Muharram

​معمولاتِ محرم الحرام حدیثوں کی روشنی میں

تحریر : ناصر منیری
محرم کی دسویں تاریخ،  جسے ”عاشورا”  کہا جاتاہے، بہت ہی فضیلت والا دن ہے۔ اسی دن  حضرت آدم علیہ السلام کی توبہ قبول ہوئی۔ حضرت نوح علیہ السلام کی کشتی ”جودی پہاڑ” پر پہنچی۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام پیدا ہوئے ،  آپ کو ”خلیل اﷲ’ ‘ کا لقب ملا۔ اور نمرود کی آگ سے چھُٹکارا پایا۔اسی دن حضرت ایوب علیہ السلام کی بلائیں ختم ہوئیں۔ حضرت ادریس وحضرت عیسیٰ علیہما السلام آسمانوں پر اٹھائے گئے،  اسی دن بنی اسرائیل کے لیے دریا پھٹ گیا  اور فرعون لشکر سمیت دریا میں ڈوب گیا۔ اور حضرت موسیٰ علیہ السلام کو فرعون سے نجات ملی۔ اسی دن حضرت یونس علیہ السلام مچھلی کے پیٹ سے زندہ وسلامت باہر تشریف لائے۔ اسی دن حضرت امام حسین اور ان کے ساتھیوں نے میدانِ کربلا میں شہادت کا جام پی کر حق کا  جھنڈا اونچا کیا۔ (ماثبت من السنۃ ،ص:17،غنیۃ الطالبین،ص:87) اس فضیلت و اہمیت والے دن  میں کیے جانے والے کچھ نیک کام یہاں    بتائے جا رہے ہیں۔
شب عاشورا کی نفل نماز :
عاشورا کی رات میں چار رکعت نفل نماز  اس طرح  پڑھیے :  ہر رکعت میں الحمد کے بعد آیۃ الکرسی ایک بار اور سورۂ اخلاص (قل ھو اﷲ) تین تین بار پڑھیے اور نماز سے فارغ ہو کر ایک سو بار سورۂ اخلاص  پڑھیے۔ ان شاء اللہ  گناہوں سے پاکی حاصل ہوگی اور جنت میں بے شمار نعمتیں ملیں گی۔
یوم عاشورا  کا نفل  روزہ :
عاشورا کے روزے کی بہت فضیلت آئی ہے۔ حدیثِ پاک میں ہے کہ رسولِ پاکﷺ جب مدینہ تشریف لائے تو یہودیوں کو اس دن روزہ رکھتے دیکھا۔ پوچھا : روزہ کیوں رکھتے ہو؟  انھوں نے کہا :  اس دن حضرت موسیٰ علیہ السلام اور ان کی قوم کو فرعون سے نجات ملی تھی اسی لیے شکرانے کے طور پر روزہ رکھتے ہیں۔ حضور ﷺ نے فرمایا حضرت موسیٰ کو ہم تم سے زیادہ مانتے ہیں۔ پھر حضور نے خود بھی روزہ رکھا اور اس کا حکم بھی دیا۔ (بخاری شریف، 1 / 656، حدیث نمبر: 2004) رسولِ پاک ﷺ نے فرمایا: مجھے اللہ پر گُمان ہے کہ عاشورا کا روزہ ایک سال کے گناہ  مٹا دیتا ہے۔(مسلم شریف، 1 / 590 حدیث نمبر:1162)
نویں اور دسویں دونوں دن روزہ رکھنا چاہیے اور اگر نہ ہوسکے تو عاشورا ہی کے دن روزہ رکھیے۔
یوم عاشورا  کے نیک کام :
عاشورا کے دن یہ  کام کرنا مستحب ہے : روزہ رکھنا۔ صدقہ کرنا۔ نفل نماز پڑھنا۔ ایک ہزار بار سورۂ اخلاص پڑھنا۔ یتیم کے سر پر ہاتھ پھیرنا۔ اپنے اہل و عیال کے رزق میں کشادگی کرنا۔ غسل کرنا۔ سرمہ لگانا۔  ناخن تراشنا ۔ مریضوں کی بیمار پرسی کرنا۔ دشمنوں سے ملاپ کرنا۔ دعاے عاشورا پڑھنا۔ وغیرہ۔ رسولِ پاک ﷺ نے فرمایا  کہ جو عاشورا کے دن بال بچوں کے کھانے پینے میں خوب زیادہ فراخی اور کشادگی کرے گا یعنی زیادہ کھانا تیار کرا کر خوب پیٹ بھر کے کھلائے گا اﷲ پاک سال بھر تک اس کے رزق میں وسعت اور خیر و برکت عطا فرمائے گا۔ (ماثبت من السنۃص:17)
محرم کی مجلسیں :
محرم کے مہینے میں خاص طور سے عاشورا  کے دن مجلس یا جلسے کرانا اور صحیح روایتوں کے ساتھ کربلا کے شہیدوں کی بَڑائیاں اورکربلا کے واقعات و حالات بیان کرنا جائز اور ثواب  کا  کام ہے ۔  حدیث ِپاک میں ہے کہ جن مجلسوں میں نیک لوگوں  کا ذکر ہو، وہاں رحمت نازل ہوتی ہے۔  اور کربلا کے واقعات میں چوں کہ صبر و برداشت اور اللہ و رسول کی فرماں برداری کی بہترین مثال ہے اس لیے انھیں سننا سنانا ثواب کا کام ہے۔ اسی طرح میلاد شریف اور گیارہویں کی محفلیں اور جلسے کرنا  یہ سب جائز و مستحب اور ثواب کے کام ہیں۔ انھیں خلوص و محبت سے کرنا چاہیے اور ان میں ادب سے حاضر ہونا چاہیے۔ان محفلوں سے لوگوں کو روکنا گم راہوں کا طریقہ ہے۔
محرم کی فاتحہ :
محرم کے دس دنوں تک خاص طور سے عاشورا کے دن شربت پلا کر، کھانا کھلا کر، شیرینی پر یا کھچڑا پکا کر شہداے کر بلا کی فاتحہ دلانا اور ان کی روحوں کو ثواب پہنچانا یہ سب جائز اور ثواب کے کام ہیں۔ اور ان سب چیزوں کا ثواب یقیناََ شہداے کربلا کی  روحوں کو پہنچتا ہے اور اس فاتحہ و ایصال ثواب کے مسئلے میں حنفی’ شافعی’ مالکی’ حنبلی اہلِ سنّت کے چاروں اماموں کا اتفاق ہے ۔(شرح العقائد النسفیۃ، مبحث دعاء الاحیاء للاموات،ص:172)
دعاے عاشورا :
دسویں محرم کو دعاے عاشورا  پڑھنے سے عمر میں خیروبرکت اور زندگی میں فلاح و نعمت حاصل ہوتی ہے۔ دعا یہ ہے: یَاقَابِلَ تَوْبَۃِ اٰدَمَ یَوْمَ عَاشُوْرَاءَ۔یَا فَارِجَ کَرْبِ ذِی النُّوْنِ یَوْمَ عَاشُوْرَاءَ۔یَا جَامِعَ شَمْلِ یَعْقُوْبَ یَوْمَ عَاشُوْرَاءَ۔ یَا سَامِعَ دَعْوَۃِ مُوْسٰی وَ ھَارُوْنَ یَوْمَ عَاشُوْرَاءَ۔یَا مُغِیْثَ اِبْرَاھِیْمَ مِنَ النَّارِ یَوْمَ عَاشُوْرَاءَ۔ یَا رَافِعَ اِدْرِیْسَ اِلَی السَّمَاءِ یَوْمَ عَاشُوْرَاءَ۔ یَا مُجِیْبَ دَعْوَۃِ صَالِحَ فِی النَّاقَۃِ یَوْمَ عَاشُوْرَاءَ۔ یَا نَاصِرَ سَیِّدِنَا مُحَمَّدٍ ﷺ  یَوْمَ عَاشُوْرَاءَ۔ یَا رَحْمَانَ الدُّنْیَا وَالْاٰخِرَۃِ وَرَحِیْمَھُمَا صَلِّ عَلیٰ سَیِّدِنَا مُحَمَّدٍ وَّ عَلیٰ اٰلِ سَیِّدِنَا مُحَمَّدٍ وَّصَلِّ عَلٰی جَمِیْعِ الْاَنْبِیَاءِ وَالْمُرْسَلِیْنَ وَاقْضِ حَاجَاتِنَا فِی الدُّنْیَا وَالْاٰخِرَۃِ وَاَطِلْ عُمْرَنَا فِیْ طَاعَتِکَ وَمَحَبَّتِکَ وَرِضَاکَ وَاَحْیِنَا حَیَاۃً طَیِّبَۃً وَ تَوَفَّنَا عَلَی الْاِیْمَانِ وَالْاِسْلَامِ بِرَحْمَتِکَ یَا اَرْحَمَ الرَّاحِمِیْنَ۔ اَللّٰھُمَّ بِعِزِّ الْحَسَنِ وَ اَخِیْہِ وَاُمِّہِ وَ اَبِیْہِ وَ جَدِّہِ وَ بَنِیْہِ فَرِّجْ عَنَّا مَا نَحْنُ فِیْہِ۔ پھر سات بار یہ  پڑھیے: سُبْحَانَ اللہِ مِلْءَ الْمِیْزَانِ وَ مُنْتَھَی الْعِلْمِ وَ مَبْلَغَ الرِّضَا وَ زِنَۃَ الْعَرْشِ لَا مَلْجَءَ مِنَ اللہِ اِلَّا اِلَیْہِ۔سُبْحَانَ اللہِ عَدَدَ الشَّفْعِ وَالْوَتْرِ وَعَدَدَ کَلِمَاتِ اللہِ التَّامَّاتِ کُلِّھَا نَسْئَلُکَ السَّلَامَۃَ۔ بِرَحْمَتِکَ یَا اَرْحَمَ الرَّاحِمِیْنَ۔ وَھُوَ حَسْبُنَا وَنِعْمَ الْوَکِیْلُ۔ نِعْمَ الْمَوْلیٰ وَنِعْمَ النَّصِیْرُ ۔وَلَا حَوْلَ وَلَا قُوَّۃَ اِلَّا بِااللہِ الْعَلِیِّ الْعَظِیْمِ۔ وَصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی سَیِّدِنَا مُحَمَّدٍ وَّعَلٰی اٰلِہِ وَصَحْبِہِ وَعَلَی الْمُوءْمِنِیْنَ وَالْمُوءْمِنَاتِ وَالْمُسْلِمِیْنَ وَالْمُسْلِمَاتِ۔ عَدَدَ ذَرَّاتِ الْوُجُوْدِ۔ وَعَدَدَ مَعْلُوْمَاتِ اللہِ۔ وَالْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ۔
محرم کا کھچڑا :
عاشورا کے دن کھچڑا پکانا نہ تو فرض و  واجب ہے نہ ہی  ناجائز و حرام۔ بلکہ ایک روایت میں ہے کہ خاص عاشورا کے دن کھچڑا پکانا حضرت نوح علیہ السلام کی سنت ہے۔ طوفان سے نجات پاکر جب حضرت نوح علیہ السلام کی کشتی جودی پہاڑ پر ٹھہری تو عاشورا کا دن تھا۔ آپ نے کشتی سے تمام اناجوں کو باہر نکالا تو مٹر،  گیہوں، جو،مسور، چنا، چاول، پیازوغیرہ سات قسم کے اناج موجود تھے آپ نے انھیں ایک ہی ہانڈی میں ملا کر پکایا۔ علامہ قلیوبی لکھتے ہیں کہ مصر میں جو کھانا عاشورا کے دن ”طبیخ الحبوب” (کھچڑا) کے نام سے پکایا جاتا ہے۔ اس کی دلیل یہی ہے۔(کتاب القلیوبی، فائدۃ فی یوم عاشوراء ،ص:136)
محرم میں کیا نہیں کرنا چاہے؟
محرم میں صرف اتنا ہے کہ امام حسین اور شہداے کربلا رضی اﷲ عنہم کے رَوضوں کی تصویر یا نقشہ بناکر رکھنا اور دیکھنا تو جائز ہے، جس طرح کعبہ شریف ، مدینہ شریف  اور نعلین شریف وغیرہ کی تصویریں یا نقشے رکھنا جائز ہے۔لیکن اس کے ساتھ جو بُری رسمیں چل پڑی ہیں وہ ضرور ناجائز و حرام ہیں۔ جیسے:ہر سال ہزاروں لاکھوں روپے کے تعزیے بنا کر پانی میں ڈبو دینا یا زمین میں دفن کر دینا۔ڈھول، تاشے، ڈنکے اور  ڈی جے کے ساتھ ناچنا ۔تعزیوں کو اکھاڑے اور باجے کے ساتھ گلی گلی گھمانا۔امام باڑے بنانا۔ جھنڈے نکالنا۔ تعزیوں اور جھنڈوں کی منتیں مانگنا۔تعزیوں کو بناوٹی کربلا لے جانا۔ شراب اور  گانجا پی کر اکھاڑوں میں ناچنا اور کرتب دِکھانا۔ کھانے پینے کے سامان لٹا کر برباد کرنا۔وغیرہ وغیرہ ۔ یہ سب  ناجائز و حرام ہیں، جن سے توبہ کر کے خود بھی ان حرام کاموں سے بچنا  اور دوسروں کو بچانا ہر مسلمان پر ضروری ہے۔ اسی طرح تعزیوں کا جلوس دیکھنے کے لیے عورتوں کا بے پردہ گھروں سے نکلنا اور مردوں کی بھیڑ میں جانا یہ بھی ناجائز و گناہ ہے۔
بڑے افسوس کی بات ہے کہ آج ہم اپنے آپ کو حسینی تو ضرور کہتے ہیں لیکن طریقہ ہم نے یزیدیوں کا اپنا رکھا ہے۔ امام حسین کوشہید کرنے اور قافلہ لوٹنے کے بعد جو کام یزیدیوں نے کیا تھا وہ آج ہم کرنے لگے ہیں۔ ذرا دل پہ ہاتھ رکھ کر سوچیے کہ کل قیامت کے دن اگرامام حسین کے نانا جان نے کہا کہ میرے نواسے کو شہید کرنے اور قافلہ لوٹنے کے بعد جشن تو یزیدیوں نے منایا تھا، تم نے بھی انھی کا طریقہ اپنا لیا۔؟؟؟  جاؤ آج تمھارا بھی وہی حال ہوگا جو یزیدیوں کا ہوگا۔ تو اس وقت کیا کیجیے گا۔۔۔؟؟؟ اسی لیے آج بھی وقت ہے یزیدیوں کا طریقہ چھوڑ کر حسینی طریقہ اپنا لیجیے ورنہ محشر میں رونا پڑے گا۔
اللہ پاک اپنے محبوبِ پاک ﷺ کے وسیلے سے ہمیں اچھی باتوں پر عمل کرنے اور بُری باتوں سے بچنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین

Comments

Popular posts from this blog