Ramadan

ماہِ رمضان کی فضیلتیں ۔۔۔ حدیثوں کی روشنی میں

تحریر: محمد ناصرؔ منیری
منیری فاونڈیشن، دہلی
ای-میل: nasirmaneri92@gmail.com

ماہ رمضان اللہ تبارک و تعالیٰ کی عطا کردہ نعمتوں میں سے ایک عظیم الشان نعمت ہے، جسے اللہ تعالی نے امت محمدی ﷺ کو عطا فرما کر بہت بڑا کرم و احسان کیا ہے۔ اس مبارک و مسعود مہینے میں ہر ہر لمحہ رحمتوں اور برکتوں کا نزول ہوتا ہے۔ تین عشروں پر مشتمل یہ بابرکت مہینہ اللہ پاک کی طرف سے رحمت، محبت، ضمان، امان اور نور لے کر آتا ہے اور ہمیں روزہ، تراویح، اعتکاف، عباداتِ شبِ قدر اور تلاوتِ قرآن کے اہتمام کا پیغام دیتا ہے۔ اسی مقدس و متبرک مہینے میں پروردگار کی طرف سے امت محمدی کو سب سے عظیم تحفہ قرآنِ حکیم کی شکل میں ملا۔ اشادِ ربانی ہے:
شَہۡرُ رَمَضَانَ الَّذِیۡۤ اُنۡزِلَ فِیۡہِ الْقُرْاٰنُ
رمضان کا مہینہ جس میں قرآن اترا۔
(القرآن الحکیم، پارہ: 2، سورہ: البقرہ، آیت: 185)
رمضان رمض سے مشتق ہے جس کا معنی ہے گرمی یا گرم، چوں کہ بھٹی گندے لوہے کو صاف کرتی ہے اور صاف لوہے کو پرزہ بنا کر قیمتی کردیتی ہے اورسونے کو محبوب کے پہننے کے لائق بنا دیتی ہے اسی طرح رمضان کا روزہ بھی گناہ گاروں کے گناہ معاف کراتا ہے، نیک کار کے درجے بڑھاتا ہے اور ابرار کا قرب الٰہی زیادہ کرتا ہے اس لیے اسے رمضان کہتے ہیں،
یہ مہینہ اﷲ کی رحمت، محبت، ضمان، امان اور نورلے کر آتا ہے اس لیے بھی رمضان کہلاتا ہے۔
یہ ماہِ مبارک مذکورہ بالا پانچ نعمتیں لاتا ہے اور پانچ عبادتیں بھی: روزہ، تراویح، اعتکاف، شبِ قدر میں عبادات اور تلاوت قرآن،
اسی مہینے میں قرآن کریم اترا اور اسی مہینے کا نام قرآن شریف میں لیا گیا
اتنا ہی نہیں اس مہینے میں آسمانوں کے دروازے بھی کھول دیے جاتے ہیں، جن سے اﷲ کی خاص رحمتیں زمین پر اترتی ہیں اور جنتوں کے دروازے بھی جس کی وجہ سے جنت والے حور و غلمان کو خبر ہوجاتی ہے کہ دنیا میں رمضان آگیا اور وہ روزہ داروں کے لیے دعاؤں میں مشغول ہوجاتے ہیں
ماہ رمضان میں دوزخ کے دروازے بند ہوجاتے ہیں جس کی وجہ سے اس مہینے میں گناہ گاروں بلکہ کافروں کی قبروں پر بھی دوزخ کی گرمی نہیں پہنچتی۔
اور جو مسلمانوں میں مشہور ہے کہ رمضان میں عذابِ قبر نہیں ہوتا اس کا یہی مطلب ہے اورحقیقت میں ابلیس مع اپنی ذریتوں کے قید کردیا جاتا ہے۔
اس مہینے میں جو کوئی بھی گناہ کرتا ہے وہ اپنے نفسِ امارہ کی شرارت سے کرتا ہے نہ کہ شیطان کے بہکانے سے۔
الغرض اس ماہ مبارک کی بے شمار فضیلتیں اور اہمیتیں احادیث طیبہ میں وارد ہوئی ہیں۔ انھیں میں سے چند یہاں ذکر کی جا رہی ہیں:

عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رضی الله عنه أَنَّ رَسُولَ اﷲِ ﷺ قَالَ:
مَنْ قَامَ رَمَضَانَ إِيْمَانًا وَاحْتِسَابًا غُفِرَ لَهُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِهِ.
مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ.
’’حضرت ابوہریرہ رضی اﷲ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اﷲ ﷺ نے فرمایا:
جس نے رمضان میں بحالت ایمان ثواب کی نیت سے قیام کیا تو اس کے سابقہ تمام گناہ معاف کر دیے گئے۔‘‘
(بخاری شریف، کتاب الایمان، باب: تطوع قیام رمضان من الایمان، 1 / 22، حدیث نمبر: 37، و مسلم شریف، کتاب صلاۃ المسافرین و قصرھا، باب: الترغیب في قیام رمضان، 1 / 523، حدیث نمبر: 759)

عَنْ أبِي هُرَيْرَةَ رضی الله عنه، قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ ﷺ :
مَنْ صَامَ رَمَضَانَ إِيْمَاناً وَ احْتِسَاباً غُفِرَلَهُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِهِ. وَمَنْ قامَ رَمَضَانَ إِيْمَاناً وَإحْتِسَاباً غُفِرَلَهُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِهِ. وَمَنْ قامَ لَيْلَةَ القَدْرِ إِيْمَاناً وَ إحْتِسَاباً غُفِرَلَهُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِهِ.
مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ.
’’حضرت ابوہریرہ رضی اﷲ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:
جس شخص نے حالت ایمان میں اور ثواب کی نیت سے رمضان کے روزے رکھے تو اس کے پچھلے گناہ معاف کر دیے جاتے ہیں اور جو رمضان میں ایمان کی حالت اورثواب کی نیت سے قیام کرتا ہے اس کے (بھی) سابقہ گناہ معاف کر دیے جاتے ہیں اور جو لیلۃ القدر میں ایمان کی حالت اور ثواب کی نیت سے قیام کرے اس کے گذشتہ گناہ بخش دیے جاتے ہیں۔‘‘
(بخاری شریف، کتاب: صلاۃ التراویح، باب: فضل لیلۃ القدر، 2 / 709، حدیث نمبر: 1905، 1910، و مسلم شریف، کتاب: صلاۃ المسافرین وقصرھا، باب: الترغیب فی قیام رمضان وھو التراویح، 1 / 523، حدیث نمبر: 740)

عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَوْفٍ رضی الله عنه، عَنْ رَسُولِ اﷲِ ﷺ أَنَّهُ ذَکَرَ شَهْرَ رَمضَانَ فَفَضَّلَهُ عَلَی الشُّهُورِ، وَ قَالَ:
مَنْ قَامَ رَمَضَانَ إِيمَانًا وَاحْتِسَاباً خَرَجَ مِنْ ذُنُوبِهِ کَيَوْمِ وَلَدَتْهُ أمُّهُ.
رَوَاهُ النِّسَائِيُّ.
وَفِي رِوَايَةٍ لَهُ: قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ ﷺ :
إِنَّ اﷲَ تَبَارَکَ وَ تَعَالَی فَرَضَ صِيَامَ رَمَضَانَ عَلَيْکُمْ، وَ سَنَنْتُ لَکُمْ قِيَامَهُ، فَمَنْ صَامَهُ وَقَامَهُ إِيْمَاناً وَاحْتِسَاباً خَرَجَ مِنْ ذُنُوبِهِ کَيَوْمِ وَلَدَتْهُ أمُّهُ. رَوَاهُ النَّسَائِيُّ وَابْنُ مَاجَةَ.
’’حضرت عبد الرحمن بن عوف رضی اﷲ عنہ رسول اﷲ ﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے رمضان المبارک کا ذکر فرمایا تو سب مہینوں پر اسے فضیلت دی۔ بعد ازاں آپ ﷺ نے فرمایا:
جو شخص ایمان اور حصول ثواب کی نیت کے ساتھ رمضان کی راتوں میں قیام کرتا ہے تو وہ گناہوں سے یوں پاک صاف ہو جاتا ہے جیسے وہ اس دن تھا جب اسے اس کی ماں نے جنم دیا تھا۔‘‘
’’اور ایک روایت میں ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:
بے شک اللہ تعالیٰ نے رمضان کے روزے فرض کیے ہیں اور میں نے تمھارے لیے اس کے قیام (نماز تراویح) کو سنت قرار دیا ہے لہٰذا جو شخص ایمان اور حصول ثواب کی نیت کے ساتھ ماہ رمضان کے دنوں میں روزہ رکھتا اور راتوں میں قیام کرتا ہے وہ گناہوں سے یوں پاک صاف ہو جاتا ہے جیسے وہ اس دن تھا جب اسے اس کی ماں نے جنم دیا تھا۔‘‘
(سنن نسائی، کتاب: الصیام، باب: ذکر اختلاف یحیی بن ابی کثیر والنضر بن شیبان فیہ، 4 / 158، حدیث نمبر: 2208۔2210، و سنن ابن ماجۃ، کتاب: اقامۃ الصلاۃ و السنۃ فیھا، باب: ماجاء فی قیام شھر رمضان، 1 / 421، حدیث نمبر: 1328)

عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رضی الله عنه قَالَ: کَانَ رَسُوْلُ اﷲِ ﷺ يُرَغِّبُ فِي قِيَامِ رَمَضَانَ، مِنْ غَيْرِ أَنْ يَأْمُرَ بِعَزِيْمَةٍ، فَيَقُولُ:
مَنْ قَامَ رَمَضَانَ إِيْمَانًا وَ احْتِسَابًا، غُفِرَلَهُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِهِ. فَتُوُفِّيَ رَسُوْلُ اﷲِ ﷺ، وَالْأَمْرُ عَلَی ذَلِکَ، ثُمَّ کَانَ الْأَمْرُ عَلَی ذَلِکَ فِي خِلَافَةِ أَبِي بَکْرٍ وَ صَدْرًا مِنْ خِلَافَةِ عُمَرَ عَلَی ذَلِکَ.
مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ وَ هَذَا لَفْظُ مُسْلِمٍ.
’’حضرت ابوہریرہ رضی اﷲ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نماز تراویح پڑھنے کی رغبت دلایا کرتے تھے لیکن حکماً نہیں فرماتے تھے۔ چناں چہ فرماتے کہ جس نے رمضان المبارک میں حصول ثواب کی نیت سے اور حالتِ ایمان کے ساتھ قیام کیا تو اس کے سابقہ (تمام) گناہ بخش دیئے جاتے ہیں۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وصال مبارک تک نمازِ تراویح کی یہی صورت برقرار رہی اور خلافت ابوبکر رضی اﷲ عنہ میں اور پھر خلافت عمر فاروق رضی اﷲ عنہ کے شروع تک یہی صورت برقرار رہی۔‘‘
(بخاري شریف، کتاب: صلاۃ التروایح، باب: فضل من قام رمضان، 2 / 707، حدیث نمبر: 1905، و مسلم شریف، کتاب: صلاۃ المسافرین و قصرھا، باب: الترغیب في قیام رمضان و ھو التراویح، 1 / 523، حدیث نمبر: 759)

عَنْ مَالِکٍ رَحِمَهُ اﷲُ أَنَّهُ سَمِعَ مَنْ يَثِقُ بِهِ مِنْ أَهْلِ الْعِلْمِ يَقُولُ: إِنَّ رَسُولَ اﷲِ ﷺ أُرِيَ أَعْمَارَ النَّاسِ قَبْلَهُ أَوْ مَا شَاءَ اﷲُ مِنْ ذَلِکَ فَکَأَنَّهُ تَقَاصَرَ أَعْمَارَ أُمَّتِهِ أَنْ يَبْلُغُوا مِنَ الْعَمَلِ مِثْلَ الَّذِي بَلَغَ غَيْرُهُمْ فِي طُولِ الْعُمْرِ فَأَعْطَاهُ اﷲُ لَيْلَةَ الْقَدْرِ خَيْرٌ مِنْ أَلْفِ شهْرٍ.
رَوَاهُ مَالِکٌ وَ الْبَيْهَقِيُّ.
’’حضرت امام مالک رحمۃ اﷲ علیہ سے روایت ہے کہ انھوں نے ثقہ (یعنی قابل اعتماد) اہل علم کو یہ کہتے ہوئے سنا کہ حضور نبی اکرم ﷺ کو سابقہ امتوں کی عمریں دکھائی گئیں یا اس بارے میں جو اﷲ نے چاہا دکھایا تو آپ ﷺ نے اپنی امت کی کم عمروں کا خیال کرتے ہوئے سوچا کہ کیا میری امت اس قدر اعمال کر سکے گی جس قدر دوسری امتوں کے لوگوں نے طوالتِ عمر کے باعث کئے۔ تو اﷲ تعالیٰ نے آپ ﷺ کو شبِ قدر عطا فرما دی جو ہزار مہینوں سے بھی افضل ہے۔‘‘
(مؤطا امام مالک، کتاب: الاعتکاف، باب: ما جاء في لیلۃ القدر، 1 / 321، حدیث نمبر: 698، و شعب الایمان للبیھقی، 3 / 323، حدیث نمبر: 3667)

عَنْ عُبَادَةَ بْنِ الصَّامِتِ رضی الله عنه أَنَّهُ قَالَ: يَا رَسُوْلَ اﷲِ! أَخْبِرْنَا عَنْ لَيْلَةِ الْقَدْرِ؟ فَقَالَ رَسُوْلُ اﷲِ ﷺ:
هِيَ فِِي رَمَضَانَ الْتَمِسُوهَا فِي الْعَشْرِ الْأَوَاخِرِ فَإِنَّهَا وِتْرٌ فِي إِحْدَی وَ عِشْرِيْنَ أَوْثَ. لَاثٍ وَ عِشْرِيْنَ أَوْخَمْسٍ وَ عِشْرِيْنَ أَوْسَبْعٍ وَ عِشْرِيْنَ أَوْ تِسْعٍ وَ عِشْرِيْنَ أَوْ فِي آخِرِ لَيْلَةٍ فَمَنْ قَامَهَا إِيْمَانًا وَ احْتِسَابًا غُفِرَ لَهُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِهِ وَ مَا تَأَخَّرَ.
رَوَاهُ أَحْمَدُ وَ الطَّبَرَانِيُّ.
’’حضرت عبادہ بن صامت رضی اﷲ عنہ سے مروی ہے انھوں نے عرض کی: یا رسول اﷲ! ہمیں شبِ قدر کے بارے میں بتائیں؟ تو آپ ﷺ نے فرمایا:
یہ (رات) ماہِ رمضان کے آخری عشرے میں اکیسویں، تیئسویں، پچیسویں، ستائیسویں، انتیسویں یا رمضان کی آخری رات ہوتی ہے۔ جو بندہ اس میں ایمان و ثواب کے ارادہ سے قیام کرے اس کے اگلے پچھلے (تمام) گناہ بخش دیئے جاتے ہیں۔‘‘
(مسند احمد بن حنبل، 5 / 318، 321، 324، حدیث نمبر: 22765، 22793، 22815، و المعجم الاوسط للطبرانی، 2 / 71، حدیث نمبر: 1284)

عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رضی الله عنه أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ صَعِدَ المِنْبَرَ فَقَالَ: آمِيْنَ. آمِيْنَ. آمِيْنَ. قِيلَ يَا رَسُولَ اﷲِ، إِنَّکَ حِيْنَ صَعِدْتَ الْمِنْبَرَ قُلْتَ: آمِيْنَ. آمِيْنَ. آمِيْنَ؟ قَالَ:
إِنَّ جِبْرِيْلَ عليه السلام أَتَانِي، فَقَالَ: مَنْ أَدْرَکَ شَهْرَ رَمَضَانَ وَ لَمْ يُغْفَرْ لَهُ، فَدَخَلَ النَّارَ، فَأَبْعَدَهُ اﷲُ. قُلْ: آمِيْنَ. فَقُلْتُ: آمِيْنَ. وَ مَنْ أَدْرَکَ أَبَوَيْهِ أَوْ أَحَدَهُمَا فَلَمْ يَبَرَّهُمَا فَمَاتَ فَدَخَلَ النَّارَ فَأَبْعَدَهُ اﷲُ. قُلْ آمِيْنَ. فَقُلْتُ: آمِيْنَ. وَ مَنْ ذُکِرْتَ عِنْدَهُ فَلَمْ يُصَلِّ عَلَيْکَ فَمَاتَ فَدَخَلَ النَّارَ فَأَبْعَدَهُ اﷲُ. قُلْ: آمِيْنَ. فَقُلْتُ: آمِيْنَ.
رَوَاهُ ابْنُ خُزَيْمَةَ وَ ابْنُ حِبَّانَ وَ اللَّفْظُ لَهُ.
’’حضرت ابوہریرہ رضی اﷲ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ منبر پر تشریف فرما ہوئے تو تین بار آمین، آمین، آمین فرمایا۔ عرض کی گئی: یا رسول اﷲ! آپ منبر پر جلوہ افروز ہوئے تو آپ نے آمین، آمین، آمین فرمایا (اس کی کیا وجہ ہے؟)۔ آپ ﷺ نے فرمایا:
جبرائیل علیہ السلام میرے پاس حاضر ہوئے اور کہنے لگے: جس شخص نے ماہِ رمضان پایا اور اس کی مغفرت نہ ہوسکی تو وہ آگ میں گیا، اسے اﷲ تعالیٰ اپنی رحمت سے دور کر دے۔ (اے حبیبِ خدا!) آپ آمین کہیں۔ اس پر میں نے آمین کہا۔ اور جس شخص نے ماں باپ دونوں کو پایا یا ان میں سے کسی ایک کو پایا اور ان کے ساتھ نیکی نہ کی اور مر گیا تو وہ آگ میں گیا۔ اﷲ تعالیٰ اسے اپنی رحمت سے دور کر دے: (اے حبیبِ خدا!) آپ آمین کہیں۔ تو میں نے آمین کہا۔ اور وہ شخص جس کے پاس آپ کا ذکر کیا گیا اور اس نے آپ پر درود نہ پڑھا اور اسی حالت میں مر گیا تو وہ بھی آگ میں گیا۔ اﷲ تعالیٰ اسے اپنی رحمت سے دور کر دے (اے حبیب خدا!) آپ آمین کہیں تو میں نے آمین کہا۔‘‘
(صحیح ابن خزیمۃ، 3 / 192، حدیث نمبر: 1888، و صحیح ابن حبان، 3 / 188)

عَنْ عَائِشَةَ رضي اﷲ عنها زَوجِ النَّبِيِّ ﷺ، أَنَّهَا قَالَتْ: کَانَ رَسُوْلُ اﷲِ ﷺ إِذَا دَخَلَ شَهْرُ رَمَضَانَ شَدَّ مِئْزَرَهُ ثُمَّ لَمْ يَأْتِ فِرَاشَهُ حَتَّی يَنْسَلِخَ.
رَوَاهُ ابْنُ خُزَيْمَةَ وَ أَحْمَدُ وَ الْبَيْهَقِيُّ.
’’حضرت عائشہ رضی اﷲ عنھا سے مروی ہے انھوں نے فرمایا:
جب ماہِ رمضان شروع ہو جاتا تو حضور نبی اکرم ﷺ اپنا کمر بند کس لیتے پھر آپ ﷺ اپنے بستر پر تشریف نہیں لاتے تھے یہاں تک کہ رمضان گذر جاتا۔‘‘
(صحیح ابن خزیمۃ، 3 / 342، حدیث نمبر: 2216، و مسند احمد بن حنبل، 6 / 66، حدیث نمبر: 24422، و شعب الایمان للبیھقی، 3 / 310، حدیث نمبر: 3624)

عَنْ عَائِشَةَ رضي اﷲ عنها قَالَتْ: کَانَ رَسُوْلُ اﷲِ ﷺ إِذَا دَخَلَ رَمَضَانَ تَغَيَّرَ لَونُهُ وَ کَثُرَتْ صَلَاتُهُ وَابْتَهَلَّ فِي الدُّعَاءِ وَ أَشْفَقَ مِنْهُ.
رَوَاهُ الْبَيْهَقِيُّ.
’’حضرت عائشہ رضی اﷲ عنھا سے مروی ہے انھوں نے فرمایا کہ جب ماہِ رمضان شروع ہوتا تو آپ ﷺ کا رنگ مبارک متغیر ہو جاتا اور آپ ﷺ نمازوں کی (مزید) کثرت کر دیتے اور اﷲ تعالیٰ سے عاجزی و گڑگڑا کر دعا کرتے اس ماہ میں نہایت محتاط رہتے۔‘‘
(شعب الایمان للبیہقی، 3 / 310، حدیث نمبر: 3625، والجامع الصغیر للسیوطی، 1 / 143، حدیث نمبر: 212)
10۔
عَنْ عَبْدِ اﷲِ بْنِ عَبَّاسٍ رضي اﷲ عنهما عَنِ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ:
إِنَّ فِي رَمَضَانَ يُنَادِي مُنَادٍ بَعْدَ ثُلُثِ اللَّيْلِ الْأَوَّلِ أَوْ ثُلُثِ اللَّيْلِ الْآخِرِ: أَلَا سَائِلٌ يَسْأَلُ فَيُعْطَيُ، أَلَا مُسْتَغْفِرٌ يَسْتَغْفِرُ فَيُغْفَرُ لَهُ، أَلَا تَائِبٌ يَتُوبُ فَيَتُوبُ اﷲُ عَلَيْهِ.
رَوَاهُ الْبَيْهَقِيُّ.
’’حضرت عبد اﷲ بن عباس رضی اﷲ عنھما نے حضور نبی ﷺ سے روایت بیان کی کہ آپ ﷺ نے فرمایا: بے شک رمضان المبارک میں رات کے پہلے تیسرے پہر کے بعد یا آخری تیسرے پہر کے بعد ایک ندا کرنے والا ندا کرتا ہے:
ہے کوئی سوال کرنے والا کہ وہ سوال کرے تو اسے عطا کیا جائے؟
کیا ہے کوئی مغفرت کا طلب گار کہ وہ مغفرت طلب کرے تو اسے بخش دیا جائے؟
کیا ہے کوئی توبہ کرنے والا کہ وہ توبہ کرے تو اﷲ تعالیٰ اس کی توبہ قبول کرے؟‘‘
(شعب الایمان للبیھقی، 3 / 311، حدیث نمبر: 3628)
11۔
عَنْ عُبَادَةَ بْنِ الصَّامِتِ رضی الله عنه أَنَّ رَسُولَ اﷲِ ﷺ قَالَ يَوْمًا وَ حَضَرَ رَمَضَانُ:
أَتَاکُمْ رَمَضَانُ شَهْرُ بَرَکَةٍ يَغْشَاکُمُ اﷲُ فِيْهِ فَيُنْزِلُ الرَّحْمَةَ، وَ يَحُطُّ الْخَطَايَا، وَ يَسْتَجِيْبُ فِيْهِ الدُّعَاءَ، يَنْظُرُ اﷲُ تَعَالَی إِلَی تَنَافُسِکُمْ فِيْهِ، وَ يُبَاهِي بِکُمْ مَلَائِکَتَهُ فَأَرُوا اﷲَ مِنْ أَنْفُسِکُمْ خَيْرًا، فَإِنَّ الشَّقِيَّ مَنْ حُرِمَ فِيْهِ رَحْمَةَ اﷲِ عزوجل.
رَوَاهُ الطَّبَرَانِيُّ وَ رَوَاتُهُ ثِقَاتٌ کَمَا قَالَ الْمُنْذَرِيُّ وَالْهَيْثَمِيُّ.
’’حضرت عبادہ بن صامت رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے ایک دن فرمایا جب کہ رمضان المبارک شروع ہو چکا تھا:
تمھارے پاس برکتوں والا مہینہ آگیا ہے اس میں اﷲ تعالیٰ تمھیں اپنی رحمت سے ڈھانپ لیتا ہے۔ رحمت نازل فرماتا ہے، گناہوں کو مٹاتا ہے اور دعائیں قبول فرماتا ہے۔ اس مہینے میں اﷲ تعالیٰ تمھارے دلوں پر نظر فرماتا ہے اور تمھاری وجہ سے اپنے فرشتوں کے سامنے فخر فرماتا ہے۔ لہٰذا تم اپنے قلب و باطن سے اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں نیکی حاضر کرو کیوں کہ بد بخت ہے وہ شخص جو اس ماہ میں بھی اﷲ تعالیٰ کی رحمت سے محروم رہا۔‘‘
(اخرجہ المنذري في الترغیب و الترھیب، 2 / 60، الرقم: 1490، و قال: رواہ الطبراني و رواتہ ثقات، و الہیثمي في مجمع الزوائد، 3 / 142، وقال: رواہ الطبراني في الکبیر۔)
12۔
عَنْ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ رضی الله عنه قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ ﷺ :
ذَاکِرُ اﷲِ فِي رَمَضَانَ مَغْفُورٌ لَهُ، وَسَائِلُ اﷲِ فِيْهِ لَا يَخِيْبُ.
رَوَاهُ الطَّبَرَانِيُّ وَ الْبَيْهَقِيُّ.
’’حضرت عمر بن خطاب رضی اﷲ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:
ماہِ رمضان میں اﷲ کا ذکر کرنے والا بخش دیا جاتا ہے اور اس ماہ میں ﷲ تعالیٰ سے مانگنے والے کو نامراد نہیں کیا جاتا۔‘‘
(المعجم الاوسط للطبرانی، 6 / 195، حدیث نمبر: 6170، وشعب الایمان للبیھقی، 3 / 311، حدیث نمبر: 3627)
اخیر میں بارگاہ پروردگار میں دست بہ دعا ہوں کہ مولاے پاک اپنے محبوب پاک صاحب لولاک ﷺ کے طفیل ہم سب کو اس ماہِ مبارک کی قدر کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ اس میں خوب خوب عبادت و ریاضت کی توفیق بخشے۔ اور خصوصاً ہم خادمانِ امت کو زیادہ سے زیادہ خدمات دینیہ و علمیہ کی توفیق خیر مرحمت فرمائے۔
(آمین۔ بجاہ النبی الکریم علیہ اکرم الصلاۃ و افضل التسلیم)

زکات کی فضیلت و اہمیت ۔۔۔ قرآن و حدیث کی روشنی میں


تحریر: محمد ناصرؔ منیری
منیری فاونڈیشن، دہلی
ای-میل: nasirmaneri92@gmail.com

زکات اسلام کا بنیادی رکن ہے۔ رسولِ پاک ﷺ کا فرمانِ پاک ہے :
”اسلام کی بنیاد پانچ باتوں پر ہے، اس بات کی گواہی دینا کہ اللہ پاک کے سوا کوئی معبود نہیں اور محمد (ﷺ) اس کے رسول ہیں، نماز قائم کرنا، زکات ادا کرنا، حج کرنا اوررمضان کے روزے رکھنا۔”
(بخاری شریف، کتاب الایمان ،باب دعا ء کم ایمانکم ،حدیث نمبر۸،ج۱،ص۱۴)
زکات کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ قرآنِ حکیم میں نماز اور زکات کا ایک ساتھ 32 مرتبہ ذکر آیا ہے۔
(ردالمحتار،کتاب الزکاۃ، ج۳، ص۲۰۲)
علاوہ ازیں زکات دینے والا خوش نصیب دنیوی واُخری سعادتوں کو اپنے دامن میں سمیٹ لیتا ہے۔ زکات کی فرضیت قرآن و حدیث سے ثابت ہے۔ اللہ پاک قرآنِ حکیم میں ارشاد فرماتا ہے :
وَاَقِیۡمُوا الصَّلٰوۃَ وَاٰتُوا الزَّکٰوۃَ
اور نماز قائم رکھو اور زکات دو۔
(پ ۱،البقرۃ:۴۳)
اس آیت میں نمازو زکات کی فرضیت کا بیان ہے ۔
خُذْ مِنْ اَمْوَالِہِمْ صَدَقَۃً تُطَہِّرُہُمْ وَتُزَکِّیۡہِمۡ بِہَا
اے محبوب! ان کے مال میں سے زکات کی تحصیل کرو جس سے تم انھیں ستھرا اور پاکیزہ کردو۔
(پ۱۱، التوبۃ:۱۰۳)
اس آیت میں جو صدَقہ وارِد ہوا ہے اس کے معنٰی میں مفسِّرین کے کئی قول ہیں۔
ایک تو یہ کہ
وہ صدَقہ غیر واجِبہ تھا جو بطورِ کَفّارہ کے اِن صاحبوں نے دیا تھا جن کا ذکر اُوپر کی آیت میں ہے۔
دوسرا قول یہ ہے کہ
اس صدَقہ سے مراد وہ زکات ہے جو ان کے ذمّہ واجب تھی، وہ تائب ہوئے اور انہوں نے زکات ادا کرنی چاہی تو اللہ پاک نے اس کے لینے کا حکم دیا ۔ امام ابوبکر رازی جصاص رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے اس قول کو ترجیح دی ہے کہ صدَقہ سے زکات مراد ہے ۔
(خازن و احکام القرآن بحوالہ خزائن العرفان)
زکات 2 ہجری میں روزوں سے قبل فرض ہوئی ۔
(الدرالمختار،کتاب الزکات،ج۳،ص۲۰۲)
زکات کا فرض ہونا قرآن سے ثابت ہے ،اس کا اِنکار کرنے والا کافر ہے ۔
(الفتاویٰ الھندیۃ،کتاب الزکات ،الباب الاول،ج۱،ص۷۰ ۱)
احادیثِ فرضیت زکات
فرضیتِ زکات پر بے شمار حدیثیں آئیں ہیں، جن میں سے چند یہاں ذکر کی جا رہی ہیں :
(1) حضرت عبد اللہ ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روا یت ہے کہ رسول پاک ﷺ نے فرمایا :
”مجھے اللہ پاک نے اس پر مامور کیا ہے کہ مَیں لوگوں سے اس وقت تک جہاد کروں جب تک وہ یہ گواہی نہ دیں کہ اللہ کے سوا کو ئی سچا معبود نہیں اور محمد (ﷺ )خدا کے سچے رسول ہیں، ٹھیک طرح نماز ادا کریں، زکات دیں، پس اگر ایسا کر لیں تو مجھ سے ان کے مال اور جا نیں محفوظ ہو جائیں گے سواے اس سزا کے جو اِسلام نے (کسی حد کے سلسلہ میں)ان پر لازم کر دی ہو ۔”
(صحیح البخاری،کتاب الایمان،باب فان تابواواقامواالصلوۃ،حدیث نمبر ۲۵،ج۱،ص۲۰)
(2) نبی پاک ﷺ نے حضرت معاذ رضی اللہ عنہ کو جب یمن کی طر ف بھیجا تو فرمایا:
ان کو بتاؤ کہ اللہ پاک نے ان کے مالوں میں زکات فرض کی ہے مال داروں سے لے کر فقرا کو دی جائے ۔”
(سنن الترمذی، کتاب الزکاۃ ،باب ما جاء فی کراھیۃ اخذ خیار المال فی الصدقۃ ،حدیث نمبر۶۲۵،ج۲،ص۱۲۶)
(3) حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ فرما تے ہیں:
جب رسول پاک ﷺ کا وصالِ ظاہری ہو گیا اور حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ خلیفہ بنے اور کچھ قبا ئل عرب مرتد ہو گئے (کہ زکات کی فرضیت سے انکار کر بیٹھے) تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: آپ لوگوں سے کیسے معاملہ کریں گے جب کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا : ”مَیں لو گوں سے جہاد کرنے پر ما مور ہوں جب تک وہ لَا اِلٰہَ اِلَّا اللہ نہ پڑھیں ۔ جس نے لَا اِلٰہَ اِلَّا اللہ کا اقرار کر لیا اس نے اپنی جان اور اپنا مال مجھ سے محفوظ کر لیا مگر یہ کہ کسی کا حق بنتا ہو اور وہ اللہ پاک کے ذمے ہے۔” (یعنی یہ لوگ تو لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللہُ کہنے والے ہیں، ان پر کیسے جہاد کیا جائے گا)
حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے کہا: ”اللہ کی قسم! مَیں اس شخص سے جہاد کروں گا جو نماز اور زکات میں فرق کرے گا (کہ نماز کو فرض مانے اور زکاۃ کی فرضیت سے انکار کرے) اور زکات مال کا حق ہے بخدا اگر انھوں نے (واجب الاداء) ایک رسی بھی روکی جو وہ رسول اللہ ﷺ کے دور میں دیا کرتے تھے تو مَیں ان سے جنگ کروں گا۔” حضرت عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں :”واﷲ! میں نے دیکھا کہ اﷲ پاک نے صدیق کا سینہ کھول دیا ہے۔ اُس وقت میں نے بھی پہچان لیا کہ وہی حق ہے ۔”
(صحیح البخاری ،کتاب الزکاۃ،باب وجوب الزکوۃ،حدیث نمبر ۱۳۹۹،۱۴۰۰،ج۱،ص۴۷۲،۴۷۳)
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ صرف کلمہ گوئی اِسلام کے لیے کافی نہیں، جب تک تمام ضروریاتِ دِین کا اِقرار نہ کرے اورامیر المومنین فاروق اعظم رضی اللہ عنہ کا بحث کرنا اس وجہ سے تھا کہ ان کے علم میں پہلے یہ بات نہ تھی، کہ وہ فرضیت کے منکر ہیں یہ خیال تھا کہ زکات دیتے نہیں اس کی وجہ سے گنہگار ہوئے، کا فر تو نہ ہوئے کہ ان پر جہاد قائم کیا جائے، مگر جب معلوم ہوگیا تو فرماتے ہیں میں نے پہچان لیا کہ وہی حق ہے، جو حضرت صدیق رضی اللہ عنہ نے سمجھا اور کیا۔ ”
(بہارِ شریعت ،ج۱،حصہ ۵،ص ۸۷۰)
زکات ادا کرنے کے فضائل وفوائد
زکات ادا کرنے کی بے شمار فضیلتیں اور بے انتہا فائدے ہیں ذیل میں چند فضائل و فوائد ملاحظہ کریں:
(1)تکمیل ایمان کا ذریعہ
زکات دینا تکمیل ِ ایمان کا ذریعہ ہے جیسا کہ رسول پاک ﷺ نے ارشاد فرمایا:
” تمہارے اسلام کا پورا ہونا یہ ہے کہ تم اپنے مالوں کی زکات ادا کرو۔”
(الترغیب والترھیب ،کتاب الصدقات ،باب الترغیب فی اداءِ الزکوٰۃ،حدیث نمبر۱۲، ج۱، ص۳۰۱ )
ایک مقام پر ارشاد فرمایا:
”جو اللہ اور اس کے رسول پر ایمان رکھتا ہو اسے لازم ہے کہ اپنے مال کی زکات ادا کرے ۔”
(المعجم الکبیر ،حدیث نمبر ۱۳۵۶۱،ج۱۲،ص۳۲۴)
(2)رحمتِ الہٰی کی برسات
زکات دینے والے پر رحمتِ الہٰی کی برسات ہوتی ہے۔ سورۃُ الاعراف میں ہے :
وَ رَحْمَتِیۡ وَسِعَتْ کُلَّ شَیۡءٍ ؕ فَسَاَکْتُبُہَا لِلَّذِیۡنَ یَتَّقُوۡنَ وَ یُؤْتُوۡنَ الزَّکٰوۃَ
اور میری رحمت ہر چیز کو گھیرے ہے تو عنقریب میں نعمتوں کو ان کے لئے لکھ دوں گا جو ڈرتے اور زکات دیتے ہیں ۔
(پ۹،الاعراف۱۵۶)
(3)تقویٰ وپرہیزگاری کا حصول
زکات دینے سے تقویٰ حاصل ہوتا ہے ۔قرآنِ پاک میں مُتَّقِیْن کی علامات میں سے ایک علامت یہ بھی بیان کی گئی ہے چناں چہ ارشاد ہوتا ہے :
وَمِمَّا رَزَقْنٰہُمۡ یُنۡفِقُوۡنَ
اورہماری دی ہوئی روزی ميں سے ہماری راہ ميں اٹھائيں۔
(پ۱،البقرۃ:۳)
(4)کام یابی کا راستہ
زکات دینے والا کام یاب لوگوں کی فہرست میں شامل ہوجاتا ہے۔ جیسا کہ قرآن پاک میں فلاح کو پہنچنے والوں کا ایک کام زکات بھی گنوایا گیا ہے چناں چہ ارشاد ہوتا ہے :
قَدْ اَفْلَحَ الْمُؤْمِنُوۡنَ ۙ﴿۱﴾الَّذِیۡنَ ہُمْ فِیۡ صَلَاتِہِمْ خَاشِعُوۡنَ ۙ﴿۲﴾وَالَّذِیۡنَ ہُمْ عَنِ اللَّغْوِ مُعْرِضُوۡنَ ﴿ۙ۳﴾وَالَّذِیۡنَ ہُمْ لِلزَّکٰوۃِ فٰعِلُوۡنَ ۙ﴿۴﴾
بے شک مراد کو پہنچے ایمان والے جو اپنی نماز میں گڑگڑاتے ہیں اور وہ جو کسی بیہودہ بات کی طرف التفات نہیں کرتے اور وہ کہ زکات دینے کا کام کرتے ہیں۔
(پ ۱۸،المؤمنون ۱تا۴)
(5)نصرتِ الہٰی کا مستحق
اللہ تعالیٰ زکات ادا کرنے والے کی مدد فرماتا ہے۔ چناں چہ ارشاد ہوتا ہے :
وَ لَیَنۡصُرَنَّ اللہُ مَنۡ یَّنۡصُرُہٗ ؕ اِنَّ اللہَ لَقَوِیٌّ عَزِیۡزٌ ﴿۴۰﴾اَلَّذِیۡنَ اِنۡ مَّکَّنّٰہُمْ فِی الْاَرْضِ اَقَامُوا الصَّلٰوۃَ وَ اٰتَوُا الزَّکٰوۃَ وَ اَمَرُوۡا بِالْمَعْرُوۡفِ وَ نَہَوْا عَنِ الْمُنۡکَرِ ؕ وَ لِلہِ عَاقِبَۃُ الْاُمُوۡرِ ﴿۴۱﴾
اور بے شک اللہ ضرور مدد فرمائے گا اس کی جو اس کے دین کی مدد کرے گا بے شک ضرور اللہ قدرت والا غالب ہے، وہ لوگ کہ اگر ہم انہیں زمین میں قابو دیں تو نماز برپا رکھیں اور زکات دیں اور بھلائی کا حکم کریں اور برائی سے روکیں اور اللہ ہی کے لئے سب کاموں کا انجام۔
(پ ۱۷،الحج:۴۰،۴۱)
(6)اچھے لوگوں میں شمارہونے والا
زکوۃادا کرنا اللہ کے گھروں یعنی مساجد کو آباد کرنے والوں کی صفات میں سے ہے چناں چہ ارشاد پاک ہے :
اِنَّمَا یَعْمُرُ مَسٰجِدَ اللہِ مَنْ اٰمَنَ بِاللہِ وَالْیَوْمِ الۡاٰخِرِ وَاَقَامَ الصَّلٰوۃَ وَاٰتَی الزَّکٰوۃَ وَلَمْ یَخْشَ اِلَّا اللہَ ۟ فَعَسٰۤی اُولٰٓئِکَ اَنۡ یَّکُوۡنُوۡا مِنَ الْمُہۡتَدِیۡنَ ﴿۱۸﴾
اللہ کی مسجدیں وہی آباد کرتے ہیں جو اللہ اور قیامت پر ایمان لاتے اور نماز قائم کرتے ہیں اور زکات دیتے ہیں اور اللہ کے سوا کسی سے نہیں ڈرتے تو قریب ہے کہ یہ لوگ ہدایت والوں میں ہوں۔
(پ۱۰،التوبۃ: ۱۸)
(7)غربا کے دل میں خوشی داخل کرنے کا ثواب
زکات کی ادائیگی سے غریب لوگوں کی ضرورت پوری ہوجاتی ہے اور ان کے دل میں خوشی داخل ہوتی ہے ۔
(8) بھائی چارے کا بہترین اظہار
زکات دینے کا عمل اخوتِ اسلامی کی بہترین تعبیر ہے کہ ایک غنی مسلمان اپنے غریب مسلمان بھائی کو زکات دے کر معاشرے میں سر اٹھا کر جینے کا حوصلہ مہیا کرتا ہے۔ نیز غریب مسلمان بھائی کا دل کینہ وحسد کی شکارگاہ بننے سے محفوظ رہتا ہے کیوں کہ وہ جانتا ہے کہ اس کے غنی اسلامی بھائی کے مال میں اس کا بھی حق ہے چناں چہ وہ اپنے بھائی کے جان، مال اور اولاد میں برکت کے لیے دعاگو رہتا ہے، نبی ﷺ نے فرمایا:
”بیشک مؤمن کیلئے مؤمن مثل عمارت کے ہے، بعض بعض کو تقویت پہنچاتا ہے۔”
(صَحِیْحُ الْبُخَارِیْ،کتاب الصلوۃ،باب تشبیک الاصابع…الخ،حدیث نمبر۴۸۱،ج۱،ص۱۸۱)
(9)فرمان ِ مصطفی ﷺ کا مصداق
زکات مسلمانوں کے درمیان بھائی چارہ مضبوط بنانے میں بہت اہم کردار ادا کرتی ہے جس سے اسلامی معاشرے میں اجتماعیت کو فروغ ملتا ہے اور امدادِ باہمی کی بنیاد پر مسلمان اپنے پیارے آقا مدینے والے مصطفی ﷺ کے اس فرمانِ عظیم کا مصداق بن جاتے ہیں: مسلمانوں کی آپس میں دوستی اوررحمت اور شفقت کی مثال جسم کی طرح ہے، جب جسم کا کوئی عضو بیمار ہو تا ہے تو بخار اور بے خوابی میں سارا جسم اس کا شریک ہو تا ہے۔
(صحیح مسلم ،کتاب البر والصلۃ والآداب،باب تراحم المؤمنین ..الخ،حدیث نمبر۲۵۸۶،ص۱۳۹۶)
(10)مال کا پاک ہونا
زکات دینے سے مال پاک ہوجاتا ہے جیسا کہ حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول پاک ﷺ نے فرمایا:
”اپنے مال کی زکات نکال کہ وہ پاک کرنے والی ہے، تجھے پاک کردے گی ۔”
(المسندللامام احمد بن حنبل،مسند انس بن مالک ،حدیث نمبر ۱۲۳۹۷،ج۴،ص۲۷۴)
(۱۱)بُری صفات سے چھٹکارا
زکات دینے سے لالچ وبخل جیسی بُری صفات سے (اگر دل میں ہوں تو)چھٹکارا پانے میں مدد ملتی ہے اور سخاوت وبخشش کا محبوب وصف مل جاتا ہے ۔
(12)مال میں برکت
زکات دینے والے کا مال کم نہیں ہوتا بلکہ دنیا وآخرت میں بڑھتا ہے ۔ اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے :
وَ مَاۤ اَنۡفَقْتُمۡ مِّنۡ شَیۡءٍ فَہُوَ یُخْلِفُہٗ ۚ وَ ہُوَ خَیۡرُ الرّٰزِقِیۡنَ ﴿۳۹﴾
اور جو چیز تم اللہ کی راہ میں خرچ کرو وہ اس کے بدلے اور دے گا اور وہ سب سے بہتر رزق دینے والا۔”
(پ۲۲،سبا:۳۹ )
ایک مقام پر ارشاد ہوتا ہے :
مَثَلُ الَّذِیۡنَ یُنۡفِقُوۡنَ اَمْوَالَہُمْ فِیۡ سَبِیۡلِ اللہِ کَمَثَلِ حَبَّۃٍ اَنۡۢبَتَتْ سَبْعَ سَنَابِلَ فِیۡ کُلِّ سُنۡۢبُلَۃٍ مِّائَۃُ حَبَّۃٍ ؕ وَاللہُ یُضٰعِفُ لِمَنۡ یَّشَآءُ ؕ وَاللہُ وَاسِعٌ عَلِیۡمٌ ﴿۲۶۱﴾اَلَّذِیۡنَ یُنۡفِقُوۡنَ اَمْوَالَہُمْ فِیۡ سَبِیۡلِ اللہِ ثُمَّ لَا یُتْبِعُوۡنَ مَاۤ اَنۡفَقُوۡا مَنًّا وَّلَاۤ اَذًی ۙ لَّہُمْ اَجْرُہُمْ عِنۡدَ رَبِّہِمْ ۚ وَلَا خَوْفٌ عَلَیۡہِمْ وَلَا ہُمْ یَحْزَنُوۡنَ ﴿۲۶۲﴾
ان کی کہاوت جو اپنے مال اللہ کی راہ میں خرچ کرتے ہیں اس دانہ کی طرح جس نے اگائیں سات بالیں، ہربال میں سو دانے اور اللہ اس سے بھی زیادہ بڑھائے جس کے لیے چاہے اور اللہ وسعت والا علم والا ہے، وہ جو اپنے مال اللہ کی راہ میں خرچ کرتے ہیں، پھر دیے پیچھے نہ احسان رکھیں نہ تکلیف دیں ان کا نیگ (انعام) ان کے رب کے پاس ہے اور انہیں نہ کچھ اندیشہ ہو نہ کچھ غم۔
(پ۳،البقرۃ:۲۶۱،۲۶۲)
پس زکات دینے والے کو یہ یقین رکھتے ہوئے خوش دلی سے زکات دینی چاہیے کہ اللہ پاک اس کو بہتر بدلہ عطا فرمائے گا ۔ رسول پاک ﷺ کا فرمان ہے:
”صدقہ سے مال کم نہیں ہوتا ۔”
(المعجم الاوسط ،حدیث نمبر ۲۲۷۰،ج۱،ص۶۱۹)
اگرچہ ظاہری طور پر مال کم ہوتا لیکن حقیقت میں بڑھ رہا ہوتا ہے جیسے درخت سے خراب ہونے والی شاخوں کو اُتارنے میں بظاہر درخت میں کمی نظر آرہی ہے لیکن یہ اُتارنا اس کی نشوونما کا سبب ہے۔
زکات دینے والے کی زکات ہر سال بڑھتی ہی رَہتی ہے۔ یہ تجرِبہ ہے۔ جو کسان کھیت میں بیج پھینک آتا ہے وہ بظاہِر بوریاں خالی کر لیتا ہے لیکن حقیقت میں مع اضافہ کے بھر لیتا ہے۔ گھر کی بوریاں چوہے، سُرسُری وغیرہ کی آفات سے ہلاک ہو جاتی ہیں یا یہ مطلب ہے کہ جس مال میں سے صَدَقہ نکلتا رہے اُس میں سے خرچ کرتے رہو، اِن شاءَ اللہ بڑھتا ہی رہے گا، کُنویں کا پانی بھرے جاؤ، تو بڑھے ہی جائے گا۔
(مرأۃ المناجیح شرح مشکوٰۃ المصابیح ج ۳ ص ۹۳)
(13) شر سے حفاظت
زکات دینے والا شر سے محفوظ ہوجاتا ہے جیسا کہ رسول پاک ﷺ کا فرمان ہے:
”جس نے اپنے مال کی زکات ادا کردی بے شک اللہ پاک نے اس سے شر کو دور کردیا۔”
(المعجم الاوسط،باب الالف من اسمہ احمد،حدیث نمبر،۱۵۷۹،ج۱،ص۴۳۱)
(14)حفاظتِ مال کا سبب
زکات دینا حفاظتِ مال کا سبب ہے جیسا کہ نبی پاک ﷺ نے فرمایا:’
‘اپنے مالوں کو زکات دے کر مضبوط قلعوں میں کر لو اور اپنے بیماروں کا علاج خیرات سے کرو۔”
(مراسیل ابی داؤد مع سن ابی داؤد ،باب فی الصائم یصیب اھلہ،ص۸ )
(15)حاجت روائی
اللہ پاک زکات دینے والوں کی حاجت روائی فرمائے گا جیسا کہ حضور پاک ﷺ نے فرمایا :
”جو کسی بندے کی حاجت روائی کرے اللہ پاک دین و دنیا میں اس کی حاجت روائی کرے گا۔”
(صحیح مسلم ،کتاب الذکر والدعائ،باب فضل الاجتماع….الخ، حدیث نمبر۲۶۹۹، ص۱۴۴۷)
ایک اور مقام پر ارشاد فرمایا:
”جو کسی مسلمان کودنیاوی تکلیف سے رہائی دے تو اللہ پاک اس سے قیامت کے دن کی مصیبت دور فرمائے گا ۔”
(جامع الترمذی ،کتاب الحدود،باب ماجاء فی السترعلی المسلم،حدیث نمبر، ج۳، ص۱۱۵)
(16)دُعاؤں کی حصول یابی
غریبوں کی دعائیں ملتی ہیں جس سے رحمتِ خداوندی اور مدد الہٰی حاصل ہوتی ہے جیسا کہ رسول پاک ﷺ نے ارشاد فرمایا:
”تمھیں اللہ پاک کی مدد اور رزق ضعیفوں کی برکت اور ان کی دعاؤں کے سبب پہنچتا ہے ۔”
(صحیح البخاری،کتاب الجہاد،باب عن استعان بالضعفاء،…الخ، حدیث نمبر،۲۸۹۶، ج۲،ص۲۸۰)
زکات نہ د ینے کے نقصانات
زکات کی عدم ادائیگی کے متعدد نقصانات ہیں جن میں چند یہ ہیں :
(1) ان فوائد سے محرومی جو اسے ادائیگیِ زکات کی صورت میں مل سکتے تھے ۔
(2) بخل یعنی کنجوسی جیسی بُری صفت سے(اگر کوئی اس میں گرفتار ہوتو)چھٹکارا نہیں مل پائے گا۔ رسول پاک ﷺ کا فرمانِ پاک ہے :
”سخاوت جنت میں ایک درخت ہے جو سخی ہوا اس نے اس درخت کی شاخ پکڑ لی ،وہ شاخ اسے نہ چھوڑے گی یہاں تک کہ اسے جنت میں داخل کر دے اور بخل آگ میں ایک درخت ہے ،جو بخیل ہوا ،اس نے اس کی شاخ پکڑی ،وہ اسے نہ چھوڑے گی ،یہاں تک کہ آگ میں داخل کر ے گی ۔”
(شعب الایمان ،باب فی الجود ِوالسخاء،حدیث نمبر،۱۰۸۷۷،ج۷،ص۴۳۵)
(3)مال کی بربادی کا سبب ہے جیسا کہ رسول پاک ﷺ فرماتے ہیں:
”خشکی وتری میں جو مال ضائع ہوا ہے وہ زکات نہ دینے کی وجہ سے تلف ہوا ہے ۔”
(مجمع الزوائد،کتاب الزکوٰۃ،باب فرض الزکوٰۃ،حدیث نمبر۴۳۳۵،ج۳،ص۲۰۰)
ایک مقام پر ارشاد فرمایا:
”زکات کا مال جس میں ملا ہوگا اسے تباہ وبرباد کردے گا ۔”
(شعب الایمان،باب فی الزکوٰۃ،فصل فی الاستعفاف،حدیث نمبر۳۵۲۲،ج۳،ص۲۷۳)
بعض ائمہ نے اس حدیث کے یہ معنی بیان کیے کہ
زکاۃ واجب ہوئی اور ادا نہ کی اور اپنے مال میں ملائے رہا تو یہ حرام اُس حلال کو ہلاک کر دے گا اور امام احمد رحمہ اللہ نے فرمایا کہ معنی یہ ہیں کہ مال دار شخص مالِ زکاۃ لے تویہ مالِ زکاۃ اس کے مال کو ہلاک کر دے گا کہ زکات تو فقیروں کے لیے ہے اور دونوں معنی صحیح ہیں۔ (بہارشریعت،ج۱،حصہ ۵،ص۸۷۱)
(4)زکات ادا نہ کرنے والی قوم کو اجتماعی نقصان کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے۔ رسول پاک ﷺ نے فرمایا:
”جوقوم زکات نہ دے گی اللہ پاک اسے قحط میں مبتلاء فرمائے گا ۔”
(المعجم الاوسط ،حدیث نمبر۴۵۷۷،ج۳،ص۲۷۵)
ایک اورمقام پر فرمایا:
”جب لوگ زکات کی ادا ئیگی چھوڑ دیتے ہیں تو اللہ پاک بارش کو روک دیتا ہے اگر زمین پر چوپا ئے مو جود نہ ہو تے تو آسمان سے پا نی کا ایک قطرہ بھی نہ گرتا ۔”
(سنن ابن ماجہ ،کتاب الفتن،باب العقوبات،حدیث نمبر۴۰۱۹،ج۴،ص۳۶۷)
(5) زکات نہ دینے والے پر لعنت کی گئی ہے جیسا کہ حضرت سیدناعبداللہ ابن مسعود رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں:
”زکات نہ دینے والے پر رسول اللہ ﷺ نے لعنت فرمائی ہے ۔”
(صَحِیْحُ ابْنِ خُزَیْمَۃ،کتاب الزکاۃ،باب جماع ابواب التغلیظ،ذکر لعن لاوی…الخ،حدیث نمبر ۲۲۵۰،ج۴،ص۸)
(6)بروزِقیامت یہی مال وبال جان بن جائے گا۔
سورہ توبہ میں ارشاد ہوتا ہے:
وَالَّذِیۡنَ یَکْنِزُوۡنَ الذَّہَبَ وَالْفِضَّۃَ وَلَا یُنۡفِقُوۡنَہَا فِیۡ سَبِیۡلِ اللہِ ۙ فَبَشِّرْہُمۡ بِعَذَابٍ اَلِیۡمٍ ﴿ۙ۳۴﴾یَّوْمَ یُحْمٰی عَلَیۡہَا فِیۡ نَارِجَہَنَّمَ فَتُکْوٰی بِہَا جِبَاہُہُمْ وَجُنُوۡبُہُمْ وَظُہُوۡرُہُمْ ؕ ہٰذَا مَاکَنَزْتُمْ لِاَنۡفُسِکُمْ فَذُوۡقُوۡا مَاکُنۡتُمْ تَکْنِزُوۡنَ ﴿۳۵﴾
اور وہ کہ جوڑ کر رکھتے ہيں سونا اور چاندی اور اسے اللہ کی راہ ميں خرچ نہيں کرتے انہيں خوش خبری سناؤدرد ناک عذاب کی جس دن وہ تپایا جائے گا جہنم کی آگ ميں پھر اس سے داغيں گے ان کی پیشانياں اورکروٹيں اور پیٹھيں يہ ہے وہ جو تم نے اپنے لئے جوڑ کر رکھا تھا اب چکھو مزا اس جوڑنے کا۔
(پ۱۰،التوبۃ:۳۴،۳۵)
رسول پاک ﷺ کا فرمان ہے:
”جس کو اللہ تعالیٰ نے مال دیا اور وہ اس کی زکات ادا نہ کرے تو قیامت کے دن وہ مال گنجے سانپ کی صورت میں کر دیا جائے گا جس کے سر پر دو چتیاں ہوں گی (یعنی دو نشان ہوں گے)، وہ سانپ اس کے گلے میں طوق بنا کر ڈال دیا جائے گا ۔پھر اس (یعنی زکات نہ دینے والے) کی باچھیں پکڑے گا اور کہے گا : ”میں تیرا مال ہوں،میں تیرا خزانہ ہوں ۔” اس کے بعد نبی کریم ﷺ نے اس آیت کی تلاوت فرمائی :
وَلَا یَحْسَبَنَّ الَّذِیۡنَ یَبْخَلُوۡنَ بِمَاۤ اٰتٰىہُمُ اللہُ مِنۡ فَضْلِہٖ ہُوَ خَیۡرًا لَّہُمْ ؕ بَلْ ہُوَ شَرٌّ لَّہُمْ ؕ سَیُطَوَّقُوۡنَ مَا بَخِلُوۡا بِہٖ یَوْمَ الْقِیٰمَۃِ ؕ
اور جو بخل کرتے ہیں اس چیز میں جو اللہ نے انہیں اپنے فضل سے دی ، ہرگز اسے اپنے لئے اچھا نہ سمجھیں بلکہ وہ ان کے لئے برا ہے عنقریب وہ جس میں بخل کیا تھا قیامت کے دن ان کے گلے کا طوق ہوگا۔
(پ۴، اٰل عمران:۱۸۰ )
(صحیح البخاری،کتاب الزکات ، باب اثم مانع الزکوٰۃ،حدیث نمبر۱۴۰۳،ج۱،ص۴۷۴)
(7) حساب میں سختی کی جائے گی
جیسا کہ رسول پاک ﷺ نے فرمایا:
”فقیر ہر گز ننگے بھوکے ہونے کی تکلیف نہ اٹھائیں گے مگر اغنیاء کے ہاتھوں ، سن لو ایسے مالداروں سے اللہ تعالیٰ سخت حساب لے گا اور انہیں درد ناک عذاب دے گا ۔”
(مجمع الزوائد،کتاب الزکوٰۃ،باب فرض الزکوٰۃ،حدیث نمبر۴۳۲۴،ج۳،ص۱۹۷)
(8) عذاب ِ جہنم میں مبتلا ہوسکتا ہے
رسول پاک ﷺ نے کچھ لوگ دیکھے جن کے آگے پیچھے غرقی لنگوٹیوں کی طرح کچھ چیتھڑے تھے اور جہنم کے گرم پتھر اور تھوہر اور سخت کڑوی جلتی بدبو دارگھاس چوپایوں کی طرح چرتے پھرتے تھے۔ جبرائیل امین علیہ السلام سے پوچھا یہ کون لوگ ہیں ؟ عرض کی : یہاں پر مالوں کی زکات نہ دینے والے ہیں اور اللہ پاک نے ان پر ظلم نہیں کیا ،اللہ تعالیٰ بندوں پر ظلم نہیں فرماتا ۔
(الزواجر ،کتاب الزکوٰۃ،الکبیرۃ السابعۃ،الثامنۃ والعشرون….الخ،ج۱،ص۳۷۲)
ایک مقام پر نبی کریم ﷺ نے فرمایا:
زکات نہ دینے والا قیامت کے دن دوزخ میں ہوگا ۔
(مجمع الزوائد ،کتاب الزکوٰۃ،باب فرض الزکوۃ،حدیث نمبر۴۳۳۷،ج۳،ص۲۰۱)
ایک اور مقام پر فرمایا:
”دوزخ میں سب سے پہلے تین شخص جائیں گے ان میں سے ایک وہ مال دار جو اپنے مال میں اللہ پاک کا حق ادا نہیں کرتا۔”
(صحیح ابن خزیمہ، کتاب الزکوٰۃ،باب لذکر ادخال مانع الزکات النار….الخ ،حدیث نمبر۲۲۴۹،ج۴،ص۸ ملخصاً)
اخیر میں بارگاہ پروردگار میں دست بہ دعا ہوں کہ مولاے پاک اپنے محبوب پاک صاحب لولاک ﷺ کے طفیل ہم میں سے جو صاحب نصاب ہیں انھیں اپنے مال کی زکات نکالنے کی توفیق عطا فرمائے۔ مستحقین تک اسے پہنچانے کی توفیق بخشے۔ اور خصوصاً ہم خادمانِ امت کو زیادہ سے زیادہ خدمات دینیہ و علمیہ کی توفیق خیر مرحمت فرمائے۔
(آمین۔ بجاہ النبی الکریم علیہ اکرم الصلاۃ و افضل التسلیم)

تراویح کی فضیلتیں اور بیس رکعتوں کا ثبوت ۔۔۔ حدیثوں کی روشنی میں

تحریر: محمد ناصرؔ منیری
منیری فاونڈیشن، دہلی
ای-میل: nasirmaneri92@gmail.com

تراویح مرد و عورت سب کے ليے بالاجماع سنت مؤکدہ ہے اس کا ترک جائز نہیں۔
(الدرالمختار، کتاب الصلاۃ، باب الوتر و النوافل، ج۲، ص۵۹۶)
اس پر خلفاے راشدین رضوان اللہ علیہم اجمعین نے مداومت فرمائی اور نبی ﷺ کا ارشاد ہے کہ
”میری سنت اور خلفاے راشدین کی سنت کو اپنے اوپر لازم سمجھو۔”
(جامع الترمذي، أبواب العلم، باب ماجاء في الأخذ بالسنۃ… إلخ، الحدیث: ۲۶۸۵، ج۴، ص۳۰۸)
اور خود حضور ﷺ نے بھی تراویح پڑھی اور اسے بہت پسند فرمایا۔ چناں چہ ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، ارشاد فرماتے ہیں:
”جو رمضان میں قیام کرے ایمان کی وجہ سے اور ثواب طلب کرنے کے ليے، اس کے اگلے سب گناہ بخش ديے جائیں گے۔ یعنی صغائر۔”
(مسلم شریف، کتاب صلاۃ المسافرین، باب الترغيب في قیام رمضان وہو التراويح، الحدیث: ۷۵۹، ص۳۸۲)
پھر اس اندیشے سے کہ امت پر فرض نہ ہو جائے ترک فرمائی پھر فاروق اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ رمضان میں ایک رات مسجد کو تشریف لے گئے اور لوگوں کو متفرق طور پر نماز پڑھتے پایا کوئی تنہا پڑھ رہا ہے، کسی کے ساتھ کچھ لوگ پڑھ رہے ہیں، فرمایا: میں مناسب جانتا ہوں کہ ان سب کو ایک امام کے ساتھ جمع کر دوں تو بہتر ہو، سب کو ایک امام ابی بن کعب رضی اللہ عنہ کے ساتھ اکٹھا کر دیا پھر دوسرے دن تشریف لے گئے ملاحظہ فرمایا کہ لوگ اپنے امام کے پیچھے نماز پڑھتے ہیں فرمایا نِعْمَتِ الْبِدْعَۃُ ھٰذِہٖ یہ اچھی بدعت ہے۔
(بخاري شریف، کتاب صلاۃ التروایح، باب فضل من قام رمضان، الحدیث : ۲۰۱۰، ج۱، ص۶۵۸، و الموطأ لإمام مالک، کتاب الصلاۃ في رمضان، باب ماجاء في قيام رمضان، رقم ۲۵۵، ج۱، ص۱۲۰)
جمہور کا مذہب یہ ہے کہ تراویح کی بیس رکعتیں ہیں
(الدرالمختار و ردالمحتار، کتاب الصلاۃ، باب الوتر و النوافل، مبحث صلاۃ التراويح، ج۲، ص۵۹۹)
اور یہی احادیث سے ثابت، بیہقی نے بسند صحیح سائب بن یزید رضی اللہ عنہما سے روایت کی کہ لوگ فاروقِ اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے زمانہ میں بیس رکعتیں پڑھا کرتے تھے۔
(معرفۃ السنن و الآثار للبیہقی، کتاب الصلاۃ، باب قيام رمضان، رقم ۱۳۶۵، ج۲، ص۳۰۵)
اور عثمان و علی رضی اللہ تعالیٰ عنہما کے عہد میں بھی یوں ہی تھا۔
(فتح باب العنایۃ شرح النقایۃ، کتاب الصلاۃ، فصل في صلاۃ التراويح، ج۱، ص۳۴۲)
اور موطا ميں یزید بن رومان سے روایت ہے، کہ عمر رضی اللہ عنہ کے زمانے میں لوگ رمضان ميں تیئس ۲۳ رکعتیں پڑھتے۔
(الموطأ لإمام مالک، کتاب الصلاۃ في رمضان، باب ماجاء في قيام رمضان، رقم ۲۵۷، ج۱، ص۱۲۰)
بیہقی نے کہا اس میں تین رکعتیں وتر کی ہیں۔ مولیٰ علی رضی اللہ عنہ نے ایک شخص کو حکم فرمایا: کہ رمضان میں لوگوں کو بیس ۲۰ رکعتیں پڑھائے۔
(السنن الکبری، کتاب الصلاۃ، باب ما روی في عدد رکعات القيام في شھر رمضان، الحدیث: ۴۶۲۱، ج۲، ص۶۹۹)
نیز اس کے بیس رکعت ہونے میں یہ حکمت ہے کہ فرائض و واجبات کی اس سے تکمیل ہوتی ہے اور کل فرائض و واجب کی ہر روز بیس ۲۰ رکعتیں ہیں، لہٰذا مناسب کہ یہ بھی بیس ہوں کہ مکمل و مکمل برابر ہوں۔
1.
عَنْ عَائِشَةَ أُمِّ الْمُؤْمِنِيْنَ رضي اﷲ عنها: أَنَّ رَسُولَ اﷲِ ﷺ صَلَّی ذَاتَ لَيْلَةٍ فِي الْمَسْجِدِ، فَصَلَّی بِصَلَاتِهِ نَاسٌ، ثُمَّ صَلَّی مِنَ الْقَابِلَةِ، فَکَثُرَ النَّاسُ، ثُمَّ اجْتَمَعُوا مِنَ اللَّيْلَةِ الثَّالِثَةِ أَوِ الرَّابِعَةِ، فَلَمْ يَخْرُجْ إِلَيْهِمْ رَسُولُ اﷲِ ﷺ، فَلَمَّا أَصْبَحَ، قَالَ: قَدْ رَأَيْتُ الَّذِي صَنَعْتُمْ، وَلَمْ يَمْنَعْنِي مِنَ الْخُرُوْجِ إِلَيْکُمْ إِلَّا أَنِّي خَشِيْتُ أَنْ تُفْرَضَ عَلَيْکُمْ، وَ ذَلِکَ فِي رَمَضَانَ.
مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ وَ هَذَا لَفْظُ الْبُخَارِيِّ.
(بخاري شریف، کتاب: صلاۃ التروایح، باب: فضل من قام رمضان، 2 / 708، حدیث نمبر : 1908، و مسلم شریف، کتاب: صلاۃ المسافرین و قصرھا، باب: الترغیب في قیام رمضان و ھو التراویح، 1 / 524، حدیث نمبر: 761)
وَ زَادَ ابْنُ خُزَيْمَةَ وَابْنُ حِبَّانَ:
وَ کَانَ رَسُولُ اﷲِ ﷺ يُرَغِّبُهُمْ فِي قِيَامِ رَمَضَانَ مِنْ غَيْرِ أَنْ يَأْمُرَ بِعَزِيْمَةِ أَمْرٍ فَيَقُولُ: مَنْ قَامَ رَمَضَانَ إِيْمَانًا وَ احْتِسَابًا غُفِرَلَهُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِهِ، فَتُوُفِّيَ رَسُولُ اﷲِ ﷺ فَکَانَ الْأَمْرُ کَذَلِکَ فِي خِلَافَةِ أَبِي بَکْرٍ رضي اﷲ عنه وَ صَدْرًا مِنْ خِلَافَةِ عُمَرَ رضي اﷲ عنه حَتَّی جَمَعَهُمْ عُمَرُ رضي اﷲ عنه عَلَی أُبِّيِ بْنِ کَعْبٍ وَ صَلَّی بِهِمْ فَکَانَ ذَلِکَ أَوَّلُ مَا اجْتَمَعَ النَّاسُ عَلَی قِيَامِ رَمَضَانَ.
(صحیح ابن حبان، 1 / 353، حدیث نمبر: 141، و صحیح ابن خزیمۃ، 3 / 338، حدیث نمبر: 2207)
و أخرجه العسقلاني في ’’التلخيص‘‘:
أَنَّهُ ﷺ صَلَّی بِالنَّاسِ عِشْرِيْنَ رَکْعَةً لَيْلَتَيْنِ فَلَمَّا کَانَ فِي اللَّيْلَةِ الثَّالِثَةِ اجْتَمَعَ النَّاسُ فَلَمْ يَخْرُجْ إِلَيْهِمْ ثُمَّ قَالَ مِنَ الْغَدِ: خَشِيْتُ أَنْ تُفْرَضَ عَلَيْکُمْ فَلَا تَطِيْقُوهَا.
(تلخیص الحبیر للعسقلانی، 2 / 21)
’’اُمّ المؤمنین حضرت عائشہ رضی اﷲ عنہا سے مروی ہے کہ
ایک رات رسول اللہ ﷺ نے مسجد میں (نفل) نماز پڑھی تو لوگوں نے بھی آپ ﷺ کے ساتھ نماز پڑھی. پھر آپ ﷺ نے اگلی رات نماز پڑھی تو اور زیادہ لوگ جمع ہوگئے پھر تیسری یا چوتھی رات بھی اکٹھے ہوئے لیکن رسول اللہ ﷺ ان کی طرف تشریف نہ لائے۔ جب صبح ہوئی تو فرمایا: میں نے دیکھا جو تم نے کیا اور مجھے تمھارے پاس (نماز پڑھانے کے لیے) آنے سے صرف اس اندیشہ نے روکا کہ یہ تم پر فرض کر دی جائے گی۔ اور یہ رمضان المبارک کا واقعہ ہے۔‘‘
امام ابن خزیمہ اور امام ابن حبان نے ان الفاظ کا اضافہ کیا:
اور حضور نبی اکرم ﷺ انھیں قیام رمضان (تراویح) کی رغبت دلایا کرتے تھے لیکن حکماً نہیں فرماتے تھے چناں چہ (ترغیب کے لیے) فرماتے کہ جو شخص رمضان المبارک میں ایمان اور ثواب کی نیت کے ساتھ قیام کرتا ہے تو اس کے سابقہ تمام گناہ بخش دیے جاتے ہیں۔ پھر حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وصال مبارک تک قیام رمضان کی یہی صورت برقرار رہی اور یہی صورت خلافت ابوبکر رضی اللہ عنہ اور خلافت عمر رضی اللہ عنہ کے اوائل دور تک جاری رہی یہاں تک کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے انھیں حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ کی اقتداء میں جمع کر دیا اور وہ انھیں نماز (تراویح) پڑھایا کرتے تھے لہٰذا یہ وہ ابتدائی زمانہ ہے جب لوگ نماز تراویح کے لیے (باجماعت) اکٹھے ہوتے تھے۔‘‘
اور امام عسقلانی نے ’’التلخیص‘‘ میں بیان کیا ہے کہ
حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے لوگوں کو دو راتیں 20 رکعت نماز تراویح پڑھائی جب تیسری رات لوگ پھر جمع ہوگئے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ان کی طرف (حجرہ مبارک سے باہر) تشریف نہیں لائے۔ پھر صبح آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: مجھے اندیشہ ہوا کہ (نماز تراویح) تم پر فرض کر دی جائے گی لیکن تم اس کی طاقت نہ رکھوگے۔‘‘
2.
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رضي اﷲ عنه، قَالَ:
خَرَجَ رَسُولُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم فَإِذَا أُنَاسٌ فِي رَمَضَانَ يُصَلُّونَ فِي نَاحِيَةِ الْمَسْجِدِ فَقَالَ: مَا هَؤُلَاءِ؟ فَقِيْلَ: هَؤُلَاءِ نَاسٌ لَيْسَ مَعَهُمْ قُرْآنٌ وَ أُبِيُّ بْنُ کَعْبٍ يُصَلِّي وَ هُمْ يُصَلُّونَ بِصَلَاتِهِ، فَقَالَ النَّبِيُّ صلی الله عليه وآله وسلم : أَصَابُوا وَ نِعْمَ مَا صَنَعُوا.
رَوَاهُ أَبُو دَاوُدَ وَ ابْنُ خَزَيْمَةَ وَ ابْنُ حِبَّانَ وَ الْبَيْهَقِيُّ.
وَ فِي رِوايَةٍ لِلْبَيْهَقِيِّ: قَالَ: قَدْ أَحْسَنُوا أَوْ قَدْ أَصَابُوا وَلَمْ يَکْرَهْ ذَلِکَ لَهُمْ.
(سنن ابوداود، کتاب: الصلاۃ، باب: في قیام شہر رمضان، 2 / 50، حدیث نمبر: 1377، صحیح ابن خزیمۃ، 3 / 339، الرقم: 2208، صحیح ابن حبان، 6 / 282، حدیث نمبر: 2541، السنن الکبری للبیھقی، 2 / 495، حدیث نمبر: 4386۔ 4388)
’’حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے فرمایا کہ
حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم (حجرہ مبارک سے) باہر تشریف لائے تو رمضان المبارک میں لوگ مسجد کے ایک گوشے میں نماز پڑھ رہے تھے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: یہ کون ہیں؟ عرض کی گئی: یہ وہ لوگ ہیں جنھیں قرآن پاک یاد نہیں اور حضرت ابی بن کعب نماز پڑھتے ہیں اور یہ لوگ ان کی اقتداء میں نماز پڑھتے ہیں تو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: انھوں نے درست کیا اور کتنا ہی اچھا عمل ہے جو انھوں نے کہا کیا۔‘‘
اور بیہقی کی ایک روایت میں ہے فرمایا: انھوں نے کتنا احسن اقدام یا کتنا اچھا عمل کیا اور ان کے اس عمل کو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ناپسند نہیں فرمایا۔‘‘
3.
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رضي اﷲ عنه قَالَ: کَانَ رَسُولُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم ، يُرَغِّبُ فِي قِيَامِ رَمَضَانَ، مِنْ غَيْرِ أَنْ يَأْمُرَ بِعَزِيْمَةٍ، فَيَقُولُ: مَنْ قَامَ رَمَضَانَ إِيْمَانًا وَ احْتِسَابًا، غُفِرَلَهُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِهِ. فَتُوُفِّيَ رَسُولُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم، وَالْأَمْرُ عَلَی ذَلِکَ، ثُمَّ کَانَ الْأَمْرُ عَلَی ذَلِکَ فِي خِلَافَةِ أَبِي بَکْرٍ وَ صَدْرًا مِنْ خِلَافَةِ عُمَرَ عَلَی ذَلِکَ. مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ وَ هَذَا لَفْظُ مُسْلِمٍ.
(بخاري شریف، کتاب: صلاۃ التروایح، باب: فضل من قام رمضان، 2 / 707، حدیث نمبر: 1905، و مسلم شریف، کتاب: صلاۃ المسافرین و قصرھا، باب: الترغیب في قیام رمضان و ھو التراویح، 1 / 523، حدیث نمبر: 759)
’’حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نماز تراویح پڑھنے کی رغبت دلایا کرتے تھے لیکن حکماً نہیں فرماتے تھے چنانچہ فرماتے کہ جس نے رمضان المبارک میں حصول ثواب کی نیت سے اور حالتِ ایمان کے ساتھ قیام کیا تو اس کے سابقہ (تمام) گناہ بخش دیئے جاتے ہیں۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وصال مبارک تک نمازِ تراویح کی یہی صورت برقرار رہی اور خلافت ابوبکر رضی اللہ عنہ میں اور پھر خلافت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے شروع تک یہی صورت برقرار رہی۔‘‘
4.
عَنْ عَبْدِالرَّحْمَنِ بْنِ عَبْدِالْقَارِيِّ أَنَّهُ قَالَ: خَرَجْتُ مَعَ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ هُرَيْرَةَ رضي اﷲ عنه لَيْلَةً فِي رَمَضَانَ إِلَی الْمَسْجِدِ، فَإِذَا النَّاسُ أَوْزَاعٌ مُتَفَرِّقُوْنَ يُصَلِّي الرَّجُلُ لِنَفْسِهِ، وَ يُصَلِّي الرَّجُلُ فَيُصَلِّي بِصَلَا تِهِ الرَّهْطُ، فَقَالَ عُمَرُ هُرَيْرَةَ رضي اﷲ عنه: إِنِّي أَرَی لَوْ جَمَعْتُ هَؤُلَاءِ عَلَی قَارِيئٍ وَاحِدٍ لَکَانَ أَمْثَلَ، ثُمَّ عَزَمَ فَجَمَعَهُمْ عَلَی أُبَيِّ بْنِ کَعْبٍ، ثُمَّ خَرَجْتُ مَعَهُ لَيْلَةً أُخْرَی وَالنَّاسُ يُصَلُّوْنَ بِصَلاَةِ قَارِئِهِمْ، قَالَ عُمَرُ هُرَيْرَةَ رضي اﷲ عنه: نِعْمَ الْبِدْعَةُ هَذِهِ، وَالَّتِي يَنَامُوْنَ عَنْهَا أَفْضَلُ مِنَ الَّتِي يَقُوْمُوْنَ، يُرِيْدُ آخِرَ اللَّيْلِ، وَکَانَ النَّاسُ يَقُوْمُوْنَ أَوَّلَهُ. رَوَاهُ الْبُخَارِيُّ وَ مَالِکٌ.
(بخاری شریف، کتاب: صلاۃ التراویح، باب: فضل من قام رمضان، 2 / 707، حدیث نمبر: 1906، وموطا امام مالک، کتاب: الصلاۃ فی رمضان، باب: الترغیب في الصلاۃ في رمضان، 1 / 114، حدیث نمبر: 650)
’’حضرت عبدالرحمن بن عبد القاری روایت کرتے ہیں: میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے ساتھ رمضان کی ایک رات مسجد کی طرف نکلا تو لوگ متفرق تھے کوئی تنہا نماز پڑھ رہا تھا اور کسی کی اقتداء میں ایک گروہ نماز پڑھ رہا تھا۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: میرے خیال میں انہیں ایک قاری کے پیچھے جمع کر دوں تو اچھا ہو گا پس آپ رضی اللہ عنہ حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ کے پیچھے سب کو جمع کر دیا، پھر میں ایک اور رات ان کے ساتھ نکلا اور لوگ ایک امام کے پیچھے نماز پڑھ رہے تھے حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے (ان کو دیکھ کر) فرمایا: یہ کتنی اچھی بدعت ہے، اور جو لوگ اس نماز (تراویح) سے سو رہے ہیں وہ نماز ادا کرنے والوں سے زیادہ بہتر ہیں اور اس سے ان کی مراد وہ لوگ تھے (جو رات کو جلدی سو کر) رات کے پچھلے پہر میں نماز ادا کرتے تھے اور تراویح ادا کرنے والے لوگ رات کے پہلے پہر میں نماز ادا کرتے تھے۔‘‘
5.
عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَوْفٍص، عَنْ رَسُولِ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم أَنَّهُ ذَکَرَ شَهْرَ رَمضَانَ فَفَضَّلَهُ عَلَی الشُّهُورِ، وَ قَالَ: مَنْ قَامَ رًَمَضَانَ إِيمَانًا واحْتِسَاباً خَرَجَ مِنْ ذُنُوبِهِ کَيَوْمِ وَلَدَتْهُ أُمُّهُ. رَوَاهُ النَّسَائِيُّ.
(سنن نسائی، کتاب: الصیام، باب: ذکر اختلاف یحیی بن ابی کثیر والنضر بن شیبان فیہ، 4 / 158، حدیث نمبر: 2208۔2210)
وَ فِي رِوَايَةٍ لَهُ قَالَ رَسُولُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم : إِنَّ اﷲَ تَبَارَکَ وَ تَعَالَی فَرَضَ صِيَامَ رَمَضَانَ عَلَيْکُمْ، وَ سَنَنْتُ لَکُمْ قِيَامَهُ، فَمَنْ صَامَهُ وَقَامَهُ إِيْمَاناً وَاحْتِسَاباً خَرَجَ مِنْ ذُنُوبِهِ کَيَوْمِ وَلَدَتْهُ أُمُّهُ. رَوَاهُ النَّسَائِيُّ وَابْنُ مَاجَةَ.(سنن ابن ماجہ، کتاب: اقامۃ الصلاۃ و السنۃ فیھا، باب: ماجاء فی قیام شھر رمضان، 1 / 421، حدیث نمبر: 1328)
’’حضرت عبد الرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے رمضان المبارک کا ذکر فرمایا تو سب مہینوں پر اسے فضیلت دی۔ بعد ازاں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: جو شخص ایمان اور حصول ثواب کی نیت کے ساتھ رمضان کی راتوں میں قیام کرتا ہے تو وہ گناہوں سے یوں پاک صاف ہو جاتا ہے جیسے وہ اس دن تھا جب اسے اس کی ماں نے جنم دیا تھا۔‘‘
’’اور ایک روایت میں ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: بے شک اللہ تعالیٰ نے رمضان کے روزے فرض کیے ہیں اور میں نے تمہارے لئے اس کے قیام (نماز تراویح) کو سنت قرار دیا ہے لہٰذا جو شخص ایمان اور حصول ثواب کی نیت کے ساتھ ماہ رمضان کے دنوں میں روزہ رکھتا اور راتوں میں قیام کرتا ہے وہ گناہوں سے یوں پاک صاف ہو جاتا ہے جیسے وہ اس دن تھا جب اسے اس کی ماں نے جنم دیا تھا.‘‘
6.
عَنْ يَزِيْدَ بْنِ رُوْمَانَ، أَنَّهُ قَالَ: کَانَ النَّاسُ يَقُومُونَ فِي زَمَانِ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ رضي اﷲ عنه فِي رَمَضَانَ، بِثَلَاثٍ وَ عِشْرِيْنَ رَکْعَةً.
رَوَاهُ مَالِکٌ
(موطا امام مالک، کتاب: الصلاۃ في رمضان، باب: الترغیب في الصلاۃ في رمضان، 1 / 115، حدیث نمبر: 252،
’’حضرت یزید بن رومان نے بیان کیا کہ حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے دور میں لوگ (بشمول وتر) 23 رکعت پڑھتے تھے۔
7.
عَنْ مَالِکٍ، عَنْ دَاوُدَ بْنِ الْحُصَيْنِ، أَنَّهُ سَمِعَ الْأَعْرَجَ يَقُولُ: مَا أَدْرَکْتُ النَّاسَ إِلَّا وَهُمْ يَلْعَنُونَ الْکَفَرَةَ فِي رَمَضَانَ، قَالَ: وَ کَانَ الْقَارِيئُ يَقْرَأُ سُوْرَةَ الْبَقَرَةِ فِي ثَمَانِ رَکَعَاتٍ، فَإِذَا قَامَ بِهَا فِي اثْنَتَي عَشْرَةَ رَکْعَةً، رَأَی النَّاسُ أَنَّهُ قَدْ خَفَّفَ.
وقال الإمام ولي اﷲ الدهلوي:
هو مذهب الشافعيه والحنفيه، و عشرون رکعة تراويح و ثلاث وتر عند الفريقين هکذا قال المحلِّي عن البيهقي.
(موطا امام مالک، کتاب: الصلاۃ في رمضان، باب: ماجاء في قیام رمضان، 1 / 115، حدیث نمبر: 753، المسوی من احادیث الموطا لولي اﷲ الدھلوي، 1 / 175)
’’حضرت مالک نے داود بن حصین سے روایت کیا، انہوں نے حضرت اعرج کو فرماتے ہوئے سنا کہ میں نے لوگوں کو اس حال میں پایا کہ وہ رمضان میں کافروں پر لعنت کیا کرتے تھے انہوں نے فرمایا (نمازِ تراویح میں) قاری سورہ بقرہ کو آٹھ رکعتوں میں پڑھتا اور جب باقی بارہ رکعتیں پڑھی جاتیں تو لوگ دیکھتے کہ امام انہیں ہلکی (مختصر) کر دیتا۔‘‘
’’حضرت شاہ ولی اللہ دہلوی نے (اس حدیث کی شرح میں) بیان کیا کہ بیس رکعت تراویح اور تین وتر شوافع اور احناف کا مذہب ہے۔ اسی طرح محلّی نے امام بیہقی سے بیان کیا۔‘‘
8.
عَنْ عُرْوَةَ رضي اﷲ عنه: أَنَّ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ رضی الله عنه جَمَعَ النَّاسَ عَلَی قِيَامِ شَهْرِ رَمَضَانَ الرِّجَالَ عَلَی أُبَيِّ بْنِ کَعْبٍ وَالنِّسَاءَ عَلَی سُلَيْمَانَ بْنِ أَبِي حَثْمَةَ. رَوَاهُ الْبَيْهَقِيُّ.
(السنن الکبری للبیہقي، 2 / 493، حدیث نمبر: 4380)
’’حضرت عروہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے لوگوں کو ماہ رمضان میں تراویح کے لئے اکٹھا کیا۔ مردوں کو حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ اور عورتوں کو حضرت سلیمان بن حثمہ رضی اللہ عنہ تراویح پڑھاتے۔‘‘
9.
و قال الإمام أبوعيسی الترمذي في سننه: وَ أَکْثَرُ أَهْلِ الْعِلْمِ عَلَی مَا رُوِيَ عَنْ عُمَرَ، وَ عَلِيٍّ رضي اﷲ عنهما وَ غَيْرِهِمَا مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صلی الله عليه وآله وسلم عِشْرِيْنَ رَکْعَةً، وَ هُوَ قَولُ الثَّورِيِّ، وَابْنِ الْمُبَارَکِ، وَالشَّافِعِيِّ. وَ قَالَ الشَّافِعِيُّ: وَ هَکَذَا أَدْرَکْتُ بِبَلَدِنَا بِمَکَّةَ يُصَلُّونَ عِشْرِيْنَ رَکْعَةً.
(ترمذي شریف، کتاب: الصوم عن رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ، باب: ماجاء في قیام شہر رمضان، 3 / 169، الرقم: 806)
’’امام ابو عیسیٰ ترمذی رضی اللہ عنہ نے اپنی سنن میں فرمایا: اکثر اہل علم کا مذہب بیس رکعت تراویح ہے جو کہ حضرت علی حضرت عمر رضی اﷲ عنہما اور حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دیگر اصحاب سے مروی ہے اور یہی (کبار تابعین) سفیان ثوری، عبداللہ بن مبارک اور امام شافعی رحمہ اﷲ علیہم کا قول ہے اور امام شافعی نے فرمایا: میں نے اپنے شہر مکہ میں (اہل علم کو) بیس رکعت تراویح پڑھتے پایا۔‘‘
10.
عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رضي اﷲ عنهما قَالَ: أَنَّ النَّبِيَّ صلی الله عليه وآله وسلم کَانَ يُصَلِّي فِي رَمَضَانَ عِشْرِيْنَ رَکْعَةً سِوَی الْوِتْرَ.
رَوَاهُ ابْنُ أَبِي شَيْبَةَ وَالْبَيْهَقِيُّ وَالطَّبَرَانِيُّ وَاللَّفْظُ لَهُ وَ ابْنُ حُمَيْدٍ.
(مصنف ابن ابي شیبہ، 2 / 164، حدیث نمبر: 7692، المعجم الکبیرللطبرانی، 11 / 393، حدیث نمبر: 12102، السنن الکبری للبیھقی، 2 / 496، حدیث نمبر: 4391)
’’حضرت ابن عباس رضي اﷲ عنہما سے مروی ہے فرمایا کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم رمضان المبارک میں وتر کے علاوہ بیس رکعت تراویح پڑھا کرتے تھے۔‘‘
11.
عَنِ السَّائِبِ بْنِ يَزِيْدَ قَالَ: کُنَّا نَنْصَرِفُ مِنَ الْقِيَامِ عَلَی عَهْدِ عُمَرَ رضي اﷲ عنه وَ قَدْ دَنَا فُرُوعُ الْفَجْرِ وَ کَانَ الْقِيَامُ عَلَی عَهْدِ عُمَرَ رضي اﷲ عنه ثَلَاثَةً وَ عِشْرِيْنَ رَکْعَةً. رَوَاهُ عَبْدُ الرَّزَّاقِ.
(مصنف عبد الرزاق ، 4 / 261، حدیث نمبر: 7733)
’’حضرت سائب بن یزید نے بیان کیا کہ ہم حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے زمانہ میں فجر کے قریب تراویح سے فارغ ہوتے تھے اور ہم (بشمول وتر) تئیس رکعات پڑھتے تھے۔‘‘
12.
عَنِ السَّائِبِ بْنِ يَزِيْدَ قَالَ: کَانُوا يَقُومُوْنَ عَلَی عَهْدِ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِص فِي شَهْرِ رَمَضَانَ بِعِشْرِيْنَ رَکْعَةً، قَالَ: وَکَانُوْا يَقْرَأُوْنَ بِالْمِئَيْنِ وَ کَانُوا يَتَوَکَّؤُنَ عَلَی عَصِيِّهِمْ فِي عَهْدِ عُثْمَانَ بْنِ عَفَّانَ رضي اﷲ عنه مِنْ شِدَّةِ الْقِيَامِ.
(السنن الکبری للبیہقي ، 2 / 496، حدیث نمبر: 4393)
’’حضرت سائب بن یزید سے مروی ہے انہوں نے بیان کیا کہ حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے عہد میں صحابہ کرام رضوان اللہ اجمعین ماہ رمضان میں بیس رکعت تراویح پڑھتے تھے اور ان میں سو آیات والی سورتیں پڑھتے تھے اور حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے عہد میں شدت قیام کی وجہ سے وہ اپنی لاٹھیوں سے ٹیک لگاتے تھے۔‘‘
13.
عَنْ أَبِي الْخَصِيْبِ، قَالَ: کَانَ يُؤَمُّنَا سُوَيْدُ بْنُ غَفْلَةَ فِي رَمَضَانَ فَيُصَلِّي خَمْسَ تَرْوِيْحَاتٍ عِشْرِيْنَ رَکْعَةً.
(السنن الکبری للبیہقي، 2 / 446، حدیث نمبر: 4395)
’’ابو خصیب نے بیان کیا کہ ہمیں حضرت سوید بن غفلہ ماہ رمضان میں نماز تراویح پانچ ترویحوں (بیس رکعت میں) پڑھاتے تھے۔‘‘
14.
عَنْ شُتَيْرِ بْنِ شَکَلٍ وَ کَانَ مِنْ اَصحاب علي رضي اﷲ عنه: أَنَّهُ کَانَ يُؤُمُّهُمْ فِي شَهْرِ رَمَضَانَ بِعِشْرِيْنَ رَکْعَةً وَ يُوْتِرُ بِثَ.لَاثٍ.
(مصنف ابن ابي شیبۃ، 2 / 163، حدیث نمبر: 7680، السنن الکبری للبیھقی، 2 / 496، حدیث نمبر: 4395)
’’حضرت شُتیر بن شکل سے روایت ہے اور وہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے اصحاب میں سے تھے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ رمضان میں بیس رکعت تراویح اور تین وتر پڑھاتے تھے۔‘‘
15.
عَنْ أَبِي عَبْدِ الرَّحْمَنِ السُّلَمِيِّ، عَنْ عَلِيٍّ رضي اﷲ عنه قَالَ: دَعَا الْقُرَّاءَ فِي رَمَضَانَ فَأَمَرَ مِنْهُمْ رَجُلًا يُصَلِّي بِالنَّاسِ عِشْرِيْنَ رَکْعَةً، قَالَ: وَ کَانَ عَلِيٌّص يُوْتِرُ بِهِمْ. وَ رَوَی ذَلِکَ مِنْ وَجْهٍ آخَرَ عَنْ عَلِيٍّص.
رَوَاهُ الْبَيْهَقِيُّ.
(السنن الکبری للبیھقی، 2 / 496، حدیث نمبر: 4396)
’’حضرت ابو عبدالرحمن سلمی سے مروی ہے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے رمضان المبارک میں قاریوں کو بلایا اور ان میں سے ایک شخص کو بیس رکعت تراویح پڑھانے کا حکم دیا اور خود حضرت علی رضی اللہ عنہ انہیں وتر پڑھاتے تھے۔‘‘
16.
عَنْ أَبِي الْحَسَنَاءِ أَنَّ عَلِيَّ بْنَ أَبِي طَالِبٍ رضي اﷲ عنه أَمَرَ رَجُلًا أَنْ يُصَلِّيَ بِالنَّاسِ خَمْسَ تَرْوِيْحَاتٍ عِشْرِيْنَ رَکْعَةً.
(مصنف ابن ابي شیبۃ، 2 / 163، حدیث نمبر: 7681 السنن الکبری للبیھقی، 2 / 497، حدیث نمبر: 4397)
’’حضرت ابو الحسناء بیان کرتے ہیں کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے ایک شخص کو رمضان میں پانچ ترویحوں میں بیس رکعت تراویح پڑھانے کا حکم دیا۔‘‘
17.
وَ فِي رِوَايَةٍ: أَنَّ عَلِيًّا رضي اﷲ عنه کَانَ يُؤُمُّهُمْ بِعِشْرِيْنَ رَکْعَةً وَ يُوْتِرُ بِثَلَاثٍ.
رَوَاهُ ابْنُ الإِسْمَاعِيْلِ الصَّنْعَانِيُّ وَ قَالَ: فِيْهِ قُوَّةٌ.
(سبل السلام للصنعاني ، 2 / 10)
’’ایک روایت میں ہے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ انہیں بیس رکعت تراویح اور تین وتر پڑھایا کرتے تھے۔‘‘
18.
عَنْ عَلِيٍّ رضي اﷲ عنه أَنَّهُ أَمَرَ رَجُلًا يُصَلِّي بِهِمْ فِي رَمَضَانَ عِشْرِيْنَ رَکْعَةً وَ هَذَا أَيْضًا سِوَی الْوِتْرَ.
رَوَاهُ ابْنُ عَبْدِالْبَرِّ.
(التمھید لابن عبدالبر، 8 / 115)
’’حضرت علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ انہوں نے ایک شخص کو حکم دیا کہ وہ رمضان المبارک میں مسلمانوں کو بیس رکعت تراویح پڑھائے اور یہ رکعات وتر کے علاوہ تھیں۔‘‘
19.
عَنْ يَحْيیَ بْنِ سَعِيْدٍ: أَنَّ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ رضي اﷲ عنه أَمَرَ رَجُلًا يُصَلِّيَ بِهِمْ عِشْرِيْنَ رَکْعَةً.
رَوَاهُ ابْنُ أَبِي شَيْبَةَ. إِسْنَادُهُ مُرْسَلٌ قَوِيٌ.
(مصنف ابن ابي شیبۃ، 2 / 163، حدیث نمبر: 7682)
’’حضرت یحییٰ بن سعید بیان کرتے ہیں کہ حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے ایک شخص کو حکم دیا کہ وہ انہیں (مسلمانوں کو) بیس رکعت تراویح پڑھائے۔‘‘
20.
عَنْ نَافِعِ بْنِ عُمَرَ قَالَ: کَانَ ابْنُ أَبِي مُلَيْکَةَ يُصَلِّي بِنَا فِي رَمَضَانَ عِشْرِيْنَ رَکْعَةً. رَوَاهُ ابْنُ أَبِي شَيْبَةَ. إِسْنَادُهُ صَحِيْحٌ.
(مصنف ابن ابي شیبۃ، 2 / 163، حدیث نمبر: 7683)
’’حضرت نافع بن عمر نے بیان کیا کہ ابن ابی ملیکہ ہمیں رمضان المبارک میں بیس رکعت تراویح پڑھایا کرتے تھے۔‘‘
21.
عَنْ عَبْدِالْعَزِيْزِ بْنِ رَفِيْعٍ قَالَ: کَانَ أُبَيُّ بْنُ کَعْبٍ يُصَلِّي بِالنَّاسِ فِي رَمَضَانَ بِالْمَدِيْنَةِ عِشْرِيْنَ رَکْعَةً وَ يُوْتِرُ بِثَلَاثٍ.
(مصنف ابن ابي شیبۃ، 2 / 163، حدیث نمبر: 7684)
’’حضرت عبدالعزیز بن رفیع نے بیان کیا کہ حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ مدینہ منورہ میں لوگوں کو رمضان المبارک میں بیس رکعت تراویح اور تین رکعت وتر پڑھاتے تھے۔‘‘
22.
عَنِ الْحَارِثِ أَنَّهُ کَانَ يَؤُمُّ النَّاسَ فِي رَمَضَانَ بِاللَّيْلِ بِعِشْرِيْنَ رَکْعَةً وَ يُوتِرُ بِثَلَاثٍ وَ يَقْنُتُ قَبْلَ الرُّکُوعِ. رَوَاهُ ابْنُ أَبِي شَيْبَةَ.
(مصنف ابن ابي شیبۃ، 2 / 163، حدیث نمبر: 7685)
’’حضرت حارث سے مروی ہے کہ وہ لوگوں کو رمضان المبارک کی راتوں میں (نماز تراویح) میں بیس رکعتیں اور تین وتر پڑھایا کرتے تھے اور رکوع سے پہلے دعا قنوت پڑھتے تھے۔‘‘
23.
عَنْ أَبِي الْبُخْتَرِيِّ أَنَّهُ کَانَ يُصَلِّي خَمْسَ تَرْوِيْحَاتٍ فِي رَمَضَانَ وَ يُوتِرُ بِثَلَاثٍ. رَوَاهُ ابْنُ أَبِي شَيْبَةَ. إِسْنَادُهُ صَحِيْحٌ.
(مصنف ابن ابي شیبۃ، 2 / 163، حدیث نمبر: 7686)
’’حضرت ابوالبختری سے روایت ہے کہ وہ رمضان المبارک میں پانچ ترویح (یعنی بیس رکعتیں) اور تین وتر پڑھا کرتے تھے۔‘‘
24.
عَنْ عَطَاءٍ قَالَ: أَدْرَکْتُ النَّاسَ وَهُمْ يُصَلُّونَ ثَلَاثًا وَ عِشْرِيْنَ رَکْعَةً بِالْوِتْرِ. رَوَاهُ ابْنُ أَبِي شَيْبَةَ. إِسْنَادُهُ حَسَنٌ.
(مصنف ابن ابي شیبۃ، 2 / 163، حدیث نمبر: 7688)
’’حضرت عطاء فرماتے ہیں کہ میں نے لوگوں کو دیکھا کہ وہ بشمول وتر 23 رکعت تراویح پڑھتے تھے۔‘‘
25.
عَنْ سَعِيْدِ بْنِ عُبَيْدٍ أَنَّ عَلِيَّ بْنَ رَبِيْعَةَ کَانَ يُصَلِّي بِهِمْ فِي رَمَضَانَ خَمْسَ تَرْوِيْحَاتٍ وَ يُوتِرُ بِثَلَاثٍ.
رَوَاهُ ابْنُ أَبِي شَيْبَةَ. إِسْنَادُهُ صَحِيْحٌ.
(مصنف ابن ابي شیبۃ، 2 / 163، حدیث نمبر: 7690)
’’حضرت سعید بن عبید سے مروی ہے کہ حضرت علی بن ربیعہ انہیں رمضان المبارک میں پانچ ترویح (یعنی بیس رکعت) نماز تراویح اور تین وتر پڑھاتے تھے۔‘‘
26.
عَنِ الْحَسَنِ أَنَّ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ رضي اﷲ عنه جَمَعَ النَّاسَ عَلَی أُبَيِّ بْنِ کَعْبٍ فِي قِيَامِ رَمَضَانَ فَکَانَ يُصَلِّي بِهِمْ عِشْرِيْنَ رَکْعَةً.
(سیر اعلام النبلاء للذھبي، 1 / 400، تلخیص الحبیر للعسقلاني، 2 / 21، حدیث نمبر: 540)
’’حضرت حسن (بصری) رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے لوگوں کو حضرت ابی ابن بن کعب رضی اللہ عنہ کی اقتداء میں قیام رمضان کے لئے اکٹھا کیا تو وہ انہیں بیس رکعت تراویح پڑھاتے تھے۔‘‘
27.
عَنِ الزَّعْفَرَانِيِّ عَنِ الشَّافِعِيِّ قَالَ: رَأَيْتُ النَّاسَ يَقُومُونَ بِالْمَدِيْنَةِ بِتِسْعٍ وَ ثَلَاثِيْنَ وَ بِمَکَّةَ بِثَلَاثٍ وَ عِشْرِيْنَ.
رَوَاهُ الْعَسْقَلَانِيُّ وَالشُّوکَانِيُّ عَنْ مَالِکٍ.
(فتح الباري للعسقلاني، 4 / 253، نیل الاوطار للشوکاني ، 3 / 64)
’’حضرت زعفرانی امام شافعی رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: میں نے لوگوں کو مدینہ منورہ میں انتالیس (39) اور مکہ مکرمہ میں تئیس (23) رکعت (بیس تراویح اور تین وتر) پڑھتے دیکھا۔‘‘
28.
و قال ابن رشد القرطبي: فَاخْتَارَ مَالِکٌ فِي أَحَدِ قَوْلَيْهِ وَ أَبُوحَنِيْفَةَ وَالشَّافِعِيُّ وَ أَحْمَدُ وَ دَاوُدُ الْقِيَامَ بِعِشْرِيْنَ رَکْعَةً سِوَی الْوِتْرِ . . . أَنَّ مَالِکًا رَوَی عَنْ يَزِيْدَ بْنِ رُومَانَ قَالَ: کَانَ النَّاسُ يَقُوْمُونَ فِي زَمَانِ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ رضي اﷲ عنه بِثَلَاثٍ وَ عِشْرِيْنَ رَکْعَةً.
(بدایۃ المجتھد لابن رشد ، 1 / 152)
’’ابن رشد قرطبی نے فرمایا کہ امام مالک رضی اللہ عنہ نے اپنے دو اقوال میں سے ایک میں اور امام ابوحنیفہ، امام شافعی، امام احمد اور امام داود ظاہری رضی اللہ عنہم نے بیس ترایح کا قیام پسند کیا ہے اور تین وتر اس کے علاوہ ہیں . . . اسی طرح امام مالک رضی اللہ عنہ نے یزید بن رومان سے روایت بیان کی فرمایا کہ حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے زمانہ میں لوگ تئیس (23) رکعت (تراویح) کا قیام کیا کرتے تھے۔‘‘
29.
و قال ابن تيمية في ’’الفتاوی‘‘: ثَبَتَ أَنَّ أُبَيَّ بْنَ کَعْبٍ کَانَ يَقُومُ بِالنَّاسِ عِشْرِيْنَ رَکْعَةً فِي رَمَضَانَ وَ يُوتِرُ بِثَلَاثٍ فَرَأَی کَثِيْرًا مِنَ الْعُلَمَاءِ أَنَّ ذَلِکَ هُوَ السُّنَّةُِلأَنَّهُ قَامَ بَيْنَ الْمُهَاجِرِيْنَ وَالْأَنْصَارِ وَلَمْ يُنْکِرْهُ مُنْکِرٌ.
(فتاویٰ ابن تیمیہ، 1 / 191)
’’ابن تیمیۃ نے ’’اپنے فتاویٰ‘‘ میں کہا کہ ثابت ہوا کہ حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ رمضان المبارک میں لوگوں کو بیس رکعت تراویح اور تین وتر پڑھاتے تھے تو اکثر اہل علم نے اسے سنت مانا ہے۔ اس لئے کہ وہ مہاجرین اور انصار (تمام) صحابہ کرام کے درمیان (ان کی موجودگی میں) قیام کرتے (بیس رکعت پڑھاتے) اور ان میں انہیں سے کبھی بھی کسی نے نہیں روکا۔
30.
وَ فِي مَجْمُوْعَةِ الْفَتَاوَی النَّجْدِيَّةِ: أَنَّ الشَّيْخَ عَبْدَ اﷲِ بْنَ مُحَمَّدِ بْنِ عَبْدِالْوَهَّابِ ذَکَرَ فِي جَوَابِهِ عَنْ عَدَدِ التَّرَاوِيْحِ أَنَّ عُمَرَ رضي اﷲ عنه لَمَّا جَمَعَ النَّاسَ عَلَی أُبَيِّ بْنِ کَعْبٍ، کَانَتْ صَلَاتُهُمْ عِشْرِيْنَ رَکْعَةً.
(تصحیح حدیث صلاۃ التراویح عشرین رکعۃ لاسماعیل بن محمد الانصاري، 1 / 35)
مجموعہ الفتاویٰ النجدیہ میں ہے کہ شیخ عبداﷲ بن محمد بن عبدالوہاب نے تعداد رکعات تراویح سے متعلق سوال کے جواب میں بیان کیا کہ جب حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے لوگوں کو حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ کی اقتداء میں نماز تراویح کے لئے جمع کیا تو وہ انہیں بیس رکعت پڑھاتے تھے۔‘‘

Comments

Popular posts from this blog