Urdu Poetries
سرزمینِ ہند
کتنی اچھی، خوب صورت، سرزمینِ ہند ہے
فیضِ خواجہ سے سلامت، سرزمینِ ہند ہے
جس زمینِ پاک سے حضرت رسولِ پاک کو
آ رہی تھی بوے جنت، سرزمینِ ہند ہے
فیضِ خواجہ سے سلامت، سرزمینِ ہند ہے
جس زمینِ پاک سے حضرت رسولِ پاک کو
آ رہی تھی بوے جنت، سرزمینِ ہند ہے
جس زمیں پر والدِ انسانیت آدم کے بھی
پڑ چکے ہیں قدمِ برکت، سرزمینِ ہند ہے
پڑ چکے ہیں قدمِ برکت، سرزمینِ ہند ہے
ابنِ آدم شیث کے برکات ہیں پنہاں جہاں
ہاں یہی وہ مثلِ جنت، سرزمینِ ہند ہے
ہاں یہی وہ مثلِ جنت، سرزمینِ ہند ہے
آدمِ ثانی تھے جو، اس نوح کے پوتے تھے ہند
نام کی ان کے ہی برکت، سرزمینِ ہند ہے
نام کی ان کے ہی برکت، سرزمینِ ہند ہے
چشتی و نانک، مہاویر اور گوتم کی زمیں
رام و سیتا کی محبت، سرزمینِ ہند ہے
رام و سیتا کی محبت، سرزمینِ ہند ہے
ہیں جہاں ناصرؔ منیری جنتیں کشمیر کی
کیا کہوں میں اس کی رفعت، سرزمینِ ہند ہے
کیا کہوں میں اس کی رفعت، سرزمینِ ہند ہے
منقبتِ تاج الشریعہ
مِرے تاج الشریعہ ہو، مِرے اختر رضا تم ہو
کرم، رحمت کا دریا ہو، مِرے اختر رضا تم ہو
کرم، رحمت کا دریا ہو، مِرے اختر رضا تم ہو
شریعت کا ہو تاجِ زر، طریقت کے نگیں تم ہو
ولایت کا بھی دریا ہو، مِرے اختر رضا تم ہو
ولایت کا بھی دریا ہو، مِرے اختر رضا تم ہو
ہے کرتا فخر جس ہستی پہ مصری جامعہ ازہر
وہ فخرِ جامعہ تم ہو، مِرے اختر رضا تم ہو
وہ فخرِ جامعہ تم ہو، مِرے اختر رضا تم ہو
علومِ اعلی حضرت، مفتیِ اعظم کے وارث ہو
بنے مہمانِ کعبہ ہو، مِرے اختر رضا تم ہو
بنے مہمانِ کعبہ ہو، مِرے اختر رضا تم ہو
علوم و فضل میں جس کا کوئی ثانی نہیں ملتا
وہ فخرِ عالِماں تم ہو، مِرے اختر رضا تم ہو
وہ فخرِ عالِماں تم ہو، مِرے اختر رضا تم ہو
صفاے قلب و باطن جس کا معیارِ کرامت ہے
وہ فخرِ صوفیہ تم ہو، مِرے اختر رضا تم ہو
وہ فخرِ صوفیہ تم ہو، مِرے اختر رضا تم ہو
سوالی تم سے ہے ناصرؔ منیری علم و عرفاں کا
ہمارے پیشوا تم ہو، مِرے اختر رضا تم ہو
ہمارے پیشوا تم ہو، مِرے اختر رضا تم ہو
بختِ خُفتہ مِرا اب جگا دیجیے
بختِ خفتہ مِرا اب جگا دیجیے
یا نبی اپنا جلوہ دِکھا دیجیے
تیرگی میرے دل کی مٹا دیجیے
اپنا مکھڑا ذرا اب دِکھا دیجیے
یا نبی اپنا جلوہ دِکھا دیجیے
تیرگی میرے دل کی مٹا دیجیے
اپنا مکھڑا ذرا اب دِکھا دیجیے
آپ کی دید ہی تو مِری عید ہے
دید اپنی ذرا اب کرا دیجیے
دید اپنی ذرا اب کرا دیجیے
دل میں خواہش لیے مر نہ جاؤں کہیں
شاہِ طیبہ مدینہ دکھا دیجیے
شاہِ طیبہ مدینہ دکھا دیجیے
آپ کے عشق سے دل یہ سرشار ہو
دل سے دنیا کی الفت مٹا دیجیے
دل سے دنیا کی الفت مٹا دیجیے
آپ کے در سے کوئی نہ خالی گیا
اپنے سائل کو اب کچھ عطا کیجیے
اپنے سائل کو اب کچھ عطا کیجیے
ہے یہ ناصرؔ منیری کی عرضی شہا
کچھ نواسوں کا صدقہ لٹا دیجیے
کچھ نواسوں کا صدقہ لٹا دیجیے
طرز ازہری کی پیروی
واللہ ۔ واللہ ۔ واللہ ۔ واللہ ۔رب نے دنیا بنائی نبی کے لیے
اور بھیجا نبی امتی کے لیے
اترا قرآن تو پیروی کے لیے
اور آئے نبی رہ بری کے لیے
جان قربان ہو ان کے ہی نام پر
جان دی ہے خدا نے نبی کے لیے
رب نے ”لولاک“ فرما کے واضح کیا
اس نے سب کچھ بنایا نبی کے لیے
ہے لقب پایا آقا سے صدیق کا
یہ شرف ہے تو یارِ نبی کے لیے
عدلِ فاروق کا کوئی ثانی کہاں
لاؤ کوئی عمر منصفی کے لیے
ہے سخاوت میں جس کا نہ ثانی کوئی
ایسا رتبہ ہے عثماں غنی کےلیے
جس کا مولا ہوں میں اس کے مولا ہیں یہ
یہ ہے اعلان مولا علی کے لیے
جنتی نوجوانوں کے سردار ہیں
ہے یہ فرمان سبطِ نبی کے لیے
بخشوائیں گے آقا ہمیں حشر میں
ہے شفاعت غلامِ نبی کے لیے
ہے یہ ناصرؔ منیری کی بس التجا
اب بلائیں شہا حاضری کے لیے
سورۃ الفاتحہ کا منظوم ترجمہ
شروع نامِ خداے پاک سے کرتا ہوں میں اس کا
بڑا ہی مہرباں اور رحم والا ہے مِرا مولا
سبھی تعریف، ساری خوبیاں اللہ کو ثابت
جو پالن ہارہے، رب جہاں ہے، پالنے والا
بڑا ہی مہرباں اور رحم والا ہے مِرا مولا
سبھی تعریف، ساری خوبیاں اللہ کو ثابت
جو پالن ہارہے، رب جہاں ہے، پالنے والا
نہایت رحم والا ہے، بہت ہی مہرباں ہے وہ
وہی مالک مِرا اللہ ہے روزِ قیامت کا
وہی مالک مِرا اللہ ہے روزِ قیامت کا
کریں تیری عبادت اور مدد تجھ سے ہی ہم چاہیں
ہمیں محتاج نہ رکھنا کبھی اللہ دنیا کا
ہمیں محتاج نہ رکھنا کبھی اللہ دنیا کا
چلا ہم کو تو سیدھی راہ پر، ہو راستہ ان کا
جو ہیں محبوب تیرے اور جنھیں انعام فرمایا
جو ہیں محبوب تیرے اور جنھیں انعام فرمایا
ہمیں تو ان کے رستے سے بچانا جو تِرے بندے
تِرے مغضوب ہیں اور راستہ جن کا بھی ہے بھٹکا
تِرے مغضوب ہیں اور راستہ جن کا بھی ہے بھٹکا
تو دے ناصرؔ منیری کو بھی یہ توفیق میرے رب
کرے یہ ترجمہ منظوم تیرے پاک قرآں کا
کرے یہ ترجمہ منظوم تیرے پاک قرآں کا
ذرا جی بہلے
خواب میں آقا تم آؤ کہ ذرا جی بہلے
اپنا دیدار کراؤ کہ ذرا جی بہلے
دل یہ میرا ہے پریشان غمِ دنیا سے
رنج و غم اب تو مٹاؤ کہ ذرا جی بہلے
اپنا دیدار کراؤ کہ ذرا جی بہلے
دل یہ میرا ہے پریشان غمِ دنیا سے
رنج و غم اب تو مٹاؤ کہ ذرا جی بہلے
جلوہء زیبا دکھا کر کے مِرے آقا اب
بختِ خُفتہ کو جگاؤ کہ ذرا جی بہلے
بختِ خُفتہ کو جگاؤ کہ ذرا جی بہلے
آپ کے عشق سے سرشار رہے دل میرا
حُبِّ دنیا کو مٹاؤ کہ ذرا جی بہلے
حُبِّ دنیا کو مٹاؤ کہ ذرا جی بہلے
دل میں خواہش لیے مر جاؤں نہ آقا میرے
اب مدینے میں بلاؤ کہ ذرا جی بہلے
اب مدینے میں بلاؤ کہ ذرا جی بہلے
ہوں خطاکار ندامت ہے خطا پر اپنی
مژدہ بخشش کا سناؤ کہ ذرا جی بہلے
مژدہ بخشش کا سناؤ کہ ذرا جی بہلے
آپ سے عرض یہ کرتا ہے منیری ناصرؔ
اب تو آقا مِرے آؤ کہ ذرا جی بہلے
اب تو آقا مِرے آؤ کہ ذرا جی بہلے
آنکھ بھر آئی
دل بڑا غم گیں ہوا اور آنکھ بھر آئی حضور
جب کبھی بھی یاد مجھ کو آپ کی آئی حضور
زائروں کے جا رہے ہیں قافلے طیبہ نگر
اب تلک باری مگر میری نہیں آئی حضور
جب کبھی بھی یاد مجھ کو آپ کی آئی حضور
زائروں کے جا رہے ہیں قافلے طیبہ نگر
اب تلک باری مگر میری نہیں آئی حضور
اب تو بلوائیں مدینے میں مجھے آقا مِرے
رو رہا ہے آپ کے غم میں یہ شیدائی حضور
رو رہا ہے آپ کے غم میں یہ شیدائی حضور
آپ کے روضے کی مٹی میں لگاؤں آنکھ سے
تاکہ بڑھ جائے مِرے آنکھوں کی بینائی حضور
تاکہ بڑھ جائے مِرے آنکھوں کی بینائی حضور
تھام کر ناصرؔ منیری وہ سنہری جالیاں
صدقہِ حسنین مانگے دے دو آقائی حضور
صدقہِ حسنین مانگے دے دو آقائی حضور
عشقِ نبی میں گذارا
تضمینِ ناصرؔ منیری
بر کلامِ حضرتِ نوریؔ
بر کلامِ حضرتِ نوریؔ
جو عشقِ نبی میں گذارا کروں میں
اور ان پر ہی جاں اپنی وارا کروں میں
جو نام ان کا ہر دم پکارا کروں میں
"حبیبِ خدا کا نظارا کروں میں
دل و جان ان پر نثارا کروں میں
اور ان پر ہی جاں اپنی وارا کروں میں
جو نام ان کا ہر دم پکارا کروں میں
"حبیبِ خدا کا نظارا کروں میں
دل و جان ان پر نثارا کروں میں
"
میں کیوں اور کسی کو بھی اپنا بناؤں
میں کیوں کر کسی سے بھی دل کو لگاؤں
میں کیوں اپنا دُکھڑا کسی کو سناؤں
"میں کیوں غیر کی ٹھوکریں کھانے جاؤں
تِرے در سے اپنا گذارا کروں میں
"
میں تیرے سوا کیوں کسی کو بھی چاہوں
میں کیوں ناز نخرے کسی کے اٹھاؤں
تِرے عشق ہی میں جیوں، موت پاؤں
"دمِ واپسیں تک تِرے گیت گاؤں
محمد ممجد پکارا کروں میں
"
تِرے نام پر مال قربان کر کے
تِرے نام گھر بار اور جان کر کے
تِرے نام ہر ساز و سامان کر کے
"تِرے نام پر سر کو قربان کر کے
تِرے سر سے صدقے اتارا کروں میں
"
جو دفنا کے مجھ کو جہاں والے جائیں
مِری قبر میں جب نکیرین آئیں
وہ دہشت سے اپنی جو مجھ کو ڈرائیں
"مِرا دین و ایماں فرشتے جو پوچھیں
تمھاری ہی جانب اشارا کروں میں
"
مجھے اب مدینے بلا لو نا پیارے
مدینے کی گلیاں دکھا دو نا پیارے
وہیں زندگی، موت دے دو نا پیارے
"تِرے در کے ہوتے کہاں جاؤں پیارے
کہاں اپنا دامن پسارا کروں میں
"
خدا آرزو کر دے یہ میری پوری
کہیں دل میں حسرت رہے نا ادھوری
کہ ناصرؔ منیری کی ہو دور دوری
خدا خیر سے لائے وہ دن بھی نوریؔ
مدینے کی گلیاں بُہارا کروں میں"
میں کیوں کر کسی سے بھی دل کو لگاؤں
میں کیوں اپنا دُکھڑا کسی کو سناؤں
"میں کیوں غیر کی ٹھوکریں کھانے جاؤں
تِرے در سے اپنا گذارا کروں میں
"
میں تیرے سوا کیوں کسی کو بھی چاہوں
میں کیوں ناز نخرے کسی کے اٹھاؤں
تِرے عشق ہی میں جیوں، موت پاؤں
"دمِ واپسیں تک تِرے گیت گاؤں
محمد ممجد پکارا کروں میں
"
تِرے نام پر مال قربان کر کے
تِرے نام گھر بار اور جان کر کے
تِرے نام ہر ساز و سامان کر کے
"تِرے نام پر سر کو قربان کر کے
تِرے سر سے صدقے اتارا کروں میں
"
جو دفنا کے مجھ کو جہاں والے جائیں
مِری قبر میں جب نکیرین آئیں
وہ دہشت سے اپنی جو مجھ کو ڈرائیں
"مِرا دین و ایماں فرشتے جو پوچھیں
تمھاری ہی جانب اشارا کروں میں
"
مجھے اب مدینے بلا لو نا پیارے
مدینے کی گلیاں دکھا دو نا پیارے
وہیں زندگی، موت دے دو نا پیارے
"تِرے در کے ہوتے کہاں جاؤں پیارے
کہاں اپنا دامن پسارا کروں میں
"
خدا آرزو کر دے یہ میری پوری
کہیں دل میں حسرت رہے نا ادھوری
کہ ناصرؔ منیری کی ہو دور دوری
خدا خیر سے لائے وہ دن بھی نوریؔ
مدینے کی گلیاں بُہارا کروں میں"
قصیدہ منیر شریف
کلام: پروفیسر شمس الدین احمد شمسؔ منیری
تضمین : محمد ناصر حسین ناصرؔ منیری
تضمین : محمد ناصر حسین ناصرؔ منیری
خدا کے فضل کا دم ساز ہے منیر شریف
نبی کے عشق کا غمّاز ہے منیر شریف
دمِ شہید سے گل باز ہے منیر شریف
”در ِکرامت و اعجاز ہے منیر شریف
حریم جلوہ گہِ راز ہے منیر شریف“
نبی کے عشق کا غمّاز ہے منیر شریف
دمِ شہید سے گل باز ہے منیر شریف
”در ِکرامت و اعجاز ہے منیر شریف
حریم جلوہ گہِ راز ہے منیر شریف“
یمن کے ایک ولیِّ خدا کے احساں سے
خدا کے عارف و زاہد کی سعیِ ذی شاں سے
منیرآئے یمن سے خدا کے مہماں سے
”جناب ِمومنِ عارف کے نورِ ایماں سے
نگاہِ شوق میں ممتاز ہے منیر شریف“
خدا کے عارف و زاہد کی سعیِ ذی شاں سے
منیرآئے یمن سے خدا کے مہماں سے
”جناب ِمومنِ عارف کے نورِ ایماں سے
نگاہِ شوق میں ممتاز ہے منیر شریف“
خدا کے بیتِ مقدس کا ایک مرد ِوجیہ
نبی کی عین بشارت سے آیا مردِ نبیہ
نہیں ہے فکر و تدبر میں جس کی کوئی شبیہ
”شیوعِ دین بدستِ امام تاج فقیہ
اسی کا نقطۂ آغاز ہے منیر شریف“
نبی کی عین بشارت سے آیا مردِ نبیہ
نہیں ہے فکر و تدبر میں جس کی کوئی شبیہ
”شیوعِ دین بدستِ امام تاج فقیہ
اسی کا نقطۂ آغاز ہے منیر شریف“
خدا کا مردِ مجاہد بھی ہے یہیں آیا
کوئی بھی آپ کے جیسا یہاں نہیں آیا
مقام کو کوئی ان کے پہنچ نہیں پایا
”اسی میں دفن ہیں مخدوم احمدِ یحییٰ
اسی سے مایۂ صدناز ہے منیر شریف“
کوئی بھی آپ کے جیسا یہاں نہیں آیا
مقام کو کوئی ان کے پہنچ نہیں پایا
”اسی میں دفن ہیں مخدوم احمدِ یحییٰ
اسی سے مایۂ صدناز ہے منیر شریف“
کہاں ملا ہے کسی کو بھی ایسا جذبۂ دین
کہ جس کے فیض سے پھیلے یہاں علوم دین
نگہ میں رکھتے تھے ہر دم ہر اک اصول دین
”اسی کی خاک سے اٹھے تھے شیخ شرف الدین
اسی شرف سے سر افراز ہے منیر شریف“
کہ جس کے فیض سے پھیلے یہاں علوم دین
نگہ میں رکھتے تھے ہر دم ہر اک اصول دین
”اسی کی خاک سے اٹھے تھے شیخ شرف الدین
اسی شرف سے سر افراز ہے منیر شریف“
بڑے بڑے یہاں پیدا ہوئے ہیں عالمِ دین
محققین و مشائخ بھی اور فاضلِ دین
اسی دیار سے پھیلے یہاں علوم دین
”یہیں تھا مدرسۂ دینِ شیخ رکن الدین
انھیں کے سوز سے دم ساز ہے منیر شریف“
محققین و مشائخ بھی اور فاضلِ دین
اسی دیار سے پھیلے یہاں علوم دین
”یہیں تھا مدرسۂ دینِ شیخ رکن الدین
انھیں کے سوز سے دم ساز ہے منیر شریف“
یہ بارگاہ ہے اک مرکزِ عقیدت بھی
ہے بالیقین یہ اک مصدر ِعنایت بھی
یہاں سے ملتی ہے ہر ایک کو محبت بھی
”یہیں ہے درگہِ مخدوم شاہ دولت بھی
انھیں کے فیض کا غمّاز ہے منیر شریف“
ہے بالیقین یہ اک مصدر ِعنایت بھی
یہاں سے ملتی ہے ہر ایک کو محبت بھی
”یہیں ہے درگہِ مخدوم شاہ دولت بھی
انھیں کے فیض کا غمّاز ہے منیر شریف“
یقیں ہے مجھ کو اے ناصرؔ خدا کی حمدوں سے
نبی کی شانِ معظم میں لکھی نعتوں سے
منیر کے سبھی شعرا کی عمدہ غزلوں سے
”جناب صوفی و شمسؔ ِحزیں کے نغموں سے
حریفِ دہلی و شیراز ہے منیر شریف“
نبی کی شانِ معظم میں لکھی نعتوں سے
منیر کے سبھی شعرا کی عمدہ غزلوں سے
”جناب صوفی و شمسؔ ِحزیں کے نغموں سے
حریفِ دہلی و شیراز ہے منیر شریف“
نعرۂ حیدری --- یا علی یا علی
شعور و علم کا اک آفتاب حیدر ہیں
نقوش فکر کا اک ماہ تاب حیدر ہیں
نقوش فکر کا اک ماہ تاب حیدر ہیں
حدیث اور کلامِ مجید کی تشریح
جہانِ علم کا پر نور باب حیدر ہیں
جہانِ علم کا پر نور باب حیدر ہیں
"میں علم کا ہوں شہر اور علی ہیں دروازہ"
مرادِ قولِ رسالت مآب حیدر ہیں
مرادِ قولِ رسالت مآب حیدر ہیں
کرے گا کیا کوئی اندازہ ان کے بازو کا
اکھاڑ پھینکے جو خیبر کا باب حیدر ہیں
اکھاڑ پھینکے جو خیبر کا باب حیدر ہیں
پچھاڑ دیتا ہے مرحب سا پہلواں کو بھی جو
خدا کا شیر وہی بو تراب حیدر ہیں
خدا کا شیر وہی بو تراب حیدر ہیں
مجھے نہیں ہے زمانے کا غم کہ میرے تو
جو مشکلوں کو ہے ٹالے جناب حیدر ہیں
جو مشکلوں کو ہے ٹالے جناب حیدر ہیں
کرم کریں گے اے 'ناصر منیری' تجھ پہ بھی
سخا کے پیکر و عزت مآب حیدر ہیں
سخا کے پیکر و عزت مآب حیدر ہیں
سجدہ حسین کا
دنیا میں ہو رہا ہے وہ شہرہ حسین کا
کربل میں کٹ گیا تھا جو کنبہ حسین کا
کربل میں کٹ گیا تھا جو کنبہ حسین کا
میدان کربلا میں کیا جو حسین نے
سب سجدوں میں اہم ہے وہ سجدہ حسین کا
سب سجدوں میں اہم ہے وہ سجدہ حسین کا
باطل کے آگے سر نہ جھکایا کٹا دیا
کربل میں دیکھا دنیا نے جژبہ حسین کا
کربل میں دیکھا دنیا نے جژبہ حسین کا
جاں دے دی پر لعیں کی امامت نہ کی قبول
دیکھے تو کوئی عقل سے رتبہ حسین کا
دیکھے تو کوئی عقل سے رتبہ حسین کا
'ناصر منیری' کہیے نا شانِ امام میں
پڑھتی ہے دنیا فخر سے خطبہ حسین کا
پڑھتی ہے دنیا فخر سے خطبہ حسین کا
غمِ حسین
غمِ حسین میں رونا بھی اِک عبادت ہے
ہے خوش نصیب ملی جس کو یہ سعادت ہے
غمِ حسین میں نکلے جو آنکھ سے آنسو
ہر ایک اشک سے بڑھ کر ہی اس کی قیمت ہے
ہے خوش نصیب ملی جس کو یہ سعادت ہے
غمِ حسین میں نکلے جو آنکھ سے آنسو
ہر ایک اشک سے بڑھ کر ہی اس کی قیمت ہے
غمِ حسین ملا ہے یہ چیز عام نہیں
ہر ایک چیز سے مہنگی یہ میری دولت ہے
ہر ایک چیز سے مہنگی یہ میری دولت ہے
غمِ حسین علامت ہے عشقِ نبوی کی
نبی سے عشق نہ ہو تو کہاں یہ دولت ہے
نبی سے عشق نہ ہو تو کہاں یہ دولت ہے
غمِ حسین ملا ہے مجھے تو ورثے میں
غمِ حسین میں ڈوبی مِری عشیرت ہے
غمِ حسین میں ڈوبی مِری عشیرت ہے
زمینِ کرب و بلا سے کہاں ہے کم تِرا غم
اے کاشمیر تو ہندوستاں کی جنت ہے
اے کاشمیر تو ہندوستاں کی جنت ہے
غمِ حسین ہے ناصرؔ منیری دل میں مِرے
حسینِ پاک کی حاصل مجھے شفاعت ہے
حسینِ پاک کی حاصل مجھے شفاعت ہے
مدحت حسین کی
ہم کس طرح بیاں کریں عظمت حسین کی
جنت سے پوچھ لیجیے رفعت حسین کی
جنت سے پوچھ لیجیے رفعت حسین کی
نانا نبی ہیں، بابا علی، ماں ہیں فاطمہ
ہے خوب دیکھیے نا عشیرت حسین کی
ہے خوب دیکھیے نا عشیرت حسین کی
سب جنتی جوان کے سردار ہیں حسین
جانے کو خلد ہے ہمیں حاجت حسین کی
جانے کو خلد ہے ہمیں حاجت حسین کی
سنتے ہی جس کو لشکرِ باطل لرز اٹھا
ایسی تھی کربلا میں خطابت حسین کی
ایسی تھی کربلا میں خطابت حسین کی
کہتا ہے تو یزید تھا حق پر نہ کہ حسین
کیوں پال لی ہے تو نے عداوت حسین کی
کیوں پال لی ہے تو نے عداوت حسین کی
تو معرکے کو کہتا ہے شہ زادگاں کی جنگ
مہنگی پڑے گی تجھ کو عداوت حسین کی
مہنگی پڑے گی تجھ کو عداوت حسین کی
'ناصر منیری' کیا لکھے شانِ امام میں
کرتی ہے ساری دنیا جو مدحت حسین کی
کرتی ہے ساری دنیا جو مدحت حسین کی
...
ReplyDelete