خانوادہء مخدوم یحیی منیری اور خدمتِ خلقاز قلم: ناچیز ناصر منیری کان اللہ لہڈائریکٹر ریسرچ سینٹر خانقاہ منیر شریف، پٹنہرابطہ نمبر: 9905763238۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔سلطان المحققین، برہان العارفین، مخدوم جہاں، قطب زماں حضرت مخدوم شرف الدین احمد یحیی منیری قدس سرہ القوی اپنے عہد کے عظیم محقق، محدث، مصنف اور صوفی بزرگ گذرے ہیں۔آپ 661ھ کو صوبہ بہار ضلع پٹنہ کے عظیم و قدیم شہر "منیر شریف" میں تولد ہوئے۔ تعلیم و تربیت اپنے والد ماجد مخدوم منیر حضرت کمال الدین یحیی منیری (570ھ – 690ھ) اور علامہ ابو توامہ بخاری علیہ الرحمہ سے حاصل کی۔ بیعت و خلافت حضرت خواجہ نجیب الدین فردوسی دہلوی علیہ الرحمہ (م:690ھ) سے حاصل ہے۔ آپ کا وصال پر ملال 6 شوال المکرم 782ھ کو ہوا۔ اور مزار مبارک صوبہ بہار ضلع نالندہ کے قصبہ "بہار شریف" میں ہے۔آپ جہاں صوفیِ با صفا تھے وہیں ولیِ کامل، مرشد برحق، شیخ طریقت اور عظیم فلسفی بھی تھے۔آپ کی تحریروں میں منقولات کے ساتھ ساتھ معقولات کا بھی خاصا مواد ملتا ہے۔ آپ اپنی باتوں کو جہاں منقولاتی دلائل مثلا قرآن و حدیث اور اقوال ائمہ، فقہا و صوفیہ سے مدلل و مبرہن کرتے ہیں وہیں فلسفیانہ ابحاث سے معقول بھی کرتے نظر آتے ہیں۔شیخ عبدالماجد دریاآبادی کے بقول علم فلسفہ میں آپ کا مرتبہ بہت بلند تھا۔ وہ اپنی کتاب 'نظام تعلیم و تربیت' میں یہاں تک لکھتے ہیں کہ حیرت ہوتی ہے کہ ان کے کلام میں سطر دو سطر نہیں بلکہ صفحے کے صفحے ایسے نظر آتے ہیں کہ گویا موجودہ زمانے کے مغربی مفکرین کی کتابوں کا لفظی ترجمہ ہے۔ کانٹ، ہیگل، برکلے اور ہیوم ازیں قبیل فلاسفہء جدید کے نظریات جن پر موجودہ فلسفے کو ناز ہے ان کی کتابوں میں بھرے پڑے ہیں۔اس کے علاوہ تفسیر و حدیث اور فقہ و افتا میں بھی آپ کا مرتبہ بہت بلند ہے۔ صاحب سیرة الشرف کے بقول آپ فقہ میں اجتہاد کے مرتبے پر فائز تھے۔ آپ کے تفقہ فی الدین کا عالم یہ تھا کہ قرآن و حدیث سے مسائل کا استنباط کرنا، اور پھر اس پر عقلی دلایل قایم کرنا آپ کے نزدیک معمولی بات تھی۔جہاں آپ عظیم محقق، مفسر، محدث، مجتہد اور فقیہ و فلسفی تھے وہیں آپ کا مجددانہ کردار بھی انتہائی اہم رہا ہے۔ آپ کے تجدید و احیا کے کارہاے نمایاں ایک صدی پر محیط ہیں۔ بندگان خدا کی خاصی تعداد آپ کے دست حق پرست پر تائب و مشرف بہ اسلام ہوئی۔ آج بھی آپ کے مکتوبات خلق خدا کے لیے مشعل راہ ہیں اور دنیا کی مختلف زبانوں میں منتقل ہو کر لوگوں کے فلاح و اصلاح کا ضامن ہیں۔ آپ کے تجدیدی کارناموں کو شیخ ابوالحسن علی ندوی نے اپنی تاریخی کتاب 'تاریخ دعوت و عزیمت' کی تیسری جلد میں بڑی شرح و بسط کے ساتھ تحریر کیا ہے۔ان سب کے ساتھ ساتھ وہ ایک عظیم انسان بھی تھے اور انسانیت کے ہم درد بھی۔ اپنے سینے میں ایک درد مند دل بھی رکھتے تھے۔ کسی بھی غیر انسانی و غیر اخلاقی حرکت پر ان کا دل دھڑک اٹھتا تھا بقول امیر مینائی۔۔خنجر لگے کسی کو تڑپتے ہیں ہم امیرسارے جہاں کا درد ہمارے جگر میں ہےآپ نے اپنی تعلیمات میں جگہ جگہ انسانیت کا پیغام اور خدمت خلق کا درس دیا ہے۔ آپ کی انھی تعلیمات کو یہاں پیش کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ سلسلہء تعلیمات مخدوم جہاں کی یہ پہلی کڑی ہے۔ ان شاء اللہ العزیز اس سلسلے کی اور بھی کتابیں سلسلہ وار پیش کی جاتی رہیں گی۔زندگی وہ جو دوسروں کے کام آئے"اے بھائی! اس اندھیری دنیا میں اپنے قلم، زبان، مال اور مرتبے سے جہاں تک ہو سکے ضرورت مندوں کو راحت پہنچاؤ، برادر عزیز کے مقام میں روزہ، نماز اور نوافل جو بھی ہیں اچھے ہیں لیکن لوگوں کے دلوں کو راحت و آرام پہنچانے سے زیادہ فائدہ مند کام اور کوئی نہیں۔"ضرورت مندوں کی ضرورت پوری کرنامنقول ہےکہ خواجہ بشر حافی رحمۃ اللہ علیہ سے لوگوں نے کہا : فلاں بادشاہ تمام رات نماز میں کھڑا رہتا ہے۔ فرمایا: اس نے اپنا کام چھوڑ دیا ہےاور دوسروں کے کاموں کو اختیار کیا ہے۔ لوگوں نے کہا اسے ذرا تفصیل سے کہا جائے۔ فرمایا: اس کا کام بھوکوں کو کھانا کھلانا، ننگوں کو کپڑا پہنانااور حاجت مندوں کی حاجت روائی کرنا ہے۔ رات بھر نماز اور ہر روز روزہ یہ دوسروں کا کام ہے اس کا نہیں۔ اسی کو کہا ہے ؎نیست دنیا بد اگر کاری کنیبد شود گر عزم دنیاوی کنیتخم امروزینہ فردا بر دہدورنہ کارے اے دریغا بر دہد)یعنی دنیا بری نہیں ہے اگر تم اس دنیاوی دولت سے اچھے کام کرو۔ بری اس وقت ہو جاتی ہے جب تم اس سے خزانہ بھرنے کا قصد کرتے ہو۔ آج کی تخم ریزی سے کل پھل ملے گا اور اگر تو بیج نہیں بوتا تو پھل کیا ہوگا(مانگنے سے پہلے دینا"اور اگر تم کسی کو کچھ دو تو کوشش کرو کہ سوال کرنے سےقبل دو۔ اہل معرفت اور اہل مروت کا قول ہے:السوال وان اقل ثمن النوال ان اجل سوال تھوڑا بھی عنایت کی قیمت بن جاتا ہے چاہے عنایت بڑی کیوں نہ ہو۔یعنی امداد تھوڑی ہو یا زیادہ سوال اس کی قیمت بن جاتا ہے اگر چہ کتنا ہی زیادہ دے۔ سمجھے کہ کچھ بھی نہیں دیا۔ اس لیے کہ دنیا لا شَے ہے(دنیا کوئی چیز نہیں(اپنا سب کچھ ضرورت مندوں میں لٹا دینا"امام شبلی رحمۃ اللہ علیہ کا قول ہے کہ اگر ساری دنیا میری ملک ہو جائے تو ان سب کا ایک لقمہ بنا کر میں کسی بھوکے کے منہ میں رکھ دوں پھر بھی مجھے اس پر ترس آئے ؎ملک دنیا را کہ بنیادے نہندگر ہ بس عالی ست بربادے نہندمال و ملک ایں جہاں جز ہیچ نیستگر ہمہ یابی چو من ہم ہیچ نیست)دنیا کی ملک و عمارت کی بنیاد جو رکھتے ہیں وہ کتنی ہی عالی شان کیوں نہ ہو اس کی بنیاد ہوا پر رکھی ہے اس دنیا کی دولت اور اس کی ملکیت سوالیے الجھن و جھنجھٹ کے اور کچھ نہیں اور تو سب کچھ پا لے جب بھی مری کچھ بھی نہیں۔(")مکتوبات دو صدی، مکتوب نمبر : 47، صفحہ: نمبر237،238(زبان و قلم اور روپے پیسوں سے خلق خدا کی خدمت کرواے بھائی ! الدنیا مزرعۃ الآخرۃ (دنیا آخرت کی کھیتی ہے) جہاں تک ممکن ہو آخرت کی کمائی کرنے میں مشغول ہونا چاہیے۔ اپنے ہاتھ ، زبان اور قلم و کاغذ اور اپنے نقد و جنس سے لوگوں کے دلوں کو خوش کریں، راحت و آرام پہنچائیں اور اس عمل کو ایک عظیم کام جانیں۔ دنیا کے عیوب، اس کی آفتیں اتنی زیادہ ہیں کہ جلد کی جلد سیاہ کی جائیں تو بھی اس کے دسویں حصے کا دسواں حصہ بیان نہ ہو سکے لیکن اس کے ساتھ ساتھ اسی دنیا میں اس کا ایک ہنر بھی ہے کہ یہ مزرعۂ آخرت ہےیعنی آخرت کمانے کی جگہ ہے۔"اللہ تک پہنچنے کے لیے خدمت خلق سے بڑھ کر کوئی راہ نہیں"ایک بزرگ سے لوگوں نے پوچھا : حق سبحانہ و تعالیٰ تک پہنچنے کی راہ کتنی ہے؟ انھوں نے فرمایا: موجودات میں جتنے ذرے ہیں ان میں سے ہر ایک ذرے کی مقدار میں اللہ پاک تک پہنچنے کی راہ ہے۔ کوئی راہ لوگوں کی دل جوئی کر نے والوں کو خوش کرنے سے زیادہ فائدہ مند اور نزدیک تر نہیں ہے اور میں نے اسی راہ سے خدا کو پایا اور اپنے مریدوں کو اسی کی وصیت کرتا ہوں۔"ایک ضرورت کے بدلے ستر پوری ہوں گی"اے بھائی! شریعت کا حکم ہے: من قضی لاخیہ المسلم حاجت قضی اللہ لہ سبعین حاجۃ)یعنی جو شخص اپنے مسلمان بھائی کی ایک حاجت پوری کرے اللہ تعالیٰ اس کی ستر حاجتیں پوری کرتا ہے۔("ضرورت مند کو کپڑے پہنانے کا ثوابوقال علیہ السلام: من کسی مومنا کسی اللہ یوم القیامۃ الف حلۃ وقضی اللہ لہ الف حاجۃ و کتب اللہ لہ عبادۃ سنۃ و غفر اللہ ذنوبہ کلھا وان اکثر من نجوم السماء واعظاہ اللہ لکل شعرۃ علی جسدہ نورا ونفع اللہ عنہ عذاب القبر و کتب اللہ براءۃ من النار وجزاء علی الصراط واماما من الشدائد۔(یعنی فرمایا حضور ﷺ نے : جو شخص کسی ایک مومن کو کپڑا پہناتا ہےقیامت میں اللہ پاک اسے ہزار جوڑے عنایت کرے گا، اس کی ہزار ضرورتیں پوری ہوں گی، ایک سال کی عبادت کا ثواب اسے ملے گا، آسمان کے ستاروں کی گنتی سے زیادہ اگر اس کے گنوہ ہوں گے تو وہ معاف کر دیے جائیں گے، دوزخ کے عذاب سے اس کو چھٹکارامل جائے گا، پل صراط سے بے خدشہ گذرجائے گا، روز قیامت کی سختیوں سے نجات مل جائے گی۔)خدمت خلق نوافل سے بڑھ کر ہےیہ دولت نفل نمازوں، نفل روزوں میں کہاں ہے، یہی بات ہے کہ ایک دفعہ ایک بزرگ سے لوگوں نے کہا کہ اس ملک کا بادشاہ شب بیداری کرتا ہےاور رات بھر نفل نمازیں پڑھا کرتا ہے، انھوں نے فرمایا: بے چارے نے اپنی راہ کھو دی ہے اور دوسروں کی راہ اختیار کر لی ہے۔ لوگوں نے سوال کیا حضرت! یہ کیسے؟ اس کے خدا تک پہنچنے کی یہ راہ ہے کہ وہ اپنی دولت اور انواع و اقسام کی نعمتوں سے بھوکوں کو کھانا کھلالیے، ننگوں کو کپڑے پہنالیے، برباد و پریشاں دلوں کو شاد و آباد کرے ، حاجت مندوں کی حاجت برآری کرے ، نفل نمازوں کی مشغولی اور شب بیداری درویشوں، فقیروں کا کام ہے، ہر شخص کو اپنے مناسب کام کرنا چاہیے۔خدمت خلق شب بیداری سے بہتر"اے بھائی! اگر شکستہ دل کو پاؤ اور اس ایک دل کو تم نے شاد و آباد کر دیا یہ اس سے کہیں بہتر ہے کہ تم رات بھر شب بیداری کرو۔ اس لیے کہ کسی بھی ٹوٹی ہوئی چیز کی کوئی قیمت نہیں ہوتی ہے، لیکن دل وہ ہے کہ جتنا زیادہ ٹوٹا ہوا ہو ، چور اتنا ہی زیادہ قیمتی ہوتا ہے۔ "اللہ شکستہ دلوں کے قریب ہے"منقول ہے کہ جناب موسیٰ علیہ السلام نے اپنی مناجات میں کہا: الہی! تجھے کہاں ڈھونڈوں؟ جواب ملا: 'عندالمنکسرت القلوب لاجلی' (یعنی ٹوٹے ہوئے دلوں کے پاس تلاش کرو) عرض کی: آج میرے دل سے زیادہ کوئی دل شکستہ نہیں ہے۔ جواب ملا: میں اسی جگہ ہوں۔ "حضرت رابعہ بصری کی عزت و مرتبت کا سبباور اے بھائی! آخر یہ تو تم نے سنا ہے کہ حضرت رابعہ بصری کو اس درجہ نعمت و دولت جو نصیب ہوئی وہ ایک پیاسے کتے کو پانی پلانے کے سبب ہوئی، لیکن اس امر میں کوشش کرنا چاہیےکہ جو بھی کسی کو دے وہ بے طلب دے، اس لیے کہ فرمایا گیا ہے: السوال وان اقل ثمن النوال ان اجل) سوال تھوڑا بھی عنایت کی قیمت بن جاتا ہے چاہے عنایت بڑی کیوں نہ ہو(اور جس قدر اور جتنا زیادہ کسی کو دے تو اسے بہت قلیل جانے، اس لیے کہ ساری دنیا ہی بہت قلیل ہے۔جیسا کہ امام شبلی رحمۃ اللہ علیہ سے منقول ہے اگر ساری دنیا کی دولت ہمارے قبضے میں ہو تو سب کا ایک لقمہ بناکر کسی ایک فقیر کے منہ میں ڈال دوں پھر بھی مجھے اس پر شفقتآئے۔ (یعنی اور دیتے کچھ نہ دیا۔()مکتوبات دوصدی، مکتوب نمبر72، صفحہ:308-310(خدمت خلق کے فوائدبھائی شمس الدین! اللہ پاک تمھیں اولیا کی خدمت میں بزرگی نصیب کرے۔ سنو! مرید کا ایک بڑا کام خدمت خلق کرنا ہے۔ خدمت کرنے میں بڑے بڑے فوائد ہیں۔ اور کچھ ایسی خاصیتیں ہیں جو اور کسی عبادت میں نہیں ایک تو یہ ہے کہ نفس سرکش مر جاتا ہے اور بڑائی کا گھمنڈ دماغ سے نکل جاتا ہے، عاجزی اور تواضع آجاتی ہے۔ اچھے اخلاق، تہذیب اور آداب آجاتے ہیں۔ سنت اور طریقت کے علوم سکھاتی ہے۔ نفس کی گرانی اور ظلمت دور ہو کر روح سبک اور لطیف ہو جاتی ہے۔ آدمی کا ظاہر و باطن صاف اور روشن ہو جاتا ہے۔ یہ سب فائدے خدمت ہی کے لیے مخصوص ہیں۔ مریدوں کو خدمت خلق کی وصیتایک بزرگ سے پوچھا گیاکہ خدا تک پہنچنے کے لیے کتنے راستے ہیں؟ جواب دیا کہ موجودات عالم کا ہر ذرہ خدا تک پہنچنے کا ایک راستہ ہے، مگر کوئی راہ نزدیک تر اور بہتر خلق خدا کو راحت پہنچانے سے بڑھ کر نہیں ہے۔ اور ہم تو اسی راستے پر چل کر اس منزل تک پہنچے ہیں اور اپنے مریدوں کو بھی اسی کی وصیت کرتے ہیں۔ خدمت خلق سے بہتر کوئی عبادت نہیں"انھی بزرگوں کا کہا ہوا ہے کہ اس گروہ کے اوراد و وظائف اور عبادتیں اتنی ہیں جو بیان نہیں کی جا سکتیں، مگر کوئی عبادت افضل اور مفید تر خدمت خلق سے نہیں ہے۔"خدمت خلق سب سے افضل صدقہچناں چہ حضرت پیغمبر ﷺ سے روایت ہے کہ حضور ﷺ سے پوچھا گیا:"ای صدقۃ افضل قال خدمۃ عبد فی سبیل اللہ او ظل فسطاط او طروقۃ فحل فی سبیل اللہ۔")یعنی کون سا صدقہ زیادہ افضل ہے؟ فرمایا: بندے کی خدمت کرنا، یا سایے کی غرض سے خدا کے راستے میں شامیانہےلگانا، خیمے نصب کرنا، یا خدا کی راہ میں اونٹ یا کشتی دینا۔(خدمت خلق کرنے والا قائم اللیل اور صائم الدھر سے بہتر ہےایک دوسری جگہ ارشاد ہوا: "الساعی علی الارملۃ والمساکین کالمجاھد فی سبیل اللہ او کالذی یصوم النھار و یقوم اللیل۔")بیوہ عورتوں کے کام میں دوڑنا اور غریبوں ، مسکینوں کی خدمت بجا لانا ایک مجاہد کی طرح ہے راہ خدا میں۔ یا ان لوگوں کی طرح ہے جو دن کو روزہ رکھتے ہیں اور رات کو عبادت کرتے ہیں۔(قوم کی ضرورت کے مطابق خدمت کریںخدمت کے لیےشرطیں ہیں وہ یہ کہ اپنی آرزو اور اپناتصرف بالکل چھوڑ دے اور قوم و جماعت کا جو مقصد ہو ویسا ہی کرے۔ مسافر یا مقیم جو جو بھی ہوں ان کی طبیعت کے رجحان کے مطابق کام کرے تاکہ انھیں فراغت دل حاصل ہو اور بے فکر ہو کر اپنے اوقات اوراد و وظائف میں گذاریں اور فارغ البال ہو کر اپنے معمولات میں مشغول رہ سکیں۔ ان کو جو کچھ بھی مجاہدہ اور ریاضت سے حاصل ہوگااس کو اسی خدمت سے سب فائدے ہوں گے۔ اچھے کام کے لیے مدد کریںاے بھائی!"من دل علی خیر فلہ مثل اجر فاعلہ"جس نے کسی اچھے کام کے لیے مدد کی تو اس کا اجر بھی اس کام کے کرنے والے کے برابر ملے گا۔یہ خانقاہیں، مسافرخانے اور اوقاف اسی کام کے لیے بنالیے گئے ہیں۔ خدمت خلق کو مقدم رکھیںدوسری شرط یہ ہے کہ خود کو مالک و مختار نہ سمجھے۔ جو کچھ اس کے پاس ہے، یہ سمجھے کہ وہ انھی لوگوں کا کام ہے، یہاں تک کہ اپنی ذات، مال، مراد اور اپنی خواہشات کو ان کے لیے لٹا دے اپنے ہر کام پر ان کی ضرورتوں کو مقدم سمجھے، ان سے کوئی چیز دریغ نہ رکھے۔ البتہ جو چیزیں کہ خدا نے حرام کر دی ہیں، اور جس چیز کی اس سے درخواست کریں فورا بجا لالیے۔ اگرچہ اس کے لیے مزدوری کرنا پڑے تو مزدوری کرنے سے بھی جان نہ چرالیے تا کہ ان کا کام پورا ہو جائے۔ اور ان کے ساتھ اس کا برتاو ایسا ہو جیسا ایک غلام اپنے مالک کے ساتھ کرتا ہے۔ اگر وہ سختی بھی کریں تو اس کی برداشت واجب سمجھے اور ہمیشہ ان کے رمز و اشارے کی باتوں کا لحاظ رکھے۔اگر کوئی خرابی بھی دیکھے تو بغیر ان کی تحریک کے درست کر دے ۔خدمت خلق نیت دلی کے ساتھ کرواور یہ شرط بھی ہے کہ جو جو کام خلق اللہ کے لیے نیک دلی اور ہنسی خوشی کے ساتھ کرے تاکہ توفیق خیر کا مستحق ہو، اور ان کاموں کی انجام دہی پر شکر حق بجا لالیے۔نوجوان خدمت خلق سے جان نہ چرائیںاور جو کچھ اس سے ممکن ہو جماعت و ملت کے لیے نیکیاں کرتا جائے، اور اگر کوئی دقیقہ فروگذاشت ہو جائے تو پشیماں ہو اور تاوان ادا کرے۔ خدمتیں بےشمار ہیں اور مقصود یہ ہے کہ جَوَان افراد کسی طرح بھی خدمت سے جان نہ چرائیں۔خدمت خلق کا ایک کام سو رکعت نفل نماز سے بہترشیخ ابو العباس قصاب رحمۃ اللہ علیہ نے کہا ہے کہ جو مرید ایک کام کرنے کے واسطے کھڑا ہوگا اس کے لیے یہ کام نماز نفل کی سو رکعتوں سے زیادہ مفید وبہتر ہے۔ یہ لوگ ہر ایک شخص کی خدمت اور پیروں کی صحبت اور اہلیت و ریاضت و تربیت کا زیادہ سے زیادہ اعتبار کرتے ہیں اور نسبت و نسب کا کوئی خیال نہیں کرتے، البتہ آل اطہار رسول اللہ ﷺ اس سے مستثنیٰ ہیں اور مشائخ زادے بھی۔ کیوں کہ یہ نسب کے اعتبار سے لائق احترام ہیں۔جیسا کہا ہے: نسب الرجل دینہ وحسبہ تقواہ۔)نسب آدمی کا دین اور پرہیزگاری اس کا مشرب ہے۔(اپنی حیثیت کے مطابق خلق خدا کی خدمت کروجس طرح صاحب مال پر واجب ہےکہ زکات نکال کر فقرا کو دے اور علما کے لیے لازم ہےکہ طلبہ کو پڑھائیں، علم سکھائیں اور اپنے علم کی زکات دیں۔ اسی طرح راہ طریقت میں مبتدی مرید پر واجب ہے کہ اپنی خدمت کے ذریعہ غیروں کو راحت و آرام پہنچالیے۔ مسلمان بھائیوں کی امداد اور اپنے سے بڑوں کی خدمت انجام دے۔ خدمت خلق ریاکاری سے پاک ہوخدمت کرنے کا صلہ، ثمرہ اور فائدہ اس وقت ظاہر ہوتا ہے جب خدمت بے غرض، بے منت اور بے ریا ہو۔خدمت کروانے کی بجائے خدمت کروپس جو مرید خود خدمت نہیں کرتا بلکہ دوسروں سے خدمت لینے کی آرزو کرتا ہے وہ کاہل ہو جاتا ہے اور لوگوں کے دلوں پر گراں گذرتا ہے اور بوجھ بن جاتا ہے۔ دل کی یہ گرانی اور بوجھ جان کے لیے تپ ہے، اس لیے لوگ اس سے نفرت کرنے لگتے ہیں، اور یہ اس کے حق میں سراسر نقصان اور خرابی کا باعث ہے اور کار برآری کی امید کم ہوجاتی ہے۔ خدمت خلق کی بہترین مثالحضرت پیغمبر محمد ﷺ نے صحابہ اور امت کی تعلیم کی غرض سے نہایت لطیف پیرایے میں اس کو سمجھایا ہےکہ کسی وقت ایک کٹورا دودھ کا حضور ﷺ کے پاس لایا گیا۔ آپ نے اٹھ کر اپنے دست مبارک میں لیا اور فقرا و صحابہ میں تقسیم فرما دیا، اور جو کچھ بچ رہا خود پی لیا۔ لوگوں نے پوچھا: یا رسول اللہﷺ حضور نے اپنے سے شروع کیوں نہ فرمایا؟ آپ نے جواب دیا کہ ایسا نہیں چاہیے کہ"ساقی القوم آخرھم شربا"قوم کو پلانے والا خود آخر میں پیتا ہے۔قوم کا خادم ہی قوم کا سردار ہوتا ہےاس گروہ(صوفیہ) میں مشہور ہے جو زیادہ خدمت کرتا ہے وہ زیادہ بزرگ اور پیارا ہوتا ہے، دلوں میں خوش آئند اور آنکھیں اس کی طرف مائل رہتی ہیں کہ "سید القوم خادمھم" قوم کا سردار وہی ہے جو ان کی خدمت کرتا ہے۔قوم کی خدمت کر کے قوم کے سردار بن گئےعرب کے ایک بزرگ سے پوچھا گیا: "بم سدت قال خدمت فسدت"تم کیسے سردار بن گئے؟ انھوں نے کہا: میں نے لوگوں کی خدمت کی اور سردار ہو گیا۔حضرت صدیق اکبر نے خدمت کر کے خلافت پائیکہا جاتا ہے کہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ ﷺ سے جو منصب خلافت پایا اور اتنی بڑی دولت ملی وہ ہمیشہ خدمت میں کمربستہ رہنے کی وجہ سے حاصل ہوئی۔ خدمت کر کے مخدوم ہوگئےابتدا میں ہر ایک بزرگ کے ساتھ یہی ہوا کیا ہے کہ وہ ہر وقت خدمت کے لیے ایک پاؤں پر کھڑے رہے ہیں یہاں تک کہ آخر میں خود مخدوم ہو گئے۔ خدمت کے ثمرے اتنے ہیں کہ بیان نہیں کیے جا سکتے۔ تم سے جہاں تک ہو سکے غنیمت سمجھو اور امیدوار رہو۔ اللہ جسے توفیق دےاے بھائی! احکام خداوندی انسان کے فہم و ادراک سے بالاتر ہیں۔ کنعان حضرت نوح علیہ السلام کا فرزند تھا۔ وہ کشتی میں نہیں بٹھایا گیااور شیطان ملعون کے لیے راستہ ہو جائے یہ جائز ہے کہ یہ باتیں بادشاہ سے تو نہ کہی جائیں مگر ایک پاسبان سے بیان کی جائیں۔ تم نہیں دیکھتے کہ فرعون سےتو نہ کہا لیکن اسی گھر میں ایک بڑھیا سے کَہ دیا۔ اس کی نگاہیں جو تمھاری طرف اٹھا کرتی ہیں اور اتنی مہربانیوں اور کرم کی بوچھار ہوتی رہتی ہے وہ اپنے علم پاک کی رو سے نظر کرتا ہے تمھارے گندے اعمال کی رو سے نہیں ہے۔ کرامت انسانی کا سبباہل سنت کا مذہب کہتا ہے کہ خدا کی نوازش و کرم کی کوئی حد نہیں۔ سارا عالم اٹھا مگر کوئی اس کے انعام و اکرام کے اسرار تک نہ پہنچا کہ آخر اس خاک کے پتلے پر اتنا کرم کیوں ہے؟ کل جب قیامتآئے گی سب لوگ حشر کے میدان میں بلالیے جائیں گے، غیب سے ایک آواز سنائی دے گی کہ سب خاک ہو جاؤ۔ فرشتوں کو حکم ہوگا کہ تم عرش کے گرد جمع ہو جاؤ۔ تمھیں حلۂ بہشتی سے کوئی کام نہیں اور نہ دوزخ کی بیڑیوں سے کوئی سروکار۔ تم مقام معلوم سے دیکھتے رہوکہ اس مشت خاک کے ساتھ ہمارے کیا کیا معاملے ہیں؟ اسی معنی کو دیکھ کر کہا ہےکہ اگر یہ خاکی نہ ہوتا تو یہ باتیں بھی نہ ہوتیں اور نہ یہ سوز و گدازو درد و تپش ہوتی بہشت اتنی نعمتوں اورکرامتوں کے ساتھ اس خاکی پر نچھاور اور غلمان و حوروں کو لیے ہوئے رضوان اس کے جشن وصال کے شادیانے گاتا ہے۔حضرت انسان کے لیے عطا و بخشش اور یہ جو تم نے سنا کہ ازل میں یہ خاکی اس وقت بھی موجود تھا۔ یہاں تک کہ خاک پیدا کی اور اپنی نوازش و کرم سے اس خاکی کا کل سامان مہیا کیا۔ ابھی پینے والا نہ تھا کہ شراب بنائی۔ سر نہ تھا مگر اس کے لیے تاج آراستہ کیا۔ چلنے والا پاؤں نہ تھا مگر راستہ صاف اور ستھرا کر دیا۔ دل نہ تھا مگر نگاہیں اس پر اٹھا دیں۔ گناہوں کا وجود نہ تھا مگر رحمت و مغفرت کے خزانے بھر دیے اور طاعت و بندگی کا کہیں نام و نشان نہ تھا مگر گلزار فردوس کو دلکش بہاروں سے آراستہ کر دیا۔ "العنایۃ قبل الماء والطین"کرم و نوازش کا یہ سارا اہتمام خمیر گوندھنے سے پیش تر ہی کر دیا گیا۔(مکتوبات صدی، مکتوب نمبر:71، صفحہ نمبر:449-453)اخیر میں بارگاہ قاضی الحاجات میں دست بہ دعا ہوں کہ مولاے رحمان و رحیم اپنے حبیب رءوف و رحیم علیہ الصلاة والتسلیم کے بطفیل عمیم ہمیں اپنے بزرگوں سے وابستہ رکھے، ان کے نقوش قدم پر چلائے اور ان کی تعلیمات پر عمل پیرا رہنے کی توفیقِ خیر مرحمت فرمائے۔آمین۔ یارب العالمین۔ بجاہ النبی الامین۔ علیہ اکرم الصلاة وعلی آلہ وصحبہ ومن تبعھم اجمعین۔
نیت کی اہمیت و افضلیت قرآن و حدیث کی روشنی میں تحریر : ناصر منیری ارشاد خداوندی ہے: وَلَا تَطْرُدِ الَّذِیۡنَ یَدْعُوۡنَ رَبَّہُمۡ بِالْغَدٰوۃِ وَ الْعَشِیِّ یُرِیۡدُ...
اسلام میں اخوت و بھائی چارے کا تصور۔۔۔قرآن و حدیث کی روشنی میں اِنَّمَا الْمُؤْمِنُوْنَ اِخْوَةٌ فَاَصْلِحُوْا بَیْنَ اَخَوَیْكُمْ وَ اتَّقُوا اللّٰهَ لَعَلَّكُم...
16 سیدوں کا روزہ، 18 سیدوں کی نماز، 20 سیدوں کی کہانی... دور حاضر کا ایک المیہ یہ بھی ہے کہ اہل عقیدت کی عقیدت مندی دیکھ کر ان کے اعتقاد سے کھلواڑ کیا جانے لگا۔ اس سلسلے میں جوشیلی اور ...
Comments
Post a Comment