خانوادہء مخدوم یحیی منیری اور خدمتِ دیناز قلم : ناچیز ناصر منیری کان اللہ لہڈائریکٹر ریسرچ سینٹر خانقاہ منیر شریف، پٹنہرابطہ نمبر: 9905763238۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔بزرگوں کی بارگاہوں میں ہر طرح کے لوگ آتے ہیں اور اپنا دامن مراد لعل و گہر اور ذھب و فضہ سے بھر کر واپس ہوتے ہیں۔ ان زائرین میں بچے بھی ہوتے ہیں، بڑے بھی۔ بوڑھے بھی ہوتے ہیں، جوان بھی۔ عورتیں بھی ہوتی ہیں، مرد بھی۔ خواتین بھی ہوتی ہیں، حضرات بھی۔ لڑکے بھی ہوتے ہیں، لڑکیاں بھی۔ ان کی درگاہوں، خانقاہوں اور بارگاہوں میں کسی طرح کا کوئی تعصب، عصبیت اور بھید بھاو نہیں ہوتا۔ ان کی درگاہیں، بارگاہیں اور خانقاہیں ہر طرح کی تفریق سے بے نیاز ہوا کرتی ہیں۔ ان کے یہاں کوئی ادنی آتا ہے تو اعلی ہو کر جاتا ہے۔ کوئی ذرہء ناچیز آتا ہے تو چمکتا خورشید بن کر جاتا ہے۔ کوئی قطرہ ہوتا ہے تو دریا بن جاتا ہے۔ کوئی تحت الثری پہ ہوتا ہے تو اوج ثریا پہ پہنچ جاتا ہے۔ صاحبانِ بارگاہ، باری تعالی کی عطا و عنایت سے بلا تفریقِ مشرب و مسلک و مذہب و ملت ہر ایک کی بگڑیاں بنایا کرتے ہیں۔ خواہ وہ اہلِ سنت ہوں یا اہلِ تشیُّع ہو، اہلِ دیوبند ہوں یا اہلِ حدیث۔ مذاہب عدیدہ میں خواہ وہ ہندو، مسلم، سکھ، عیسائی ہوں یا جین، بدھ، پارسی، یہودی۔ صاحبانِ بارگاہ سب کی بِپتا سنا کرتے ہیں۔ سب کے غم کا مداوا بنا کرتے ہیں۔ سارے دکھیوں کا دکھ دور کیا کرتے ہیں۔ سارے مبتلاےدرد کے درد کافور کیا کرتے ہیں۔ سارے بے سہاروں کو سہارا دیا کرتے ہیں۔ سب کی بگڑیاں بنایا کرتے ہیں۔ بقول شاعر (بتصرف)سب کی سنتے ہو اپنے ہوں یا غیر ہوںتم غریبوں کے غم خوار ہو یا ولیاللہ والے کبھی کسی کو جِھڑکا نہیں کرتے۔ ان کے یہاں آنے والا کبھی جھڑکیاں نہیں کھایا کرتا کیوں کہ وہ عامل بالقرآن والسنہ ہوتے ہیں۔ قرآن کے فرمودات پر عمل پیرا یوتے ہیں۔ بلکہ قرآنی تعلیمات و فرمودات اور ارشادات دوسروں تک پہنچایا کرتے ہیں اور قرآن پاک میں اللہ پاک کا فرمان پاک ہے:وَ اَمَّا السَّآىٕلَ فَلَا تَنْهَرْؕیعنی دستِ سوال دراز کرنے والوں کو کبھی جھڑکا مت کرو۔ان کی بارگاہوں، درگاہوں اور خانقاہوں میں کسی طرح کی کوئی عصبیت، تعصب یا جانب داری نہیں ہوا کرتی۔ وہاں جانے والے سب کے سب صاحبِ بارگاہ کی نظر میں اِیکوَل، سَمان اور برابر ہوا کرتے ہیں۔ وہاں جانے والوں کی کوئی کیٹیگری نہیں ہوا کرتی۔ وہاں جانے والوں کا کوئی اسٹیٹس نہیں ہوا کرتا۔ وہاں جانے والوں کی صرف اور صرف ایک کیٹیگری ہوا کرتی ہے اور وہ ہے معتقد و عقیدت مند۔ وہاں عقیدت مند جاتے ہیں۔ عقیدت مندی کے جذبے سے جاتے ہیں اور جا کر خراجِ عقیدت پیش کرتے ہیں۔ وہاں شردھالو جاتے ہیں۔ شردھا کے بھاو سے جاتے ہیں اور شردھانجلی اَرپِت کر کے واپس ہوتے ہیں۔وہاں پندار علم کام نہیں آتا۔ وہاں علمی طمطراق دکھانا سودمند نہیں۔ وہاں انانیت کسی کام کی نہیں۔ بڑے بڑے صاحبان جبہ و دستار اپنے جبے و پگڑیاں اتار کر جاتے ہیں۔ وہاں کوئی علمی دھونس نہیں جماتا۔ کوئی اپنی قابلیت و صلاحیت اور اہلیت و لیاقت کا رعب و دبدبہ نہیں دکھاتا۔ اس لیے کہادب گاہیست زیرِ آسماں از عرش نازک تر نفَس گم کردہ می آید جنید و با یزید ایں جاخبردار! یہاں اپنا سکہ چلانے کی کوشش مت کرنا۔ یہاں کسی اور کا سکہ نہیں چلتا بلکہ یہاں مخدومِ پاک کا سکہ چلتا ہے۔ حضرت کو کھرے اور کھوٹے کی پرکھ اچھی طرح ہے۔ جس کسوٹی پر کھرے کھوٹے کی پرکھ ہوتی ہے وہ کسوٹی حضرت کے پاس ہے۔ عمدہ و غیر عمدہ کی معرفت کا پیمانہ حضرت کے پاس ہے۔ خبردار! خبردار! خبردار! یہاں اگر کسی کا سکہ چلے گا تو صرف اور صرف مخدومِ پاک حضرت سیدنا شیخ کمال الدین احمد یحیی منیری قدس سرہ کا سکہ چلے گا جنھوں نے مشرقی ہندستان میں شمع اسلام روشن فرمائی۔ پورے مشرقی ہند میں اگر کوئی کلمہ گو نظر آ رہا ہے تو سمجھ لینا کہ وہ حضور مخدوم پاک کی شبانہ روزی مساعیِ جمیلہ اور محنتِ شاقہ کا ثمرہ و نتیجہ ہے۔ مخدوم پاک کے دادا جان حضور تاج الفقہا حضرت سیدنا امام محمد تاج فقیہ ہاشمی رحمہ اللہ تعالی بیت المقدس (ہیبرون، فلسطین) سے بشارت نبوی ﷺ کے عین مطابق منیر شریف (پٹنہ، انڈیا) تشریف لائے اور اپنے اخلاق و کردار کے ذریعے لوگوں کو اپنا گرویدہ بنا لیا۔ لوگ ان کے دست حق پرست پر بیعت و ارادت کا شرف حاصل کرتے رہے اور تائب و مشرف باسلام بھی ہوتے رہے۔ جہاں انھوں نے مذہبی طور پر لوگوں کو اپنا ہم نوا بنایا وہیں سیاسی طور پر بھی راجا منیر راے کو شکست دے کر سیاست کے میدان میں بھی اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوایا۔ اور یہ باور کرایا کہ صحیح معنوں میں حضور تاج الفقہا عطاء النبی فی الہند ہیں۔بعدہ اپنے شہزادے حضور عماد الحق والملة والدین حضرت سیدنا مخدوم عماد الدین اسرائیل منیری قدس سرہ کو اپنا جانشیں بنایا۔ انھوں نے بھی بے انتہا دینی و ملی، مذہبی و سیاسی خدمات انجام دیں۔ بے شمار لوگوں کو تائب و مشرف باسلام کیا۔ بالآخر دارِ فانی کو خیرباد کہہ کر دارِ بقا کی جانب رِحلت فرما گئے۔بعد ازاں آپ کے شہزادے حضور سلطان المخدومین، برہان العارفین حضرت سیدنا مخدوم شیخ کمال الدین احمد یحیی منیری قدس سرہ آپ کی مسند سجادگی پر جلوہ فرما ہوئے۔ اور کما حقہ آپ کی سچی اور صحیح جا نشینی کا حق ادا کیا۔ حضور سلطان المخدومین، زین الساجدین، برہان العاشقین، زبدة السالکین، تاج العارفین، والدِ مخدومِ جہاں، شہزادہء قطب زماں، نبیرہء تاج الفقہا حضرت سیدنا مخدوم کمال الدین احمد یحییٰ منیری قدس سرہ اپنے وقت کے جلیل القدر، عظیم المرتبت، رفیع الدرجت، فقید المثال اور عدیم النظیر صوفی بزرگ گذرے ہیں۔ آپ کا شمار اپنے وقت کے عظیم صوفیہ میں ہوتا ہے۔ آپ مذہب مہذب اسلام کے مخلص داعی، تصوف و روحانیت کے سچے مبلغ، علوم دینیہ کے اچھے مدرس، اولیا و صوفیہ کے لائق و فائق نقیب اور 'العلماء ورثة الانبیا' کے بہترین مصداق تھے۔ منیر شریف اور اس کے اطراف و اکناف میں آپ نے جو شمع اسلام روشن فرمائی ہے وہ اب تک درخشاں و تاباں ہے۔ دعوت و تبلیغ، تصوف و روحانیت اور رشد و ہدایت کے باب میں آپ کی خدمات کافی اہمیت کی متحمل ہیں۔آپ کی ولادت 572ھ مطابق 1174ء کو بیت المقدس کے علاقے "الخلیل" (ہیبرون، فلسطین) میں ہوئی۔ جو یروشلم سے 30 کلومیٹر جنوب میں واقع ہے اور جو مغربی فلسطین کا سب سے بڑا اور دارالحکومت غزہ کے بعد پورے فلسطین کا سب سے بڑا شہر ہے۔آپ کو حضرت مخدوم کمال الدین احمد یحیی منیری سے شہرت حاصل ہے۔ آپ کے والدِ گرامی حضرت مخدوم عماد الدین اسرائیل منیری بن امام محمد تاج فقیہ ہاشمی ہیں۔ آپ کے دادا جان فاتحِ منیر، تاج الفقہا امام محمد تاج فقیہ ہاشمی مُطَّلَبی ہیں، جن کا سلسلۂ نسب گیارہویں پشت پہ حضرت عبد اللہ بن زبیر بن عبد المطلب رضی اللہ عنہ سے جا ملتا ہے۔ آپ بشارتِ نبوی کے مطابق ہندستان میں تبلیغ اسلام کی خاطر اپنے وطن عزیز بیت المقدس سے ہجرت کر کے منیر شریف تشریف لائے، اور سیاسی طور پر یہاں کے راجا "منیر راے" کو شکست فاش دی۔ پھر یہاں شمع اسلام روشن فرماکر اپنی اولادوں کو اسلام کی تبلیغ و اشاعت کی خاطر مفتوحہ علاقے سپرد فرماکر اپنے وطن واپس ہو گئے۔آپ کی ابتدائی تعلیم آپ کے گھر میں ہی آپ کے والدین کریمین کے زیر نگرانی ہوئی۔ اعلیٰ تعلیم مصنف ہدایہ علامہ برہان الدین مرغینانی رحمہ اللہ کے برادرِ محترم علامہ رکن الدین مرغینانی ثم منیری رحمہ اللہ کے زیر نگرانی ہوئی۔ جو آپ کے دادا جان حضور فاتحِ منیر کے قافلے میں لشکر اسلام کے ہم راہ جذبۂ تعلیم و تعلم و درس و تدریس لے کر آئے تھے، مزار مبارک منیر شریف کے قاضی محلہ میں مسجدِ رکن الدین کے سامنے واقع ہے۔ مزید تعلیم کے لیے آپ نے بغداد شریف کا رخ کیا اور وہاں حضرت بہاء الدین زکریا ملتانی قدس سرہ و حضرت مصلح الدین سعدی شیرازی قدس سرہ جیسے جید صوفیہ کے ہم راہ حضرت خواجہ شہاب الدین سہروردی قدس سرہ و خواجہ نجم الدین فردوسی قدس سرہ جیسے اکابر صوفیہ کے پاس روحانی تعلیم و تربیت حاصل کی۔ بیعت و خلافت آپ کو حضرت خواجہ شہاب الدین سہروردی رحمہ اللہ سے حاصل ہے۔ جو حضرت خواجہ ضیاء الدین ابو نجیب سہروردی رحمہ اللہ کے مرید و خلیفہ اور حضور غوث پاک حضرت محی الدین عبد القادر جیلانی رضی اللہ عنہ کے فیض یافتہ و خرقۂ خلافت یافتہ ہیں۔آپ کا نکاح تارک السلطنت حضرت مخدوم شہاب الدین پیر جگ جوت عظیم آبادی رحمہ اللہ کی دختر نیک اختر رابعۂ عصر ، ولیہ کاملہ حضرت بی بی رضیہ علیہا الرحمہ سے ہوا۔ جو کاشغر کی سلطنت چھوڑ کر اسلام کی دعوت و تبلیغ، ترویج و اشاعت، خلقِ خدا کی خدمت اور رشد و ہدایت کی خاطراپنے وطن سے ہجرت کر کے ہندستان تشریف لائے تھے، بیعت و خلافت حضرت خواجہ شہاب الدین سہروردی رحمہ اللہ سے حاصل ہے۔ آپ خود بھی ولیِ کامل تھے اور آپ کی صاحب زادی حضرت بی بی رضیہ بھی ولیہ کاملہ تھیں، جنھوں نے اپنے صاحب زادے حضرت مخدومِ جہاں کو کبھی بھی بغیر وضو کے دودھ نہیں پلایا۔آپ کی اولاد میں چار صاحب زادے اور ایک صاحب زادی ہیں، جن میں مخدومِ جہاں حضرت شرف الدین احمد یحیی منیری رحمہ اللہ کو بے انتہا مقبولیت اور عالمی شہرت حاصل ہے۔ آپ کا وصال 11 شعبان المعظم 690ھ/1291ء کو منیر شریف (پٹنہ، بہار) میں ہوا اور وہیں بڑی درگاہ میں آپ کا مزارِ مبارک ہے۔ ہر سال 10، 11 اور 12 شعبان المعظم کو آپ کا عرس سراپا قدس انتہائی تزک و احتشام اور صوفیانہ طرز و روش پر منعقد کیا جاتا ہے۔آپ کے بعد آپ کے بڑے صاحب زادے مخدوم جلیل الدین منیری علیہ الرحمہ نے مسند سجادگی کو زینت بخشی اور دوسرے صاحب زادے مخدوم شرف الدین یحییٰ منیری علیہ الرحمہ نے بہار شریف میں اپنی خانقاہ الگ بنائی۔حضرت مخدوم شاہ جلیل الدین منیری علیہ الرحمہ کے بعد آٹھویں پشت میں ایک مشیور بزرگ حضرت مخدوم شاہ دولت منیری علیہ الرحمہ ہوئے۔ انھوں نے بھی رشد و ہدایت اور خلقِ خدا کی خدمت میں اپنا تن من دھن سب کچھ تج دیا۔اس خانقاہ کے موجودہ سجادہ نشیں حضور طارقِ ملت حضرت سیدنا طارق عنایت اللہ فردوسی دام ظلہ العالی ہیں جو خدمتِ دین اور خلقِ خدا کی رہ نمائی میں اپنی مثال آپ ہیں۔ تواضع و انکساری میں اپنا ثانی نہیں رکھتے۔ سیرت و کردار میں جن کی طرح ڈھونڈنے سے نہیں ملتا۔بلا شبہ اس بارگاہ سے از ابتدا تا حال خلقِ خدا کی خدمت اور رشد و ہدایت کا سلسلہ جاری و ساری ہے۔اخیر میں بارگاہ قاضی الحاجات میں دست بہ دعا ہوں کہ مولاے رحمان و رحیم اپنے حبیب رءوف و رحیم علیہ الصلاة والتسلیم کے بطفیل عمیم ہمیں اپنے بزرگوں سے وابستہ رکھے، ان کے نقوش قدم پر چلائے اور ان کی تعلیمات پر عمل پیرا رہنے کی توفیقِ خیر مرحمت فرمائے۔آمین۔ یارب العالمین۔ بجاہ النبی الامین۔ علیہ اکرم الصلاة و افضل التسلیم وعلی آلہ وصحبہ ومن تبعھم اجمعین۔(مصادر و مراجع: مناقب الاصفیا، وسیلۂ شرف وذریعۂ دولت، تاریخ سلسلۂ فردوسیہ، آثار منیر، مرآت الکونین وغیرہ)
نیت کی اہمیت و افضلیت قرآن و حدیث کی روشنی میں تحریر : ناصر منیری ارشاد خداوندی ہے: وَلَا تَطْرُدِ الَّذِیۡنَ یَدْعُوۡنَ رَبَّہُمۡ بِالْغَدٰوۃِ وَ الْعَشِیِّ یُرِیۡدُ...
اسلام میں اخوت و بھائی چارے کا تصور۔۔۔قرآن و حدیث کی روشنی میں اِنَّمَا الْمُؤْمِنُوْنَ اِخْوَةٌ فَاَصْلِحُوْا بَیْنَ اَخَوَیْكُمْ وَ اتَّقُوا اللّٰهَ لَعَلَّكُم...
16 سیدوں کا روزہ، 18 سیدوں کی نماز، 20 سیدوں کی کہانی... دور حاضر کا ایک المیہ یہ بھی ہے کہ اہل عقیدت کی عقیدت مندی دیکھ کر ان کے اعتقاد سے کھلواڑ کیا جانے لگا۔ اس سلسلے میں جوشیلی اور ...
Comments
Post a Comment