Posts

حضرت علی حسین اشرفیؔ کچھوچھوی علیہ ا

حضرت علی حسین اشرفیؔ  کچھوچھوی علیہ الرحمہ کی شاعری کا ادبی مطالعہ از قلم:  ناصر منیری، بانی و صدر منیری فاؤنڈیشن منیر شریف، پٹنہ زبان و ادب کی اہمیت اور قدر و منزلت بہت ہی زیادہ ہے۔ دنیا کے مختلف خطے اور علاقے میں بھانت بھانت کی بولیاں بولی جاتی ہیں۔ انواع و اقسام کی زبانیں موجود ہیں۔ ماہر لسانیات کا کہنا ہے کہ ہر بارہ کوس پر پانی اور بانی میں تبدیلی آجاتی ہے۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ دنیا کے الگ الگ ملکوں، خطوں اور علاقوں میں الگ الگ زبانیں اپنا وجود رکھتی ہیں انھی میں سے ایک شیریں، سہل اور بہترین زبان اردو ہے۔ جو بیش تر ممالک میں نہ صرف بولی اور سمجھی جاتی ہے بلکہ لکھی اور پڑھی بھی جاتی ہے۔ ہند آریائی میں سے کھڑی بولی سے معرض وجود میں آنے والی اس زبان کو بین الاقوامی زبان ہونے کا شرف حاصل ہے۔ داغؔ دہلوی کے شعر کو قدرے تصرف کے ساتھ پیش کرنا بےجا نہ ہوگا کہ اردو ہے جس کا نام ہم ہی جانتے ہیں داغؔ       سارے جہاں میں دھوم ہماری زباں کی ہے اس میں کوئی دو راے نہیں کہ کسی بھی زبان کی بقا اور سالمیت کے ضامن اس کے ادبا اور شعرا ہوا کرتے ہیں۔ ...

داعیِ اتحادِ امت، ناشرِ پیغام امن و محبت، پیرِ طریقت، رہبرِ راہِ شریعت، حضور طارقِ ملت، حضرت سید شاہ طارق عنایت اللہ فردوسی حفظہ اللہ القوی سجادہ نشیں خانقاہِ منیر شریف، متولی درگاہ منیر شریف و جنرل سکریٹری آل انڈیا صوفی سجادہ نشیں کونسل کی شانِ والا تبار و بارگاہِ عالی جاہ و بےکس پناہ میں ناچیز کی جانب سے قصیدے کی شکل میں منظوم خراج عقیدت۔۔۔दाई-ए-इत्तिहाद-ए-उम्मत, नाशिर-ए-पैग़ाम-ए-अमन व मोहब्बत, पीरे तरीक़त, रहबरे राहे शरीअत, हुज़ूर तारिक़-ए-मिल्लत, हज़रत सैयद शाह तारिक़ इनायतुल्लाह फिरदौसी हफ़िज़हुल्लाहुल क़वी सज्जादा नशीं ख़ानक़ाह-ए-मनेर शरीफ, मुतवल्ली दरगाह मनेर शरीफ व जनरल सेक्रेटरी ऑल इंडिया सूफी सज्जादा नशीं कौंसिल की शाने वाला तबार और बारगाहे आली जाह व बेकस पनाह में नाचीज़ की जानिब से कसीदे की शक्ल में मंज़ूम ख़राजे अक़ीदत। فضلِ ربُّ الوریٰ میرے طارق پِیا آلِ نور الہدیٰ میرے طارق پِیاफ़ज़्ले रब्बुल वरा, मेरे तारिक़ पियाआले नूरुल हुदा, मेरे तारिक़ पिया مرتضیٰ کی عطا میرے طارق پِیا نورِ خیرالنسا میرے طارق پِیاमुर्तज़ा की अता, मेरे तारिक़ पियानूरे ख़ैरुन्निसा, मेरे तारिक़ पिया باغِ حسنین کا اِک مہکتا گلاباورکتابِ ہُدیٰ میرے طارق پِیاबाग़-ए-हसनैन का इक महकता गुलाबऔर किताबे हुदा, मेरे तारिक़ पिया انبیا، اولیا، اتقیا، اصفیاکی عنایت، عطا میرے طارق پِیاअम्बिया, औलिया, अतक़िया, अस्फियाकी इनायत, अता, मेरे तारिक़ पिया سر پہ تاجِ فقیہی سجا آپ کےآپ تاجِ ہُدیٰ میرے طارق پِیاसर पे ताजे फ़क़ीहि सजा आप केआप ताजे हुदा, मेरे तारिक़ पिया آپ حضرت سرائل کی ہیں اک عطااور اہلِ سخا میرے طارق پِیاआप हज़रत सराइल की हैं इक अताऔर अहले सख़ा, मेरे तारिक़ पिया آپ مخدوم یحیی کا فیضان ہیںان کی ہیں اِک دعا میرے طارق پِیاआप मख़्दूम यहया का फैज़ान हैंउन की हैं इक दुआ, मेरे तारिक़ पिया فیضِ مخدوم شرفا کا ہے یہ اثرآپ قمرِ ہدیٰ میرے طارق پِیاफ़ैज़े मख़्दूम शरफ़ा का है ये असरआप क़मरे हुदा, मेरे तारिक़ पिया کوئی وقتِ ضُحیٰ میں جو رخ دیکھ لےآپ شمسِ ضُحیٰ میرے طارق پِیاकोई वक़्ते जुहा में जो रुख़ देख लेआप शम्से दुहा, मेरे तारिक़ पिया کوئی تاریک شب میں جو زیارت کرےدیکھے بدرِ دُجیٰ میرے طارق پِیاकोई तारीक शब में जो ज़्यारत करेदेखे बदरे दुजा, मेरे तारिक़ पिया کشتیِ دین و ملت اور امت کے ہیںآپ اِک ناخدا میرے طارق پِیاकश्तिये दीनो मिल्लत और उम्मत के हैंआप इक ना-ख़ुदा, मेरे तारिक़ पिया پارسائی کرے ناز جس پہ وہ ہیںصاحبِ اِتّقا میرے طارق پِیاपारसाई करे नाज़ जिस पे वो हैंसाहिबे इत्तिक़ा, मेरे तारिक़ पिया ہیں مبلغ و داعی یہ اسلام کےرہبر و رہنما میرے طارق پِیاहैं मुबल्लिग़ व दाई ये इस्लाम केरहबरो रहनुमा, मेरे तारिक़ पिया ہوں مریدوں کے جھرمٹ میں لگتا ہے یوںچاند ہو بَر سما میرے طارق پِیاहों मुरीदों के झुरमुट में लगता है यूँचाँद हो बर समा, मेरे तारिक़ पियाفیض یابوں میں "ناصر منیری" بھی ہےہو سدا یہ عطا میرے طارق پِیاफ़ैज़याबों में "नासिर मनेरी" भी हैहो सदा ये अता, मेरे तारिक़ पिया

خانوادہء مخدوم یحیی منیری اور خدمتِ خلقاز قلم: ناچیز ناصر منیری کان اللہ لہڈائریکٹر ریسرچ سینٹر خانقاہ منیر شریف، پٹنہرابطہ نمبر: 9905763238۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔سلطان المحققین، برہان العارفین، مخدوم جہاں، قطب زماں حضرت مخدوم شرف الدین احمد یحیی منیری قدس سرہ القوی اپنے عہد کے عظیم محقق، محدث، مصنف اور صوفی بزرگ گذرے ہیں۔آپ 661ھ کو صوبہ بہار ضلع پٹنہ کے عظیم و قدیم شہر "منیر شریف" میں تولد ہوئے۔ تعلیم و تربیت اپنے والد ماجد مخدوم منیر حضرت کمال الدین یحیی منیری (570ھ – 690ھ) اور علامہ ابو توامہ بخاری علیہ الرحمہ سے حاصل کی۔ بیعت و خلافت حضرت خواجہ نجیب الدین فردوسی دہلوی علیہ الرحمہ (م:690ھ) سے حاصل ہے۔ آپ کا وصال پر ملال 6 شوال المکرم 782ھ کو ہوا۔ اور مزار مبارک صوبہ بہار ضلع نالندہ کے قصبہ "بہار شریف" میں ہے۔آپ جہاں صوفیِ با صفا تھے وہیں ولیِ کامل، مرشد برحق، شیخ طریقت اور عظیم فلسفی بھی تھے۔آپ کی تحریروں میں منقولات کے ساتھ ساتھ معقولات کا بھی خاصا مواد ملتا ہے۔ آپ اپنی باتوں کو جہاں منقولاتی دلائل مثلا قرآن و حدیث اور اقوال ائمہ، فقہا و صوفیہ سے مدلل و مبرہن کرتے ہیں وہیں فلسفیانہ ابحاث سے معقول بھی کرتے نظر آتے ہیں۔شیخ عبدالماجد دریاآبادی کے بقول علم فلسفہ میں آپ کا مرتبہ بہت بلند تھا۔ وہ اپنی کتاب 'نظام تعلیم و تربیت' میں یہاں تک لکھتے ہیں کہ حیرت ہوتی ہے کہ ان کے کلام میں سطر دو سطر نہیں بلکہ صفحے کے صفحے ایسے نظر آتے ہیں کہ گویا موجودہ زمانے کے مغربی مفکرین کی کتابوں کا لفظی ترجمہ ہے۔ کانٹ، ہیگل، برکلے اور ہیوم ازیں قبیل فلاسفہء جدید کے نظریات جن پر موجودہ فلسفے کو ناز ہے ان کی کتابوں میں بھرے پڑے ہیں۔اس کے علاوہ تفسیر و حدیث اور فقہ و افتا میں بھی آپ کا مرتبہ بہت بلند ہے۔ صاحب سیرة الشرف کے بقول آپ فقہ میں اجتہاد کے مرتبے پر فائز تھے۔ آپ کے تفقہ فی الدین کا عالم یہ تھا کہ قرآن و حدیث سے مسائل کا استنباط کرنا، اور پھر اس پر عقلی دلایل قایم کرنا آپ کے نزدیک معمولی بات تھی۔جہاں آپ عظیم محقق، مفسر، محدث، مجتہد اور فقیہ و فلسفی تھے وہیں آپ کا مجددانہ کردار بھی انتہائی اہم رہا ہے۔ آپ کے تجدید و احیا کے کارہاے نمایاں ایک صدی پر محیط ہیں۔ بندگان خدا کی خاصی تعداد آپ کے دست حق پرست پر تائب و مشرف بہ اسلام ہوئی۔ آج بھی آپ کے مکتوبات خلق خدا کے لیے مشعل راہ ہیں اور دنیا کی مختلف زبانوں میں منتقل ہو کر لوگوں کے فلاح و اصلاح کا ضامن ہیں۔ آپ کے تجدیدی کارناموں کو شیخ ابوالحسن علی ندوی نے اپنی تاریخی کتاب 'تاریخ دعوت و عزیمت' کی تیسری جلد میں بڑی شرح و بسط کے ساتھ تحریر کیا ہے۔ان سب کے ساتھ ساتھ وہ ایک عظیم انسان بھی تھے اور انسانیت کے ہم درد بھی۔ اپنے سینے میں ایک درد مند دل بھی رکھتے تھے۔ کسی بھی غیر انسانی و غیر اخلاقی حرکت پر ان کا دل دھڑک اٹھتا تھا بقول امیر مینائی۔۔خنجر لگے کسی کو تڑپتے ہیں ہم امیرسارے جہاں کا درد ہمارے جگر میں ہےآپ نے اپنی تعلیمات میں جگہ جگہ انسانیت کا پیغام اور خدمت خلق کا درس دیا ہے۔ آپ کی انھی تعلیمات کو یہاں پیش کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ سلسلہء تعلیمات مخدوم جہاں کی یہ پہلی کڑی ہے۔ ان شاء اللہ العزیز اس سلسلے کی اور بھی کتابیں سلسلہ وار پیش کی جاتی رہیں گی۔زندگی وہ جو دوسروں کے کام آئے"اے بھائی! اس اندھیری دنیا میں اپنے قلم، زبان، مال اور مرتبے سے جہاں تک ہو سکے ضرورت مندوں کو راحت پہنچاؤ، برادر عزیز کے مقام میں روزہ، نماز اور نوافل جو بھی ہیں اچھے ہیں لیکن لوگوں کے دلوں کو راحت و آرام پہنچانے سے زیادہ فائدہ مند کام اور کوئی نہیں۔"ضرورت مندوں کی ضرورت پوری کرنامنقول ہےکہ خواجہ بشر حافی رحمۃ اللہ علیہ سے لوگوں نے کہا : فلاں بادشاہ تمام رات نماز میں کھڑا رہتا ہے۔ فرمایا: اس نے اپنا کام چھوڑ دیا ہےاور دوسروں کے کاموں کو اختیار کیا ہے۔ لوگوں نے کہا اسے ذرا تفصیل سے کہا جائے۔ فرمایا: اس کا کام بھوکوں کو کھانا کھلانا، ننگوں کو کپڑا پہنانااور حاجت مندوں کی حاجت روائی کرنا ہے۔ رات بھر نماز اور ہر روز روزہ یہ دوسروں کا کام ہے اس کا نہیں۔ اسی کو کہا ہے ؎نیست دنیا بد اگر کاری کنیبد شود گر عزم دنیاوی کنیتخم امروزینہ فردا بر دہدورنہ کارے اے دریغا بر دہد)یعنی دنیا بری نہیں ہے اگر تم اس دنیاوی دولت سے اچھے کام کرو۔ بری اس وقت ہو جاتی ہے جب تم اس سے خزانہ بھرنے کا قصد کرتے ہو۔ آج کی تخم ریزی سے کل پھل ملے گا اور اگر تو بیج نہیں بوتا تو پھل کیا ہوگا(مانگنے سے پہلے دینا"اور اگر تم کسی کو کچھ دو تو کوشش کرو کہ سوال کرنے سےقبل دو۔ اہل معرفت اور اہل مروت کا قول ہے:السوال وان اقل ثمن النوال ان اجل سوال تھوڑا بھی عنایت کی قیمت بن جاتا ہے چاہے عنایت بڑی کیوں نہ ہو۔یعنی امداد تھوڑی ہو یا زیادہ سوال اس کی قیمت بن جاتا ہے اگر چہ کتنا ہی زیادہ دے۔ سمجھے کہ کچھ بھی نہیں دیا۔ اس لیے کہ دنیا لا شَے ہے(دنیا کوئی چیز نہیں(اپنا سب کچھ ضرورت مندوں میں لٹا دینا"امام شبلی رحمۃ اللہ علیہ کا قول ہے کہ اگر ساری دنیا میری ملک ہو جائے تو ان سب کا ایک لقمہ بنا کر میں کسی بھوکے کے منہ میں رکھ دوں پھر بھی مجھے اس پر ترس آئے ؎ملک دنیا را کہ بنیادے نہندگر ہ بس عالی ست بربادے نہندمال و ملک ایں جہاں جز ہیچ نیستگر ہمہ یابی چو من ہم ہیچ نیست)دنیا کی ملک و عمارت کی بنیاد جو رکھتے ہیں وہ کتنی ہی عالی شان کیوں نہ ہو اس کی بنیاد ہوا پر رکھی ہے اس دنیا کی دولت اور اس کی ملکیت سوالیے الجھن و جھنجھٹ کے اور کچھ نہیں اور تو سب کچھ پا لے جب بھی مری کچھ بھی نہیں۔(")مکتوبات دو صدی، مکتوب نمبر : 47، صفحہ: نمبر237،238(زبان و قلم اور روپے پیسوں سے خلق خدا کی خدمت کرواے بھائی ! الدنیا مزرعۃ الآخرۃ (دنیا آخرت کی کھیتی ہے) جہاں تک ممکن ہو آخرت کی کمائی کرنے میں مشغول ہونا چاہیے۔ اپنے ہاتھ ، زبان اور قلم و کاغذ اور اپنے نقد و جنس سے لوگوں کے دلوں کو خوش کریں، راحت و آرام پہنچائیں اور اس عمل کو ایک عظیم کام جانیں۔ دنیا کے عیوب، اس کی آفتیں اتنی زیادہ ہیں کہ جلد کی جلد سیاہ کی جائیں تو بھی اس کے دسویں حصے کا دسواں حصہ بیان نہ ہو سکے لیکن اس کے ساتھ ساتھ اسی دنیا میں اس کا ایک ہنر بھی ہے کہ یہ مزرعۂ آخرت ہےیعنی آخرت کمانے کی جگہ ہے۔"اللہ تک پہنچنے کے لیے خدمت خلق سے بڑھ کر کوئی راہ نہیں"ایک بزرگ سے لوگوں نے پوچھا : حق سبحانہ و تعالیٰ تک پہنچنے کی راہ کتنی ہے؟ انھوں نے فرمایا: موجودات میں جتنے ذرے ہیں ان میں سے ہر ایک ذرے کی مقدار میں اللہ پاک تک پہنچنے کی راہ ہے۔ کوئی راہ لوگوں کی دل جوئی کر نے والوں کو خوش کرنے سے زیادہ فائدہ مند اور نزدیک تر نہیں ہے اور میں نے اسی راہ سے خدا کو پایا اور اپنے مریدوں کو اسی کی وصیت کرتا ہوں۔"ایک ضرورت کے بدلے ستر پوری ہوں گی"اے بھائی! شریعت کا حکم ہے: من قضی لاخیہ المسلم حاجت قضی اللہ لہ سبعین حاجۃ)یعنی جو شخص اپنے مسلمان بھائی کی ایک حاجت پوری کرے اللہ تعالیٰ اس کی ستر حاجتیں پوری کرتا ہے۔("ضرورت مند کو کپڑے پہنانے کا ثوابوقال علیہ السلام: من کسی مومنا کسی اللہ یوم القیامۃ الف حلۃ وقضی اللہ لہ الف حاجۃ و کتب اللہ لہ عبادۃ سنۃ و غفر اللہ ذنوبہ کلھا وان اکثر من نجوم السماء واعظاہ اللہ لکل شعرۃ علی جسدہ نورا ونفع اللہ عنہ عذاب القبر و کتب اللہ براءۃ من النار وجزاء علی الصراط واماما من الشدائد۔(یعنی فرمایا حضور ﷺ نے : جو شخص کسی ایک مومن کو کپڑا پہناتا ہےقیامت میں اللہ پاک اسے ہزار جوڑے عنایت کرے گا، اس کی ہزار ضرورتیں پوری ہوں گی، ایک سال کی عبادت کا ثواب اسے ملے گا، آسمان کے ستاروں کی گنتی سے زیادہ اگر اس کے گنوہ ہوں گے تو وہ معاف کر دیے جائیں گے، دوزخ کے عذاب سے اس کو چھٹکارامل جائے گا، پل صراط سے بے خدشہ گذرجائے گا، روز قیامت کی سختیوں سے نجات مل جائے گی۔)خدمت خلق نوافل سے بڑھ کر ہےیہ دولت نفل نمازوں، نفل روزوں میں کہاں ہے، یہی بات ہے کہ ایک دفعہ ایک بزرگ سے لوگوں نے کہا کہ اس ملک کا بادشاہ شب بیداری کرتا ہےاور رات بھر نفل نمازیں پڑھا کرتا ہے، انھوں نے فرمایا: بے چارے نے اپنی راہ کھو دی ہے اور دوسروں کی راہ اختیار کر لی ہے۔ لوگوں نے سوال کیا حضرت! یہ کیسے؟ اس کے خدا تک پہنچنے کی یہ راہ ہے کہ وہ اپنی دولت اور انواع و اقسام کی نعمتوں سے بھوکوں کو کھانا کھلالیے، ننگوں کو کپڑے پہنالیے، برباد و پریشاں دلوں کو شاد و آباد کرے ، حاجت مندوں کی حاجت برآری کرے ، نفل نمازوں کی مشغولی اور شب بیداری درویشوں، فقیروں کا کام ہے، ہر شخص کو اپنے مناسب کام کرنا چاہیے۔خدمت خلق شب بیداری سے بہتر"اے بھائی! اگر شکستہ دل کو پاؤ اور اس ایک دل کو تم نے شاد و آباد کر دیا یہ اس سے کہیں بہتر ہے کہ تم رات بھر شب بیداری کرو۔ اس لیے کہ کسی بھی ٹوٹی ہوئی چیز کی کوئی قیمت نہیں ہوتی ہے، لیکن دل وہ ہے کہ جتنا زیادہ ٹوٹا ہوا ہو ، چور اتنا ہی زیادہ قیمتی ہوتا ہے۔ "اللہ شکستہ دلوں کے قریب ہے"منقول ہے کہ جناب موسیٰ علیہ السلام نے اپنی مناجات میں کہا: الہی! تجھے کہاں ڈھونڈوں؟ جواب ملا: 'عندالمنکسرت القلوب لاجلی' (یعنی ٹوٹے ہوئے دلوں کے پاس تلاش کرو) عرض کی: آج میرے دل سے زیادہ کوئی دل شکستہ نہیں ہے۔ جواب ملا: میں اسی جگہ ہوں۔ "حضرت رابعہ بصری کی عزت و مرتبت کا سبباور اے بھائی! آخر یہ تو تم نے سنا ہے کہ حضرت رابعہ بصری کو اس درجہ نعمت و دولت جو نصیب ہوئی وہ ایک پیاسے کتے کو پانی پلانے کے سبب ہوئی، لیکن اس امر میں کوشش کرنا چاہیےکہ جو بھی کسی کو دے وہ بے طلب دے، اس لیے کہ فرمایا گیا ہے: السوال وان اقل ثمن النوال ان اجل) سوال تھوڑا بھی عنایت کی قیمت بن جاتا ہے چاہے عنایت بڑی کیوں نہ ہو(اور جس قدر اور جتنا زیادہ کسی کو دے تو اسے بہت قلیل جانے، اس لیے کہ ساری دنیا ہی بہت قلیل ہے۔جیسا کہ امام شبلی رحمۃ اللہ علیہ سے منقول ہے اگر ساری دنیا کی دولت ہمارے قبضے میں ہو تو سب کا ایک لقمہ بناکر کسی ایک فقیر کے منہ میں ڈال دوں پھر بھی مجھے اس پر شفقتآئے۔ (یعنی اور دیتے کچھ نہ دیا۔()مکتوبات دوصدی، مکتوب نمبر72، صفحہ:308-310(خدمت خلق کے فوائدبھائی شمس الدین! اللہ پاک تمھیں اولیا کی خدمت میں بزرگی نصیب کرے۔ سنو! مرید کا ایک بڑا کام خدمت خلق کرنا ہے۔ خدمت کرنے میں بڑے بڑے فوائد ہیں۔ اور کچھ ایسی خاصیتیں ہیں جو اور کسی عبادت میں نہیں ایک تو یہ ہے کہ نفس سرکش مر جاتا ہے اور بڑائی کا گھمنڈ دماغ سے نکل جاتا ہے، عاجزی اور تواضع آجاتی ہے۔ اچھے اخلاق، تہذیب اور آداب آجاتے ہیں۔ سنت اور طریقت کے علوم سکھاتی ہے۔ نفس کی گرانی اور ظلمت دور ہو کر روح سبک اور لطیف ہو جاتی ہے۔ آدمی کا ظاہر و باطن صاف اور روشن ہو جاتا ہے۔ یہ سب فائدے خدمت ہی کے لیے مخصوص ہیں۔ مریدوں کو خدمت خلق کی وصیتایک بزرگ سے پوچھا گیاکہ خدا تک پہنچنے کے لیے کتنے راستے ہیں؟ جواب دیا کہ موجودات عالم کا ہر ذرہ خدا تک پہنچنے کا ایک راستہ ہے، مگر کوئی راہ نزدیک تر اور بہتر خلق خدا کو راحت پہنچانے سے بڑھ کر نہیں ہے۔ اور ہم تو اسی راستے پر چل کر اس منزل تک پہنچے ہیں اور اپنے مریدوں کو بھی اسی کی وصیت کرتے ہیں۔ خدمت خلق سے بہتر کوئی عبادت نہیں"انھی بزرگوں کا کہا ہوا ہے کہ اس گروہ کے اوراد و وظائف اور عبادتیں اتنی ہیں جو بیان نہیں کی جا سکتیں، مگر کوئی عبادت افضل اور مفید تر خدمت خلق سے نہیں ہے۔"خدمت خلق سب سے افضل صدقہچناں چہ حضرت پیغمبر ﷺ سے روایت ہے کہ حضور ﷺ سے پوچھا گیا:"ای صدقۃ افضل قال خدمۃ عبد فی سبیل اللہ او ظل فسطاط او طروقۃ فحل فی سبیل اللہ۔")یعنی کون سا صدقہ زیادہ افضل ہے؟ فرمایا: بندے کی خدمت کرنا، یا سایے کی غرض سے خدا کے راستے میں شامیانہےلگانا، خیمے نصب کرنا، یا خدا کی راہ میں اونٹ یا کشتی دینا۔(خدمت خلق کرنے والا قائم اللیل اور صائم الدھر سے بہتر ہےایک دوسری جگہ ارشاد ہوا: "الساعی علی الارملۃ والمساکین کالمجاھد فی سبیل اللہ او کالذی یصوم النھار و یقوم اللیل۔")بیوہ عورتوں کے کام میں دوڑنا اور غریبوں ، مسکینوں کی خدمت بجا لانا ایک مجاہد کی طرح ہے راہ خدا میں۔ یا ان لوگوں کی طرح ہے جو دن کو روزہ رکھتے ہیں اور رات کو عبادت کرتے ہیں۔(قوم کی ضرورت کے مطابق خدمت کریںخدمت کے لیےشرطیں ہیں وہ یہ کہ اپنی آرزو اور اپناتصرف بالکل چھوڑ دے اور قوم و جماعت کا جو مقصد ہو ویسا ہی کرے۔ مسافر یا مقیم جو جو بھی ہوں ان کی طبیعت کے رجحان کے مطابق کام کرے تاکہ انھیں فراغت دل حاصل ہو اور بے فکر ہو کر اپنے اوقات اوراد و وظائف میں گذاریں اور فارغ البال ہو کر اپنے معمولات میں مشغول رہ سکیں۔ ان کو جو کچھ بھی مجاہدہ اور ریاضت سے حاصل ہوگااس کو اسی خدمت سے سب فائدے ہوں گے۔ اچھے کام کے لیے مدد کریںاے بھائی!"من دل علی خیر فلہ مثل اجر فاعلہ"جس نے کسی اچھے کام کے لیے مدد کی تو اس کا اجر بھی اس کام کے کرنے والے کے برابر ملے گا۔یہ خانقاہیں، مسافرخانے اور اوقاف اسی کام کے لیے بنالیے گئے ہیں۔ خدمت خلق کو مقدم رکھیںدوسری شرط یہ ہے کہ خود کو مالک و مختار نہ سمجھے۔ جو کچھ اس کے پاس ہے، یہ سمجھے کہ وہ انھی لوگوں کا کام ہے، یہاں تک کہ اپنی ذات، مال، مراد اور اپنی خواہشات کو ان کے لیے لٹا دے اپنے ہر کام پر ان کی ضرورتوں کو مقدم سمجھے، ان سے کوئی چیز دریغ نہ رکھے۔ البتہ جو چیزیں کہ خدا نے حرام کر دی ہیں، اور جس چیز کی اس سے درخواست کریں فورا بجا لالیے۔ اگرچہ اس کے لیے مزدوری کرنا پڑے تو مزدوری کرنے سے بھی جان نہ چرالیے تا کہ ان کا کام پورا ہو جائے۔ اور ان کے ساتھ اس کا برتاو ایسا ہو جیسا ایک غلام اپنے مالک کے ساتھ کرتا ہے۔ اگر وہ سختی بھی کریں تو اس کی برداشت واجب سمجھے اور ہمیشہ ان کے رمز و اشارے کی باتوں کا لحاظ رکھے۔اگر کوئی خرابی بھی دیکھے تو بغیر ان کی تحریک کے درست کر دے ۔خدمت خلق نیت دلی کے ساتھ کرواور یہ شرط بھی ہے کہ جو جو کام خلق اللہ کے لیے نیک دلی اور ہنسی خوشی کے ساتھ کرے تاکہ توفیق خیر کا مستحق ہو، اور ان کاموں کی انجام دہی پر شکر حق بجا لالیے۔نوجوان خدمت خلق سے جان نہ چرائیںاور جو کچھ اس سے ممکن ہو جماعت و ملت کے لیے نیکیاں کرتا جائے، اور اگر کوئی دقیقہ فروگذاشت ہو جائے تو پشیماں ہو اور تاوان ادا کرے۔ خدمتیں بےشمار ہیں اور مقصود یہ ہے کہ جَوَان افراد کسی طرح بھی خدمت سے جان نہ چرائیں۔خدمت خلق کا ایک کام سو رکعت نفل نماز سے بہترشیخ ابو العباس قصاب رحمۃ اللہ علیہ نے کہا ہے کہ جو مرید ایک کام کرنے کے واسطے کھڑا ہوگا اس کے لیے یہ کام نماز نفل کی سو رکعتوں سے زیادہ مفید وبہتر ہے۔ یہ لوگ ہر ایک شخص کی خدمت اور پیروں کی صحبت اور اہلیت و ریاضت و تربیت کا زیادہ سے زیادہ اعتبار کرتے ہیں اور نسبت و نسب کا کوئی خیال نہیں کرتے، البتہ آل اطہار رسول اللہ ﷺ اس سے مستثنیٰ ہیں اور مشائخ زادے بھی۔ کیوں کہ یہ نسب کے اعتبار سے لائق احترام ہیں۔جیسا کہا ہے: نسب الرجل دینہ وحسبہ تقواہ۔)نسب آدمی کا دین اور پرہیزگاری اس کا مشرب ہے۔(اپنی حیثیت کے مطابق خلق خدا کی خدمت کروجس طرح صاحب مال پر واجب ہےکہ زکات نکال کر فقرا کو دے اور علما کے لیے لازم ہےکہ طلبہ کو پڑھائیں، علم سکھائیں اور اپنے علم کی زکات دیں۔ اسی طرح راہ طریقت میں مبتدی مرید پر واجب ہے کہ اپنی خدمت کے ذریعہ غیروں کو راحت و آرام پہنچالیے۔ مسلمان بھائیوں کی امداد اور اپنے سے بڑوں کی خدمت انجام دے۔ خدمت خلق ریاکاری سے پاک ہوخدمت کرنے کا صلہ، ثمرہ اور فائدہ اس وقت ظاہر ہوتا ہے جب خدمت بے غرض، بے منت اور بے ریا ہو۔خدمت کروانے کی بجائے خدمت کروپس جو مرید خود خدمت نہیں کرتا بلکہ دوسروں سے خدمت لینے کی آرزو کرتا ہے وہ کاہل ہو جاتا ہے اور لوگوں کے دلوں پر گراں گذرتا ہے اور بوجھ بن جاتا ہے۔ دل کی یہ گرانی اور بوجھ جان کے لیے تپ ہے، اس لیے لوگ اس سے نفرت کرنے لگتے ہیں، اور یہ اس کے حق میں سراسر نقصان اور خرابی کا باعث ہے اور کار برآری کی امید کم ہوجاتی ہے۔ خدمت خلق کی بہترین مثالحضرت پیغمبر محمد ﷺ نے صحابہ اور امت کی تعلیم کی غرض سے نہایت لطیف پیرایے میں اس کو سمجھایا ہےکہ کسی وقت ایک کٹورا دودھ کا حضور ﷺ کے پاس لایا گیا۔ آپ نے اٹھ کر اپنے دست مبارک میں لیا اور فقرا و صحابہ میں تقسیم فرما دیا، اور جو کچھ بچ رہا خود پی لیا۔ لوگوں نے پوچھا: یا رسول اللہﷺ حضور نے اپنے سے شروع کیوں نہ فرمایا؟ آپ نے جواب دیا کہ ایسا نہیں چاہیے کہ"ساقی القوم آخرھم شربا"قوم کو پلانے والا خود آخر میں پیتا ہے۔قوم کا خادم ہی قوم کا سردار ہوتا ہےاس گروہ(صوفیہ) میں مشہور ہے جو زیادہ خدمت کرتا ہے وہ زیادہ بزرگ اور پیارا ہوتا ہے، دلوں میں خوش آئند اور آنکھیں اس کی طرف مائل رہتی ہیں کہ "سید القوم خادمھم" قوم کا سردار وہی ہے جو ان کی خدمت کرتا ہے۔قوم کی خدمت کر کے قوم کے سردار بن گئےعرب کے ایک بزرگ سے پوچھا گیا: "بم سدت قال خدمت فسدت"تم کیسے سردار بن گئے؟ انھوں نے کہا: میں نے لوگوں کی خدمت کی اور سردار ہو گیا۔حضرت صدیق اکبر نے خدمت کر کے خلافت پائیکہا جاتا ہے کہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ ﷺ سے جو منصب خلافت پایا اور اتنی بڑی دولت ملی وہ ہمیشہ خدمت میں کمربستہ رہنے کی وجہ سے حاصل ہوئی۔ خدمت کر کے مخدوم ہوگئےابتدا میں ہر ایک بزرگ کے ساتھ یہی ہوا کیا ہے کہ وہ ہر وقت خدمت کے لیے ایک پاؤں پر کھڑے رہے ہیں یہاں تک کہ آخر میں خود مخدوم ہو گئے۔ خدمت کے ثمرے اتنے ہیں کہ بیان نہیں کیے جا سکتے۔ تم سے جہاں تک ہو سکے غنیمت سمجھو اور امیدوار رہو۔ اللہ جسے توفیق دےاے بھائی! احکام خداوندی انسان کے فہم و ادراک سے بالاتر ہیں۔ کنعان حضرت نوح علیہ السلام کا فرزند تھا۔ وہ کشتی میں نہیں بٹھایا گیااور شیطان ملعون کے لیے راستہ ہو جائے یہ جائز ہے کہ یہ باتیں بادشاہ سے تو نہ کہی جائیں مگر ایک پاسبان سے بیان کی جائیں۔ تم نہیں دیکھتے کہ فرعون سےتو نہ کہا لیکن اسی گھر میں ایک بڑھیا سے کَہ دیا۔ اس کی نگاہیں جو تمھاری طرف اٹھا کرتی ہیں اور اتنی مہربانیوں اور کرم کی بوچھار ہوتی رہتی ہے وہ اپنے علم پاک کی رو سے نظر کرتا ہے تمھارے گندے اعمال کی رو سے نہیں ہے۔ کرامت انسانی کا سبباہل سنت کا مذہب کہتا ہے کہ خدا کی نوازش و کرم کی کوئی حد نہیں۔ سارا عالم اٹھا مگر کوئی اس کے انعام و اکرام کے اسرار تک نہ پہنچا کہ آخر اس خاک کے پتلے پر اتنا کرم کیوں ہے؟ کل جب قیامتآئے گی سب لوگ حشر کے میدان میں بلالیے جائیں گے، غیب سے ایک آواز سنائی دے گی کہ سب خاک ہو جاؤ۔ فرشتوں کو حکم ہوگا کہ تم عرش کے گرد جمع ہو جاؤ۔ تمھیں حلۂ بہشتی سے کوئی کام نہیں اور نہ دوزخ کی بیڑیوں سے کوئی سروکار۔ تم مقام معلوم سے دیکھتے رہوکہ اس مشت خاک کے ساتھ ہمارے کیا کیا معاملے ہیں؟ اسی معنی کو دیکھ کر کہا ہےکہ اگر یہ خاکی نہ ہوتا تو یہ باتیں بھی نہ ہوتیں اور نہ یہ سوز و گدازو درد و تپش ہوتی بہشت اتنی نعمتوں اورکرامتوں کے ساتھ اس خاکی پر نچھاور اور غلمان و حوروں کو لیے ہوئے رضوان اس کے جشن وصال کے شادیانے گاتا ہے۔حضرت انسان کے لیے عطا و بخشش اور یہ جو تم نے سنا کہ ازل میں یہ خاکی اس وقت بھی موجود تھا۔ یہاں تک کہ خاک پیدا کی اور اپنی نوازش و کرم سے اس خاکی کا کل سامان مہیا کیا۔ ابھی پینے والا نہ تھا کہ شراب بنائی۔ سر نہ تھا مگر اس کے لیے تاج آراستہ کیا۔ چلنے والا پاؤں نہ تھا مگر راستہ صاف اور ستھرا کر دیا۔ دل نہ تھا مگر نگاہیں اس پر اٹھا دیں۔ گناہوں کا وجود نہ تھا مگر رحمت و مغفرت کے خزانے بھر دیے اور طاعت و بندگی کا کہیں نام و نشان نہ تھا مگر گلزار فردوس کو دلکش بہاروں سے آراستہ کر دیا۔ "العنایۃ قبل الماء والطین"کرم و نوازش کا یہ سارا اہتمام خمیر گوندھنے سے پیش تر ہی کر دیا گیا۔(مکتوبات صدی، مکتوب نمبر:71، صفحہ نمبر:449-453)اخیر میں بارگاہ قاضی الحاجات میں دست بہ دعا ہوں کہ مولاے رحمان و رحیم اپنے حبیب رءوف و رحیم علیہ الصلاة والتسلیم کے بطفیل عمیم ہمیں اپنے بزرگوں سے وابستہ رکھے، ان کے نقوش قدم پر چلائے اور ان کی تعلیمات پر عمل پیرا رہنے کی توفیقِ خیر مرحمت فرمائے۔آمین۔ یارب العالمین۔ بجاہ النبی الامین۔ علیہ اکرم الصلاة وعلی آلہ وصحبہ ومن تبعھم اجمعین۔

خانوادہء مخدوم یحیی منیری اور خدمتِ علم از قلم: ناچیز ناصر منیری کان اللہ لہدائریکٹر ریسرچ سینٹر خانقاہ منیر شریف، پٹنہرابطہ نمبر: 9905763238۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اسلام کے پندرہ سو سال کے لٹریچر میں جتنا زیادہ زور علم پر دیا گیا ہے شاید ہی کسی دوسری چیز پر دیا گیا ہو۔پیغمبرِ اسلام پہ نازل ہونے والی کتابِ مقدس کی ابتدا ہی علم سے ہوئی۔ اس سے اسلام میں علم کی اہمیت کا اندازہ ہوتا ہے۔علم ہی وہ پاکیزہ شے ہے جو ایک انسان کو دوسرے انسان سے ممتاز و ممیز کرتی ہے۔ جبھی اسلام نے طلبِ علم کو عبادتوں سے افضل قرار دیا۔علم ہی وہ عظیم شے ہے جس کے ذریعے معرفتِ خداوندی حاصل ہوتی ہے۔بقول شاعر:بغیر اس کے نہیں پہچان سکتے ہم خدا کیا ہےامام محمدجب سفرکرتےتو ستر اونٹوں پر ان کی کتابیں ہوتیں ایک عیسائی دیکھ کر ایمان لےآیاکہ ان کاحال یہ ہےتومدینےوالےکاعلم کتنا ہوگا۔اسلام نے طلبِ علم کی اہمیت اتنی بڑھا دی کہ اسے ارکانِ اربعہ نماز، روزہ، حج اور جہادِ فی سبیل اللہ سے بہتر بتایا۔قال علیہ السلام: طلب العلم افضل عند اللہ من الصلاة والصیام والحج والجھاد فی سبیل اللہ تعالی۔اسلام نےمعلم ومتعلم کو وہ مقام دیاکہ بقول رسول:فرشتے، اہل ارض وسما، سوراخوں کی چینوٹیاں، سمندر کی مچھلیاں ان کےلیےدعائیں کرتی ہیں۔قال علیہ السلام:ان اللہ وملائکتہ واھل السماوات والارض حتی النملة فی جحرھا و حتی الحوت لیصلون علی معلم الناس الخیر۔رواہ الترمذی عن ابی امامہ الباھلیاسلام نے اہلِ علم اور بے علم کے مابین نسبتِ تباین کا ذکر کر کے خطِ امتیاز کھینچ دیا بقولِ خدا:اہلِ علم و بے علم برابر نہیں۔قال تعالی:قل ھل یستوی الذین یعلمون والذین لا یعلمون. ای : لا یستویان.طلبِ علم کی راہ میں نکلنے والا جنتی راستے میں ہوتا ہے۔ اور ملائکہ اس کے لیے اپنے پٙر بچھا دیا کرتے ہیں۔قال علیہ السلام:من سلک طریقا یطلب فیہ علما سلک اللہ بہ طریقا من طرق الجنة وان الملائکة لتضع اجنحتھا رضا لطالب العلم۔ایک ساعت طلبِ علم میں لگانا رات بھر کی عبادت سے اور ایک روز علم حاصل کرنا تین مہینے کے روزے سے بہتر ہے۔قال علیہ السلام:طلب العلم ساعة خیر من قیام لیلة و طلب العلم یوما خیر من صیام ثلاثة اشھر.طلبِ علم کی نیت سے اپنے گھر سے نکلنے والا طالبِ علم گھر واپس ہونے تک اللہ کے راستے میں ہوتا ہے۔قال علیہ السلام:من خرج فی طلب العلم فھو فی سبیل اللہ حتی یرجع.طلبِ علم کی راہ میں موت پانے والا طالبِ علم شہادت کے عظیم مرتبے پر فائز ہوتا ہے۔قال علیہ السلام:اذا جاء الموت لطالب العلم وھو علی ھذہ الحالة مات فھو شھید.مخدوم شرف الدین یحیی منیری رحمہ اللہ اپنے مکتوبات میں تحریر فرماتے ہیں:طلبِ علم کے لیے سفر:"حکم ہے کہ علم حاصل کرو اگرچہ چین جانا پڑے اس کے برعکس لوگ دنیا حاصل کرنے میں لگے ہیں۔"(مکتوباتِ دو صدی، از: مخدومِ جہاں حضرت شرف الدین یحیی منیری، مکتوب نمبر:٢، صفحہ نمبر:٣٨۔)طلبِ علم سے غفلت:"محشر میں پوچھا جائے کہ طلبِ علم فرض تھا غافل کیوں رہے؟ توکیا جواب دو گے کہ زن و فرزند اور فکرِ معاش نے فرصت نہیں دی؟"(مکتوباتِ دو صدی، از: مخدومِ جہاں حضرت شرف الدین یحیی منیری، مکتوب نمبر:٢، صفحہ نمبر:٣٨۔)طلبِ علم کی ضرورت:"شرع میں علم کے بغیر عمل کی درستگی ممکن نہیں اور عمل کے بغیر مقصود تک نہیں پہنچ سکتے لہذا طلبِ علم ضروری ہے۔"(مکتوباتِ دو صدی، از: مخدومِ جہاں حضرت شرف الدین یحیی منیری، مکتوب نمبر:٢، صفحہ نمبر:٣٨۔) کون سا علم حاصل کرنا چاہیے؟"علم وہ نہیں جو امرا و سلاطین کے دربار تک پہنچا دے بلکہ علم سے مراد آخرت اور راہِ حق کا علم ہے۔"(مکتوباتِ دو صدی، از: مخدومِ جہاں حضرت شرف الدین یحیی منیری، مکتوب نمبر:٢، صفحہ نمبر:٣٩۔)علماے سو کی صحبت:"علماے دنیا سے خود کو ایسے بچاتے رہو جس طرح شیطان سے بچتے ہو۔ غلطی سے بھی اس میں مبتلا نہ ہو جانا۔"(مکتوباتِ دو صدی، از: مخدومِ جہاں حضرت شرف الدین یحیی منیری، مکتوب نمبر:٢، صفحہ نمبر:٣٩۔)علماے سو کی سنگت کا نقصان:"ایک بزرگ نے شیطان کو بےکار بیٹھے دیکھ کر پوچھا:بےکار کیوں بیٹھا ہے؟بولا:علماےدنیا پیدا ہو گئےہیں میرا کام ختم ہوگیا۔"(مکتوباتِ دو صدی، از: مخدومِ جہاں حضرت شرف الدین یحیی منیری، مکتوب نمبر:٢، صفحہ نمبر:٣٩۔)طاعات و معاصی کا علم:"اعمال دوطرح کےہیں:(١)طاعات: جواللہ تک پہنچاتےہیں۔(٢)معاصی: جواللہ سےدورکرتےہیں۔ان دونوں کاعلم انسان پرفرضِ عین ہے۔"(مکتوباتِ دو صدی، از: مخدومِ جہاں حضرت شرف الدین یحیی منیری، مکتوب نمبر:٢، صفحہ نمبر:٣٩۔)مھلکات و منجیات کا علم:"علم باطن دو طرح کے ہیں:(١)منجیات کا علم جیسے: زہد و تقوی(٢)۔مھلکات کا علم جیسے:بغض و حسدان کا حصول بھی فرضِ عین ہے۔"(مکتوباتِ دو صدی، از: مخدومِ جہاں حضرت شرف الدین یحیی منیری، مکتوب نمبر:٢، صفحہ نمبر:۴٠۔)علم کے ساتھ اور علم کے بغیر عمل کا نفع و نقصان:"طاعات ومعاصی کےعلم کےساتھ اگرتھوڑاعمل بھی ہوتواللہ کےنزدیک بہت زیادہ ہےاس کےبغیرکوئی جان کی بازی بھی لگادےتوکچھ نہیں۔"(مکتوباتِ دو صدی، از: مخدومِ جہاں حضرت شرف الدین یحیی منیری، مکتوب نمبر:٢، صفحہ نمبر:٣٩۔)بغیر علم کے ریاضت و مجاہدہ مضر ہے:"اگرکوئی بغیرعلم کے ریاضت ومجاہدہ کرتارہے ویسے ہی ہے جیسےکوئی بےوضو نماز پڑھتا رہے یا بےایمان لائے قرآن کی تلاوت کرے۔"(مکتوباتِ دو صدی، از: مخدومِ جہاں حضرت شرف الدین یحیی منیری، مکتوب نمبر:٢٠، صفحہ نمبر:١۵٣۔)علمِ کسبی و وہبی کی تعریف:"ایک علم 'کسبی' ہےجو استاد یا کتاب سےملتا ہے دوسرا 'وہبی' ہے جو اللہ اپنے خاص بندوں کے دلوں میں ڈالتا ہے۔"(مکتوباتِ دو صدی، از: مخدومِ جہاں حضرت شرف الدین یحیی منیری، مکتوب نمبر:٢٠، صفحہ نمبر:١۵٣۔)علمِ وہبی کی اقسام:"علمِ وہبی کی تین قسمیں ہیں: پہلی قسم 'وحی'، دوسری قسم 'الہام' اور تیسری قسم 'کشف' ہے۔"(مکتوباتِ دو صدی، از: مخدومِ جہاں حضرت شرف الدین یحیی منیری، مکتوب نمبر:٢٠، صفحہ نمبر:١۵٣۔)علمِ وہبی کی اقسامِ ثلاثہ کی تعریف:"جوعلم اللہ نبی کےدل میں اتارےوحی ہے،ولی کےدل میں اتارےالہام اور نبی کےذریعےولی یا پیرکےذریعےمریدکےدل میں اتارےتوکشف۔"(مکتوباتِ دو صدی، از: مخدومِ جہاں حضرت شرف الدین یحیی منیری، مکتوب نمبر:٢٠، صفحہ نمبر:١۵٣۔)جاہلوں سے دوری ضروری ہے:"شریعت کا فتوی ہے: عالم دوست اور جاہل دشمن ہے۔ جیسے جاہل سے دور رہنا واجب ہے ویسے ہی اہل علم کی صحبت و قربت فرض ہے۔"(مکتوباتِ دو صدی، از: مخدومِ جہاں حضرت شرف الدین یحیی منیری، مکتوب نمبر:٢٠، صفحہ نمبر:١۵٣۔)صحبتِ علما کی برکت:"بہت ساری ریاضتیں اور مجاہدے وہاں نہیں پہنچا سکتے جہاں اہلِ علم کی ایک روز کی نیک صحبت پہنچا دیتی ہے۔"(مکتوباتِ دو صدی، از: مخدومِ جہاں حضرت شرف الدین یحیی منیری، مکتوب نمبر:٢٠، صفحہ نمبر:١۵٣۔)علم خوش نصیبی اور جہالت بدنصیبی ہے:"علم تمام خوش بختیوں کا راز اور اس کی اصل ہے جس طرح جہل و نادانی تمام بدبختیوں کا رمز اور اس کی جڑ ہے۔"(مکتوباتِ دو صدی، از: مخدومِ جہاں حضرت شرف الدین یحیی منیری، مکتوب نمبر:٢٠، صفحہ نمبر:١۵٣۔)علم ذریعہء نجات اور جہالت ذریعہء ہلاکت ہے:"نجات کے ذرائع علم سے اور ہلاکت کےذرائع جہل سےپیداہوتےہیں۔ جنت کےدرجات اورقدسیوں کےکرامات کے حصول کا ذریعہ علم ہی ہے۔"(مکتوباتِ دو صدی، از: مخدومِ جہاں حضرت شرف الدین یحیی منیری، مکتوب نمبر:٢٠، صفحہ نمبر:١۵۴۔)علم باعثِ جنت اور جہل باعثِ جہنم ہے:"جہنم کے گڑھے اور سخت ترین عذاب میں جہالت ہی کےسبب مبتلا ہوتےہیں اور علم کی پاک بارگاہ میں اہل ایمان ہی قدم رکھتےہیں۔"(مکتوباتِ دو صدی، از: مخدومِ جہاں حضرت شرف الدین یحیی منیری، مکتوب نمبر:٢٠، صفحہ نمبر:١۵۴۔)علم اندھیرے سے اجالے میں لے جاتا ہے:"قرآن میں ہےاللہ مومنوں کادوست ہےانھیں اندھیروں سےروشنی میں لےجاتاہے۔یعنی اللہ مومنوں کو جہالت سےعلم کی طرف لےجاتاہے۔" قال تعالی: "اَللّٰہُ وَلِیُّ الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا ۙ یُخۡرِجُہُمۡ مِّنَ الظُّلُمٰتِ اِلَی النُّوۡرِ ۬ ؕ" ((القرآن، سورة البقرة، آیت:٢۵٧))(مکتوباتِ دو صدی، از: مخدومِ جہاں حضرت شرف الدین یحیی منیری، مکتوب نمبر:٢٠، صفحہ نمبر:١۵۴۔)) جہالت اجالے سے اندھیرے میں لے جاتی ہے:"بقول خدا:اہل کفرشیطان کےدوست ہیں وہ انھیں روشنی سے اندھیرےمیں لےجاتا ہے۔یعنی علم سے نکال کر جہالت میں ڈھکیل دیتا ہے۔"قال تعالی: "وَ الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡۤا اَوۡلِیٰٓئُہُمُ الطَّاغُوۡتُ ۙ یُخۡرِجُوۡنَہُمۡ مِّنَ النُّوۡرِ اِلَی الظُّلُمٰتِ"((القرآن، سورة البقرہ، آیت:٢۵٧))(مکتوباتِ دو صدی، از: مخدومِ جہاں حضرت شرف الدین یحیی منیری، مکتوب نمبر:٢٠، صفحہ نمبر:١۵۴۔)علم سے دینی دولت وجود پاتی ہے:"علم کی مثال نر کی ہے اور عمل مثلِ مادہ ہے۔ دینی دولت اسی سے جنم لیتی ہے۔"(مکتوباتِ دو صدی، از: مخدومِ جہاں حضرت شرف الدین یحیی منیری، مکتوب نمبر:٢، صفحہ نمبر:٣٩۔)علم کے بغیر عمل غیر مفید ہے:"عمل بغیر علم کے فائدہ مند نہیں ہوتا جس طرح بغیر مغز کے بیج سے خوشے اور شگوفے نہیں نکلتے۔"(مکتوباتِ دو صدی، از: مخدومِ جہاں حضرت شرف الدین یحیی منیری، مکتوب نمبر:٢، صفحہ نمبر:٣٩۔)علمِ دین علما کی صحبت سے ملتا ہے:"دینی علم علما و مشائخ کی صحبت و خدمت سے ہی حاصل ہوتا ہے۔ یہ لوگ ہمارے زمانے میں سرخ گندھک ہیں۔"(مکتوباتِ دو صدی، از: مخدومِ جہاں حضرت شرف الدین یحیی منیری، مکتوب نمبر:٢، صفحہ نمبر:۴١۔)علم عصیان و معاصی اور صفاتِ ذمیمہ سے بچاتا ہے:"علم ظاہری اعضا کو معاصی سے اور قلب کو صفاتِ ذمیمہ سے پاک و صاف کرتا ہے۔"(مکتوباتِ دو صدی، از: مخدومِ جہاں حضرت شرف الدین یحیی منیری، مکتوب نمبر:٢، صفحہ نمبر:۴٣۔)علم ملک الموت کے اسرار منکشف کرتا ہے:"علم کے ذریعے جب ظاہر و باطن کی طہارت تمھیں حاصل ہو جائے سمجھ لو ملک الموت کے اسرار تم پر کھل گئے۔"(مکتوباتِ دو صدی، از: مخدومِ جہاں حضرت شرف الدین یحیی منیری، مکتوب نمبر:٢، صفحہ نمبر:۴٣۔)"علم وہ ہے جو اللہ کے در تک پہنچائے نہ کہ پیرویِ نفس اور حبِ مال و جاہ کی طرف لے جائے۔"(مکتوباتِ دو صدی، از: مخدومِ جہاں حضرت شرف الدین یحیی منیری، مکتوب نمبر:١٧١، صفحہ نمبر:۵٨٦۔)"علم دراست علم ظاہرکوکہتےہیں علم وراثت علم باطن کو۔اہل تصوف دونوں علم کےماہر ہوتےہیں علم ظاہرکے بھی اور باطن کے بھی۔"(مکتوباتِ دو صدی، از: مخدومِ جہاں حضرت شرف الدین یحیی منیری، مکتوب نمبر:١٧١، صفحہ نمبر:۵٨٦۔)"علم کا حاصل کرنا تو وہی ہے جو خالصةً لوجہ اللہ ہو۔ نہ یہ کہ جاہ و مرتبہ و ریاست اور حصول دنیا کے لیے ہو۔"(مکتوباتِ دو صدی، از: مخدومِ جہاں حضرت شرف الدین یحیی منیری، مکتوب نمبر:١٧١، صفحہ نمبر:۵٨٦۔)"جو علم حاصل کرنے میں کوششیں کرتا ہے اور اپنے مجاہدے میں سچا ثابت ہوتا ہے اللہ اسے انبیا کی علمی وراثت عطا کرتا ہے۔"(مکتوباتِ دو صدی، از: مخدومِ جہاں حضرت شرف الدین یحیی منیری، مکتوب نمبر:١٧١، صفحہ نمبر:۵٨٦۔)"علمِ ظاہر اور علمِ باطن کو اس طرح بھی سمجھا جا سکتا ہے کہ علمِ ظاہر علمِ معاملہ ہے اور علمِ باطن علمِ مکاشفہ۔"(مکتوباتِ دو صدی، از: مخدومِ جہاں حضرت شرف الدین یحیی منیری، مکتوب نمبر:١٧١، صفحہ نمبر:۵٨٧۔)"جب قلبِ سالک صفاتِ ذمیمہ سے پاک و صاف ہو جاتا ہے تو اس پر ایک نور ظاہر ہوتا ہے علمِ مکاشفہ اسی نور سے عبارت ہے۔"(مکتوباتِ دو صدی، از: مخدومِ جہاں حضرت شرف الدین یحیی منیری، مکتوب نمبر:١٧١، صفحہ نمبر:۵٨٧۔)

خانوادہء مخدوم یحیی منیری اور خدمتِ دیناز قلم : ناچیز ناصر منیری کان اللہ لہڈائریکٹر ریسرچ سینٹر خانقاہ منیر شریف، پٹنہرابطہ نمبر: 9905763238۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔بزرگوں کی بارگاہوں میں ہر طرح کے لوگ آتے ہیں اور اپنا دامن مراد لعل و گہر اور ذھب و فضہ سے بھر کر واپس ہوتے ہیں۔ ان زائرین میں بچے بھی ہوتے ہیں، بڑے بھی۔ بوڑھے بھی ہوتے ہیں، جوان بھی۔ عورتیں بھی ہوتی ہیں، مرد بھی۔ خواتین بھی ہوتی ہیں، حضرات بھی۔ لڑکے بھی ہوتے ہیں، لڑکیاں بھی۔ ان کی درگاہوں، خانقاہوں اور بارگاہوں میں کسی طرح کا کوئی تعصب، عصبیت اور بھید بھاو نہیں ہوتا۔ ان کی درگاہیں، بارگاہیں اور خانقاہیں ہر طرح کی تفریق سے بے نیاز ہوا کرتی ہیں۔ ان کے یہاں کوئی ادنی آتا ہے تو اعلی ہو کر جاتا ہے۔ کوئی ذرہء ناچیز آتا ہے تو چمکتا خورشید بن کر جاتا ہے۔ کوئی قطرہ ہوتا ہے تو دریا بن جاتا ہے۔ کوئی تحت الثری پہ ہوتا ہے تو اوج ثریا پہ پہنچ جاتا ہے۔ صاحبانِ بارگاہ، باری تعالی کی عطا و عنایت سے بلا تفریقِ مشرب و مسلک و مذہب و ملت ہر ایک کی بگڑیاں بنایا کرتے ہیں۔ خواہ وہ اہلِ سنت ہوں یا اہلِ تشیُّع ہو، اہلِ دیوبند ہوں یا اہلِ حدیث۔ مذاہب عدیدہ میں خواہ وہ ہندو، مسلم، سکھ، عیسائی ہوں یا جین، بدھ، پارسی، یہودی۔ صاحبانِ بارگاہ سب کی بِپتا سنا کرتے ہیں۔ سب کے غم کا مداوا بنا کرتے ہیں۔ سارے دکھیوں کا دکھ دور کیا کرتے ہیں۔ سارے مبتلاےدرد کے درد کافور کیا کرتے ہیں۔ سارے بے سہاروں کو سہارا دیا کرتے ہیں۔ سب کی بگڑیاں بنایا کرتے ہیں۔ بقول شاعر (بتصرف)سب کی سنتے ہو اپنے ہوں یا غیر ہوںتم غریبوں کے غم خوار ہو یا ولیاللہ والے کبھی کسی کو جِھڑکا نہیں کرتے۔ ان کے یہاں آنے والا کبھی جھڑکیاں نہیں کھایا کرتا کیوں کہ وہ عامل بالقرآن والسنہ ہوتے ہیں۔ قرآن کے فرمودات پر عمل پیرا یوتے ہیں۔ بلکہ قرآنی تعلیمات و فرمودات اور ارشادات دوسروں تک پہنچایا کرتے ہیں اور قرآن پاک میں اللہ پاک کا فرمان پاک ہے:وَ اَمَّا السَّآىٕلَ فَلَا تَنْهَرْؕیعنی دستِ سوال دراز کرنے والوں کو کبھی جھڑکا مت کرو۔ان کی بارگاہوں، درگاہوں اور خانقاہوں میں کسی طرح کی کوئی عصبیت، تعصب یا جانب داری نہیں ہوا کرتی۔ وہاں جانے والے سب کے سب صاحبِ بارگاہ کی نظر میں اِیکوَل، سَمان اور برابر ہوا کرتے ہیں۔ وہاں جانے والوں کی کوئی کیٹیگری نہیں ہوا کرتی۔ وہاں جانے والوں کا کوئی اسٹیٹس نہیں ہوا کرتا۔ وہاں جانے والوں کی صرف اور صرف ایک کیٹیگری ہوا کرتی ہے اور وہ ہے معتقد و عقیدت مند۔ وہاں عقیدت مند جاتے ہیں۔ عقیدت مندی کے جذبے سے جاتے ہیں اور جا کر خراجِ عقیدت پیش کرتے ہیں۔ وہاں شردھالو جاتے ہیں۔ شردھا کے بھاو سے جاتے ہیں اور شردھانجلی اَرپِت کر کے واپس ہوتے ہیں۔وہاں پندار علم کام نہیں آتا۔ وہاں علمی طمطراق دکھانا سودمند نہیں۔ وہاں انانیت کسی کام کی نہیں۔ بڑے بڑے صاحبان جبہ و دستار اپنے جبے و پگڑیاں اتار کر جاتے ہیں۔ وہاں کوئی علمی دھونس نہیں جماتا۔ کوئی اپنی قابلیت و صلاحیت اور اہلیت و لیاقت کا رعب و دبدبہ نہیں دکھاتا۔ اس لیے کہادب گاہیست زیرِ آسماں از عرش نازک تر نفَس گم کردہ می آید جنید و با یزید ایں جاخبردار! یہاں اپنا سکہ چلانے کی کوشش مت کرنا۔ یہاں کسی اور کا سکہ نہیں چلتا بلکہ یہاں مخدومِ پاک کا سکہ چلتا ہے۔ حضرت کو کھرے اور کھوٹے کی پرکھ اچھی طرح ہے۔ جس کسوٹی پر کھرے کھوٹے کی پرکھ ہوتی ہے وہ کسوٹی حضرت کے پاس ہے۔ عمدہ و غیر عمدہ کی معرفت کا پیمانہ حضرت کے پاس ہے۔ خبردار! خبردار! خبردار! یہاں اگر کسی کا سکہ چلے گا تو صرف اور صرف مخدومِ پاک حضرت سیدنا شیخ کمال الدین احمد یحیی منیری قدس سرہ کا سکہ چلے گا جنھوں نے مشرقی ہندستان میں شمع اسلام روشن فرمائی۔ پورے مشرقی ہند میں اگر کوئی کلمہ گو نظر آ رہا ہے تو سمجھ لینا کہ وہ حضور مخدوم پاک کی شبانہ روزی مساعیِ جمیلہ اور محنتِ شاقہ کا ثمرہ و نتیجہ ہے۔ مخدوم پاک کے دادا جان حضور تاج الفقہا حضرت سیدنا امام محمد تاج فقیہ ہاشمی رحمہ اللہ تعالی بیت المقدس (ہیبرون، فلسطین) سے بشارت نبوی ﷺ کے عین مطابق منیر شریف (پٹنہ، انڈیا) تشریف لائے اور اپنے اخلاق و کردار کے ذریعے لوگوں کو اپنا گرویدہ بنا لیا۔ لوگ ان کے دست حق پرست پر بیعت و ارادت کا شرف حاصل کرتے رہے اور تائب و مشرف باسلام بھی ہوتے رہے۔ جہاں انھوں نے مذہبی طور پر لوگوں کو اپنا ہم نوا بنایا وہیں سیاسی طور پر بھی راجا منیر راے کو شکست دے کر سیاست کے میدان میں بھی اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوایا۔ اور یہ باور کرایا کہ صحیح معنوں میں حضور تاج الفقہا عطاء النبی فی الہند ہیں۔بعدہ اپنے شہزادے حضور عماد الحق والملة والدین حضرت سیدنا مخدوم عماد الدین اسرائیل منیری قدس سرہ کو اپنا جانشیں بنایا۔ انھوں نے بھی بے انتہا دینی و ملی، مذہبی و سیاسی خدمات انجام دیں۔ بے شمار لوگوں کو تائب و مشرف باسلام کیا۔ بالآخر دارِ فانی کو خیرباد کہہ کر دارِ بقا کی جانب رِحلت فرما گئے۔بعد ازاں آپ کے شہزادے حضور سلطان المخدومین، برہان العارفین حضرت سیدنا مخدوم شیخ کمال الدین احمد یحیی منیری قدس سرہ آپ کی مسند سجادگی پر جلوہ فرما ہوئے۔ اور کما حقہ آپ کی سچی اور صحیح جا نشینی کا حق ادا کیا۔ حضور سلطان المخدومین، زین الساجدین، برہان العاشقین، زبدة السالکین، تاج العارفین، والدِ مخدومِ جہاں، شہزادہء قطب زماں، نبیرہء تاج الفقہا حضرت سیدنا مخدوم کمال الدین احمد یحییٰ منیری قدس سرہ اپنے وقت کے جلیل القدر، عظیم المرتبت، رفیع الدرجت، فقید المثال اور عدیم النظیر صوفی بزرگ گذرے ہیں۔ آپ کا شمار اپنے وقت کے عظیم صوفیہ میں ہوتا ہے۔ آپ مذہب مہذب اسلام کے مخلص داعی، تصوف و روحانیت کے سچے مبلغ، علوم دینیہ کے اچھے مدرس، اولیا و صوفیہ کے لائق و فائق نقیب اور 'العلماء ورثة الانبیا' کے بہترین مصداق تھے۔ منیر شریف اور اس کے اطراف و اکناف میں آپ نے جو شمع اسلام روشن فرمائی ہے وہ اب تک درخشاں و تاباں ہے۔ دعوت و تبلیغ، تصوف و روحانیت اور رشد و ہدایت کے باب میں آپ کی خدمات کافی اہمیت کی متحمل ہیں۔آپ کی ولادت 572ھ مطابق 1174ء کو بیت المقدس کے علاقے "الخلیل" (ہیبرون، فلسطین) میں ہوئی۔ جو یروشلم سے 30 کلومیٹر جنوب میں واقع ہے اور جو مغربی فلسطین کا سب سے بڑا اور دارالحکومت غزہ کے بعد پورے فلسطین کا سب سے بڑا شہر ہے۔آپ کو حضرت مخدوم کمال الدین احمد یحیی منیری سے شہرت حاصل ہے۔ آپ کے والدِ گرامی حضرت مخدوم عماد الدین اسرائیل منیری بن امام محمد تاج فقیہ ہاشمی ہیں۔ آپ کے دادا جان فاتحِ منیر، تاج الفقہا امام محمد تاج فقیہ ہاشمی مُطَّلَبی ہیں، جن کا سلسلۂ نسب گیارہویں پشت پہ حضرت عبد اللہ بن زبیر بن عبد المطلب رضی اللہ عنہ سے جا ملتا ہے۔ آپ بشارتِ نبوی کے مطابق ہندستان میں تبلیغ اسلام کی خاطر اپنے وطن عزیز بیت المقدس سے ہجرت کر کے منیر شریف تشریف لائے، اور سیاسی طور پر یہاں کے راجا "منیر راے" کو شکست فاش دی۔ پھر یہاں شمع اسلام روشن فرماکر اپنی اولادوں کو اسلام کی تبلیغ و اشاعت کی خاطر مفتوحہ علاقے سپرد فرماکر اپنے وطن واپس ہو گئے۔آپ کی ابتدائی تعلیم آپ کے گھر میں ہی آپ کے والدین کریمین کے زیر نگرانی ہوئی۔ اعلیٰ تعلیم مصنف ہدایہ علامہ برہان الدین مرغینانی رحمہ اللہ کے برادرِ محترم علامہ رکن الدین مرغینانی ثم منیری رحمہ اللہ کے زیر نگرانی ہوئی۔ جو آپ کے دادا جان حضور فاتحِ منیر کے قافلے میں لشکر اسلام کے ہم راہ جذبۂ تعلیم و تعلم و درس و تدریس لے کر آئے تھے، مزار مبارک منیر شریف کے قاضی محلہ میں مسجدِ رکن الدین کے سامنے واقع ہے۔ مزید تعلیم کے لیے آپ نے بغداد شریف کا رخ کیا اور وہاں حضرت بہاء الدین زکریا ملتانی قدس سرہ و حضرت مصلح الدین سعدی شیرازی قدس سرہ جیسے جید صوفیہ کے ہم راہ حضرت خواجہ شہاب الدین سہروردی قدس سرہ و خواجہ نجم الدین فردوسی قدس سرہ جیسے اکابر صوفیہ کے پاس روحانی تعلیم و تربیت حاصل کی۔ بیعت و خلافت آپ کو حضرت خواجہ شہاب الدین سہروردی رحمہ اللہ سے حاصل ہے۔ جو حضرت خواجہ ضیاء الدین ابو نجیب سہروردی رحمہ اللہ کے مرید و خلیفہ اور حضور غوث پاک حضرت محی الدین عبد القادر جیلانی رضی اللہ عنہ کے فیض یافتہ و خرقۂ خلافت یافتہ ہیں۔آپ کا نکاح تارک السلطنت حضرت مخدوم شہاب الدین پیر جگ جوت عظیم آبادی رحمہ اللہ کی دختر نیک اختر رابعۂ عصر ، ولیہ کاملہ حضرت بی بی رضیہ علیہا الرحمہ سے ہوا۔ جو کاشغر کی سلطنت چھوڑ کر اسلام کی دعوت و تبلیغ، ترویج و اشاعت، خلقِ خدا کی خدمت اور رشد و ہدایت کی خاطراپنے وطن سے ہجرت کر کے ہندستان تشریف لائے تھے، بیعت و خلافت حضرت خواجہ شہاب الدین سہروردی رحمہ اللہ سے حاصل ہے۔ آپ خود بھی ولیِ کامل تھے اور آپ کی صاحب زادی حضرت بی بی رضیہ بھی ولیہ کاملہ تھیں، جنھوں نے اپنے صاحب زادے حضرت مخدومِ جہاں کو کبھی بھی بغیر وضو کے دودھ نہیں پلایا۔آپ کی اولاد میں چار صاحب زادے اور ایک صاحب زادی ہیں، جن میں مخدومِ جہاں حضرت شرف الدین احمد یحیی منیری رحمہ اللہ کو بے انتہا مقبولیت اور عالمی شہرت حاصل ہے۔ آپ کا وصال 11 شعبان المعظم 690ھ/1291ء کو منیر شریف (پٹنہ، بہار) میں ہوا اور وہیں بڑی درگاہ میں آپ کا مزارِ مبارک ہے۔ ہر سال 10، 11 اور 12 شعبان المعظم کو آپ کا عرس سراپا قدس انتہائی تزک و احتشام اور صوفیانہ طرز و روش پر منعقد کیا جاتا ہے۔آپ کے بعد آپ کے بڑے صاحب زادے مخدوم جلیل الدین منیری علیہ الرحمہ نے مسند سجادگی کو زینت بخشی اور دوسرے صاحب زادے مخدوم شرف الدین یحییٰ منیری علیہ الرحمہ نے بہار شریف میں اپنی خانقاہ الگ بنائی۔حضرت مخدوم شاہ جلیل الدین منیری علیہ الرحمہ کے بعد آٹھویں پشت میں ایک مشیور بزرگ حضرت مخدوم شاہ دولت منیری علیہ الرحمہ ہوئے۔ انھوں نے بھی رشد و ہدایت اور خلقِ خدا کی خدمت میں اپنا تن من دھن سب کچھ تج دیا۔اس خانقاہ کے موجودہ سجادہ نشیں حضور طارقِ ملت حضرت سیدنا طارق عنایت اللہ فردوسی دام ظلہ العالی ہیں جو خدمتِ دین اور خلقِ خدا کی رہ نمائی میں اپنی مثال آپ ہیں۔ تواضع و انکساری میں اپنا ثانی نہیں رکھتے۔ سیرت و کردار میں جن کی طرح ڈھونڈنے سے نہیں ملتا۔بلا شبہ اس بارگاہ سے از ابتدا تا حال خلقِ خدا کی خدمت اور رشد و ہدایت کا سلسلہ جاری و ساری ہے۔اخیر میں بارگاہ قاضی الحاجات میں دست بہ دعا ہوں کہ مولاے رحمان و رحیم اپنے حبیب رءوف و رحیم علیہ الصلاة والتسلیم کے بطفیل عمیم ہمیں اپنے بزرگوں سے وابستہ رکھے، ان کے نقوش قدم پر چلائے اور ان کی تعلیمات پر عمل پیرا رہنے کی توفیقِ خیر مرحمت فرمائے۔آمین۔ یارب العالمین۔ بجاہ النبی الامین۔ علیہ اکرم الصلاة و افضل التسلیم وعلی آلہ وصحبہ ومن تبعھم اجمعین۔(مصادر و مراجع: مناقب الاصفیا، وسیلۂ شرف وذریعۂ دولت، تاریخ سلسلۂ فردوسیہ، آثار منیر، مرآت الکونین وغیرہ)

خانقاہِ منیر شریف اور اس کی مختصر تاریخاز قلم: ناچیز ناصر منیری کان اللہ لہڈائریکٹر ریسرچ سینٹر خانقاہ منیر شریفرابطہ نمبر: 9905763238۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔حضور تاج الفقہا، فاتح الہند، عطاء النبی فی الھند، فارغِ جامعہ نظامیہ بغداد، رفیقِ امام غزالی، خلیفہِ مرشدِ غزالی امام ابو علی فارمدی، جدِّ مخدوم یحییٰ منیری حضرتِ سیدنا امام محمد بن ابو بکر ہاشمی مُطَّلِبی قدس خلیلی، بیت المقدسی، فلسطینی ثم منیری (عرف امام تاج فقیہ، مُتَوفّٰی: 563ھ، جبل الھند، مکہ مکرمہ) کے دستِ مقدس سے منیر شریف کی سرزمین پر جس خانقاہ کی بنیاد رکھی گئی اسے ایشیا کی سب سے پہلی خانقاہ ہونے کا شرف حاصل ہے۔حضور تاج الفقہا رحمہ اللہ حجةالاسلام امام غزالی علیہ الرحمہ کے رفیق درس ہیں۔ آپ کی ولادت تقریباً 450ھ میں ہوئی۔ مدرسہ نظامیہ بغداد کی بنیاد 457ھ میں پڑی۔ پھر آپ نے اس مدرسے میں داخلہ لیا اور وہیں سے تعلیم کی تکمیل بھی کی۔ آپ نے اس وقت کے مروج علوم میں ایسی دست رس حاصل کی کہ آپ کو "تاج الفقہا" کے لقب سے سرفراز کیا گیا۔ دینی علوم سے فراغت کے بعد آپ نے روحانی علوم کی طرف اپنی عنانِ توجہ موڑی اور اس کے لیے شیخ یگانہ امام ابو علی فارمدی کے پاس زانوے تلمذ تہ کیا۔ انھی کے دست حق پرست پر بیعت و ارادت کا بھی شرف حاصل ہے اور اجازت و خلافت بھی انھی سے ملی۔ امام ابو علی فارمدی حضور تاج الفقہا کے ساتھ ساتھ امام غزالی کے بھی مرشدِ طریقت ہیں۔ اس کے بعد امام غزالی مدرسہ نظامیہ بغداد میں ہی مدرس کے عہدے پر فائز ہوئے اور حضور تاج الفقہا بشارت نبوی کے مطابق عازمِ ہند ہوئے۔ اور تقریباً 476ھ میں منیر شریف پہنچے اور خواہرزادہِ غوث اعظم حضرت سیدنا خطیرالدین ابدال جیلانی، برادر مصنف ہدایہ علامہ رکن الدین مرغینانی، خواہرزادہِ محمود غزنوی حضرت تاج الدین خواندگاہ غزنوی، شہزادہِ ترک میر سید محمد عطا ترکی، سالارِ سپاہ قطب الاقطاب علم بردار ربانی اور سید سالار مسعود غازی کے اقربا کو اپنے ہم راہ لے کر آئے۔ سیاسی طور پر یہاں کے راجا کو شکست دے کر فتح و کام رانی کا علم لہرایا۔ اور اسی وقت یہاں ایک خانقاہ کی بنا ڈالی۔ جسے دنیا خانقاہِ منیر شریف سے جانتی ہے۔ اسی وقت ایک درس گاہ کی بھی بنیاد پڑی جس کی نئی شکل جامعہ امام تاج الفقہا ہے۔ حضور تاج الفقہا کے ذخیرہِ کتب کو وسعت دے کر "مخدوم شاہ دولت منیری لائبریری" کا نام دیا گیا۔ حضور تاج الفقہا نے جو تصنیف و تالیف اور تحقیق و تدقیق کا کام کیا اسی کام کو جاری رکھنے والے ادارے کو "مخدوم یحییٰ منیری ریسرچ سینٹر" سے موسوم کر دیا گیا۔ حضور تاج الفقہا نے 476ھ میں اس خانقاہ کی بنا ڈالی اس وقت سے تا حال یہاں سے رشد و ہدایت کا کام جاری و ساری ہے۔ ان کے بعد ان کے جانشیں عمادالملةوالدین حضرت سیدنا مخدوم اسرائیل منیری نے ذمے داری سنبھالی، پھر سلطان المخدومین حضرت سیدنا مخدوم یحیی منیری جانشیں ہوئے اور شیخ مصلح الدین سعدی شیرازی و شیخ بہاء الدین زکریا ملتانی کی رفاقت میں مدرسہ نظامیہ، بغداد سے فراغت اور شیخ شہاب الدین سہروردی، شیخ ابونجیب سہروردی اور شیخ نجم الدین کبریٰ ولی تراش سے خلافت پا کر حضور تاج الفقہا کی جانشینی کا حق ادا کر دیا۔ اس وقت سے اب تک اس خانقاہ سے خلقِ خدا کی خدمت اور رشد و ہدایت کا سلسلہ جاری و ساری ہے۔ اللہ پاک یہ سلسلہ تا قیامت جاری و ساری رکھے۔ آمین۔

سلطان المخدومین حضرت سیدنا کمال الدین یحیی منیری علیہ الرحمہ کا ذکرِ خیراز قلم: ناچیز ناصر منیری کان اللہ لہڈائریکٹر: ریسرچ سینٹر، خانقاہ منیر شریف، پٹنہرابطہ نمبر: 9905763238۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔سلطان المخدومین، زین الساجدین، برہان العاشقین، زبدة السالکین، تاج العارفین، والدِ مخدومِ جہاں، شہزادہء قطب زماں، نبیرہء تاج الفقہا حضرت سیدنا مخدوم کمال الدین احمد یحییٰ منیری رضی اللہ تعالی عنہ و ارضاہ عنا اپنے وقت کے جلیل القدر، عظیم المرتبت، رفیع الدرجت، فقید المثال اور عدیم النظیر صوفی بزرگ گذرے ہیں۔ آپ کا شمار اپنے وقت کے عظیم صوفیہ میں ہوتا ہے۔ آپ مذہب مہذب اسلام کے مخلص داعی، تصوف و روحانیت کے سچے مبلغ، علوم دینیہ کے اچھے مدرس، اولیا و صوفیہ کے لائق و فائق نقیب اور 'العلماء ورثة الانبیا' کے بہترین مصداق تھے۔ منیر شریف اور اس کے اطراف و اکناف میں آپ نے جو شمع اسلام روشن فرمائی ہے وہ اب تک درخشاں و تاباں ہے۔ دعوت و تبلیغ، تصوف و روحانیت اور رشد و ہدایت کے باب میں آپ کی خدمات کافی اہمیت کی متحمل ہیں۔ ذیل میں آپ کی حیات کے چند گوشوں پر مختصرا روشنی ڈالنے کی کوشش کی گئی ہے۔ ولادتِ باسعادت:آپ کی ولادت 572ھ مطابق 1174ء کو بیت المقدس کے علاقے "الخلیل" (ہیبرون، فلسطین) میں ہوئی۔ جو یروشلم سے 30 کلومیٹر جنوب میں واقع ہے اور جو مغربی فلسطین کا سب سے بڑا اور دارالحکومت غزہ کے بعد پورے فلسطین کا سب سے بڑا شہر ہے۔اسمِ گرامی :آپ کو حضرت مخدوم کمال الدین احمد یحیی منیری سے شہرت حاصل ہے۔والدِ ماجد:آپ کے والدِ گرامی حضرت مخدوم عماد الدین اسرائیل منیری بن امام محمد تاج فقیہ ہاشمی ہیں۔جدِ کریم:آپ کے دادا جان فاتحِ منیر، تاج الفقہا امام محمد تاج فقیہ ہاشمی مُطَّلِبی ہیں، جن کا سلسلۂ نسب آٹھ پشتوں کی درمیانگی سے حضور علیہ السلام کے عم مکرم حضرت زبیر بن عبد المطلب سے جا ملتا ہے۔ آپ بشارتِ نبوی کے مطابق ہندستان میں تبلیغ اسلام کی خاطر اپنے وطن عزیز بیت المقدس سے ہجرت کر کے منیر شریف تشریف لائے، اور یہاں کے ظالم راجا "منیر راے" سے جہاد کر کے اسے شکست فاش دی۔ پھر یہاں شمع اسلام روشن فرماکر اپنی اولادوں کو اسلام کی تبلیغ و اشاعت کی خاطر مفتوحہ علاقے سپرد فرما کر اپنے وطن واپس ہو گئے۔تعلیم و تربیت : آپ کی ابتدائی تعلیم آپ کے گھر میں ہی آپ کے والدین کریمین کے زیر نگرانی ہوئی۔ اعلیٰ تعلیم مصنف ہدایہ علامہ برہان الدین مرغینانی رحمہ اللہ کے برادرِ محترم علامہ رکن الدین مرغینانی ثم منیری رحمہ اللہ کے زیر نگرانی ہوئی۔ جو آپ کے دادا جان حضور فاتحِ منیر کے قافلے میں لشکر اسلام کے ہم راہ جذبۂ جہاد و تعلیم و تعلم و درس و تدریس لے کر آئے تھے، مزار مبارک منیر شریف کے قاضی محلہ میں مسجدِ رکن الدین مرغینانی کے سامنے واقع ہے۔ مزید تعلیم کے لیے آپ نے بغداد شریف کا رخ کیا اور وہاں حضرت بہاء الدین زکریا ملتانی و حضرت مصلح الدین سعدی شیرازی جیسے جید صوفیہ کے ہم راہ مدرسہ نظامیہ بغداد سے فراغت حاصل کی۔ اس کے علاوہ حضرت خواجہ شہاب الدین سہروردی و خواجہ ابو نجیب سہروردی اور خواجہ نجم الدین ولی تراش جیسے اکابر صوفیہ سے روحانی تعلیم و تربیت حاصل کی۔بیعت و خلافت : بیعت و خلافت آپ کو حضرت خواجہ شہاب الدین سہروردی رحمہ اللہ سے حاصل ہے۔ جو حضرت خواجہ ضیاء الدین ابو نجیب سہروردی رحمہ اللہ کے مرید و خلیفہ اور حضور غوث پاک محی الدین عبد القادر جیلانی رضی اللہ عنہ کے فیض یافتہ و خرقۂ خلافت یافتہ ہیں۔عقدِ مناکحت:آپ کا نکاح تارک السلطنت حضرت مخدوم شہاب الدین پیر جگ جوت عظیم آبادی رحمہ اللہ کی دختر نیک اختر رابعۂ عصر ، ولیہ کاملہ حضرت بی بی رضیہ علیہا الرحمہ سے ہوا۔ جو کاشغر کی سلطنت چھوڑ کر اسلام کی دعوت و تبلیغ، ترویج و اشاعت، خلقِ خدا کی خدمت اور رشد و ہدایت کی خاطراپنے وطن سے ہجرت کر کے ہندستان تشریف لائے تھے، بیعت و خلافت حضرت خواجہ شہاب الدین سہروردی رحمہ اللہ سے حاصل ہے۔ آپ خود بھی ولیِ کامل تھے اور آپ کی صاحب زادی حضرت بی بی رضیہ بھی ولیہ کاملہ تھیں، جنھوں نے اپنے صاحب زادے حضرت مخدومِ جہاں کو کبھی بھی بغیر وضو کے دودھ نہیں پلایا۔اولادِ امجاد:آپ کی اولاد میں چار صاحب زادے اور ایک صاحب زادی ہیں، جن میں مخدومِ جہاں حضرت شرف الدین احمد یحیی منیری رحمہ اللہ کو بے انتہا مقبولیت اور عالمی شہرت حاصل ہے۔ وصالِ پر ملال:آپ کا وصال 11 شعبان المعظم 690ھ/1291ء کو منیر شریف (پٹنہ، بہار) میں ہوا اور وہیں بڑی درگاہ میں آپ کا مزارِ مبارک ہے۔ ہر سال 10، 11 اور 12 شعبان المعظم کو آپ کا عرس سراپا قدس انتہائی تزک و احتشام اور صوفیانہ طرز و روش پر منعقد کیا جاتا ہے۔تعلیماتِ مخدوم یحییٰ منیری:آپ چوں کہ اللہ کے ولی تھے اور آپ کو اللہ نے لوگوں کو سیدھی راہ بتانے کے لیے بھیجا تھا اس لیے آپ لوگوں کو اچھی اچھی باتیں سکھاتے تھے۔ آپ کی انھی تعلیمات میں سے چند یہ ہیں:(1)اللہ سے،(2)اس کے رسول سے،(3)اور نیک لوگوں سے محبت رکھیں۔(4)ہر حال میں اللہ کا شکر کیا کریں۔(5)اس کی رحمت سے کبھی مایوس نہ ہوں۔(6)اس پر بھروسا رکھیں۔(7)اس سے ڈریں۔(8)اسی کی عبادت کریں۔(9)نمازیں پڑھا کریں۔(10)روزے رکھا کریں۔(11)صاحب نصاب ہوں تو زکات دیا کریں۔(12)استطاعت ہو تو حج ضرور کریں۔(13)علم حاصل کریں۔(14)اور اس پر عمل بھی کریں۔(15)دین کی خدمت کیا کریں۔(16)علما کی عزت کیا کریں۔(17)ہمیشہ سچ بولیں۔(18)جھوٹ کبھی نہ بولیں۔(19)بڑوں کی عزت کریں۔(20)چھوٹوں پر شفقت کریں۔(21)غریبوں، فقیروں، یتیموں اور بیواؤں کی مدد کیا کریں۔(22)سب کے ساتھ اچھا برتاو کریں۔(23)کسی پر غصہ نہ کریں۔(24)کسی پر ظلم نہ کریں۔(25)سب کے ساتھ بھلائی کریں۔(26)کسی کے ساتھ برائی نہ کریں۔(27)برائی سے بچیں۔(28)گناہوں سے سچی توبہ کریں۔(29)مصیبتوں پر صبر کیا کریں۔(30)پریشانیوں سے گھبرایا نہ کریں۔(31)بڑوں کی بات مانیں۔(32)چھوٹوں کو سمجھایا کریں۔(33)دوسروں کی غلطیوں کو معاف کریں۔(34)بے حیائی و بے وفائی سے بچیں۔(35)کسی پر حسد نہ کریں۔(36)دکھاوے سے بچیں۔(37)گھمنڈ نہ کریں۔(38)دل میں کینہ نہ رکھیں۔(39)لالچ نہ کریں۔(40)کنجوسی سے بچیں۔(41)ناشکری نہ کریں۔(42)کسی کو نیچا نہ سمجھیں۔(43)کسی کے بارے میں برا نہ سوچیں۔(44)کسی کی چغلی نہ کریں۔(45)کسی پر جھوٹا الزام و تہمت نہ لگائیں۔(46)لڑائی جھگڑے سے بچیں۔(47)گالی گلوج نہ کریں۔(48)کسی کو دھوکا نہ دیں۔(49)مخالفت سے بچیں۔(50)موت اور قبر کو یاد رکھا کریں۔وغیرہ وغیرہ۔اخیر میں بارگاہ قاضی الحاجات میں دعا گو ہوں کہ موالے پاک اپنے محبوب پاک، صاحب لولاک، سیاح افلاک صلی اللہ علیہ وسلم کے صدقے و طفیل حضرت مخدوم پاک کے مرقد منور پہ رحمت و انوار کی بارشیں برسائے۔ ان کے درجات بلند فرمائے اور ہمیں ان کی یاد منانے اور ان کے نام نذر و نیاز کرنے کے ساتھ ساتھ ان کی تعلیمات پر عمل پیرا ہونے کی بھی توفیق خیر مرحمت فرمائے۔آمین۔ یا رب العالمین۔ بجاہ النبی الامین۔صلی اللہ علیہ وآلہ وصحبہ ومن تبعھم اجمعین۔(مصادر و مراجع: مناقب الاصفیا، وسیلۂ شرف وذریعۂ دولت، تاریخ سلسلۂ فردوسیہ، آثار منیر، مرآت الکونین وغیرہ)