Eid-Ul-Adha

معمولاتِ عید الاضحیٰ اور مسائل قربانی


تحریر: محمد ناصرؔ منیری
منیری فاونڈیشن، دہلی
ای-میل: nasirmaneri92@gmail.com

اللہ پاک نے ہمیں تین عیدوں کا تحفہ عنایت فرمایا۔ عید میلاد النبیﷺ عید الفطر اور عید الاضحی۔ عید میلاد النبی ﷺ عیدوں کی عید ہے کہ اسی دن حضور ﷺ کی ولادت ہوئی۔ عید الفطر رمضان کی عبادتوں کے بعد اللہ پاک ہمیں انعام کی شکل میں عطا فرماتا ہے اور عید الاضحیٰ کو ہم حضرت ابراہیم علیہ السلام کی یادگار کے طور پر مناتے ہیں۔ یہاں عید الاضحیٰ کے کچھ احکام و مسائل بیان کیے جا رہے ہیں۔

تکبیرِ تشریق :

نویں ذی الحجہ کی فجر سے تیرہویں کی عصر تک ہر نماز فرض پنج گانہ کے بعد جو مستحب جماعت کے ساتھ ادا کی گئی ہو، ایک بار بلند آواز سے  تکبیر کہنا  واجب ہے اور تین بار افضل۔ اسے تکبیر تشریق کہتے ہیں، وہ یہ ہے:اَللہُ اَکْبَرْ اَللہُ اَکْبَرْ لَآ اِلٰـہَ اِلَّا اللہُ وَاللہُ اَکْبَرْ اَللہُ اَکْبَرْ وَلِلّٰہِ الْحَمْدُ ؕ (تنوير الابصار،3/ 71-74)

عید الاضحیٰ کے مستحبات:

بقر عیدکے دن یہ چیزیں مستحب ہيں: حجامت بنوانا ،  ناخن ترشوانا، غسل کرنا، مسواک کرنا، اچھے کپڑے پہننا، خوش بو لگانا، عیدگاہ اطمینان و وقار کے ساتھ پیدل جانا۔ایک راستے سے جانا اور دوسرے سے واپس آنا۔جانے سے پہلے کچھ نہ کھانا۔ راستے میں بلند آواز سے تکبیر کہنا۔ خوشی ظاہر کرنا اور خوب صدقہ و خیرات کرنا وغیرہ۔  (فتاوی ہندیۃ، 1/ 149، دُرِّمختار،3/ 54 وغیرہ)

نمازِ عیدالاضحیٰ کا طریقہ:

پہلے یوں نیت کریں “نیت کی میں نے دو رکعت نماز واجب عید الاضحیٰ کی چھ زائد تکبیروں کے ساتھ اللہ تعالیٰ کے لیے پیچھے اس امام کے منہ میرا کعبے کی طرف اللہ اکبر” اور ہاتھ باندھ کر ثنا پڑھیں۔ پھر تین تکبیریں کہیں۔ ہر تکبیر میں ہاتھ کانوں تک اٹھا کر چھوڑ دیں۔ تیسری تکبیر کے بعد ہاتھ باندھ لیں۔ پھر امام صاحب قراءت کریں گے، مقتدی سنیں۔ دوسری رکعت میں قراءت ختم کر کے تین تکبیر یں کہیں۔ ہر تکبیر میں ہاتھ کانوں تک اٹھائیں اور چھوڑ دیں۔چھوتھی تکبیر کہہ کر رکوع کریں۔ چوتھی تکبیر میں ہاتھ نہ اٹھائیں نہ باندھیں۔ پھر دوسری نمازوں کی طرح نماز پوری کریں۔ نماز کے بعد خطبہ سنیں۔

قربانی کی فضیلت :

قربانی اسلام کا ایک شعار ہے، جس کی بہت فضیلت  و اہمیت ہے۔ رسولِ پاک ﷺ کو قربانی کا حکم دیا گیا۔ اللہ پاک نے فرمایا: اپنے رب کے لیے نماز پڑھو اور قربانی کرو۔ (سورۂ کوثر، آیت: 2) حدیث شریف میں اس کی بڑی تاکید آئی ہے۔ اس کے کرنے پر ثواب اور چھوڑنے پر عذاب ہے۔ رسولِ پاک ﷺ نے فرمایا: قربانی کے دنوں میں انسان  کا کوئی عمل اللہ پاک کے نزدیک قربانی کرنےسے زیادہ پیارا نہیں اور وہ جانور قیامت کے دن اپنے سینگ اور بال اور کھروں کے ساتھ آئے گا اور قربانی کا خون زمین پر گرنے سے پہلے اللہ پاک کے نزدیک قبولیت کے مقام پر پہنچ جاتا ہے لہٰذا   اس کو خوش دلی سے کرو۔
(ترمذی شریف، 3/ 162، حدیث نمبر : 1498)
دوسری حدیث میں ہے: جس میں وسعت ہو اور قربانی نہ کرے وہ ہماری عیدگاہ کے قریب نہ آئے۔
(سننِ ابنِ ماجہ 3/ 529، حدیث نمبر : 3123)

قربانی کے مسائل

(1)قربانی ہر مسلمان، مکلف، آزاد،مقیم، صاحبِ نِصاب پر واجب ہے۔
(2)صاحبِ نِصاب وہ ہے جس کے پاس حاجتِ اصلیہ کے علاوہ ساڑھے باون تولہ (653.184گرام) چاندی یا ساڑھے سات تولہ (93.312گرام) سونا یا اتنی قیمت کی کوئی چیز ہو۔
(3) حاجتِ اصلیہ وہ چیز ہے، جو زندگی گذارنے کے لیے ضروری ہے۔ جیسے:مکان وغیرہ۔
(4)قربانی واجب ہونے کے لیے مرد ہونا ضروری نہیں عورت پر بھی واجب ہے۔
(5) گھر میں جتنے لوگ صاحبِ نصاب ہیں سب پر اپنی طرف سے قربانی واجب ہے۔
(6)صاحبِ نصاب اگر کسی دوسرے کے نام سے جیسے رسولِ پاک ﷺ یا کسی بزرگ یا کسی مرحوم کے نام سے کرنا چاہے تو  اس کے لیے دوسری  قربانی کرنی ہوگی۔
(7)صاحبِ نصاب  جب تک نصاب کا مالک ہے اس  پر ہر سال قربانی واجب ہے ۔
(8)صاحبِ نصاب نے اگر قربانی کی منت مانی تو اس پر دو قربانیاں واجب ہو گئیں۔ ایک وہ جو اس پر واجب ہوتی ہے اور دوسری منت کی وجہ ہے۔ اور دو یا دو سے زیادہ کی منت مانی تو جتنی کی منت مانی  سب واجب ہیں۔
(9)بالغ لڑکوں یا بیوی کی طرف سے قربانی کرنا چاہیں تو ان سے اجازت لینی ہوگی۔ بغیر اجازت کرنے سے ان کی طرف سے واجب ادا نہیں ہوگا۔
(10)قربانی کے دنوں میں قربانی ہی ضروری ہے ، اس کی جگہ کوئی دوسری چیز نہیں ہو سکتی، یعنی قربانی کے بدلے اس کی قیمت صدقہ کر دینا کافی نہیں۔
(11)قربانی کا وقت دسویں ذی الحجہ کی صبح سے بارہویں کی عصر تک ہے۔
(12)جہاں نمازِ عید ہوتی ہو وہاں نماز سے پہلے قربانی درست نہیں۔
(13)قربانی کے جانور کے لیے ضروری ہے کہ اونٹ : پانچ سال، گاے، بیل، بھینس: دو سال اور بکرا ایک سال کا ہو۔ اس سے ایک دن کا بھی کم ہو تو اس کی قربانی نہیں ہوگی ۔
(14)قربانی کا جانور بے عیب ہو، ورنہ  اگر کان ، دُم ایک تہائی سے زیادہ کٹے ہوں ، سینگ جڑ سے ٹوٹا ہو تو ایسے جانور کی قربانی جائز نہیں۔ اسی طرح کوئی جانور اتنا کم زور ہے کہ قربان گاہ تک خود نہیں پہنچ سکتایا لنگڑا ہے یا کھجلی کی بیماری ہے، جو گوشت تک پہنچ چکی ہے تو ان کی قربانی نہیں ہوگی۔
(15)قربانی کا جانور خریدنے کے بعد اگر لنگڑا ہوا یا کوئی قابلِ اعتبار عیب پیدا ہو گیا تو اگر جانور خریدنے والا اب بھی صاحبِ نصاب ہے تو اس پر نیا جانور خرید کر قربانی کرنا واجب ہے۔
(16)ایک جانور میں جتنے لوگ شریک ہیں سب کا عقیدہ صحیح ہونا ضروری ہے، اگر ان میں کوئی بدمذہب ہو یا کسی کی نیت صرف گوشت کھانے کی ہو تو کسی کی قربانی نہیں ہوگی۔
(17)جس کے نام سے قربانی ہونی ہے اسے چاند دیکھ کر قربانی کرنے تک بال اور ناخن نہ کاٹنا اور بقرعید کے دن قربانی ہونے تک کچھ نہ کھانا مستحب ہے، لیکن اس دن روزے کی نیت سے بھوکا رہنا حرام ہے۔

ذبح کے مسائل

(18)ایک جانور کے سامنے دوسرے کو ذبح کرنا منع ہے۔ رات میں ذبح کرنا مکروہ ہے۔ ذبح کے وقت تین رگیں کاٹنا اور ذبح سے پہلے بسم اللہ اللہ اکبر پڑھنا ضروری ہے۔
گوشت  کے مسائل :
(19)قربانی کا گوشت غیر مسلم کو دینا صحیح نہیں ہے۔ قصاب کو اجرت کے طور پر دینا نا جائز ہے۔ قربانی کا گوشت اندازے سے بانٹنا جائز نہیں بلکہ وزن کر کے تقسیم کرنا ضروری ہے۔

کھال کے مسائل

(20)قربانی کی کھال یا اسے بیچ کر اس  کی قیمت  مدرسہ، مسجد اور ہر کارِ خیر میں دی جا سکتی ہے۔ اسے قصاب کو اجرت کے طور پر دینا جائز نہیں۔  حدیثِ پاک میں جو بیچنے کے لیے منع کیا گیا ہے وہ اپنے لیے بیچنا ہے۔

قربانی کا طریقہ

جانور کو بائیں پہلو پر اس طرح لٹائیں کہ اُس کا مُنہ کعبے کی طرف ہو اور اپنا داہنا پاؤں اُس کے پہلو پر رکھ کر تیز چُھری سے جلد ذبح کر یں اور ذبح سے پہلے یہ دُعا پڑھیں:
اِنِّیْ وَجَّھْتُ وَجْھِیَ لِلَّذِیْ فَطَرَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ حَنِیْفًا وَّمَا اَنَا مِنَ الْمُشْرِکِیْنَ اِنَّ صَلَا تِیْ وَنُسُکِیْ وَمَحْیَایَ وَ مَمَاتِیْ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ لاشَرِیْکَ لَہٗ وَ بِذٰلِکَ اُمِرْتُ وَاَنَا مِنَ الْمُسْلِمِیْنَ اَللّٰھُمَّ لَکَ وَمِنْکَ بِسْمِ اللہِ اَللہُ اَکْبَرُ.
اِسے پڑھ کر ذبح کر یں۔ قربانی اپنی طرف سے ہو تو ذبح کے بعد یہ دُعا پڑھیں۔
اَللّٰھُمَّ تَقَبَّلَ مِنِّی کَمَا تَقَبَّلْتَ مِنْ خَلِیْلِکَ اِبْرَاھِیْمَ عَلَیْہِ السَّلَامُ وَحَبِیْبِکَ مُحَمَّدٍ ﷺ
اور اگر دوسرے کی طرف سے ہو تو مِن کہہ کر اس کا نام لیں اور بِن کہہ کر اس کے والد کا نام لیں۔
(ماخوذ از: در مختار، تنویر الابصار، فتاویٰ خانیہ، فتاویٰ ہندیہ، بہارِ شریعت وغیرہ)
اخیر میں اللہ پاک کی بارگاہ میں دعا ہےکہ مولاے پاک اپنے حبیبِ پاک ﷺ کے طفیل ہمیں خلوصِ نیت کے قربانی کرنے کی توفیق مرحمت فرمائے اور ہماری قربانیوں کو اپنی بارگاہ میں قبول و مقبول فرمائے۔ (آمین۔ بجاہ النبی الکریم علیہ اکرم الصلاۃ والتسلیم)

عشرۂ ذوالحجہ کی فضیلت و اہمیت — حدیثوں کی روشنی میں

تحریر: محمد ناصرؔ منیری
منیری فاونڈیشن، دہلی
ای-میل: nasirmaneri92@gmail.com

عشرۂ ذوالحجہ یعنی بقرعید کے مہینے کے پہلے دس سنوں کی بہت فضیلت آئی ہے۔ اس کے فضائل میں بخاری شریف کی درج ذیل حدیث بہت مشہور اور بڑی مؤثر ہے:
عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللہُ عَنْھُمَا قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مَا مِنْ اَیَّامٍ اَلْعَمَلُ الصَّالِحُ فِیْھِنَّ اَحَبُّ اِلَی اللہِ مِنْ ھٰذِہِ الْاَیَّامِ الْعَشَرَۃِ قَالُوْا یَارَسُوْلَ اللہِ وَلَا الْجِھَادُ فِیْ سَبِیْلِ اللہِ قَالَ وَلَا الْجِھَادُ فِیْ سَبِیْلِ اللہِ اِلَّا رَجُلٌ خَرَجَ بِنَفْسِہٖ وَمَالِہٖ فَلَمْ یَرْجِعْ مِنْ ذٰلِکَ بِشَیْءٍ ۔رواہ البخاری
(مشکات شریف، 1/281)
حضرت عبد اللہ ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے، انھوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا
کسی دنوں میں عمل صالح اللہ پاک کو اتنا زیادہ پسند نہیں جتنے کہ ان دس دنوں(عشرہ ذوالحجہ)میں۔ صحابہ علیہم الرضوان نے کہا کہ کیا جہاد فی سبیل اللہ بھی اس سے زیادہ اللہ پاک کو پسند نہیں؟ توفرمایا کہ ہاں! جہاد فی سبیل اللہ بھی ان دنوں میں عمل صالح سے زیادہ اللہ پاک کے نزدیک محبو ب نہیں، ہاں لیکن وہ مرد جو اپنی جان اور مال لے کر جہاد میں نکلا اور جان و مال میں سے کوئی بھی چیز واپس لے کر نہیں لوٹا ۔ یہ حدیث امام بخاری رحمہ اللہ نے روایت کی ہے۔
مذکورہ حدیث پاک سے واضح ہوا کہ ذوالحجہ کے دس دنوں میں عمل صالح جتنا اللہ تعالیٰ کو پسند ہے سال بھر کے تمام دنوں میں کوئی عمل اتنا پسند نہیں یہ سن کر صحابہ کرام علیہم الرضوان نے عرض کی : یارسول اللہ!ﷺ کیا اللہ پاک کی راہ میں جہاد کرنا بھی ان دنوں میں عمل صالح سے زیادہ اللہ پاک کو پسند نہیں؟ توکیا ارشاد فرمایا کہ ہاں جہاد بھی دوسرے دنوں میں کرنا ان دس دنوں میں عمل صالح کرنے سے بڑھ کر اللہ پاک کو پسند نہیں۔ ہاں اگر کوئی مجاہد اپنی جان و مال لے کر جہاد کے لیے نکلا اور پھر خود شہید ہوگیا اور اُس کا مال کفار نے لوٹ لیا کہ وہ اپنے گھر جان و مال میں سے کچھ لے کر نہیں لوٹا تو بے شک اس مجاہد کا جہاد فی سبیل اللہ تو عشرہ ذوالحجہ میں عمل صالح کرنے سے افضل ہے ورنہ کسی اور مجاہد کا جہاد عشرہ ذوالحجہ میں عمل صالح کرنے سے بہتر اور بڑھ کر نہیں ہوسکتا۔
علماے کرام کا اس بارے میں اختلاف ہے کہ ذوالحجہ کے دس دن افضل ہیں یا رمضان شریف کے آخری دس دن زیادہ افضل ہیں، چناں چہ بعض علما نے عشرہ ذوالحجہ کو افضل مانا اورکچھ اہلِ علم نے رمضان شریف کے آخری عشرہ کوافضل بتایاہے لیکن حضرت شیخ محقق عبدالحق محدث دہلوی علیہ الرحمہ نے تحریر فرمایا کہ
وَالْمُخْتَارُ اَنَّ اَیَّامَ ھٰذِہٖ الْعَشَرَۃِ اَفْضَلُ لِوَجُوْدِ یَوْمِ عَرَفَۃَ فِیْھَا وَلَیَالِیْ عَشَرَۃَ رَمَضَانَ اَفْضَلُ لِوُجُوْدِ لَیْلَۃِ الْقَدْرِ فِیْھَا۔
( حاشیۃ مشکاۃ،حاشیۃ۱،ص۱۲۸)
یعنی مختار مذہب یہ ہے کہ عشرہ ذوالحجہ کے دن رمضان کے آخری عشرہ کے دنوں سے افضل ہیں کیوں کہ انہی دنوں میں یوم عرفہ بھی ہے اور رمضان کے آخری عشرہ کی راتیں ذوالحجہ کے عشرہ سے افضل ہیں کیوں کہ انہی راتوں میں شب قدر ہے۔
بہرحال عشرہ ذوالحجہ اعمال صالحہ کرنے کابہترین وقت ہے اس لیے ان دنوں میں عمل صالح کرنا اللہ پاک کے نیک بندوں کا عمل ہے اورخداوند قدوس کو بہت زیادہ محبوب ہے، چناں چہ ایک حدیث میں یہ بھی آیا ہے کہ
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :
ذوالحجہ کے دس دنوں میں عبادت کرنا جس قدر اللہ پاک کو پسند ہے اور کسی دنوں میں عبادت کرنا اس قدر پسند نہیں۔ عشرہ ذوالحجہ کے ہر دن کا روزہ ایک سال کے روزے کے برابر ہے اور عشرہ ذوالحجہ کی ہر رات کا قیام شبِ قدر کے قیام کے برابر ہے۔
(ترمذی شریف، 2/192)
اخیر میں بارگاہ پروردگار میں دست بہ دعا ہوں کہ مولاے پاک اپنے محبوب پاک صاحب لولاک ﷺ کے طفیل ہم سب کو ان مبارک ایام کی قدر کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ ان میں خوب خوب عبادت و ریاضت کی توفیق بخشے۔ اور خصوصاً ہم خادمانِ امت کو زیادہ سے زیادہ خدمات دینیہ و علمیہ کی توفیق خیر مرحمت فرمائے۔
(آمین۔ بجاہ النبی الکریم علیہ اکرم الصلاۃ و افضل التسلیم)

قربانی کی شرعی حیثیت — قرآن و حدیث کی روشنی میں

تحریر: محمد ناصرؔ منیری
منیری فاونڈیشن، دہلی
ای-میل: nasirmaneri92@gmail.com
ضرورت ہے براہیمی اولوالعزمی کی دنیا کو
زمانہ چاہتا ہے پھر وہی بیٹے کی قربانی
دین و دانش کی انجمنیں ہر دور اور ہر زمانے میں قربانیوں کے لہو سے پر رونق رہی ہیں۔ قربانی اسلام کے بنیادی تقاضوں میں سے ایک ہے۔ ایک خدا کے لیے نفس کے تقاضوں کی قربانی، ایک نظامِ فطرت کے بالمقابل سارے خود ساختہ قوانین کی قربانی دین الہی کا داعیہ ہے۔ ایک رشتۂ عبد و معبود پر ذہن میں رچے بسے سارے تعلقات کی گہری ساخوں کی قربانی، اور اگر مالک حقیقی سے ہٹ کر کسی دوسری شے کی اہمیت ذہن و دماغ پر محتوی ہے تو صرف خسران ہی نہیں بلکہ موجب عتاب و سر زنش بھی ہے۔
قربانی در اصل انسان کے اعمال و افعال کے جانچنے کا ذریعہ ہے ۔ قدرت یہ واضح طور پر ثبوت چاہتی ہےکہ جو عبادت و ریاضت تم کرتے ہو یا دنیا کے جن لوازمات میں تم زندگی گذار رہے ہوان کے درمیان رہ کر اپنے پرور دگار کو کس طرح چاہتے ہوغور کیا جائے تو حیات اور مراحل حیات، زندگی اور لوازمات زندگی میں ہر ہر قدم پر قربانیوں کا مطالبہ ہے کہ بندۂ مومن ہر چیز میں ذات واجب الوجود کو اصل اور ہر معاملے میں احکام الہیہ کو مقدم رکھتا ہے۔ اس کے ہر گوشۂ حیات پر ذات الہی اور فرامین خداوندی کا غلبہ ہے۔ نماز، روزہ، حج، زکات اور بالخصوص جہاد فی سبیل اللہ یہ تمام بنیادی طور پر ہم سے اس بات کا مطالبہ کرتے ہیں کہ ہم اپنی پوری بشری صلاحیتوں کے ساتھ خداے تعالیٰ کے ہی ہو کر رہیں۔اس کی کبریائی کو تسلیم کریں۔ اسی کے احکام پر عمل کریں۔ اوامر کی پابندی اور نواہی سے اجتناب کو لازم سمجھیں۔ سچ کہا ہے کسی نے ؎
آزمائش ہے نشانِ بندگانِ محترم
جانچ ہوتی ہے اسی کی جس پہ ہوتا ہے کرم

قربانی قرآن و حدیث کی روشنی میں

قرآن کریم میں اللہ رب العزت نے اپنے حبیب پاک محمد رسول اللہﷺ (سال فیل/571ء—11ھ/632ء) کو نماز کے ساتھ قربانی کرنے کا بھی حکم دیا ہے۔ فرمان باری تعالیٰ ہے:
” فَصَلِّ لِرَبِّکَ وَ انْحَرْ ؕ﴿۲﴾ “(1)
یعنی اپنے رب کے لیے نماز پڑھا کرو اور قربانی کیا کرو۔
یہ عمل خیر جن دنوں میں کیا جاتا ہےرب تبارک و تعالیٰ نے ایک مقام پر قرآن عظیم میں اس کی قسم ارشاد فرمائی ہے:
” وَ الْفَجْرِ ۙ﴿۱﴾ وَ لَیَالٍ عَشْرٍ ۙ﴿۲﴾ وَّ الشَّفْعِ وَ الْوَتْرِ ۙ﴿۳﴾ وَ الَّیۡلِ اِذَا یَسْرِ ۚ﴿۴﴾ “(2)
یعنی قسم ہے مجھے فجر کی(یعنی عید قرباں کی فجر) اور دس راتوں کی (جو ذو الحجہ کی پہلی دس راتیں ہیں) اور قسم ہے جفت و طاق کی جو رمضان المبارک کی آخری راتیں ہیں اور قسم ہے شب معراج کی۔
احادیث طیبہ میں بھی قربانی کے بے شمار فضائل بیان کیے گئے ہیں۔ چناں چہ امام ابن ماجہ قدس سرہ (م273ھ) قربانی کے اجر و ثواب کے متعلق یہ حدیث نقل فرماتے ہیں:
“قالوا یا رسول اللہ! ما ھذہ الاضاحی؟ قال: سنۃ ابیکم ابراھیم (علیہ السلام) قالوا فما لنا فیھا یا رسول اللہ؟ قال: بکل شعرة حسنۃ، قالوا فالصوف یا رسول اللہ؟ قال بکل شعرۃ من الصوف حسنۃ۔”(3)
ترجمہ: صحابۂ کرام نے عرض کی: یارسول اللہ! قربانی کیا ہے؟ آپ نے ارشاد فرمایا: یہ تمھارے باپ ابراہیم علیہ السلام کی سنت ہے۔ صحابہ پھر عرض گذار ہوئے کہ اس میں کیا ثواب ہے؟ تو آپ نے جواب دیا: ہر بال کے بدلے میں نیکی ہے۔ صحابۂ کرام مزید دریافت کرتے ہیں: اون کا کیا حکم ہے؟ بارگاہِ رسالت سے جواب ملتاہے: اون کے ہر بال کے بدلے بھی نیکی ہے۔
امام ترمذی قدس سرہ (م279ھ) اپنی جامع میں حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنھا سے روایت کرتے ہیں کہ حضور ﷺ نے ارشاد فرمایا:
“ما عمل ابن آدم من عمل یوم النحر احب الہ اللہ من اھراق الدم وانہ لیاتی یوم القیامۃ بقرونھا واشعارھا واظلافھا وان الدم لیقع من اللہ بمکان قبل ان یقع بالارض فطیبوا بھا نفسا۔”(4)
ترجمہ: عید الاضحیٰ کے دن ابن آدم کا کوئی عمل اللہ تعالی کے نزدیک قربانی سے زیادہ پسندیدہ نہیں۔ قیامت کے دن قربانی کا جانور اپنے سینگوں، بالوں اور کھروں کے ساتھ آئے گا۔ قربانی کا خون زمین پر گرنے سے پہلے اللہ کے نزدیک مقبول ہو جاتا ہے، لہذا تم خوب اچھی طرح قربانی کرو۔
مندجہ بالا احادیث کریمہ سے قربانی کی فضیلت و اہمیت کا بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ اس لیے ہمیں صرف رضاے مولا کے حصول اور حکم الہی کی بجا آوری کی نیت سے قربانی کرنی چاہیے۔

 قربانی میں ہونے والی بے احتیاطیاں اور ان کا تدارک

قربانی شعائر اسلام میں سے ایک عظیم شعار ہے اس میں جس قدر احتیاط ضروری ہے عصر حاضر میں اتنی ہی بے احتیاطیاں دیکھنے کو مل رہی ہیں۔ ان کا تدارک اشد ضروری ہے۔ ذیل میں ان پر اجمالا گفتگو کی جا رہی ہے۔
قربانی میں عموما جو بے احتیاطیاں ہوتی ہیں وہ درج ذیل ہیں:
(1) صاحبِ نصاب کا اپنے نام سے قربانی نہ کرنا
(2) جانور کے سامنے چھری تیز کرنا
(3) جانور کو بھوکا پیاسا ذبح کرنا
(4) جانور کو تکلیف دیتے ہوئے ذبح کرنا
(5) ذبح کرتے وقت تین رگیں کاٹے بغیر چھوڑ دینا۔
(6) ذبیحہ کو آرام نہ دینا
(7) بغیر وزن کیے گوشت تقسیم کرنا
عام طور سے یہ دیکھا گیا ہے کہ صاحب نصاب اپنی طرف سے قربانی نہ کر کے دوسرے کا نام پیش کرتا ہے جب کہ اس کے اوپر قربانی واجب ہے۔ اس کا تدارک یوں ہوگا کہ قربانی کرنے والا قربانی کرنے سے پہلے معلوم کر لے کہ صاحب نصاب کون ہے؟ اور قربانی کس کی جانب سے ہونی ہے؟ پھر شرعی مسائل سے آگاہ کرے۔
یہ بھی اکثر جگہوں پر دیکھا گیا ہے کہ لوگ جانور کے سامنے چھری تیز کرتے ہیں اور کہیں کہیں تو ایسا بھی ہوتا ہے کہ جانور کو لٹا کر چھری تیز کرنے لگتے ہیں، اس سے جانور کو کتنی تکلیف ہوتی ہوگی اس کا اندازہ نہیں لگایا جا سکتا۔ اس کے تدارک کے لیے بھی قربانی کرنے والا شریعت کا مسئلہ عوام کو بتائے۔
جانور کو بھوکا پیاسا بہت کم ہی ذبح کیا جاتا ہےاکثر لوگ کھلا پلا کر کے ہی ذبح کرتے ہیں پھر بھی احتیاطاً قربانی کرنے والا پوچھ لے کہ جانور بھوکا پیاسا تو نہیں؟
کہیں کہیں یہ بھی ہوتا ہے کہ لوگ تکلیف دیتے ہوئے جانور کو ذبح کرتے ہیں۔ ایسا کرنا ایک بے زبان جانور پر ظلم سے کم نہیں اس کا تدارک یوں ممکن ہے کہ ذبح کا انتظام اس طرح کیا جائے کہ جانور پر تکلیف کا شائبہ بھی نہ رہے۔
ذبح کے وقت تین رگیں کاٹنا ضروری ہے اور ذبح کرنے والا اگر ایک یا دو رگ کاٹ کر چھری دوسرے کو دےدے تو اس پر بھی بسم اللہ اللہ اکبر پڑھنا ضروری ہے۔ نہ ُپڑھے تو ذبیحہ حلال نہ ہوگا۔ اکثر جگہوں پر اس میں بے احتیاطی دیکھی گئی ہے۔ لہذا اس میں احتیاط کی اشد ضرورت ہے۔
بعض جگہوں پر یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ ذبح کے فوراً بعد کھال نکالنا شروع کر دیتے ہیں جانور کو ٹھنڈا بھی نہیں ہونے دیتے۔ ایسے موقع پر قربانی کرنے والے کو چاہیے کہ اس بے احتیاطی سے لوگوں کو روکے اور جانور کو ٹھنڈا ہونے دے۔
مشترکہ قربانی میں ہر حصےدار کو وزن کر کے برابر برابر گوشت تقسیم کرنا ضروری ہے اگر بغیر وزن کے گوشت تقسیم کیا اور کسی کو کم یا زیادہ ملا تو حق تلفی ہوگی اور یہ بندے کے معاف کرنے سے معاف بھی نہیں ہوگا کیوں کہ یہ شریعت کا حق ہے۔ لہذا اس میں زیادہ احتیاط کی ضرورت ہے۔
ان تمام بے احتیاطیوں کی بنیادی وجہ جہالت ہے۔ جاہل لوگ ہی ایسی بے احتیاطیوں کے شکار ہوتے ہین لہذا علما کے لیے ضروری ہے کہ اپنی تقریر و تحریر میں ان بے احتیاطیوں پر روشنی ڈالیں اور تدارک کے لیے کوشاں رہیں۔

قربانی سے متعلق مخالفین کے اعتراضات اور ان کے جوابات

قربانی کے متعلق مخالفین کے اعتراضات کا سرسری طور پر جائزہ لیا جائے تو تین طرح کے اعتراضات عموما سامنے آتے ہیں جو درج ذیل ہیں:
(1) اسلام ذبحِ بقر کی اجازت نہیں دیتا پھر قربانی کیوں؟(ہنود)(5)
(2) اسلام میں گوشت خوری جائز نہیں پھر گوشت خوری کیوں؟(نام نہاد مسلمان)(6)
(3) اسلام میں چار دن قربانی جائز ہے پھر تین ہی دن کیوں؟(نام نہاد اہل حدیث)(7)
ان سب پر تفصیلی گفتگو کی جائے تو اس کے لیے اس مضمون کے محدود صفحات تنگ دامنی کا شکوہ کیے بغیر نہیں رہ سکتے۔ لہذا اختصار اور جامعیت کے ساتھ قرآن و حدیث کی روشنی میں ان کا جواب ملاحظہ فرمائیں۔

  پہلےاعتراض کا جواب

مسٹر ٹھاکر داس نے اپنی کتاب “ہندو مسلم مانس” میں لکھا کہ اسلام ذبح بقر کی اجازت نہیں دیتا اس کے جواب کے لیے یہی ایک آیت کافی ہے جس میں صراحت کے ساتھ پروردگار کائنات نے گٙوکشی کا حکم فرمایا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ”
“إِنَّ اللّهَ يَأْمُرُكُمْ أَنْ تَذْبَحُواْ بَقَرَةً “(8)
بے شک اللہ تمھیں حکم دیتا ہے کہ ایک گاے ذبح کرو۔

 دوسرے اعتراض کا جواب

مسٹر سلمان ایڈوکیٹ نے دِشا سنکیت میں لکھا کہ اسلام گوشت خوری کی اجازت نہیں دیتا۔ اس کے جواب میں دو آیتیں پیش ہیں جن میں خداے تعالیٰ نے صریح لفظوں میں گوشت خوری کا حکم فرمایا ہے۔ فرمان باری ہے:
“فَكُلُواْ مِمَّا ذُكِرَ اسْمُ اللّهِ عَلَيْهِ إِن كُنتُمْ بِآيَاتِهِ مُؤْمِنِينَ” (9)
سو تم اس (ذبیحہ) سے کھایا کرو جس پر (ذبح کے وقت) اللہ کا نام لیا گیا ہو اگر تم اس کی آیتوں پر ایمان رکھنے والے ہو۔
“وَمَا لَكُمْ أَلاَّ تَأْكُلُواْ مِمَّا ذُكِرَ اسْمُ اللّهِ عَلَيْهِ وَقَدْ فَصَّلَ لَكُم مَّا حَرَّمَ عَلَيْكُمْ إِلاَّ مَا اضْطُرِرْتُمْ إِلَيْهِ وَإِنَّ كَثِيرًا لَّيُضِلُّونَ بِأَهْوَائِهِم بِغَيْرِ عِلْمٍ إِنَّ رَبَّكَ هُوَ أَعْلَمُ بِالْمُعْتَدِينَ” (10)
اور تمھیں کیا ہے کہ تم اس (ذبیحہ) سے نہیں کھاتے جس پر (ذبح کے وقت) اللہ کا نام لیا گیا ہے (تم ان حلال جانوروں کو بلاوجہ حرام ٹھہراتے ہو)؟ حالاں کہ اس نے تمھارے لیے ان (تمام) چیزوں کو تفصیلاً بیان کر دیا ہے جو اس نے تم پر حرام کی ہیں، سواے اس (صورت) کے کہ تم (محض جان بچانے کے لیے) ان (کے بقدرِ حاجت کھانے) کی طرف انتہائی مجبور ہو جاؤ (سو اب تم اپنی طرف سے اور چیزوں کو مزید حرام نہ ٹھہرایا کرو)۔ بےشک بہت سے لوگ بغیر (پختہ) علم کے اپنی خواہشات (اور من گھڑت تصورات) کے ذریعے (لوگوں کو) بہکاتے رہتے ہیں، اور یقینا آپ کا ربّ حد سے تجاوز کرنے والوں کو خوب جانتا ہے۔
ان دونوں آیتوں میں صراحت کے ساتھ گوشت خوری کا حکم موجود ہے مگر ؎
گر نہ بیند بروز شپرہ چشم
چشمۂ آفتاب را چہ گناہ؟

 تیسرے اعتراض کا جواب

نام نہاد اہل حدیث غیر مقلدین کا کہنا ہے کہ قربانی چار دن جائز ہے۔ جب کہ رسول کریم علیہ الصلاۃ والتسلیم نے قربانی کا وقت تین دن متعین فرمایا ہے۔
امام مالک بن انس مدنی قدس سرہ (م179ھ) نے اپنی موطا شریف میں یہ حدیث نقل فرمائی ہے:
“حدثنی یحیی مالک عن نافع ان عبد اللہ ابن عمر قال: الاضحیٰ یوم النحر و ومان بعدہ۔” (11)
ترجمہ: حضرت نافع سے مروی ہے کہ حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنھما نے فرمایا: قربانی کا وقت دسویں ذوالحجہ (یوم النحر) اور اس کے بعد دو دن ہے۔
قاضی سلیمان بن خلف باجی قدس سرہ (م464ھ) مذکورہ حدیث کی تشریح کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
“یرید ان یوم الاضحی اولا یوم الذبح ثم الیومان بعدہ وان الیوم الرابع لیس من ایام الذبح۔” (12)
ترجمہ: اس حدیث سے مراد یہ ہے کہ عید الاضحی یعنی دسویں ذوالحجہ قربانی کا پہلا دن اور اس کے بعد دو دن قربانی کا وقت ہے۔ چوتھا دن (13ویں ذوالحجہ) قربانی کا دن نہیں۔
مشہور محدث حافظ ابن عبدالبر قدس سرہ (م463ھ) فرماتے ہیں:
“‘الایام المعدودات’ ھی ایام الذبح و ذلک یوم النحر ویومان بعدہ و روی ذلک عن علی وابن عمر وابن عباس ایضا وعلی ھذا القول اکثر الناس۔۔۔ وقال مالک و ابو حنیفۃ واحمد ابن حنبل واکثر اھل العلم : الاضحی یوم النحر ویومان بعدہ”(13)
ترجمہ آیت کریمہ “واذکروا اللہ فی ایام معدودات” میں ‘ایام معدودات’ سے قربانی کے ایام مراد ہیں۔ اور قربانی کے ایام تین دن ہیں۔ دسویں ذوالحجہ اور اس کے بعد 2 دن۔ امام مالک، امام اعظم اور ان کے اصحاب کے علاوہ سفیان ثوری، امام احمد بن حنبل اور اکثر اہل علم کا موقف یہی ہے کہ قربانی کا وقت 3 دن ہے۔
مندرجہ بالا شواہد کی روشنی میں یہ بات واضح ہو گئی کہ قربانی کا وقت صرف تین دن ہے۔ چوتھے دن قربانی کرنا جائز نہیں۔ عوام اہل سنت کو غیر مقلدین کے فریب سے بچنا چاہیے اور ان کی باتوں سے بہت دور رہنا چاہیے۔

مصادر و مراجع

(1) سورۃ الکوثر، آیت:2
(2) سورۃ الفجر، آیت:1،2،3،4
(3) سنن ابن ماجہ، کتاب الضحیہ، ص: 535
(4) جامع الترمذی، کتاب الاضحیہ، ص: 436
(5) ہندو مسلم مانس، ص:21، مصنف: ٹھاکر داس بنگ، ناشر: سرو سیوا سنگھ بنارس، ایڈیشن: 2002
(6) دِشا سنکیت، 21، مارچ، 1999، مضمون نگار: ایس ایم سلمان ایڈوکیٹ
(7) روزنامہ انقلاب 13 اکتوبر 2013، مراسلہ نگار محمد سعد، قبانی کے احکام ص: 92 از مختار احمد
(8) سورۃ البقرہ، آیت: 67
(9) سورۃ الانعام، آیت: 118
(10) سورۃ الانعام، آیت: 119
(11) موطا امام مالک، کتاب الاضحیہ، حدیث: 1052
(12) المنقی شرح الموطا، 4/193
(13) فتح المالک شرح الموطا امام المالک ، 7/20
(14)سورۃ البقرہ، آیت:203

 

اسلام اور گوشت خوری — قرآن، سائنس اور ہندو دھرم کی روشنی میں

تحریر: محمد ناصرؔ منیری
منیری فاونڈیشن، دہلی
ای-میل: nasirmaneri92@gmail.com

اسلام ایک فطری مذہب ہے، جس کے تمام احکام حکمت سے لبریز ہیں۔ خداے احکم الحاکمین نے جو بھی حکم صادر فرمایا ہے اس میں کوئی نہ کوئی مصلحت ضرور ہے۔ نماز، روزہ، زکات اور قربانی وغیرہ تمام معمولات پر از حکمت ہیں۔ یوں ہی گوشت خوری بھی حکمت سے خالی نہیں۔ آج کل کچھ لوگ اسلام پر یہ اعتراض کرتے ہیں کہ جانور کو ہلاک کرنا ایک ظالمانہ فعل ہے پھر مسلمان گوشت کیوں کھاتے ہیں؟ یہ محض جاہلانہ و احمقانہ اعتراض ہے۔ ذیل میں اس کے دفاع میں نقلی و عقلی دلائل ملاحظہ کریں:

گوشت خوری قرآن کی روشنی میں:

قرآنِ حکیم میں پروردگار کائنات کا ارشاد پاک ہے:
(1) إِنَّ اللّهَ يَأْمُرُكُمْ أَنْ تَذْبَحُواْ بَقَرَةً
بے شک اللہ تمھیں حکم دیتا ہے کہ ایک گاے ذبح کرو۔
(سورۃ البقرہ ،آیت: 67)
(2) فَكُلُواْ مِمَّا ذُكِرَ اسْمُ اللّهِ عَلَيْهِ إِن كُنتُمْ بِآيَاتِهِ مُؤْمِنِينَ
سو تم اس (ذبیحہ) سے کھایا کرو جس پر (ذبح کے وقت) ﷲ کا نام لیا گیا ہو اگر تم اس کی آیتوں پر ایمان رکھنے والے ہو۔
(سورۃ الانعام، آیت : 116)
(3) وَمَا لَكُمْ أَلاَّ تَأْكُلُواْ مِمَّا ذُكِرَ اسْمُ اللّهِ عَلَيْهِ وَقَدْ فَصَّلَ لَكُم مَّا حَرَّمَ عَلَيْكُمْ إِلاَّ مَا اضْطُرِرْتُمْ إِلَيْهِ وَإِنَّ كَثِيرًا لَّيُضِلُّونَ بِأَهْوَائِهِم بِغَيْرِ عِلْمٍ إِنَّ رَبَّكَ هُوَ أَعْلَمُ بِالْمُعْتَدِينَ
اور تمھیں کیا ہے کہ تم اس (ذبیحہ) سے نہیں کھاتے جس پر (ذبح کے وقت) ﷲ کا نام لیا گیا ہے (تم ان حلال جانوروں کو بلاوجہ حرام ٹھہراتے ہو)؟ حالاں کہ اس نے تمھارے لیے ان (تمام) چیزوں کو تفصیلاً بیان کر دیا ہے جو اس نے تم پر حرام کی ہیں، سواے اس (صورت) کے کہ تم (محض جان بچانے کے لیے) ان (کے بقدرِ حاجت کھانے) کی طرف انتہائی مجبور ہو جاؤ (سو اب تم اپنی طرف سے اور چیزوں کو مزید حرام نہ ٹھہرایا کرو)۔ بےشک بہت سے لوگ بغیر (پختہ) علم کے اپنی خواہشات (اور من گھڑت تصورات) کے ذریعے (لوگوں کو) بہکاتے رہتے ہیں، اور یقینا آپ کا ربّ حد سے تجاوز کرنے والوں کو خوب جانتا ہے۔
(سورۃ الانعام ، آیت: 117)
(4) وَالْأَنْعَامَ خَلَقَهَا لَكُمْ فِيهَا دِفْءٌ وَمَنَافِعُ وَمِنْهَا تَأْكُلُونَ
اور اُسی نے تمھارے لیے چوپائے پیدا فرمائے، ان میں تمہارے لیے گرم لباس ہے اور (دوسرے) فوائد ہیں اور ان میں سے بعض کو تم کھاتے (بھی) ہو۔
(سورۃ النحل، آیت : 5)
(5) وَإِنَّ لَكُمْ فِي الْأَنْعَامِ لَعِبْرَةً نُّسقِيكُم مِّمَّا فِي بُطُونِهَا وَلَكُمْ فِيهَا مَنَافِعُ كَثِيرَةٌ وَمِنْهَا تَأْكُلُونَ
اور بےشک تمھارے لیے چوپایوں میں (بھی) غور طلب پہلو ہیں، جو کچھ ان کے شکموں میں ہوتا ہے ہم تمھیں اس میں سے (بعض اجزا کو دودھ بنا کر) پلاتے ہیں اور تمھارے لیے ان میں (اور بھی) بہت سے فوائد ہیں اور تم ان میں سے (بعض کو) کھاتے (بھی) ہو۔
(سورۃ المومنون، آیت : 21)

گوشت خوری سائنس کی روشنی میں:

سائنس کی رو سے غیر نباتاتی خوراک (یعنی انڈا، مچھلی اور گوشت وغیرہ) پروٹین کا بہت اچھا ذریعہ ہے۔ اس میں حیاتیاتی طور پر مکمل پروٹین یعنی آٹھ (8) ضروری امائنو ایسڈز پائے جاتے ہیں، جنھیں جسم تیار نہیں کرتا۔ اس لیے یہ خوراک کے ذریعے سے لینے چاہیئیں۔ گوشت میں فولاد، ویٹامن بی-1 (Vitamin B1) اور نیاسن (Niacin) بھی شامل ہوتے ہیں۔
نیز اگر آپ سبزی خور (Vegetarian) جانوروں یعنی گاے، بھیڑ اور بکری وغیرہ کے دانتوں کا مشاہدہ کریں تو آپ حیران کن حد تک ایک جیسے پائیں گے۔ ان تمام جانوروں کے دانت چوڑے ہوتے ہیں، جو سبز پتوں والی خوراک کے لیے موزوں ہیں۔ اور اگر آپ گوشت خور جانور جیسے شیر، چیتا اور کتا وغیرہ کے دانتوں کا مشاہدہ کریں تو ان کے دانت نوکیلے ہوتے ہیں، جو گوشت خوری کے لیے موزوں ہوتے ہیں۔ اور اگر آپ انسانی دانتوں کا مشاہدہ کریں تو آپ دیکھیں گے کہ ان میں چوڑے اور نوکیلے دونوں قسم کے دانت پائے جاتے ہیں۔ اس لیے ان کے دانت سبزی اور گوشت دونوں قسم کی خوراک کے لیے موزوں ہیں۔ یعنی وہ ہمہ خور ہیں۔ یہاں ایک سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر اللہ نے انسان کو محض سبزی خور بنایا ہوتا تو اس کے نوکیلے دانت کیوں ہوتے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔؟؟؟
یہ منطقی بات ہے کہ وہ جانتا تھا کہ انسان کو دونوں قسم کی خوراک کی ضرورت پڑے گی۔
یوں ہی چرندوں کا نظام انہضام صرف پتوں والی خوراک ہضم کر سکتا ہے اور اگر گوشت خور جانوروں کا نظام انہضام صرف گوشت ہضم کر سکتا ہے۔ لیکن انسان کا نظام انہضام سبزیوں اور گوشت دونوں قسم کی غذا ہضم کر سکتا ہے۔ اگر اللہ چاہتا کہ ہم صرف سبزیاں کھائیں تو پھر اس نے ہمیں ایسا نظام انہضام کیوں دیا جو سبزیوں اور گوشت دونوں قسم کی غذاؤں کو ہضم کر سکے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔؟؟؟

گوشت خوری ہندو دھرم کی روشنی میں:

ہندو دھرم کی مذہبی کتابوں سے بھی گوشت خوری کا ثبوت ملتا ہے۔ آج کل کے ہندو جو گوشت خوری سے روکتے ہیں در اصل وہ دوسرے مذاہب جیسے : جین دھرم اور بودھ دھرم وغیرہ سے متاثر ہو گئے ہیں اور اپنے راستے سے بھٹک گئے ہیں ورنہ ان کی مذہبی کتابیں تو گوشت خوری کا حکم دیتی ہیں مزید بر آں اس کی فضیلتیں بیان کرتی ہیں۔ ذیل میں دلیلیں ملاحظہ ہوں:
(1) جو شخص ان جانوروں کا گوشت کھائے جن کا گوشت کھایا جاتا ہے تو وہ کوئی برا کام نہیں کرتا خواہ وہ ایسا روزانہ کرے کیوں کہ خدا نے کچھ چیزیں کھانے کے لیے پیدا کی ہیں اور کچھ کو ان چیزوں کو کھانے کے لیے پیدا کیا ہے۔
(منو سمرتی، باب: 5، سطر: 3)
(2) قربانی کا گوشت کھانا صحیح ہے کیوں کہ یہی دیوتاؤں کا روایتی طریقہ رہا ہے۔
(منو سمرتی، باب:5، سطر: 31)
(4) مہا بھارت میں تو یہاں تک لکھا ہے کہ اگر چاول، جَو، چقندر اور پھل وغیرہ باپ دادا کو پیش کیے جائیں تو ان کی آتما کو ایک مہینے تک شانتی ملتی رہے گی۔
مچھلی پیش کرنے سے 2 مہینے تک
بھیڑ کے گوشت سے 3 مہینے تک
خرگوش کے گوشت سے 4 مہینے تک
بکری کے گوشت سے 5 مہینے تک
خنزیر کے گوشت سے 6 مہینے تک۔
پرندوں کے گوشت سے 7 مہینے تک
ہرن کے گوشت سے 8،9 مہینے تک
گاے کے گوشت سے 10 مہینے تک۔
بھینس کے گوشت سے 11 مہینے تک۔
اور نیل گاے کے گوشت سے پورے سال آتما کو شانتی ملتی رہے گی۔
(مہا بھارت، انوساشن پوروا، باب:88)
قارئین! آپ نے ملاحظہ فرمایا کہ گوشت خوری صرف اسلامی اور سائنسی نقطۂ نظر سے ہی نہیں بلکہ ہندو دھرم کے اعتبار سے بھی صحیح ہے جیسا کہ ان کی مذہبی کتابوں سے ثابت ہوا۔

Comments

Post a Comment

Popular posts from this blog