاب الادب، باب الحذرمن الغضب، الحدیث۶۱۱۶،ص۵۱۶) حضرت سیِّدُنا ابن مسعودرضی اللہ عنہ سے مروی ہےکہ تاج دارِ کائنات ﷺ نے ارشاد فرمایا:''تم اپنے میں سے پہلوان کسے سمجھتے ہو؟'' ہم نے عرض کی:'' جسے لوگ پچھاڑ نہ سکیں۔'' تاج دارِ کائنات ﷺ نے ارشاد فرمایا: ''پہلوان وہ نہیں، بلکہ پہلوان تو وہ ہے جو غصے کے وقت اپنے آپ پر قابو رکھے۔'' (صحیح مسلم، کتاب البر، باب فضل من یملک نفسہ عند الغصب۔۔۔۔۔۔الخ، الحدیث۶۶۴۱،ص۱۱۳۳) تاج دارِ کائنات ﷺ کافرمانِ عالی شان ہے:مَا غَضِبَ اَحَدٌ اِلاَّ اَشْفٰی عَلٰی جَھَنَّمَ ۔یعنی:جو شخص غصہ کرتا ہے وہ جہنم کے کنارے پر جا پہنچتا ہے۔(شعب الایمان للبیھقی، باب فی حسن الخلق، فٖصل فی ترک الغضب، الحدیث۸۳۳۱،ج۶،ص۳۲۰،مفھوماً) آدمی کی تخلیق اس اندازمیں کی گئی کہ اس کی فنا اوربقا مقصود تھی لہٰذا اس میں غصہ رکھ دیا گیا۔ یہ حمیت و غیرت کی قوت ہے جو انسان کے باطن سے پھوٹتی ہے، پروردگارِ کائنات نے غصے کو آگ سے پیدا فرمایا اور اسے انسان کے باطن میں رکھ دیا پس جب وہ ارادہ کرتا ہے تو غصے کی آگ بھڑک اٹھتی ہے اورجب جوش پیدا ہوتا ہے تو دل کا خون کھول کر رگوں میں پھیل جاتا ہے پھر وہ آگ کی طرح بدن کے بالائی حصے کی طرف اٹھتا ہے یا اس پانی کی طرح جو (برتن کے اندر) کھولتا ہے اور اس طرح وہ چہرے کی طرف اٹھتا ہے پس چہرہ سرخ ہو جاتاہے۔ چنانچہ جب اپنے سے کم مرتبے والے پر غصہ آئے اور اسے معلوم ہو کہ وہ اس پر قدرت رکھتا ہے تو جِلد سرخ ہو جاتی ہے لیکن اگر اپنے سے بڑے پر غصہ آئے اور اسے خوف محسوس ہو تو خون ظاہری جلد سے اکٹھا ہو کرواپس چلا جاتا ہے، اس کا رنگ زرد ہو جاتا ہے اور وہ غم گین ہو جاتا ہے لیکن اگر غصہ کسی برابر والے پر آئے تو خون سکڑنے اور پھیلنے کی وجہ سے چہرے پر زردی اور سرخی والی کیفیات طاری ہوجاتی ہیں اور وہ مضطرب ہو جاتا ہے۔ مختصر یہ کہ دل غصے کا مقام ہے اور اس کا معنی یہ ہے کہ انتقام لینے کے لیے دل کے خون کا جوش مارنا۔غصے کا علاج یہ ہے کہ غصہ پی جانے کے ثواب سے آگاہ ہو پھر اپنے آپ کو پروردگارِ کائنات کے عذاب سے ڈرائے اوریہ یقین رکھے کہ پروردگارِ کائنات مجھ پر اس سے زیادہ قدرت رکھتا ہے اور اپنے آپ کو انتقام کے انجام سے ڈرائے کیوں کہ دشمن بھی اسی طرح اسے تکلیف دینے پر کمر بستہ ہے۔ اس طرح یہ طویل دشمنی بن جائے گی اور غصے کے وقت دوسروں کی شکل بگڑنے میں غورو فکر کرے اور اپنے آپ کو اس پر قیاس کرے اور سوچے کہ غصے میں آنے والا حملہ کرنے والے درندے کی طرح ہوتا ہے اوربُردبار شخص انبیا و اولیا (کے اَخلاق) کی نظیر ہوتا ہے۔ جب انسان غور کرے گاتو اسے معلوم ہوگا کہ اس کا غصہ اس وجہ سے ہے کہ اس کا کام پروردگارِ کائنات کی مشیَّت کے مطابق ہوا ہے، اس کے ارادے کے مطابق نہیں ہوا اور اسی وجہ سے احادیث مبارکہ میں وارد ہے کہ غصے کا آنا پروردگارِ کائنات کی ناراضی کا سبب ہے ۔جب یہ باتیں معلوم ہو گئیں تو لازم ہے کہ غصے کے وقت ''اَعُوْذُ بِاللہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ'' پڑھیں۔ تاج دارِ کائنات ﷺ نے اسی طرح حکم فرمایا کہ غصے کے وقت ''اَعُوْذُ بِاللہِ'' پڑھو۔'' (صحیح البخاری، کتاب الادب، باب الحذرمن الغضب، الحدیث۶۱۱۵،ص۵۱۶)اُمُّ المؤمنین حضرت سیِّدَتُنا عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کو جب غصہ آتا تو تاج دارِ کائنات ﷺ ان کی ناک پکڑ کر ارشاد فرماتے: ''اے عویش(اسم عائشہ کی تصغیر)! یوں کہو: اے تاج دارِ کائنات ﷺ کے رب! میرے گناہ بخش دے اور میرے دل کے غصے کو ختم فرما اور مجھے گمراہ کرنے والے ظاہری و باطنی فتنوں سے محفوظ فرما۔ '' (عمل الیوم واللیلۃ لابن السنی،باب ما یقول اذا غضب،الحدیث۴۵۵،ص۱۴۲) (صحیح مسلم،کتاب الجنۃ، باب عرض مقعد المیت من الجنۃوالنارعلیہ۔۔۔۔۔۔الخ، الحدیث۱۳ ۲ ۷،ص۱۱۷۵) انسان کو چاہے کہ غصے کے وقت یہ (مندرجہ بالا)الفاظ کہے، کھڑا ہو تو بیٹھ جائے اوربیٹھا ہو تو لیٹ جائے۔جیسا کہ تاج دارِ کائنات ﷺ کافرمانِ عالی شان ہے:''بے شک غصہ ایک چنگاری ہے جو دل میں بھڑکتی ہے، کیا تم اس کی وجہ سے رگوں کے پھولنے اور آنکھوں کی سرخی کو نہیں دیکھتے پس جب تم میں سے کوئی ایسی بات(یعنی غصہ) پائے تو اگرکھڑا ہو تو بیٹھ جائے اور بیٹھا ہو تو لیٹ جائے اگر اس طرح بھی غصہ ختم نہ ہو تو ٹھنڈے پانی سے وضو یا غسل کرے کیوں کہ پانی ہی آگ کو بجھاتا ہے۔'' (جامع الترمذی، ابواب الفتن، باب ماأخبرالنبی أصحابہ بماہوکائن الی یوم القیامۃ، الحدیث۲۱۹۱،ص۷۲ ۸ ۱۔سنن ابی داؤد،کتاب الادب،باب مایقال عندالغضب، الحدیث۴۷۸۲/۴۷۸۴، ص۱۵۷۵)حِلم و بردباری کی خوبیاں:''غصہ وغضب کے وقت اطمینان سے رہنے اور غصہ کی شدت پرقابو پانے کا نام '' حِلم ''ہے ۔اگرکوئی ایسا سبب پایا جائے جس کی وجہ سے غصہ کرنا لازم ہو تو ایسا غصہ حلم کے منافی نہیں اوراگرکوئی اس سبب پر بھی قابو پالے تویہ بھی حلم ہی میں شامل ہے ۔''(الحدیقۃ الندیۃ،الخلق العشرون من الاخلاق الستین المذمومۃ۔۔۔۔۔۔الخ،ج۱،ص ۶۳۸)حلم(یعنی طبعی بردباری) غصہ پی جانے سے افضل ہے کیوں کہ غصہ پینے سے مراد تکلفاً برداشت کرنااورتکلفاً برُدبار بننا ہے جب کہ طبعی برُدباری عقل کے کامل ہونے کی دلیل ہے اور قوتِ غضب کا ٹوٹنا عقل کے ماتحت ہے اور اس کی ابتداء تکلفاً برُدبار بننے سے ہوتی ہے پھریہ عادت بن جاتی ہے۔جیسا کہ تاج دارِ کائنات ﷺ کا فرمانِ عالی شان ہے:'' علم سیکھنے سے حاصل ہوتا ہے اور بردباری تکلفاًبرداشت کرنے سے پیداہوتی ہے۔ جو شخص بھلائی حاصل کرنے کی کوشش کرتا ہے اسے بھلائی دی جاتی ہے اور جو شر سے بچنا چاہتا ہے اسے بچالیا جاتا ہے۔'' (المعجم الاوسط، الحدیث۲۶۶۳،ج۲،ص۱۰۳)تاج دارِ کائنات ﷺ کافرمانِ عالی شان ہے: ''علم حاصل کرو اور علم کے ساتھ سکون اور بردباری بھی طلب کرو۔ان کے لیے نرمی اختیار کرو جن سے سیکھتے ہو اور جن کو سکھاتے ہو اور متکبر علماء میں سے نہ ہوناورنہ تمھاری جہالت تمھاری بردبا ری پر غالب آجائے گی۔'' (الکامل فی ضعفاء الرجال لابن عدی، الرقم۱۱۶۵،عباد بن کثیر،ج۵،ص۵۴۲)تاج دارِ کائنات ﷺ نے بارگاہ الٰہی میں دعاکرتے ہوئے عرض کی: ''اَللّٰھُمَّ اَغْنِنِیْ بِالْعِلْمِ وَزَیِّنِّیْ بِالْحِلْمِ وَاَکْرِمْنِیْ بِالتَّقْوٰی وَجَمِّلْنِیْ بِالْعَافِیَۃِ یعنی: اے پروردگارِ کائنات! مجھے علم کے ساتھ غنا،بُردبادی کے ساتھ زینت ،تقوی کے ساتھ عزت اور عافیت کے ساتھ خوب صورتی عطا فرما۔'' (کنز العمال،کتا ب الاذکار،الباب الثامن فی الدعاء، الفصل السادس فی جوامع الادعیۃ، الحدیث۳۶۶۰، ج۲، ص۸۱)تاج دارِ کائنات ﷺ کافرمانِ فرمانِ عالی شان ہے: '' پروردگارِ کائنات کے ہاں بلندی تلاش کرو۔'' صحابۂ کرام علیہم الرضوان نے عرض کی :''یارسول اللہ ﷺ !وہ کیا ہے؟ ''تاج دارِ کائنات ﷺ نے ارشاد فرمایا: '' جو تم سے تعلق توڑے اس سے تعلق جوڑو، جو تمھیں محروم کرے اُسے عطا کرو اور جو تم سے جہالت کا سلوک کرے اس کے ساتھ بردباری سے پیش آؤ۔'' (مکارم الأخلاق لابن ابی الدنیا، الحدیث۲۳،ص۳۱)پروردگارِ کائنات کا فرمانِ عالی شان ہے:وَّ اِذَا خَاطَبَہُمُ الْجٰہِلُوۡنَ قَالُوۡا سَلٰمًا ﴿63﴾یعنی: جب جاہل ان سے بات کرتے ہیں تو کہتے ہیں بس سلام۔(پ19، الفرقان:63)حضرت سیِّدُنا حسن بصری علیہ الرحمہ اس کی تفسیر میں فرماتے ہیں:'' اس سے مراد بردبار لوگ ہیں کہ جب ان سے جہالت کا سلوک کیا جائے تو وہ جہالت سے پیش نہیں آتے۔''جب کوئی شخص غیبت کرے ، گالی دے یاعار دلائے تو بردباری کا رویہ اپنانا چاہے کیوں کہ اسی میں دارین کی نجات ہے ،دنیا میں احترام کے اضافہ کا سبب ہے اور آخرت کے ثو اب میں بہت زیادہ اضافہ ہوتا ہے۔تاج دارِ کائنات ﷺ کافرمانِ عالی شان ہے:اِنْ اِمْرُؤٌ عَیَّرَکَ بِمَا فِیْکَ فَلاَ تُعَیِّرْہُ بِمَافِیْہِ ۔یعنی:اگر کوئی تجھے تیرے کسی عیب کے سبب عار دلائے تو تُو اسے اس کے عیب کے سبب عار نہ دلا۔(سنن ابی داؤد، کتاب اللباس، باب ماجاء فی اسبال الأزار، الحدیث۴۰۸۴،ص۱۵۲۱)عفو ودرگزر کی خوبیاں:عفو کا معنی یہ ہے کہ کسی کے ذمہ انسان کا حق ہو اور اسے چھوڑ دے جیسے قصاص، مال یا تاوان چھوڑ دینا۔پروردگارِ کائنات کا فرمانِ فرمانِ عالی شان ہے:خُذِ الْعَفْوَیعنی: اے محبوب! معاف کرنا اختیار کرو۔(پ9، الاعراف :199 )پروردگارِ کائنات کا فرمانِ حقیقت نشان ہے:وَ اَنۡ تَعْفُوۡۤا اَقْرَبُ لِلتَّقْوٰی ؕیعنی: اے مردو!تمھارا زیادہ دینا پرہیزگاری سے نزدیک تر ہے۔(پ2 ،البقرۃ:237)تاج دارِ کائنات ﷺ کافرمانِ فرمانِ عالی شان ہے:''اس ذات کی قسم جس کے قبضۂ قدرت میں میری جان ہے! تین چیزیں ایسی ہیں کہ اگر میں قسم کھاتا توان پر کھاتا:(۱) صدقہ سے مال کم نہیں ہوتا پس صدقہ کیا کرو(۲) کوئی شخص کسی دوسرے کی زیادتی کو پروردگارِ کائنات کی رضا جوئی کے لیے معاف کردے تو بروزِ قیامت پروردگارِ کائنات اس کی عزت میں اضافہ فرمائے گا اور(۳) جو شخص اپنے اوپر سوال کا دروازہ کھول لیتا ہے پروردگارِ کائنات اس پر محتاجی کا دروازہ کھول دیتا ہے۔''(جامع الترمذی، ابواب الزھد، باب ماجاء مثل الدنیا مثل أربعۃ نفر، الحدیث۲۳۲۵،ص۱۸۸۶)تاج دارِ کائنات ﷺ کافرمانِ عالی شان ہے:''عاجزی وانکساری بندے کے مرتبے میں اضافہ کرتی ہے پس تواضع اختیار کرو پروردگارِ کائنات تمھیں رفعت عطا فرمائے گا، درگزر کرنا بندے کی عزت کو بڑھاتا ہے پس معاف کیا کرو پروردگارِ کائنات تمھیں عزت عطا فرمائے گا اور صدقہ مال کو بڑھاتا ہے پس صدقہ کرو پروردگارِ کائنات تم پر رحم فرمائے گا۔''تاج دارِ کائنات ﷺ کافرمانِ عالی شان ہے:مَنْ دَعَا عَلٰی مَنْ ظَلَمَہ، فَقَدْاِنْتَصَرَ۔یعنی:جس نے اپنے اوپرظلم کرنے والے کے خلاف بد دعا کی اس نے اپنا بدلہ لے لیا۔(جامع الترمذی، کتاب الدعوات، باب من دعا علی من ظلمہ فقد انتصر، الحدیث۳۵۵۲،ص۲۰۱۷)نرمی و ملائمت کی خوبیاں:نرمی قابلِ تعریف ہے اور یہ اچھے اخلاق کا نتیجہ ہے، اس کی ضد سخت مزاجی اور گرمی ہے۔تاج دارِ کائنات ﷺ نے ام المؤمنین حضرت سیِّدُتُناعائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے ارشاد فرمایا:''جس شخص کو نرمی سے حصہ ملا اسے دنیا و آخرت کی بھلائی سے حصہ ملا اور جوشخص نرمی سے محروم رہا وہ دنیاوآخرت کی بھلائی سے محروم رہا۔''(مسند ابی یعلی الموصلی، مسند عائشۃ، الحدیث۴۵۱۳،ج۴،ص۱۱۸۔۱۱۹)تاج دارِ کائنات ﷺ کافرمانِ عالی شان ہے:اِذَا اَحَبَّ اللہُ اَھْلَ بَیْتٍ اَدْخَلَ عَلَیْھِمُ الرِّفْقَ۔یعنی:پروردگارِ کائنات جب کسی گھرانے کو پسند فرماتا ہے تو ان میں نرمی پیدا کردیتا ہے۔(المسند للامام احمد بن حنبل،مسند السیدۃ عائشۃ، الحدیث۲۴۴۸۱،ج۹،ص۳۴۵، اِذا أحب: بدلہ: اِذا اَراد)(2)حسد کی برائیاں:کسی کی دینی یا دنیوی نعمت کے زوال کی تمنا کرنا یا یہ ارادہ کرنا کہ کسی کو یہ نعمت نہ ملے ''حسد'' کہلاتاہے ۔(الحدیقۃ الندیۃ،الخلق الخامس عشر من الاخلاق ا لستین المذمومۃ۔۔۔۔۔۔الخ،ج۱،ص ۶۰۰)حسد کینہ کے نتائج میں سے اور کینہ غصہ کے نتائج میں سے ہے۔چنانچہ تاج دارِ کائنات ﷺ کا فرمانِ عالی شان ہے:اَلْحَسَدُ یَاْکُلُ الْحَسَنَاتِ کَمَا تَاْکُلُ النَّارُالْحَطَبَ۔یعنی:حسد نیکیوں کو اس طرح کھا جاتا ہے جس طرح آگ لکڑی کو کھا جاتی ہے۔(سنن ابی داؤد، کتاب الادب، باب فی الحسد، الحدیث۴۹۰۳،ص۱۵۸۳) حسد کی حقیقت یہ ہے کہ جب کسی(مسلمان) بھائی کو پروردگارِ کائنات کی نعمت ملتی ہے تو حاسد انسان اسے ناپسند کرتا ہے اور اس بھائی سے نعمت کا زوال چاہتا ہے۔ اگر وہ اپنے بھائی کو ملنے والی نعمت کو ناپسند نہیں کرتا اور نہ اس کا زوال چاہتا ہے بلکہ وہ چاہتا ہے کہ اسے بھی ایسی ہی نعمت مل جائے تو اسے رشک کہتے ہیں۔تاج دارِ کائنات ﷺ کافرمانِ فرمانِ عالی شان ہے:اَلْمُؤْمِنُ یَغْبِطُ وَالْمُنَافِقُ یَحْسُدُ۔یعنی:مؤمن رشک کرتا اور منافق حسد کرتا ہے۔(سِیَرُ أعلامِ النُبَلَاء، الرقم۱۲۸۶۔الفضیل بن عیاض بن مسعود بن بشر، ج۷،ص۶۴۱،بتغیرٍ قلیلٍ)پروردگارِ کائنات کا فرمانِ عالی شان ہے:وَدَّ کَثِیۡرٌ مِّنْ اَہۡلِ الْکِتٰبِ لَوْ یَرُدُّوۡنَکُمۡ مِّنۡۢ بَعْدِ اِیۡمَانِکُمْ کُفَّارًا ۚۖ حَسَدًایعنی:بہت کتابیوں نے چاہا کاش!تمھیں ایمان کے بعد کفر کی طرف پھیردیں(اپنے دلوں کی) جلن سے۔ (پ1،البقرۃ:109)اس آیتِ مبارکہ میں پروردگارِ کائنات نے خبر دی کہ کفار نے حسد کرتے ہوئے مسلمانوں سے ایمان کی نعمت کا زائل ہونا چاہا۔پروردگارِ کائنات نے ارشاد فرمایا:وَلَا تَتَمَنَّوْا مَا فَضَّلَ اللہُ بِہٖ بَعْضَکُمْ عَلٰی بَعْضٍ ؕیعنی: اور اس کی آرزو نہ کرو جس سے اللہ نے تم میں ایک کو دوسرے پر بڑائی دی۔(پ5،النسآء:32)یہاں پر نہی سے مرادخاص اسی نعمت کے اپنی طرف منتقل ہونے کی تمنا کرنے سے روکنا ہے جب کہ کسی مسلمان کا یہ آرزو کرنا کہ پروردگارِ کائنات اسے بھی اسی جیسی نعمت عطا فرمائے تو یہ آرزو مذموم نہیں اور اگر یہ چیز دین میں ہو تو قابلِ تعریف ہے۔(اسی کو رشک کہتے ہيں)حسد کے بہت سے اسباب ہیں اور وہ دشمنی، فخر، بغض، تکبر ،خودپسندی، پسندیدہ مقاصد کے فوت ہونے کا خوف، حکومت کی خواہش ،نفس کی خباثت اور اس کا بخل ہے اور یہ سب کے سب مذموم ہیں۔حسد کا علاج یہ ہے کہ اس بات پر غور کیا جائے کہ یہ دُنیا و آخرت میں نقصان دیتا ہے۔ جہاں تک دنیوی نقصان کا تعلق ہے تو وہ یہ ہے کہ تجھے اس سے اَذیت ہوتی ہے اور تو دِن رات غم والم کا شکار رہتا ہے۔ اور دینی نقصان یہ ہے کہ تو(بندے پر) پروردگارِ کائنات کی نعمت سے ناخوش رہتا ہے اور تیرا یہ رویہ اس نعمت والے کے لیے باعثِ ثواب اور تیرے لیے باعثِ گناہ ہے۔ جب تو یہ بات جانتا ہے کہ تو اپنے دشمن کا دوست نہیں بن سکتا(کہ اُسے فائدہ پہنچائے) تو تجھ پر ضروری ہے کہ تو تکلفاً حسد کو چھوڑ دے۔حضرت سیِّدُنا حسن بصری علیہ الرحمہ سے مروی ہے، تاج دارِ کائنات ﷺ نے ارشاد فرمایا:ثَلَاثَۃٌ فِی الْمُؤْمِنِ، لَہٗ مِنْھُنَّ مَخْرَجٌ، وَمَخْرَجُہ، مِنَ الْحَسَدِ اَنْ لَایَبْغِیْ۔یعنی:مؤمن میں تین خامیاں پائی جاتی ہیں اوراس کے لیے ان سے نکلنے کا راستہ بھی ہے اور حسد سے نکلنے کا راستہ یہ ہے کہ وہ حد سے نہ بڑھے۔(فردوس الاخبار للدیلمی، باب الفائ، الحدیث۴۳۹۲،ج۲،ص۱۲۵)وَالْحَمْدُ لِلّٰہِ تَعَالٰی وَحْدَہٗ(اورسب خوبیاں پروردگارِ کائنات کے لیے ہیں جو یکتا ہے)حب مال کی برائیاں: مال کی محبت کی مذمت تو پروردگارِ کائنات کے ان فرامین سے واضح ہے:(1) یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا لَا تُلْہِکُمْ اَمْوَالُکُمْ وَ لَاۤ اَوْلَادُکُمْ عَنۡ ذِکْرِ اللہِ ۚ وَ مَنۡ یَّفْعَلْ ذٰلِکَ فَاُولٰٓئِکَ ہُمُ الْخٰسِرُوۡنَ ﴿9﴾یعنی:اے ایمان والو! تمھارے مال نہ تمھاری اولاد کوئی چیز تمھیں اللہ کے ذکر سے غافل نہ کرے اور جو ایسا کرے تو وہی لوگ نقصان میں ہیں۔(پ28،المنافقون:9)(2) اِنَّمَاۤ اَمْوَالُکُمْ وَ اَوْلَادُکُمْ فِتْنَۃٌ ؕیعنی: تمھارے مال او رتمھارے بچے جانچ ہی ہیں۔(پ28،التغابن:15)تاج دارِ کائنات ﷺ کافرمانِ عالی شان ہے:حُبُّ الْمَالِ وَ الشَّرَفِ یُنْبِتَانِ النِّفَاقَ کَمَا یُنْبِتُ الْمَاءُ الْبَقْلَ۔یعنی:مال اور شرف (یعنی بڑائی) کی محبت دل میں اس طر ح منافقت پیدا کرتی ہیں جیسے پانی سبزی اگاتا ہے۔(السنن الکبرٰی للبیھقی،کتاب الشھادات ،باب الرجل یغنی۔۔۔۔۔۔الخ ،الحدیث۲۱۰۰۸،ج۱۰،ص۳۷۷۔۳۷۸،بتغیرٍ قلیلٍ) تاج دارِ کائنات ﷺ کافرمانِ عالی شان ہے:''دو خونخوار بھیڑئیے بکریوں کے ریوڑمیں چھوڑدئیے جائیں تووہ اس قدرنقصان نہیں کرتے جتنا نقصان مسلمان آدمی کے دین میں مال اور منصب کی محبت سے ہوتا ہے۔'' (جامع الترمذی، ابواب الزھد، باب ماذئبان جائعان ۔۔۔۔۔۔الخ، الحدیث۲۳۷۶،ص۱۸۹۰، ضارّیان بدلہ جائعان)تاج دارِ کائنات ﷺ کافرمانِ فرمانِ عالی شان ہے:ھَلَکَ الْمُکَثِّرُوْ نَ اِلَّا مَنْ قَالَ بِہٖ فِیْ عِبَادِ اللہِ ھٰکَذَا وَھٰکَذَاوَ قَلِیْلٌ مَّا ھُمْ۔یعنی:زیادہ مال والے ہلاک ہوگئے سوائے اس کے جو پروردگارِ کائنات کے بندوں میں کثرت سے اپنا مال خرچ کرے اوروہ تھوڑے ہیں۔(المسند للامام احمد بن حنبل، مسند ابی ھریرۃ، الحدیث۸۰۹۱،ج۳،ص۱۸۰، بدون:عباد اﷲ)تاج دارِ کائنات ﷺ کافرمانِ خوشبودارہے: ''میرے بعد ایسے لوگ آئيں گے جودنیا کے لذیذ اور رنگ بر نگے کھانے کھائیں گے، خوبصورت عورتوں سے نکاح کریں گے ، نرم وملائم اور رنگ برنگے لباس میں ملبوس ہوں گے اور عمدہ اورتیز رفتار گھوڑوں پر سوار ہوں گے، ان کے پیٹ تھوڑی چیز سے سیر نہیں ہوں گے اور ان کے نفس زیادہ پربھی قناعت نہیں کریں گے، وہ دنیا کی طرف اس طرح جائیں گے کہ صبح وشام اسی کو مدِّنظر رکھيں گے اور حقیقی معبود کو چھوڑ کر اسے ہی اپنا معبود اور رب سمجھیں گے، ان کا معاملہ اسی طرح رہے گا اور وہ دنیا کی خواہشات کی پیروی کريں گے ۔ جوآدمی ایسے زمانے کو پائے خواہ وہ تمھاری اولاد سے ہو یا تمھاری اولاد کی اولادسے ،اُسے محمد (ﷺ) کی طر ف سے قسم ہے کہ وہ ایسے لوگوں کونہ سلام کرے ، نہ ان کے مریضوں کی عیادت کرے، نہ ان کے جنازوں میں جائے اور نہ ہی اُن کے بڑوں کی عزت کرے اور جس نے ایسا کیا اس نے اسلام کو گرانے میں مدد کی۔'' (المعجم الکبیر، الحدیث۷۵۱۲،ج۸،ص۱۰۷، مختصراً)تاج دارِ کائنات ﷺ کافرمانِ عالی شان ہے:''انسان کہتا ہے:میرا مال، میرا مال اور تمھارے لیے تو تمھارا مال وہی ہے جو تم نے صدقہ کر کے باقی رکھا یاکھا کر فنا کردیا یا پہن کر پرانا کردیا۔''(صحیح مسلم،کتاب الزھد والرقائق، باب الدنیاسجن للمؤمن وجنۃ للکافر، الحدیث۷۴۲۰،ص۱۱۹۱) ایک شخص نے عرض کی:'' یا رسول اللہ ﷺ ! مجھے کیا ہوگیا ہے کہ مجھے موت پسند نہیں ہے ؟ '' تاج دارِ کائنات ﷺ نے استفسار فرمایا:''کیا تمھارے پاس مال ہے؟'' اس نے عرض کی:'' جی ہاں! یا رسول اللہ ﷺ !'' تو تاج دارِ کائنات ﷺ نے ارشاد فرمایا:'' اپنا مال آگے بھیج دے کیوں کہ مؤمن کا دل اپنے مال کے ساتھ ہوتا ہے اگر اُسے آگے بھیج دے تو اس سے ملنا چاہتا ہے اور اگر پیچھے چھوڑدے تو اس کے ساتھ پیچھے رہنا چاہتا ہے۔''(الزھد لابن المبارک، باب فی طلب الحلال، الحدیث۶۳۴،ص۲۲۴) شہنشاہِ خوش خِصال، پیکرِ حُسن وجمال، دافِعِ رنج و مَلال، صاحب ِجُودو نوال، رسولِ بے مثال، بی بی آمنہ کے لال صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کافرمانِ فرمانِ عالی شان ہے:'' انسان کے دوست تین قسم کے ہیں، ایک موت تک اس کا ساتھ دیتا ہے، دوسرا قبر تک اور تیسرا محشر تک ساتھ دیتا ہے۔ انسان کی موت تک ساتھ دینے والا اس کا مال ہے، قبر تک ساتھ دینے والے اُ س کے گھروالے ہیں اور محشر تک ساتھ دینے والا اس کا عمل ہے۔''(صحیح البخاری، کتاب الرقاق، باب سکرات الموت، الحدیث۶۵۱۴،ص۵۴۶، بتغیرٍ)پروردگارِ کائنات نے بعض مقامات پر مال کو لفظ ِ خیر کے ساتھ ذکر فرمایا۔چنانچہ ارشاد ربانی ہے:اِنۡ تَرَکَ خَیۡرَۨا ۚۖ الْوَصِیَّۃُیعنی: اگر کچھ مال چھوڑے تو وصیت کر جائے۔(پ2،البقرہ:180) تاج دارِ کائنات ﷺ کافرمانِ عزّت نشان ہے: ''نِعْمَ الْمَالُ الصَّالِحُ لِلرَّجُلِ الصَّالِحِ یعنی:کیا ہی اچھامال نیک بندے کے لیے ہے۔'' (شعب الایمان للبیھقی، باب التوکل والتسلیم، الحدیث۱۲۴۸،ج۲،ص۹۱) مال کے بھی وہی فضائل ہیں جوصدقہ اور حج کے متعلق بیان کئے گئے ہیں۔ عقل مند اورصاحبِ بصیرت لوگو ں کا مقصد اُخروی سعادت پانا ہے اور مال اس کے لیے وسیلہ ہے ،کبھی مال کے ذریعے تقوی اور عبادت پر قوت حاصل کی جاتی ہے اور کبھی اسے آخرت کی راہ میں خرچ کیا جاتا ہے اور جو شخص عیش وعشرت کے لیے مال حاصل کرتاہے یا اس کے ذریعے گناہوں اور شہوت رانی میں منہمک ہوتا ہے تو یہ اس کے حق میں مذموم ہے۔ مال کی مثال یہ ہے کہ یہ سانپ کی طرح ہے جس میں زہر بھی ہے اور تریاق(یعنی علاج) بھی۔ اس کے فائدے تریاق ہیں اور اس کی آفات اس کا زہر ہے۔ پس جس شخص کو اس کا علم ہوا ور وہ اس کے زہر سے بچنے اور اس کے تریاق سے نفع اٹھانے پر قادر ہو تو اس کے لیے یہ قابلِ تعریف ہے۔ فقر و قناعت کی خوبیاں اور حرص و لالچ کی برائیاں:فقر قابلِ تعریف ہے لیکن فقیر کو چاہے کہ جو کچھ لوگو ں کے پاس ہے اس میں طمع نہ کرے اور یہ خوبی تب پیدا ہو سکتی ہے جب وہ کھانے ، پینے اور لباس کے معاملے میں بقد رِ ضرورت پرقناعت کرے، اورادنیٰ اور کم مقدار پر اکتفاء کرے اور اپنی اُمید کو ایک دن یا ایک مہینے تک بڑھا دے تاکہ اس کے اندر فاقہ پر صبرکرنے کی قوت پیدا ہو جائے ورنہ یہ چیز اسے مال داروں سے طمع رکھنے ،مانگنے اور ذِلت اختیار کرنے کی طرف لے جائے گی۔تاج دارِ کائنات ﷺ کافرمانِ عالی شان ہے:'' بے شک روح القدس (یعنی حضرت سیِّدُنا جبرائیل علیہ السلام) نے میرے دل میں یہ بات ڈالی کہ کوئی جان اپنا پورا رزق حاصل کئے بغیر نہیں مرتی پس تم پروردگارِ کائنات سے ڈرو اور اچھے طریقے سے مانگو۔'' (التمھید لابن عبد البر، باب الف، اسحاق بن عبد اﷲ بن ابی طلحۃ، تحت الحدیث۱۵،ج۱،ص۲۳۹) حضرت سیِّدُنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ ارشاد فرماتے ہیں: ایک دن تاج دارِ کائنات ﷺ نے ارشاد فرمایا:یَا أبَاہُرَیْرَۃَ! إذَا اِشْتَدَّ بِکَ الْجُوْعُ فَعَلَیْکَ بِرَغِیْفٍ وَّکُوزٍ مِّنْ مَاءٍ وَعَلَی الدُّنْیَا الدِّمَارُ۔یعنی:اے ابوہریرہ (رضی اللہ عنہ)!جب تمھیں سخت بھوک لگے توتمھارے لیے ایک رو ٹی اور پانی کا ایک پیالہ کافی ہے اور دنیا پر راکھ ڈالو (یعنی اسے چھوڑ دو)۔ (شعب الایمان للبیھقی، باب فی الزھد وقصر الأمل، الحدیث۱۰۳۶۶،ج۷،ص۲۹۵) قناعت تین چیزو ں کا مرکب ہے: (۱) صبر (۲) علم اور (۳) عمل۔(۱)۔۔۔۔۔۔پہلی چیز عمل ہے یعنی معیشت میں اعتدال او رخرچ میں کفایت اختیار کرنا۔ جو شخص قناعت میں بزرگی چاہتا ہے اسے چاہے کہ کم خرچ کرے۔ حدیث ِ پاک میں ارشاد ہے: ''اَلتَّدْ بِیْرُ نِصْفُ الْمَعِیْشَۃِ یعنی:تد بیر سے کام لینا نصف معیشت ہے۔'' (فردوس الاخبار للدیلمی، باب التاء، الحدیث۲۲۴۰،ج۱،ص۳۰۷) (۲)۔۔۔۔۔۔ دوسری چیز خواہشات کم رکھنا ہے تاکہ وہ کسی دوسرے حال میں بھی حاجت کی وجہ سے پریشان نہ ہو۔(۳)۔۔۔۔۔۔ تیسری یہ کہ وہ اِس بات کو جان لے کہ قناعت میں عزت ہے اور سوال کرنے سے بچت ہے جب کہ طمع میں ذلت ہی ذلت ہے، پس اس طرح فکر مدینہ کرتے ہوئے اس (حرص ) سے جان چھڑالے۔ایثار و سخاوت کی خوبیاں اور بخل و کنجوسی کی برائیاں: جب مال نہ ہو تو بندے کو قناعت اختیار کرنی چاہے۔ اگر مال موجود ہو تو ایثار اور سخاوت سے کام لینا چاہیے، بخل اور کنجوسی نہیں کرنا چاہیے۔ تاج دارِ کائنات ﷺ کافرمانِ عالی شان ہے : ''سخاوت جنت کے درختو ں میں سے ایک درخت ہے جس کی ٹہنیاں زمین کی طر ف جھکی ہوئی ہیں، جو شخص اس سے ایک ٹہنی لیتا ہے تو وہ اسے جنت کی طر ف لے جاتی ہے او ر بخل جہنم کا ایک درخت ہے، جو بخیل ہوتاہے وہ اس کی ٹہنیوں سے ایک ٹہنی لے لیتا ہے اور وہ ٹہنی اسے نہیں چھوڑتی حتی کہ اسے جہنم میں داخل کر دیتی ہے۔'' (الکامل فی ضعفاء الرجال لابن عدی، الرقم۶۶۔ابراھیم بن اسماعیل بن ابی حبیبۃ، ج۱،ص۳۸۳)تاج دارِ کائنات ﷺ کافرمانِ خوشبودارہے:''حضرت جبرائیل علیہ السلام فرماتے ہیں کہ'' پروردگارِ کائنات نے ارشاد فرمایا:''یہ وہ دین ہے جسے میں نے اپنے لیے پسند کیا او ر اس کی اصلاح سخاوت اور حسنِ اَخلاق پر منحصر ہے، پس جس قدر ہوسکے ان دونوں چیزوں کے ذریعے اس کی عزت کرو۔'' (الکامل فی ضعفاء الرجال لابن عدی، الرقم۱۰۰۳، عبداﷲ بن ابراھیم، ج۵،ص۳۱۴) ایک دو سری روایت میں ارشاد فرمایا: ''فَأکْرِمُوْہ، بِھِمَا مَا صَحِبْتُمُوْہ، یعنی: جب تک اس دین پر رہو ان دونوں چیزوں کے ذریعے اس کا احترام کرو۔'' (المرجع السابق)تاج دارِ کائنات ﷺ کافرمانِ عزت نشان ہے:مَا حَبَلُ اللہُ وَلِیًّا إلَّا عَلَی السَّخَاءِ وَحُسْنِ الْخُلْقِ۔یعنی: پروردگارِ کائنات نے ہر ولی کو فطرتاً حُسنِ اَخلاق اور سخاوت کی خوبی عطا فرمائی۔(الکامل فی ضعفاء الرجال لابن عدی، الرقم۲۴،احمد بن عبد الرحمٰن بن الحارث، ج۱، ص۳۰۸) حضرت سیِّدُنا جابربن عبد اللہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، آپ تاج دارِ کائنات ﷺ کی بارگاہ میں عرض کیا گیا: ''یا رسول پروردگارِ کائنات وتاج دارِ کائنات ﷺ !کون سا ایمان افضل ہے ؟''آپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: ''ألصَّبْرُ وَالسَّمَاحَۃُ یعنی: صبر اور سخاوت۔'' (مسند ابی یعلی الموصلی، مسند جابر بن عبد اﷲ، الحدیث۱۸۴۹،ج۲، ص۲۲۰) اُمُّ المؤمنین حضرت سیِّدُتُناعائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ حضرت سیِّدُنا عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ نے آپ رضی اللہ عنہا کی طر ف دو تھیلوں میں ایک لاکھ اسی ہزار درہم بھیجے، آپ رضی اللہ عنہا نے ایک تھال منگوایا اور ان دراہم کو لوگوں میں تقسیم کرنا شروع کر دیا۔ جب شام کا وقت ہوا تو فرمایا:''اے لڑکی ! ہماری افطاری لاؤ۔'' وہ روٹی اور زیتون لے کر آئیں۔ حضرت سیِّدَتُنا ام درہ رضی اللہ عنہا نے عرض کی:'' آپ رضی اللہ عنہا نے آج مال تقسیم فرمایا، اگر ایک درہم کا گوشت خرید لیتیں تو ہم اس سے افطاری کرلیتے ؟'' آپ رضی اللہ عنہا نے ارشاد فرمایا:'' اگر تم یا د دلاتی تو میں ایسا کرلیتی۔''پروردگارِ کائنات نے ارشاد فرمایا: (1) وَ مَنۡ یُّوۡقَ شُحَّ نَفْسِہٖ فَاُولٰٓئِکَ ہُمُ الْمُفْلِحُوۡنَ ﴿ۚ9﴾یعنی:اور جو اپنے نفس کے لالچ سے بچایا گیا تو وہی کامیاب ہیں۔(پ 28،الحشر:9) (2) وَلَا یَحْسَبَنَّ الَّذِیۡنَ یَبْخَلُوۡنَ بِمَاۤ اٰتٰىہُمُ اللہُ مِنۡ فَضْلِہٖ ہُوَ خَیۡرًا لَّہُمْ ؕ بَلْ ہُوَ شَرٌّ لَّہُمْ ؕ سَیُطَوَّقُوۡنَ مَا بَخِلُوۡا بِہٖ یَوْمَ الْقِیٰمَۃِ ؕیعنی: او رجو بخل کرتے ہیں اس چیز میں جو اللہ نے انہیں اپنے فضل سے دی ہر گز اسے اپنے لیے اچھا نہ سمجھیں بلکہ وہ ان کے لیے برا ہے عنقریب وہ جس میں بخل کیا تھا قیامت کے دن ان کے گلے کا طو ق ہو گا۔(پ4، اٰل عمران:180) حضور نبئ کریم،رء ُوف رحیم تاج دارِ کائنات ﷺ کافرمانِ عالی شان ہے:'' بُخل سے بچو کیوں کہ اسی نے تم سے پہلے لوگوں کو ہلاک کیا، اُن کو ایک دوسرے کا خون بہانے اور حرام چیز وں کو حلال ٹھہرانے پر برانگیختہ کیا۔''(صحیح مسلم، کتاب البروالصلۃ، باب تحریم الظلم، الحدیث۶۵۷۶،ص۱۱۲۹) حضرت سیِّدُنا عیسیٰ علیٰ نبیناوعلیہ الصلوٰۃو السلام نے ارشاد فرمایا:'' بخیل ، مکاّر ، خیانت کرنے والا اور بد اخلاق جنت میں نہیں جائیں گے۔''سخاوت میں سب سے بلند درجہ ایثار کا ہے،اس کا معنی یہ ہے کہ اپنی ضرورت کے باوجود مال کے ساتھ سخاوت کرنا اور پروردگارِ کائنات نے صحابۂ کرام علیہم الرضوان کی تعریف کرتے ہوئے ارشاد فرمایا:وَ یُؤْثِرُوۡنَ عَلٰۤی اَنۡفُسِہِمْ وَلَوْ کَانَ بِہِمْ خَصَاصَۃٌ ؕ۟یعنی:ا ور اپنی جانوں پر ان کو ترجیح دیتے ہیں اگرچہ انہیں شدیدمحتاجی ہو۔(پ 28 ، الحشر: 9) نبئ رحمت،شفیعِ امت،قاسمِ نعمت تاج دارِ کائنات ﷺ نے ارشاد فرمایا:أیُّمَا رَجُلٍ إشْتَھٰی شَہْوَۃً فَرَدَّ شَہْوَتَہ، وَآثَرَ عَلٰی نَفْسِہٖ غُفِرَلَہٗ۔یعنی: جو شخص کسی چیز کی خواہش رکھتاہو پھر اپنی خواہش ترک کر دے اور دو سرے کو اپنے اوپر تر جیح دے تو اس کی بخشش کر دی جائے گی ۔(الکامل فی ضعفاء الرجال لابن عدی، الرقم۱۲۸۹۔عمرو بن خالد، ج۶، ص۲۲۳) تاج دارِ کائنات ﷺ کی خدمت میں ایک مہمان آیا تاج دارِ کائنات ﷺ نے اپنے گھر میں کچھ نہ پایا تو ایک انصاری تاج دارِ کائنات ﷺ کی بارگاہ میں حاضر ہو ئے اور مہمان کو اپنے گھر لے گئے پھر اس کے سامنے کھانا رکھا اوربیوی کو چر اغ بجھانے کا حکم دیا، خود کھانے کی طر ف ہاتھ بڑھاتے رہے جیسے کھا رہے ہوں حالانکہ کھا نہیں رہے تھے یہاں تک کہ مہمان نے کھانا کھالیا۔ جب صبح ہوئی تو رسول پروردگارِ کائنات و تاج دارِ کائنات ﷺ نے ارشاد فرمایا:لَقَدْ عَجَبَ اللہُ مِنْ صَنِیْعِکُمْ إلٰی ضَیْفِکُمْ ۔یعنی:تمھارا اپنے مہمان سے(حسنِ)سلوک سے پیش آنا پروردگارِ کائنات کو بہت پسند آیا۔(صحیح مسلم، کتاب الأشربۃ، باب اکرام الضیف ۔۔۔۔۔۔الخ، الحدیث۵۳۵۹،ص۱۰۴۵)تو یہ آیتِ کریمہ نازل ہوئی:وَ یُؤْثِرُوۡنَ عَلٰۤی اَنۡفُسِہِمْ وَلَوْ کَانَ بِہِمْ خَصَاصَۃٌ ؕ۟یعنی:ا ور اپنی جانوں پر ان کو ترجیح دیتے ہیں اگر چہ انہیں شدیدمحتاجی ہو۔(پ 28 ، الحشر: 9)بخل کا سبب مال کی محبت ہے او رمال کی محبت کے دو اسباب ہیں۔(۱)۔۔۔۔۔۔پہلا سبب خواہشات کی محبت ہے جن تک مال کے بغیر پہنچنا ممکن نہیں اور اس کے ساتھ لمبی زندگی کی اُمید بھی ہوتی ہےکیوں کہ اگر اسے یقینی طور پر معلوم ہو کہ وہ ایک دن یا ایک مہینے بعد مرجائے گا تو پھر مال خر چ کرنے میں سخاوت سے کام لے اور اگر امید کم ہو تو اس طویل امید کی جگہ اولاد آجاتی ہے تووہ اُن کے لیے مال روک کر رکھتا ہے۔ اسی لیے نبئ اَکرم،نورِ مجسّم،شہنشاہِ بنی آدم تاج دارِ کائنات ﷺ نے ارشادفرمایا:ألْوَلَدُ مَبْخَلَۃٌ مَجْبَنَۃٌ مَجْھَلَۃٌ۔یعنی: اولادبخل ، بزدلی اور جہالت میں مبتلا کرنے والی ہے۔(سنن ابن ماجۃ، ابواب الادب، باب بر الوالدوالاحسان ۔۔۔۔۔۔الخ، الحدیث۳۶۶۶،ص۲۶۹۶، بدون: مجھلۃ) اور جب اس کے ساتھ ساتھ فقر کا خوف ہو اوررزق کے آنے کا پختہ یقین نہ ہو تو لامحالہ بخل مضبوط ہوجاتا ہے۔(۲)۔۔۔۔۔۔دوسرا سبب یہ ہے کہ وہ مال سے محبت کرتاہے حالانکہ وہ جانتا ہے کہ اسے اس مال کی کبھی ضرورت نہ پڑے گی کیوں کہ وہ بوڑھا ہوتا ہے اور اس کی اولاد بھی نہیں ہوتی لیکن وہ محض مال سے محبت کرتا ہے، یہ دل کا پرانا مرض ہے اور ہم پروردگارِ کائنات سے پناہ مانگتے ہیں۔ ایسے شخص کی مثال اس آدمی کی طر ح ہے جو کسی پر عا شق ہوجاتا ہے پھر اس کے قاصد(یعنی پیغام دینے والے) سے محبت کرنے لگ جاتا ہے اور اسے بھول جاتا ہے کیوں کہ درہم ودینار کامقصدحاجات تک پہنچناہے جب کہ یہ شخص مقصد کو بھول گیا اور وسیلہ وواسطہ پر عاشق ہوگیا اور جو شخص درہم اور پتھر میں سوائے حاجات کے پور ا کرنے کے کوئی فرق کرے، وہ جاہل ہے۔ جان لیجئے! بخل کا علاج یہ ہے کہ خواہشات اورامید کم کرے اور کثرت سے موت کویا د کرے نیز ہم عصر لوگو ں کی موت میں غورو فکر کرے ، قبر وں کی زیارت اور ان میں جو کیڑے مکوڑے ہیں ،ان میں غور وفکر کرے اور ان احوال میں سوچ و بچار کرے۔ اور اگر دل کی تو جہ اولاد کی طر ف ہو تو اس کا علاج یوں کرے کہ ان کو پیدا کرنے والے نے ان کا رزق بھی پیدا فرمایا ہے اور کتنے ہی بچے ایسے ہیں جو میر اث پاتے ہیں لیکن وہ ان کا رزق نہیں ہوتا اور کتنے ہی بچے ایسے ہیں کہ وہ مالِ وراثت نہیں پاتے لیکن پروردگارِ کائنات مال کی صورت میں انہیں رزق عطافرمادیتا ہے۔اگر اس کی اولاد نیک ہوگی تو پروردگارِ کائنات نیک لوگوں کا والی ہے اور اگر فاسق ہوگی تو پروردگارِ کائنات ان جیسو ں کو مسلمانوں میں زیادہ نہ کرے کیوں کہ وہ اپنے مال سے گناہوں پر مدد حاصل کرتے ہیں اور بخل سے چھٹکارے کا نفع بخش طریقہ یہ بھی ہے کہ وہ اس بات پر غور کرے کہ لوگ بخیلوں کی مذمت کرتے ہیں اور ان سے نفرت کرتے ہیں اورسخاوت کرنے والوں کی تعریف کرتے اور ان میں رغبت رکھتے ہیں۔ پروردگارِ کائنات نے ارشاد فرمایا:اَلشَّیۡطٰنُ یَعِدُکُمُ الْفَقْرَ وَیَاۡمُرُکُمۡ بِالْفَحْشَآءِ ۚیعنی:شیطان تمھیں اندیشہ دلاتا ہے محتاجی کا اور حکم دیتا ہے بے حیائی کا ۔(پ3،البقرہ:268) شاید یہ بات اسے فائدہ دے۔حُبِّ جاہ اورریاکاری کی برائیاں بے شک جاہ و منصب دِلوں کو پسند ہے، اِسے صرف صدیقین ہی ترک کرتے ہیں، اسی لیے کہاگیاہے کہ ''صدیقین کے ذہنوں سے نکلنے والی آخری چیز سرداری کی محبت ہے ۔''اب ہم چند فصلوں میں اس کی غرض بیان کرتے ہیں۔جاہ کا مطلب شہرت کا پھیل جانا ہے اور یہ مذموم ہے مگر اس شخص کے لیے نہیں جسے پروردگارِ کائنات اپنا دین پھیلانے کے لیے مشہور کردے۔ حضرت سیِّدُنااَ نَس ر ضی اللہ تعالیٰ عنہ بیا ن فرماتے ہیں کہ تاج دارِ کائنات ﷺ کا فرمانِ عالی شان ہے:حَسْبُ إمْرِئٍ مِنَ الشَّرِّ، إلَّا مَنْ عَصَمَہ، اللہُ تَعَالٰی، أنْ یُشِیْرَ النَّاسُ إلَیْہِ بِالْأصَابِعِ فِیْ دِیْنِہٖ وَدُنْیَاہ،۔یعنی:کسی انسان کے لیے برائی کے طور پراتنا ہی کافی ہے کہ لوگ اس کے دین یا دنیا کے معاملے میں اس کی طرف انگلیوں سے اشارے کریں البتہ جسے پروردگارِ کائنات محفو ظ فرمائے۔(شعب الایمان للبیھقی، باب فی اخلاص العمل ﷲ۔۔۔۔۔۔الخ، الحدیث۶۹۷۷،ج۵،ص۳۶۶۔۳۶۷) امیر المؤمنین ،مولیٰ مشکل کشاحضرت سیِّدُناعلی المرتضیٰ کَرَّمَ اللہُ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْم ارشاد فرماتے ہیں:''خرچ کرو لیکن شہرت نہ چاہو، اپنی شخصیت کو اس طر ح بلند نہ کرو کہ تمھاراذکر کیا جائے اور لوگ تمھیں جانیں بلکہ اپنے آپ کو چھپا کر رکھو اور خاموشی اختیار کرو محفو ظ رہوگے، اس طر ح نیک لوگ تم سے خوش ہوں گے اور بد کاروں کو غصہ آئے گا۔'' حضرت سیِّدُنا ابراہیم بن ادہم علیہ رحمۃاللہ الاکرم نے ارشاد فرمایا:''جس نے شہرت کو اچھا سمجھا اس نے پروردگارِ کائنات کی تصدیق نہیں کی۔'' حضرت سیِّدُنا طلحہ ر ضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ایک گروہ کو اپنے ساتھ چلتے دیکھا تو فرمایا :''یہ طمع کی مکھیاں اور جہنم کے بچھونے ہیں ۔ '' حضرت سیِّدُنا سلیمان بن حنظلہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ''ہم حضرت سیِّدُنا اُبی ّبن کعب رضی اللہ عنہ کے ساتھ ان کے پیچھے پیچھے چل رہے تھے کہ امیر المؤمنین حضرت سیِّدُناعمر فاروق ر ضی اللہ تعالیٰ عنہ نے انہیں دیکھا تو اپنا کوڑا بلند کردیا، انھوں نے عرض کی:'' اے امیر المؤمنین !دیکھئے، آپ کیا کر رہے ہیں؟'' آپ رضی اللہ عنہ نے ارشاد فرمایا:'' یہ طریقہ پیچھے چلنے والے کے لیے ذِلَّت او ر آگے چلنے والے کے لیے فتنہ ہے۔'' حضرت سیِّدُنا حسن رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں، ایک دن حضرت سیِّدُنا عبداللہ ابن مسعود ر ضی اللہ تعالیٰ عنہ گھر سے نکلے تولوگ آپ کے پیچھے ہولیے، آپ رضی اللہ عنہ نے ان کی طر ف متوجہ ہو کر فرمایا: ''تم میر ے پیچھے کیوں چلتے ہو ؟پروردگارِ کائنات کی قسم! جس وجہ سے میں اپنا دروازہ بند رکھتا ہوں اگر تمھیں معلوم ہو جائے تو تم میں سے کوئی آدمی میرے پیچھے نہ چلے۔'' حضرت سیِّدُنا حسن رضی اللہ عنہ ارشاد فرماتے ہیں: ''اگر مَردوں کے پیچھے لوگوں کے جوتوں کی آوازیں آنے لگیں تو ایسے مواقع پر احمقوں کے دل کم ہی قابو میں رہتے ہیں۔'' تاج دارِ کائنات ﷺ کافرمانِ فرمانِ عالی شان ہے:رُبَّ اَشْعَثَ اَغْبَرَ،ذِیْ طِمْرَیْنِ،لَا یُؤبَہ،،لَہٗ لَوْ اَقْسَمَ عَلَی اللہِ لَاَبَرَّہ،،مِنْھُمُ البَرَاءُ بْنُ مَالِکٍ۔یعنی:بہت سے بکھرے بالوں ،گَردآلود چہروں اور دو پرانے کپڑو ں والے لوگ ،جن کو حقیر سمجھا جاتا ہے اگر وہ پروردگارِ کائنات پر قسم کھالیں تو وہ اسے ضرورپورا فرماتا ہے، انہی میں سے حضرت براء بن مالک رضی اللہ عنہ بھی ہیں۔(جامع الترمذی، ابواب المناقب، باب مناقب البراء ابن مالک، الحدیث۳۸۵۴،ص۲۰۴۷) حضرت سیِّدُنا عبداللہ بن مسعود ر ضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبئ رَحمت،شفیعِ اُمّت،قاسمِ نعمت تاج دارِ کائنات ﷺ کافرمانِ عالی شان ہے: '' دو بوسیدہ کپڑوں میں ملبوس کئی لوگ ایسے ہیں جن کی طرف توجہ نہیں دی جاتی،اگر وہ پروردگارِ کائنات پر قسم کھا لیں تو وہ اسے پورا فرماتا ہے، اگر وہ یوں کہہ دے:''اے پروردگارِ کائنات! میں تجھ سے جنت کا سوال کرتا ہوں تو پروردگارِ کائنات اسے جنت عطا فرماتا ہے لیکن اسے دنیا میں سے کچھ نہیں دیتا۔''(فردوس الاخبار للدیلمی،باب الراء، الحدیث۳۰۶۶،ج۱، ص۴۱۲)(البحر الزخار بمسند البزار، مسند عبد اﷲ بن مسعود، الحدیث۲۰۳۵ج۵،ص۴۰۳۔۴۰۴) حضرت سیِّدُنا ابوہریرہ ر ضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے، حضور نبئ پاک، صاحبِ لَولاک، سیّاحِ اَفلاک تاج دارِ کائنات ﷺ کا فرمانِ عزت نشان ہے: ''بے شک پراگندہ بالوں ،گَر د آلود چہروں اور دو بوسیدہ کپڑو ں والے لوگ جنتی ہیں، جنہیں لوگ حقیر سمجھتے ہیں،جب وہ اُمراء کے پاس جانے کی اجازت طلب کرتے ہیں تو ان کو اجازت نہیں دی جاتی،جب عورتوں کو نکاح کا پیغام دیتے ہیں تو ان سے نکاح نہیں کیا جاتا، جب وہ بات کرتے ہیں تو ان(کی بات سننے )کے لیے خاموشی اختیار نہیں کی جاتی، ان کی ضروریات ان کے سینوں میں حرکت کرتی ہیں، اگر بروزِ قیامت ان کا نور لوگوں میں تقسیم کیا گیا توتمام لوگوں کو کافی ہو جائے گا۔'' (شعب الایمان للبیھقی، باب فی الزھد وقصر الأمل، الحدیث۱۰۴۸۶،ج۷،ص۳۳۳) مروی ہے کہ امیر المؤمنین حضرت سیِّدُناعمر فاروق اعظم رضی اللہ عنہ مسجد میں داخل ہوئے تو حضرت سیِّدُنامعا ذ بن جبل ر ضی اللہ تعالیٰ عنہ کو سرکار دوعالم تاج دارِ کائنات ﷺ کی قبرِ انور کے پاس روتے ہوئے دیکھا ،پوچھا :کیوں روہے ہو؟ انھوں نے جواب دیا: میں نے رسول پروردگارِ کائنات وتاج دارِ کائنات ﷺ کو یہ ارشاد فرماتے ہوئے سنا :'' تھوڑا سا دِکھاوا بھی شر ک ہے، بے شک پروردگارِ کائنات متقی پوشیدہ رہنے والے لوگو ں کو پسندفرماتا ہے، جب وہ غا ئب ہوں تو لوگ انہیں تلاش نہیں کرتے اور جب کہیں آئیں تو ان کو کوئی پہچانتا نہیں، ان کے دل ہدایت کے چرا غ ہیں، وہ ہر گردآلوداندھیرے مقام سے نجات پاتے ہیں۔'' (سنن ابن ماجۃ، ابواب الفتن، باب من ترجی لہ السلامۃ من الفتن، الحدیث۳۹۸۹،ص۲۷۱۶، ینجون: بدلہ: یخر جون) حضرت سیِّدُنا عبداللہ بن مسعود ر ضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا: (اے لوگو!) علم کے چشمے اور ہدایت کے چراغ بنو، گھرو ں کو(چٹائی کی طرح) لازم پکڑو، رات کے چراغ بنو اور تا زہ دِل رہو ، تمھارے کپڑے پرانے ہوں تو اہل آسمان تمھیں پہچا نیں گے اگرچہ تم اہلِ زمین کے نزدیک کمتر سمجھے جاؤ۔''پروردگارِ کائنات کا فرمان عالی شان ہے:تِلْکَ الدَّارُ الْاٰخِرَۃُ نَجْعَلُہَا لِلَّذِیۡنَ لَا یُرِیۡدُوۡنَ عُلُوًّا فِی الْاَرْضِ وَلَا فَسَادًا ؕیعنی:یہ آخرت کا گھر ہم ان کے لیے کرتے ہیں جو زمین میں تکبر نہیں چاہتے اور نہ فساد۔(پ 20 ،القصص:83) جان لیجئے! جاہ ومرتبہ کی حقیقت یہ ہے کہ انسان لوگوں کے د لوں کا مالک ہو جائے جیسا کہ مال دار ہونے کا مطلب درہم ودینار کا مالک ہونا ہے اور جس طر ح صاحب مال اپنے مال کے ذریعے اپنے مقاصد تک پہنچ جاتا ہے، اسی طرح دلوں کا مالک ا س کے ذریعے اپنے مقاصد تک پہنچ جاتا ہے، جاہ ومرتبہ بھی ایک مقصد ہے اور جس طر ح مال مختلف قسم کے پیشوں سے کمایا جاتا ہے اسی طرح مختلف معاملات کے ذریعے دلوں کو اپنی طرف مائل کیا جاتا ہے اور دل پختہ اعتقاد سے ہی مسخر ہوتے ہیں پس جس شخص کے دل میں کسی شخص کے کامل اوصاف کاپختہ یقین ہو جائے تو اس کا دل اس کی طرف مائل ہو جائے گا بلکہ لوگو ں کے دلوں کامالک ہونے کا مطلب یہ ہے کہ اسے اپنا بندہ و غلام بنانا ہے اور جب مال محبوب ہے تو جاہ ومرتبہ اسے بد رجہ اولیٰ پسند ہوگا۔ جان لیجئے! جاہ ومرتبہ بلندی اور ملکیت کو طلب کرنے والی روح کی غذا ہے جب کہ روح پروردگارِ کائنات کے عالَم ِ امر سے ہے جو ربو بیت ، بلندی اور لوگو ں کو اپنا بندہ بنانے کا مطالبہ کرتی ہے، کمال کو پسند کرتی اور اسے طلب کرتی ہے، اسی بناء پر تم دیکھتے ہو کہ جو بھی جاہ کا طالب ہوتا ہے وہ اس ارادہ سے جدا نہیں ہوتا(یعنی وہ بلندی وغیرہ کا ارادہ رکھتا ہے )۔ جان لیجئے! تعریف سے نفس کو خوشی اور فر حت ہوتی ہے کیوں کہ تعریف میں اس کے کامل ہونے کا احساس ہوتا ہے اور نفس کامل سے محبت کرتاہے اور اس کے بر عکس مذمت کوناپسند کرتا ہے کیوں کہ اس میں ناقص ہونے کا شعور پایا جاتاہے اور نفس ناقص چیز کو ناپسند کرتا ہے۔جو جاہ ومرتبہ کی محبت میں مبتلا ہوجائے تو اس کاسارا مقصد حبِّ جاہ اور اس میں مزید اضافہ کی طلب ہی رہ جاتی ہے اور وہ مخلوق کے دلوں کا شکاری بن جاتا ہے اور یہ چیز اسے ریاء اور نفاق کی طر ف لے جاتی ہے، اسی لیے نبئ کریم، رء ُوف رحیم تاج دارِ کائنات ﷺ نے اسے (یعنی مال وجاہ کی محبت کو) دو خونخوار بھیڑیوں سے تشبیہ دی جو بکریوں کے ریوڑ میں ہوتے ہیں ۔'' (جامع الترمذی، ابواب الزھد، باب ماذئبان جائعان ۔۔۔۔۔۔الخ، الحدیث۲۳۷۶،ص۱۸۹۰، ضاریان بدلہ جائعان)تاج دارِ کائنات ﷺ کافرمانِ عالی شان ہے: '' إنَّہ، یُنْبِتُ النِّفَاقَ کَمَا یُنْبِتُ الْمَاءُ الْبَقَلَ یعنی:یہ (یعنی مال وجاہ کی محبت دل میں ) نفاق کو ایسے اُگاتی ہے جیسے پانی سبزی کواُگاتا ہے۔'' (السنن الکبری للبیھقی، کتاب الشھادات، باب الرجل یغنی۔۔۔۔۔۔الخ، الحدیث۲۱۰۰۸،ج۱۰،ص۳۷۷۔۳۷۸) اس کاعلمی علاج یہ ہے کہ انسان یہ بات جان لے کہ اس کامقصد دِلوں پر مالک ہونا ہے اور ہم نے بیان کردیا ہے کہ اگر یہ بات صحیح طور پر حاصل ہو بھی جائے توموت تک باقی رہتی ہے لہٰذا یہ باقی رہنے والے اعمال صالحہ میں سے نہیں بلکہ اگر مشرق ومغرب تک تمام روئے زمین کے لوگ تجھے سجدہ بھی کریں تو پچاس سال تک نہ سجدہ کرنے والے رہیں گے اور نہ تُوباقی رہے گا اور تمھارا حال جاہ ومرتبہ رکھنے والے ان لوگو ں کی طر ح ہو جائے گا جو مر چکے ہیں اور یہ وہمی کمال ہے جس کی کوئی حقیقت نہیں کیوں کہ یہ موت کے ساتھ ختم ہوجاتا ہے اور یہ ایسے ہی ہے جیسے حضرت سیِّدُنا حسن بصری علیہ الرحمہ نے حضرت سیِّدُنا عمر بن عبدالعزیز علیہ الرحمہ کولکھا:''امَّا بعد(یعنی حمد وصلوٰۃ کے بعد)! گویا آپ وہ آخری شخص ہیں جس پر موت لکھی گئی ہے اور وہ مر گیا ہے۔'' تو حضرت سیِّدُنا عمر بن عبدالعزیز علیہ الرحمہ نے جواب میں لکھا:''امَّا بعد! گویا آپ دنیا میں آئے ہی نہیں اور ہمیشہ آخرت میں رہے ۔'' ان لوگو ں کی نگاہ انجام کی طرف تھی اور انہیں معلوم تھاکہ جو چیز آنے والی ہے، وہ قریب ہے۔ ہمارے اسلاف رحمہم اللہ تعالیٰ نے کئی طریقوں سے اس کا علاج کیا مثلاً اُن میں سے کسی نے حلال مشروب پیاجو شراب کے مشابہ ہے، لوگوں نے اسے چھوڑ دیا اور سو چا کہ یہ شراب پینے والا ہے، ان میں سے کوئی شخص زاہد معروف تھا، پس وہ حمام میں گیا اور کسی دو سرے کا لبا س پہن کر نکلا اور راستے میں ٹھہر گیا یہاں تک کہ لوگوں نے اسے پہچا ن لیا اوراسے پکڑ کرلباس اتر وا کرخوب مارا اور کہا:'' یہ شخص چور ہے اور یوں لوگوں نے انہیں چھوڑ دیا۔'' جاہ ومرتبہ کو تر ک کرنے کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ لوگو ں سے علیحدگی اختیار کر کے ایسی جگہ چلاجائے جہاں اسے کوئی نہ جانتا ہو کیوں کہ جو شخص اپنے شہر میں گو شہ نشینی اختیار کرتاہے تویہ بھی ریا کی ایک قسم ہے کہ لوگو ں کو اس کی گو شہ نشینی کاعلم ہوگا اور اس سے وہ لوگو ں میں زیادہ مشہور ومعروف ہوجائے گا۔ ہم نے بیان کیا ہے کہ جاہ ومرتبہ کی چاہت کا سبب کمال وہمی ہے تب تو نے جان لیا کہ اس کی کوئی حقیقت نہیں سوائے فوری (یعنی دنیاوی) فائدہ کے کچھ فائدہ نہیں جب کہ آخرت میں تو اس کا کوئی فائدہ ہے ہی نہیں۔ اگر مدح کسی دینی امر کے سبب ہو تو یہ بھی اسی طرح حرص ہی ہے کیوں کہ دینی معاملے کا کمال تو اچھے خاتمہ کے ساتھ اور اس خطرہ سے چھٹکارے کے بعد ہی ہے ۔ریاکاری کی برائیاں''اخروی امور،اعمالِ صالحہ ،علم دین پڑھنے اورپڑھانے میں دنیاوی فوائد کے حصول کی نیت کرنے کو''ریا'' کہتے ہیں اور اس ارادۂ دنیا کے لیے اس پر کسی قسم کاجبر بھی نہ کیا گیا ہو۔''ابوعبداللہ حارث بن اسد محاسبی علیہ رحمۃاللہ الولی ارشادفرماتے ہیں: ''بندے کا پروردگارِ کائنات کی اطاعت میں لوگوں کی نیت کرنا ریاء ہے۔''(الحدیقۃ الندیۃ،الخلق التاسع من الاخلاق الستین المذمومۃ،ج۱،ص ۴۶۱)ریا کاری حرام ہے اور ریاء کار پر پروردگارِ کائنات کاغضب ہوتا ہے، اس پر پروردگارِ کائنات کے یہ فرامین دلالت کرتے ہیں۔ چنانچہ،پروردگارِ کائنات ارشادفرماتاہے: (1) فَوَیۡلٌ لِّلْمُصَلِّیۡنَ ۙ﴿4﴾الَّذِیۡنَ ہُمْ عَنۡ صَلَاتِہِمْ سَاہُوۡنَ ۙ﴿5﴾الَّذِیۡنَ ہُمْ یُرَآءُوۡنَ ۙ﴿6﴾یعنی: توان نمازیوں کی خرابی ہے جو اپنی نماز سے بھولے بیٹھے ہیں وہ جو دکھاوا کرتے ہیں۔(پ30،الماعون:4تا6)(2) فَمَنۡ کَانَ یَرْجُوۡ لِقَآءَ رَبِّہٖ فَلْیَعْمَلْ عَمَلًا صَالِحًا وَّ لَا یُشْرِکْ بِعِبَادَۃِ رَبِّہٖۤ اَحَدًا ﴿110﴾٪یعنی: تو جسے اپنے رب سے ملنے کی امید ہو اسے چاہے کہ نیک کام کرے اور اپنے رب کی بندگی میں کسی کوشریک نہ کرے۔ (پ16، الکہف:110)تاج دارِ کائنات ﷺ کی بارگاہ میں عرض کیا گیا:''یا رسول پروردگارِ کائنات وتاج دارِ کائنات ﷺ ! نجات کس چیز میں ہے؟'' آپ تاج دارِ کائنات ﷺ نے ارشاد فرمایا:أنْ لَا یَعْمَلَ الْعَبْدُ بِطَاعَۃِ اللہِ تَعَالٰی یُرِیْدُ بِھَا النَّاسَ۔یعنی:بندہ پروردگارِ کائنات کی عبادت لوگو ں کودکھانے کے لیے نہ کرے۔تاج دارِ کائنات ﷺ کافرمانِ عالی شان ہے: ''مجھے تم پر سب سے زیادہ خوف شرکِ اصغر کاہے۔'' صحابۂ کرام علیہم الرضوان نے عرض کی:''یا رسول پروردگارِ کائنات و تاج دارِ کائنات ﷺ ! شرکِ اصغر کیا ہے؟'' آپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: ''ریاء کاری۔''(پھر فرمایا)بروزِ قیامت جب بندہ اپنے اعمال لے کر حاضر ہو گاتو پروردگارِ کائنات ارشاد فرمائے گا:''ان لوگوں کے پاس جاؤ جن کے لیے دنیا میں دکھاواکرتے تھے اور دیکھو!کیا اُن کے پاس کوئی بدلہ پاتے ہو۔'' (المسند للامام احمد بن حنبل، حدیث محمود بن لبید، الحدیث۲۳۶۹۲،ج۹،ص۱۶۰) نور کے پیکر، تمام نبیوں کے سَرْوَر، دو جہاں کے تاجْوَر، سلطانِ بَحرو بَر تاج دارِ کائنات ﷺ کافرمانِ فرمانِ عالی شان ہے: ''جُبُّ الْحُزْن( یعنی غم کے کنوئیں)سے پروردگارِ کائنات کی پناہ مانگو۔'' صحابۂ کرام علیہم الرضوان نے عرض کی:''یا رسول پروردگارِ کائنات و تاج دارِ کائنات ﷺ ! وہ کیا ہے ؟''آپ تاج دارِ کائنات ﷺ نے ارشاد فرمایا:وَادٍ فِیْ جَھَنَّمَ أُعِدَّ لِلْقُرَّاءِ الْمُرَائِیْنَ۔یعنی یہ جہنم کی ایک وادی ہے جو ریاکارقاریوں کے لیے بنائی گئی ہے۔(سنن ابن ماجۃ، کتاب السنۃ، باب الانتفاع بالعلم والعمل بہ، الحدیث۲۵۶،ص۲۴۹۳)حضرت سیِّدُنا عبداللہ بن مبارک علیہ الرحمہ اپنی سند کے ساتھ ایک شخص سے روایت کرتے ہیں، انھوں نے حضرت سیِّدُنامعا ذ بن جبل ر ضی اللہ تعالیٰ عنہ سے عرض کی: ''مجھے کوئی حدیث سنائیے جو آپ نے نبئ اَکرم تاج دارِ کائنات ﷺ سے سنی ہو۔'' راوی فرماتے ہیں:'' حضرت سیِّدُنا معا ذ ر ضی اللہ تعالیٰ عنہ روپڑے یہاں تک کہ میں نے گمان کیاکہ وہ خاموش نہ ہوں گے۔''جب آپ خاموش ہوئے توارشاد فرمایا: میں نے نبئ اَکرم تاج دارِ کائنات ﷺ کویہ ارشاد فرماتے ہوئے سنا:''اے معاذ ! میں نے عرض کی:'' میرے ماں باپ آپ پر قربان ! میں حاضر ہوں۔''توپیارے آقاتاج دارِ کائنات ﷺ نے ارشادفرمایا:'' میں تم سے ایک حدیث بیان کرتا ہوں ،اگر تم نے اسے یاد رکھا تو وہ تمھیں نفع دے گی اور اگر ضائع کردیا یا اس کی حفاظت نہ کی تو بروزِ قیامت پروردگارِ کائنات کی بارگاہ میں تمھاری کوئی دلیل کام نہ آئے گی۔'' (پھر فرمایا)اے معاذ! بے شک پروردگارِ کائنات نے آسمان و زمین کو پیدا کرنے سے پہلے سات فرشتے پیدا فرمائے پھر آسمانوں کی تخلیق فرمائی پھر ہر دروازے پر ایک محافظ فرشتہ مقرر فرمایا۔جب اعمال کے محافظ فرشتے بندے کے صبح سے شام تک کے اعمال لے کر اوپر جاتے ہیں اور اس عمل میں سورج کی چمک جیسا نور ہوتا ہے، جب وہ آسمان دنیاتک پہنچتے ہیں اور اس عمل کو بہت زیادہ سمجھتے ہیں تو پہلے آسمان کا محافظ فرشتہ ان کو روک لیتا ہے اور کہتا ہے:'' اس عمل کوصاحبِ عمل کے منہ پر دے مارو، میں غیبت کا فرشتہ ہوں اور مجھے میرے رب عَزَّوَجَلَّ نے حکم دیا ہے کہ غیبت کرنے والے کے عمل کو یہاں سے آگے بڑھنے نہ دوں۔'' اس کے بعدآپ تاج دارِ کائنات ﷺ نے ارشاد فرمایا:'' پھر فر شتے بندے کے دیگر اچھے ا عمال لے جاتے ہیں اور ان اعمال کو کثیر اور پاک سمجھتے ہیں جب دوسرے آسمان تک پہنچتے ہیں تو وہاں کا مؤکل فرشتہ کہتا ہے: ''ٹھہرو اور یہ عمل صاحبِ عمل کے منہ پر دے مارو ،میں فخر کا فر شتہ ہوں، اس شخص نے اپنایہ عمل دنیا کے لیے کیا تھا، مجھے میرے رب عَزَّوَجَلَّ نے حکم دیا ہے کہ میں اس کے عمل کو یہاں سے آگے نہ بڑھنے دوں کیوں کہ وہ لوگوں میں بیٹھ کر اپنے اس عمل پر فخر کرتا تھا۔'' آپ تاج دارِ کائنات ﷺ نے مزید فرمایا:''پھر فر شتے بندے کے دیگر اعمال مثلاً صدقہ، روزہ اور نماز وغیرہ لے کر جائیں گے اور ان میں ایسا نور چمک رہاہوگا کہ فر شتے بھی حیران رہ جائیں گے،جب تیسرے آسمان تک پہنچیں گے تو وہاں مؤکل فرشتہ کہے گا:'' ٹھہرو، اور اس عمل کو صاحبِ عمل کے منہ پر دے مارو، میں تکبر کا فرشتہ ہوں، مجھے میرے رب عَزَّوَجَلَّ نے حکم دیا ہے کہ میں اس کے عمل کویہاں سے آگے نہ بڑھنے دوں، وہ مجالس میں لوگوں پرتکبر کیا کرتا تھا۔ پھر آپ تاج دارِ کائنات ﷺ نے ارشاد فرمایا:'' پھر فرشتے بندے کا وہ عمل لے کر جاتے ہیں جو ستا رے کی طر ح چمکتا ہے اس میں تسبیح ، نماز او رحج کی آواز ہوتی ہے، جس طر ح شہد کی مکھی کی آواز ہوتی ہے یہاں تک کہ جب وہ اسے لے کر چوتھے آسمان تک پہنچتے ہیں تو وہاں کا مؤکل فر شتہ کہتاہے: '' ٹھہرجاؤ اور اس عمل کوصاحبِ عمل کے منہ پر دے مارو اور اسے اس کی پیٹھ اور پیٹ پرمارو، میں خود پسندی کا فرشتہ ہوں، میرے رب عَزَّوَجَلَّ نے مجھے حکم دیا ہے کہ میں اس کے عمل کو آگے نہ بڑھنے دو ں کیوں کہ یہ شخص جب عمل کرتا تھا تو اس میں خود پسند ی کو داخل کرلیتا تھا۔'' آپ تاج دارِ کائنات ﷺ نے مزید ارشادفرمایا:''پھر فر شتے کسی اورعمل کو لے کر اوپر جاتے ہیں اور وہ عمل دلہن کی طر ح آراستہ ہوتا ہے یہاں تک کہ جب وہ پانچو یں آسمان تک پہنچتے ہیں تو وہاں کامؤکل فرشتہ کہتا ہے:'' ٹھہرجاؤ او ریہ عمل، عمل کرنے والے کے منہ پر دے مارو اور اس کے کندھوں پررکھ دو، میں حسد کا فر شتہ ہوں، جب کوئی شخص اس کی طرح کچھ سیکھتا یا عمل کر تا تو یہ حسد کرتا تھا اسی طرح کسی بندے کو کوئی فضلیت حاصل ہوتی تویہ اس سے حسد کرتااور اس کی برائی بیان کرتا۔ مجھے میرے ربعَزَّوَجَلَّ نے حکم فرمایاہے کہ اس کے عمل کو آگے نہ بڑھنے دو ں۔'' پھر آپ تاج دارِ کائنات ﷺ نے ارشاد فرمایا:''پھرفر شتے بندے کانماز ،زکوٰۃ ،حج ، عمرہ اور روزوں کا عمل لے کر اوپر جاتے ہیں،جب وہ چھٹے آسمان تک پہنچتے ہیں تو وہاں کامؤکل فرشتہ کہتا ہے:'' ٹھہرجاؤ او ر اس عمل کوصاحبِ عمل کے منہ پر دے مارو کیوں کہ جب کسی بندے کو کوئی مصیبت یاتکلیف پہنچتی تو یہ اس پر رحم نہیں کرتاتھا بلکہ اس کی مصیبت پر خوش ہوتا تھا، میں رحمت کا فرشتہ ہوں ،مجھے میرے رب عَزَّوَجَلَّ نے حکم فرمایا ہے کہ اس کے عمل کو آگے نہ بڑھنے دو ں۔'' آپ تاج دارِ کائنات ﷺ نے مزید فرمایا:''پھر فرشتے بندے کا وہ عمل جو رو زہ ، نماز ، نفقہ ، زکوٰۃ ،اجتہاد اورتقویٰ کی صورت میں ہوتا ہے جس کی آواز بجلی کی کڑک اور چمک سورج کی روشنی کی طرح ہوتی ہے اور اس کے ہمراہ تین ہزار فر شتے ہوتے ہیں جب یہ ساتویں آسمان تک پہنچتے ہیں تووہاں کامؤکل فرشتہ کہتا ہے: ٹھہرو، اور یہ عمل صاحبِ عمل کے منہ پر دے مارو، اس کے اعضا ء پر مارو اور اس کے ذریعے اس کے دل پر قفل لگا دو کیوں کہ میرے رب عَزَّوَجَلَّ نے مجھے حکم دیا ہے کہ جو عمل پروردگارِ کائنات کے لیے نہ ہو میں اس کے راستے میں رکاوٹ بنوں اس شخص نے اپنے عمل سے غیر اللہ کا ارادہ کیا اس کا مقصد فقہاء کے نزدیک بلندی حاصل کرنا ، علماء کے درمیان تذکرہ اور شہرو ں میں مشہور ہو نے کا تھا اورہر وہ عمل جو پروردگارِ کائنات کے لیے نہ ہو وہ ریاء ہے اور پروردگارِ کائنات ریا ء کا ر کے عمل کو قبول نہیں فرماتا۔'' پھرآپ تاج دارِ کائنات ﷺ نے ارشاد فرمایا:''پھر فرشتے بندے کی نماز، زکوٰۃ، رو زہ ،حج ، عمرہ ، اچھے اخلاق، خاموشی اور پروردگارِ کائنات کے ذکر کولے کر اُوپر جاتے ہیں اور اس کے ساتھ آسمانوں کے فرشتے ہوتے ہیں یہاں تک کہ وہ تما م پر دو ں سے نکلتے ہوئے پروردگارِ کائنات کی بارگاہ میں حاضر ہوتے ہیں اور اس کی بارگاہ میں اس بندے کے خالص پروردگارِ کائنات کے لیے کئے ہوئے اچھے اعمال کی گواہی دیتے ہیں ۔''حضور نبئ کریم تاج دارِ کائنات ﷺ ارشاد فرماتے ہیں کہ پروردگارِ کائنات ان سے فرماتا ہے: ''تم میرے بند ے کے اعمال کے نگران ہوجب کہ میں اس کے نفس کی نگرانی کرتاہوں، بے شک اس نے یہ اعمال میرے لیے نہیں کئے بلکہ میرے علاوہ کسی اور کے لیے کئے ہیں، اس پر میر ی لعنت ہے۔''تو تمام فرشتے عرض کرتے ہیں :''اس پر تیری، ہم سب فرشتوں کی ،ساتوں آسمانوں اورجو کچھ اس میں ہے ،سب کی لعنت ہو۔'' حضرت سیِّدُنا معا ذ رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ میں نے عرض کی:'' یا رسول پروردگارِ کائنات وتاج دارِ کائنات ﷺ ! آپ تاج دارِ کائنات ﷺ تو پروردگارِ کائنات کے رسول ہیں اورمیں معاذ ہوں، (مجھے) کیسے نجات حاصل ہوگی ؟'' آپ تاج دارِ کائنات ﷺ نے ارشاد فرمایا:''اے معا ذ ! میری اتباع کر و اگرچہ تمھارے عمل میں کمی ہو، اے معا ذ ! اپنے قرآن پڑھنے والے بھائیوںکے بارے میں کچھ کہنے سے اپنی زبان روک کر رکھو،اپنے گناہوں کو اپنے اوپر ڈالو، دوسروں کے ذمہ نہ لگاؤ، ان کو برا بھلاکہہ کر اپنی پاکیزگی کا اظہار نہ کرو، اپنے آپ کو ان پر بلند نہ سمجھو، دنیو ی عمل کو آخرت کے عمل میں داخل نہ کرو، اپنی مجلس میں تکبر نہ کرو تاکہ لوگ تیرے برے اخلاق سے بچے رہیں،تیسرے آدمی کی موجودگی میں کسی سے سر گو شی نہ کر و، لوگوں پر اپنی عظمت کااظہار نہ کرو ورنہ تم دنیاوی بھلائی سے محرو م ہوجاؤ گے اور لوگو ں کی بے عزتی نہ کرو ورنہ بروزِ قیامت جہنم میں اس کے کتے تمھیں چیر پھاڑ دیں گے۔'' پروردگارِ کائنات کا فرمانِ حقیقت نشان ہے:وَّ النّٰشِطٰتِ نَشْطًا ۙ﴿2﴾یعنی: اور نرمی سے بند کھولیں۔(پ30، النّٰزِعٰت: 2) ''اے معاذ ! کیا تم جانتے ہو، وہ کون ہیں ؟'' میں نے عرض کی:'' یا رسول پروردگارِ کائنات و تاج دارِ کائنات ﷺ! میرے ماں باپ آپ پر قربان!وہ کون ہیں؟''آپ تاج دارِ کائنات ﷺ نے ارشاد فرمایا: ''وہ جہنم کے کتے ہیں جو گو شت اور ہڈیوں کو دانتوں سے نوچیں گے۔'' میں نے عرض کی:''یا رسول پروردگارِ کائنات و تاج دارِ کائنات ﷺ! میرے ماں باپ آپ پرقربان!کون ان خصائل کی طاقت رکھ سکتا اور ان کتو ں سے بچ سکتا ہے ؟''تو آقائے نامدار تاج دارِ کائنات ﷺ نے ارشاد فرمایا: ''اے معا ذ! یہ چیز ہر اس شخص کے لیے آسان ہے جس کے لیے پروردگارِ کائنات آسان فرمادے ،تیرے لیے یہی کافی ہے کہ تولوگو ں کے لیے بھی وہی پسند کرے جو اپنے لیے پسند کرتا ہے اور ان کے لیے بھی وہی ناپسند کرے جو اپنے لیے نا پسند کرتا ہے۔'' راوی کہتے ہیں:'' میں نے کسی کو حضرت سیِّدُنا معاذ رضی اللہ عنہ سے زیادہ قرآن مجید کی تلاوت کرتے نہیں دیکھا ،وہ اس حدیث کے ڈر سے ایساکرتے تھے۔''(الترغیب والترھیب، المقدمۃ، باب الترھیب من الریاء۔۔۔۔۔۔الخ، الحدیث۵۹،ج۱،ص۴۸تا۵۱) حضرت سیِّدُنا عکرمہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: ''پروردگارِ کائنات بندے کو اس کے عمل پر اتنا ثواب نہیں دیتا جس قدر ثواب نیت پر عطا فرماتا ہے کیوں کہ نیت زیادہ پہنچنے والی ہوتی ہے او راس میں ریاء نہیں ہوتی۔'' ریاء ''رُؤْیَۃٌ ''سے ہے (یعنی دیکھنا ) اورسُمعہ''سِمَاعٌ''سے ہے(یعنی سننا ) ریاء کی اصل یہ ہے کہ اچھے اعمال دکھا کر لوگوں کے ہاں اپنا مقام بنانا اور لوگو ں کے نزدیک مرتبے کا حصول کبھی عبادت کے ذریعے اور کبھی عبادت کے بغیر ہوتا ہے، عبادت کے علاوہ صورتوں میں ریاء یہ ہے مثلاً موٹے کپڑے پہننا ، انہیں پنڈلی کے قریب تک لٹکانا، رنگ کا زرد ہونا ، آنکھوں کو اندر کی طر ف دھنسانا، بالوں کو بکھیر ے رکھنا، آواز کو پست رکھنا، تکلف کے ساتھ وقار وسکون سے چلنا اور چادریں پہننا وغیرہ ، یہ تمام چیزیں عبادت میں بھی ریاء کو شامل ہیں اور جب ان سے دکھاوے کا ارادہ ہو تو یہ حرام ہیں۔اسی طرح علماء کے ریاکاریکرنے سے مراد جلا لتِ علمی کے اظہار کے لیے وعظ ونصیحت میں مسجع ومقفّیٰ(یعنی فصاحت و بلاغت سے بھر پور) الفاظ استعمال کرنا ہے لیکن اگر اس سے ارادہ یہ ہو کہ لوگ اس طرح دین کے قریب ہوں گے تو درست ہے اور اسی طرح کبھی اصل وعظ میں وعظ کرنے والے کی نیت درست ہوتی ہے تو اس صورت میں اس قسم کے الفا ظ کا استعمال جائز ہے۔ اصل عبادت میں ریاء کاری یہ ہے کہ انسان لوگو ں کے درمیان ہو تو طویل رکوع وسجود کرے تاکہ لوگ اسے عبادت گزار اورمتقی سمجھیں ا ور کبھی وہ خلوت میں بھی اس چیز کا تکلف کرتا ہے تا کہ لوگو ں کے سامنے بھی اس طرح کر سکے اور سمجھتا ہے کہ اس نے گھر میں طویل رکوع وسجدہ کرلیا اس لیے وہ ریاء سے بچ گیا اوراگر اس کا یہی عزم ہو توبھی وہ دکھاوے میں مزید آگے نکل گیا اور وہ اس میں مخلص نہیں،پس ریاء کی صحیح تعریف یہی ہے کہ اس سے مراد جاہ ومرتبہ کا طلب کرنا ہے خواہ وہ عبادات کے ذریعے ہویا بغیر عبادت کے،اگر بغیر عبادت کے ہو جیسا کہ مال میں سے حلال طلب کرناتووہ حرام نہیں مگر یہ کہ وہ مال دھوکا کے ذریعے حاصل کیا گیا ہو اور یہ چیز مال اورمرتبہ دونوں میں برابر حرام ہے۔ اس سے یہ نہ سمجھا جائے کہ حبِّ جاہ مکمل طور پر حرام ہے کیوں کہ زندگی گزارنے کے لیے کچھ نہ کچھ جاہ ومرتبہ کی ضرورت ہوتی ہے جس طر ح حاجت کو پورا کرنے کے لیے تھوڑا مال کمانا جائز ہوتا ہے اور حضرت سیِّدُنا یوسف علیٰ نبینا وعلیہ الصلوٰۃو السلام کے فرمان سے یہی مراد ہے، جسے پروردگارِ کائنات نے اپنے فرمان میں ذکر فرمایا:قَالَ اجْعَلْنِیۡ عَلٰی خَزَآئِنِ الۡاَرْضِ ۚ اِنِّیۡ حَفِیۡظٌ عَلِیۡمٌ ﴿55﴾یعنی: یوسف نے کہامجھے زمین کے خزانوں پر کردے بے شک میں حفاظت والا علم والا ہوں ۔ (پ13، یوسف:55) پس جاہ ومرتبہ میں زہر وتریاق(یعنی نفع ونقصان) دونوں ہيں جیسا کہ مال کے بارے میں گزر چکاہے اور جس طر ح مال کی کثرت انسان کو سر کش اورپروردگارِ کائنات کی یادسے غافل کردیتی ہے اسی طرح زیادہ جاہ ومرتبہ کامعاملہ ہے لیکن اگر تمھاری خواہش کے بغیر تمھیں بہت زیادہ عزت مل جائے، اوروہ تجھے پروردگارِ کائنات سے غافل نہ کرے ۔پس تیرا اسے استعمال کرنااسی طرح ہے جس طرح سخاوت ،ایثار اور مخلوقِ خدا کو نفع پہنچانے کے لیے مال کا استعمال کرنا ہے۔ اس کا وہی حکم ہے جومالِ کثیر کا ہے جو پہلے گزر چکا ہے کیوں کہ انبیاء کرام علیٰ نبینا وعلیہ الصلوٰۃو السلام اور ائمہ عظام وخلفاء راشدین رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین کی عزت سے بڑھ کر عزت کا حصول ممکن نہیں لیکن انسان کو چاہے کہ اسے یہ چیز پروردگارِ کائنات کی یاد سے غافل نہ کرے اور نہ اس کے زوال پر اسے کوئی دکھ ہو، اس کا لوگوں کے پاس جاتے وقت اچھے کپڑے پہننا ریا ء تو ہے لیکن یہ حرام نہیں کیوں کہ اس میں عبادت کے ذریعے ریاء نہیں اور ا س پر ام المؤمنین حضرت سیِّدَتُناعائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کی روایت دلیل ہے ،آپ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ ایک دن رسولِ اَکرم تاج دارِ کائنات ﷺ نے صحابۂ کرام علیہم الرضوان کی طرف جانے کا ارادہ فرمایا اور آپ تاج دارِ کائنات ﷺ نے پانی کے مٹکے میں دیکھ کر اپنا عمامہ شریف اور زلفوں کو درست فرمایا، آپ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ میں نے عرض کی: ''یارسول پروردگارِ کائنات و تاج دارِ کائنات ﷺ!کیا آپ بھی ایساکرتے ہیں ؟ ''آپ تاج دارِ کائنات ﷺ نے ارشاد فرمایا: ''نَعَمْ إنَّ اللہَ تَعَالٰی یُحِبُّ الْعَبْدَ اَنْ یَتَزَیَّنَ لِاِخْوَانِہٖ اِذَا خَرَجَ اِلَیْھِمْ یعنی:ہاں، بے شک پروردگارِ کائنات اپنے بندے کو پسند فرماتا ہے کہ وہ اپنے دوستو ں کی طرف جاتے وقت ان کے لیے زینت اختیار کرے۔''اخیر میں بارگاہ قاضی الحاجات میں دعا گو ہوں کہ موالے پاک اپنے محبوب پاک، صاحب لولاک، سیاح افلاک صلی اللہ علیہ وسلم کے طفیل حضرت کے مرقد منور پہ رحمت و انوار کی بارشیں برسائے۔ ان کے درجات بلند فرمائے اور ہمیں ان کی یاد منانے کے ساتھ ساتھ ان کی تعلیمات پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔
نیت کی اہمیت و افضلیت قرآن و حدیث کی روشنی میں تحریر : ناصر منیری ارشاد خداوندی ہے: وَلَا تَطْرُدِ الَّذِیۡنَ یَدْعُوۡنَ رَبَّہُمۡ بِالْغَدٰوۃِ وَ الْعَشِیِّ یُرِیۡدُ...
اسلام میں اخوت و بھائی چارے کا تصور۔۔۔قرآن و حدیث کی روشنی میں اِنَّمَا الْمُؤْمِنُوْنَ اِخْوَةٌ فَاَصْلِحُوْا بَیْنَ اَخَوَیْكُمْ وَ اتَّقُوا اللّٰهَ لَعَلَّكُم...
16 سیدوں کا روزہ، 18 سیدوں کی نماز، 20 سیدوں کی کہانی... دور حاضر کا ایک المیہ یہ بھی ہے کہ اہل عقیدت کی عقیدت مندی دیکھ کر ان کے اعتقاد سے کھلواڑ کیا جانے لگا۔ اس سلسلے میں جوشیلی اور ...
Comments
Post a Comment