Posts

Showing posts from 2022

حضرت علی حسین اشرفیؔ کچھوچھوی علیہ ا

حضرت علی حسین اشرفیؔ  کچھوچھوی علیہ الرحمہ کی شاعری کا ادبی مطالعہ از قلم:  ناصر منیری، بانی و صدر منیری فاؤنڈیشن منیر شریف، پٹنہ زبان و ادب کی اہمیت اور قدر و منزلت بہت ہی زیادہ ہے۔ دنیا کے مختلف خطے اور علاقے میں بھانت بھانت کی بولیاں بولی جاتی ہیں۔ انواع و اقسام کی زبانیں موجود ہیں۔ ماہر لسانیات کا کہنا ہے کہ ہر بارہ کوس پر پانی اور بانی میں تبدیلی آجاتی ہے۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ دنیا کے الگ الگ ملکوں، خطوں اور علاقوں میں الگ الگ زبانیں اپنا وجود رکھتی ہیں انھی میں سے ایک شیریں، سہل اور بہترین زبان اردو ہے۔ جو بیش تر ممالک میں نہ صرف بولی اور سمجھی جاتی ہے بلکہ لکھی اور پڑھی بھی جاتی ہے۔ ہند آریائی میں سے کھڑی بولی سے معرض وجود میں آنے والی اس زبان کو بین الاقوامی زبان ہونے کا شرف حاصل ہے۔ داغؔ دہلوی کے شعر کو قدرے تصرف کے ساتھ پیش کرنا بےجا نہ ہوگا کہ اردو ہے جس کا نام ہم ہی جانتے ہیں داغؔ       سارے جہاں میں دھوم ہماری زباں کی ہے اس میں کوئی دو راے نہیں کہ کسی بھی زبان کی بقا اور سالمیت کے ضامن اس کے ادبا اور شعرا ہوا کرتے ہیں۔ ...

داعیِ اتحادِ امت، ناشرِ پیغام امن و محبت، پیرِ طریقت، رہبرِ راہِ شریعت، حضور طارقِ ملت، حضرت سید شاہ طارق عنایت اللہ فردوسی حفظہ اللہ القوی سجادہ نشیں خانقاہِ منیر شریف، متولی درگاہ منیر شریف و جنرل سکریٹری آل انڈیا صوفی سجادہ نشیں کونسل کی شانِ والا تبار و بارگاہِ عالی جاہ و بےکس پناہ میں ناچیز کی جانب سے قصیدے کی شکل میں منظوم خراج عقیدت۔۔۔दाई-ए-इत्तिहाद-ए-उम्मत, नाशिर-ए-पैग़ाम-ए-अमन व मोहब्बत, पीरे तरीक़त, रहबरे राहे शरीअत, हुज़ूर तारिक़-ए-मिल्लत, हज़रत सैयद शाह तारिक़ इनायतुल्लाह फिरदौसी हफ़िज़हुल्लाहुल क़वी सज्जादा नशीं ख़ानक़ाह-ए-मनेर शरीफ, मुतवल्ली दरगाह मनेर शरीफ व जनरल सेक्रेटरी ऑल इंडिया सूफी सज्जादा नशीं कौंसिल की शाने वाला तबार और बारगाहे आली जाह व बेकस पनाह में नाचीज़ की जानिब से कसीदे की शक्ल में मंज़ूम ख़राजे अक़ीदत। فضلِ ربُّ الوریٰ میرے طارق پِیا آلِ نور الہدیٰ میرے طارق پِیاफ़ज़्ले रब्बुल वरा, मेरे तारिक़ पियाआले नूरुल हुदा, मेरे तारिक़ पिया مرتضیٰ کی عطا میرے طارق پِیا نورِ خیرالنسا میرے طارق پِیاमुर्तज़ा की अता, मेरे तारिक़ पियानूरे ख़ैरुन्निसा, मेरे तारिक़ पिया باغِ حسنین کا اِک مہکتا گلاباورکتابِ ہُدیٰ میرے طارق پِیاबाग़-ए-हसनैन का इक महकता गुलाबऔर किताबे हुदा, मेरे तारिक़ पिया انبیا، اولیا، اتقیا، اصفیاکی عنایت، عطا میرے طارق پِیاअम्बिया, औलिया, अतक़िया, अस्फियाकी इनायत, अता, मेरे तारिक़ पिया سر پہ تاجِ فقیہی سجا آپ کےآپ تاجِ ہُدیٰ میرے طارق پِیاसर पे ताजे फ़क़ीहि सजा आप केआप ताजे हुदा, मेरे तारिक़ पिया آپ حضرت سرائل کی ہیں اک عطااور اہلِ سخا میرے طارق پِیاआप हज़रत सराइल की हैं इक अताऔर अहले सख़ा, मेरे तारिक़ पिया آپ مخدوم یحیی کا فیضان ہیںان کی ہیں اِک دعا میرے طارق پِیاआप मख़्दूम यहया का फैज़ान हैंउन की हैं इक दुआ, मेरे तारिक़ पिया فیضِ مخدوم شرفا کا ہے یہ اثرآپ قمرِ ہدیٰ میرے طارق پِیاफ़ैज़े मख़्दूम शरफ़ा का है ये असरआप क़मरे हुदा, मेरे तारिक़ पिया کوئی وقتِ ضُحیٰ میں جو رخ دیکھ لےآپ شمسِ ضُحیٰ میرے طارق پِیاकोई वक़्ते जुहा में जो रुख़ देख लेआप शम्से दुहा, मेरे तारिक़ पिया کوئی تاریک شب میں جو زیارت کرےدیکھے بدرِ دُجیٰ میرے طارق پِیاकोई तारीक शब में जो ज़्यारत करेदेखे बदरे दुजा, मेरे तारिक़ पिया کشتیِ دین و ملت اور امت کے ہیںآپ اِک ناخدا میرے طارق پِیاकश्तिये दीनो मिल्लत और उम्मत के हैंआप इक ना-ख़ुदा, मेरे तारिक़ पिया پارسائی کرے ناز جس پہ وہ ہیںصاحبِ اِتّقا میرے طارق پِیاपारसाई करे नाज़ जिस पे वो हैंसाहिबे इत्तिक़ा, मेरे तारिक़ पिया ہیں مبلغ و داعی یہ اسلام کےرہبر و رہنما میرے طارق پِیاहैं मुबल्लिग़ व दाई ये इस्लाम केरहबरो रहनुमा, मेरे तारिक़ पिया ہوں مریدوں کے جھرمٹ میں لگتا ہے یوںچاند ہو بَر سما میرے طارق پِیاहों मुरीदों के झुरमुट में लगता है यूँचाँद हो बर समा, मेरे तारिक़ पियाفیض یابوں میں "ناصر منیری" بھی ہےہو سدا یہ عطا میرے طارق پِیاफ़ैज़याबों में "नासिर मनेरी" भी हैहो सदा ये अता, मेरे तारिक़ पिया

خانوادہء مخدوم یحیی منیری اور خدمتِ خلقاز قلم: ناچیز ناصر منیری کان اللہ لہڈائریکٹر ریسرچ سینٹر خانقاہ منیر شریف، پٹنہرابطہ نمبر: 9905763238۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔سلطان المحققین، برہان العارفین، مخدوم جہاں، قطب زماں حضرت مخدوم شرف الدین احمد یحیی منیری قدس سرہ القوی اپنے عہد کے عظیم محقق، محدث، مصنف اور صوفی بزرگ گذرے ہیں۔آپ 661ھ کو صوبہ بہار ضلع پٹنہ کے عظیم و قدیم شہر "منیر شریف" میں تولد ہوئے۔ تعلیم و تربیت اپنے والد ماجد مخدوم منیر حضرت کمال الدین یحیی منیری (570ھ – 690ھ) اور علامہ ابو توامہ بخاری علیہ الرحمہ سے حاصل کی۔ بیعت و خلافت حضرت خواجہ نجیب الدین فردوسی دہلوی علیہ الرحمہ (م:690ھ) سے حاصل ہے۔ آپ کا وصال پر ملال 6 شوال المکرم 782ھ کو ہوا۔ اور مزار مبارک صوبہ بہار ضلع نالندہ کے قصبہ "بہار شریف" میں ہے۔آپ جہاں صوفیِ با صفا تھے وہیں ولیِ کامل، مرشد برحق، شیخ طریقت اور عظیم فلسفی بھی تھے۔آپ کی تحریروں میں منقولات کے ساتھ ساتھ معقولات کا بھی خاصا مواد ملتا ہے۔ آپ اپنی باتوں کو جہاں منقولاتی دلائل مثلا قرآن و حدیث اور اقوال ائمہ، فقہا و صوفیہ سے مدلل و مبرہن کرتے ہیں وہیں فلسفیانہ ابحاث سے معقول بھی کرتے نظر آتے ہیں۔شیخ عبدالماجد دریاآبادی کے بقول علم فلسفہ میں آپ کا مرتبہ بہت بلند تھا۔ وہ اپنی کتاب 'نظام تعلیم و تربیت' میں یہاں تک لکھتے ہیں کہ حیرت ہوتی ہے کہ ان کے کلام میں سطر دو سطر نہیں بلکہ صفحے کے صفحے ایسے نظر آتے ہیں کہ گویا موجودہ زمانے کے مغربی مفکرین کی کتابوں کا لفظی ترجمہ ہے۔ کانٹ، ہیگل، برکلے اور ہیوم ازیں قبیل فلاسفہء جدید کے نظریات جن پر موجودہ فلسفے کو ناز ہے ان کی کتابوں میں بھرے پڑے ہیں۔اس کے علاوہ تفسیر و حدیث اور فقہ و افتا میں بھی آپ کا مرتبہ بہت بلند ہے۔ صاحب سیرة الشرف کے بقول آپ فقہ میں اجتہاد کے مرتبے پر فائز تھے۔ آپ کے تفقہ فی الدین کا عالم یہ تھا کہ قرآن و حدیث سے مسائل کا استنباط کرنا، اور پھر اس پر عقلی دلایل قایم کرنا آپ کے نزدیک معمولی بات تھی۔جہاں آپ عظیم محقق، مفسر، محدث، مجتہد اور فقیہ و فلسفی تھے وہیں آپ کا مجددانہ کردار بھی انتہائی اہم رہا ہے۔ آپ کے تجدید و احیا کے کارہاے نمایاں ایک صدی پر محیط ہیں۔ بندگان خدا کی خاصی تعداد آپ کے دست حق پرست پر تائب و مشرف بہ اسلام ہوئی۔ آج بھی آپ کے مکتوبات خلق خدا کے لیے مشعل راہ ہیں اور دنیا کی مختلف زبانوں میں منتقل ہو کر لوگوں کے فلاح و اصلاح کا ضامن ہیں۔ آپ کے تجدیدی کارناموں کو شیخ ابوالحسن علی ندوی نے اپنی تاریخی کتاب 'تاریخ دعوت و عزیمت' کی تیسری جلد میں بڑی شرح و بسط کے ساتھ تحریر کیا ہے۔ان سب کے ساتھ ساتھ وہ ایک عظیم انسان بھی تھے اور انسانیت کے ہم درد بھی۔ اپنے سینے میں ایک درد مند دل بھی رکھتے تھے۔ کسی بھی غیر انسانی و غیر اخلاقی حرکت پر ان کا دل دھڑک اٹھتا تھا بقول امیر مینائی۔۔خنجر لگے کسی کو تڑپتے ہیں ہم امیرسارے جہاں کا درد ہمارے جگر میں ہےآپ نے اپنی تعلیمات میں جگہ جگہ انسانیت کا پیغام اور خدمت خلق کا درس دیا ہے۔ آپ کی انھی تعلیمات کو یہاں پیش کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ سلسلہء تعلیمات مخدوم جہاں کی یہ پہلی کڑی ہے۔ ان شاء اللہ العزیز اس سلسلے کی اور بھی کتابیں سلسلہ وار پیش کی جاتی رہیں گی۔زندگی وہ جو دوسروں کے کام آئے"اے بھائی! اس اندھیری دنیا میں اپنے قلم، زبان، مال اور مرتبے سے جہاں تک ہو سکے ضرورت مندوں کو راحت پہنچاؤ، برادر عزیز کے مقام میں روزہ، نماز اور نوافل جو بھی ہیں اچھے ہیں لیکن لوگوں کے دلوں کو راحت و آرام پہنچانے سے زیادہ فائدہ مند کام اور کوئی نہیں۔"ضرورت مندوں کی ضرورت پوری کرنامنقول ہےکہ خواجہ بشر حافی رحمۃ اللہ علیہ سے لوگوں نے کہا : فلاں بادشاہ تمام رات نماز میں کھڑا رہتا ہے۔ فرمایا: اس نے اپنا کام چھوڑ دیا ہےاور دوسروں کے کاموں کو اختیار کیا ہے۔ لوگوں نے کہا اسے ذرا تفصیل سے کہا جائے۔ فرمایا: اس کا کام بھوکوں کو کھانا کھلانا، ننگوں کو کپڑا پہنانااور حاجت مندوں کی حاجت روائی کرنا ہے۔ رات بھر نماز اور ہر روز روزہ یہ دوسروں کا کام ہے اس کا نہیں۔ اسی کو کہا ہے ؎نیست دنیا بد اگر کاری کنیبد شود گر عزم دنیاوی کنیتخم امروزینہ فردا بر دہدورنہ کارے اے دریغا بر دہد)یعنی دنیا بری نہیں ہے اگر تم اس دنیاوی دولت سے اچھے کام کرو۔ بری اس وقت ہو جاتی ہے جب تم اس سے خزانہ بھرنے کا قصد کرتے ہو۔ آج کی تخم ریزی سے کل پھل ملے گا اور اگر تو بیج نہیں بوتا تو پھل کیا ہوگا(مانگنے سے پہلے دینا"اور اگر تم کسی کو کچھ دو تو کوشش کرو کہ سوال کرنے سےقبل دو۔ اہل معرفت اور اہل مروت کا قول ہے:السوال وان اقل ثمن النوال ان اجل سوال تھوڑا بھی عنایت کی قیمت بن جاتا ہے چاہے عنایت بڑی کیوں نہ ہو۔یعنی امداد تھوڑی ہو یا زیادہ سوال اس کی قیمت بن جاتا ہے اگر چہ کتنا ہی زیادہ دے۔ سمجھے کہ کچھ بھی نہیں دیا۔ اس لیے کہ دنیا لا شَے ہے(دنیا کوئی چیز نہیں(اپنا سب کچھ ضرورت مندوں میں لٹا دینا"امام شبلی رحمۃ اللہ علیہ کا قول ہے کہ اگر ساری دنیا میری ملک ہو جائے تو ان سب کا ایک لقمہ بنا کر میں کسی بھوکے کے منہ میں رکھ دوں پھر بھی مجھے اس پر ترس آئے ؎ملک دنیا را کہ بنیادے نہندگر ہ بس عالی ست بربادے نہندمال و ملک ایں جہاں جز ہیچ نیستگر ہمہ یابی چو من ہم ہیچ نیست)دنیا کی ملک و عمارت کی بنیاد جو رکھتے ہیں وہ کتنی ہی عالی شان کیوں نہ ہو اس کی بنیاد ہوا پر رکھی ہے اس دنیا کی دولت اور اس کی ملکیت سوالیے الجھن و جھنجھٹ کے اور کچھ نہیں اور تو سب کچھ پا لے جب بھی مری کچھ بھی نہیں۔(")مکتوبات دو صدی، مکتوب نمبر : 47، صفحہ: نمبر237،238(زبان و قلم اور روپے پیسوں سے خلق خدا کی خدمت کرواے بھائی ! الدنیا مزرعۃ الآخرۃ (دنیا آخرت کی کھیتی ہے) جہاں تک ممکن ہو آخرت کی کمائی کرنے میں مشغول ہونا چاہیے۔ اپنے ہاتھ ، زبان اور قلم و کاغذ اور اپنے نقد و جنس سے لوگوں کے دلوں کو خوش کریں، راحت و آرام پہنچائیں اور اس عمل کو ایک عظیم کام جانیں۔ دنیا کے عیوب، اس کی آفتیں اتنی زیادہ ہیں کہ جلد کی جلد سیاہ کی جائیں تو بھی اس کے دسویں حصے کا دسواں حصہ بیان نہ ہو سکے لیکن اس کے ساتھ ساتھ اسی دنیا میں اس کا ایک ہنر بھی ہے کہ یہ مزرعۂ آخرت ہےیعنی آخرت کمانے کی جگہ ہے۔"اللہ تک پہنچنے کے لیے خدمت خلق سے بڑھ کر کوئی راہ نہیں"ایک بزرگ سے لوگوں نے پوچھا : حق سبحانہ و تعالیٰ تک پہنچنے کی راہ کتنی ہے؟ انھوں نے فرمایا: موجودات میں جتنے ذرے ہیں ان میں سے ہر ایک ذرے کی مقدار میں اللہ پاک تک پہنچنے کی راہ ہے۔ کوئی راہ لوگوں کی دل جوئی کر نے والوں کو خوش کرنے سے زیادہ فائدہ مند اور نزدیک تر نہیں ہے اور میں نے اسی راہ سے خدا کو پایا اور اپنے مریدوں کو اسی کی وصیت کرتا ہوں۔"ایک ضرورت کے بدلے ستر پوری ہوں گی"اے بھائی! شریعت کا حکم ہے: من قضی لاخیہ المسلم حاجت قضی اللہ لہ سبعین حاجۃ)یعنی جو شخص اپنے مسلمان بھائی کی ایک حاجت پوری کرے اللہ تعالیٰ اس کی ستر حاجتیں پوری کرتا ہے۔("ضرورت مند کو کپڑے پہنانے کا ثوابوقال علیہ السلام: من کسی مومنا کسی اللہ یوم القیامۃ الف حلۃ وقضی اللہ لہ الف حاجۃ و کتب اللہ لہ عبادۃ سنۃ و غفر اللہ ذنوبہ کلھا وان اکثر من نجوم السماء واعظاہ اللہ لکل شعرۃ علی جسدہ نورا ونفع اللہ عنہ عذاب القبر و کتب اللہ براءۃ من النار وجزاء علی الصراط واماما من الشدائد۔(یعنی فرمایا حضور ﷺ نے : جو شخص کسی ایک مومن کو کپڑا پہناتا ہےقیامت میں اللہ پاک اسے ہزار جوڑے عنایت کرے گا، اس کی ہزار ضرورتیں پوری ہوں گی، ایک سال کی عبادت کا ثواب اسے ملے گا، آسمان کے ستاروں کی گنتی سے زیادہ اگر اس کے گنوہ ہوں گے تو وہ معاف کر دیے جائیں گے، دوزخ کے عذاب سے اس کو چھٹکارامل جائے گا، پل صراط سے بے خدشہ گذرجائے گا، روز قیامت کی سختیوں سے نجات مل جائے گی۔)خدمت خلق نوافل سے بڑھ کر ہےیہ دولت نفل نمازوں، نفل روزوں میں کہاں ہے، یہی بات ہے کہ ایک دفعہ ایک بزرگ سے لوگوں نے کہا کہ اس ملک کا بادشاہ شب بیداری کرتا ہےاور رات بھر نفل نمازیں پڑھا کرتا ہے، انھوں نے فرمایا: بے چارے نے اپنی راہ کھو دی ہے اور دوسروں کی راہ اختیار کر لی ہے۔ لوگوں نے سوال کیا حضرت! یہ کیسے؟ اس کے خدا تک پہنچنے کی یہ راہ ہے کہ وہ اپنی دولت اور انواع و اقسام کی نعمتوں سے بھوکوں کو کھانا کھلالیے، ننگوں کو کپڑے پہنالیے، برباد و پریشاں دلوں کو شاد و آباد کرے ، حاجت مندوں کی حاجت برآری کرے ، نفل نمازوں کی مشغولی اور شب بیداری درویشوں، فقیروں کا کام ہے، ہر شخص کو اپنے مناسب کام کرنا چاہیے۔خدمت خلق شب بیداری سے بہتر"اے بھائی! اگر شکستہ دل کو پاؤ اور اس ایک دل کو تم نے شاد و آباد کر دیا یہ اس سے کہیں بہتر ہے کہ تم رات بھر شب بیداری کرو۔ اس لیے کہ کسی بھی ٹوٹی ہوئی چیز کی کوئی قیمت نہیں ہوتی ہے، لیکن دل وہ ہے کہ جتنا زیادہ ٹوٹا ہوا ہو ، چور اتنا ہی زیادہ قیمتی ہوتا ہے۔ "اللہ شکستہ دلوں کے قریب ہے"منقول ہے کہ جناب موسیٰ علیہ السلام نے اپنی مناجات میں کہا: الہی! تجھے کہاں ڈھونڈوں؟ جواب ملا: 'عندالمنکسرت القلوب لاجلی' (یعنی ٹوٹے ہوئے دلوں کے پاس تلاش کرو) عرض کی: آج میرے دل سے زیادہ کوئی دل شکستہ نہیں ہے۔ جواب ملا: میں اسی جگہ ہوں۔ "حضرت رابعہ بصری کی عزت و مرتبت کا سبباور اے بھائی! آخر یہ تو تم نے سنا ہے کہ حضرت رابعہ بصری کو اس درجہ نعمت و دولت جو نصیب ہوئی وہ ایک پیاسے کتے کو پانی پلانے کے سبب ہوئی، لیکن اس امر میں کوشش کرنا چاہیےکہ جو بھی کسی کو دے وہ بے طلب دے، اس لیے کہ فرمایا گیا ہے: السوال وان اقل ثمن النوال ان اجل) سوال تھوڑا بھی عنایت کی قیمت بن جاتا ہے چاہے عنایت بڑی کیوں نہ ہو(اور جس قدر اور جتنا زیادہ کسی کو دے تو اسے بہت قلیل جانے، اس لیے کہ ساری دنیا ہی بہت قلیل ہے۔جیسا کہ امام شبلی رحمۃ اللہ علیہ سے منقول ہے اگر ساری دنیا کی دولت ہمارے قبضے میں ہو تو سب کا ایک لقمہ بناکر کسی ایک فقیر کے منہ میں ڈال دوں پھر بھی مجھے اس پر شفقتآئے۔ (یعنی اور دیتے کچھ نہ دیا۔()مکتوبات دوصدی، مکتوب نمبر72، صفحہ:308-310(خدمت خلق کے فوائدبھائی شمس الدین! اللہ پاک تمھیں اولیا کی خدمت میں بزرگی نصیب کرے۔ سنو! مرید کا ایک بڑا کام خدمت خلق کرنا ہے۔ خدمت کرنے میں بڑے بڑے فوائد ہیں۔ اور کچھ ایسی خاصیتیں ہیں جو اور کسی عبادت میں نہیں ایک تو یہ ہے کہ نفس سرکش مر جاتا ہے اور بڑائی کا گھمنڈ دماغ سے نکل جاتا ہے، عاجزی اور تواضع آجاتی ہے۔ اچھے اخلاق، تہذیب اور آداب آجاتے ہیں۔ سنت اور طریقت کے علوم سکھاتی ہے۔ نفس کی گرانی اور ظلمت دور ہو کر روح سبک اور لطیف ہو جاتی ہے۔ آدمی کا ظاہر و باطن صاف اور روشن ہو جاتا ہے۔ یہ سب فائدے خدمت ہی کے لیے مخصوص ہیں۔ مریدوں کو خدمت خلق کی وصیتایک بزرگ سے پوچھا گیاکہ خدا تک پہنچنے کے لیے کتنے راستے ہیں؟ جواب دیا کہ موجودات عالم کا ہر ذرہ خدا تک پہنچنے کا ایک راستہ ہے، مگر کوئی راہ نزدیک تر اور بہتر خلق خدا کو راحت پہنچانے سے بڑھ کر نہیں ہے۔ اور ہم تو اسی راستے پر چل کر اس منزل تک پہنچے ہیں اور اپنے مریدوں کو بھی اسی کی وصیت کرتے ہیں۔ خدمت خلق سے بہتر کوئی عبادت نہیں"انھی بزرگوں کا کہا ہوا ہے کہ اس گروہ کے اوراد و وظائف اور عبادتیں اتنی ہیں جو بیان نہیں کی جا سکتیں، مگر کوئی عبادت افضل اور مفید تر خدمت خلق سے نہیں ہے۔"خدمت خلق سب سے افضل صدقہچناں چہ حضرت پیغمبر ﷺ سے روایت ہے کہ حضور ﷺ سے پوچھا گیا:"ای صدقۃ افضل قال خدمۃ عبد فی سبیل اللہ او ظل فسطاط او طروقۃ فحل فی سبیل اللہ۔")یعنی کون سا صدقہ زیادہ افضل ہے؟ فرمایا: بندے کی خدمت کرنا، یا سایے کی غرض سے خدا کے راستے میں شامیانہےلگانا، خیمے نصب کرنا، یا خدا کی راہ میں اونٹ یا کشتی دینا۔(خدمت خلق کرنے والا قائم اللیل اور صائم الدھر سے بہتر ہےایک دوسری جگہ ارشاد ہوا: "الساعی علی الارملۃ والمساکین کالمجاھد فی سبیل اللہ او کالذی یصوم النھار و یقوم اللیل۔")بیوہ عورتوں کے کام میں دوڑنا اور غریبوں ، مسکینوں کی خدمت بجا لانا ایک مجاہد کی طرح ہے راہ خدا میں۔ یا ان لوگوں کی طرح ہے جو دن کو روزہ رکھتے ہیں اور رات کو عبادت کرتے ہیں۔(قوم کی ضرورت کے مطابق خدمت کریںخدمت کے لیےشرطیں ہیں وہ یہ کہ اپنی آرزو اور اپناتصرف بالکل چھوڑ دے اور قوم و جماعت کا جو مقصد ہو ویسا ہی کرے۔ مسافر یا مقیم جو جو بھی ہوں ان کی طبیعت کے رجحان کے مطابق کام کرے تاکہ انھیں فراغت دل حاصل ہو اور بے فکر ہو کر اپنے اوقات اوراد و وظائف میں گذاریں اور فارغ البال ہو کر اپنے معمولات میں مشغول رہ سکیں۔ ان کو جو کچھ بھی مجاہدہ اور ریاضت سے حاصل ہوگااس کو اسی خدمت سے سب فائدے ہوں گے۔ اچھے کام کے لیے مدد کریںاے بھائی!"من دل علی خیر فلہ مثل اجر فاعلہ"جس نے کسی اچھے کام کے لیے مدد کی تو اس کا اجر بھی اس کام کے کرنے والے کے برابر ملے گا۔یہ خانقاہیں، مسافرخانے اور اوقاف اسی کام کے لیے بنالیے گئے ہیں۔ خدمت خلق کو مقدم رکھیںدوسری شرط یہ ہے کہ خود کو مالک و مختار نہ سمجھے۔ جو کچھ اس کے پاس ہے، یہ سمجھے کہ وہ انھی لوگوں کا کام ہے، یہاں تک کہ اپنی ذات، مال، مراد اور اپنی خواہشات کو ان کے لیے لٹا دے اپنے ہر کام پر ان کی ضرورتوں کو مقدم سمجھے، ان سے کوئی چیز دریغ نہ رکھے۔ البتہ جو چیزیں کہ خدا نے حرام کر دی ہیں، اور جس چیز کی اس سے درخواست کریں فورا بجا لالیے۔ اگرچہ اس کے لیے مزدوری کرنا پڑے تو مزدوری کرنے سے بھی جان نہ چرالیے تا کہ ان کا کام پورا ہو جائے۔ اور ان کے ساتھ اس کا برتاو ایسا ہو جیسا ایک غلام اپنے مالک کے ساتھ کرتا ہے۔ اگر وہ سختی بھی کریں تو اس کی برداشت واجب سمجھے اور ہمیشہ ان کے رمز و اشارے کی باتوں کا لحاظ رکھے۔اگر کوئی خرابی بھی دیکھے تو بغیر ان کی تحریک کے درست کر دے ۔خدمت خلق نیت دلی کے ساتھ کرواور یہ شرط بھی ہے کہ جو جو کام خلق اللہ کے لیے نیک دلی اور ہنسی خوشی کے ساتھ کرے تاکہ توفیق خیر کا مستحق ہو، اور ان کاموں کی انجام دہی پر شکر حق بجا لالیے۔نوجوان خدمت خلق سے جان نہ چرائیںاور جو کچھ اس سے ممکن ہو جماعت و ملت کے لیے نیکیاں کرتا جائے، اور اگر کوئی دقیقہ فروگذاشت ہو جائے تو پشیماں ہو اور تاوان ادا کرے۔ خدمتیں بےشمار ہیں اور مقصود یہ ہے کہ جَوَان افراد کسی طرح بھی خدمت سے جان نہ چرائیں۔خدمت خلق کا ایک کام سو رکعت نفل نماز سے بہترشیخ ابو العباس قصاب رحمۃ اللہ علیہ نے کہا ہے کہ جو مرید ایک کام کرنے کے واسطے کھڑا ہوگا اس کے لیے یہ کام نماز نفل کی سو رکعتوں سے زیادہ مفید وبہتر ہے۔ یہ لوگ ہر ایک شخص کی خدمت اور پیروں کی صحبت اور اہلیت و ریاضت و تربیت کا زیادہ سے زیادہ اعتبار کرتے ہیں اور نسبت و نسب کا کوئی خیال نہیں کرتے، البتہ آل اطہار رسول اللہ ﷺ اس سے مستثنیٰ ہیں اور مشائخ زادے بھی۔ کیوں کہ یہ نسب کے اعتبار سے لائق احترام ہیں۔جیسا کہا ہے: نسب الرجل دینہ وحسبہ تقواہ۔)نسب آدمی کا دین اور پرہیزگاری اس کا مشرب ہے۔(اپنی حیثیت کے مطابق خلق خدا کی خدمت کروجس طرح صاحب مال پر واجب ہےکہ زکات نکال کر فقرا کو دے اور علما کے لیے لازم ہےکہ طلبہ کو پڑھائیں، علم سکھائیں اور اپنے علم کی زکات دیں۔ اسی طرح راہ طریقت میں مبتدی مرید پر واجب ہے کہ اپنی خدمت کے ذریعہ غیروں کو راحت و آرام پہنچالیے۔ مسلمان بھائیوں کی امداد اور اپنے سے بڑوں کی خدمت انجام دے۔ خدمت خلق ریاکاری سے پاک ہوخدمت کرنے کا صلہ، ثمرہ اور فائدہ اس وقت ظاہر ہوتا ہے جب خدمت بے غرض، بے منت اور بے ریا ہو۔خدمت کروانے کی بجائے خدمت کروپس جو مرید خود خدمت نہیں کرتا بلکہ دوسروں سے خدمت لینے کی آرزو کرتا ہے وہ کاہل ہو جاتا ہے اور لوگوں کے دلوں پر گراں گذرتا ہے اور بوجھ بن جاتا ہے۔ دل کی یہ گرانی اور بوجھ جان کے لیے تپ ہے، اس لیے لوگ اس سے نفرت کرنے لگتے ہیں، اور یہ اس کے حق میں سراسر نقصان اور خرابی کا باعث ہے اور کار برآری کی امید کم ہوجاتی ہے۔ خدمت خلق کی بہترین مثالحضرت پیغمبر محمد ﷺ نے صحابہ اور امت کی تعلیم کی غرض سے نہایت لطیف پیرایے میں اس کو سمجھایا ہےکہ کسی وقت ایک کٹورا دودھ کا حضور ﷺ کے پاس لایا گیا۔ آپ نے اٹھ کر اپنے دست مبارک میں لیا اور فقرا و صحابہ میں تقسیم فرما دیا، اور جو کچھ بچ رہا خود پی لیا۔ لوگوں نے پوچھا: یا رسول اللہﷺ حضور نے اپنے سے شروع کیوں نہ فرمایا؟ آپ نے جواب دیا کہ ایسا نہیں چاہیے کہ"ساقی القوم آخرھم شربا"قوم کو پلانے والا خود آخر میں پیتا ہے۔قوم کا خادم ہی قوم کا سردار ہوتا ہےاس گروہ(صوفیہ) میں مشہور ہے جو زیادہ خدمت کرتا ہے وہ زیادہ بزرگ اور پیارا ہوتا ہے، دلوں میں خوش آئند اور آنکھیں اس کی طرف مائل رہتی ہیں کہ "سید القوم خادمھم" قوم کا سردار وہی ہے جو ان کی خدمت کرتا ہے۔قوم کی خدمت کر کے قوم کے سردار بن گئےعرب کے ایک بزرگ سے پوچھا گیا: "بم سدت قال خدمت فسدت"تم کیسے سردار بن گئے؟ انھوں نے کہا: میں نے لوگوں کی خدمت کی اور سردار ہو گیا۔حضرت صدیق اکبر نے خدمت کر کے خلافت پائیکہا جاتا ہے کہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ ﷺ سے جو منصب خلافت پایا اور اتنی بڑی دولت ملی وہ ہمیشہ خدمت میں کمربستہ رہنے کی وجہ سے حاصل ہوئی۔ خدمت کر کے مخدوم ہوگئےابتدا میں ہر ایک بزرگ کے ساتھ یہی ہوا کیا ہے کہ وہ ہر وقت خدمت کے لیے ایک پاؤں پر کھڑے رہے ہیں یہاں تک کہ آخر میں خود مخدوم ہو گئے۔ خدمت کے ثمرے اتنے ہیں کہ بیان نہیں کیے جا سکتے۔ تم سے جہاں تک ہو سکے غنیمت سمجھو اور امیدوار رہو۔ اللہ جسے توفیق دےاے بھائی! احکام خداوندی انسان کے فہم و ادراک سے بالاتر ہیں۔ کنعان حضرت نوح علیہ السلام کا فرزند تھا۔ وہ کشتی میں نہیں بٹھایا گیااور شیطان ملعون کے لیے راستہ ہو جائے یہ جائز ہے کہ یہ باتیں بادشاہ سے تو نہ کہی جائیں مگر ایک پاسبان سے بیان کی جائیں۔ تم نہیں دیکھتے کہ فرعون سےتو نہ کہا لیکن اسی گھر میں ایک بڑھیا سے کَہ دیا۔ اس کی نگاہیں جو تمھاری طرف اٹھا کرتی ہیں اور اتنی مہربانیوں اور کرم کی بوچھار ہوتی رہتی ہے وہ اپنے علم پاک کی رو سے نظر کرتا ہے تمھارے گندے اعمال کی رو سے نہیں ہے۔ کرامت انسانی کا سبباہل سنت کا مذہب کہتا ہے کہ خدا کی نوازش و کرم کی کوئی حد نہیں۔ سارا عالم اٹھا مگر کوئی اس کے انعام و اکرام کے اسرار تک نہ پہنچا کہ آخر اس خاک کے پتلے پر اتنا کرم کیوں ہے؟ کل جب قیامتآئے گی سب لوگ حشر کے میدان میں بلالیے جائیں گے، غیب سے ایک آواز سنائی دے گی کہ سب خاک ہو جاؤ۔ فرشتوں کو حکم ہوگا کہ تم عرش کے گرد جمع ہو جاؤ۔ تمھیں حلۂ بہشتی سے کوئی کام نہیں اور نہ دوزخ کی بیڑیوں سے کوئی سروکار۔ تم مقام معلوم سے دیکھتے رہوکہ اس مشت خاک کے ساتھ ہمارے کیا کیا معاملے ہیں؟ اسی معنی کو دیکھ کر کہا ہےکہ اگر یہ خاکی نہ ہوتا تو یہ باتیں بھی نہ ہوتیں اور نہ یہ سوز و گدازو درد و تپش ہوتی بہشت اتنی نعمتوں اورکرامتوں کے ساتھ اس خاکی پر نچھاور اور غلمان و حوروں کو لیے ہوئے رضوان اس کے جشن وصال کے شادیانے گاتا ہے۔حضرت انسان کے لیے عطا و بخشش اور یہ جو تم نے سنا کہ ازل میں یہ خاکی اس وقت بھی موجود تھا۔ یہاں تک کہ خاک پیدا کی اور اپنی نوازش و کرم سے اس خاکی کا کل سامان مہیا کیا۔ ابھی پینے والا نہ تھا کہ شراب بنائی۔ سر نہ تھا مگر اس کے لیے تاج آراستہ کیا۔ چلنے والا پاؤں نہ تھا مگر راستہ صاف اور ستھرا کر دیا۔ دل نہ تھا مگر نگاہیں اس پر اٹھا دیں۔ گناہوں کا وجود نہ تھا مگر رحمت و مغفرت کے خزانے بھر دیے اور طاعت و بندگی کا کہیں نام و نشان نہ تھا مگر گلزار فردوس کو دلکش بہاروں سے آراستہ کر دیا۔ "العنایۃ قبل الماء والطین"کرم و نوازش کا یہ سارا اہتمام خمیر گوندھنے سے پیش تر ہی کر دیا گیا۔(مکتوبات صدی، مکتوب نمبر:71، صفحہ نمبر:449-453)اخیر میں بارگاہ قاضی الحاجات میں دست بہ دعا ہوں کہ مولاے رحمان و رحیم اپنے حبیب رءوف و رحیم علیہ الصلاة والتسلیم کے بطفیل عمیم ہمیں اپنے بزرگوں سے وابستہ رکھے، ان کے نقوش قدم پر چلائے اور ان کی تعلیمات پر عمل پیرا رہنے کی توفیقِ خیر مرحمت فرمائے۔آمین۔ یارب العالمین۔ بجاہ النبی الامین۔ علیہ اکرم الصلاة وعلی آلہ وصحبہ ومن تبعھم اجمعین۔

خانوادہء مخدوم یحیی منیری اور خدمتِ علم از قلم: ناچیز ناصر منیری کان اللہ لہدائریکٹر ریسرچ سینٹر خانقاہ منیر شریف، پٹنہرابطہ نمبر: 9905763238۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اسلام کے پندرہ سو سال کے لٹریچر میں جتنا زیادہ زور علم پر دیا گیا ہے شاید ہی کسی دوسری چیز پر دیا گیا ہو۔پیغمبرِ اسلام پہ نازل ہونے والی کتابِ مقدس کی ابتدا ہی علم سے ہوئی۔ اس سے اسلام میں علم کی اہمیت کا اندازہ ہوتا ہے۔علم ہی وہ پاکیزہ شے ہے جو ایک انسان کو دوسرے انسان سے ممتاز و ممیز کرتی ہے۔ جبھی اسلام نے طلبِ علم کو عبادتوں سے افضل قرار دیا۔علم ہی وہ عظیم شے ہے جس کے ذریعے معرفتِ خداوندی حاصل ہوتی ہے۔بقول شاعر:بغیر اس کے نہیں پہچان سکتے ہم خدا کیا ہےامام محمدجب سفرکرتےتو ستر اونٹوں پر ان کی کتابیں ہوتیں ایک عیسائی دیکھ کر ایمان لےآیاکہ ان کاحال یہ ہےتومدینےوالےکاعلم کتنا ہوگا۔اسلام نے طلبِ علم کی اہمیت اتنی بڑھا دی کہ اسے ارکانِ اربعہ نماز، روزہ، حج اور جہادِ فی سبیل اللہ سے بہتر بتایا۔قال علیہ السلام: طلب العلم افضل عند اللہ من الصلاة والصیام والحج والجھاد فی سبیل اللہ تعالی۔اسلام نےمعلم ومتعلم کو وہ مقام دیاکہ بقول رسول:فرشتے، اہل ارض وسما، سوراخوں کی چینوٹیاں، سمندر کی مچھلیاں ان کےلیےدعائیں کرتی ہیں۔قال علیہ السلام:ان اللہ وملائکتہ واھل السماوات والارض حتی النملة فی جحرھا و حتی الحوت لیصلون علی معلم الناس الخیر۔رواہ الترمذی عن ابی امامہ الباھلیاسلام نے اہلِ علم اور بے علم کے مابین نسبتِ تباین کا ذکر کر کے خطِ امتیاز کھینچ دیا بقولِ خدا:اہلِ علم و بے علم برابر نہیں۔قال تعالی:قل ھل یستوی الذین یعلمون والذین لا یعلمون. ای : لا یستویان.طلبِ علم کی راہ میں نکلنے والا جنتی راستے میں ہوتا ہے۔ اور ملائکہ اس کے لیے اپنے پٙر بچھا دیا کرتے ہیں۔قال علیہ السلام:من سلک طریقا یطلب فیہ علما سلک اللہ بہ طریقا من طرق الجنة وان الملائکة لتضع اجنحتھا رضا لطالب العلم۔ایک ساعت طلبِ علم میں لگانا رات بھر کی عبادت سے اور ایک روز علم حاصل کرنا تین مہینے کے روزے سے بہتر ہے۔قال علیہ السلام:طلب العلم ساعة خیر من قیام لیلة و طلب العلم یوما خیر من صیام ثلاثة اشھر.طلبِ علم کی نیت سے اپنے گھر سے نکلنے والا طالبِ علم گھر واپس ہونے تک اللہ کے راستے میں ہوتا ہے۔قال علیہ السلام:من خرج فی طلب العلم فھو فی سبیل اللہ حتی یرجع.طلبِ علم کی راہ میں موت پانے والا طالبِ علم شہادت کے عظیم مرتبے پر فائز ہوتا ہے۔قال علیہ السلام:اذا جاء الموت لطالب العلم وھو علی ھذہ الحالة مات فھو شھید.مخدوم شرف الدین یحیی منیری رحمہ اللہ اپنے مکتوبات میں تحریر فرماتے ہیں:طلبِ علم کے لیے سفر:"حکم ہے کہ علم حاصل کرو اگرچہ چین جانا پڑے اس کے برعکس لوگ دنیا حاصل کرنے میں لگے ہیں۔"(مکتوباتِ دو صدی، از: مخدومِ جہاں حضرت شرف الدین یحیی منیری، مکتوب نمبر:٢، صفحہ نمبر:٣٨۔)طلبِ علم سے غفلت:"محشر میں پوچھا جائے کہ طلبِ علم فرض تھا غافل کیوں رہے؟ توکیا جواب دو گے کہ زن و فرزند اور فکرِ معاش نے فرصت نہیں دی؟"(مکتوباتِ دو صدی، از: مخدومِ جہاں حضرت شرف الدین یحیی منیری، مکتوب نمبر:٢، صفحہ نمبر:٣٨۔)طلبِ علم کی ضرورت:"شرع میں علم کے بغیر عمل کی درستگی ممکن نہیں اور عمل کے بغیر مقصود تک نہیں پہنچ سکتے لہذا طلبِ علم ضروری ہے۔"(مکتوباتِ دو صدی، از: مخدومِ جہاں حضرت شرف الدین یحیی منیری، مکتوب نمبر:٢، صفحہ نمبر:٣٨۔) کون سا علم حاصل کرنا چاہیے؟"علم وہ نہیں جو امرا و سلاطین کے دربار تک پہنچا دے بلکہ علم سے مراد آخرت اور راہِ حق کا علم ہے۔"(مکتوباتِ دو صدی، از: مخدومِ جہاں حضرت شرف الدین یحیی منیری، مکتوب نمبر:٢، صفحہ نمبر:٣٩۔)علماے سو کی صحبت:"علماے دنیا سے خود کو ایسے بچاتے رہو جس طرح شیطان سے بچتے ہو۔ غلطی سے بھی اس میں مبتلا نہ ہو جانا۔"(مکتوباتِ دو صدی، از: مخدومِ جہاں حضرت شرف الدین یحیی منیری، مکتوب نمبر:٢، صفحہ نمبر:٣٩۔)علماے سو کی سنگت کا نقصان:"ایک بزرگ نے شیطان کو بےکار بیٹھے دیکھ کر پوچھا:بےکار کیوں بیٹھا ہے؟بولا:علماےدنیا پیدا ہو گئےہیں میرا کام ختم ہوگیا۔"(مکتوباتِ دو صدی، از: مخدومِ جہاں حضرت شرف الدین یحیی منیری، مکتوب نمبر:٢، صفحہ نمبر:٣٩۔)طاعات و معاصی کا علم:"اعمال دوطرح کےہیں:(١)طاعات: جواللہ تک پہنچاتےہیں۔(٢)معاصی: جواللہ سےدورکرتےہیں۔ان دونوں کاعلم انسان پرفرضِ عین ہے۔"(مکتوباتِ دو صدی، از: مخدومِ جہاں حضرت شرف الدین یحیی منیری، مکتوب نمبر:٢، صفحہ نمبر:٣٩۔)مھلکات و منجیات کا علم:"علم باطن دو طرح کے ہیں:(١)منجیات کا علم جیسے: زہد و تقوی(٢)۔مھلکات کا علم جیسے:بغض و حسدان کا حصول بھی فرضِ عین ہے۔"(مکتوباتِ دو صدی، از: مخدومِ جہاں حضرت شرف الدین یحیی منیری، مکتوب نمبر:٢، صفحہ نمبر:۴٠۔)علم کے ساتھ اور علم کے بغیر عمل کا نفع و نقصان:"طاعات ومعاصی کےعلم کےساتھ اگرتھوڑاعمل بھی ہوتواللہ کےنزدیک بہت زیادہ ہےاس کےبغیرکوئی جان کی بازی بھی لگادےتوکچھ نہیں۔"(مکتوباتِ دو صدی، از: مخدومِ جہاں حضرت شرف الدین یحیی منیری، مکتوب نمبر:٢، صفحہ نمبر:٣٩۔)بغیر علم کے ریاضت و مجاہدہ مضر ہے:"اگرکوئی بغیرعلم کے ریاضت ومجاہدہ کرتارہے ویسے ہی ہے جیسےکوئی بےوضو نماز پڑھتا رہے یا بےایمان لائے قرآن کی تلاوت کرے۔"(مکتوباتِ دو صدی، از: مخدومِ جہاں حضرت شرف الدین یحیی منیری، مکتوب نمبر:٢٠، صفحہ نمبر:١۵٣۔)علمِ کسبی و وہبی کی تعریف:"ایک علم 'کسبی' ہےجو استاد یا کتاب سےملتا ہے دوسرا 'وہبی' ہے جو اللہ اپنے خاص بندوں کے دلوں میں ڈالتا ہے۔"(مکتوباتِ دو صدی، از: مخدومِ جہاں حضرت شرف الدین یحیی منیری، مکتوب نمبر:٢٠، صفحہ نمبر:١۵٣۔)علمِ وہبی کی اقسام:"علمِ وہبی کی تین قسمیں ہیں: پہلی قسم 'وحی'، دوسری قسم 'الہام' اور تیسری قسم 'کشف' ہے۔"(مکتوباتِ دو صدی، از: مخدومِ جہاں حضرت شرف الدین یحیی منیری، مکتوب نمبر:٢٠، صفحہ نمبر:١۵٣۔)علمِ وہبی کی اقسامِ ثلاثہ کی تعریف:"جوعلم اللہ نبی کےدل میں اتارےوحی ہے،ولی کےدل میں اتارےالہام اور نبی کےذریعےولی یا پیرکےذریعےمریدکےدل میں اتارےتوکشف۔"(مکتوباتِ دو صدی، از: مخدومِ جہاں حضرت شرف الدین یحیی منیری، مکتوب نمبر:٢٠، صفحہ نمبر:١۵٣۔)جاہلوں سے دوری ضروری ہے:"شریعت کا فتوی ہے: عالم دوست اور جاہل دشمن ہے۔ جیسے جاہل سے دور رہنا واجب ہے ویسے ہی اہل علم کی صحبت و قربت فرض ہے۔"(مکتوباتِ دو صدی، از: مخدومِ جہاں حضرت شرف الدین یحیی منیری، مکتوب نمبر:٢٠، صفحہ نمبر:١۵٣۔)صحبتِ علما کی برکت:"بہت ساری ریاضتیں اور مجاہدے وہاں نہیں پہنچا سکتے جہاں اہلِ علم کی ایک روز کی نیک صحبت پہنچا دیتی ہے۔"(مکتوباتِ دو صدی، از: مخدومِ جہاں حضرت شرف الدین یحیی منیری، مکتوب نمبر:٢٠، صفحہ نمبر:١۵٣۔)علم خوش نصیبی اور جہالت بدنصیبی ہے:"علم تمام خوش بختیوں کا راز اور اس کی اصل ہے جس طرح جہل و نادانی تمام بدبختیوں کا رمز اور اس کی جڑ ہے۔"(مکتوباتِ دو صدی، از: مخدومِ جہاں حضرت شرف الدین یحیی منیری، مکتوب نمبر:٢٠، صفحہ نمبر:١۵٣۔)علم ذریعہء نجات اور جہالت ذریعہء ہلاکت ہے:"نجات کے ذرائع علم سے اور ہلاکت کےذرائع جہل سےپیداہوتےہیں۔ جنت کےدرجات اورقدسیوں کےکرامات کے حصول کا ذریعہ علم ہی ہے۔"(مکتوباتِ دو صدی، از: مخدومِ جہاں حضرت شرف الدین یحیی منیری، مکتوب نمبر:٢٠، صفحہ نمبر:١۵۴۔)علم باعثِ جنت اور جہل باعثِ جہنم ہے:"جہنم کے گڑھے اور سخت ترین عذاب میں جہالت ہی کےسبب مبتلا ہوتےہیں اور علم کی پاک بارگاہ میں اہل ایمان ہی قدم رکھتےہیں۔"(مکتوباتِ دو صدی، از: مخدومِ جہاں حضرت شرف الدین یحیی منیری، مکتوب نمبر:٢٠، صفحہ نمبر:١۵۴۔)علم اندھیرے سے اجالے میں لے جاتا ہے:"قرآن میں ہےاللہ مومنوں کادوست ہےانھیں اندھیروں سےروشنی میں لےجاتاہے۔یعنی اللہ مومنوں کو جہالت سےعلم کی طرف لےجاتاہے۔" قال تعالی: "اَللّٰہُ وَلِیُّ الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا ۙ یُخۡرِجُہُمۡ مِّنَ الظُّلُمٰتِ اِلَی النُّوۡرِ ۬ ؕ" ((القرآن، سورة البقرة، آیت:٢۵٧))(مکتوباتِ دو صدی، از: مخدومِ جہاں حضرت شرف الدین یحیی منیری، مکتوب نمبر:٢٠، صفحہ نمبر:١۵۴۔)) جہالت اجالے سے اندھیرے میں لے جاتی ہے:"بقول خدا:اہل کفرشیطان کےدوست ہیں وہ انھیں روشنی سے اندھیرےمیں لےجاتا ہے۔یعنی علم سے نکال کر جہالت میں ڈھکیل دیتا ہے۔"قال تعالی: "وَ الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡۤا اَوۡلِیٰٓئُہُمُ الطَّاغُوۡتُ ۙ یُخۡرِجُوۡنَہُمۡ مِّنَ النُّوۡرِ اِلَی الظُّلُمٰتِ"((القرآن، سورة البقرہ، آیت:٢۵٧))(مکتوباتِ دو صدی، از: مخدومِ جہاں حضرت شرف الدین یحیی منیری، مکتوب نمبر:٢٠، صفحہ نمبر:١۵۴۔)علم سے دینی دولت وجود پاتی ہے:"علم کی مثال نر کی ہے اور عمل مثلِ مادہ ہے۔ دینی دولت اسی سے جنم لیتی ہے۔"(مکتوباتِ دو صدی، از: مخدومِ جہاں حضرت شرف الدین یحیی منیری، مکتوب نمبر:٢، صفحہ نمبر:٣٩۔)علم کے بغیر عمل غیر مفید ہے:"عمل بغیر علم کے فائدہ مند نہیں ہوتا جس طرح بغیر مغز کے بیج سے خوشے اور شگوفے نہیں نکلتے۔"(مکتوباتِ دو صدی، از: مخدومِ جہاں حضرت شرف الدین یحیی منیری، مکتوب نمبر:٢، صفحہ نمبر:٣٩۔)علمِ دین علما کی صحبت سے ملتا ہے:"دینی علم علما و مشائخ کی صحبت و خدمت سے ہی حاصل ہوتا ہے۔ یہ لوگ ہمارے زمانے میں سرخ گندھک ہیں۔"(مکتوباتِ دو صدی، از: مخدومِ جہاں حضرت شرف الدین یحیی منیری، مکتوب نمبر:٢، صفحہ نمبر:۴١۔)علم عصیان و معاصی اور صفاتِ ذمیمہ سے بچاتا ہے:"علم ظاہری اعضا کو معاصی سے اور قلب کو صفاتِ ذمیمہ سے پاک و صاف کرتا ہے۔"(مکتوباتِ دو صدی، از: مخدومِ جہاں حضرت شرف الدین یحیی منیری، مکتوب نمبر:٢، صفحہ نمبر:۴٣۔)علم ملک الموت کے اسرار منکشف کرتا ہے:"علم کے ذریعے جب ظاہر و باطن کی طہارت تمھیں حاصل ہو جائے سمجھ لو ملک الموت کے اسرار تم پر کھل گئے۔"(مکتوباتِ دو صدی، از: مخدومِ جہاں حضرت شرف الدین یحیی منیری، مکتوب نمبر:٢، صفحہ نمبر:۴٣۔)"علم وہ ہے جو اللہ کے در تک پہنچائے نہ کہ پیرویِ نفس اور حبِ مال و جاہ کی طرف لے جائے۔"(مکتوباتِ دو صدی، از: مخدومِ جہاں حضرت شرف الدین یحیی منیری، مکتوب نمبر:١٧١، صفحہ نمبر:۵٨٦۔)"علم دراست علم ظاہرکوکہتےہیں علم وراثت علم باطن کو۔اہل تصوف دونوں علم کےماہر ہوتےہیں علم ظاہرکے بھی اور باطن کے بھی۔"(مکتوباتِ دو صدی، از: مخدومِ جہاں حضرت شرف الدین یحیی منیری، مکتوب نمبر:١٧١، صفحہ نمبر:۵٨٦۔)"علم کا حاصل کرنا تو وہی ہے جو خالصةً لوجہ اللہ ہو۔ نہ یہ کہ جاہ و مرتبہ و ریاست اور حصول دنیا کے لیے ہو۔"(مکتوباتِ دو صدی، از: مخدومِ جہاں حضرت شرف الدین یحیی منیری، مکتوب نمبر:١٧١، صفحہ نمبر:۵٨٦۔)"جو علم حاصل کرنے میں کوششیں کرتا ہے اور اپنے مجاہدے میں سچا ثابت ہوتا ہے اللہ اسے انبیا کی علمی وراثت عطا کرتا ہے۔"(مکتوباتِ دو صدی، از: مخدومِ جہاں حضرت شرف الدین یحیی منیری، مکتوب نمبر:١٧١، صفحہ نمبر:۵٨٦۔)"علمِ ظاہر اور علمِ باطن کو اس طرح بھی سمجھا جا سکتا ہے کہ علمِ ظاہر علمِ معاملہ ہے اور علمِ باطن علمِ مکاشفہ۔"(مکتوباتِ دو صدی، از: مخدومِ جہاں حضرت شرف الدین یحیی منیری، مکتوب نمبر:١٧١، صفحہ نمبر:۵٨٧۔)"جب قلبِ سالک صفاتِ ذمیمہ سے پاک و صاف ہو جاتا ہے تو اس پر ایک نور ظاہر ہوتا ہے علمِ مکاشفہ اسی نور سے عبارت ہے۔"(مکتوباتِ دو صدی، از: مخدومِ جہاں حضرت شرف الدین یحیی منیری، مکتوب نمبر:١٧١، صفحہ نمبر:۵٨٧۔)

خانوادہء مخدوم یحیی منیری اور خدمتِ دیناز قلم : ناچیز ناصر منیری کان اللہ لہڈائریکٹر ریسرچ سینٹر خانقاہ منیر شریف، پٹنہرابطہ نمبر: 9905763238۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔بزرگوں کی بارگاہوں میں ہر طرح کے لوگ آتے ہیں اور اپنا دامن مراد لعل و گہر اور ذھب و فضہ سے بھر کر واپس ہوتے ہیں۔ ان زائرین میں بچے بھی ہوتے ہیں، بڑے بھی۔ بوڑھے بھی ہوتے ہیں، جوان بھی۔ عورتیں بھی ہوتی ہیں، مرد بھی۔ خواتین بھی ہوتی ہیں، حضرات بھی۔ لڑکے بھی ہوتے ہیں، لڑکیاں بھی۔ ان کی درگاہوں، خانقاہوں اور بارگاہوں میں کسی طرح کا کوئی تعصب، عصبیت اور بھید بھاو نہیں ہوتا۔ ان کی درگاہیں، بارگاہیں اور خانقاہیں ہر طرح کی تفریق سے بے نیاز ہوا کرتی ہیں۔ ان کے یہاں کوئی ادنی آتا ہے تو اعلی ہو کر جاتا ہے۔ کوئی ذرہء ناچیز آتا ہے تو چمکتا خورشید بن کر جاتا ہے۔ کوئی قطرہ ہوتا ہے تو دریا بن جاتا ہے۔ کوئی تحت الثری پہ ہوتا ہے تو اوج ثریا پہ پہنچ جاتا ہے۔ صاحبانِ بارگاہ، باری تعالی کی عطا و عنایت سے بلا تفریقِ مشرب و مسلک و مذہب و ملت ہر ایک کی بگڑیاں بنایا کرتے ہیں۔ خواہ وہ اہلِ سنت ہوں یا اہلِ تشیُّع ہو، اہلِ دیوبند ہوں یا اہلِ حدیث۔ مذاہب عدیدہ میں خواہ وہ ہندو، مسلم، سکھ، عیسائی ہوں یا جین، بدھ، پارسی، یہودی۔ صاحبانِ بارگاہ سب کی بِپتا سنا کرتے ہیں۔ سب کے غم کا مداوا بنا کرتے ہیں۔ سارے دکھیوں کا دکھ دور کیا کرتے ہیں۔ سارے مبتلاےدرد کے درد کافور کیا کرتے ہیں۔ سارے بے سہاروں کو سہارا دیا کرتے ہیں۔ سب کی بگڑیاں بنایا کرتے ہیں۔ بقول شاعر (بتصرف)سب کی سنتے ہو اپنے ہوں یا غیر ہوںتم غریبوں کے غم خوار ہو یا ولیاللہ والے کبھی کسی کو جِھڑکا نہیں کرتے۔ ان کے یہاں آنے والا کبھی جھڑکیاں نہیں کھایا کرتا کیوں کہ وہ عامل بالقرآن والسنہ ہوتے ہیں۔ قرآن کے فرمودات پر عمل پیرا یوتے ہیں۔ بلکہ قرآنی تعلیمات و فرمودات اور ارشادات دوسروں تک پہنچایا کرتے ہیں اور قرآن پاک میں اللہ پاک کا فرمان پاک ہے:وَ اَمَّا السَّآىٕلَ فَلَا تَنْهَرْؕیعنی دستِ سوال دراز کرنے والوں کو کبھی جھڑکا مت کرو۔ان کی بارگاہوں، درگاہوں اور خانقاہوں میں کسی طرح کی کوئی عصبیت، تعصب یا جانب داری نہیں ہوا کرتی۔ وہاں جانے والے سب کے سب صاحبِ بارگاہ کی نظر میں اِیکوَل، سَمان اور برابر ہوا کرتے ہیں۔ وہاں جانے والوں کی کوئی کیٹیگری نہیں ہوا کرتی۔ وہاں جانے والوں کا کوئی اسٹیٹس نہیں ہوا کرتا۔ وہاں جانے والوں کی صرف اور صرف ایک کیٹیگری ہوا کرتی ہے اور وہ ہے معتقد و عقیدت مند۔ وہاں عقیدت مند جاتے ہیں۔ عقیدت مندی کے جذبے سے جاتے ہیں اور جا کر خراجِ عقیدت پیش کرتے ہیں۔ وہاں شردھالو جاتے ہیں۔ شردھا کے بھاو سے جاتے ہیں اور شردھانجلی اَرپِت کر کے واپس ہوتے ہیں۔وہاں پندار علم کام نہیں آتا۔ وہاں علمی طمطراق دکھانا سودمند نہیں۔ وہاں انانیت کسی کام کی نہیں۔ بڑے بڑے صاحبان جبہ و دستار اپنے جبے و پگڑیاں اتار کر جاتے ہیں۔ وہاں کوئی علمی دھونس نہیں جماتا۔ کوئی اپنی قابلیت و صلاحیت اور اہلیت و لیاقت کا رعب و دبدبہ نہیں دکھاتا۔ اس لیے کہادب گاہیست زیرِ آسماں از عرش نازک تر نفَس گم کردہ می آید جنید و با یزید ایں جاخبردار! یہاں اپنا سکہ چلانے کی کوشش مت کرنا۔ یہاں کسی اور کا سکہ نہیں چلتا بلکہ یہاں مخدومِ پاک کا سکہ چلتا ہے۔ حضرت کو کھرے اور کھوٹے کی پرکھ اچھی طرح ہے۔ جس کسوٹی پر کھرے کھوٹے کی پرکھ ہوتی ہے وہ کسوٹی حضرت کے پاس ہے۔ عمدہ و غیر عمدہ کی معرفت کا پیمانہ حضرت کے پاس ہے۔ خبردار! خبردار! خبردار! یہاں اگر کسی کا سکہ چلے گا تو صرف اور صرف مخدومِ پاک حضرت سیدنا شیخ کمال الدین احمد یحیی منیری قدس سرہ کا سکہ چلے گا جنھوں نے مشرقی ہندستان میں شمع اسلام روشن فرمائی۔ پورے مشرقی ہند میں اگر کوئی کلمہ گو نظر آ رہا ہے تو سمجھ لینا کہ وہ حضور مخدوم پاک کی شبانہ روزی مساعیِ جمیلہ اور محنتِ شاقہ کا ثمرہ و نتیجہ ہے۔ مخدوم پاک کے دادا جان حضور تاج الفقہا حضرت سیدنا امام محمد تاج فقیہ ہاشمی رحمہ اللہ تعالی بیت المقدس (ہیبرون، فلسطین) سے بشارت نبوی ﷺ کے عین مطابق منیر شریف (پٹنہ، انڈیا) تشریف لائے اور اپنے اخلاق و کردار کے ذریعے لوگوں کو اپنا گرویدہ بنا لیا۔ لوگ ان کے دست حق پرست پر بیعت و ارادت کا شرف حاصل کرتے رہے اور تائب و مشرف باسلام بھی ہوتے رہے۔ جہاں انھوں نے مذہبی طور پر لوگوں کو اپنا ہم نوا بنایا وہیں سیاسی طور پر بھی راجا منیر راے کو شکست دے کر سیاست کے میدان میں بھی اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوایا۔ اور یہ باور کرایا کہ صحیح معنوں میں حضور تاج الفقہا عطاء النبی فی الہند ہیں۔بعدہ اپنے شہزادے حضور عماد الحق والملة والدین حضرت سیدنا مخدوم عماد الدین اسرائیل منیری قدس سرہ کو اپنا جانشیں بنایا۔ انھوں نے بھی بے انتہا دینی و ملی، مذہبی و سیاسی خدمات انجام دیں۔ بے شمار لوگوں کو تائب و مشرف باسلام کیا۔ بالآخر دارِ فانی کو خیرباد کہہ کر دارِ بقا کی جانب رِحلت فرما گئے۔بعد ازاں آپ کے شہزادے حضور سلطان المخدومین، برہان العارفین حضرت سیدنا مخدوم شیخ کمال الدین احمد یحیی منیری قدس سرہ آپ کی مسند سجادگی پر جلوہ فرما ہوئے۔ اور کما حقہ آپ کی سچی اور صحیح جا نشینی کا حق ادا کیا۔ حضور سلطان المخدومین، زین الساجدین، برہان العاشقین، زبدة السالکین، تاج العارفین، والدِ مخدومِ جہاں، شہزادہء قطب زماں، نبیرہء تاج الفقہا حضرت سیدنا مخدوم کمال الدین احمد یحییٰ منیری قدس سرہ اپنے وقت کے جلیل القدر، عظیم المرتبت، رفیع الدرجت، فقید المثال اور عدیم النظیر صوفی بزرگ گذرے ہیں۔ آپ کا شمار اپنے وقت کے عظیم صوفیہ میں ہوتا ہے۔ آپ مذہب مہذب اسلام کے مخلص داعی، تصوف و روحانیت کے سچے مبلغ، علوم دینیہ کے اچھے مدرس، اولیا و صوفیہ کے لائق و فائق نقیب اور 'العلماء ورثة الانبیا' کے بہترین مصداق تھے۔ منیر شریف اور اس کے اطراف و اکناف میں آپ نے جو شمع اسلام روشن فرمائی ہے وہ اب تک درخشاں و تاباں ہے۔ دعوت و تبلیغ، تصوف و روحانیت اور رشد و ہدایت کے باب میں آپ کی خدمات کافی اہمیت کی متحمل ہیں۔آپ کی ولادت 572ھ مطابق 1174ء کو بیت المقدس کے علاقے "الخلیل" (ہیبرون، فلسطین) میں ہوئی۔ جو یروشلم سے 30 کلومیٹر جنوب میں واقع ہے اور جو مغربی فلسطین کا سب سے بڑا اور دارالحکومت غزہ کے بعد پورے فلسطین کا سب سے بڑا شہر ہے۔آپ کو حضرت مخدوم کمال الدین احمد یحیی منیری سے شہرت حاصل ہے۔ آپ کے والدِ گرامی حضرت مخدوم عماد الدین اسرائیل منیری بن امام محمد تاج فقیہ ہاشمی ہیں۔ آپ کے دادا جان فاتحِ منیر، تاج الفقہا امام محمد تاج فقیہ ہاشمی مُطَّلَبی ہیں، جن کا سلسلۂ نسب گیارہویں پشت پہ حضرت عبد اللہ بن زبیر بن عبد المطلب رضی اللہ عنہ سے جا ملتا ہے۔ آپ بشارتِ نبوی کے مطابق ہندستان میں تبلیغ اسلام کی خاطر اپنے وطن عزیز بیت المقدس سے ہجرت کر کے منیر شریف تشریف لائے، اور سیاسی طور پر یہاں کے راجا "منیر راے" کو شکست فاش دی۔ پھر یہاں شمع اسلام روشن فرماکر اپنی اولادوں کو اسلام کی تبلیغ و اشاعت کی خاطر مفتوحہ علاقے سپرد فرماکر اپنے وطن واپس ہو گئے۔آپ کی ابتدائی تعلیم آپ کے گھر میں ہی آپ کے والدین کریمین کے زیر نگرانی ہوئی۔ اعلیٰ تعلیم مصنف ہدایہ علامہ برہان الدین مرغینانی رحمہ اللہ کے برادرِ محترم علامہ رکن الدین مرغینانی ثم منیری رحمہ اللہ کے زیر نگرانی ہوئی۔ جو آپ کے دادا جان حضور فاتحِ منیر کے قافلے میں لشکر اسلام کے ہم راہ جذبۂ تعلیم و تعلم و درس و تدریس لے کر آئے تھے، مزار مبارک منیر شریف کے قاضی محلہ میں مسجدِ رکن الدین کے سامنے واقع ہے۔ مزید تعلیم کے لیے آپ نے بغداد شریف کا رخ کیا اور وہاں حضرت بہاء الدین زکریا ملتانی قدس سرہ و حضرت مصلح الدین سعدی شیرازی قدس سرہ جیسے جید صوفیہ کے ہم راہ حضرت خواجہ شہاب الدین سہروردی قدس سرہ و خواجہ نجم الدین فردوسی قدس سرہ جیسے اکابر صوفیہ کے پاس روحانی تعلیم و تربیت حاصل کی۔ بیعت و خلافت آپ کو حضرت خواجہ شہاب الدین سہروردی رحمہ اللہ سے حاصل ہے۔ جو حضرت خواجہ ضیاء الدین ابو نجیب سہروردی رحمہ اللہ کے مرید و خلیفہ اور حضور غوث پاک حضرت محی الدین عبد القادر جیلانی رضی اللہ عنہ کے فیض یافتہ و خرقۂ خلافت یافتہ ہیں۔آپ کا نکاح تارک السلطنت حضرت مخدوم شہاب الدین پیر جگ جوت عظیم آبادی رحمہ اللہ کی دختر نیک اختر رابعۂ عصر ، ولیہ کاملہ حضرت بی بی رضیہ علیہا الرحمہ سے ہوا۔ جو کاشغر کی سلطنت چھوڑ کر اسلام کی دعوت و تبلیغ، ترویج و اشاعت، خلقِ خدا کی خدمت اور رشد و ہدایت کی خاطراپنے وطن سے ہجرت کر کے ہندستان تشریف لائے تھے، بیعت و خلافت حضرت خواجہ شہاب الدین سہروردی رحمہ اللہ سے حاصل ہے۔ آپ خود بھی ولیِ کامل تھے اور آپ کی صاحب زادی حضرت بی بی رضیہ بھی ولیہ کاملہ تھیں، جنھوں نے اپنے صاحب زادے حضرت مخدومِ جہاں کو کبھی بھی بغیر وضو کے دودھ نہیں پلایا۔آپ کی اولاد میں چار صاحب زادے اور ایک صاحب زادی ہیں، جن میں مخدومِ جہاں حضرت شرف الدین احمد یحیی منیری رحمہ اللہ کو بے انتہا مقبولیت اور عالمی شہرت حاصل ہے۔ آپ کا وصال 11 شعبان المعظم 690ھ/1291ء کو منیر شریف (پٹنہ، بہار) میں ہوا اور وہیں بڑی درگاہ میں آپ کا مزارِ مبارک ہے۔ ہر سال 10، 11 اور 12 شعبان المعظم کو آپ کا عرس سراپا قدس انتہائی تزک و احتشام اور صوفیانہ طرز و روش پر منعقد کیا جاتا ہے۔آپ کے بعد آپ کے بڑے صاحب زادے مخدوم جلیل الدین منیری علیہ الرحمہ نے مسند سجادگی کو زینت بخشی اور دوسرے صاحب زادے مخدوم شرف الدین یحییٰ منیری علیہ الرحمہ نے بہار شریف میں اپنی خانقاہ الگ بنائی۔حضرت مخدوم شاہ جلیل الدین منیری علیہ الرحمہ کے بعد آٹھویں پشت میں ایک مشیور بزرگ حضرت مخدوم شاہ دولت منیری علیہ الرحمہ ہوئے۔ انھوں نے بھی رشد و ہدایت اور خلقِ خدا کی خدمت میں اپنا تن من دھن سب کچھ تج دیا۔اس خانقاہ کے موجودہ سجادہ نشیں حضور طارقِ ملت حضرت سیدنا طارق عنایت اللہ فردوسی دام ظلہ العالی ہیں جو خدمتِ دین اور خلقِ خدا کی رہ نمائی میں اپنی مثال آپ ہیں۔ تواضع و انکساری میں اپنا ثانی نہیں رکھتے۔ سیرت و کردار میں جن کی طرح ڈھونڈنے سے نہیں ملتا۔بلا شبہ اس بارگاہ سے از ابتدا تا حال خلقِ خدا کی خدمت اور رشد و ہدایت کا سلسلہ جاری و ساری ہے۔اخیر میں بارگاہ قاضی الحاجات میں دست بہ دعا ہوں کہ مولاے رحمان و رحیم اپنے حبیب رءوف و رحیم علیہ الصلاة والتسلیم کے بطفیل عمیم ہمیں اپنے بزرگوں سے وابستہ رکھے، ان کے نقوش قدم پر چلائے اور ان کی تعلیمات پر عمل پیرا رہنے کی توفیقِ خیر مرحمت فرمائے۔آمین۔ یارب العالمین۔ بجاہ النبی الامین۔ علیہ اکرم الصلاة و افضل التسلیم وعلی آلہ وصحبہ ومن تبعھم اجمعین۔(مصادر و مراجع: مناقب الاصفیا، وسیلۂ شرف وذریعۂ دولت، تاریخ سلسلۂ فردوسیہ، آثار منیر، مرآت الکونین وغیرہ)

خانقاہِ منیر شریف اور اس کی مختصر تاریخاز قلم: ناچیز ناصر منیری کان اللہ لہڈائریکٹر ریسرچ سینٹر خانقاہ منیر شریفرابطہ نمبر: 9905763238۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔حضور تاج الفقہا، فاتح الہند، عطاء النبی فی الھند، فارغِ جامعہ نظامیہ بغداد، رفیقِ امام غزالی، خلیفہِ مرشدِ غزالی امام ابو علی فارمدی، جدِّ مخدوم یحییٰ منیری حضرتِ سیدنا امام محمد بن ابو بکر ہاشمی مُطَّلِبی قدس خلیلی، بیت المقدسی، فلسطینی ثم منیری (عرف امام تاج فقیہ، مُتَوفّٰی: 563ھ، جبل الھند، مکہ مکرمہ) کے دستِ مقدس سے منیر شریف کی سرزمین پر جس خانقاہ کی بنیاد رکھی گئی اسے ایشیا کی سب سے پہلی خانقاہ ہونے کا شرف حاصل ہے۔حضور تاج الفقہا رحمہ اللہ حجةالاسلام امام غزالی علیہ الرحمہ کے رفیق درس ہیں۔ آپ کی ولادت تقریباً 450ھ میں ہوئی۔ مدرسہ نظامیہ بغداد کی بنیاد 457ھ میں پڑی۔ پھر آپ نے اس مدرسے میں داخلہ لیا اور وہیں سے تعلیم کی تکمیل بھی کی۔ آپ نے اس وقت کے مروج علوم میں ایسی دست رس حاصل کی کہ آپ کو "تاج الفقہا" کے لقب سے سرفراز کیا گیا۔ دینی علوم سے فراغت کے بعد آپ نے روحانی علوم کی طرف اپنی عنانِ توجہ موڑی اور اس کے لیے شیخ یگانہ امام ابو علی فارمدی کے پاس زانوے تلمذ تہ کیا۔ انھی کے دست حق پرست پر بیعت و ارادت کا بھی شرف حاصل ہے اور اجازت و خلافت بھی انھی سے ملی۔ امام ابو علی فارمدی حضور تاج الفقہا کے ساتھ ساتھ امام غزالی کے بھی مرشدِ طریقت ہیں۔ اس کے بعد امام غزالی مدرسہ نظامیہ بغداد میں ہی مدرس کے عہدے پر فائز ہوئے اور حضور تاج الفقہا بشارت نبوی کے مطابق عازمِ ہند ہوئے۔ اور تقریباً 476ھ میں منیر شریف پہنچے اور خواہرزادہِ غوث اعظم حضرت سیدنا خطیرالدین ابدال جیلانی، برادر مصنف ہدایہ علامہ رکن الدین مرغینانی، خواہرزادہِ محمود غزنوی حضرت تاج الدین خواندگاہ غزنوی، شہزادہِ ترک میر سید محمد عطا ترکی، سالارِ سپاہ قطب الاقطاب علم بردار ربانی اور سید سالار مسعود غازی کے اقربا کو اپنے ہم راہ لے کر آئے۔ سیاسی طور پر یہاں کے راجا کو شکست دے کر فتح و کام رانی کا علم لہرایا۔ اور اسی وقت یہاں ایک خانقاہ کی بنا ڈالی۔ جسے دنیا خانقاہِ منیر شریف سے جانتی ہے۔ اسی وقت ایک درس گاہ کی بھی بنیاد پڑی جس کی نئی شکل جامعہ امام تاج الفقہا ہے۔ حضور تاج الفقہا کے ذخیرہِ کتب کو وسعت دے کر "مخدوم شاہ دولت منیری لائبریری" کا نام دیا گیا۔ حضور تاج الفقہا نے جو تصنیف و تالیف اور تحقیق و تدقیق کا کام کیا اسی کام کو جاری رکھنے والے ادارے کو "مخدوم یحییٰ منیری ریسرچ سینٹر" سے موسوم کر دیا گیا۔ حضور تاج الفقہا نے 476ھ میں اس خانقاہ کی بنا ڈالی اس وقت سے تا حال یہاں سے رشد و ہدایت کا کام جاری و ساری ہے۔ ان کے بعد ان کے جانشیں عمادالملةوالدین حضرت سیدنا مخدوم اسرائیل منیری نے ذمے داری سنبھالی، پھر سلطان المخدومین حضرت سیدنا مخدوم یحیی منیری جانشیں ہوئے اور شیخ مصلح الدین سعدی شیرازی و شیخ بہاء الدین زکریا ملتانی کی رفاقت میں مدرسہ نظامیہ، بغداد سے فراغت اور شیخ شہاب الدین سہروردی، شیخ ابونجیب سہروردی اور شیخ نجم الدین کبریٰ ولی تراش سے خلافت پا کر حضور تاج الفقہا کی جانشینی کا حق ادا کر دیا۔ اس وقت سے اب تک اس خانقاہ سے خلقِ خدا کی خدمت اور رشد و ہدایت کا سلسلہ جاری و ساری ہے۔ اللہ پاک یہ سلسلہ تا قیامت جاری و ساری رکھے۔ آمین۔

سلطان المخدومین حضرت سیدنا کمال الدین یحیی منیری علیہ الرحمہ کا ذکرِ خیراز قلم: ناچیز ناصر منیری کان اللہ لہڈائریکٹر: ریسرچ سینٹر، خانقاہ منیر شریف، پٹنہرابطہ نمبر: 9905763238۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔سلطان المخدومین، زین الساجدین، برہان العاشقین، زبدة السالکین، تاج العارفین، والدِ مخدومِ جہاں، شہزادہء قطب زماں، نبیرہء تاج الفقہا حضرت سیدنا مخدوم کمال الدین احمد یحییٰ منیری رضی اللہ تعالی عنہ و ارضاہ عنا اپنے وقت کے جلیل القدر، عظیم المرتبت، رفیع الدرجت، فقید المثال اور عدیم النظیر صوفی بزرگ گذرے ہیں۔ آپ کا شمار اپنے وقت کے عظیم صوفیہ میں ہوتا ہے۔ آپ مذہب مہذب اسلام کے مخلص داعی، تصوف و روحانیت کے سچے مبلغ، علوم دینیہ کے اچھے مدرس، اولیا و صوفیہ کے لائق و فائق نقیب اور 'العلماء ورثة الانبیا' کے بہترین مصداق تھے۔ منیر شریف اور اس کے اطراف و اکناف میں آپ نے جو شمع اسلام روشن فرمائی ہے وہ اب تک درخشاں و تاباں ہے۔ دعوت و تبلیغ، تصوف و روحانیت اور رشد و ہدایت کے باب میں آپ کی خدمات کافی اہمیت کی متحمل ہیں۔ ذیل میں آپ کی حیات کے چند گوشوں پر مختصرا روشنی ڈالنے کی کوشش کی گئی ہے۔ ولادتِ باسعادت:آپ کی ولادت 572ھ مطابق 1174ء کو بیت المقدس کے علاقے "الخلیل" (ہیبرون، فلسطین) میں ہوئی۔ جو یروشلم سے 30 کلومیٹر جنوب میں واقع ہے اور جو مغربی فلسطین کا سب سے بڑا اور دارالحکومت غزہ کے بعد پورے فلسطین کا سب سے بڑا شہر ہے۔اسمِ گرامی :آپ کو حضرت مخدوم کمال الدین احمد یحیی منیری سے شہرت حاصل ہے۔والدِ ماجد:آپ کے والدِ گرامی حضرت مخدوم عماد الدین اسرائیل منیری بن امام محمد تاج فقیہ ہاشمی ہیں۔جدِ کریم:آپ کے دادا جان فاتحِ منیر، تاج الفقہا امام محمد تاج فقیہ ہاشمی مُطَّلِبی ہیں، جن کا سلسلۂ نسب آٹھ پشتوں کی درمیانگی سے حضور علیہ السلام کے عم مکرم حضرت زبیر بن عبد المطلب سے جا ملتا ہے۔ آپ بشارتِ نبوی کے مطابق ہندستان میں تبلیغ اسلام کی خاطر اپنے وطن عزیز بیت المقدس سے ہجرت کر کے منیر شریف تشریف لائے، اور یہاں کے ظالم راجا "منیر راے" سے جہاد کر کے اسے شکست فاش دی۔ پھر یہاں شمع اسلام روشن فرماکر اپنی اولادوں کو اسلام کی تبلیغ و اشاعت کی خاطر مفتوحہ علاقے سپرد فرما کر اپنے وطن واپس ہو گئے۔تعلیم و تربیت : آپ کی ابتدائی تعلیم آپ کے گھر میں ہی آپ کے والدین کریمین کے زیر نگرانی ہوئی۔ اعلیٰ تعلیم مصنف ہدایہ علامہ برہان الدین مرغینانی رحمہ اللہ کے برادرِ محترم علامہ رکن الدین مرغینانی ثم منیری رحمہ اللہ کے زیر نگرانی ہوئی۔ جو آپ کے دادا جان حضور فاتحِ منیر کے قافلے میں لشکر اسلام کے ہم راہ جذبۂ جہاد و تعلیم و تعلم و درس و تدریس لے کر آئے تھے، مزار مبارک منیر شریف کے قاضی محلہ میں مسجدِ رکن الدین مرغینانی کے سامنے واقع ہے۔ مزید تعلیم کے لیے آپ نے بغداد شریف کا رخ کیا اور وہاں حضرت بہاء الدین زکریا ملتانی و حضرت مصلح الدین سعدی شیرازی جیسے جید صوفیہ کے ہم راہ مدرسہ نظامیہ بغداد سے فراغت حاصل کی۔ اس کے علاوہ حضرت خواجہ شہاب الدین سہروردی و خواجہ ابو نجیب سہروردی اور خواجہ نجم الدین ولی تراش جیسے اکابر صوفیہ سے روحانی تعلیم و تربیت حاصل کی۔بیعت و خلافت : بیعت و خلافت آپ کو حضرت خواجہ شہاب الدین سہروردی رحمہ اللہ سے حاصل ہے۔ جو حضرت خواجہ ضیاء الدین ابو نجیب سہروردی رحمہ اللہ کے مرید و خلیفہ اور حضور غوث پاک محی الدین عبد القادر جیلانی رضی اللہ عنہ کے فیض یافتہ و خرقۂ خلافت یافتہ ہیں۔عقدِ مناکحت:آپ کا نکاح تارک السلطنت حضرت مخدوم شہاب الدین پیر جگ جوت عظیم آبادی رحمہ اللہ کی دختر نیک اختر رابعۂ عصر ، ولیہ کاملہ حضرت بی بی رضیہ علیہا الرحمہ سے ہوا۔ جو کاشغر کی سلطنت چھوڑ کر اسلام کی دعوت و تبلیغ، ترویج و اشاعت، خلقِ خدا کی خدمت اور رشد و ہدایت کی خاطراپنے وطن سے ہجرت کر کے ہندستان تشریف لائے تھے، بیعت و خلافت حضرت خواجہ شہاب الدین سہروردی رحمہ اللہ سے حاصل ہے۔ آپ خود بھی ولیِ کامل تھے اور آپ کی صاحب زادی حضرت بی بی رضیہ بھی ولیہ کاملہ تھیں، جنھوں نے اپنے صاحب زادے حضرت مخدومِ جہاں کو کبھی بھی بغیر وضو کے دودھ نہیں پلایا۔اولادِ امجاد:آپ کی اولاد میں چار صاحب زادے اور ایک صاحب زادی ہیں، جن میں مخدومِ جہاں حضرت شرف الدین احمد یحیی منیری رحمہ اللہ کو بے انتہا مقبولیت اور عالمی شہرت حاصل ہے۔ وصالِ پر ملال:آپ کا وصال 11 شعبان المعظم 690ھ/1291ء کو منیر شریف (پٹنہ، بہار) میں ہوا اور وہیں بڑی درگاہ میں آپ کا مزارِ مبارک ہے۔ ہر سال 10، 11 اور 12 شعبان المعظم کو آپ کا عرس سراپا قدس انتہائی تزک و احتشام اور صوفیانہ طرز و روش پر منعقد کیا جاتا ہے۔تعلیماتِ مخدوم یحییٰ منیری:آپ چوں کہ اللہ کے ولی تھے اور آپ کو اللہ نے لوگوں کو سیدھی راہ بتانے کے لیے بھیجا تھا اس لیے آپ لوگوں کو اچھی اچھی باتیں سکھاتے تھے۔ آپ کی انھی تعلیمات میں سے چند یہ ہیں:(1)اللہ سے،(2)اس کے رسول سے،(3)اور نیک لوگوں سے محبت رکھیں۔(4)ہر حال میں اللہ کا شکر کیا کریں۔(5)اس کی رحمت سے کبھی مایوس نہ ہوں۔(6)اس پر بھروسا رکھیں۔(7)اس سے ڈریں۔(8)اسی کی عبادت کریں۔(9)نمازیں پڑھا کریں۔(10)روزے رکھا کریں۔(11)صاحب نصاب ہوں تو زکات دیا کریں۔(12)استطاعت ہو تو حج ضرور کریں۔(13)علم حاصل کریں۔(14)اور اس پر عمل بھی کریں۔(15)دین کی خدمت کیا کریں۔(16)علما کی عزت کیا کریں۔(17)ہمیشہ سچ بولیں۔(18)جھوٹ کبھی نہ بولیں۔(19)بڑوں کی عزت کریں۔(20)چھوٹوں پر شفقت کریں۔(21)غریبوں، فقیروں، یتیموں اور بیواؤں کی مدد کیا کریں۔(22)سب کے ساتھ اچھا برتاو کریں۔(23)کسی پر غصہ نہ کریں۔(24)کسی پر ظلم نہ کریں۔(25)سب کے ساتھ بھلائی کریں۔(26)کسی کے ساتھ برائی نہ کریں۔(27)برائی سے بچیں۔(28)گناہوں سے سچی توبہ کریں۔(29)مصیبتوں پر صبر کیا کریں۔(30)پریشانیوں سے گھبرایا نہ کریں۔(31)بڑوں کی بات مانیں۔(32)چھوٹوں کو سمجھایا کریں۔(33)دوسروں کی غلطیوں کو معاف کریں۔(34)بے حیائی و بے وفائی سے بچیں۔(35)کسی پر حسد نہ کریں۔(36)دکھاوے سے بچیں۔(37)گھمنڈ نہ کریں۔(38)دل میں کینہ نہ رکھیں۔(39)لالچ نہ کریں۔(40)کنجوسی سے بچیں۔(41)ناشکری نہ کریں۔(42)کسی کو نیچا نہ سمجھیں۔(43)کسی کے بارے میں برا نہ سوچیں۔(44)کسی کی چغلی نہ کریں۔(45)کسی پر جھوٹا الزام و تہمت نہ لگائیں۔(46)لڑائی جھگڑے سے بچیں۔(47)گالی گلوج نہ کریں۔(48)کسی کو دھوکا نہ دیں۔(49)مخالفت سے بچیں۔(50)موت اور قبر کو یاد رکھا کریں۔وغیرہ وغیرہ۔اخیر میں بارگاہ قاضی الحاجات میں دعا گو ہوں کہ موالے پاک اپنے محبوب پاک، صاحب لولاک، سیاح افلاک صلی اللہ علیہ وسلم کے صدقے و طفیل حضرت مخدوم پاک کے مرقد منور پہ رحمت و انوار کی بارشیں برسائے۔ ان کے درجات بلند فرمائے اور ہمیں ان کی یاد منانے اور ان کے نام نذر و نیاز کرنے کے ساتھ ساتھ ان کی تعلیمات پر عمل پیرا ہونے کی بھی توفیق خیر مرحمت فرمائے۔آمین۔ یا رب العالمین۔ بجاہ النبی الامین۔صلی اللہ علیہ وآلہ وصحبہ ومن تبعھم اجمعین۔(مصادر و مراجع: مناقب الاصفیا، وسیلۂ شرف وذریعۂ دولت، تاریخ سلسلۂ فردوسیہ، آثار منیر، مرآت الکونین وغیرہ)

سلطان المخدومین حضرت سیدنا کمال الدین یحییٰ منیری علیہ الرحمہ اور حسنِ اخلاقاز قلم: ناچیز ناصرؔ منیری کان اللہ لہڈائریکٹر : ریسرچ سینٹر، خانقاہ منیر شریفرابطہ نمبر: 9905763238عظیم الشان ہے رتبہ مِرے یحییٰ منیری کارفیع المرتبت اسوہ مِرے یحیٰ منیری کاسلطان المخدومین حضرت سیدنا کمال الدین یحییٰ منیری علیہ الرحمۃ والرضوان اپنے وقت کے جلیل القدر صوفی بزرگ گذرے ہیں۔آپ نے تصوف کی تعلیمات عام کرنے میں اپنا تن من دھن سب کچھ تج دیا۔ آپ کے اخلاق بہت عمدہ تھے۔ جو بھی آپ سے ملتا متاثر ہوئے بغیر نہیں رہتا۔ جو اہل ایمان ہوتا، وہ تائب ہوتا اور جو اہل کفر ہوتا، مشرف بہ اسلام ہوجاتا۔وہ ہو جاتا مشرف دولتِ ایمان سے اس دمکوئی گر دیکھتا چہرا مِرے یحییٰ منیری کاآپ نے اخلاقیات پہ بہت زور دیا۔ لوگوں کے اخلاق سنوارنے میں آپ نے بہت محنت کی۔ ذیل میں حسنِ اخلاق کا درس پیش کیا جا رہاہے:حسن اخلاق آیاتِ قرآنیہ کی روشنی میں:قرآنِ پاک میں جا بہ جا حسن اخلاق کی فضیلت بیان کی گئی ہے۔ قرآن نے اخلاقیات پہ بہت زور دیا ہے۔کہا جاتاہے کہ فلاں اچھے خَلْق اور اچھے خُلُق یعنی اچھے ظاہر وباطن والا ہے۔ ظاہر کا حُسن خوب صورتی ہے جیسا کہ آپ جانتے ہيں اورباطنی حُسن سے مراد بُری صفات پر اچھی صفات کا غالب ہونا ہے اورباطن میں تفاوُت(یعنی فرق)، ظاہر میں تفاوت سے زیادہ ہوتا ہے اوراسی کی طرف پروردگارِ کائنات نے اپنے اس فرمانِ اقدس میں اشارہ فرمایا،جیسا کہ ارشاد ِخدا وندی ہے:اِنِّیۡ خَالِقٌۢ بَشَرًا مِّنۡ طِیۡنٍ ﴿71﴾فَاِذَا سَوَّیۡتُہٗ وَ نَفَخْتُ فِیۡہِ مِنۡ رُّوۡحِیۡیعنی: میں مٹی سے انسان بناؤں گا پھر جب میں اسے ٹھیک بنا لوں اوراس میں اپنی طرف کی روح پھونکوں گا۔(پ23،ص:71۔72)پروردگارِ کائنات نے اس آیتِ مبارکہ میں آگاہ فرمایا کہ انسان کی ظاہری صورت مِٹی سے بنی ہوئی ہے اوراس کی باطنی صورت پروردگارِ کائنات کے عالَمِ اَمر سے ہے ۔ لہٰذا حُسنِ خُلق سے ہماری مراد باطنی صورت کا اچھاہونا ہے پس جس قدر بندہ بری صفات سے کنارہ کشی اختیار کرتاہے، اس کے بدے میں اچھی صفات پائی جاتی ہیں، یہی اچھے اخلاق ہیں اورحُسنِ اخلاق کی مکمل صورت تاج دارِ کائنات ﷺ کے لیے ہے، کیوں کہ تاج دارِ کائنات ﷺ حُسنِ اخلاق کے اس معنی میں درجۂ کمال پر فائز ہوئے۔ پروردگارِ کائنات نے آپ کے لیے ارشاد فرمایا:وانک لعلی خلق عظیمیعنی: (اے نبی مکرم ﷺ) آپ کے اخلاق انتہائی عظیم الشان ہیں۔(پ29،سورہ قلم)حسن اخلاق احادیثِ نبویہ کی روشنی میں: قرآن کے علاوہ حدیثوں میں بھی جگہ جگہ حسنِ اخلاق کی فضیلتیں بیان کی گئی ہیں۔ جا بہ جا اخلاق سنوارنے کے احکام وارد ہوئے ہیں۔ جیسا کہ تاج دارِ کائنات ﷺ کافرمانِ عالیشان ہے:رَجَعْنَا مِنَ الْجِھَادِ الْاَصْغَرِاِلَی الْجِھَادِ الْاَکْبَرِ.یعنی:ہم چھوٹے جہادسے بڑے جہاد کی طرف پلٹے۔(الزھد الکبیر للبیھقی،الجز الثانی، فصل فی ترک الدنیا ومخالفۃ النفس والھوی، الحدیث۳۷۳،ص۱۶۵، مفہوماً)معلوم ہونا چاہیے کہ نفس کی کچھ بیماریاں ہیں جن سے اس کا پاک وصاف ہونا ضروری ہے اس طرح وہ ہمیشہ کی سعادت اوراللہ کا قُرب حاصل کرسکتا ہے۔حُسنِ اخلا ق کے تعلق سے تاج دارِ کائنات ﷺ مزید ارشاد فرماتے ہیں:اِنَّ حُسْنَ الْخُلْقِ یُذِیْبُ الْخَطِیْئَۃَ کَمَا تُذِیْبُ الشَّمْسُ الْجَلِیْدَ.یعنی:بے شک اچھے اخلاق گناہ کو اس طرح مٹا دیتے ہیں جس طرح سورج برف کو پگھلا دیتاہے۔(شعب الایمان للبیھقی، باب فی حسن الخلق ،الحدیث۸۰۳۶،ج۶،ص۲۴۷۔۲۴۸) حضرت سیِّدُنا عبدالرحمن بن سمرہ رضی اللہ عنہ ارشاد فرماتے ہیں کہ ہم تاج دارِ کائنات ﷺ کی بارگاہ میں حاضر تھے ،آپ نے ارشاد فرمایا:'' گذشتہ رات میں نے ایک عجیب بات دیکھی، میں نے اپنی امت کے ایک شخص کو دیکھا جو اپنے گھٹنوں کے بل جُھکا ہوا تھا ،اس کے اور پروردگارِ کائنات کے درمیان حجاب تھا پس حُسنِ اخلاق آیا اوراس نے اسے پروردگارِ کائنات کے قرب میں پہنچا دیا۔''(مکارم الاخلاق للخرائطی، باب ثواب حسن الخلیقۃوجسیم خطرھا، الحدیث۴۹،ج۱،ص۵۲)مذکورہ حدیثوں سے حسن اخلاق کی اہمیت کا اندازہ ہوتا ہے۔تاج دارِ کائنات ﷺ مزید فرماتے ہیں: ''حَسِّنُوْا اَخْلاَ قَکُمْ یعنی: اپنے اخلاق کو سنوارو۔''(جامع الترمذی، ابواب البروالصلۃ، باب ما جاء فی معاشرۃ الناس، الحدیث۱۹۸۷، ص۱۸۵۱، مفھومًا)تاج دارِ کائنات ﷺ نے یہ فرما کر اس بات سے آگاہ فرمایا، کہ اخلاق، تبدیلی کو قبول کرتے اور تصرف سے متاثر ہوتے ہیں۔ لہٰذا غصہ، شہوت اورحرص سے بچنے کی کوشش کرنی چاہے اوریہ تمام صفات حکمِ شرع کے مطابق ہونی چاہئيں ، جب ہوگا تو مقصد حاصل ہوجائے گااوریہ چیزناپسندیدہ اشیا پر صبر کرنے اورمجاہدہ سے حاصل ہوتی ہے تاکہ اس کے بعد یہ عادت بن جائے۔تاج دارِ کائنات ﷺ کا فرمانِ والاشان ہے: ''اَلْخَیْرُ عَادَۃٌ یعنی:بہترین چیز عادت ہے۔'' (سنن ابن ماجۃ، کتاب السنۃ، باب فضل العلماء والحث علی طلب العلم، الحدیث۲۲۱،ص۲۴۹۰) مثال کے طور پر جو شخص اصل فطرت سے سخی نہ ہو تو وہ تکلف سے اس عادت کو اپناتا ہے اوراسی طرح جس کی تخلیق تواضع پر نہ ہو تو اسے اس چیز کو عادت بنانے میں مشقت ہوتی ہے اوراسی طرح وہ تمام صفات جن کا علاج ان کی ضد کے ساتھ کیا جاتا ہے حتّٰی کہ مقصد حاصل ہوجائے ۔عبادات پر ہمیشگی اورخواہشات کی مخالفت باطنی صورت کو حسین بنادیتے ہیں اوراللہ سے اُنس حاصل ہوجاتاہے۔تاج دارِ کائنات ﷺ کا فرمانِ عالی شا ن ہے: اُعْبُدِ اللہَ فِی الرِّضَا فَاِنْ لَّمْ تَسْتَطِعْ فَفِی الصَّبْرِ عَلٰی مَا تَکْرَہُ خَیْرٌ کَثِیْرٌ۔یعنی:اللہ کی عبادت رضا مندی سے کرو اگر ایسا نہ ہوسکے تو ناگوار بات پر صبر کرنے میں بہت زیادہ بھلائی ہے ۔(شعب الایمان للبیھقی، باب فی الصبر علی المصائب، فصل فی ذکرما فی الأوجاع ۔۔۔۔۔۔الخ، الحدیث۱۰۰۰۰،ج۷،ص۲۰۳،بتغیرٍ)لہذا ابتدا میں صبر کرنا چاہیے یہاں تک کہ راضی ہوجائے، کیوں کہ اصل فطرت بھی باطنی صورت کے حُسن کا تقاضا کرتی ہے اور اسی طرف مائل ہوتی ہے اور تاج دارِ کائنات ﷺ نے اپنے اس فرمانِ عالیشان میں اسی جانب اشارہ فرمایا: ''اَلْحَسَنَۃُ بِعَشَرِ اَمْثَالِھَا یعنی:ایک حسنہ دس نیکیوں کے برابر ہے۔ '' (صحیح البخاری، کتاب الصوم، باب فضل الصوم، الحدیث۱۸۹۴،ص۱۴۸) اوریہی اصلِ فطرت کی موافقت ہے۔اخلاق سنوارنے کا بہترین طریقہ:یہ تو ہم جان چکے ہیں، کہ جسم کی بیماری کا علاج اس کی ضد کے ساتھ ہوتاہے۔ اسی طرح مرضِ دل کا معاملہ ہے۔ اور یہ چیز لوگوں کے مختلف ہونے کے اعتبار سے مختلف ہوتی ہے کیونکہ طبیعتیں مختلف ہوتی ہیں اورشیخ اپنی قوم میں اس طرح ہوتا ہے جیسے نبی اپنی اُمّت میں، وہ مرید کا حال دیکھتاہے اوراس پر غالب آنے والی صفات کو جانتاہے اور ان چیزوں کو بھی جانتاہے جن سے مُرید کا علاج ممکن ہوتاہے، لہٰذا وہ اسے ابتدائی مرحلے میں عبادات، کپڑوں کو پاک وصاف رکھنے، نمازوں پر پابندی اختیار کرنے اورتنہائی میں پروردگارِ کائنات کا ذکر کرنے میں مشغول رکھتاہے۔ پس اس طرح اس کے پوشیدہ عیوب ظاہر ہوجاتے ہیں جس طرح پتھر میں چھپی آگ (ایک پتھر کو دوسرے پر مارنے سے) ظاہر ہوجاتی ہے اوراگر اس کے پاس زائد مال ہوتو شیخ اسے لے کر محتاجوں میں بانٹ دیتاہے تاکہ اس کا دِل فارغ ہوجائے اوراس کے دِل کا فارغ ہونا ہی اصل چیز ہے۔ پھر اس کے غیر کے دل کا فارغ ہونا اس کے مال کے لیے وبال ہے اوراس کے غموں کو بڑھاتا ہے اوران غموں کی برکت سے اس پر اس کا مقصود آسان ہو جاتا ہے اور تہذیبِ اخلاق کا طریقہ یہ بھی ہے، کہ اس کی بعض صفات کو دوسری صفات پر مسلَّط کردیا جائے۔ چناں چہ وہ عارضی ریا کے ذریعے سخاوت میں رغبت اختیار کرے (جب کہ اسے دل میں نہ جمنے دے )، تاکہ وہ بخل، دنیا کی محبت اور اس کے جمع کرنے کو ترک کر دے اور غصہ وشہوت کا استعمال ترک کردے، تاکہ وہ اسے پاک دامنی اوردرستگی پر ابھارے ،پھر اس کے بعد ریاکاری کی طرف متوجہ ہو اور ریاضت کی مدت میں حاصل ہونے والی دین کی قوت اور اللہ کی طرف اپنی توجہ کے ذریعے اس کاقلع قمع کر دے اور نفس کی ضد کے ساتھ عبادات کی پابندی کر کے اس کا علاج کرے اوربعض شیوخ کے بارے میں مروی ہے، کہ اگر ان کا نفس رات کے کسی حصہ میں قیام سے سستی کرتا، تو ایک مدّت تک سر کے بل کھڑا ہونا اس پر لازم کر دیتے ،تاکہ وہ قدموں پر کھڑا ہونا خوشی سے اختیارکرے اور اسے غنیمت جانے۔بد اخلاقی سے بچنے کا طریقہ:تاج دارِ کائنات ﷺ کا فرمانِ والاشان ہے :اِذَا اَرَادَاللہُ بِعَبْدٍخَیْرًا بَصَّرَہ، بِعُیُوْبِ نَفْسِہٖ۔یعنی:جب پروردگارِ کائنات کسی بندے کے ساتھ بھلائی کا ارادہ فرماتاہے تو اسے اس کے عیوب دکھا دیتاہے۔(شعب الایمان للبیھقی، باب فی الزھد وقصر الأمل، الحدیث۱۰۵۳۵،ج۷،ص۳۴۷) اپنے عیوب پہچاننے کے طریقوں میں سے سب سے بہترین طریقہ یہ ہے، کہ انسان اپنے مُرشِد کے سامنے بیٹھے اور اس کے حکم کے مطابق عمل کرے، کبھی اسی وقت اس پر اپنے عیوب ظاہر ہوجاتے ہیں اورکبھی اس کا مُرشِد اسے اس کے عیوب سے آگاہ کر دیتا ہے۔ یہ طریقہ سب سے اعلیٰ وبہترین ہے، مگر آج کل یہ بہت مشکل ہے ۔ دوسرا طریقہ یہ ہے کہ کوئی نیک دوست تلاش کرے ،جو اس معاملہ کے اسرار سے واقف ہو،اس کی صحبت اختیارکرے اوراسے اپنے نفس کا نگران بنائے، تاکہ وہ اس کے اَحوال کو ملاحظہ کرکے اس کے عیوب سے آگاہ کرے ۔ اَکابِر اَئمہ دین اسی طرح کیا کرتے تھے۔ امیر المؤمنین حضرت سَیِّدُناعمر فاروق اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ ارشاد فرماتے تھے :''پروردگارِ کائنات اس شخص پر رحم فرمائے جو مجھے میرے عیوب بتائے۔''جب حضرت سَیِّدُنا سَلمان رضی اللہ عنہ آپ کی خدمت میں حاضر ہوئے تو آپ نے ان سے اپنے عیبوں کے بارے میں پوچھا:''کیا آپ تک میری کوئی ایسی بات پہنچی ہے جو آپ کو ناپسند ہو؟'' انھوں نے بتانے سے معذرت کی، لیکن آپ نے اصرار کیا تو حضرت سیِّدُنا سلمان رضی اللہ عنہ نے عرض کی: ''میں نے سنا ہے کہ آپ اپنے دسترخوان پر دوسالن جمع کرتے ہیں اور آپ کے پاس دو جوڑے ہیں، ایک دن کا اورایک رات کا۔ ''آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے پھر پوچھا:'' اس کے علاوہ بھی کوئی بات پہنچی ہے؟ ''تو انھوں نے عرض کی:'' نہیں۔'' امیرالمؤمنین حضرت سیِّدُنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے ارشاد فرمایا: ''اگر صرف یہی دو ہیں تو میں انھیں کافی ہو جاؤں گا۔'' حضرت سیِّدُنا حذیفہ رضی اللہ عنہ جو کہ منافقین کی پہچان کے معاملے میں تاج دارِ کائنات ﷺ کے راز دار تھے، امیرالمؤمنین حضرت سیِّدُنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ ان سے پوچھتے: کیا آپ کو مجھ میں منافقت کے آثار نظر آتے ہیں؟ تو امیرالمؤمنین حضرت سیِّدُنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ اس قدر بلند مرتبہ اورعظیم منصب پر فائز ہونے کے باوجود اس طرح اپنے نفس کو اس قدر تہمت لگاتے تھے۔ لہذا اگر آپ کوئی دوست نہ ملے تو اپنے حاسدین کی باتوں پر غور کریں، آپ ایسے حاسد کو پائیں جو آپ کے عیبوں کا متلاشی ہوتا ہے اوراس میں اضافہ کرتاہے، تو آپ اس سے فائدہ اٹھائیں اوراس کی طرف سے بتائے جانے والے تمام عیوب کے ساتھ اپنے نفس کو متَّہم جانیں اوراگر کوئی شخص آپ کو آپ کے عیب بتائے تو اس پر غضب و غصہ نہ کریں کیوں کہ عیوب سانپ اوربچھو ہیں جو دنیا وآخرت میں آپ کو ڈستے ہیں۔کیوں کہ جو شخص آپ کو بتائے کہ آپ کے کپڑوں کے نیچے سانپ ہے توآپ اس شخص کے احسان مند ہوتے ہیں ،لیکن اگر آپ اس پر غصہ کریں گے تو یہ آخرت میں آپ کے ایمان کی کمزوری کی دلیل ہے ۔اوراگر آپ اس کی نصیحت سے فائدہ اٹھائیں تو یہ آپ کی قوّتِ ایمانی کی دلیل ہے اورجان لیں کہ ناراض ہونے والی آنکھ برائیوں کو ظاہر کرتی ہے ،اور ایمان کاقوِّی ہونا آپ کو اس وقت فائدہ دے گاجب آپ حاسدوں کی ملامت کو غنیمت جانیں اوران عیوب سے بچیں۔حضرت سیِّدُنا عیسیٰ علیہ الصلوٰۃو السلام سے پوچھا گیا:'' آپ کو ادب کس نے سکھایا ؟'' آپ علیہ السلام نے ارشاد فرمایا: '' مجھے کسی نے ادب نہیں سکھایا،میں نے جاہل کی جہالت (کہ یہ بھی ایک عیب ہے)کو دیکھاتو اس سے کنارہ کشی اختیار کر لی ۔''جان لیں ! جو کچھ ہم نے بیان کیا ہے جب آپ اس پر غوروفکر کریں گے تو آپ کی بصیرت کی آنکھ کھل جائے گی، اور آپ اس سے فائدہ حاصل کریں گے، اگر آپ کو یہ چیز نہ حاصل ہو تو کم از کم اس پر ایمان لانا اوراس کی تصدیق کرنا ضروری ہے۔ کیوں کہ پہلی چیز ایمان ہے اورپھر اس منزل تک پہنچنا ہے۔ پروردگارِ کائنات کا فرمان عالیشان ہے:یَرْفَعِ اللہُ الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا مِنۡکُمْ ۙ وَ الَّذِیۡنَ اُوۡتُوا الْعِلْمَ دَرَجٰتٍ ؕیعنی: اللہ تمہارے ایمان والوں کے اوران کے جن کو علم دیا گیا درجے بلند فرمائے گا۔(پ28،المجادلۃ:11)تقوی ان اعمال کے حصول میں اصل مال کی حیثیت رکھتاہے۔ پروردگارِ کائنات نے ارشاد فرمایا: وَ مَنۡ یَّـتَّقِ اللہَ یَجْعَلْ لَّہٗ مَخْرَجًا ۙ﴿2﴾وَّ یَرْزُقْہُ مِنْ حَیۡثُ لَا یَحْتَسِبُ ؕیعنی: اورجو اللہ سے ڈرے اللہ اس کے لیے نجات کی راہ نکال دے گا اوراسے وہاں سے روزی دے گا جہاں اس کا گمان نہ ہو۔(پ28، الطلاق:2۔3)منقول ہے کہ عزیز ِمصرکی بیوی نے حضرت سیِّدُنا یوسف علیٰ نبیناوعلیہ الصلوٰۃو السلام سے کہا:''اے یوسف (علیہ السلام) ! بے شک حرص اورخواہش نے بادشاہوں کو غلام بنایا اورصبروتقوی نے غلاموں کو بادشاہ بنادیا۔''توحضرت سَیِّدُنایوسف علیٰ نبیناوعلیہ الصلوٰۃو السلام نے فرمایا : پروردگارِ کائنات کا فرمانِ حقیقت نشان ہے :اِنَّہٗ مَنۡ یَّـتَّقِ وَیَصْبِرْ فَاِنَّ اللہَ لَایُضِیۡعُ اَجْرَ الْمُحْسِنِیۡنَ ﴿90﴾یعنی: بے شک جو پرہیزگاری اورصبر کرے تو اللہ نیکوں کا نیگ (اجر ) ضائع نہیں کرتا۔(پ13،یوسف:90)حضرت سیِّدُنا جنیدبن محمد خزارعلیہ رحمۃ اللہ الغفار فرماتے ہیں : '' ایک مرتبہ میں رات کو جاگا اوراپنے وظیفہ میں مشغول ہوگیا، لیکن میں نے اس میں وہ لذّت نہ پائی جو پہلے پایا کرتا تھا چناں چہ میں نے سونے کا ارادہ کیا لیکن سونہ سکا، لہٰذا بیٹھ گیا لیکن بیٹھ بھی نہ سکا تو باہر نکل گیا،کیا دیکھتا ہوں کہ ایک شخص کمبل میں لپٹا ہوا راستے میں پڑا ہے، جب وہ میرے آنے پر مطلع ہوا تو کہنے لگا: ''اے ابوقاسم! ذرا میرے پاس تشریف لائیے۔'' میں نے کہا: ''اے محترم! پہلے سے آپ نے کوئی اطلاع نہیں دی۔'' اس شخص نے کہا:'' جی ہاں! میں نے پروردگارِ کائنات کی بارگاہ میں التجا کی کہ وہ تیرے دل کو میری طرف متوجہ کر دے۔'' میں نے کہا:''وہ تیری طرف متوجہ ہو گیا ہے ،(اب بتاؤ )تمہاری کیاحاجت ہے؟'' اس نے کہا:'' نفس کی بیماری اس(نفس)کا علاج کب بنتی ہے ؟''میں نے کہا: ''جب تو نفس کی خواہش میں اس کی مخالفت کرے۔'' پس وہ اپنے نفس کی طرف متوجہ ہوکر کہنے لگا:'' اے نفس! اب سن لیا! میں نے تجھے سات باراس بات کا جواب دیا لیکن تو نے انکار کیا اورکہا: میں حضرت سَیِّدُناجنیدرحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ سے ہی سنوں گا (تواب تو نے سن لیا)۔''آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں کہ وہ شخص چلا گیا اورمیں اسے نہ پہچان سکا۔اچھے اَخلاق کی نشانیاں:پروردگارِ کائنات کا ارشادِ پاک ہے :(1) قَدْ اَفْلَحَ الْمُؤْمِنُوۡنَ ۙ﴿1﴾الَّذِیۡنَ ہُمْ فِیۡ صَلَاتِہِمْ خَاشِعُوۡنَ ۙ﴿2﴾وَالَّذِیۡنَ ہُمْ عَنِ اللَّغْوِ مُعْرِضُوۡنَ ﴿ۙ3﴾وَالَّذِیۡنَ ہُمْ لِلزَّکٰوۃِ فٰعِلُوۡنَ ۙ﴿4﴾وَالَّذِیۡنَ ہُمْ لِفُرُوۡجِہِمْ حٰفِظُوۡنَ ۙ﴿5﴾اِلَّا عَلٰۤی اَزْوَاجِہِمْ اَوْ مَا مَلَکَتْ اَیۡمَانُہُمْ فَاِنَّہُمْ غَیۡرُ مَلُوۡمِیۡنَ ۚ﴿6﴾فَمَنِ ابْتَغٰی وَرَآءَ ذٰلِکَ فَاُولٰٓئِکَ ہُمُ الْعٰدُوۡنَ ۚ﴿7﴾وَالَّذِیۡنَ ہُمْ لِاَمٰنٰتِہِمْ وَ عَہۡدِہِمْ رَاعُوۡنَ ۙ﴿8﴾وَالَّذِیۡنَ ہُمْ عَلٰی صَلَوٰتِہِمْ یُحَافِظُوۡنَ ۘ﴿9﴾اُولٰٓئِکَ ہُمُ الْوَارِثُوۡنَ ﴿ۙ10﴾یعنی:بے شک مراد کو پہنچے ایمان والے جو اپنی نماز میں گڑ گڑاتے ہیں اوروہ جو کسی بے ہودہ بات کی طرف التفات نہیں کرتے اوروہ کہ زکوۃ دینے کا کام کرتے ہیں اور وہ جو اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کرتے ہیں مگر اپنی بیبیوں یاشرعی باندیوں پر جوان کے ہاتھ کی مِلک ہیں کہ ان پر کوئی ملامت نہیں تو جو ان دو کے سوا کچھ اورچاہے وہی حد سے بڑھنے والے ہیں اوروہ جو اپنی امانتوں اور اپنے عہد کی رعایت کرتے ہیں اوروہ جو اپنی نمازوں کی نگہ بانی کرتے ہیں یہی لوگ وارث ہیں۔(پ18،المؤمنون:1تا10)(2) اَلتَّآئِبُوۡنَ الْعٰبِدُوۡنَیعنی:تو بہ والے عبادت والے۔(پ11،التوبہ:112)(3) اِنَّمَا الْمُؤْمِنُوۡنَ الَّذِیۡنَ اِذَا ذُکِرَ اللہُ وَجِلَتْ قُلُوۡبُہُمْ وَ اِذَا تُلِیَتْ عَلَیۡہِمْ اٰیٰتُہٗ زَادَتْہُمْ اِیۡمَانًایعنی:ایمان والے وہی ہیں کہ جب اللہ یاد کیا جائے ان کے دل ڈرجائیں اورجب ان پر اس کی آیتیں پڑھی جائیں ان کا ایمان ترقی پائے ۔ (پ9،الانفال:2)(4) وَ عِبَادُ الرَّحْمٰنِ الَّذِیۡنَ یَمْشُوۡنَ عَلَی الْاَرْضِ ہَوْنًایعنی:اوررحمن کے وہ بندے کہ زمین پر آہستہ چلتے ہیں۔ (پ19 ،الفرقان:63)اخلاقی تربیت کا طریقہ:بعض لوگ ایسے ہوتے ہیں کہ انہیں اگر ابتدائی عمر میں مشفِق کی معمولی سی توجہ حاصل ہوجائے، تو وہ ان کے لیے کافی ہوتی ہے ۔ جس طرح حضرت سیِّدُنا سہل تستری علیہ رحمۃ اللہ الولی سے منقول ہے ،آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں:'' میری عمر تین سال تھی اور میں رات کو اٹھ کر اپنے ماموں حضرت سَیِّدُنامحمد بن محمدبن سوّار علیہ رحمۃ اللہ الوھاب کو خلوت میں نمازپڑھتے دیکھتا تھا۔ ایک دن میرے ماموں نے مجھ سے پوچھا: ''کیا تو اس پروردگارِ کائنات کویاد نہیں کرتا جس نے تجھے پیدا کیا ؟'' میں نے پوچھا:'' میں اسے کس طرح یاد کروں ؟'' انھوں نے فرمایا:''جب تم بستر پر لیٹنے لگو تو تین بار زبان کو حرکت دئیے بغیر محض دل میں یہ کلمات کہو: '' اَللہُ مَعِیَ،اَللہُ نَاظِرٌ اِلَیَّ،اَللہُ شَاھِدِیْ یعنی پروردگارِ کائنات میرے ساتھ ہے ، پروردگارِ کائنات مجھے دیکھ رہا ہے اورپروردگارِ کائنات میرا گواہ ہے ۔'' آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ ارشاد فرماتے ہیں:میں نے چند راتیں یہ کلمات پڑھے پھر انہیں بتایا تو انھوں نے فرمایا:''ہر رات سات مرتبہ پڑھو۔'' میں نے انہیں پڑھا پھر انہیں بتایا تو انھوں نے فرمایا:'' ہر رات گیارہ مرتبہ یہ کلمات پڑھو۔'' میں نے اسی طرح پڑھا، تو میرے دل میں اس کی لذّت پائی گئی، جب ایک سال گزرگیا تو میرے ماموں نے مجھ سے فرمایا:'' میں نے جو کچھ تمہیں سکھایا ہے اسے یاد رکھو اورقبر میں جانے تک ہمیشہ پڑھتے رہنا، تمہیں دنیا وآخرت میں نفع دے گا۔'' میں نے کئی سال تک ایسا کیا تو اپنے اندر اس کا مزہ پایا پھر ایک دن میرے ماموں نے فرمایا:'' اے سہل ! پروردگارِ کائنات جس شخص کے ساتھ ہو، اسے دیکھتا ہو اوراس کا گواہ ہو ،وہ اس کی نافرمانی کیسے کر سکتاہے ؟ گناہ سے بچو۔''میں تنہائی میں یہ ذکر کرتا رہا پھر انھوں نے مجھے مکتب میں بھیجا،تو میں نے عرض کی:'' مجھے ڈر ہے کہ کہیں میرے ذکر میں خلل نہ آجائے۔چنانچہ انھوں نے استاد صاحب سے یہ شرط مقرر کی ،کہ میں ان کے پاس جاکر صرف ایک گھنٹہ پڑھوں گا، پھر لوٹ آؤں گا، میں مکتب جاتارہا اورقرآن مجید حفظ کرلیا، اسوقت میری عمر چھ ،سات سال تھی، میں روزانہ روزہ رکھتا ، بارہ سال تک میں جَو کی روٹی کھاتا رہا، تیرہ سال کی عمر میں مجھے ایک مسئلہ پیش آیا ، میں نے گھروالوں سے کہا:''مجھے بصرہ بھیج دو تاکہ میں وہاں کے علماء سے اس کے بارے میں دریافت کروں لیکن ان میں کسی نے مجھے شافی جواب نہ دیا، پھر میں عبادان کی طرف نکلا۔میں نے وہاں پر حضرت سیِّدُنا ابو حبیب حمزہ بن عبداللہ عبادانی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نامی بزرگ سے مسئلہ پوچھا تو انھوں نے مجھے قابلِ اطمینان جواب دیا،میں ان کے پاس ٹھہر گیا، ان کے کلام سے نفع حاصل کرتااورآداب سیکھتا رہا، پھر میں تستر کی طرف آگیا، میں نے اپنی روزی کا انتظام یوں کیا کہ میرے لیے ایک درہم کے ایک فِرق (چارکلو) جَو خریدے جاتے ،انہیں پیس کر روٹی پکائی جاتی،میں ہر رات سحری کے وقت ایک اوقیہ روٹی کھاتا جو نمک اورسالن کے بغیر ہوتی، چنانچہ ایک درہم مجھے سال بھر کے لیے کافی ہوجاتا پھر میں نے ارادہ کیا، کہ تین دن مسلسل روزہ رکھوں گا، پھر افطار کروں گا پھر پانچ دن ، پھر سات دن اورپھر پچیس دن کا مسلسل روزہ رکھا اوربیس سال تک میرا یہی معمول رہا۔ پھر میں زمین میں سیروسیاحت کے لیے نکلا، پھر تستر واپس لوٹ آیا اورمیں ساری رات قیام کرتا تھا۔ پروردگارِ کائنات جو قوّی اورکریم ہے وہی اس کی توفیق عطافرمانے والا ہے۔ ''مریدین کے لیے نصیحت:جان لیں ! جو شخص آخرت کی کھیتی کا ارادہ کرتاہے، اس کی علامت یہ ہے کہ وہ دنیا کی کھیتی کو چھوڑ دیتاہے۔ لہٰذا جو شخص اپنے دل سے آخرت کا یقینی مشاہدہ کرلیتاہے اس کی علامت یہ ہے کہ وہ دنیا کو حقیر سمجھتا ہے اورجو شخص نفیس جوہر دیکھ لے اوراس کے ہاتھ میں منکا ہوتو اب اسے منکے کی رغبت نہیں رہتی جو ایسا نہیں کرتا ( یعنی آخرت کی کھیتی کا ارادہ نہیں رکھتا)تو اس کا مطلب ہے کہ وہ پروردگارِ کائنات اورآخرت پر ایمان نہیں رکھتا۔(پس معلوم ہوا )پروردگارِ کائنات تک رسائی کا نہ ہونا راہ سلوک پر گامزن نہ ہونے کی وجہ سے ہے ، اس راہ پر گامزن نہ ہونا ارادہ نہ ہونے کی وجہ سے ہے اورارادہ میں رکاوٹ ایمان کا نہ ہوناہے، اورظاہری طور پر عدمِ ایمان کا سبب سیدھا راستہ دکھانے والوں اور پروردگارِ کائنات کے راستے کی طرف رہنمائی کرنے والے علماء کا نہ پایا جانا ہے ۔چنانچہ جو شخص اپنے نفس سے یا اس کے غیر سے آگاہ ہوجائے تو اس کے لیے چند شرائط ہیں (مرید بننے سے پہلے)انکا پایا جانا ضروری ہے۔ پہلی شرط:پردے اوررکاوٹ کو اٹھادینا ہے اوریہ چار ہیں: (۱) مال (۲) جا ہ ومرتبہ(۳)تقلید اور (۴)گناہ۔جہاں تک مال کا تعلق ہے تو وہ ضرورت سے زائد تقسیم کردے، اورجاہ سے خلاصی اس طرح ممکن ہے کہ وہ وطن سے دور چلا جائے، یا تواضع وپوشیدگی کو اختیار کرے اور اس چیز کی طرف متوجہ ہوجو جاہ ومرتبہ کو ختم کردیتی ہے، اورتقلید کا حجاب اس طرحدور ہوتاہے کہ وہ مذاہب کے تعصُّب کو چھوڑ دے اور لَااِلٰہَ اِلاَّ اللہُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللہ کے معنی کی ایمان کے ساتھ تصدیق کرے ،اور ان اعمال پر عمل پیرا ہو جو اس کلمہ کی تصدیق کرتے اوراسے ثابت کرتے ہیں ،اوردنیا اوراس کی خواہشات اوران تمام چیزوں کو چھوڑ دے جن کی طرف نفس مائل ہوتاہے، تو اس وقت وہ اپنی پوری ہمت کے ساتھ حقیقت میں پروردگارِ کائنات کی طرف متوجہ ہوگا اور اس کے لیے درست اعتقادظاہر ہوجائے گا، جیسا کہ پروردگارِ کائنات کا فرمانِ عالیشان ہے:وَالَّذِیۡنَ جَاہَدُوۡا فِیۡنَا لَنَہۡدِیَنَّہُمْ سُبُلَنَا ؕیعنی:اورجنہوں نے ہماری راہ میں کوشش کی ضرور ہم انہیں اپنے راستے دکھا دیں گے۔ (پ21،العنکبوت:69)جہاں تک گناہوں کا تعلق ہے تووہ انہیں چھوڑدے ،اوران کی جگہ عبادات بجالائے، گذشتہ گناہوں پر شرمندہ ہو اور توبہ کرے اور لوگوں کے حقوق لوٹا دے۔ جب وہ ایسا کرے اوران چاروں امور سے فارغ ہوجائے تووہ اس شخص کی طرح ہوگیا جو وضو کرتا ہے، ناپاکی کو دور کرتاہے، شرمگاہ کو ڈھانپتا ہے اورنماز کے لیے تیار ہوجاتاہے۔ اس وقت اسے راہ ِآخرت سے واقف ایک شیخ کی ضرورت ہوتی ہے، کہ وہ اس کی رہنمائی کرے اوراس وقت وہ شیخ کے سامنے اس طرح ہوتاہے ،جس طرح غسل دینے والے کے ہاتھوں میں میت ہوتی ہے کہ وہ خودبخود حرکت نہیں کرتی بلکہ غسل دینے والا جس طرح چاہتا ہے، اسے حرکت دیتاہے۔ اس وقت اسے چاہے کہ وہ حضرت سیِّدُنا موسیٰ وحضرت سیِّدُنا خضر علیٰ نبیناوعلیہما الصلوٰۃو السلام کے واقعہ کو یاد کرے اوراپنے شیخ پر کسی حالت کے بارے میں اعتراض نہ کرے۔ اس وقت اسے چار چیزوں کا حکم دیا جائے گا: (۱)خلوت (۲)خاموشی (۳) بھوک (۴) بیداری ۔جہاں تک بھوک کا تعلق ہے تو اس سے مراد دل کا خون کم ہوناہے ،اس میں دل کی سفیدی ونور ہے،بھوک سے دل کی چربی پگھل جاتی ہے ،یہ دل کی نرمی کا سبب ہے ،یہ نرمی مکاشفہ کی چابی ہے، جس طرح سختی جو نرمی کی ضد ہے، حجاب کا باعث ہوتی ہے اورآپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم نے اُمُّ المؤمنین حضرت سَیِّدَتُناعائشہ رضی ا للہ تعالیٰ عنہا کو ارشادفرمایا:''بھوک سے شیطان کی گزرگاہوں کو تنگ کرو۔'' اس فرمان میں اسی طرف اشارہ ہے اورحضرت سیِّدُنا عیسیٰ علٰی نبیناوعلیہ الصلٰوۃو السلام نے اپنے رفقاء سے ارشاد فرمایا: ''اپنے پیٹوں کو بھوکا رکھو تاکہ تم دل (کی آنکھوں) سے اپنے رب کا دیدار کرو۔''حضرت سیِّدُنا سہل رضی اللہ تعالیٰ عنہ ارشاد فرماتے ہیں:''چارخصلتوں کے بغیر ابدال کا مرتبہ حاصل نہیں ہوتا:(۱)پیٹ کو بھوکا رکھنا (۲)بیداری(۳)خاموشی (۴)لوگوں سے دور رہنا۔''جہاں تک بیداری کا تعلق ہے تویہ دل کو روشن ومنوّر کرتی ہے ،اوربھوک بیداررہنے میں مدددیتی ہے اوریہ دونوں چیزیں دل کو منوّر کرنے میں مددگار ثابت ہوتی ہيں ۔ نیند دل کو سخت اور مردہ کردیتی ہے مگر یہ کہ بقدرِ ضرورت ہو(تودل کے لیے نقصان دِہ نہیں) ابدال کی یہ صفات بیان کی گئی ہیں، کہ ان کی نیند غلبہ کے وقت ، کھانا فاقے کے وقت اورکلام ضرورت کے وقت ہوتاہے۔حضرت سیِّدُنا ابراہیم خوّاص رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ ارشادفرماتے ہیں: ''ستر صدّیقین اس بات پر متفق ہیں،کہ نیند کی کثرت کا سبب زیادہ پانی پینا ہے۔''خاموشی گوشہ نشینی اورخلوت کی صورت میں آسان ہوتی ہے اورکلام کازیادہ حریص وہ شخص ہوتا ہے جو صاحبِ علم ہو، کیونکہ اس سے رکنا بہت مشکل ہوتاہے لیکن اس کا فائدہ ونفع بھی بہت زیادہ ہے، کیونکہ اسی کے ذریعے باطن غیب کی طرف متوجہ ہوتاہے اوراس دنیاوی زندگی سے اعراض کرتاہے ۔جبکہ خلوت کا فائدہ یہ ہے کہ انسان غفلت سے بچ جاتاہے، تاکہ مقصد کے لیے فارغ ہوسکے اور اس مقصد کے لیے حواس کا سکون ضروری ہے، کہ اس سے انسان کا دل حرکت کے قابل ہوجاتاہے اوراس کے لیے خلوت ضروری ہے، پھر بہتر یہ ہے کہ وہ ایسے کمرے میں خلوت اختیار کرے، جس میں اندھیرا ہو، تاکہ اس کی نظر کسی ایسی چیز پر نہ پڑے جو اسے غافل کردے، لیکن اگر تاریک کمرہ میسر نہ ہوتو وہ اپنے سر کو کسی چیز سے لپیٹ لے یا آنکھیں بند کرلے ،اور حواس کے سکون کی صورت وہ ندائے حق سنے گا،نیز اللہ ربّ العزّت کے جمال کا مشاہدہ کریگا ،کیا تم نہیں دیکھتے !کہ نبئ اَکرم صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کو جب ندا دی گئی تو ارشاد فرمایاگیا :(1) یٰۤاَیُّہَا الْمُزَّمِّلُ ۙ﴿1﴾یعنی: اے جھرمٹ مارنے والے۔(پ29،المزمل:1)(2) یٰۤاَیُّہَا الْمُدَّثِّرُ ۙ﴿1﴾یعنی: اے بالاپوش اوڑھنے والے۔(پ29،المدثر:1)جب بندہ بھوک ، خلوت ، بیداری اورخاموشی اختیار کرے تو اسے چاہے کہ وہ پروردگارِ کائنات کا ذکر کرے ،اس کا طریقہ یہ ہے کہ گھر کے ایک کونے میں باوضو، قبلہ رو ہو کربیٹھ جائے اوراپنی زبان سے اللہ، اللہ کا ورد کرے ،اورمسلسل ذکر کرتا رہے ، اپنے دل اور تمام حواس کو زبان سے ادا ہونے والے کلمات کو سننے کے لیے حاضر رکھے اور مسلسل اس ذکر میں مصروف رہے، یہاں تک کہ زبان کی حرکت ختم ہوجائے گویایہ کلماتِ طیبات خود بخود زبان پر جاری ہيں، پھر وہ زبان سے دل کی طرف لوٹے ، جب دِل ذکر سے رک جائے تو زبان سے ذِکر جاری رہے۔ جب دِل ذکر میں راسخ ہوجائے تو زبان سے خاموش ہوجائے اوراسی طرح کرتا رہے ،یہاں تک کہ دِل سے حروف مٹ جائیں اورحروف کے بغیر صاف و شفاف ذکر باقی رہے، پھر ذکر سےآگے بڑھ کر ہمیشگی کی حالت اختیار کرے اورجب اس پر کچھ چیزوں کا ظہور ہو جائے تو سابقہ حالت کی طرف لوٹ آئے، اوراپنے شیخ سے اس کاذکر کرے، کیونکہ وہ ان اسرار ورموز کو جانتا ہے جومرید پر صفائی و کدورت کے معاملے میں طاری ہوتے ہیں،اورمرید پرجو خیالات، وساوس اورصحیح احوال پائے جاتے ہیں ان کا خود بخود جاننا ممکن نہیں۔ لہٰذا وہ اپنے شیخ کو بتا دے کیونکہ وہ اسے زیادہ جانتاہے اورجب تک وہ سمجھتا ہے کہ اس کا نفس ابھی تک زِیر نہیں ہواتو تمام احوال میں اس کے لیے ذکر کرناضروری ہے۔پروردگارِ کائنات ارشاد فرماتاہے:قُلِ اللہُ ۙ ثُمَّ ذَرْہُمْیعنی: اللہ کہو ، پھر انہیں چھوڑ دو۔ (پ7،الانعام:91)چنانچہ اس پر جب کوئی وسوسہ یا بُر اخیال غالب ہو،اور اس کے غائب ہونے تک وہ اسے جان نہیں پاتا تو اس میں کوئی حرج نہیں، لہٰذا جب اس کے دل سے وسوسہ نکل جائے اوروہ حقیقت سے آگاہ ہو جائے تو پروردگارِ کائنات کا ذکر کرنا شروع کردے۔پروردگارِ کائنات نے ارشاد فرمایا:(1) اِنَّ الَّذِیۡنَ اتَّقَوۡا اِذَا مَسَّہُمْ طٰٓئِفٌ مِّنَ الشَّیۡطٰنِ تَذَکَّرُوۡا فَاِذَا ہُمۡ مُّبْصِرُوۡنَ ﴿201﴾یعنی: بے شک وہ جو ڈر والے ہیں جب انہیں کسی شیطانی خیال کی ٹھیس لگتی ہے ہوشیار ہوجاتے ہیں ۔ اسی وقت ان کی آنکھیں کھل جاتی ہیں ۔(پ9،الاعراف:201)(2) وَ اِمَّا یَنۡزَغَنَّکَ مِنَ الشَّیۡطٰنِ نَزْغٌ فَاسْتَعِذْ بِاللہِ ؕ اِنَّہٗ سَمِیۡعٌ عَلِیۡمٌ ﴿200﴾یعنی: اوراے سننے والے! اگر شیطان تجھے کوئی کو نچا دے (کسی برے کام پر اکسائے )تو اللہ کی پناہ مانگ بے شک وہی سنتا جانتاہے ۔(پ9،الاعراف: 200)اور اپنی ساری زندگی پابندی سے ذکرکرتا رہے،ہوسکتا ہے کہ عنقریب وہ ملوکِ دین( یعنی دین کے بادشاہوں )میں سے ہو جائے جن پر حقائق ظاہر ہوجاتے ہیں ،اوروہ ان چیزوں کو دیکھتے ہیں جنہیں نہ کسی آنکھ نے دیکھا،نہ کسی کان نے سنا اور نہ ہی کسی دل پر ان کاگمان گزرا۔ اگر اس پر کوئی شئے ظاہر نہ ہو تو وہ ذکر پر ہمیشگی اختیار کرے ،کہ حضرت مَلَکُ الموت علیہ السلام کی آمد کے وقت اس پر وہ اشیا ظاہر ہو جائیں اوراگر پروردگارِ کائنات نے چاہا تو وہ مقصود تک پہنچ جائے گا۔اس بات کو سمجھ لو تمہیں فائدہ ہوگا۔اخیر میں بارگاہ قاضی الحاجات میں دعا گو ہوں کہ موالے پاک اپنے محبوب پاک، صاحب لولاک، سیاح افلاک صلی اللہ علیہ وسلم کے صدقے و طفیل حضرت مخدوم پاک کے مرقد منور پہ رحمت و انوار کی بارشیں برسائے۔ ان کے درجات بلند فرمائے اور ہمیں ان کی یاد منانے اور ان کے نام نذر و نیاز کرنے کے ساتھ ساتھ ان کی تعلیمات پر عمل پیرا ہونے کی بھی توفیق خیر مرحمت فرمائے۔آمین۔ یا رب العالمین۔ بجاہ النبی الامین۔صلی اللہ علیہ وآلہ وصحبہ ومن تبعھم اجمعین۔

سلطان المخدومین حضرت سیدنا کمال الدین یحییٰ منیری علیہ الرحمہ اور حفاظتِ زباناز قلم: ناچیز ناصرؔ منیری کان اللہ لہڈائریکٹر :ریسرچ سینٹر، خانقاہ منیر شریفرابطہ نمبر: 9905763238سلطان المخدومین حضرت سیدنا کمال الدین یحییٰ منیری علیہ الرحمہ والرضوان اپنے وقت کے عظیم المرتبت، رفیع الشان اور عدیم النظیر صوفی بزرگ گذرے ہیں۔ آپ کا شمار اپنے وقت کے کبار صوفیہ میں ہوتا ہے۔ آپ مذہب مہذب اسلام کے مخلص داعی اور تصوف و روحانیت کے سچے مبلغ تھے۔ آپ نے اپنی پوری زندگی خلقِ خدا کی خدمت، متلاشیانِ راہِ حق کی رہ نمائی و ہدایت اور تعلیماتِ تصوف کی ترویج و اشاعت میں گذاری۔ ذیل میں صوفی ازم کی تعلیمات میں سے حفاظتِ زبان پر روشنی ڈالی جا رہی ہے۔زبان کاخطرہ بہت بڑاہے اوراس کے خطرے سے نجات صرف خاموشی میں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ تاج دارِ کائنات ﷺنے خاموشی کی تعریف کی اورخاموش رہنے کی ترغیب دی ۔ جیسا کہ تاج دارِ کائنات ﷺ کافرمانِ عالی شان ہے: ''مَنْ صَمَتَ نَجَا یعنی:جوخاموش رہااس نے نجات پائی۔'' (جامع الترمذی، ابواب صفۃ القیامۃ، باب حدیث من کان یؤمن اﷲ فلیکرم ضیفہ، الحدیث۲۵۰۱،ص۱۹۰۳)تاج دارِ کائنات ﷺ مزید فرماتے ہیں:''اَلصَّمَتُ حِکَمٌ وَقَلِیْلٌ فَاعِلُہٗ یعنی: خاموشی حکمت ہے اوراِسے اختیارکرنے والے کم ہیں۔'' (شعب الایمان للبیھقی، باب فی حفظ اللسان، فصل فی فضل السکوت عما لا یعنیہ، الحدیث۵۰۲۶،ج۴،ص۲۶۴)ایک اور مقام پر تاج دارِ کائنات ﷺ فرماتے ہیں:مَنْ یَّتَکَفَّلُ لِیْ مَابَیْنَ لِحْیَیْہِ وَرِجْلَیْہِ اَتَکَفَّلُ لَہُ بِالْجَنَّۃِیعنی:جوشخص مجھے دوجبڑوں کے درمیان والی چیز( یعنی زبان) اور دو ٹانگوں کے درمیان والی چیز( یعنی شرم گاہ)کی ضمانت دے میں اسے جنت کی ضمانت دیتا ہوں۔(صحیح البخاری، کتاب الرقاق، باب حفظ اللِّسان، الحدیث۶۴۷۴،ص۵۴۳،مفہومًا)ایک روایت میں ہے کہ حضرت سیِّدُنا معاذبن جبل رضی اللہ عنہ نے عرض کی: '' یارسول اللہ ﷺ!مجھے وصیت فرمائیں۔'' آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا:'پروردگارِ کائنات کی اس طرح عبادت کرگویا تواسے دیکھ رہا ہے، اپنے آپ کومرنے والوں میں شمارکر،اوراگرتو چاہے تومیں تجھے بتاؤں ،کہ تیرے لیے کون سی چیز بہتر ہے، پھرآپ ﷺ نے اپنی زبان مبارک کی طرف اشارہ فرمایا۔'' (موسوعۃ لابن ابی الدنیا، کتاب الصَّمْت وآداب اللِّسان، باب حفظ اللسان وفضل الصَمت، الحدیث۲۲، ج۷، ص۲ ۴۔۴۳) حضرت سیِّدُنا معاذبن جبل رضی اللہ عنہ سے مروی ہے آپ فرماتے ہیں کہ میں نے عرض کی: ''یارسول اللہ ﷺ!کیاہماری گفتگوپربھی مؤاخذہ ہوگا؟ '' آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا: ''اے ابنِ جبل!تیری ماں تجھ پر روئے، لوگوں کوان کے نتھنوں کے بل جہنم میں گرانے والی زبان کی کاٹی ہوئی کھیتی (یعنی گفتگو)کے سوا اور کیا ہے۔ (جامع الترمذی، ابواب الایمان، باب ماجاء فی حرمۃ الصلاۃ، الحدیث۲۶۱۶،ص۱۹۱۵) امیرالمؤمنین حضرت سَیِّدُناابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ اپنے منہ میں چھوٹے چھوٹے پتھررکھتے تھے، جن کے ذریعے گفتگو سے پرہیزکرتے ،نیزآپ رضی اللہ عنہ اپنی زبان کی طرف اشارہ کرکے فرماتے:''اس نے مجھے ہلاکت کی جگہوں میں پہنچایا۔'' حضرت سیِّدُنا عبداللہ ابن مسعودرضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: ''اُس پروردگارِ کائنات کی قسم جس کے سواکوئی معبودنہیں!کوئی چیز زبان سے زیادہ قیدکی محتاج نہیں۔''(1) بے مقصد کلام کرنا: جان لو!جب تم بے مقصدگفتگوکروگے، یعنی ایسی گفتگوجس کی تمھیں حاجت نہیں،تواپناوقت ضائع کروگے اوراس کے ذریعے اپنے آپ کوحساب وکتاب کے لیے پیش کروگے، تواس طرح تم اچھی چیزدے کراس کے بدلے بری چیزلینے والے بن جاؤ گے ،کیوں کہ اگرتم اس کی بجاے پروردگارِ کائنات کاذکرکرتے یاخاموش رہتے یاغورو فکر میں مشغو ل رہتے تواس کے نتیجے میں بلند درجات پالیتے۔تاج دارِ کائنات ﷺ کافرمان ہے:مِنْ حُسْنِ اِسْلاَمِ الْمَرْءِ تَرْکُہ، مَالَایَعْنِیْہِ۔یعنی:انسان کے اسلام کی اچھائی، فضول باتوں کو ترک کر دینا ہے۔(جامع الترمذی، ابواب الزھد، باب حدیث: من حسن اِسلام المرء ترکہ مالایعنیہ، الحدیث۲۳۱۷،ص۱۸۸۵) حضرت سَیِّدُناانس رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ اُحد کے دن ہماراایک غلام شہیدہوگیا،ہم نے اسے بھوک کی وجہ سے پیٹ پرپتھرباندھے ہوئے پایا،اس کی ماں نے اس کے چہرے سے گردوغبارصاف کرتے ہوئے کہا: اے بیٹے !تمھیں جنت مبارک ہو۔تو تاج دارِ کائنات ﷺ نے ارشاد فرمایا:''تمھیں کیسے معلوم ہوا ؟(کہ یہ جنتی ہے)ہوسکتاہے یہ فضول کلام کرتا ہو اور ایسی گفتگوسے منع کرتاہوجو اسے نقصان نہ پہنچاتی تھی۔'' (موسوعۃ لابن ابی الدنیا، کتاب الصَّمْت وآداب اللِّسان، باب النھی عن الکلام فیما لایعنیک، الحدیث۱۰۹، ج ۷ ، ص ۸۵) بے مقصد کلام یہ ہے کہ مجلس میں ایسے سچے واقعات بیان کیا جائے جو دورانِ سفر پہاڑوں اور جنگلوں میں پیش آئیں۔(2) فضول گوئی کرنا: دوسری آفت یہ ہے کہ توایسی بات کا تکرار کرے جس کے تکرار کرنے کاکوئی فائدہ نہ ہواور اس میں زیادہ الفاظ استعمال کرے جن کی ضرورت نہ ہو۔حضرت سَیِّدُناعطابن ابی رباح رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ ارشاد فرماتے ہیں: تم سے پہلے لوگ فضول کلام کوناپسندکرتے تھے۔ مثال کے طور پر یہ بات بھی فضول ہے کہ تم کہو،''اے پروردگارِ کائنات !اس کُتّے کودورفرما۔'' حضرت سیِّدُنا مطرَّف رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ ارشاد فرماتے ہیں کہ:'' پروردگارِ کائنات کی عظمت کالحاظ رکھا کرواور کُتّے یاگدھے کانام لیتے وقت بھی پروردگارِ کائنات کاذکرنہ کرومثلاً یہ نہ کہو:اے پروردگارِ کائنات !انہیں دورکردے وغیرہ وغیرہ۔'' فضول گوئی کی کوئی حدنہیں۔ تاج دارِ کائنات ﷺ کافرمانِ عالی شان ہے:طُوْبٰی لِمَنْ اَمْسَکَ الْفَضْلَ مِنْ لِّسَانِہٖ وَ اَنْفَقَ الْفَضْلَ مِنْ مَّالِہٖیعنی:اس شخص کو مبارک ہو جواپنی زبان کو فضول گوئی سے روک لے اوراپنے زائد مال کوخرچ کردے۔(شعب الایمان للبیھقی، باب فی الزکاۃ، فصل فی کراھیۃ ۔۔۔۔۔۔الخ، الحدیث۳۳۸۸،ج۳،ص۲۲۵، لسانہ:بدلہ: قولہ) حضرت سیِّدُنا بلال بن حارث رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں، تاج دارِ کائنات ﷺ نے ارشاد فرمایا:''کوئی شخص پروردگارِ کائنات کی رضاوالا ایساکلمہ کہتاہے جس کے بارے میں اس کاخیال نہیں ہوتاکہ وہ کس بلندی تک پہنچے گا مگراس کی وجہ سے پروردگارِ کائنات قیامت تک اس کے لیے اپنی رضالکھ دیتاہے اورکوئی آدمی پروردگارِ کائنات کی ناراضی والا ایک کلمہ کہتاہے ،حالاں کہ وہ شخص اسے معمولی سمجھتاہے لیکن پروردگارِ کائنات اس کے سبب قیامت تک اس کے لیے ناراضی لکھ دیتا ہے۔'' (موسوعۃ لابن ابی الدنیا، کتاب الصَّمْت وآداب اللِّسان، باب النھی عن فضول الکلام والخوض فی الباطل، الحدیث۷۰،ج۷،ص۶۷۔۶۸) حضرت سیِّدُنا علقمہ رضی اللہ عنہ ارشاد فرماتے تھے: حضرت سیِّدُنا بلال بن حارث رضی اللہ عنہ کی اس روایت نے مجھے اکثرباتوں سے روکاہے کہ تاج دارِ کائنات ﷺ نے ارشاد فرمایا: ''ایک شخص ایسی بات کہتاہے جس کے ذریعے اپنے پاس بیٹھنے والوں کوہنساتا ہے ،مگر وہ اس کے باعث ثریا(ستارے)سے بھی زیادہ دور جا گرتا ہے ۔'' (الموسوعۃ لابن ابی الدنیا، کتاب الصَّمْت وآداب اللِّسان، باب النھی عن فضول الکلام، الحدیث ۷۱، ج۷، ص۶۸۔۶۹)(3)گناہوں کے بارے میں کرنا: گناہوں کے متعلق گفتگوکرنا ، عورتوں کے حالات، شراب کی مجالس اوربدکاروں کے مقامات کا ذکر کرنا بھی گناہ ہے۔اسی جانب پروردگارِ کائنات کے اس فرمان میں اشارہ ہے:وَ کُنَّا نَخُوۡضُ مَعَ الْخَآئِضِیۡنَ ۙ﴿45﴾یعنی: بیہودہ فکروالوں کے ساتھ بیہودہ فکر یں کرتے تھے۔ (پ29،المدثر:45)(4)بحث و مباحثہ کرنااورجھگڑنا: گذشتہ بیان کی گئی ممنوع چیزوں کے بارے میں جھگڑنا یا ان تک پہنچنے کی ترکیبیں بنانا بھی منع ہے۔تاج دارِ کائنات ﷺ کافرمان ہے:لَا تُمَارِ اَخَاکَ وَلَا تُمَازِحْہ، وَلَا تَعِدْہُ مَوْعِدًا فَتُخْلِفَہ،۔یعنی:اپنے بھائی سے جھگڑا نہ کرو،نہ اس سے مذاق کرو اور اس سے وعدہ کرو تو اس کی خلاف ورزی نہ کرو۔(جامع الترمذی، ابواب البروالصلۃ، باب ماجاء فی المراء، الحدیث۱۹۹۵، ص۱۸۵۲) تاج دارِ کائنات ﷺ مزید فرماتے ہیں:''جوشخص حق پرہونے کے باوجودجھگڑا چھوڑدے، اس کے لیے جنت کے اعلیٰ درجے میں گھربنایاجاتاہے، اورجو باطل ہونے کی وجہ سے جھگڑا چھوڑدے اس کے لیے جنت کے گردونواح میں گھربنایاجاتاہے۔ (جامع الترمذی، ابواب البروالصلۃ، باب ماجاء فی المراء، الحدیث۱۹۹۳،ص۱۸۵۱، اعلٰی بدلہ وسط)(5) لڑائی جھگڑا کرنا: یعنی انسان کا دوسرے کاحق یامال حاصل کرنے کے لیے جھگڑنا اور یہ بھی قابلِ مذمت ہے۔اُمُّ المؤمنین حضرت سیِّدَتُنا عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہاسے مروی ہےکہ تاج دارِ کائنات ﷺ نے ارشاد فرمایا:اَبْغَضُ الرِّجَالِ اِلَی اللہِ اَلْاَلَدُّ الْخَصَمُیعنی:پروردگارِ کائنات کے ہاں سب سے ناپسندیدہ شخص وہ ہے جو بہت زیادہ جھگڑا لو ہو۔(صحیح البخاری، کتاب المظالم، باب قول اﷲ تعالی:وَہُوَ أَلَدُّ الْخِصَامِ، الحدیث۲۴۵۷، ص ۱۹۳) حضرت سیِّدُنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، تاج دارِ کائنات ﷺ نے ارشاد فرمایا:مَنْ جَادَلَ فِی خُصُوْمَۃٍ بِغَیْرِ عِلْمٍ لَمْ یَزَلْ فِیْ سُخْطِ اللہِ حَتّٰی یَنْزِعَ۔یعنی:جوشخص بے جاجھگڑتاہے، وہ ہمیشہ پروردگارِ کائنات کی ناراضی میں ہوتاہے ،یہاں تک کہ اسے چھوڑدے۔(موسوعۃ لابن ابی الدنیا، کتاب الصَّمْت وآداب اللِّسان، باب ذم الخصومات، الحدیث۱۵۳،ج۷،ص۱۱۱)(6)تکلّف اوربناوٹ سے بات چیت کرنا: تکلّف کے ساتھ بناوٹی کلام کرنا یہ بھی غلط ہے۔تاج دارِ کائنات ﷺ نے ارشاد فرمایا:اَنَاوَاَتْقِیَاءُ اُمَّتِیْ بَرَاءٌ مِّنَ التَّکَلُّفِ۔یعنی:میں اورمیری امت کے پرہیزگارلوگ تکلف سے بری ہیں ۔ حضرت سیِّدَتُنا فاطمہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں ،تاج دارِ کائنات ﷺ نے ارشاد فرمایا: ''میری امت کے بُرے لوگ وہ ہیں جوطرح طرح کی نعمتوں سے پروان چڑھتے ہیں،مختلف قسم کے کھانے کھاتے ہیں، طرح طرح کے لباس پہنتے ہیں اور(تکلف کے ساتھ) گفتگو کرتے ہیں۔(الکامل فی ضعفاء الرجال لابن عدی، الرقم۱۴۶۶۔عبدالحمید بن جعفر بن الحکم الانصاری،ج۷،ص۴)(7)گالی گلوچ اور بد گوئی کرنا: یہ بھی قابلِ مذمّت ہے۔جیسا کہ تاج دارِ کائنات ﷺ نے ارشاد فرمایا:اِیَّاکُمْ وَالْفُحْشَ فَاِنَّ اللہَ لَا یُحِبُّ الْفُحْشَ وَلَاالتَّفَحُّشَ۔یعنی:فحش کلامی سے بچو،بے شک پروردگارِ کائنات فحش کلامی اور بتکلف فحش کلام کرنے کوپسندنہیں فرماتا۔(الاحسان بترتیب صحیح ابن حبان، کتاب الغصب، الحدیث۵۱۵۴،ج۷،ص۳۰۷) آپ ﷺ نے غزوۂ بدرمیں قتل ہونے والے مشرکین کوگالی دینے سے منع فرمایااور ارشاد فرمایا : ''اَلْبَذَاءُ وَالْبَیَانُ شُعْبَتَانِ مِنَ النِّفَاقِ یعنی: فحش گوئی اور کثرتِ کلام نفاق کے دو شعبے ہیں۔'' (جامع الترمذی، ابواب البروالصلۃ، باب ماجاء فی العَیِّ، الحدیث۲۰۲۷،ص۱۸۵۴)(8)لعنت کر نا: لعنت خواہ حیوانات وجمادات پرکی جائے یاانسان پر( مذموم ہے)،تاج دارِ کائنات ﷺ کافرمانِ نصیحت نشان ہے : ''اَلْمُوْمِنُ لَیْسَ بِلَعَّانٍ یعنی:مؤمن لعنت کرنے والانہیں ہوتا۔'' (جامع الترمذی، ابواب البروالصلۃ، باب ماجاء فی اللعنۃ، الحدیث۱۹۷۷،ص۱۸۵۰) حضرت سیِّدُنا حذیفہ رضی اللہ عنہ ارشاد فرماتے ہیں:'' جوقوم کسی پرلعنت بھیجتی ہے تو اس پرپروردگارِ کائنات کاعذاب ثابت ہو جاتا ہے۔'' اُمُّ المؤمنین حضرت سیِّدَتُناعائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہاارشاد فرماتی ہیں، تاج دارِ کائنات ﷺ نے حضرت سیِّدُنا ابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ کو اپنے ایک غلام کولعن طعن کرتے سنا ، تواُن کی طرف متوجہ ہو کردویاتین مرتبہ ارشاد فرمایا: ''اے ابوبکر!کیا صدیق بھی ہو اورلعن طعن بھی کرے ،ربِّ کعبہ کی قسم! ایسانہیں ہوسکتا۔''حضرت سیِّدُنا ابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ نے اسی دن اپناغلام آزاد کر دیا اور تاج دارِ کائنات ﷺ کی بارگاہ میں حاضرہوئے اورعرض کی: '' میں دوبارہ یہ کلمات نہیں کہوں گا۔'' (الادب المفرد للبخاری، باب من لعن عبدہ فأعتقہ، الحدیث۳۲۲، ص۱۰۰۔۱۰۱)(9)گانے گانا اورشعرکہنا: گانے کے بارے میں سماع کے باب میں ذکرگزرچکا ہے،اورجہاں تک شعرکاتعلق ہے توکلام اچھاہوتواچھاہے اور برا ہو تو برا۔ لیکن شعر کہنے کو پیشہ بنا لینا مذموم ہے۔ جیسا کہ تاج دارِ کائنات ﷺ ارشاد فرماتے ہیں:لَأَنْ یَّمْتَلِیَ بَطْنُ اَحَدِکُمْ قَیْحاً خَیْرٌ لَّہ، مِنْ أَنْ یَّمْتَلِیَ شِعْرًا۔یعنی:تم میں سے کسی کے پیٹ کا پیپ سے بھرجانا اشعار سے بھر جانے سے بہتر ہے۔(صحیح البخاری، کتاب الادب، باب مایکرہ أن یکون الغالب علی الانسان الشِعْر۔۔۔۔۔۔الخ، الحدیث۶۱۵۴،ص ۵۱۹) (غلط)اشعار پر مداومت اختیارکرنااوران کے لیے سفرکرناممنوع ہے مگر صحیح اشعار کے جوازپربہت سی احادیث وارد ہیں۔(10) ہنسی مذاق کرنا : مزاح کی اصل یہ ہے کہ اس سے روکاگیاہے اوریہ مذموم ہے البتہ تھوڑاساہوتوجائزہے،تاج دارِ کائنات ﷺ کافرمانِ عالی شان ہے : '' لَا تُمَارِ اَخَاکَ وَلاَ تُمَازِحْہ، یعنی:نہ اپنے بھائی کی بات کاٹو اور نہ اس کا مذاق اڑاؤ۔'' (جامع الترمذی، ابواب البروالصلۃ، باب ماجاء فی المراء، الحدیث۱۹۹۵، ص۱۸۵۲) جان لو!اس میں حد سے بڑھنا منع ہے کہ کثرتِ مذاق سے زیادہ ہنسی پیدا ہوتی ہے اور نتیجۃً دِل مُردہ ہو جاتا ہے۔ تاج دارِ کائنات ﷺ کافرمان ہے: ''اِنِّیْ لَأمْزَحُ وَلَااَقُوْلُ اِلَّاحَقًّا یعنی:میں مزاح کرتاہوں ،لیکن حق بات کے سواکچھ نہیں کہتا۔'' (أخلاق النبی لابی الشیخ الاصبہانی ،باب ما روی فی کظمہ الغیظ وحلمہ ،الحدیث۱۷۴،ج۱،ص۱۸۶) تاج دارِ کائنات ﷺ نے حضرت سیِّدُنا صہیب رضی اللہ عنہ سے ارشاد فرمایا:''تم کھجوریں کھارہے ہو،جب کہ تمھاری آنکھوں میں دردہے توحضرت سیِّدُنا صہیب رضی اللہ عنہ نے عرض کی: '' میں دوسری طرف سے کھارہا ہوں۔'' یہ سُن کر آپ ﷺ مسکرادیے۔''(سنن ابن ماجۃ، ابواب الطب، باب الحمیۃ، الحدیث۳۴۴۳، ص۲۶۸۴)(11)مذاق اُڑانااورتَمَسْخُر کرنا: یہ بھی حرام ہے، پروردگارِ کائنات نے ارشادفرمایا:لَا یَسْخَرْ قَوۡمٌ مِّنۡ قَوْمٍیعنی:نہ مرد مردوں سے ہنسیں۔(پ26،الحُجُرٰت:11) اس کامعنٰی دوسرے کی توہین کرنا،اسے حقیرجاننااوراس کے عیبوں سے آگاہ کرنا ہے اور بعض اوقات یہ چیز اس کے قول وفعل کی نقل اتارنے کے ذریعے پائی جاتی ہے۔تاج دارِ کائنات ﷺ نے ارشاد فرمایا:''لوگوں کامذاق اڑانے والے کے لیے جنت کادروازہ کھولاجائے گااورکہاجائے گا آؤ! آؤ! وہ غم اور تکلیف کی حالت میں آئے گا جب وہ آئے گا تواس پردروازہ بندکردیاجائے گا۔ پھردوسرادروازہ کھولاجائے گا اور کہا جائے گاآؤ!آؤ!وہ غم والم میں آئے گا جب وہ آئے گاتواس پروہ دروازہ بندکردیاجائے گا،اسی طرح مسلسل ہوتارہے گا،یہاں تک کہ اس کے لیے دروازہ کھولاجائے گااورکہاجائے گاآؤ!آؤ!تووہ نہیں آئے گا۔''(موسوعۃ لابن ابی الدنیا، کتاب الصَّمْت وآداب اللِّسان، باب ما نُھی عنہ العباد ان یسخر بعضھم من بعض، الحدیث ۲۸۷،ج۷،ص۱۸۴) حضرت سَیِّدُنامعاذبن جبل رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، تاج دارِ کائنات ﷺ نے ارشاد فرمایا:مَنْ عَیَّرَاَخَاہُ بِذَنْبٍ قَدْ تَابَ مِنْہُ لَمْ یَمُتْ حَتّٰی یَعْمَلَہٗ۔یعنی:جوآدمی اپنے( مسلمان)بھائی کواس کے کسی گناہ پر عار دِلاتا ہے جس سے وہ توبہ کرچکاہو، توعار دِلانے والامرنے سے پہلے اس عمل میں مبتلاہوگا۔(جامع الترمذی، ابواب صفۃ القیامۃ، باب فی وعید من عیرأخاہ بذنب، الحدیث۲۵۰۵،ص۱۹۰۳)(12) رازکوظاہرکرنا: کسی کے رازکوظاہرکرنے سے منع کیاگیاہے، کیوں کہ اس کے ذریعے تکلیف پہنچائی جاتی ہے اوردودسروں کے حق کو معمولی سمجھاجاتاہے،تاج دار، کائنات ﷺ کافرمانِ نصیحت نشان ہے: ''اَلْحَدِیْثُ بَیْنَکُمْ اَمَانَۃٌ یعنی:گفتگوتمہارے درمیان امانت ہے۔'' (موسوعۃ لابن ابی الدنیا، کتاب الصَّمْت وآداب اللِّسان، باب حفظ السِر، الحدیث۴۰۶،ج۷،ص۲۴۴)(13)جھوٹاوعدہ کرنا: جھوٹاوعدہ کرنے سے بھی منع کیاگیاہے اوریہ نفاق کی علامات میں سے ہے،پروردگارِ کائنات کافرمانِ عالی شان ہے:یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡۤا اَوْفُوۡا بِالْعُقُوۡدِ ۬ؕیعنی:اے ایمان والو!اپنے قول پورے کرو۔ (پ6 ،المائدہ: 1) تاج دارِ کائنات ﷺ کافرمان ہے:''اَلْعِدَۃُ عَطِیَّۃٌ یعنی:وعدہ پورا کرنا عطیہ ہے۔'' (المعجم الاوسط، الحدیث۱۷۵۲،ج۱،ص۴۷۵)(14)جھوٹ بولنا اورجھوٹی قسم کھانا: یہ نہایت قبیح گناہوں میں سے ہے ،مروی ہے کہ امیر المؤمنین حضرت سیِّدُنا ابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ نے تاج دارِ کائنات ﷺ کے وصالِ ظاہری کے بعدخطبہ دیتے ہوئے ارشاد فرمایا: ''تاج دارِ کائنات ﷺ اس مقام پرتشریف فرما ہوئے، جہاں آج میں کھڑاہوں ،پھرآپ رضی اللہ عنہ روپڑے اور فرمایا:تاج دارِ کائنات ﷺ نے ارشاد فرمایا: ''اِیَّاکُمْ وَالْکِذْبَ،فَإنَّہ، مَعَ الْفَجُوْرِوَھُمَا فِی النَّار یعنی :جھوٹ سے بچوکیوں کہ جھوٹ بولنے والابدکارکے ساتھ ہوتا ہے اوروہ دونوں دوزخ میں ہوں گے۔'' (سنن ابن ماجۃ، ابواب الدعاء، باب الدعاء بالعفووالعافیۃ، الحدیث۳۸۴۹،ص۲۷۰۶)تاج دارِ کائنات ﷺ کافرمانِ عبرت نشان ہے: ''اِنَّ الْکِذْبَ بَابٌ مِّنْ اَبْوَابِ النِّفَاقِ یعنی:بے شک جھوٹ منافقت کے دروازوں میں سے ایک دروازہ ہے۔''(مساوی الأخلاق للخرائطی، باب ماجاء فی الکذب وقبح ما أتی بہ أھلہ، الحدیث۱۰۷،ج۱، ص۱۱۷)(15)غیبت: ہم پہلے شریعت میں اس کے متعلق وارد ہونے والی مذمت کو ذکرکرتے ہیں ۔جیسا کہ پروردگارِ کائنات نے ارشاد فرمایا:وَلَا یَغْتَبۡ بَّعْضُکُمۡ بَعْضًا ؕ اَیُحِبُّ اَحَدُکُمْ اَنۡ یَّاۡکُلَ لَحْمَ اَخِیۡہِ مَیۡتًایعنی: ایک دوسرے کی غیبت نہ کروکیا تم میں کوئی پسند کرے گاکہ اپنے مرے بھائی کا گوشت کھائے۔ (پ26 ،الحُجُرٰت:12) حضرت سیِّدُنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ تاج دارِ کائنات ﷺ نے ارشاد فرمایا:'' ایک دوسرے سے حسد نہ کرو، آپس میں بغض نہ رکھو،بیع نجش نہ کرو۔ایک دوسرے سے روگردانی نہ کرو اور ایک دوسرے کی غیبت بھی نہ کرو،اے پروردگارِ کائنات کے بندو!بھائی بھائی بن جاؤ۔''(صحیح مسلم، کتاب البر، باب تحریم ظلم المسلم ۔۔۔۔۔۔الخ، الحدیث۶۵۴۱،ص۱۱۲۷) (موسوعۃ لابن ابی الدنیا، کتاب الصَّمْت وآداب اللِّسان، باب الغیبۃ وذمھا، الحدیث۱۶۳،ج۷،ص۱۱۶تا۱۱۷) تاج دارِ کائنات ﷺ کافرمان ہے:''غیبت سے بچو،بے شک غیبت زناسے سخت تر ہے، کیوں کہ جب آدمی زناکرکے توبہ کرتاہے توپروردگارِ کائنات اس کی توبہ قبول فرماتاہے اورغیبت کرنے والے کی بخشش اس وقت تک نہیں ہوتی ،جب تک وہ شخص معاف نہ کر دے جس کی غیبت کی ہے۔'' (موسوعۃ لابن ابی الدنیا، کتاب الصَّمْت وآداب اللِّسان، باب الغیبۃ وذمھا، الحدیث۱۶۴،ج۷، ص۱۱۸) حضرت سیِّدُنا اَنَس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ تاج دارِ کائنات ﷺکافرمان ہے:'' شبِ معراج میں ایسی قوم کے پاس سے گزرا،جواپنے چہروں کواپنے ناخنوں سے نوچ رہے تھے، میں نے جبریل علیہ السلام سے پوچھا:''یہ کون لوگ ہیں؟ '' انہوں نے جواب دیا:''یہ وہ ہیں جولوگوں کی غیبت کرتے تھے اوران کی عزّتوں کے پیچھے پڑتے تھے۔'' (موسوعۃ لابن ابی الدنیا، کتاب الصَّمْت وآداب اللِّسان، باب الغیبۃ وذمھا، الحدیث۱۶۵،ج۷،ص۱۱۸)پروردگارِ کائنات نے حضرت سَیِّدُناموسیٰ علیٰ نبیناوعلیہ الصلوٰۃو السلام کی طرف وحی بھیجی اور فرمایا:'' جو شخص غیبت سے توبہ کرتے ہوئے فوت ہوا، وہ جنت میں سب سے آخرمیں داخل ہوگا اورجو غیبت پراصرارکی حالت میں فوت ہوا، وہ جہنّم میں سب سے پہلے داخل ہو گا۔''غیبت کی تعریف: غیبت یہ ہے کہ تم اپنے کسی بھائی کاذکران الفاظ میں کروکہ اگراس تک یہ بات پہنچے تووہ اِسے ناپسندکرے۔ خواہ تم اس کے بدن یا خاندان کے عیب کاذکرکرو یااس کی فعلی، قولی، دینی یادنیوی کوتاہی بیان کرو۔یہاں تک کہ اس کے لباس، مکان اور جانور کا عیب بیان کرنا بھی غیبت ہے۔ جان لو!غیبت کے سلسلے میں اشارۃً گفتگوکرنااورسمجھنا صراحتاًگفتگو کرنے کی طرح ہے اورایسی حرکت جس سے مقصود سمجھ میں آجائے اس میں اورصریح گفتگو کرنے میں کوئی فرق نہیں اورغیبت سننے والاغیبت کرنے والے کے ساتھ(گناہ میں) شریک ہوتاہے، غیبت توجہ سے سننا اورغیبت کرنے والے کی بات پر اظہارِتعجب بھی غیبت ہے ،کیوں کہ یہ بھی غیبت کرنے والے کی مدد کرنا اوراس کے ساتھ شریک ہوناہے۔ حضرت سیِّدُنا ابودرداء رضی اللہ عنہ سے مروی ہے ،شہنشاہِ مدینہ،قرارِ قلب و سینہ، صاحبِ معطر پسینہ، باعثِ نُزولِ سکینہ، فیض گنجینہ ﷺ کافرمانِ بشارت نشان ہے:''جوشخص اپنے (مسلمان)بھائی کی غیرموجودگی میں اس کی عزت کی حفاظت کرے، پروردگارِ کائنات کے ذمۂ کرم پرہے ، کہ وہ قیامت کے دن اس کی عزت کی حفاظت فرمائے گا۔'' (موسوعۃ لابن ابی الدنیا، کتاب الصَّمْت وآداب اللِّسان، باب ذب المسلم عن عرض أخیہ، الحدیث۲۴۰، ج۷، ص۹ ۱۵)غیبت کے کفارے کا بیان: جان لو! غیبت کرنے والے پر لازم ہے کہ وہ شرمندہ ہو، توبہ کرے اور اپنے کئے پر افسوس کا اظہار کرے ،تاکہ پروردگارِ کائنات کے حق سے باہر آجائے۔ پھر جس کی غیبت کی تھی اس سے معافی مانگے تاکہ زیادتی سے برئ الذمہ ہو جائے۔ لیکن جب معافی مانگے تو غمگین اور شرمندہ ہو۔ اورحضرت سیِّدُنا حسن بصری رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ اِرشاد فرماتے ہیں:''غیبت کرنے والے کے لیے استغفار کافی ہے، معافی مانگنے کی ضرورت نہیں۔'' حضرت سَیِّدُنااَنَس بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، نور کے پیکر، تمام نبیوں کے سَرْوَر، دو جہاں کے تاجْوَر، سلطانِ بَحرو بَرﷺ کافرمانِ خوشبودارہے: ''کَفَّارَۃُ مَنِ اغْتَبْتَ اَنْ تَسْتَغْفِرَلَہٗ یعنی:غیبت کا کفارہ یہ ہے کہ جس کی تم نے غیبت کی اس کے لیے دعائے مغفرت کرو۔'' (موسوعۃ لابن ابی الدنیا، کتاب الصَّمْت وآداب اللِّسان، باب کفارۃ الاغتیاب، الحدیث۲۹۳،ج۷،ص۱۸۸۔۱۸۹) حضرت سیِّدُنا مجاہد رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں:''جب تم اپنے بھائی کا گوشت کھاؤ( یعنی اُس کی غیبت کرو)، تو اس کا کفارہ یہ ہے کہ اس کی تعریف کرو اور اس کے لیے بھلائی کی دعا مانگو۔'' بہتر یہی ہے کہ اظہارِ ندامت کے ساتھ ساتھ معافی مانگی جائے۔(16)چغلی کھانا: پروردگارِ کائنات نے ارشاد فرمایا:ہَمَّازٍ مَّشَّآءٍۭ بِنَمِیۡمٍ ﴿ۙ11﴾یعنی:بہت طعنے دینے والا بہت اِدھر کی اُدھر لگاتا پھرنے والا۔ (پ29، القلم:11) حضرت سیِّدُنا عبد اللہ بن مبارک رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ ارشاد فرماتے ہیں: '' غیر ثابت النسب(یعنی بغیر نکاح کے پیدا ہونے والا ) راز کو نہیں چھپاتا۔'' اس میں اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ جو شخص(راز کی) بات کو نہیں چھپاتا اور چغلی کھاتا ہے، تو یہ اس کے حرامی ہونے کی دلیل ہے، انہوں نے پروردگارِ کائنات کے اس فرمان سے اِستدلال کیا ہے:عُتُـلٍّ بۢـَعْدَ ذٰلِکَ زَنِیۡـمٍ ﴿ۙ13﴾یعنی: دُرُشت خُو ا س سب پر طرہ یہ کہ اس کی اصل میں خطا۔(پ29،القلم:13) زَنِیم سے مراد حرامی ہے اور پروردگارِ کائنات کا فرمانِ حقیقت نشان ہے :وَیۡلٌ لِّکُلِّ ہُمَزَۃٍ لُّمَزَۃِۣۙ﴿1﴾یعنی: خرابی ہے اس کے لیے جو لوگوں کے منہ پر عیب کرے، پیٹھ پیچھے بدی کرے۔ (پ30، الہمزۃ: ا) ھُمَزَۃٍ سے مراد بہت زیادہ چغلی کھانے والا ہے۔پروردگارِ کائنات نے ارشاد فرمایا:حَمَّالَۃَ الْحَطَبِ ۚ﴿4﴾یعنی: لکڑیوں کا گٹھا سر پر اٹھاتی۔ (پ30 ،اللہب:4) کہتے ہیں کہ وہ چغلی کھانے والی اور باتوں کو اِدھر اُدھر پہنچانے والی تھی۔پروردگارِ کائنات نے ارشاد فرمایا:فَخَانَتٰہُمَا فَلَمْ یُغْنِیَا عَنْہُمَا مِنَ اللہِ شَیْـًٔایعنی: پھر انہوں نے ان سے دغا کی تو وہ اللہ کے سامنے انھیں کچھ کام نہ آئے۔(پ28 ،التحریم:10)حدیث ِ پاک میں ارشاد ہے: ''لَایَدْخُلُ الْجَنَّۃَ قَتَّاتٌ یعنی:چغل خور جنت میں داخل نہ ہوگا۔''(صحیح البخاری، کتاب الادب، باب مایکرہ من النمیمۃ، الحدیث۶۰۵۶،ص۵۱۲) قتَّات سے مراد چغل خور ہے، اس کے متعلق بہت سی احادیث ِمبارکہ وارد ہیں۔چغلی کی تعریف: چغلی کی تعریف یہ ہے کہ ایسی بات ظاہر کرنا جس کا ظاہر کرنا ناپسند ہو۔خواہ وہ ناپسند کرے جس سے سنی گئی یا جس کےبارے ميں سنی گئی یا کوئی تیسراآدمی ناپسند کرے۔ خواہ بول کریا لکھ کر اس کا اظہار ہو یا اشارہ، کنایہ سے ہو۔ پس چغلی کی حقیقت پوشیدہ بات کو ظاہر کرنا اور اس سے پردہ ہٹانا ہے۔(17)منافقت: منافقت یہ ہے کہ کوئی شخص آپس میں مخالف دو اشخاص میں سے ہر ایک کے پاس جائے اورہر ایک سے اس کے موافق بات کرے، یہ عین نفاق ہے۔چنانچہ حضرت سیِّدُنا عمار بن یاسررضی اللہ عنہماسے مروی ہے،حضور سیِّدُ المبلغین، رَحْمَۃٌ لِّلْعٰلَمِیْن ﷺ کافرمانِ عبرت نشان ہے:مَنْ کَانَ لَہٗ وَجْھَانِ فِی الدُّنْیَا کَانَ لَہٗ لِسَانَانِ مِنْ نَّارٍ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ۔یعنی:جو شخض دنیا میں دو چہروں والا ہو بروزِ قیامت اس کی آگ کی دوزبانیں ہوں گی۔(سنن ابی داؤد، کتاب الادب، باب فی ذی الوجھین، الحدیث۴۸۷۳،ص۱۵۸۱) حضرت سیِّدُنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبئ رحمت، شفیعِ امّت، قاسمِ نعمت ﷺ کافرمانِ عالیشان ہے:''بروزِقیامت تم پروردگارِ کائنات کے بندوں میں سے سب سے برا اس شخص کو پاؤ گے جس کے دوچہرے ہیں جواِدھر کچھ کہتا ہے اور اُدھر کچھ کہتا ہے۔'' دوسری روایت کے الفاظ یہ ہیں:''جو ان کے پاس ایک چہرے سے آتا ہے اور دوسروں کے پاس دوسرا چہرہ لے کر آتا ہے۔''(صحیح مسلم، کتاب فضائل الصحابۃ، باب خیار الناس، الحدیث۶۴۵۴،ص۱۱۲۰) (موسوعۃ لابن ابی الدنیا، کتاب الصَّمْت وآداب اللِّسان، باب ذم ذی اللِّسانین، الحدیث۲۷۷، ج۷، ص۸ ۷ ۱۔۱۷۹)اخیر میں بارگاہ قاضی الحاجات میں دعا گو ہوں کہ موالے پاک اپنے محبوب پاک، صاحب لولاک، سیاح افلاک صلی اللہ علیہ وسلم کے صدقے و طفیل حضرت مخدوم پاک کے مرقد منور پہ رحمت و انوار کی بارشیں برسائے۔ ان کے درجات بلند فرمائے اور ہمیں ان کی یاد منانے اور ان کے نام نذر و نیاز کرنے کے ساتھ ساتھ ان کی تعلیمات پر عمل پیرا ہونے کی بھی توفیق خیر مرحمت فرمائے۔آمین۔ یا رب العالمین۔ بجاہ النبی الامین۔صلی اللہ علیہ وآلہ وصحبہ ومن تبعھم اجمعین۔

سلطان المخدومین حضرت سیدنا کمال الدین یحییٰ منیری علیہ الرحمہ اور حسنِ احوالاز قلم: ناچیز ناصر منیری کان اللہ لہڈائریکٹر: ریسرچ سینٹر، خانقاہ منیر شریف، پٹنہرابطہ نمبر: 9905763238۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔سلطان المخدومین حضرت سیدنا کمال الدین یحییٰ منیری علیہ الرحمۃ والرضوان جلیل القدر صوفی بزرگ گذرے ہیں۔ آپ چوں کہ اللہ کے ولی تھے اور آپ کو اللہ نے لوگوں کو سیدھی راہ بتانے کے لیے بھیجا تھا اس لیے آپ لوگوں کو اچھی اچھی باتیں سکھاتے تھے۔ ذیل میں تعلیماتِ تصوف سے حسن احوال کا بیان پیش کیا جا رہا ہے:(1)غصہ و غضب کی برائیاں:غصہ ایک چھپی ہوئی آگ ہے جو دل میں ہوتی ہے۔ جس طرح راکھ کے نیچے چھپی ہوئی چنگاری ہوتی ہے۔ اوریہ چھپے ہوئے تکبر کو باہر نکالتی ہے۔ شاید غصہ اسی آگ سے ہو جس سے شیطان کو پیدا کیا گیاہے۔ حضرت سیِّدُنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، ایک شخص نے عرض کی:'' یا رسول اللہ ﷺ! مجھے کوئی مختصر سا عمل بتائيے؟'' تاج دارِ کائنات ﷺ نے ارشاد فرمایا: '' لَا تَغْضَبْ یعنی :غصہ نہ کرو۔'' اس نے دوبارہ یہی سوال کیاتو تاج دارِ کائنات ﷺ نے فرمایا: '' لَا تَغْضَبْ یعنی :غصہ نہ کرو۔'' (صحیح البخاری، کتاب الادب، باب الحذرمن الغضب، الحدیث۶۱۱۶،ص۵۱۶) حضرت سیِّدُنا ابن مسعودرضی اللہ عنہ سے مروی ہےکہ تاج دارِ کائنات ﷺ نے ارشاد فرمایا:''تم اپنے میں سے پہلوان کسے سمجھتے ہو؟'' ہم نے عرض کی:'' جسے لوگ پچھاڑ نہ سکیں۔'' تاج دارِ کائنات ﷺ نے ارشاد فرمایا: ''پہلوان وہ نہیں، بلکہ پہلوان تو وہ ہے جو غصے کے وقت اپنے آپ پر قابو رکھے۔'' (صحیح مسلم، کتاب البر، باب فضل من یملک نفسہ عند الغصب۔۔۔۔۔۔الخ، الحدیث۶۶۴۱،ص۱۱۳۳) تاج دارِ کائنات ﷺ کافرمانِ عالی شان ہے:مَا غَضِبَ اَحَدٌ اِلاَّ اَشْفٰی عَلٰی جَھَنَّمَ ۔یعنی:جو شخص غصہ کرتا ہے وہ جہنم کے کنارے پر جا پہنچتا ہے۔(شعب الایمان للبیھقی، باب فی حسن الخلق، فٖصل فی ترک الغضب، الحدیث۸۳۳۱،ج۶،ص۳۲۰،مفھوماً) آدمی کی تخلیق اس اندازمیں کی گئی کہ اس کی فنا اوربقا مقصود تھی لہٰذا اس میں غصہ رکھ دیا گیا۔ یہ حمیت و غیرت کی قوت ہے جو انسان کے باطن سے پھوٹتی ہے، پروردگارِ کائنات نے غصے کو آگ سے پیدا فرمایا اور اسے انسان کے باطن میں رکھ دیا پس جب وہ ارادہ کرتا ہے تو غصے کی آگ بھڑک اٹھتی ہے اورجب جوش پیدا ہوتا ہے تو دل کا خون کھول کر رگوں میں پھیل جاتا ہے پھر وہ آگ کی طرح بدن کے بالائی حصے کی طرف اٹھتا ہے یا اس پانی کی طرح جو (برتن کے اندر) کھولتا ہے اور اس طرح وہ چہرے کی طرف اٹھتا ہے پس چہرہ سرخ ہو جاتاہے۔ چنانچہ جب اپنے سے کم مرتبے والے پر غصہ آئے اور اسے معلوم ہو کہ وہ اس پر قدرت رکھتا ہے تو جِلد سرخ ہو جاتی ہے لیکن اگر اپنے سے بڑے پر غصہ آئے اور اسے خوف محسوس ہو تو خون ظاہری جلد سے اکٹھا ہو کرواپس چلا جاتا ہے، اس کا رنگ زرد ہو جاتا ہے اور وہ غم گین ہو جاتا ہے لیکن اگر غصہ کسی برابر والے پر آئے تو خون سکڑنے اور پھیلنے کی وجہ سے چہرے پر زردی اور سرخی والی کیفیات طاری ہوجاتی ہیں اور وہ مضطرب ہو جاتا ہے۔ مختصر یہ کہ دل غصے کا مقام ہے اور اس کا معنی یہ ہے کہ انتقام لینے کے لیے دل کے خون کا جوش مارنا۔غصے کا علاج یہ ہے کہ غصہ پی جانے کے ثواب سے آگاہ ہو پھر اپنے آپ کو پروردگارِ کائنات کے عذاب سے ڈرائے اوریہ یقین رکھے کہ پروردگارِ کائنات مجھ پر اس سے زیادہ قدرت رکھتا ہے اور اپنے آپ کو انتقام کے انجام سے ڈرائے کیوں کہ دشمن بھی اسی طرح اسے تکلیف دینے پر کمر بستہ ہے۔ اس طرح یہ طویل دشمنی بن جائے گی اور غصے کے وقت دوسروں کی شکل بگڑنے میں غورو فکر کرے اور اپنے آپ کو اس پر قیاس کرے اور سوچے کہ غصے میں آنے والا حملہ کرنے والے درندے کی طرح ہوتا ہے اوربُردبار شخص انبیا و اولیا (کے اَخلاق) کی نظیر ہوتا ہے۔ جب انسان غور کرے گاتو اسے معلوم ہوگا کہ اس کا غصہ اس وجہ سے ہے کہ اس کا کام پروردگارِ کائنات کی مشیَّت کے مطابق ہوا ہے، اس کے ارادے کے مطابق نہیں ہوا اور اسی وجہ سے احادیث مبارکہ میں وارد ہے کہ غصے کا آنا پروردگارِ کائنات کی ناراضی کا سبب ہے ۔جب یہ باتیں معلوم ہو گئیں تو لازم ہے کہ غصے کے وقت ''اَعُوْذُ بِاللہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ'' پڑھیں۔ تاج دارِ کائنات ﷺ نے اسی طرح حکم فرمایا کہ غصے کے وقت ''اَعُوْذُ بِاللہِ'' پڑھو۔'' (صحیح البخاری، کتاب الادب، باب الحذرمن الغضب، الحدیث۶۱۱۵،ص۵۱۶)اُمُّ المؤمنین حضرت سیِّدَتُنا عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کو جب غصہ آتا تو تاج دارِ کائنات ﷺ ان کی ناک پکڑ کر ارشاد فرماتے: ''اے عویش(اسم عائشہ کی تصغیر)! یوں کہو: اے تاج دارِ کائنات ﷺ کے رب! میرے گناہ بخش دے اور میرے دل کے غصے کو ختم فرما اور مجھے گمراہ کرنے والے ظاہری و باطنی فتنوں سے محفوظ فرما۔ '' (عمل الیوم واللیلۃ لابن السنی،باب ما یقول اذا غضب،الحدیث۴۵۵،ص۱۴۲) (صحیح مسلم،کتاب الجنۃ، باب عرض مقعد المیت من الجنۃوالنارعلیہ۔۔۔۔۔۔الخ، الحدیث۱۳ ۲ ۷،ص۱۱۷۵) انسان کو چاہے کہ غصے کے وقت یہ (مندرجہ بالا)الفاظ کہے، کھڑا ہو تو بیٹھ جائے اوربیٹھا ہو تو لیٹ جائے۔جیسا کہ تاج دارِ کائنات ﷺ کافرمانِ عالی شان ہے:''بے شک غصہ ایک چنگاری ہے جو دل میں بھڑکتی ہے، کیا تم اس کی وجہ سے رگوں کے پھولنے اور آنکھوں کی سرخی کو نہیں دیکھتے پس جب تم میں سے کوئی ایسی بات(یعنی غصہ) پائے تو اگرکھڑا ہو تو بیٹھ جائے اور بیٹھا ہو تو لیٹ جائے اگر اس طرح بھی غصہ ختم نہ ہو تو ٹھنڈے پانی سے وضو یا غسل کرے کیوں کہ پانی ہی آگ کو بجھاتا ہے۔'' (جامع الترمذی، ابواب الفتن، باب ماأخبرالنبی أصحابہ بماہوکائن الی یوم القیامۃ، الحدیث۲۱۹۱،ص۷۲ ۸ ۱۔سنن ابی داؤد،کتاب الادب،باب مایقال عندالغضب، الحدیث۴۷۸۲/۴۷۸۴، ص۱۵۷۵)حِلم و بردباری کی خوبیاں:''غصہ وغضب کے وقت اطمینان سے رہنے اور غصہ کی شدت پرقابو پانے کا نام '' حِلم ''ہے ۔اگرکوئی ایسا سبب پایا جائے جس کی وجہ سے غصہ کرنا لازم ہو تو ایسا غصہ حلم کے منافی نہیں اوراگرکوئی اس سبب پر بھی قابو پالے تویہ بھی حلم ہی میں شامل ہے ۔''(الحدیقۃ الندیۃ،الخلق العشرون من الاخلاق الستین المذمومۃ۔۔۔۔۔۔الخ،ج۱،ص ۶۳۸)حلم(یعنی طبعی بردباری) غصہ پی جانے سے افضل ہے کیوں کہ غصہ پینے سے مراد تکلفاً برداشت کرنااورتکلفاً برُدبار بننا ہے جب کہ طبعی برُدباری عقل کے کامل ہونے کی دلیل ہے اور قوتِ غضب کا ٹوٹنا عقل کے ماتحت ہے اور اس کی ابتداء تکلفاً برُدبار بننے سے ہوتی ہے پھریہ عادت بن جاتی ہے۔جیسا کہ تاج دارِ کائنات ﷺ کا فرمانِ عالی شان ہے:'' علم سیکھنے سے حاصل ہوتا ہے اور بردباری تکلفاًبرداشت کرنے سے پیداہوتی ہے۔ جو شخص بھلائی حاصل کرنے کی کوشش کرتا ہے اسے بھلائی دی جاتی ہے اور جو شر سے بچنا چاہتا ہے اسے بچالیا جاتا ہے۔'' (المعجم الاوسط، الحدیث۲۶۶۳،ج۲،ص۱۰۳)تاج دارِ کائنات ﷺ کافرمانِ عالی شان ہے: ''علم حاصل کرو اور علم کے ساتھ سکون اور بردباری بھی طلب کرو۔ان کے لیے نرمی اختیار کرو جن سے سیکھتے ہو اور جن کو سکھاتے ہو اور متکبر علماء میں سے نہ ہوناورنہ تمھاری جہالت تمھاری بردبا ری پر غالب آجائے گی۔'' (الکامل فی ضعفاء الرجال لابن عدی، الرقم۱۱۶۵،عباد بن کثیر،ج۵،ص۵۴۲)تاج دارِ کائنات ﷺ نے بارگاہ الٰہی میں دعاکرتے ہوئے عرض کی: ''اَللّٰھُمَّ اَغْنِنِیْ بِالْعِلْمِ وَزَیِّنِّیْ بِالْحِلْمِ وَاَکْرِمْنِیْ بِالتَّقْوٰی وَجَمِّلْنِیْ بِالْعَافِیَۃِ یعنی: اے پروردگارِ کائنات! مجھے علم کے ساتھ غنا،بُردبادی کے ساتھ زینت ،تقوی کے ساتھ عزت اور عافیت کے ساتھ خوب صورتی عطا فرما۔'' (کنز العمال،کتا ب الاذکار،الباب الثامن فی الدعاء، الفصل السادس فی جوامع الادعیۃ، الحدیث۳۶۶۰، ج۲، ص۸۱)تاج دارِ کائنات ﷺ کافرمانِ فرمانِ عالی شان ہے: '' پروردگارِ کائنات کے ہاں بلندی تلاش کرو۔'' صحابۂ کرام علیہم الرضوان نے عرض کی :''یارسول اللہ ﷺ !وہ کیا ہے؟ ''تاج دارِ کائنات ﷺ نے ارشاد فرمایا: '' جو تم سے تعلق توڑے اس سے تعلق جوڑو، جو تمھیں محروم کرے اُسے عطا کرو اور جو تم سے جہالت کا سلوک کرے اس کے ساتھ بردباری سے پیش آؤ۔'' (مکارم الأخلاق لابن ابی الدنیا، الحدیث۲۳،ص۳۱)پروردگارِ کائنات کا فرمانِ عالی شان ہے:وَّ اِذَا خَاطَبَہُمُ الْجٰہِلُوۡنَ قَالُوۡا سَلٰمًا ﴿63﴾یعنی: جب جاہل ان سے بات کرتے ہیں تو کہتے ہیں بس سلام۔(پ19، الفرقان:63)حضرت سیِّدُنا حسن بصری علیہ الرحمہ اس کی تفسیر میں فرماتے ہیں:'' اس سے مراد بردبار لوگ ہیں کہ جب ان سے جہالت کا سلوک کیا جائے تو وہ جہالت سے پیش نہیں آتے۔''جب کوئی شخص غیبت کرے ، گالی دے یاعار دلائے تو بردباری کا رویہ اپنانا چاہے کیوں کہ اسی میں دارین کی نجات ہے ،دنیا میں احترام کے اضافہ کا سبب ہے اور آخرت کے ثو اب میں بہت زیادہ اضافہ ہوتا ہے۔تاج دارِ کائنات ﷺ کافرمانِ عالی شان ہے:اِنْ اِمْرُؤٌ عَیَّرَکَ بِمَا فِیْکَ فَلاَ تُعَیِّرْہُ بِمَافِیْہِ ۔یعنی:اگر کوئی تجھے تیرے کسی عیب کے سبب عار دلائے تو تُو اسے اس کے عیب کے سبب عار نہ دلا۔(سنن ابی داؤد، کتاب اللباس، باب ماجاء فی اسبال الأزار، الحدیث۴۰۸۴،ص۱۵۲۱)عفو ودرگزر کی خوبیاں:عفو کا معنی یہ ہے کہ کسی کے ذمہ انسان کا حق ہو اور اسے چھوڑ دے جیسے قصاص، مال یا تاوان چھوڑ دینا۔پروردگارِ کائنات کا فرمانِ فرمانِ عالی شان ہے:خُذِ الْعَفْوَیعنی: اے محبوب! معاف کرنا اختیار کرو۔(پ9، الاعراف :199 )پروردگارِ کائنات کا فرمانِ حقیقت نشان ہے:وَ اَنۡ تَعْفُوۡۤا اَقْرَبُ لِلتَّقْوٰی ؕیعنی: اے مردو!تمھارا زیادہ دینا پرہیزگاری سے نزدیک تر ہے۔(پ2 ،البقرۃ:237)تاج دارِ کائنات ﷺ کافرمانِ فرمانِ عالی شان ہے:''اس ذات کی قسم جس کے قبضۂ قدرت میں میری جان ہے! تین چیزیں ایسی ہیں کہ اگر میں قسم کھاتا توان پر کھاتا:(۱) صدقہ سے مال کم نہیں ہوتا پس صدقہ کیا کرو(۲) کوئی شخص کسی دوسرے کی زیادتی کو پروردگارِ کائنات کی رضا جوئی کے لیے معاف کردے تو بروزِ قیامت پروردگارِ کائنات اس کی عزت میں اضافہ فرمائے گا اور(۳) جو شخص اپنے اوپر سوال کا دروازہ کھول لیتا ہے پروردگارِ کائنات اس پر محتاجی کا دروازہ کھول دیتا ہے۔''(جامع الترمذی، ابواب الزھد، باب ماجاء مثل الدنیا مثل أربعۃ نفر، الحدیث۲۳۲۵،ص۱۸۸۶)تاج دارِ کائنات ﷺ کافرمانِ عالی شان ہے:''عاجزی وانکساری بندے کے مرتبے میں اضافہ کرتی ہے پس تواضع اختیار کرو پروردگارِ کائنات تمھیں رفعت عطا فرمائے گا، درگزر کرنا بندے کی عزت کو بڑھاتا ہے پس معاف کیا کرو پروردگارِ کائنات تمھیں عزت عطا فرمائے گا اور صدقہ مال کو بڑھاتا ہے پس صدقہ کرو پروردگارِ کائنات تم پر رحم فرمائے گا۔''تاج دارِ کائنات ﷺ کافرمانِ عالی شان ہے:مَنْ دَعَا عَلٰی مَنْ ظَلَمَہ، فَقَدْاِنْتَصَرَ۔یعنی:جس نے اپنے اوپرظلم کرنے والے کے خلاف بد دعا کی اس نے اپنا بدلہ لے لیا۔(جامع الترمذی، کتاب الدعوات، باب من دعا علی من ظلمہ فقد انتصر، الحدیث۳۵۵۲،ص۲۰۱۷)نرمی و ملائمت کی خوبیاں:نرمی قابلِ تعریف ہے اور یہ اچھے اخلاق کا نتیجہ ہے، اس کی ضد سخت مزاجی اور گرمی ہے۔تاج دارِ کائنات ﷺ نے ام المؤمنین حضرت سیِّدُتُناعائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے ارشاد فرمایا:''جس شخص کو نرمی سے حصہ ملا اسے دنیا و آخرت کی بھلائی سے حصہ ملا اور جوشخص نرمی سے محروم رہا وہ دنیاوآخرت کی بھلائی سے محروم رہا۔''(مسند ابی یعلی الموصلی، مسند عائشۃ، الحدیث۴۵۱۳،ج۴،ص۱۱۸۔۱۱۹)تاج دارِ کائنات ﷺ کافرمانِ عالی شان ہے:اِذَا اَحَبَّ اللہُ اَھْلَ بَیْتٍ اَدْخَلَ عَلَیْھِمُ الرِّفْقَ۔یعنی:پروردگارِ کائنات جب کسی گھرانے کو پسند فرماتا ہے تو ان میں نرمی پیدا کردیتا ہے۔(المسند للامام احمد بن حنبل،مسند السیدۃ عائشۃ، الحدیث۲۴۴۸۱،ج۹،ص۳۴۵، اِذا أحب: بدلہ: اِذا اَراد)(2)حسد کی برائیاں:کسی کی دینی یا دنیوی نعمت کے زوال کی تمنا کرنا یا یہ ارادہ کرنا کہ کسی کو یہ نعمت نہ ملے ''حسد'' کہلاتاہے ۔(الحدیقۃ الندیۃ،الخلق الخامس عشر من الاخلاق ا لستین المذمومۃ۔۔۔۔۔۔الخ،ج۱،ص ۶۰۰)حسد کینہ کے نتائج میں سے اور کینہ غصہ کے نتائج میں سے ہے۔چنانچہ تاج دارِ کائنات ﷺ کا فرمانِ عالی شان ہے:اَلْحَسَدُ یَاْکُلُ الْحَسَنَاتِ کَمَا تَاْکُلُ النَّارُالْحَطَبَ۔یعنی:حسد نیکیوں کو اس طرح کھا جاتا ہے جس طرح آگ لکڑی کو کھا جاتی ہے۔(سنن ابی داؤد، کتاب الادب، باب فی الحسد، الحدیث۴۹۰۳،ص۱۵۸۳) حسد کی حقیقت یہ ہے کہ جب کسی(مسلمان) بھائی کو پروردگارِ کائنات کی نعمت ملتی ہے تو حاسد انسان اسے ناپسند کرتا ہے اور اس بھائی سے نعمت کا زوال چاہتا ہے۔ اگر وہ اپنے بھائی کو ملنے والی نعمت کو ناپسند نہیں کرتا اور نہ اس کا زوال چاہتا ہے بلکہ وہ چاہتا ہے کہ اسے بھی ایسی ہی نعمت مل جائے تو اسے رشک کہتے ہیں۔تاج دارِ کائنات ﷺ کافرمانِ فرمانِ عالی شان ہے:اَلْمُؤْمِنُ یَغْبِطُ وَالْمُنَافِقُ یَحْسُدُ۔یعنی:مؤمن رشک کرتا اور منافق حسد کرتا ہے۔(سِیَرُ أعلامِ النُبَلَاء، الرقم۱۲۸۶۔الفضیل بن عیاض بن مسعود بن بشر، ج۷،ص۶۴۱،بتغیرٍ قلیلٍ)پروردگارِ کائنات کا فرمانِ عالی شان ہے:وَدَّ کَثِیۡرٌ مِّنْ اَہۡلِ الْکِتٰبِ لَوْ یَرُدُّوۡنَکُمۡ مِّنۡۢ بَعْدِ اِیۡمَانِکُمْ کُفَّارًا ۚۖ حَسَدًایعنی:بہت کتابیوں نے چاہا کاش!تمھیں ایمان کے بعد کفر کی طرف پھیردیں(اپنے دلوں کی) جلن سے۔ (پ1،البقرۃ:109)اس آیتِ مبارکہ میں پروردگارِ کائنات نے خبر دی کہ کفار نے حسد کرتے ہوئے مسلمانوں سے ایمان کی نعمت کا زائل ہونا چاہا۔پروردگارِ کائنات نے ارشاد فرمایا:وَلَا تَتَمَنَّوْا مَا فَضَّلَ اللہُ بِہٖ بَعْضَکُمْ عَلٰی بَعْضٍ ؕیعنی: اور اس کی آرزو نہ کرو جس سے اللہ نے تم میں ایک کو دوسرے پر بڑائی دی۔(پ5،النسآء:32)یہاں پر نہی سے مرادخاص اسی نعمت کے اپنی طرف منتقل ہونے کی تمنا کرنے سے روکنا ہے جب کہ کسی مسلمان کا یہ آرزو کرنا کہ پروردگارِ کائنات اسے بھی اسی جیسی نعمت عطا فرمائے تو یہ آرزو مذموم نہیں اور اگر یہ چیز دین میں ہو تو قابلِ تعریف ہے۔(اسی کو رشک کہتے ہيں)حسد کے بہت سے اسباب ہیں اور وہ دشمنی، فخر، بغض، تکبر ،خودپسندی، پسندیدہ مقاصد کے فوت ہونے کا خوف، حکومت کی خواہش ،نفس کی خباثت اور اس کا بخل ہے اور یہ سب کے سب مذموم ہیں۔حسد کا علاج یہ ہے کہ اس بات پر غور کیا جائے کہ یہ دُنیا و آخرت میں نقصان دیتا ہے۔ جہاں تک دنیوی نقصان کا تعلق ہے تو وہ یہ ہے کہ تجھے اس سے اَذیت ہوتی ہے اور تو دِن رات غم والم کا شکار رہتا ہے۔ اور دینی نقصان یہ ہے کہ تو(بندے پر) پروردگارِ کائنات کی نعمت سے ناخوش رہتا ہے اور تیرا یہ رویہ اس نعمت والے کے لیے باعثِ ثواب اور تیرے لیے باعثِ گناہ ہے۔ جب تو یہ بات جانتا ہے کہ تو اپنے دشمن کا دوست نہیں بن سکتا(کہ اُسے فائدہ پہنچائے) تو تجھ پر ضروری ہے کہ تو تکلفاً حسد کو چھوڑ دے۔حضرت سیِّدُنا حسن بصری علیہ الرحمہ سے مروی ہے، تاج دارِ کائنات ﷺ نے ارشاد فرمایا:ثَلَاثَۃٌ فِی الْمُؤْمِنِ، لَہٗ مِنْھُنَّ مَخْرَجٌ، وَمَخْرَجُہ، مِنَ الْحَسَدِ اَنْ لَایَبْغِیْ۔یعنی:مؤمن میں تین خامیاں پائی جاتی ہیں اوراس کے لیے ان سے نکلنے کا راستہ بھی ہے اور حسد سے نکلنے کا راستہ یہ ہے کہ وہ حد سے نہ بڑھے۔(فردوس الاخبار للدیلمی، باب الفائ، الحدیث۴۳۹۲،ج۲،ص۱۲۵)وَالْحَمْدُ لِلّٰہِ تَعَالٰی وَحْدَہٗ(اورسب خوبیاں پروردگارِ کائنات کے لیے ہیں جو یکتا ہے)حب مال کی برائیاں: مال کی محبت کی مذمت تو پروردگارِ کائنات کے ان فرامین سے واضح ہے:(1) یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا لَا تُلْہِکُمْ اَمْوَالُکُمْ وَ لَاۤ اَوْلَادُکُمْ عَنۡ ذِکْرِ اللہِ ۚ وَ مَنۡ یَّفْعَلْ ذٰلِکَ فَاُولٰٓئِکَ ہُمُ الْخٰسِرُوۡنَ ﴿9﴾یعنی:اے ایمان والو! تمھارے مال نہ تمھاری اولاد کوئی چیز تمھیں اللہ کے ذکر سے غافل نہ کرے اور جو ایسا کرے تو وہی لوگ نقصان میں ہیں۔(پ28،المنافقون:9)(2) اِنَّمَاۤ اَمْوَالُکُمْ وَ اَوْلَادُکُمْ فِتْنَۃٌ ؕیعنی: تمھارے مال او رتمھارے بچے جانچ ہی ہیں۔(پ28،التغابن:15)تاج دارِ کائنات ﷺ کافرمانِ عالی شان ہے:حُبُّ الْمَالِ وَ الشَّرَفِ یُنْبِتَانِ النِّفَاقَ کَمَا یُنْبِتُ الْمَاءُ الْبَقْلَ۔یعنی:مال اور شرف (یعنی بڑائی) کی محبت دل میں اس طر ح منافقت پیدا کرتی ہیں جیسے پانی سبزی اگاتا ہے۔(السنن الکبرٰی للبیھقی،کتاب الشھادات ،باب الرجل یغنی۔۔۔۔۔۔الخ ،الحدیث۲۱۰۰۸،ج۱۰،ص۳۷۷۔۳۷۸،بتغیرٍ قلیلٍ) تاج دارِ کائنات ﷺ کافرمانِ عالی شان ہے:''دو خونخوار بھیڑئیے بکریوں کے ریوڑمیں چھوڑدئیے جائیں تووہ اس قدرنقصان نہیں کرتے جتنا نقصان مسلمان آدمی کے دین میں مال اور منصب کی محبت سے ہوتا ہے۔'' (جامع الترمذی، ابواب الزھد، باب ماذئبان جائعان ۔۔۔۔۔۔الخ، الحدیث۲۳۷۶،ص۱۸۹۰، ضارّیان بدلہ جائعان)تاج دارِ کائنات ﷺ کافرمانِ فرمانِ عالی شان ہے:ھَلَکَ الْمُکَثِّرُوْ نَ اِلَّا مَنْ قَالَ بِہٖ فِیْ عِبَادِ اللہِ ھٰکَذَا وَھٰکَذَاوَ قَلِیْلٌ مَّا ھُمْ۔یعنی:زیادہ مال والے ہلاک ہوگئے سوائے اس کے جو پروردگارِ کائنات کے بندوں میں کثرت سے اپنا مال خرچ کرے اوروہ تھوڑے ہیں۔(المسند للامام احمد بن حنبل، مسند ابی ھریرۃ، الحدیث۸۰۹۱،ج۳،ص۱۸۰، بدون:عباد اﷲ)تاج دارِ کائنات ﷺ کافرمانِ خوشبودارہے: ''میرے بعد ایسے لوگ آئيں گے جودنیا کے لذیذ اور رنگ بر نگے کھانے کھائیں گے، خوبصورت عورتوں سے نکاح کریں گے ، نرم وملائم اور رنگ برنگے لباس میں ملبوس ہوں گے اور عمدہ اورتیز رفتار گھوڑوں پر سوار ہوں گے، ان کے پیٹ تھوڑی چیز سے سیر نہیں ہوں گے اور ان کے نفس زیادہ پربھی قناعت نہیں کریں گے، وہ دنیا کی طرف اس طرح جائیں گے کہ صبح وشام اسی کو مدِّنظر رکھيں گے اور حقیقی معبود کو چھوڑ کر اسے ہی اپنا معبود اور رب سمجھیں گے، ان کا معاملہ اسی طرح رہے گا اور وہ دنیا کی خواہشات کی پیروی کريں گے ۔ جوآدمی ایسے زمانے کو پائے خواہ وہ تمھاری اولاد سے ہو یا تمھاری اولاد کی اولادسے ،اُسے محمد (ﷺ) کی طر ف سے قسم ہے کہ وہ ایسے لوگوں کونہ سلام کرے ، نہ ان کے مریضوں کی عیادت کرے، نہ ان کے جنازوں میں جائے اور نہ ہی اُن کے بڑوں کی عزت کرے اور جس نے ایسا کیا اس نے اسلام کو گرانے میں مدد کی۔'' (المعجم الکبیر، الحدیث۷۵۱۲،ج۸،ص۱۰۷، مختصراً)تاج دارِ کائنات ﷺ کافرمانِ عالی شان ہے:''انسان کہتا ہے:میرا مال، میرا مال اور تمھارے لیے تو تمھارا مال وہی ہے جو تم نے صدقہ کر کے باقی رکھا یاکھا کر فنا کردیا یا پہن کر پرانا کردیا۔''(صحیح مسلم،کتاب الزھد والرقائق، باب الدنیاسجن للمؤمن وجنۃ للکافر، الحدیث۷۴۲۰،ص۱۱۹۱) ایک شخص نے عرض کی:'' یا رسول اللہ ﷺ ! مجھے کیا ہوگیا ہے کہ مجھے موت پسند نہیں ہے ؟ '' تاج دارِ کائنات ﷺ نے استفسار فرمایا:''کیا تمھارے پاس مال ہے؟'' اس نے عرض کی:'' جی ہاں! یا رسول اللہ ﷺ !'' تو تاج دارِ کائنات ﷺ نے ارشاد فرمایا:'' اپنا مال آگے بھیج دے کیوں کہ مؤمن کا دل اپنے مال کے ساتھ ہوتا ہے اگر اُسے آگے بھیج دے تو اس سے ملنا چاہتا ہے اور اگر پیچھے چھوڑدے تو اس کے ساتھ پیچھے رہنا چاہتا ہے۔''(الزھد لابن المبارک، باب فی طلب الحلال، الحدیث۶۳۴،ص۲۲۴) شہنشاہِ خوش خِصال، پیکرِ حُسن وجمال، دافِعِ رنج و مَلال، صاحب ِجُودو نوال، رسولِ بے مثال، بی بی آمنہ کے لال صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کافرمانِ فرمانِ عالی شان ہے:'' انسان کے دوست تین قسم کے ہیں، ایک موت تک اس کا ساتھ دیتا ہے، دوسرا قبر تک اور تیسرا محشر تک ساتھ دیتا ہے۔ انسان کی موت تک ساتھ دینے والا اس کا مال ہے، قبر تک ساتھ دینے والے اُ س کے گھروالے ہیں اور محشر تک ساتھ دینے والا اس کا عمل ہے۔''(صحیح البخاری، کتاب الرقاق، باب سکرات الموت، الحدیث۶۵۱۴،ص۵۴۶، بتغیرٍ)پروردگارِ کائنات نے بعض مقامات پر مال کو لفظ ِ خیر کے ساتھ ذکر فرمایا۔چنانچہ ارشاد ربانی ہے:اِنۡ تَرَکَ خَیۡرَۨا ۚۖ الْوَصِیَّۃُیعنی: اگر کچھ مال چھوڑے تو وصیت کر جائے۔(پ2،البقرہ:180) تاج دارِ کائنات ﷺ کافرمانِ عزّت نشان ہے: ''نِعْمَ الْمَالُ الصَّالِحُ لِلرَّجُلِ الصَّالِحِ یعنی:کیا ہی اچھامال نیک بندے کے لیے ہے۔'' (شعب الایمان للبیھقی، باب التوکل والتسلیم، الحدیث۱۲۴۸،ج۲،ص۹۱) مال کے بھی وہی فضائل ہیں جوصدقہ اور حج کے متعلق بیان کئے گئے ہیں۔ عقل مند اورصاحبِ بصیرت لوگو ں کا مقصد اُخروی سعادت پانا ہے اور مال اس کے لیے وسیلہ ہے ،کبھی مال کے ذریعے تقوی اور عبادت پر قوت حاصل کی جاتی ہے اور کبھی اسے آخرت کی راہ میں خرچ کیا جاتا ہے اور جو شخص عیش وعشرت کے لیے مال حاصل کرتاہے یا اس کے ذریعے گناہوں اور شہوت رانی میں منہمک ہوتا ہے تو یہ اس کے حق میں مذموم ہے۔ مال کی مثال یہ ہے کہ یہ سانپ کی طرح ہے جس میں زہر بھی ہے اور تریاق(یعنی علاج) بھی۔ اس کے فائدے تریاق ہیں اور اس کی آفات اس کا زہر ہے۔ پس جس شخص کو اس کا علم ہوا ور وہ اس کے زہر سے بچنے اور اس کے تریاق سے نفع اٹھانے پر قادر ہو تو اس کے لیے یہ قابلِ تعریف ہے۔ فقر و قناعت کی خوبیاں اور حرص و لالچ کی برائیاں:فقر قابلِ تعریف ہے لیکن فقیر کو چاہے کہ جو کچھ لوگو ں کے پاس ہے اس میں طمع نہ کرے اور یہ خوبی تب پیدا ہو سکتی ہے جب وہ کھانے ، پینے اور لباس کے معاملے میں بقد رِ ضرورت پرقناعت کرے، اورادنیٰ اور کم مقدار پر اکتفاء کرے اور اپنی اُمید کو ایک دن یا ایک مہینے تک بڑھا دے تاکہ اس کے اندر فاقہ پر صبرکرنے کی قوت پیدا ہو جائے ورنہ یہ چیز اسے مال داروں سے طمع رکھنے ،مانگنے اور ذِلت اختیار کرنے کی طرف لے جائے گی۔تاج دارِ کائنات ﷺ کافرمانِ عالی شان ہے:'' بے شک روح القدس (یعنی حضرت سیِّدُنا جبرائیل علیہ السلام) نے میرے دل میں یہ بات ڈالی کہ کوئی جان اپنا پورا رزق حاصل کئے بغیر نہیں مرتی پس تم پروردگارِ کائنات سے ڈرو اور اچھے طریقے سے مانگو۔'' (التمھید لابن عبد البر، باب الف، اسحاق بن عبد اﷲ بن ابی طلحۃ، تحت الحدیث۱۵،ج۱،ص۲۳۹) حضرت سیِّدُنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ ارشاد فرماتے ہیں: ایک دن تاج دارِ کائنات ﷺ نے ارشاد فرمایا:یَا أبَاہُرَیْرَۃَ! إذَا اِشْتَدَّ بِکَ الْجُوْعُ فَعَلَیْکَ بِرَغِیْفٍ وَّکُوزٍ مِّنْ مَاءٍ وَعَلَی الدُّنْیَا الدِّمَارُ۔یعنی:اے ابوہریرہ (رضی اللہ عنہ)!جب تمھیں سخت بھوک لگے توتمھارے لیے ایک رو ٹی اور پانی کا ایک پیالہ کافی ہے اور دنیا پر راکھ ڈالو (یعنی اسے چھوڑ دو)۔ (شعب الایمان للبیھقی، باب فی الزھد وقصر الأمل، الحدیث۱۰۳۶۶،ج۷،ص۲۹۵) قناعت تین چیزو ں کا مرکب ہے: (۱) صبر (۲) علم اور (۳) عمل۔(۱)۔۔۔۔۔۔پہلی چیز عمل ہے یعنی معیشت میں اعتدال او رخرچ میں کفایت اختیار کرنا۔ جو شخص قناعت میں بزرگی چاہتا ہے اسے چاہے کہ کم خرچ کرے۔ حدیث ِ پاک میں ارشاد ہے: ''اَلتَّدْ بِیْرُ نِصْفُ الْمَعِیْشَۃِ یعنی:تد بیر سے کام لینا نصف معیشت ہے۔'' (فردوس الاخبار للدیلمی، باب التاء، الحدیث۲۲۴۰،ج۱،ص۳۰۷) (۲)۔۔۔۔۔۔ دوسری چیز خواہشات کم رکھنا ہے تاکہ وہ کسی دوسرے حال میں بھی حاجت کی وجہ سے پریشان نہ ہو۔(۳)۔۔۔۔۔۔ تیسری یہ کہ وہ اِس بات کو جان لے کہ قناعت میں عزت ہے اور سوال کرنے سے بچت ہے جب کہ طمع میں ذلت ہی ذلت ہے، پس اس طرح فکر مدینہ کرتے ہوئے اس (حرص ) سے جان چھڑالے۔ایثار و سخاوت کی خوبیاں اور بخل و کنجوسی کی برائیاں: جب مال نہ ہو تو بندے کو قناعت اختیار کرنی چاہے۔ اگر مال موجود ہو تو ایثار اور سخاوت سے کام لینا چاہیے، بخل اور کنجوسی نہیں کرنا چاہیے۔ تاج دارِ کائنات ﷺ کافرمانِ عالی شان ہے : ''سخاوت جنت کے درختو ں میں سے ایک درخت ہے جس کی ٹہنیاں زمین کی طر ف جھکی ہوئی ہیں، جو شخص اس سے ایک ٹہنی لیتا ہے تو وہ اسے جنت کی طر ف لے جاتی ہے او ر بخل جہنم کا ایک درخت ہے، جو بخیل ہوتاہے وہ اس کی ٹہنیوں سے ایک ٹہنی لے لیتا ہے اور وہ ٹہنی اسے نہیں چھوڑتی حتی کہ اسے جہنم میں داخل کر دیتی ہے۔'' (الکامل فی ضعفاء الرجال لابن عدی، الرقم۶۶۔ابراھیم بن اسماعیل بن ابی حبیبۃ، ج۱،ص۳۸۳)تاج دارِ کائنات ﷺ کافرمانِ خوشبودارہے:''حضرت جبرائیل علیہ السلام فرماتے ہیں کہ'' پروردگارِ کائنات نے ارشاد فرمایا:''یہ وہ دین ہے جسے میں نے اپنے لیے پسند کیا او ر اس کی اصلاح سخاوت اور حسنِ اَخلاق پر منحصر ہے، پس جس قدر ہوسکے ان دونوں چیزوں کے ذریعے اس کی عزت کرو۔'' (الکامل فی ضعفاء الرجال لابن عدی، الرقم۱۰۰۳، عبداﷲ بن ابراھیم، ج۵،ص۳۱۴) ایک دو سری روایت میں ارشاد فرمایا: ''فَأکْرِمُوْہ، بِھِمَا مَا صَحِبْتُمُوْہ، یعنی: جب تک اس دین پر رہو ان دونوں چیزوں کے ذریعے اس کا احترام کرو۔'' (المرجع السابق)تاج دارِ کائنات ﷺ کافرمانِ عزت نشان ہے:مَا حَبَلُ اللہُ وَلِیًّا إلَّا عَلَی السَّخَاءِ وَحُسْنِ الْخُلْقِ۔یعنی: پروردگارِ کائنات نے ہر ولی کو فطرتاً حُسنِ اَخلاق اور سخاوت کی خوبی عطا فرمائی۔(الکامل فی ضعفاء الرجال لابن عدی، الرقم۲۴،احمد بن عبد الرحمٰن بن الحارث، ج۱، ص۳۰۸) حضرت سیِّدُنا جابربن عبد اللہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، آپ تاج دارِ کائنات ﷺ کی بارگاہ میں عرض کیا گیا: ''یا رسول پروردگارِ کائنات وتاج دارِ کائنات ﷺ !کون سا ایمان افضل ہے ؟''آپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: ''ألصَّبْرُ وَالسَّمَاحَۃُ یعنی: صبر اور سخاوت۔'' (مسند ابی یعلی الموصلی، مسند جابر بن عبد اﷲ، الحدیث۱۸۴۹،ج۲، ص۲۲۰) اُمُّ المؤمنین حضرت سیِّدُتُناعائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ حضرت سیِّدُنا عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ نے آپ رضی اللہ عنہا کی طر ف دو تھیلوں میں ایک لاکھ اسی ہزار درہم بھیجے، آپ رضی اللہ عنہا نے ایک تھال منگوایا اور ان دراہم کو لوگوں میں تقسیم کرنا شروع کر دیا۔ جب شام کا وقت ہوا تو فرمایا:''اے لڑکی ! ہماری افطاری لاؤ۔'' وہ روٹی اور زیتون لے کر آئیں۔ حضرت سیِّدَتُنا ام درہ رضی اللہ عنہا نے عرض کی:'' آپ رضی اللہ عنہا نے آج مال تقسیم فرمایا، اگر ایک درہم کا گوشت خرید لیتیں تو ہم اس سے افطاری کرلیتے ؟'' آپ رضی اللہ عنہا نے ارشاد فرمایا:'' اگر تم یا د دلاتی تو میں ایسا کرلیتی۔''پروردگارِ کائنات نے ارشاد فرمایا: (1) وَ مَنۡ یُّوۡقَ شُحَّ نَفْسِہٖ فَاُولٰٓئِکَ ہُمُ الْمُفْلِحُوۡنَ ﴿ۚ9﴾یعنی:اور جو اپنے نفس کے لالچ سے بچایا گیا تو وہی کامیاب ہیں۔(پ 28،الحشر:9) (2) وَلَا یَحْسَبَنَّ الَّذِیۡنَ یَبْخَلُوۡنَ بِمَاۤ اٰتٰىہُمُ اللہُ مِنۡ فَضْلِہٖ ہُوَ خَیۡرًا لَّہُمْ ؕ بَلْ ہُوَ شَرٌّ لَّہُمْ ؕ سَیُطَوَّقُوۡنَ مَا بَخِلُوۡا بِہٖ یَوْمَ الْقِیٰمَۃِ ؕیعنی: او رجو بخل کرتے ہیں اس چیز میں جو اللہ نے انہیں اپنے فضل سے دی ہر گز اسے اپنے لیے اچھا نہ سمجھیں بلکہ وہ ان کے لیے برا ہے عنقریب وہ جس میں بخل کیا تھا قیامت کے دن ان کے گلے کا طو ق ہو گا۔(پ4، اٰل عمران:180) حضور نبئ کریم،رء ُوف رحیم تاج دارِ کائنات ﷺ کافرمانِ عالی شان ہے:'' بُخل سے بچو کیوں کہ اسی نے تم سے پہلے لوگوں کو ہلاک کیا، اُن کو ایک دوسرے کا خون بہانے اور حرام چیز وں کو حلال ٹھہرانے پر برانگیختہ کیا۔''(صحیح مسلم، کتاب البروالصلۃ، باب تحریم الظلم، الحدیث۶۵۷۶،ص۱۱۲۹) حضرت سیِّدُنا عیسیٰ علیٰ نبیناوعلیہ الصلوٰۃو السلام نے ارشاد فرمایا:'' بخیل ، مکاّر ، خیانت کرنے والا اور بد اخلاق جنت میں نہیں جائیں گے۔''سخاوت میں سب سے بلند درجہ ایثار کا ہے،اس کا معنی یہ ہے کہ اپنی ضرورت کے باوجود مال کے ساتھ سخاوت کرنا اور پروردگارِ کائنات نے صحابۂ کرام علیہم الرضوان کی تعریف کرتے ہوئے ارشاد فرمایا:وَ یُؤْثِرُوۡنَ عَلٰۤی اَنۡفُسِہِمْ وَلَوْ کَانَ بِہِمْ خَصَاصَۃٌ ؕ۟یعنی:ا ور اپنی جانوں پر ان کو ترجیح دیتے ہیں اگرچہ انہیں شدیدمحتاجی ہو۔(پ 28 ، الحشر: 9) نبئ رحمت،شفیعِ امت،قاسمِ نعمت تاج دارِ کائنات ﷺ نے ارشاد فرمایا:أیُّمَا رَجُلٍ إشْتَھٰی شَہْوَۃً فَرَدَّ شَہْوَتَہ، وَآثَرَ عَلٰی نَفْسِہٖ غُفِرَلَہٗ۔یعنی: جو شخص کسی چیز کی خواہش رکھتاہو پھر اپنی خواہش ترک کر دے اور دو سرے کو اپنے اوپر تر جیح دے تو اس کی بخشش کر دی جائے گی ۔(الکامل فی ضعفاء الرجال لابن عدی، الرقم۱۲۸۹۔عمرو بن خالد، ج۶، ص۲۲۳) تاج دارِ کائنات ﷺ کی خدمت میں ایک مہمان آیا تاج دارِ کائنات ﷺ نے اپنے گھر میں کچھ نہ پایا تو ایک انصاری تاج دارِ کائنات ﷺ کی بارگاہ میں حاضر ہو ئے اور مہمان کو اپنے گھر لے گئے پھر اس کے سامنے کھانا رکھا اوربیوی کو چر اغ بجھانے کا حکم دیا، خود کھانے کی طر ف ہاتھ بڑھاتے رہے جیسے کھا رہے ہوں حالانکہ کھا نہیں رہے تھے یہاں تک کہ مہمان نے کھانا کھالیا۔ جب صبح ہوئی تو رسول پروردگارِ کائنات و تاج دارِ کائنات ﷺ نے ارشاد فرمایا:لَقَدْ عَجَبَ اللہُ مِنْ صَنِیْعِکُمْ إلٰی ضَیْفِکُمْ ۔یعنی:تمھارا اپنے مہمان سے(حسنِ)سلوک سے پیش آنا پروردگارِ کائنات کو بہت پسند آیا۔(صحیح مسلم، کتاب الأشربۃ، باب اکرام الضیف ۔۔۔۔۔۔الخ، الحدیث۵۳۵۹،ص۱۰۴۵)تو یہ آیتِ کریمہ نازل ہوئی:وَ یُؤْثِرُوۡنَ عَلٰۤی اَنۡفُسِہِمْ وَلَوْ کَانَ بِہِمْ خَصَاصَۃٌ ؕ۟یعنی:ا ور اپنی جانوں پر ان کو ترجیح دیتے ہیں اگر چہ انہیں شدیدمحتاجی ہو۔(پ 28 ، الحشر: 9)بخل کا سبب مال کی محبت ہے او رمال کی محبت کے دو اسباب ہیں۔(۱)۔۔۔۔۔۔پہلا سبب خواہشات کی محبت ہے جن تک مال کے بغیر پہنچنا ممکن نہیں اور اس کے ساتھ لمبی زندگی کی اُمید بھی ہوتی ہےکیوں کہ اگر اسے یقینی طور پر معلوم ہو کہ وہ ایک دن یا ایک مہینے بعد مرجائے گا تو پھر مال خر چ کرنے میں سخاوت سے کام لے اور اگر امید کم ہو تو اس طویل امید کی جگہ اولاد آجاتی ہے تووہ اُن کے لیے مال روک کر رکھتا ہے۔ اسی لیے نبئ اَکرم،نورِ مجسّم،شہنشاہِ بنی آدم تاج دارِ کائنات ﷺ نے ارشادفرمایا:ألْوَلَدُ مَبْخَلَۃٌ مَجْبَنَۃٌ مَجْھَلَۃٌ۔یعنی: اولادبخل ، بزدلی اور جہالت میں مبتلا کرنے والی ہے۔(سنن ابن ماجۃ، ابواب الادب، باب بر الوالدوالاحسان ۔۔۔۔۔۔الخ، الحدیث۳۶۶۶،ص۲۶۹۶، بدون: مجھلۃ) اور جب اس کے ساتھ ساتھ فقر کا خوف ہو اوررزق کے آنے کا پختہ یقین نہ ہو تو لامحالہ بخل مضبوط ہوجاتا ہے۔(۲)۔۔۔۔۔۔دوسرا سبب یہ ہے کہ وہ مال سے محبت کرتاہے حالانکہ وہ جانتا ہے کہ اسے اس مال کی کبھی ضرورت نہ پڑے گی کیوں کہ وہ بوڑھا ہوتا ہے اور اس کی اولاد بھی نہیں ہوتی لیکن وہ محض مال سے محبت کرتا ہے، یہ دل کا پرانا مرض ہے اور ہم پروردگارِ کائنات سے پناہ مانگتے ہیں۔ ایسے شخص کی مثال اس آدمی کی طر ح ہے جو کسی پر عا شق ہوجاتا ہے پھر اس کے قاصد(یعنی پیغام دینے والے) سے محبت کرنے لگ جاتا ہے اور اسے بھول جاتا ہے کیوں کہ درہم ودینار کامقصدحاجات تک پہنچناہے جب کہ یہ شخص مقصد کو بھول گیا اور وسیلہ وواسطہ پر عاشق ہوگیا اور جو شخص درہم اور پتھر میں سوائے حاجات کے پور ا کرنے کے کوئی فرق کرے، وہ جاہل ہے۔ جان لیجئے! بخل کا علاج یہ ہے کہ خواہشات اورامید کم کرے اور کثرت سے موت کویا د کرے نیز ہم عصر لوگو ں کی موت میں غورو فکر کرے ، قبر وں کی زیارت اور ان میں جو کیڑے مکوڑے ہیں ،ان میں غور وفکر کرے اور ان احوال میں سوچ و بچار کرے۔ اور اگر دل کی تو جہ اولاد کی طر ف ہو تو اس کا علاج یوں کرے کہ ان کو پیدا کرنے والے نے ان کا رزق بھی پیدا فرمایا ہے اور کتنے ہی بچے ایسے ہیں جو میر اث پاتے ہیں لیکن وہ ان کا رزق نہیں ہوتا اور کتنے ہی بچے ایسے ہیں کہ وہ مالِ وراثت نہیں پاتے لیکن پروردگارِ کائنات مال کی صورت میں انہیں رزق عطافرمادیتا ہے۔اگر اس کی اولاد نیک ہوگی تو پروردگارِ کائنات نیک لوگوں کا والی ہے اور اگر فاسق ہوگی تو پروردگارِ کائنات ان جیسو ں کو مسلمانوں میں زیادہ نہ کرے کیوں کہ وہ اپنے مال سے گناہوں پر مدد حاصل کرتے ہیں اور بخل سے چھٹکارے کا نفع بخش طریقہ یہ بھی ہے کہ وہ اس بات پر غور کرے کہ لوگ بخیلوں کی مذمت کرتے ہیں اور ان سے نفرت کرتے ہیں اورسخاوت کرنے والوں کی تعریف کرتے اور ان میں رغبت رکھتے ہیں۔ پروردگارِ کائنات نے ارشاد فرمایا:اَلشَّیۡطٰنُ یَعِدُکُمُ الْفَقْرَ وَیَاۡمُرُکُمۡ بِالْفَحْشَآءِ ۚیعنی:شیطان تمھیں اندیشہ دلاتا ہے محتاجی کا اور حکم دیتا ہے بے حیائی کا ۔(پ3،البقرہ:268) شاید یہ بات اسے فائدہ دے۔حُبِّ جاہ اورریاکاری کی برائیاں بے شک جاہ و منصب دِلوں کو پسند ہے، اِسے صرف صدیقین ہی ترک کرتے ہیں، اسی لیے کہاگیاہے کہ ''صدیقین کے ذہنوں سے نکلنے والی آخری چیز سرداری کی محبت ہے ۔''اب ہم چند فصلوں میں اس کی غرض بیان کرتے ہیں۔جاہ کا مطلب شہرت کا پھیل جانا ہے اور یہ مذموم ہے مگر اس شخص کے لیے نہیں جسے پروردگارِ کائنات اپنا دین پھیلانے کے لیے مشہور کردے۔ حضرت سیِّدُنااَ نَس ر ضی اللہ تعالیٰ عنہ بیا ن فرماتے ہیں کہ تاج دارِ کائنات ﷺ کا فرمانِ عالی شان ہے:حَسْبُ إمْرِئٍ مِنَ الشَّرِّ، إلَّا مَنْ عَصَمَہ، اللہُ تَعَالٰی، أنْ یُشِیْرَ النَّاسُ إلَیْہِ بِالْأصَابِعِ فِیْ دِیْنِہٖ وَدُنْیَاہ،۔یعنی:کسی انسان کے لیے برائی کے طور پراتنا ہی کافی ہے کہ لوگ اس کے دین یا دنیا کے معاملے میں اس کی طرف انگلیوں سے اشارے کریں البتہ جسے پروردگارِ کائنات محفو ظ فرمائے۔(شعب الایمان للبیھقی، باب فی اخلاص العمل ﷲ۔۔۔۔۔۔الخ، الحدیث۶۹۷۷،ج۵،ص۳۶۶۔۳۶۷) امیر المؤمنین ،مولیٰ مشکل کشاحضرت سیِّدُناعلی المرتضیٰ کَرَّمَ اللہُ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْم ارشاد فرماتے ہیں:''خرچ کرو لیکن شہرت نہ چاہو، اپنی شخصیت کو اس طر ح بلند نہ کرو کہ تمھاراذکر کیا جائے اور لوگ تمھیں جانیں بلکہ اپنے آپ کو چھپا کر رکھو اور خاموشی اختیار کرو محفو ظ رہوگے، اس طر ح نیک لوگ تم سے خوش ہوں گے اور بد کاروں کو غصہ آئے گا۔'' حضرت سیِّدُنا ابراہیم بن ادہم علیہ رحمۃاللہ الاکرم نے ارشاد فرمایا:''جس نے شہرت کو اچھا سمجھا اس نے پروردگارِ کائنات کی تصدیق نہیں کی۔'' حضرت سیِّدُنا طلحہ ر ضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ایک گروہ کو اپنے ساتھ چلتے دیکھا تو فرمایا :''یہ طمع کی مکھیاں اور جہنم کے بچھونے ہیں ۔ '' حضرت سیِّدُنا سلیمان بن حنظلہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ''ہم حضرت سیِّدُنا اُبی ّبن کعب رضی اللہ عنہ کے ساتھ ان کے پیچھے پیچھے چل رہے تھے کہ امیر المؤمنین حضرت سیِّدُناعمر فاروق ر ضی اللہ تعالیٰ عنہ نے انہیں دیکھا تو اپنا کوڑا بلند کردیا، انھوں نے عرض کی:'' اے امیر المؤمنین !دیکھئے، آپ کیا کر رہے ہیں؟'' آپ رضی اللہ عنہ نے ارشاد فرمایا:'' یہ طریقہ پیچھے چلنے والے کے لیے ذِلَّت او ر آگے چلنے والے کے لیے فتنہ ہے۔'' حضرت سیِّدُنا حسن رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں، ایک دن حضرت سیِّدُنا عبداللہ ابن مسعود ر ضی اللہ تعالیٰ عنہ گھر سے نکلے تولوگ آپ کے پیچھے ہولیے، آپ رضی اللہ عنہ نے ان کی طر ف متوجہ ہو کر فرمایا: ''تم میر ے پیچھے کیوں چلتے ہو ؟پروردگارِ کائنات کی قسم! جس وجہ سے میں اپنا دروازہ بند رکھتا ہوں اگر تمھیں معلوم ہو جائے تو تم میں سے کوئی آدمی میرے پیچھے نہ چلے۔'' حضرت سیِّدُنا حسن رضی اللہ عنہ ارشاد فرماتے ہیں: ''اگر مَردوں کے پیچھے لوگوں کے جوتوں کی آوازیں آنے لگیں تو ایسے مواقع پر احمقوں کے دل کم ہی قابو میں رہتے ہیں۔'' تاج دارِ کائنات ﷺ کافرمانِ فرمانِ عالی شان ہے:رُبَّ اَشْعَثَ اَغْبَرَ،ذِیْ طِمْرَیْنِ،لَا یُؤبَہ،،لَہٗ لَوْ اَقْسَمَ عَلَی اللہِ لَاَبَرَّہ،،مِنْھُمُ البَرَاءُ بْنُ مَالِکٍ۔یعنی:بہت سے بکھرے بالوں ،گَردآلود چہروں اور دو پرانے کپڑو ں والے لوگ ،جن کو حقیر سمجھا جاتا ہے اگر وہ پروردگارِ کائنات پر قسم کھالیں تو وہ اسے ضرورپورا فرماتا ہے، انہی میں سے حضرت براء بن مالک رضی اللہ عنہ بھی ہیں۔(جامع الترمذی، ابواب المناقب، باب مناقب البراء ابن مالک، الحدیث۳۸۵۴،ص۲۰۴۷) حضرت سیِّدُنا عبداللہ بن مسعود ر ضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبئ رَحمت،شفیعِ اُمّت،قاسمِ نعمت تاج دارِ کائنات ﷺ کافرمانِ عالی شان ہے: '' دو بوسیدہ کپڑوں میں ملبوس کئی لوگ ایسے ہیں جن کی طرف توجہ نہیں دی جاتی،اگر وہ پروردگارِ کائنات پر قسم کھا لیں تو وہ اسے پورا فرماتا ہے، اگر وہ یوں کہہ دے:''اے پروردگارِ کائنات! میں تجھ سے جنت کا سوال کرتا ہوں تو پروردگارِ کائنات اسے جنت عطا فرماتا ہے لیکن اسے دنیا میں سے کچھ نہیں دیتا۔''(فردوس الاخبار للدیلمی،باب الراء، الحدیث۳۰۶۶،ج۱، ص۴۱۲)(البحر الزخار بمسند البزار، مسند عبد اﷲ بن مسعود، الحدیث۲۰۳۵ج۵،ص۴۰۳۔۴۰۴) حضرت سیِّدُنا ابوہریرہ ر ضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے، حضور نبئ پاک، صاحبِ لَولاک، سیّاحِ اَفلاک تاج دارِ کائنات ﷺ کا فرمانِ عزت نشان ہے: ''بے شک پراگندہ بالوں ،گَر د آلود چہروں اور دو بوسیدہ کپڑو ں والے لوگ جنتی ہیں، جنہیں لوگ حقیر سمجھتے ہیں،جب وہ اُمراء کے پاس جانے کی اجازت طلب کرتے ہیں تو ان کو اجازت نہیں دی جاتی،جب عورتوں کو نکاح کا پیغام دیتے ہیں تو ان سے نکاح نہیں کیا جاتا، جب وہ بات کرتے ہیں تو ان(کی بات سننے )کے لیے خاموشی اختیار نہیں کی جاتی، ان کی ضروریات ان کے سینوں میں حرکت کرتی ہیں، اگر بروزِ قیامت ان کا نور لوگوں میں تقسیم کیا گیا توتمام لوگوں کو کافی ہو جائے گا۔'' (شعب الایمان للبیھقی، باب فی الزھد وقصر الأمل، الحدیث۱۰۴۸۶،ج۷،ص۳۳۳) مروی ہے کہ امیر المؤمنین حضرت سیِّدُناعمر فاروق اعظم رضی اللہ عنہ مسجد میں داخل ہوئے تو حضرت سیِّدُنامعا ذ بن جبل ر ضی اللہ تعالیٰ عنہ کو سرکار دوعالم تاج دارِ کائنات ﷺ کی قبرِ انور کے پاس روتے ہوئے دیکھا ،پوچھا :کیوں روہے ہو؟ انھوں نے جواب دیا: میں نے رسول پروردگارِ کائنات وتاج دارِ کائنات ﷺ کو یہ ارشاد فرماتے ہوئے سنا :'' تھوڑا سا دِکھاوا بھی شر ک ہے، بے شک پروردگارِ کائنات متقی پوشیدہ رہنے والے لوگو ں کو پسندفرماتا ہے، جب وہ غا ئب ہوں تو لوگ انہیں تلاش نہیں کرتے اور جب کہیں آئیں تو ان کو کوئی پہچانتا نہیں، ان کے دل ہدایت کے چرا غ ہیں، وہ ہر گردآلوداندھیرے مقام سے نجات پاتے ہیں۔'' (سنن ابن ماجۃ، ابواب الفتن، باب من ترجی لہ السلامۃ من الفتن، الحدیث۳۹۸۹،ص۲۷۱۶، ینجون: بدلہ: یخر جون) حضرت سیِّدُنا عبداللہ بن مسعود ر ضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا: (اے لوگو!) علم کے چشمے اور ہدایت کے چراغ بنو، گھرو ں کو(چٹائی کی طرح) لازم پکڑو، رات کے چراغ بنو اور تا زہ دِل رہو ، تمھارے کپڑے پرانے ہوں تو اہل آسمان تمھیں پہچا نیں گے اگرچہ تم اہلِ زمین کے نزدیک کمتر سمجھے جاؤ۔''پروردگارِ کائنات کا فرمان عالی شان ہے:تِلْکَ الدَّارُ الْاٰخِرَۃُ نَجْعَلُہَا لِلَّذِیۡنَ لَا یُرِیۡدُوۡنَ عُلُوًّا فِی الْاَرْضِ وَلَا فَسَادًا ؕیعنی:یہ آخرت کا گھر ہم ان کے لیے کرتے ہیں جو زمین میں تکبر نہیں چاہتے اور نہ فساد۔(پ 20 ،القصص:83) جان لیجئے! جاہ ومرتبہ کی حقیقت یہ ہے کہ انسان لوگوں کے د لوں کا مالک ہو جائے جیسا کہ مال دار ہونے کا مطلب درہم ودینار کا مالک ہونا ہے اور جس طر ح صاحب مال اپنے مال کے ذریعے اپنے مقاصد تک پہنچ جاتا ہے، اسی طرح دلوں کا مالک ا س کے ذریعے اپنے مقاصد تک پہنچ جاتا ہے، جاہ ومرتبہ بھی ایک مقصد ہے اور جس طر ح مال مختلف قسم کے پیشوں سے کمایا جاتا ہے اسی طرح مختلف معاملات کے ذریعے دلوں کو اپنی طرف مائل کیا جاتا ہے اور دل پختہ اعتقاد سے ہی مسخر ہوتے ہیں پس جس شخص کے دل میں کسی شخص کے کامل اوصاف کاپختہ یقین ہو جائے تو اس کا دل اس کی طرف مائل ہو جائے گا بلکہ لوگو ں کے دلوں کامالک ہونے کا مطلب یہ ہے کہ اسے اپنا بندہ و غلام بنانا ہے اور جب مال محبوب ہے تو جاہ ومرتبہ اسے بد رجہ اولیٰ پسند ہوگا۔ جان لیجئے! جاہ ومرتبہ بلندی اور ملکیت کو طلب کرنے والی روح کی غذا ہے جب کہ روح پروردگارِ کائنات کے عالَم ِ امر سے ہے جو ربو بیت ، بلندی اور لوگو ں کو اپنا بندہ بنانے کا مطالبہ کرتی ہے، کمال کو پسند کرتی اور اسے طلب کرتی ہے، اسی بناء پر تم دیکھتے ہو کہ جو بھی جاہ کا طالب ہوتا ہے وہ اس ارادہ سے جدا نہیں ہوتا(یعنی وہ بلندی وغیرہ کا ارادہ رکھتا ہے )۔ جان لیجئے! تعریف سے نفس کو خوشی اور فر حت ہوتی ہے کیوں کہ تعریف میں اس کے کامل ہونے کا احساس ہوتا ہے اور نفس کامل سے محبت کرتاہے اور اس کے بر عکس مذمت کوناپسند کرتا ہے کیوں کہ اس میں ناقص ہونے کا شعور پایا جاتاہے اور نفس ناقص چیز کو ناپسند کرتا ہے۔جو جاہ ومرتبہ کی محبت میں مبتلا ہوجائے تو اس کاسارا مقصد حبِّ جاہ اور اس میں مزید اضافہ کی طلب ہی رہ جاتی ہے اور وہ مخلوق کے دلوں کا شکاری بن جاتا ہے اور یہ چیز اسے ریاء اور نفاق کی طر ف لے جاتی ہے، اسی لیے نبئ کریم، رء ُوف رحیم تاج دارِ کائنات ﷺ نے اسے (یعنی مال وجاہ کی محبت کو) دو خونخوار بھیڑیوں سے تشبیہ دی جو بکریوں کے ریوڑ میں ہوتے ہیں ۔'' (جامع الترمذی، ابواب الزھد، باب ماذئبان جائعان ۔۔۔۔۔۔الخ، الحدیث۲۳۷۶،ص۱۸۹۰، ضاریان بدلہ جائعان)تاج دارِ کائنات ﷺ کافرمانِ عالی شان ہے: '' إنَّہ، یُنْبِتُ النِّفَاقَ کَمَا یُنْبِتُ الْمَاءُ الْبَقَلَ یعنی:یہ (یعنی مال وجاہ کی محبت دل میں ) نفاق کو ایسے اُگاتی ہے جیسے پانی سبزی کواُگاتا ہے۔'' (السنن الکبری للبیھقی، کتاب الشھادات، باب الرجل یغنی۔۔۔۔۔۔الخ، الحدیث۲۱۰۰۸،ج۱۰،ص۳۷۷۔۳۷۸) اس کاعلمی علاج یہ ہے کہ انسان یہ بات جان لے کہ اس کامقصد دِلوں پر مالک ہونا ہے اور ہم نے بیان کردیا ہے کہ اگر یہ بات صحیح طور پر حاصل ہو بھی جائے توموت تک باقی رہتی ہے لہٰذا یہ باقی رہنے والے اعمال صالحہ میں سے نہیں بلکہ اگر مشرق ومغرب تک تمام روئے زمین کے لوگ تجھے سجدہ بھی کریں تو پچاس سال تک نہ سجدہ کرنے والے رہیں گے اور نہ تُوباقی رہے گا اور تمھارا حال جاہ ومرتبہ رکھنے والے ان لوگو ں کی طر ح ہو جائے گا جو مر چکے ہیں اور یہ وہمی کمال ہے جس کی کوئی حقیقت نہیں کیوں کہ یہ موت کے ساتھ ختم ہوجاتا ہے اور یہ ایسے ہی ہے جیسے حضرت سیِّدُنا حسن بصری علیہ الرحمہ نے حضرت سیِّدُنا عمر بن عبدالعزیز علیہ الرحمہ کولکھا:''امَّا بعد(یعنی حمد وصلوٰۃ کے بعد)! گویا آپ وہ آخری شخص ہیں جس پر موت لکھی گئی ہے اور وہ مر گیا ہے۔'' تو حضرت سیِّدُنا عمر بن عبدالعزیز علیہ الرحمہ نے جواب میں لکھا:''امَّا بعد! گویا آپ دنیا میں آئے ہی نہیں اور ہمیشہ آخرت میں رہے ۔'' ان لوگو ں کی نگاہ انجام کی طرف تھی اور انہیں معلوم تھاکہ جو چیز آنے والی ہے، وہ قریب ہے۔ ہمارے اسلاف رحمہم اللہ تعالیٰ نے کئی طریقوں سے اس کا علاج کیا مثلاً اُن میں سے کسی نے حلال مشروب پیاجو شراب کے مشابہ ہے، لوگوں نے اسے چھوڑ دیا اور سو چا کہ یہ شراب پینے والا ہے، ان میں سے کوئی شخص زاہد معروف تھا، پس وہ حمام میں گیا اور کسی دو سرے کا لبا س پہن کر نکلا اور راستے میں ٹھہر گیا یہاں تک کہ لوگوں نے اسے پہچا ن لیا اوراسے پکڑ کرلباس اتر وا کرخوب مارا اور کہا:'' یہ شخص چور ہے اور یوں لوگوں نے انہیں چھوڑ دیا۔'' جاہ ومرتبہ کو تر ک کرنے کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ لوگو ں سے علیحدگی اختیار کر کے ایسی جگہ چلاجائے جہاں اسے کوئی نہ جانتا ہو کیوں کہ جو شخص اپنے شہر میں گو شہ نشینی اختیار کرتاہے تویہ بھی ریا کی ایک قسم ہے کہ لوگو ں کو اس کی گو شہ نشینی کاعلم ہوگا اور اس سے وہ لوگو ں میں زیادہ مشہور ومعروف ہوجائے گا۔ ہم نے بیان کیا ہے کہ جاہ ومرتبہ کی چاہت کا سبب کمال وہمی ہے تب تو نے جان لیا کہ اس کی کوئی حقیقت نہیں سوائے فوری (یعنی دنیاوی) فائدہ کے کچھ فائدہ نہیں جب کہ آخرت میں تو اس کا کوئی فائدہ ہے ہی نہیں۔ اگر مدح کسی دینی امر کے سبب ہو تو یہ بھی اسی طرح حرص ہی ہے کیوں کہ دینی معاملے کا کمال تو اچھے خاتمہ کے ساتھ اور اس خطرہ سے چھٹکارے کے بعد ہی ہے ۔ریاکاری کی برائیاں''اخروی امور،اعمالِ صالحہ ،علم دین پڑھنے اورپڑھانے میں دنیاوی فوائد کے حصول کی نیت کرنے کو''ریا'' کہتے ہیں اور اس ارادۂ دنیا کے لیے اس پر کسی قسم کاجبر بھی نہ کیا گیا ہو۔''ابوعبداللہ حارث بن اسد محاسبی علیہ رحمۃاللہ الولی ارشادفرماتے ہیں: ''بندے کا پروردگارِ کائنات کی اطاعت میں لوگوں کی نیت کرنا ریاء ہے۔''(الحدیقۃ الندیۃ،الخلق التاسع من الاخلاق الستین المذمومۃ،ج۱،ص ۴۶۱)ریا کاری حرام ہے اور ریاء کار پر پروردگارِ کائنات کاغضب ہوتا ہے، اس پر پروردگارِ کائنات کے یہ فرامین دلالت کرتے ہیں۔ چنانچہ،پروردگارِ کائنات ارشادفرماتاہے: (1) فَوَیۡلٌ لِّلْمُصَلِّیۡنَ ۙ﴿4﴾الَّذِیۡنَ ہُمْ عَنۡ صَلَاتِہِمْ سَاہُوۡنَ ۙ﴿5﴾الَّذِیۡنَ ہُمْ یُرَآءُوۡنَ ۙ﴿6﴾یعنی: توان نمازیوں کی خرابی ہے جو اپنی نماز سے بھولے بیٹھے ہیں وہ جو دکھاوا کرتے ہیں۔(پ30،الماعون:4تا6)(2) فَمَنۡ کَانَ یَرْجُوۡ لِقَآءَ رَبِّہٖ فَلْیَعْمَلْ عَمَلًا صَالِحًا وَّ لَا یُشْرِکْ بِعِبَادَۃِ رَبِّہٖۤ اَحَدًا ﴿110﴾٪یعنی: تو جسے اپنے رب سے ملنے کی امید ہو اسے چاہے کہ نیک کام کرے اور اپنے رب کی بندگی میں کسی کوشریک نہ کرے۔ (پ16، الکہف:110)تاج دارِ کائنات ﷺ کی بارگاہ میں عرض کیا گیا:''یا رسول پروردگارِ کائنات وتاج دارِ کائنات ﷺ ! نجات کس چیز میں ہے؟'' آپ تاج دارِ کائنات ﷺ نے ارشاد فرمایا:أنْ لَا یَعْمَلَ الْعَبْدُ بِطَاعَۃِ اللہِ تَعَالٰی یُرِیْدُ بِھَا النَّاسَ۔یعنی:بندہ پروردگارِ کائنات کی عبادت لوگو ں کودکھانے کے لیے نہ کرے۔تاج دارِ کائنات ﷺ کافرمانِ عالی شان ہے: ''مجھے تم پر سب سے زیادہ خوف شرکِ اصغر کاہے۔'' صحابۂ کرام علیہم الرضوان نے عرض کی:''یا رسول پروردگارِ کائنات و تاج دارِ کائنات ﷺ ! شرکِ اصغر کیا ہے؟'' آپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: ''ریاء کاری۔''(پھر فرمایا)بروزِ قیامت جب بندہ اپنے اعمال لے کر حاضر ہو گاتو پروردگارِ کائنات ارشاد فرمائے گا:''ان لوگوں کے پاس جاؤ جن کے لیے دنیا میں دکھاواکرتے تھے اور دیکھو!کیا اُن کے پاس کوئی بدلہ پاتے ہو۔'' (المسند للامام احمد بن حنبل، حدیث محمود بن لبید، الحدیث۲۳۶۹۲،ج۹،ص۱۶۰) نور کے پیکر، تمام نبیوں کے سَرْوَر، دو جہاں کے تاجْوَر، سلطانِ بَحرو بَر تاج دارِ کائنات ﷺ کافرمانِ فرمانِ عالی شان ہے: ''جُبُّ الْحُزْن( یعنی غم کے کنوئیں)سے پروردگارِ کائنات کی پناہ مانگو۔'' صحابۂ کرام علیہم الرضوان نے عرض کی:''یا رسول پروردگارِ کائنات و تاج دارِ کائنات ﷺ ! وہ کیا ہے ؟''آپ تاج دارِ کائنات ﷺ نے ارشاد فرمایا:وَادٍ فِیْ جَھَنَّمَ أُعِدَّ لِلْقُرَّاءِ الْمُرَائِیْنَ۔یعنی یہ جہنم کی ایک وادی ہے جو ریاکارقاریوں کے لیے بنائی گئی ہے۔(سنن ابن ماجۃ، کتاب السنۃ، باب الانتفاع بالعلم والعمل بہ، الحدیث۲۵۶،ص۲۴۹۳)حضرت سیِّدُنا عبداللہ بن مبارک علیہ الرحمہ اپنی سند کے ساتھ ایک شخص سے روایت کرتے ہیں، انھوں نے حضرت سیِّدُنامعا ذ بن جبل ر ضی اللہ تعالیٰ عنہ سے عرض کی: ''مجھے کوئی حدیث سنائیے جو آپ نے نبئ اَکرم تاج دارِ کائنات ﷺ سے سنی ہو۔'' راوی فرماتے ہیں:'' حضرت سیِّدُنا معا ذ ر ضی اللہ تعالیٰ عنہ روپڑے یہاں تک کہ میں نے گمان کیاکہ وہ خاموش نہ ہوں گے۔''جب آپ خاموش ہوئے توارشاد فرمایا: میں نے نبئ اَکرم تاج دارِ کائنات ﷺ کویہ ارشاد فرماتے ہوئے سنا:''اے معاذ ! میں نے عرض کی:'' میرے ماں باپ آپ پر قربان ! میں حاضر ہوں۔''توپیارے آقاتاج دارِ کائنات ﷺ نے ارشادفرمایا:'' میں تم سے ایک حدیث بیان کرتا ہوں ،اگر تم نے اسے یاد رکھا تو وہ تمھیں نفع دے گی اور اگر ضائع کردیا یا اس کی حفاظت نہ کی تو بروزِ قیامت پروردگارِ کائنات کی بارگاہ میں تمھاری کوئی دلیل کام نہ آئے گی۔'' (پھر فرمایا)اے معاذ! بے شک پروردگارِ کائنات نے آسمان و زمین کو پیدا کرنے سے پہلے سات فرشتے پیدا فرمائے پھر آسمانوں کی تخلیق فرمائی پھر ہر دروازے پر ایک محافظ فرشتہ مقرر فرمایا۔جب اعمال کے محافظ فرشتے بندے کے صبح سے شام تک کے اعمال لے کر اوپر جاتے ہیں اور اس عمل میں سورج کی چمک جیسا نور ہوتا ہے، جب وہ آسمان دنیاتک پہنچتے ہیں اور اس عمل کو بہت زیادہ سمجھتے ہیں تو پہلے آسمان کا محافظ فرشتہ ان کو روک لیتا ہے اور کہتا ہے:'' اس عمل کوصاحبِ عمل کے منہ پر دے مارو، میں غیبت کا فرشتہ ہوں اور مجھے میرے رب عَزَّوَجَلَّ نے حکم دیا ہے کہ غیبت کرنے والے کے عمل کو یہاں سے آگے بڑھنے نہ دوں۔'' اس کے بعدآپ تاج دارِ کائنات ﷺ نے ارشاد فرمایا:'' پھر فر شتے بندے کے دیگر اچھے ا عمال لے جاتے ہیں اور ان اعمال کو کثیر اور پاک سمجھتے ہیں جب دوسرے آسمان تک پہنچتے ہیں تو وہاں کا مؤکل فرشتہ کہتا ہے: ''ٹھہرو اور یہ عمل صاحبِ عمل کے منہ پر دے مارو ،میں فخر کا فر شتہ ہوں، اس شخص نے اپنایہ عمل دنیا کے لیے کیا تھا، مجھے میرے رب عَزَّوَجَلَّ نے حکم دیا ہے کہ میں اس کے عمل کو یہاں سے آگے نہ بڑھنے دوں کیوں کہ وہ لوگوں میں بیٹھ کر اپنے اس عمل پر فخر کرتا تھا۔'' آپ تاج دارِ کائنات ﷺ نے مزید فرمایا:''پھر فر شتے بندے کے دیگر اعمال مثلاً صدقہ، روزہ اور نماز وغیرہ لے کر جائیں گے اور ان میں ایسا نور چمک رہاہوگا کہ فر شتے بھی حیران رہ جائیں گے،جب تیسرے آسمان تک پہنچیں گے تو وہاں مؤکل فرشتہ کہے گا:'' ٹھہرو، اور اس عمل کو صاحبِ عمل کے منہ پر دے مارو، میں تکبر کا فرشتہ ہوں، مجھے میرے رب عَزَّوَجَلَّ نے حکم دیا ہے کہ میں اس کے عمل کویہاں سے آگے نہ بڑھنے دوں، وہ مجالس میں لوگوں پرتکبر کیا کرتا تھا۔ پھر آپ تاج دارِ کائنات ﷺ نے ارشاد فرمایا:'' پھر فرشتے بندے کا وہ عمل لے کر جاتے ہیں جو ستا رے کی طر ح چمکتا ہے اس میں تسبیح ، نماز او رحج کی آواز ہوتی ہے، جس طر ح شہد کی مکھی کی آواز ہوتی ہے یہاں تک کہ جب وہ اسے لے کر چوتھے آسمان تک پہنچتے ہیں تو وہاں کا مؤکل فر شتہ کہتاہے: '' ٹھہرجاؤ اور اس عمل کوصاحبِ عمل کے منہ پر دے مارو اور اسے اس کی پیٹھ اور پیٹ پرمارو، میں خود پسندی کا فرشتہ ہوں، میرے رب عَزَّوَجَلَّ نے مجھے حکم دیا ہے کہ میں اس کے عمل کو آگے نہ بڑھنے دو ں کیوں کہ یہ شخص جب عمل کرتا تھا تو اس میں خود پسند ی کو داخل کرلیتا تھا۔'' آپ تاج دارِ کائنات ﷺ نے مزید ارشادفرمایا:''پھر فر شتے کسی اورعمل کو لے کر اوپر جاتے ہیں اور وہ عمل دلہن کی طر ح آراستہ ہوتا ہے یہاں تک کہ جب وہ پانچو یں آسمان تک پہنچتے ہیں تو وہاں کامؤکل فرشتہ کہتا ہے:'' ٹھہرجاؤ او ریہ عمل، عمل کرنے والے کے منہ پر دے مارو اور اس کے کندھوں پررکھ دو، میں حسد کا فر شتہ ہوں، جب کوئی شخص اس کی طرح کچھ سیکھتا یا عمل کر تا تو یہ حسد کرتا تھا اسی طرح کسی بندے کو کوئی فضلیت حاصل ہوتی تویہ اس سے حسد کرتااور اس کی برائی بیان کرتا۔ مجھے میرے ربعَزَّوَجَلَّ نے حکم فرمایاہے کہ اس کے عمل کو آگے نہ بڑھنے دو ں۔'' پھر آپ تاج دارِ کائنات ﷺ نے ارشاد فرمایا:''پھرفر شتے بندے کانماز ،زکوٰۃ ،حج ، عمرہ اور روزوں کا عمل لے کر اوپر جاتے ہیں،جب وہ چھٹے آسمان تک پہنچتے ہیں تو وہاں کامؤکل فرشتہ کہتا ہے:'' ٹھہرجاؤ او ر اس عمل کوصاحبِ عمل کے منہ پر دے مارو کیوں کہ جب کسی بندے کو کوئی مصیبت یاتکلیف پہنچتی تو یہ اس پر رحم نہیں کرتاتھا بلکہ اس کی مصیبت پر خوش ہوتا تھا، میں رحمت کا فرشتہ ہوں ،مجھے میرے رب عَزَّوَجَلَّ نے حکم فرمایا ہے کہ اس کے عمل کو آگے نہ بڑھنے دو ں۔'' آپ تاج دارِ کائنات ﷺ نے مزید فرمایا:''پھر فرشتے بندے کا وہ عمل جو رو زہ ، نماز ، نفقہ ، زکوٰۃ ،اجتہاد اورتقویٰ کی صورت میں ہوتا ہے جس کی آواز بجلی کی کڑک اور چمک سورج کی روشنی کی طرح ہوتی ہے اور اس کے ہمراہ تین ہزار فر شتے ہوتے ہیں جب یہ ساتویں آسمان تک پہنچتے ہیں تووہاں کامؤکل فرشتہ کہتا ہے: ٹھہرو، اور یہ عمل صاحبِ عمل کے منہ پر دے مارو، اس کے اعضا ء پر مارو اور اس کے ذریعے اس کے دل پر قفل لگا دو کیوں کہ میرے رب عَزَّوَجَلَّ نے مجھے حکم دیا ہے کہ جو عمل پروردگارِ کائنات کے لیے نہ ہو میں اس کے راستے میں رکاوٹ بنوں اس شخص نے اپنے عمل سے غیر اللہ کا ارادہ کیا اس کا مقصد فقہاء کے نزدیک بلندی حاصل کرنا ، علماء کے درمیان تذکرہ اور شہرو ں میں مشہور ہو نے کا تھا اورہر وہ عمل جو پروردگارِ کائنات کے لیے نہ ہو وہ ریاء ہے اور پروردگارِ کائنات ریا ء کا ر کے عمل کو قبول نہیں فرماتا۔'' پھرآپ تاج دارِ کائنات ﷺ نے ارشاد فرمایا:''پھر فرشتے بندے کی نماز، زکوٰۃ، رو زہ ،حج ، عمرہ ، اچھے اخلاق، خاموشی اور پروردگارِ کائنات کے ذکر کولے کر اُوپر جاتے ہیں اور اس کے ساتھ آسمانوں کے فرشتے ہوتے ہیں یہاں تک کہ وہ تما م پر دو ں سے نکلتے ہوئے پروردگارِ کائنات کی بارگاہ میں حاضر ہوتے ہیں اور اس کی بارگاہ میں اس بندے کے خالص پروردگارِ کائنات کے لیے کئے ہوئے اچھے اعمال کی گواہی دیتے ہیں ۔''حضور نبئ کریم تاج دارِ کائنات ﷺ ارشاد فرماتے ہیں کہ پروردگارِ کائنات ان سے فرماتا ہے: ''تم میرے بند ے کے اعمال کے نگران ہوجب کہ میں اس کے نفس کی نگرانی کرتاہوں، بے شک اس نے یہ اعمال میرے لیے نہیں کئے بلکہ میرے علاوہ کسی اور کے لیے کئے ہیں، اس پر میر ی لعنت ہے۔''تو تمام فرشتے عرض کرتے ہیں :''اس پر تیری، ہم سب فرشتوں کی ،ساتوں آسمانوں اورجو کچھ اس میں ہے ،سب کی لعنت ہو۔'' حضرت سیِّدُنا معا ذ رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ میں نے عرض کی:'' یا رسول پروردگارِ کائنات وتاج دارِ کائنات ﷺ ! آپ تاج دارِ کائنات ﷺ تو پروردگارِ کائنات کے رسول ہیں اورمیں معاذ ہوں، (مجھے) کیسے نجات حاصل ہوگی ؟'' آپ تاج دارِ کائنات ﷺ نے ارشاد فرمایا:''اے معا ذ ! میری اتباع کر و اگرچہ تمھارے عمل میں کمی ہو، اے معا ذ ! اپنے قرآن پڑھنے والے بھائیوںکے بارے میں کچھ کہنے سے اپنی زبان روک کر رکھو،اپنے گناہوں کو اپنے اوپر ڈالو، دوسروں کے ذمہ نہ لگاؤ، ان کو برا بھلاکہہ کر اپنی پاکیزگی کا اظہار نہ کرو، اپنے آپ کو ان پر بلند نہ سمجھو، دنیو ی عمل کو آخرت کے عمل میں داخل نہ کرو، اپنی مجلس میں تکبر نہ کرو تاکہ لوگ تیرے برے اخلاق سے بچے رہیں،تیسرے آدمی کی موجودگی میں کسی سے سر گو شی نہ کر و، لوگوں پر اپنی عظمت کااظہار نہ کرو ورنہ تم دنیاوی بھلائی سے محرو م ہوجاؤ گے اور لوگو ں کی بے عزتی نہ کرو ورنہ بروزِ قیامت جہنم میں اس کے کتے تمھیں چیر پھاڑ دیں گے۔'' پروردگارِ کائنات کا فرمانِ حقیقت نشان ہے:وَّ النّٰشِطٰتِ نَشْطًا ۙ﴿2﴾یعنی: اور نرمی سے بند کھولیں۔(پ30، النّٰزِعٰت: 2) ''اے معاذ ! کیا تم جانتے ہو، وہ کون ہیں ؟'' میں نے عرض کی:'' یا رسول پروردگارِ کائنات و تاج دارِ کائنات ﷺ! میرے ماں باپ آپ پر قربان!وہ کون ہیں؟''آپ تاج دارِ کائنات ﷺ نے ارشاد فرمایا: ''وہ جہنم کے کتے ہیں جو گو شت اور ہڈیوں کو دانتوں سے نوچیں گے۔'' میں نے عرض کی:''یا رسول پروردگارِ کائنات و تاج دارِ کائنات ﷺ! میرے ماں باپ آپ پرقربان!کون ان خصائل کی طاقت رکھ سکتا اور ان کتو ں سے بچ سکتا ہے ؟''تو آقائے نامدار تاج دارِ کائنات ﷺ نے ارشاد فرمایا: ''اے معا ذ! یہ چیز ہر اس شخص کے لیے آسان ہے جس کے لیے پروردگارِ کائنات آسان فرمادے ،تیرے لیے یہی کافی ہے کہ تولوگو ں کے لیے بھی وہی پسند کرے جو اپنے لیے پسند کرتا ہے اور ان کے لیے بھی وہی ناپسند کرے جو اپنے لیے نا پسند کرتا ہے۔'' راوی کہتے ہیں:'' میں نے کسی کو حضرت سیِّدُنا معاذ رضی اللہ عنہ سے زیادہ قرآن مجید کی تلاوت کرتے نہیں دیکھا ،وہ اس حدیث کے ڈر سے ایساکرتے تھے۔''(الترغیب والترھیب، المقدمۃ، باب الترھیب من الریاء۔۔۔۔۔۔الخ، الحدیث۵۹،ج۱،ص۴۸تا۵۱) حضرت سیِّدُنا عکرمہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: ''پروردگارِ کائنات بندے کو اس کے عمل پر اتنا ثواب نہیں دیتا جس قدر ثواب نیت پر عطا فرماتا ہے کیوں کہ نیت زیادہ پہنچنے والی ہوتی ہے او راس میں ریاء نہیں ہوتی۔'' ریاء ''رُؤْیَۃٌ ''سے ہے (یعنی دیکھنا ) اورسُمعہ''سِمَاعٌ''سے ہے(یعنی سننا ) ریاء کی اصل یہ ہے کہ اچھے اعمال دکھا کر لوگوں کے ہاں اپنا مقام بنانا اور لوگو ں کے نزدیک مرتبے کا حصول کبھی عبادت کے ذریعے اور کبھی عبادت کے بغیر ہوتا ہے، عبادت کے علاوہ صورتوں میں ریاء یہ ہے مثلاً موٹے کپڑے پہننا ، انہیں پنڈلی کے قریب تک لٹکانا، رنگ کا زرد ہونا ، آنکھوں کو اندر کی طر ف دھنسانا، بالوں کو بکھیر ے رکھنا، آواز کو پست رکھنا، تکلف کے ساتھ وقار وسکون سے چلنا اور چادریں پہننا وغیرہ ، یہ تمام چیزیں عبادت میں بھی ریاء کو شامل ہیں اور جب ان سے دکھاوے کا ارادہ ہو تو یہ حرام ہیں۔اسی طرح علماء کے ریاکاریکرنے سے مراد جلا لتِ علمی کے اظہار کے لیے وعظ ونصیحت میں مسجع ومقفّیٰ(یعنی فصاحت و بلاغت سے بھر پور) الفاظ استعمال کرنا ہے لیکن اگر اس سے ارادہ یہ ہو کہ لوگ اس طرح دین کے قریب ہوں گے تو درست ہے اور اسی طرح کبھی اصل وعظ میں وعظ کرنے والے کی نیت درست ہوتی ہے تو اس صورت میں اس قسم کے الفا ظ کا استعمال جائز ہے۔ اصل عبادت میں ریاء کاری یہ ہے کہ انسان لوگو ں کے درمیان ہو تو طویل رکوع وسجود کرے تاکہ لوگ اسے عبادت گزار اورمتقی سمجھیں ا ور کبھی وہ خلوت میں بھی اس چیز کا تکلف کرتا ہے تا کہ لوگو ں کے سامنے بھی اس طرح کر سکے اور سمجھتا ہے کہ اس نے گھر میں طویل رکوع وسجدہ کرلیا اس لیے وہ ریاء سے بچ گیا اوراگر اس کا یہی عزم ہو توبھی وہ دکھاوے میں مزید آگے نکل گیا اور وہ اس میں مخلص نہیں،پس ریاء کی صحیح تعریف یہی ہے کہ اس سے مراد جاہ ومرتبہ کا طلب کرنا ہے خواہ وہ عبادات کے ذریعے ہویا بغیر عبادت کے،اگر بغیر عبادت کے ہو جیسا کہ مال میں سے حلال طلب کرناتووہ حرام نہیں مگر یہ کہ وہ مال دھوکا کے ذریعے حاصل کیا گیا ہو اور یہ چیز مال اورمرتبہ دونوں میں برابر حرام ہے۔ اس سے یہ نہ سمجھا جائے کہ حبِّ جاہ مکمل طور پر حرام ہے کیوں کہ زندگی گزارنے کے لیے کچھ نہ کچھ جاہ ومرتبہ کی ضرورت ہوتی ہے جس طر ح حاجت کو پورا کرنے کے لیے تھوڑا مال کمانا جائز ہوتا ہے اور حضرت سیِّدُنا یوسف علیٰ نبینا وعلیہ الصلوٰۃو السلام کے فرمان سے یہی مراد ہے، جسے پروردگارِ کائنات نے اپنے فرمان میں ذکر فرمایا:قَالَ اجْعَلْنِیۡ عَلٰی خَزَآئِنِ الۡاَرْضِ ۚ اِنِّیۡ حَفِیۡظٌ عَلِیۡمٌ ﴿55﴾یعنی: یوسف نے کہامجھے زمین کے خزانوں پر کردے بے شک میں حفاظت والا علم والا ہوں ۔ (پ13، یوسف:55) پس جاہ ومرتبہ میں زہر وتریاق(یعنی نفع ونقصان) دونوں ہيں جیسا کہ مال کے بارے میں گزر چکاہے اور جس طر ح مال کی کثرت انسان کو سر کش اورپروردگارِ کائنات کی یادسے غافل کردیتی ہے اسی طرح زیادہ جاہ ومرتبہ کامعاملہ ہے لیکن اگر تمھاری خواہش کے بغیر تمھیں بہت زیادہ عزت مل جائے، اوروہ تجھے پروردگارِ کائنات سے غافل نہ کرے ۔پس تیرا اسے استعمال کرنااسی طرح ہے جس طرح سخاوت ،ایثار اور مخلوقِ خدا کو نفع پہنچانے کے لیے مال کا استعمال کرنا ہے۔ اس کا وہی حکم ہے جومالِ کثیر کا ہے جو پہلے گزر چکا ہے کیوں کہ انبیاء کرام علیٰ نبینا وعلیہ الصلوٰۃو السلام اور ائمہ عظام وخلفاء راشدین رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین کی عزت سے بڑھ کر عزت کا حصول ممکن نہیں لیکن انسان کو چاہے کہ اسے یہ چیز پروردگارِ کائنات کی یاد سے غافل نہ کرے اور نہ اس کے زوال پر اسے کوئی دکھ ہو، اس کا لوگوں کے پاس جاتے وقت اچھے کپڑے پہننا ریا ء تو ہے لیکن یہ حرام نہیں کیوں کہ اس میں عبادت کے ذریعے ریاء نہیں اور ا س پر ام المؤمنین حضرت سیِّدَتُناعائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کی روایت دلیل ہے ،آپ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ ایک دن رسولِ اَکرم تاج دارِ کائنات ﷺ نے صحابۂ کرام علیہم الرضوان کی طرف جانے کا ارادہ فرمایا اور آپ تاج دارِ کائنات ﷺ نے پانی کے مٹکے میں دیکھ کر اپنا عمامہ شریف اور زلفوں کو درست فرمایا، آپ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ میں نے عرض کی: ''یارسول پروردگارِ کائنات و تاج دارِ کائنات ﷺ!کیا آپ بھی ایساکرتے ہیں ؟ ''آپ تاج دارِ کائنات ﷺ نے ارشاد فرمایا: ''نَعَمْ إنَّ اللہَ تَعَالٰی یُحِبُّ الْعَبْدَ اَنْ یَتَزَیَّنَ لِاِخْوَانِہٖ اِذَا خَرَجَ اِلَیْھِمْ یعنی:ہاں، بے شک پروردگارِ کائنات اپنے بندے کو پسند فرماتا ہے کہ وہ اپنے دوستو ں کی طرف جاتے وقت ان کے لیے زینت اختیار کرے۔''اخیر میں بارگاہ قاضی الحاجات میں دعا گو ہوں کہ موالے پاک اپنے محبوب پاک، صاحب لولاک، سیاح افلاک صلی اللہ علیہ وسلم کے طفیل حضرت کے مرقد منور پہ رحمت و انوار کی بارشیں برسائے۔ ان کے درجات بلند فرمائے اور ہمیں ان کی یاد منانے کے ساتھ ساتھ ان کی تعلیمات پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔

سلطان المخدومین حضرت سیدنا کمال الدین یحییٰ منیری علیہ الرحمہ اور حسنِ اخلاقاز قلم: ناچیز ناصرؔ منیری کان اللہ لہڈائریکٹر : ریسرچ سینٹر، خانقاہ منیر شریفرابطہ نمبر: 9905763238عظیم الشان ہے رتبہ مِرے یحییٰ منیری کارفیع المرتبت اسوہ مِرے یحیٰ منیری کاسلطان المخدومین حضرت سیدنا کمال الدین یحییٰ منیری علیہ الرحمۃ والرضوان اپنے وقت کے جلیل القدر صوفی بزرگ گذرے ہیں۔آپ نے تصوف کی تعلیمات عام کرنے میں اپنا تن من دھن سب کچھ تج دیا۔ آپ کے اخلاق بہت عمدہ تھے۔ جو بھی آپ سے ملتا متاثر ہوئے بغیر نہیں رہتا۔ جو اہل ایمان ہوتا، وہ تائب ہوتا اور جو اہل کفر ہوتا، مشرف بہ اسلام ہوجاتا۔وہ ہو جاتا مشرف دولتِ ایمان سے اس دمکوئی گر دیکھتا چہرا مِرے یحییٰ منیری کاآپ نے اخلاقیات پہ بہت زور دیا۔ لوگوں کے اخلاق سنوارنے میں آپ نے بہت محنت کی۔ ذیل میں حسنِ اخلاق کا درس پیش کیا جا رہاہے:حسن اخلاق آیاتِ قرآنیہ کی روشنی میں:قرآنِ پاک میں جا بہ جا حسن اخلاق کی فضیلت بیان کی گئی ہے۔ قرآن نے اخلاقیات پہ بہت زور دیا ہے۔کہا جاتاہے کہ فلاں اچھے خَلْق اور اچھے خُلُق یعنی اچھے ظاہر وباطن والا ہے۔ ظاہر کا حُسن خوب صورتی ہے جیسا کہ آپ جانتے ہيں اورباطنی حُسن سے مراد بُری صفات پر اچھی صفات کا غالب ہونا ہے اورباطن میں تفاوُت(یعنی فرق)، ظاہر میں تفاوت سے زیادہ ہوتا ہے اوراسی کی طرف پروردگارِ کائنات نے اپنے اس فرمانِ اقدس میں اشارہ فرمایا،جیسا کہ ارشاد ِخدا وندی ہے:اِنِّیۡ خَالِقٌۢ بَشَرًا مِّنۡ طِیۡنٍ ﴿71﴾فَاِذَا سَوَّیۡتُہٗ وَ نَفَخْتُ فِیۡہِ مِنۡ رُّوۡحِیۡیعنی: میں مٹی سے انسان بناؤں گا پھر جب میں اسے ٹھیک بنا لوں اوراس میں اپنی طرف کی روح پھونکوں گا۔(پ23،ص:71۔72)پروردگارِ کائنات نے اس آیتِ مبارکہ میں آگاہ فرمایا کہ انسان کی ظاہری صورت مِٹی سے بنی ہوئی ہے اوراس کی باطنی صورت پروردگارِ کائنات کے عالَمِ اَمر سے ہے ۔ لہٰذا حُسنِ خُلق سے ہماری مراد باطنی صورت کا اچھاہونا ہے پس جس قدر بندہ بری صفات سے کنارہ کشی اختیار کرتاہے، اس کے بدے میں اچھی صفات پائی جاتی ہیں، یہی اچھے اخلاق ہیں اورحُسنِ اخلاق کی مکمل صورت تاج دارِ کائنات ﷺ کے لیے ہے، کیوں کہ تاج دارِ کائنات ﷺ حُسنِ اخلاق کے اس معنی میں درجۂ کمال پر فائز ہوئے۔ پروردگارِ کائنات نے آپ کے لیے ارشاد فرمایا:وانک لعلی خلق عظیمیعنی: (اے نبی مکرم ﷺ) آپ کے اخلاق انتہائی عظیم الشان ہیں۔(پ29،سورہ قلم)حسن اخلاق احادیثِ نبویہ کی روشنی میں: قرآن کے علاوہ حدیثوں میں بھی جگہ جگہ حسنِ اخلاق کی فضیلتیں بیان کی گئی ہیں۔ جا بہ جا اخلاق سنوارنے کے احکام وارد ہوئے ہیں۔ جیسا کہ تاج دارِ کائنات ﷺ کافرمانِ عالیشان ہے:رَجَعْنَا مِنَ الْجِھَادِ الْاَصْغَرِاِلَی الْجِھَادِ الْاَکْبَرِ.یعنی:ہم چھوٹے جہادسے بڑے جہاد کی طرف پلٹے۔(الزھد الکبیر للبیھقی،الجز الثانی، فصل فی ترک الدنیا ومخالفۃ النفس والھوی، الحدیث۳۷۳،ص۱۶۵، مفہوماً)معلوم ہونا چاہیے کہ نفس کی کچھ بیماریاں ہیں جن سے اس کا پاک وصاف ہونا ضروری ہے اس طرح وہ ہمیشہ کی سعادت اوراللہ کا قُرب حاصل کرسکتا ہے۔حُسنِ اخلا ق کے تعلق سے تاج دارِ کائنات ﷺ مزید ارشاد فرماتے ہیں:اِنَّ حُسْنَ الْخُلْقِ یُذِیْبُ الْخَطِیْئَۃَ کَمَا تُذِیْبُ الشَّمْسُ الْجَلِیْدَ.یعنی:بے شک اچھے اخلاق گناہ کو اس طرح مٹا دیتے ہیں جس طرح سورج برف کو پگھلا دیتاہے۔(شعب الایمان للبیھقی، باب فی حسن الخلق ،الحدیث۸۰۳۶،ج۶،ص۲۴۷۔۲۴۸) حضرت سیِّدُنا عبدالرحمن بن سمرہ رضی اللہ عنہ ارشاد فرماتے ہیں کہ ہم تاج دارِ کائنات ﷺ کی بارگاہ میں حاضر تھے ،آپ نے ارشاد فرمایا:'' گذشتہ رات میں نے ایک عجیب بات دیکھی، میں نے اپنی امت کے ایک شخص کو دیکھا جو اپنے گھٹنوں کے بل جُھکا ہوا تھا ،اس کے اور پروردگارِ کائنات کے درمیان حجاب تھا پس حُسنِ اخلاق آیا اوراس نے اسے پروردگارِ کائنات کے قرب میں پہنچا دیا۔''(مکارم الاخلاق للخرائطی، باب ثواب حسن الخلیقۃوجسیم خطرھا، الحدیث۴۹،ج۱،ص۵۲)مذکورہ حدیثوں سے حسن اخلاق کی اہمیت کا اندازہ ہوتا ہے۔تاج دارِ کائنات ﷺ مزید فرماتے ہیں: ''حَسِّنُوْا اَخْلاَ قَکُمْ یعنی: اپنے اخلاق کو سنوارو۔''(جامع الترمذی، ابواب البروالصلۃ، باب ما جاء فی معاشرۃ الناس، الحدیث۱۹۸۷، ص۱۸۵۱، مفھومًا)تاج دارِ کائنات ﷺ نے یہ فرما کر اس بات سے آگاہ فرمایا، کہ اخلاق، تبدیلی کو قبول کرتے اور تصرف سے متاثر ہوتے ہیں۔ لہٰذا غصہ، شہوت اورحرص سے بچنے کی کوشش کرنی چاہے اوریہ تمام صفات حکمِ شرع کے مطابق ہونی چاہئيں ، جب ہوگا تو مقصد حاصل ہوجائے گااوریہ چیزناپسندیدہ اشیا پر صبر کرنے اورمجاہدہ سے حاصل ہوتی ہے تاکہ اس کے بعد یہ عادت بن جائے۔تاج دارِ کائنات ﷺ کا فرمانِ والاشان ہے: ''اَلْخَیْرُ عَادَۃٌ یعنی:بہترین چیز عادت ہے۔'' (سنن ابن ماجۃ، کتاب السنۃ، باب فضل العلماء والحث علی طلب العلم، الحدیث۲۲۱،ص۲۴۹۰) مثال کے طور پر جو شخص اصل فطرت سے سخی نہ ہو تو وہ تکلف سے اس عادت کو اپناتا ہے اوراسی طرح جس کی تخلیق تواضع پر نہ ہو تو اسے اس چیز کو عادت بنانے میں مشقت ہوتی ہے اوراسی طرح وہ تمام صفات جن کا علاج ان کی ضد کے ساتھ کیا جاتا ہے حتّٰی کہ مقصد حاصل ہوجائے ۔عبادات پر ہمیشگی اورخواہشات کی مخالفت باطنی صورت کو حسین بنادیتے ہیں اوراللہ سے اُنس حاصل ہوجاتاہے۔تاج دارِ کائنات ﷺ کا فرمانِ عالی شا ن ہے: اُعْبُدِ اللہَ فِی الرِّضَا فَاِنْ لَّمْ تَسْتَطِعْ فَفِی الصَّبْرِ عَلٰی مَا تَکْرَہُ خَیْرٌ کَثِیْرٌ۔یعنی:اللہ کی عبادت رضا مندی سے کرو اگر ایسا نہ ہوسکے تو ناگوار بات پر صبر کرنے میں بہت زیادہ بھلائی ہے ۔(شعب الایمان للبیھقی، باب فی الصبر علی المصائب، فصل فی ذکرما فی الأوجاع ۔۔۔۔۔۔الخ، الحدیث۱۰۰۰۰،ج۷،ص۲۰۳،بتغیرٍ)لہذا ابتدا میں صبر کرنا چاہیے یہاں تک کہ راضی ہوجائے، کیوں کہ اصل فطرت بھی باطنی صورت کے حُسن کا تقاضا کرتی ہے اور اسی طرف مائل ہوتی ہے اور تاج دارِ کائنات ﷺ نے اپنے اس فرمانِ عالیشان میں اسی جانب اشارہ فرمایا: ''اَلْحَسَنَۃُ بِعَشَرِ اَمْثَالِھَا یعنی:ایک حسنہ دس نیکیوں کے برابر ہے۔ '' (صحیح البخاری، کتاب الصوم، باب فضل الصوم، الحدیث۱۸۹۴،ص۱۴۸) اوریہی اصلِ فطرت کی موافقت ہے۔اخلاق سنوارنے کا بہترین طریقہ:یہ تو ہم جان چکے ہیں، کہ جسم کی بیماری کا علاج اس کی ضد کے ساتھ ہوتاہے۔ اسی طرح مرضِ دل کا معاملہ ہے۔ اور یہ چیز لوگوں کے مختلف ہونے کے اعتبار سے مختلف ہوتی ہے کیونکہ طبیعتیں مختلف ہوتی ہیں اورشیخ اپنی قوم میں اس طرح ہوتا ہے جیسے نبی اپنی اُمّت میں، وہ مرید کا حال دیکھتاہے اوراس پر غالب آنے والی صفات کو جانتاہے اور ان چیزوں کو بھی جانتاہے جن سے مُرید کا علاج ممکن ہوتاہے، لہٰذا وہ اسے ابتدائی مرحلے میں عبادات، کپڑوں کو پاک وصاف رکھنے، نمازوں پر پابندی اختیار کرنے اورتنہائی میں پروردگارِ کائنات کا ذکر کرنے میں مشغول رکھتاہے۔ پس اس طرح اس کے پوشیدہ عیوب ظاہر ہوجاتے ہیں جس طرح پتھر میں چھپی آگ (ایک پتھر کو دوسرے پر مارنے سے) ظاہر ہوجاتی ہے اوراگر اس کے پاس زائد مال ہوتو شیخ اسے لے کر محتاجوں میں بانٹ دیتاہے تاکہ اس کا دِل فارغ ہوجائے اوراس کے دِل کا فارغ ہونا ہی اصل چیز ہے۔ پھر اس کے غیر کے دل کا فارغ ہونا اس کے مال کے لیے وبال ہے اوراس کے غموں کو بڑھاتا ہے اوران غموں کی برکت سے اس پر اس کا مقصود آسان ہو جاتا ہے اور تہذیبِ اخلاق کا طریقہ یہ بھی ہے، کہ اس کی بعض صفات کو دوسری صفات پر مسلَّط کردیا جائے۔ چناں چہ وہ عارضی ریا کے ذریعے سخاوت میں رغبت اختیار کرے (جب کہ اسے دل میں نہ جمنے دے )، تاکہ وہ بخل، دنیا کی محبت اور اس کے جمع کرنے کو ترک کر دے اور غصہ وشہوت کا استعمال ترک کردے، تاکہ وہ اسے پاک دامنی اوردرستگی پر ابھارے ،پھر اس کے بعد ریاکاری کی طرف متوجہ ہو اور ریاضت کی مدت میں حاصل ہونے والی دین کی قوت اور اللہ کی طرف اپنی توجہ کے ذریعے اس کاقلع قمع کر دے اور نفس کی ضد کے ساتھ عبادات کی پابندی کر کے اس کا علاج کرے اوربعض شیوخ کے بارے میں مروی ہے، کہ اگر ان کا نفس رات کے کسی حصہ میں قیام سے سستی کرتا، تو ایک مدّت تک سر کے بل کھڑا ہونا اس پر لازم کر دیتے ،تاکہ وہ قدموں پر کھڑا ہونا خوشی سے اختیارکرے اور اسے غنیمت جانے۔بد اخلاقی سے بچنے کا طریقہ:تاج دارِ کائنات ﷺ کا فرمانِ والاشان ہے :اِذَا اَرَادَاللہُ بِعَبْدٍخَیْرًا بَصَّرَہ، بِعُیُوْبِ نَفْسِہٖ۔یعنی:جب پروردگارِ کائنات کسی بندے کے ساتھ بھلائی کا ارادہ فرماتاہے تو اسے اس کے عیوب دکھا دیتاہے۔(شعب الایمان للبیھقی، باب فی الزھد وقصر الأمل، الحدیث۱۰۵۳۵،ج۷،ص۳۴۷) اپنے عیوب پہچاننے کے طریقوں میں سے سب سے بہترین طریقہ یہ ہے، کہ انسان اپنے مُرشِد کے سامنے بیٹھے اور اس کے حکم کے مطابق عمل کرے، کبھی اسی وقت اس پر اپنے عیوب ظاہر ہوجاتے ہیں اورکبھی اس کا مُرشِد اسے اس کے عیوب سے آگاہ کر دیتا ہے۔ یہ طریقہ سب سے اعلیٰ وبہترین ہے، مگر آج کل یہ بہت مشکل ہے ۔ دوسرا طریقہ یہ ہے کہ کوئی نیک دوست تلاش کرے ،جو اس معاملہ کے اسرار سے واقف ہو،اس کی صحبت اختیارکرے اوراسے اپنے نفس کا نگران بنائے، تاکہ وہ اس کے اَحوال کو ملاحظہ کرکے اس کے عیوب سے آگاہ کرے ۔ اَکابِر اَئمہ دین اسی طرح کیا کرتے تھے۔ امیر المؤمنین حضرت سَیِّدُناعمر فاروق اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ ارشاد فرماتے تھے :''پروردگارِ کائنات اس شخص پر رحم فرمائے جو مجھے میرے عیوب بتائے۔''جب حضرت سَیِّدُنا سَلمان رضی اللہ عنہ آپ کی خدمت میں حاضر ہوئے تو آپ نے ان سے اپنے عیبوں کے بارے میں پوچھا:''کیا آپ تک میری کوئی ایسی بات پہنچی ہے جو آپ کو ناپسند ہو؟'' انھوں نے بتانے سے معذرت کی، لیکن آپ نے اصرار کیا تو حضرت سیِّدُنا سلمان رضی اللہ عنہ نے عرض کی: ''میں نے سنا ہے کہ آپ اپنے دسترخوان پر دوسالن جمع کرتے ہیں اور آپ کے پاس دو جوڑے ہیں، ایک دن کا اورایک رات کا۔ ''آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے پھر پوچھا:'' اس کے علاوہ بھی کوئی بات پہنچی ہے؟ ''تو انھوں نے عرض کی:'' نہیں۔'' امیرالمؤمنین حضرت سیِّدُنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے ارشاد فرمایا: ''اگر صرف یہی دو ہیں تو میں انھیں کافی ہو جاؤں گا۔'' حضرت سیِّدُنا حذیفہ رضی اللہ عنہ جو کہ منافقین کی پہچان کے معاملے میں تاج دارِ کائنات ﷺ کے راز دار تھے، امیرالمؤمنین حضرت سیِّدُنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ ان سے پوچھتے: کیا آپ کو مجھ میں منافقت کے آثار نظر آتے ہیں؟ تو امیرالمؤمنین حضرت سیِّدُنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ اس قدر بلند مرتبہ اورعظیم منصب پر فائز ہونے کے باوجود اس طرح اپنے نفس کو اس قدر تہمت لگاتے تھے۔ لہذا اگر آپ کوئی دوست نہ ملے تو اپنے حاسدین کی باتوں پر غور کریں، آپ ایسے حاسد کو پائیں جو آپ کے عیبوں کا متلاشی ہوتا ہے اوراس میں اضافہ کرتاہے، تو آپ اس سے فائدہ اٹھائیں اوراس کی طرف سے بتائے جانے والے تمام عیوب کے ساتھ اپنے نفس کو متَّہم جانیں اوراگر کوئی شخص آپ کو آپ کے عیب بتائے تو اس پر غضب و غصہ نہ کریں کیوں کہ عیوب سانپ اوربچھو ہیں جو دنیا وآخرت میں آپ کو ڈستے ہیں۔کیوں کہ جو شخص آپ کو بتائے کہ آپ کے کپڑوں کے نیچے سانپ ہے توآپ اس شخص کے احسان مند ہوتے ہیں ،لیکن اگر آپ اس پر غصہ کریں گے تو یہ آخرت میں آپ کے ایمان کی کمزوری کی دلیل ہے ۔اوراگر آپ اس کی نصیحت سے فائدہ اٹھائیں تو یہ آپ کی قوّتِ ایمانی کی دلیل ہے اورجان لیں کہ ناراض ہونے والی آنکھ برائیوں کو ظاہر کرتی ہے ،اور ایمان کاقوِّی ہونا آپ کو اس وقت فائدہ دے گاجب آپ حاسدوں کی ملامت کو غنیمت جانیں اوران عیوب سے بچیں۔حضرت سیِّدُنا عیسیٰ علیہ الصلوٰۃو السلام سے پوچھا گیا:'' آپ کو ادب کس نے سکھایا ؟'' آپ علیہ السلام نے ارشاد فرمایا: '' مجھے کسی نے ادب نہیں سکھایا،میں نے جاہل کی جہالت (کہ یہ بھی ایک عیب ہے)کو دیکھاتو اس سے کنارہ کشی اختیار کر لی ۔''جان لیں ! جو کچھ ہم نے بیان کیا ہے جب آپ اس پر غوروفکر کریں گے تو آپ کی بصیرت کی آنکھ کھل جائے گی، اور آپ اس سے فائدہ حاصل کریں گے، اگر آپ کو یہ چیز نہ حاصل ہو تو کم از کم اس پر ایمان لانا اوراس کی تصدیق کرنا ضروری ہے۔ کیوں کہ پہلی چیز ایمان ہے اورپھر اس منزل تک پہنچنا ہے۔ پروردگارِ کائنات کا فرمان عالیشان ہے:یَرْفَعِ اللہُ الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا مِنۡکُمْ ۙ وَ الَّذِیۡنَ اُوۡتُوا الْعِلْمَ دَرَجٰتٍ ؕیعنی: اللہ تمہارے ایمان والوں کے اوران کے جن کو علم دیا گیا درجے بلند فرمائے گا۔(پ28،المجادلۃ:11)تقوی ان اعمال کے حصول میں اصل مال کی حیثیت رکھتاہے۔ پروردگارِ کائنات نے ارشاد فرمایا: وَ مَنۡ یَّـتَّقِ اللہَ یَجْعَلْ لَّہٗ مَخْرَجًا ۙ﴿2﴾وَّ یَرْزُقْہُ مِنْ حَیۡثُ لَا یَحْتَسِبُ ؕیعنی: اورجو اللہ سے ڈرے اللہ اس کے لیے نجات کی راہ نکال دے گا اوراسے وہاں سے روزی دے گا جہاں اس کا گمان نہ ہو۔(پ28، الطلاق:2۔3)منقول ہے کہ عزیز ِمصرکی بیوی نے حضرت سیِّدُنا یوسف علیٰ نبیناوعلیہ الصلوٰۃو السلام سے کہا:''اے یوسف (علیہ السلام) ! بے شک حرص اورخواہش نے بادشاہوں کو غلام بنایا اورصبروتقوی نے غلاموں کو بادشاہ بنادیا۔''توحضرت سَیِّدُنایوسف علیٰ نبیناوعلیہ الصلوٰۃو السلام نے فرمایا : پروردگارِ کائنات کا فرمانِ حقیقت نشان ہے :اِنَّہٗ مَنۡ یَّـتَّقِ وَیَصْبِرْ فَاِنَّ اللہَ لَایُضِیۡعُ اَجْرَ الْمُحْسِنِیۡنَ ﴿90﴾یعنی: بے شک جو پرہیزگاری اورصبر کرے تو اللہ نیکوں کا نیگ (اجر ) ضائع نہیں کرتا۔(پ13،یوسف:90)حضرت سیِّدُنا جنیدبن محمد خزارعلیہ رحمۃ اللہ الغفار فرماتے ہیں : '' ایک مرتبہ میں رات کو جاگا اوراپنے وظیفہ میں مشغول ہوگیا، لیکن میں نے اس میں وہ لذّت نہ پائی جو پہلے پایا کرتا تھا چناں چہ میں نے سونے کا ارادہ کیا لیکن سونہ سکا، لہٰذا بیٹھ گیا لیکن بیٹھ بھی نہ سکا تو باہر نکل گیا،کیا دیکھتا ہوں کہ ایک شخص کمبل میں لپٹا ہوا راستے میں پڑا ہے، جب وہ میرے آنے پر مطلع ہوا تو کہنے لگا: ''اے ابوقاسم! ذرا میرے پاس تشریف لائیے۔'' میں نے کہا: ''اے محترم! پہلے سے آپ نے کوئی اطلاع نہیں دی۔'' اس شخص نے کہا:'' جی ہاں! میں نے پروردگارِ کائنات کی بارگاہ میں التجا کی کہ وہ تیرے دل کو میری طرف متوجہ کر دے۔'' میں نے کہا:''وہ تیری طرف متوجہ ہو گیا ہے ،(اب بتاؤ )تمہاری کیاحاجت ہے؟'' اس نے کہا:'' نفس کی بیماری اس(نفس)کا علاج کب بنتی ہے ؟''میں نے کہا: ''جب تو نفس کی خواہش میں اس کی مخالفت کرے۔'' پس وہ اپنے نفس کی طرف متوجہ ہوکر کہنے لگا:'' اے نفس! اب سن لیا! میں نے تجھے سات باراس بات کا جواب دیا لیکن تو نے انکار کیا اورکہا: میں حضرت سَیِّدُناجنیدرحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ سے ہی سنوں گا (تواب تو نے سن لیا)۔''آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں کہ وہ شخص چلا گیا اورمیں اسے نہ پہچان سکا۔اچھے اَخلاق کی نشانیاں:پروردگارِ کائنات کا ارشادِ پاک ہے :(1) قَدْ اَفْلَحَ الْمُؤْمِنُوۡنَ ۙ﴿1﴾الَّذِیۡنَ ہُمْ فِیۡ صَلَاتِہِمْ خَاشِعُوۡنَ ۙ﴿2﴾وَالَّذِیۡنَ ہُمْ عَنِ اللَّغْوِ مُعْرِضُوۡنَ ﴿ۙ3﴾وَالَّذِیۡنَ ہُمْ لِلزَّکٰوۃِ فٰعِلُوۡنَ ۙ﴿4﴾وَالَّذِیۡنَ ہُمْ لِفُرُوۡجِہِمْ حٰفِظُوۡنَ ۙ﴿5﴾اِلَّا عَلٰۤی اَزْوَاجِہِمْ اَوْ مَا مَلَکَتْ اَیۡمَانُہُمْ فَاِنَّہُمْ غَیۡرُ مَلُوۡمِیۡنَ ۚ﴿6﴾فَمَنِ ابْتَغٰی وَرَآءَ ذٰلِکَ فَاُولٰٓئِکَ ہُمُ الْعٰدُوۡنَ ۚ﴿7﴾وَالَّذِیۡنَ ہُمْ لِاَمٰنٰتِہِمْ وَ عَہۡدِہِمْ رَاعُوۡنَ ۙ﴿8﴾وَالَّذِیۡنَ ہُمْ عَلٰی صَلَوٰتِہِمْ یُحَافِظُوۡنَ ۘ﴿9﴾اُولٰٓئِکَ ہُمُ الْوَارِثُوۡنَ ﴿ۙ10﴾یعنی:بے شک مراد کو پہنچے ایمان والے جو اپنی نماز میں گڑ گڑاتے ہیں اوروہ جو کسی بے ہودہ بات کی طرف التفات نہیں کرتے اوروہ کہ زکوۃ دینے کا کام کرتے ہیں اور وہ جو اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کرتے ہیں مگر اپنی بیبیوں یاشرعی باندیوں پر جوان کے ہاتھ کی مِلک ہیں کہ ان پر کوئی ملامت نہیں تو جو ان دو کے سوا کچھ اورچاہے وہی حد سے بڑھنے والے ہیں اوروہ جو اپنی امانتوں اور اپنے عہد کی رعایت کرتے ہیں اوروہ جو اپنی نمازوں کی نگہ بانی کرتے ہیں یہی لوگ وارث ہیں۔(پ18،المؤمنون:1تا10)(2) اَلتَّآئِبُوۡنَ الْعٰبِدُوۡنَیعنی:تو بہ والے عبادت والے۔(پ11،التوبہ:112)(3) اِنَّمَا الْمُؤْمِنُوۡنَ الَّذِیۡنَ اِذَا ذُکِرَ اللہُ وَجِلَتْ قُلُوۡبُہُمْ وَ اِذَا تُلِیَتْ عَلَیۡہِمْ اٰیٰتُہٗ زَادَتْہُمْ اِیۡمَانًایعنی:ایمان والے وہی ہیں کہ جب اللہ یاد کیا جائے ان کے دل ڈرجائیں اورجب ان پر اس کی آیتیں پڑھی جائیں ان کا ایمان ترقی پائے ۔ (پ9،الانفال:2)(4) وَ عِبَادُ الرَّحْمٰنِ الَّذِیۡنَ یَمْشُوۡنَ عَلَی الْاَرْضِ ہَوْنًایعنی:اوررحمن کے وہ بندے کہ زمین پر آہستہ چلتے ہیں۔ (پ19 ،الفرقان:63)اخلاقی تربیت کا طریقہ:بعض لوگ ایسے ہوتے ہیں کہ انہیں اگر ابتدائی عمر میں مشفِق کی معمولی سی توجہ حاصل ہوجائے، تو وہ ان کے لیے کافی ہوتی ہے ۔ جس طرح حضرت سیِّدُنا سہل تستری علیہ رحمۃ اللہ الولی سے منقول ہے ،آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں:'' میری عمر تین سال تھی اور میں رات کو اٹھ کر اپنے ماموں حضرت سَیِّدُنامحمد بن محمدبن سوّار علیہ رحمۃ اللہ الوھاب کو خلوت میں نمازپڑھتے دیکھتا تھا۔ ایک دن میرے ماموں نے مجھ سے پوچھا: ''کیا تو اس پروردگارِ کائنات کویاد نہیں کرتا جس نے تجھے پیدا کیا ؟'' میں نے پوچھا:'' میں اسے کس طرح یاد کروں ؟'' انھوں نے فرمایا:''جب تم بستر پر لیٹنے لگو تو تین بار زبان کو حرکت دئیے بغیر محض دل میں یہ کلمات کہو: '' اَللہُ مَعِیَ،اَللہُ نَاظِرٌ اِلَیَّ،اَللہُ شَاھِدِیْ یعنی پروردگارِ کائنات میرے ساتھ ہے ، پروردگارِ کائنات مجھے دیکھ رہا ہے اورپروردگارِ کائنات میرا گواہ ہے ۔'' آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ ارشاد فرماتے ہیں:میں نے چند راتیں یہ کلمات پڑھے پھر انہیں بتایا تو انھوں نے فرمایا:''ہر رات سات مرتبہ پڑھو۔'' میں نے انہیں پڑھا پھر انہیں بتایا تو انھوں نے فرمایا:'' ہر رات گیارہ مرتبہ یہ کلمات پڑھو۔'' میں نے اسی طرح پڑھا، تو میرے دل میں اس کی لذّت پائی گئی، جب ایک سال گزرگیا تو میرے ماموں نے مجھ سے فرمایا:'' میں نے جو کچھ تمہیں سکھایا ہے اسے یاد رکھو اورقبر میں جانے تک ہمیشہ پڑھتے رہنا، تمہیں دنیا وآخرت میں نفع دے گا۔'' میں نے کئی سال تک ایسا کیا تو اپنے اندر اس کا مزہ پایا پھر ایک دن میرے ماموں نے فرمایا:'' اے سہل ! پروردگارِ کائنات جس شخص کے ساتھ ہو، اسے دیکھتا ہو اوراس کا گواہ ہو ،وہ اس کی نافرمانی کیسے کر سکتاہے ؟ گناہ سے بچو۔''میں تنہائی میں یہ ذکر کرتا رہا پھر انھوں نے مجھے مکتب میں بھیجا،تو میں نے عرض کی:'' مجھے ڈر ہے کہ کہیں میرے ذکر میں خلل نہ آجائے۔چنانچہ انھوں نے استاد صاحب سے یہ شرط مقرر کی ،کہ میں ان کے پاس جاکر صرف ایک گھنٹہ پڑھوں گا، پھر لوٹ آؤں گا، میں مکتب جاتارہا اورقرآن مجید حفظ کرلیا، اسوقت میری عمر چھ ،سات سال تھی، میں روزانہ روزہ رکھتا ، بارہ سال تک میں جَو کی روٹی کھاتا رہا، تیرہ سال کی عمر میں مجھے ایک مسئلہ پیش آیا ، میں نے گھروالوں سے کہا:''مجھے بصرہ بھیج دو تاکہ میں وہاں کے علماء سے اس کے بارے میں دریافت کروں لیکن ان میں کسی نے مجھے شافی جواب نہ دیا، پھر میں عبادان کی طرف نکلا۔میں نے وہاں پر حضرت سیِّدُنا ابو حبیب حمزہ بن عبداللہ عبادانی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نامی بزرگ سے مسئلہ پوچھا تو انھوں نے مجھے قابلِ اطمینان جواب دیا،میں ان کے پاس ٹھہر گیا، ان کے کلام سے نفع حاصل کرتااورآداب سیکھتا رہا، پھر میں تستر کی طرف آگیا، میں نے اپنی روزی کا انتظام یوں کیا کہ میرے لیے ایک درہم کے ایک فِرق (چارکلو) جَو خریدے جاتے ،انہیں پیس کر روٹی پکائی جاتی،میں ہر رات سحری کے وقت ایک اوقیہ روٹی کھاتا جو نمک اورسالن کے بغیر ہوتی، چنانچہ ایک درہم مجھے سال بھر کے لیے کافی ہوجاتا پھر میں نے ارادہ کیا، کہ تین دن مسلسل روزہ رکھوں گا، پھر افطار کروں گا پھر پانچ دن ، پھر سات دن اورپھر پچیس دن کا مسلسل روزہ رکھا اوربیس سال تک میرا یہی معمول رہا۔ پھر میں زمین میں سیروسیاحت کے لیے نکلا، پھر تستر واپس لوٹ آیا اورمیں ساری رات قیام کرتا تھا۔ پروردگارِ کائنات جو قوّی اورکریم ہے وہی اس کی توفیق عطافرمانے والا ہے۔ ''مریدین کے لیے نصیحت:جان لیں ! جو شخص آخرت کی کھیتی کا ارادہ کرتاہے، اس کی علامت یہ ہے کہ وہ دنیا کی کھیتی کو چھوڑ دیتاہے۔ لہٰذا جو شخص اپنے دل سے آخرت کا یقینی مشاہدہ کرلیتاہے اس کی علامت یہ ہے کہ وہ دنیا کو حقیر سمجھتا ہے اورجو شخص نفیس جوہر دیکھ لے اوراس کے ہاتھ میں منکا ہوتو اب اسے منکے کی رغبت نہیں رہتی جو ایسا نہیں کرتا ( یعنی آخرت کی کھیتی کا ارادہ نہیں رکھتا)تو اس کا مطلب ہے کہ وہ پروردگارِ کائنات اورآخرت پر ایمان نہیں رکھتا۔(پس معلوم ہوا )پروردگارِ کائنات تک رسائی کا نہ ہونا راہ سلوک پر گامزن نہ ہونے کی وجہ سے ہے ، اس راہ پر گامزن نہ ہونا ارادہ نہ ہونے کی وجہ سے ہے اورارادہ میں رکاوٹ ایمان کا نہ ہوناہے، اورظاہری طور پر عدمِ ایمان کا سبب سیدھا راستہ دکھانے والوں اور پروردگارِ کائنات کے راستے کی طرف رہنمائی کرنے والے علماء کا نہ پایا جانا ہے ۔چنانچہ جو شخص اپنے نفس سے یا اس کے غیر سے آگاہ ہوجائے تو اس کے لیے چند شرائط ہیں (مرید بننے سے پہلے)انکا پایا جانا ضروری ہے۔ پہلی شرط:پردے اوررکاوٹ کو اٹھادینا ہے اوریہ چار ہیں: (۱) مال (۲) جا ہ ومرتبہ(۳)تقلید اور (۴)گناہ۔جہاں تک مال کا تعلق ہے تو وہ ضرورت سے زائد تقسیم کردے، اورجاہ سے خلاصی اس طرح ممکن ہے کہ وہ وطن سے دور چلا جائے، یا تواضع وپوشیدگی کو اختیار کرے اور اس چیز کی طرف متوجہ ہوجو جاہ ومرتبہ کو ختم کردیتی ہے، اورتقلید کا حجاب اس طرحدور ہوتاہے کہ وہ مذاہب کے تعصُّب کو چھوڑ دے اور لَااِلٰہَ اِلاَّ اللہُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللہ کے معنی کی ایمان کے ساتھ تصدیق کرے ،اور ان اعمال پر عمل پیرا ہو جو اس کلمہ کی تصدیق کرتے اوراسے ثابت کرتے ہیں ،اوردنیا اوراس کی خواہشات اوران تمام چیزوں کو چھوڑ دے جن کی طرف نفس مائل ہوتاہے، تو اس وقت وہ اپنی پوری ہمت کے ساتھ حقیقت میں پروردگارِ کائنات کی طرف متوجہ ہوگا اور اس کے لیے درست اعتقادظاہر ہوجائے گا، جیسا کہ پروردگارِ کائنات کا فرمانِ عالیشان ہے:وَالَّذِیۡنَ جَاہَدُوۡا فِیۡنَا لَنَہۡدِیَنَّہُمْ سُبُلَنَا ؕیعنی:اورجنہوں نے ہماری راہ میں کوشش کی ضرور ہم انہیں اپنے راستے دکھا دیں گے۔ (پ21،العنکبوت:69)جہاں تک گناہوں کا تعلق ہے تووہ انہیں چھوڑدے ،اوران کی جگہ عبادات بجالائے، گذشتہ گناہوں پر شرمندہ ہو اور توبہ کرے اور لوگوں کے حقوق لوٹا دے۔ جب وہ ایسا کرے اوران چاروں امور سے فارغ ہوجائے تووہ اس شخص کی طرح ہوگیا جو وضو کرتا ہے، ناپاکی کو دور کرتاہے، شرمگاہ کو ڈھانپتا ہے اورنماز کے لیے تیار ہوجاتاہے۔ اس وقت اسے راہ ِآخرت سے واقف ایک شیخ کی ضرورت ہوتی ہے، کہ وہ اس کی رہنمائی کرے اوراس وقت وہ شیخ کے سامنے اس طرح ہوتاہے ،جس طرح غسل دینے والے کے ہاتھوں میں میت ہوتی ہے کہ وہ خودبخود حرکت نہیں کرتی بلکہ غسل دینے والا جس طرح چاہتا ہے، اسے حرکت دیتاہے۔ اس وقت اسے چاہے کہ وہ حضرت سیِّدُنا موسیٰ وحضرت سیِّدُنا خضر علیٰ نبیناوعلیہما الصلوٰۃو السلام کے واقعہ کو یاد کرے اوراپنے شیخ پر کسی حالت کے بارے میں اعتراض نہ کرے۔ اس وقت اسے چار چیزوں کا حکم دیا جائے گا: (۱)خلوت (۲)خاموشی (۳) بھوک (۴) بیداری ۔جہاں تک بھوک کا تعلق ہے تو اس سے مراد دل کا خون کم ہوناہے ،اس میں دل کی سفیدی ونور ہے،بھوک سے دل کی چربی پگھل جاتی ہے ،یہ دل کی نرمی کا سبب ہے ،یہ نرمی مکاشفہ کی چابی ہے، جس طرح سختی جو نرمی کی ضد ہے، حجاب کا باعث ہوتی ہے اورآپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم نے اُمُّ المؤمنین حضرت سَیِّدَتُناعائشہ رضی ا للہ تعالیٰ عنہا کو ارشادفرمایا:''بھوک سے شیطان کی گزرگاہوں کو تنگ کرو۔'' اس فرمان میں اسی طرف اشارہ ہے اورحضرت سیِّدُنا عیسیٰ علٰی نبیناوعلیہ الصلٰوۃو السلام نے اپنے رفقاء سے ارشاد فرمایا: ''اپنے پیٹوں کو بھوکا رکھو تاکہ تم دل (کی آنکھوں) سے اپنے رب کا دیدار کرو۔''حضرت سیِّدُنا سہل رضی اللہ تعالیٰ عنہ ارشاد فرماتے ہیں:''چارخصلتوں کے بغیر ابدال کا مرتبہ حاصل نہیں ہوتا:(۱)پیٹ کو بھوکا رکھنا (۲)بیداری(۳)خاموشی (۴)لوگوں سے دور رہنا۔''جہاں تک بیداری کا تعلق ہے تویہ دل کو روشن ومنوّر کرتی ہے ،اوربھوک بیداررہنے میں مدددیتی ہے اوریہ دونوں چیزیں دل کو منوّر کرنے میں مددگار ثابت ہوتی ہيں ۔ نیند دل کو سخت اور مردہ کردیتی ہے مگر یہ کہ بقدرِ ضرورت ہو(تودل کے لیے نقصان دِہ نہیں) ابدال کی یہ صفات بیان کی گئی ہیں، کہ ان کی نیند غلبہ کے وقت ، کھانا فاقے کے وقت اورکلام ضرورت کے وقت ہوتاہے۔حضرت سیِّدُنا ابراہیم خوّاص رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ ارشادفرماتے ہیں: ''ستر صدّیقین اس بات پر متفق ہیں،کہ نیند کی کثرت کا سبب زیادہ پانی پینا ہے۔''خاموشی گوشہ نشینی اورخلوت کی صورت میں آسان ہوتی ہے اورکلام کازیادہ حریص وہ شخص ہوتا ہے جو صاحبِ علم ہو، کیونکہ اس سے رکنا بہت مشکل ہوتاہے لیکن اس کا فائدہ ونفع بھی بہت زیادہ ہے، کیونکہ اسی کے ذریعے باطن غیب کی طرف متوجہ ہوتاہے اوراس دنیاوی زندگی سے اعراض کرتاہے ۔جبکہ خلوت کا فائدہ یہ ہے کہ انسان غفلت سے بچ جاتاہے، تاکہ مقصد کے لیے فارغ ہوسکے اور اس مقصد کے لیے حواس کا سکون ضروری ہے، کہ اس سے انسان کا دل حرکت کے قابل ہوجاتاہے اوراس کے لیے خلوت ضروری ہے، پھر بہتر یہ ہے کہ وہ ایسے کمرے میں خلوت اختیار کرے، جس میں اندھیرا ہو، تاکہ اس کی نظر کسی ایسی چیز پر نہ پڑے جو اسے غافل کردے، لیکن اگر تاریک کمرہ میسر نہ ہوتو وہ اپنے سر کو کسی چیز سے لپیٹ لے یا آنکھیں بند کرلے ،اور حواس کے سکون کی صورت وہ ندائے حق سنے گا،نیز اللہ ربّ العزّت کے جمال کا مشاہدہ کریگا ،کیا تم نہیں دیکھتے !کہ نبئ اَکرم صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کو جب ندا دی گئی تو ارشاد فرمایاگیا :(1) یٰۤاَیُّہَا الْمُزَّمِّلُ ۙ﴿1﴾یعنی: اے جھرمٹ مارنے والے۔(پ29،المزمل:1)(2) یٰۤاَیُّہَا الْمُدَّثِّرُ ۙ﴿1﴾یعنی: اے بالاپوش اوڑھنے والے۔(پ29،المدثر:1)جب بندہ بھوک ، خلوت ، بیداری اورخاموشی اختیار کرے تو اسے چاہے کہ وہ پروردگارِ کائنات کا ذکر کرے ،اس کا طریقہ یہ ہے کہ گھر کے ایک کونے میں باوضو، قبلہ رو ہو کربیٹھ جائے اوراپنی زبان سے اللہ، اللہ کا ورد کرے ،اورمسلسل ذکر کرتا رہے ، اپنے دل اور تمام حواس کو زبان سے ادا ہونے والے کلمات کو سننے کے لیے حاضر رکھے اور مسلسل اس ذکر میں مصروف رہے، یہاں تک کہ زبان کی حرکت ختم ہوجائے گویایہ کلماتِ طیبات خود بخود زبان پر جاری ہيں، پھر وہ زبان سے دل کی طرف لوٹے ، جب دِل ذکر سے رک جائے تو زبان سے ذِکر جاری رہے۔ جب دِل ذکر میں راسخ ہوجائے تو زبان سے خاموش ہوجائے اوراسی طرح کرتا رہے ،یہاں تک کہ دِل سے حروف مٹ جائیں اورحروف کے بغیر صاف و شفاف ذکر باقی رہے، پھر ذکر سےآگے بڑھ کر ہمیشگی کی حالت اختیار کرے اورجب اس پر کچھ چیزوں کا ظہور ہو جائے تو سابقہ حالت کی طرف لوٹ آئے، اوراپنے شیخ سے اس کاذکر کرے، کیونکہ وہ ان اسرار ورموز کو جانتا ہے جومرید پر صفائی و کدورت کے معاملے میں طاری ہوتے ہیں،اورمرید پرجو خیالات، وساوس اورصحیح احوال پائے جاتے ہیں ان کا خود بخود جاننا ممکن نہیں۔ لہٰذا وہ اپنے شیخ کو بتا دے کیونکہ وہ اسے زیادہ جانتاہے اورجب تک وہ سمجھتا ہے کہ اس کا نفس ابھی تک زِیر نہیں ہواتو تمام احوال میں اس کے لیے ذکر کرناضروری ہے۔پروردگارِ کائنات ارشاد فرماتاہے:قُلِ اللہُ ۙ ثُمَّ ذَرْہُمْیعنی: اللہ کہو ، پھر انہیں چھوڑ دو۔ (پ7،الانعام:91)چنانچہ اس پر جب کوئی وسوسہ یا بُر اخیال غالب ہو،اور اس کے غائب ہونے تک وہ اسے جان نہیں پاتا تو اس میں کوئی حرج نہیں، لہٰذا جب اس کے دل سے وسوسہ نکل جائے اوروہ حقیقت سے آگاہ ہو جائے تو پروردگارِ کائنات کا ذکر کرنا شروع کردے۔پروردگارِ کائنات نے ارشاد فرمایا:(1) اِنَّ الَّذِیۡنَ اتَّقَوۡا اِذَا مَسَّہُمْ طٰٓئِفٌ مِّنَ الشَّیۡطٰنِ تَذَکَّرُوۡا فَاِذَا ہُمۡ مُّبْصِرُوۡنَ ﴿201﴾یعنی: بے شک وہ جو ڈر والے ہیں جب انہیں کسی شیطانی خیال کی ٹھیس لگتی ہے ہوشیار ہوجاتے ہیں ۔ اسی وقت ان کی آنکھیں کھل جاتی ہیں ۔(پ9،الاعراف:201)(2) وَ اِمَّا یَنۡزَغَنَّکَ مِنَ الشَّیۡطٰنِ نَزْغٌ فَاسْتَعِذْ بِاللہِ ؕ اِنَّہٗ سَمِیۡعٌ عَلِیۡمٌ ﴿200﴾یعنی: اوراے سننے والے! اگر شیطان تجھے کوئی کو نچا دے (کسی برے کام پر اکسائے )تو اللہ کی پناہ مانگ بے شک وہی سنتا جانتاہے ۔(پ9،الاعراف: 200)اور اپنی ساری زندگی پابندی سے ذکرکرتا رہے،ہوسکتا ہے کہ عنقریب وہ ملوکِ دین( یعنی دین کے بادشاہوں )میں سے ہو جائے جن پر حقائق ظاہر ہوجاتے ہیں ،اوروہ ان چیزوں کو دیکھتے ہیں جنہیں نہ کسی آنکھ نے دیکھا،نہ کسی کان نے سنا اور نہ ہی کسی دل پر ان کاگمان گزرا۔ اگر اس پر کوئی شئے ظاہر نہ ہو تو وہ ذکر پر ہمیشگی اختیار کرے ،کہ حضرت مَلَکُ الموت علیہ السلام کی آمد کے وقت اس پر وہ اشیا ظاہر ہو جائیں اوراگر پروردگارِ کائنات نے چاہا تو وہ مقصود تک پہنچ جائے گا۔اس بات کو سمجھ لو تمہیں فائدہ ہوگا۔اخیر میں بارگاہ قاضی الحاجات میں دعا گو ہوں کہ موالے پاک اپنے محبوب پاک، صاحب لولاک، سیاح افلاک صلی اللہ علیہ وسلم کے صدقے و طفیل حضرت مخدوم پاک کے مرقد منور پہ رحمت و انوار کی بارشیں برسائے۔ ان کے درجات بلند فرمائے اور ہمیں ان کی یاد منانے اور ان کے نام نذر و نیاز کرنے کے ساتھ ساتھ ان کی تعلیمات پر عمل پیرا ہونے کی بھی توفیق خیر مرحمت فرمائے۔آمین۔ یا رب العالمین۔ بجاہ النبی الامین۔صلی اللہ علیہ وآلہ وصحبہ ومن تبعھم اجمعین۔

سلطان المخدومین حضرت سیدنا کمال الدین یحییٰ منیری علیہ الرحمہ اور حفاظتِ زباناز قلم: ناچیز ناصرؔ منیری کان اللہ لہڈائریکٹر :ریسرچ سینٹر، خانقاہ منیر شریفرابطہ نمبر: 9905763238سلطان المخدومین حضرت سیدنا کمال الدین یحییٰ منیری علیہ الرحمہ والرضوان اپنے وقت کے عظیم المرتبت، رفیع الشان اور عدیم النظیر صوفی بزرگ گذرے ہیں۔ آپ کا شمار اپنے وقت کے کبار صوفیہ میں ہوتا ہے۔ آپ مذہب مہذب اسلام کے مخلص داعی اور تصوف و روحانیت کے سچے مبلغ تھے۔ آپ نے اپنی پوری زندگی خلقِ خدا کی خدمت، متلاشیانِ راہِ حق کی رہ نمائی و ہدایت اور تعلیماتِ تصوف کی ترویج و اشاعت میں گذاری۔ ذیل میں صوفی ازم کی تعلیمات میں سے حفاظتِ زبان پر روشنی ڈالی جا رہی ہے۔زبان کاخطرہ بہت بڑاہے اوراس کے خطرے سے نجات صرف خاموشی میں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ تاج دارِ کائنات ﷺنے خاموشی کی تعریف کی اورخاموش رہنے کی ترغیب دی ۔ جیسا کہ تاج دارِ کائنات ﷺ کافرمانِ عالی شان ہے: ''مَنْ صَمَتَ نَجَا یعنی:جوخاموش رہااس نے نجات پائی۔'' (جامع الترمذی، ابواب صفۃ القیامۃ، باب حدیث من کان یؤمن اﷲ فلیکرم ضیفہ، الحدیث۲۵۰۱،ص۱۹۰۳)تاج دارِ کائنات ﷺ مزید فرماتے ہیں:''اَلصَّمَتُ حِکَمٌ وَقَلِیْلٌ فَاعِلُہٗ یعنی: خاموشی حکمت ہے اوراِسے اختیارکرنے والے کم ہیں۔'' (شعب الایمان للبیھقی، باب فی حفظ اللسان، فصل فی فضل السکوت عما لا یعنیہ، الحدیث۵۰۲۶،ج۴،ص۲۶۴)ایک اور مقام پر تاج دارِ کائنات ﷺ فرماتے ہیں:مَنْ یَّتَکَفَّلُ لِیْ مَابَیْنَ لِحْیَیْہِ وَرِجْلَیْہِ اَتَکَفَّلُ لَہُ بِالْجَنَّۃِیعنی:جوشخص مجھے دوجبڑوں کے درمیان والی چیز( یعنی زبان) اور دو ٹانگوں کے درمیان والی چیز( یعنی شرم گاہ)کی ضمانت دے میں اسے جنت کی ضمانت دیتا ہوں۔(صحیح البخاری، کتاب الرقاق، باب حفظ اللِّسان، الحدیث۶۴۷۴،ص۵۴۳،مفہومًا)ایک روایت میں ہے کہ حضرت سیِّدُنا معاذبن جبل رضی اللہ عنہ نے عرض کی: '' یارسول اللہ ﷺ!مجھے وصیت فرمائیں۔'' آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا:'پروردگارِ کائنات کی اس طرح عبادت کرگویا تواسے دیکھ رہا ہے، اپنے آپ کومرنے والوں میں شمارکر،اوراگرتو چاہے تومیں تجھے بتاؤں ،کہ تیرے لیے کون سی چیز بہتر ہے، پھرآپ ﷺ نے اپنی زبان مبارک کی طرف اشارہ فرمایا۔'' (موسوعۃ لابن ابی الدنیا، کتاب الصَّمْت وآداب اللِّسان، باب حفظ اللسان وفضل الصَمت، الحدیث۲۲، ج۷، ص۲ ۴۔۴۳) حضرت سیِّدُنا معاذبن جبل رضی اللہ عنہ سے مروی ہے آپ فرماتے ہیں کہ میں نے عرض کی: ''یارسول اللہ ﷺ!کیاہماری گفتگوپربھی مؤاخذہ ہوگا؟ '' آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا: ''اے ابنِ جبل!تیری ماں تجھ پر روئے، لوگوں کوان کے نتھنوں کے بل جہنم میں گرانے والی زبان کی کاٹی ہوئی کھیتی (یعنی گفتگو)کے سوا اور کیا ہے۔ (جامع الترمذی، ابواب الایمان، باب ماجاء فی حرمۃ الصلاۃ، الحدیث۲۶۱۶،ص۱۹۱۵) امیرالمؤمنین حضرت سَیِّدُناابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ اپنے منہ میں چھوٹے چھوٹے پتھررکھتے تھے، جن کے ذریعے گفتگو سے پرہیزکرتے ،نیزآپ رضی اللہ عنہ اپنی زبان کی طرف اشارہ کرکے فرماتے:''اس نے مجھے ہلاکت کی جگہوں میں پہنچایا۔'' حضرت سیِّدُنا عبداللہ ابن مسعودرضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: ''اُس پروردگارِ کائنات کی قسم جس کے سواکوئی معبودنہیں!کوئی چیز زبان سے زیادہ قیدکی محتاج نہیں۔''(1) بے مقصد کلام کرنا: جان لو!جب تم بے مقصدگفتگوکروگے، یعنی ایسی گفتگوجس کی تمھیں حاجت نہیں،تواپناوقت ضائع کروگے اوراس کے ذریعے اپنے آپ کوحساب وکتاب کے لیے پیش کروگے، تواس طرح تم اچھی چیزدے کراس کے بدلے بری چیزلینے والے بن جاؤ گے ،کیوں کہ اگرتم اس کی بجاے پروردگارِ کائنات کاذکرکرتے یاخاموش رہتے یاغورو فکر میں مشغو ل رہتے تواس کے نتیجے میں بلند درجات پالیتے۔تاج دارِ کائنات ﷺ کافرمان ہے:مِنْ حُسْنِ اِسْلاَمِ الْمَرْءِ تَرْکُہ، مَالَایَعْنِیْہِ۔یعنی:انسان کے اسلام کی اچھائی، فضول باتوں کو ترک کر دینا ہے۔(جامع الترمذی، ابواب الزھد، باب حدیث: من حسن اِسلام المرء ترکہ مالایعنیہ، الحدیث۲۳۱۷،ص۱۸۸۵) حضرت سَیِّدُناانس رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ اُحد کے دن ہماراایک غلام شہیدہوگیا،ہم نے اسے بھوک کی وجہ سے پیٹ پرپتھرباندھے ہوئے پایا،اس کی ماں نے اس کے چہرے سے گردوغبارصاف کرتے ہوئے کہا: اے بیٹے !تمھیں جنت مبارک ہو۔تو تاج دارِ کائنات ﷺ نے ارشاد فرمایا:''تمھیں کیسے معلوم ہوا ؟(کہ یہ جنتی ہے)ہوسکتاہے یہ فضول کلام کرتا ہو اور ایسی گفتگوسے منع کرتاہوجو اسے نقصان نہ پہنچاتی تھی۔'' (موسوعۃ لابن ابی الدنیا، کتاب الصَّمْت وآداب اللِّسان، باب النھی عن الکلام فیما لایعنیک، الحدیث۱۰۹، ج ۷ ، ص ۸۵) بے مقصد کلام یہ ہے کہ مجلس میں ایسے سچے واقعات بیان کیا جائے جو دورانِ سفر پہاڑوں اور جنگلوں میں پیش آئیں۔(2) فضول گوئی کرنا: دوسری آفت یہ ہے کہ توایسی بات کا تکرار کرے جس کے تکرار کرنے کاکوئی فائدہ نہ ہواور اس میں زیادہ الفاظ استعمال کرے جن کی ضرورت نہ ہو۔حضرت سَیِّدُناعطابن ابی رباح رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ ارشاد فرماتے ہیں: تم سے پہلے لوگ فضول کلام کوناپسندکرتے تھے۔ مثال کے طور پر یہ بات بھی فضول ہے کہ تم کہو،''اے پروردگارِ کائنات !اس کُتّے کودورفرما۔'' حضرت سیِّدُنا مطرَّف رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ ارشاد فرماتے ہیں کہ:'' پروردگارِ کائنات کی عظمت کالحاظ رکھا کرواور کُتّے یاگدھے کانام لیتے وقت بھی پروردگارِ کائنات کاذکرنہ کرومثلاً یہ نہ کہو:اے پروردگارِ کائنات !انہیں دورکردے وغیرہ وغیرہ۔'' فضول گوئی کی کوئی حدنہیں۔ تاج دارِ کائنات ﷺ کافرمانِ عالی شان ہے:طُوْبٰی لِمَنْ اَمْسَکَ الْفَضْلَ مِنْ لِّسَانِہٖ وَ اَنْفَقَ الْفَضْلَ مِنْ مَّالِہٖیعنی:اس شخص کو مبارک ہو جواپنی زبان کو فضول گوئی سے روک لے اوراپنے زائد مال کوخرچ کردے۔(شعب الایمان للبیھقی، باب فی الزکاۃ، فصل فی کراھیۃ ۔۔۔۔۔۔الخ، الحدیث۳۳۸۸،ج۳،ص۲۲۵، لسانہ:بدلہ: قولہ) حضرت سیِّدُنا بلال بن حارث رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں، تاج دارِ کائنات ﷺ نے ارشاد فرمایا:''کوئی شخص پروردگارِ کائنات کی رضاوالا ایساکلمہ کہتاہے جس کے بارے میں اس کاخیال نہیں ہوتاکہ وہ کس بلندی تک پہنچے گا مگراس کی وجہ سے پروردگارِ کائنات قیامت تک اس کے لیے اپنی رضالکھ دیتاہے اورکوئی آدمی پروردگارِ کائنات کی ناراضی والا ایک کلمہ کہتاہے ،حالاں کہ وہ شخص اسے معمولی سمجھتاہے لیکن پروردگارِ کائنات اس کے سبب قیامت تک اس کے لیے ناراضی لکھ دیتا ہے۔'' (موسوعۃ لابن ابی الدنیا، کتاب الصَّمْت وآداب اللِّسان، باب النھی عن فضول الکلام والخوض فی الباطل، الحدیث۷۰،ج۷،ص۶۷۔۶۸) حضرت سیِّدُنا علقمہ رضی اللہ عنہ ارشاد فرماتے تھے: حضرت سیِّدُنا بلال بن حارث رضی اللہ عنہ کی اس روایت نے مجھے اکثرباتوں سے روکاہے کہ تاج دارِ کائنات ﷺ نے ارشاد فرمایا: ''ایک شخص ایسی بات کہتاہے جس کے ذریعے اپنے پاس بیٹھنے والوں کوہنساتا ہے ،مگر وہ اس کے باعث ثریا(ستارے)سے بھی زیادہ دور جا گرتا ہے ۔'' (الموسوعۃ لابن ابی الدنیا، کتاب الصَّمْت وآداب اللِّسان، باب النھی عن فضول الکلام، الحدیث ۷۱، ج۷، ص۶۸۔۶۹)(3)گناہوں کے بارے میں کرنا: گناہوں کے متعلق گفتگوکرنا ، عورتوں کے حالات، شراب کی مجالس اوربدکاروں کے مقامات کا ذکر کرنا بھی گناہ ہے۔اسی جانب پروردگارِ کائنات کے اس فرمان میں اشارہ ہے:وَ کُنَّا نَخُوۡضُ مَعَ الْخَآئِضِیۡنَ ۙ﴿45﴾یعنی: بیہودہ فکروالوں کے ساتھ بیہودہ فکر یں کرتے تھے۔ (پ29،المدثر:45)(4)بحث و مباحثہ کرنااورجھگڑنا: گذشتہ بیان کی گئی ممنوع چیزوں کے بارے میں جھگڑنا یا ان تک پہنچنے کی ترکیبیں بنانا بھی منع ہے۔تاج دارِ کائنات ﷺ کافرمان ہے:لَا تُمَارِ اَخَاکَ وَلَا تُمَازِحْہ، وَلَا تَعِدْہُ مَوْعِدًا فَتُخْلِفَہ،۔یعنی:اپنے بھائی سے جھگڑا نہ کرو،نہ اس سے مذاق کرو اور اس سے وعدہ کرو تو اس کی خلاف ورزی نہ کرو۔(جامع الترمذی، ابواب البروالصلۃ، باب ماجاء فی المراء، الحدیث۱۹۹۵، ص۱۸۵۲) تاج دارِ کائنات ﷺ مزید فرماتے ہیں:''جوشخص حق پرہونے کے باوجودجھگڑا چھوڑدے، اس کے لیے جنت کے اعلیٰ درجے میں گھربنایاجاتاہے، اورجو باطل ہونے کی وجہ سے جھگڑا چھوڑدے اس کے لیے جنت کے گردونواح میں گھربنایاجاتاہے۔ (جامع الترمذی، ابواب البروالصلۃ، باب ماجاء فی المراء، الحدیث۱۹۹۳،ص۱۸۵۱، اعلٰی بدلہ وسط)(5) لڑائی جھگڑا کرنا: یعنی انسان کا دوسرے کاحق یامال حاصل کرنے کے لیے جھگڑنا اور یہ بھی قابلِ مذمت ہے۔اُمُّ المؤمنین حضرت سیِّدَتُنا عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہاسے مروی ہےکہ تاج دارِ کائنات ﷺ نے ارشاد فرمایا:اَبْغَضُ الرِّجَالِ اِلَی اللہِ اَلْاَلَدُّ الْخَصَمُیعنی:پروردگارِ کائنات کے ہاں سب سے ناپسندیدہ شخص وہ ہے جو بہت زیادہ جھگڑا لو ہو۔(صحیح البخاری، کتاب المظالم، باب قول اﷲ تعالی:وَہُوَ أَلَدُّ الْخِصَامِ، الحدیث۲۴۵۷، ص ۱۹۳) حضرت سیِّدُنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، تاج دارِ کائنات ﷺ نے ارشاد فرمایا:مَنْ جَادَلَ فِی خُصُوْمَۃٍ بِغَیْرِ عِلْمٍ لَمْ یَزَلْ فِیْ سُخْطِ اللہِ حَتّٰی یَنْزِعَ۔یعنی:جوشخص بے جاجھگڑتاہے، وہ ہمیشہ پروردگارِ کائنات کی ناراضی میں ہوتاہے ،یہاں تک کہ اسے چھوڑدے۔(موسوعۃ لابن ابی الدنیا، کتاب الصَّمْت وآداب اللِّسان، باب ذم الخصومات، الحدیث۱۵۳،ج۷،ص۱۱۱)(6)تکلّف اوربناوٹ سے بات چیت کرنا: تکلّف کے ساتھ بناوٹی کلام کرنا یہ بھی غلط ہے۔تاج دارِ کائنات ﷺ نے ارشاد فرمایا:اَنَاوَاَتْقِیَاءُ اُمَّتِیْ بَرَاءٌ مِّنَ التَّکَلُّفِ۔یعنی:میں اورمیری امت کے پرہیزگارلوگ تکلف سے بری ہیں ۔ حضرت سیِّدَتُنا فاطمہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں ،تاج دارِ کائنات ﷺ نے ارشاد فرمایا: ''میری امت کے بُرے لوگ وہ ہیں جوطرح طرح کی نعمتوں سے پروان چڑھتے ہیں،مختلف قسم کے کھانے کھاتے ہیں، طرح طرح کے لباس پہنتے ہیں اور(تکلف کے ساتھ) گفتگو کرتے ہیں۔(الکامل فی ضعفاء الرجال لابن عدی، الرقم۱۴۶۶۔عبدالحمید بن جعفر بن الحکم الانصاری،ج۷،ص۴)(7)گالی گلوچ اور بد گوئی کرنا: یہ بھی قابلِ مذمّت ہے۔جیسا کہ تاج دارِ کائنات ﷺ نے ارشاد فرمایا:اِیَّاکُمْ وَالْفُحْشَ فَاِنَّ اللہَ لَا یُحِبُّ الْفُحْشَ وَلَاالتَّفَحُّشَ۔یعنی:فحش کلامی سے بچو،بے شک پروردگارِ کائنات فحش کلامی اور بتکلف فحش کلام کرنے کوپسندنہیں فرماتا۔(الاحسان بترتیب صحیح ابن حبان، کتاب الغصب، الحدیث۵۱۵۴،ج۷،ص۳۰۷) آپ ﷺ نے غزوۂ بدرمیں قتل ہونے والے مشرکین کوگالی دینے سے منع فرمایااور ارشاد فرمایا : ''اَلْبَذَاءُ وَالْبَیَانُ شُعْبَتَانِ مِنَ النِّفَاقِ یعنی: فحش گوئی اور کثرتِ کلام نفاق کے دو شعبے ہیں۔'' (جامع الترمذی، ابواب البروالصلۃ، باب ماجاء فی العَیِّ، الحدیث۲۰۲۷،ص۱۸۵۴)(8)لعنت کر نا: لعنت خواہ حیوانات وجمادات پرکی جائے یاانسان پر( مذموم ہے)،تاج دارِ کائنات ﷺ کافرمانِ نصیحت نشان ہے : ''اَلْمُوْمِنُ لَیْسَ بِلَعَّانٍ یعنی:مؤمن لعنت کرنے والانہیں ہوتا۔'' (جامع الترمذی، ابواب البروالصلۃ، باب ماجاء فی اللعنۃ، الحدیث۱۹۷۷،ص۱۸۵۰) حضرت سیِّدُنا حذیفہ رضی اللہ عنہ ارشاد فرماتے ہیں:'' جوقوم کسی پرلعنت بھیجتی ہے تو اس پرپروردگارِ کائنات کاعذاب ثابت ہو جاتا ہے۔'' اُمُّ المؤمنین حضرت سیِّدَتُناعائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہاارشاد فرماتی ہیں، تاج دارِ کائنات ﷺ نے حضرت سیِّدُنا ابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ کو اپنے ایک غلام کولعن طعن کرتے سنا ، تواُن کی طرف متوجہ ہو کردویاتین مرتبہ ارشاد فرمایا: ''اے ابوبکر!کیا صدیق بھی ہو اورلعن طعن بھی کرے ،ربِّ کعبہ کی قسم! ایسانہیں ہوسکتا۔''حضرت سیِّدُنا ابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ نے اسی دن اپناغلام آزاد کر دیا اور تاج دارِ کائنات ﷺ کی بارگاہ میں حاضرہوئے اورعرض کی: '' میں دوبارہ یہ کلمات نہیں کہوں گا۔'' (الادب المفرد للبخاری، باب من لعن عبدہ فأعتقہ، الحدیث۳۲۲، ص۱۰۰۔۱۰۱)(9)گانے گانا اورشعرکہنا: گانے کے بارے میں سماع کے باب میں ذکرگزرچکا ہے،اورجہاں تک شعرکاتعلق ہے توکلام اچھاہوتواچھاہے اور برا ہو تو برا۔ لیکن شعر کہنے کو پیشہ بنا لینا مذموم ہے۔ جیسا کہ تاج دارِ کائنات ﷺ ارشاد فرماتے ہیں:لَأَنْ یَّمْتَلِیَ بَطْنُ اَحَدِکُمْ قَیْحاً خَیْرٌ لَّہ، مِنْ أَنْ یَّمْتَلِیَ شِعْرًا۔یعنی:تم میں سے کسی کے پیٹ کا پیپ سے بھرجانا اشعار سے بھر جانے سے بہتر ہے۔(صحیح البخاری، کتاب الادب، باب مایکرہ أن یکون الغالب علی الانسان الشِعْر۔۔۔۔۔۔الخ، الحدیث۶۱۵۴،ص ۵۱۹) (غلط)اشعار پر مداومت اختیارکرنااوران کے لیے سفرکرناممنوع ہے مگر صحیح اشعار کے جوازپربہت سی احادیث وارد ہیں۔(10) ہنسی مذاق کرنا : مزاح کی اصل یہ ہے کہ اس سے روکاگیاہے اوریہ مذموم ہے البتہ تھوڑاساہوتوجائزہے،تاج دارِ کائنات ﷺ کافرمانِ عالی شان ہے : '' لَا تُمَارِ اَخَاکَ وَلاَ تُمَازِحْہ، یعنی:نہ اپنے بھائی کی بات کاٹو اور نہ اس کا مذاق اڑاؤ۔'' (جامع الترمذی، ابواب البروالصلۃ، باب ماجاء فی المراء، الحدیث۱۹۹۵، ص۱۸۵۲) جان لو!اس میں حد سے بڑھنا منع ہے کہ کثرتِ مذاق سے زیادہ ہنسی پیدا ہوتی ہے اور نتیجۃً دِل مُردہ ہو جاتا ہے۔ تاج دارِ کائنات ﷺ کافرمان ہے: ''اِنِّیْ لَأمْزَحُ وَلَااَقُوْلُ اِلَّاحَقًّا یعنی:میں مزاح کرتاہوں ،لیکن حق بات کے سواکچھ نہیں کہتا۔'' (أخلاق النبی لابی الشیخ الاصبہانی ،باب ما روی فی کظمہ الغیظ وحلمہ ،الحدیث۱۷۴،ج۱،ص۱۸۶) تاج دارِ کائنات ﷺ نے حضرت سیِّدُنا صہیب رضی اللہ عنہ سے ارشاد فرمایا:''تم کھجوریں کھارہے ہو،جب کہ تمھاری آنکھوں میں دردہے توحضرت سیِّدُنا صہیب رضی اللہ عنہ نے عرض کی: '' میں دوسری طرف سے کھارہا ہوں۔'' یہ سُن کر آپ ﷺ مسکرادیے۔''(سنن ابن ماجۃ، ابواب الطب، باب الحمیۃ، الحدیث۳۴۴۳، ص۲۶۸۴)(11)مذاق اُڑانااورتَمَسْخُر کرنا: یہ بھی حرام ہے، پروردگارِ کائنات نے ارشادفرمایا:لَا یَسْخَرْ قَوۡمٌ مِّنۡ قَوْمٍیعنی:نہ مرد مردوں سے ہنسیں۔(پ26،الحُجُرٰت:11) اس کامعنٰی دوسرے کی توہین کرنا،اسے حقیرجاننااوراس کے عیبوں سے آگاہ کرنا ہے اور بعض اوقات یہ چیز اس کے قول وفعل کی نقل اتارنے کے ذریعے پائی جاتی ہے۔تاج دارِ کائنات ﷺ نے ارشاد فرمایا:''لوگوں کامذاق اڑانے والے کے لیے جنت کادروازہ کھولاجائے گااورکہاجائے گا آؤ! آؤ! وہ غم اور تکلیف کی حالت میں آئے گا جب وہ آئے گا تواس پردروازہ بندکردیاجائے گا۔ پھردوسرادروازہ کھولاجائے گا اور کہا جائے گاآؤ!آؤ!وہ غم والم میں آئے گا جب وہ آئے گاتواس پروہ دروازہ بندکردیاجائے گا،اسی طرح مسلسل ہوتارہے گا،یہاں تک کہ اس کے لیے دروازہ کھولاجائے گااورکہاجائے گاآؤ!آؤ!تووہ نہیں آئے گا۔''(موسوعۃ لابن ابی الدنیا، کتاب الصَّمْت وآداب اللِّسان، باب ما نُھی عنہ العباد ان یسخر بعضھم من بعض، الحدیث ۲۸۷،ج۷،ص۱۸۴) حضرت سَیِّدُنامعاذبن جبل رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، تاج دارِ کائنات ﷺ نے ارشاد فرمایا:مَنْ عَیَّرَاَخَاہُ بِذَنْبٍ قَدْ تَابَ مِنْہُ لَمْ یَمُتْ حَتّٰی یَعْمَلَہٗ۔یعنی:جوآدمی اپنے( مسلمان)بھائی کواس کے کسی گناہ پر عار دِلاتا ہے جس سے وہ توبہ کرچکاہو، توعار دِلانے والامرنے سے پہلے اس عمل میں مبتلاہوگا۔(جامع الترمذی، ابواب صفۃ القیامۃ، باب فی وعید من عیرأخاہ بذنب، الحدیث۲۵۰۵،ص۱۹۰۳)(12) رازکوظاہرکرنا: کسی کے رازکوظاہرکرنے سے منع کیاگیاہے، کیوں کہ اس کے ذریعے تکلیف پہنچائی جاتی ہے اوردودسروں کے حق کو معمولی سمجھاجاتاہے،تاج دار، کائنات ﷺ کافرمانِ نصیحت نشان ہے: ''اَلْحَدِیْثُ بَیْنَکُمْ اَمَانَۃٌ یعنی:گفتگوتمہارے درمیان امانت ہے۔'' (موسوعۃ لابن ابی الدنیا، کتاب الصَّمْت وآداب اللِّسان، باب حفظ السِر، الحدیث۴۰۶،ج۷،ص۲۴۴)(13)جھوٹاوعدہ کرنا: جھوٹاوعدہ کرنے سے بھی منع کیاگیاہے اوریہ نفاق کی علامات میں سے ہے،پروردگارِ کائنات کافرمانِ عالی شان ہے:یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡۤا اَوْفُوۡا بِالْعُقُوۡدِ ۬ؕیعنی:اے ایمان والو!اپنے قول پورے کرو۔ (پ6 ،المائدہ: 1) تاج دارِ کائنات ﷺ کافرمان ہے:''اَلْعِدَۃُ عَطِیَّۃٌ یعنی:وعدہ پورا کرنا عطیہ ہے۔'' (المعجم الاوسط، الحدیث۱۷۵۲،ج۱،ص۴۷۵)(14)جھوٹ بولنا اورجھوٹی قسم کھانا: یہ نہایت قبیح گناہوں میں سے ہے ،مروی ہے کہ امیر المؤمنین حضرت سیِّدُنا ابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ نے تاج دارِ کائنات ﷺ کے وصالِ ظاہری کے بعدخطبہ دیتے ہوئے ارشاد فرمایا: ''تاج دارِ کائنات ﷺ اس مقام پرتشریف فرما ہوئے، جہاں آج میں کھڑاہوں ،پھرآپ رضی اللہ عنہ روپڑے اور فرمایا:تاج دارِ کائنات ﷺ نے ارشاد فرمایا: ''اِیَّاکُمْ وَالْکِذْبَ،فَإنَّہ، مَعَ الْفَجُوْرِوَھُمَا فِی النَّار یعنی :جھوٹ سے بچوکیوں کہ جھوٹ بولنے والابدکارکے ساتھ ہوتا ہے اوروہ دونوں دوزخ میں ہوں گے۔'' (سنن ابن ماجۃ، ابواب الدعاء، باب الدعاء بالعفووالعافیۃ، الحدیث۳۸۴۹،ص۲۷۰۶)تاج دارِ کائنات ﷺ کافرمانِ عبرت نشان ہے: ''اِنَّ الْکِذْبَ بَابٌ مِّنْ اَبْوَابِ النِّفَاقِ یعنی:بے شک جھوٹ منافقت کے دروازوں میں سے ایک دروازہ ہے۔''(مساوی الأخلاق للخرائطی، باب ماجاء فی الکذب وقبح ما أتی بہ أھلہ، الحدیث۱۰۷،ج۱، ص۱۱۷)(15)غیبت: ہم پہلے شریعت میں اس کے متعلق وارد ہونے والی مذمت کو ذکرکرتے ہیں ۔جیسا کہ پروردگارِ کائنات نے ارشاد فرمایا:وَلَا یَغْتَبۡ بَّعْضُکُمۡ بَعْضًا ؕ اَیُحِبُّ اَحَدُکُمْ اَنۡ یَّاۡکُلَ لَحْمَ اَخِیۡہِ مَیۡتًایعنی: ایک دوسرے کی غیبت نہ کروکیا تم میں کوئی پسند کرے گاکہ اپنے مرے بھائی کا گوشت کھائے۔ (پ26 ،الحُجُرٰت:12) حضرت سیِّدُنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ تاج دارِ کائنات ﷺ نے ارشاد فرمایا:'' ایک دوسرے سے حسد نہ کرو، آپس میں بغض نہ رکھو،بیع نجش نہ کرو۔ایک دوسرے سے روگردانی نہ کرو اور ایک دوسرے کی غیبت بھی نہ کرو،اے پروردگارِ کائنات کے بندو!بھائی بھائی بن جاؤ۔''(صحیح مسلم، کتاب البر، باب تحریم ظلم المسلم ۔۔۔۔۔۔الخ، الحدیث۶۵۴۱،ص۱۱۲۷) (موسوعۃ لابن ابی الدنیا، کتاب الصَّمْت وآداب اللِّسان، باب الغیبۃ وذمھا، الحدیث۱۶۳،ج۷،ص۱۱۶تا۱۱۷) تاج دارِ کائنات ﷺ کافرمان ہے:''غیبت سے بچو،بے شک غیبت زناسے سخت تر ہے، کیوں کہ جب آدمی زناکرکے توبہ کرتاہے توپروردگارِ کائنات اس کی توبہ قبول فرماتاہے اورغیبت کرنے والے کی بخشش اس وقت تک نہیں ہوتی ،جب تک وہ شخص معاف نہ کر دے جس کی غیبت کی ہے۔'' (موسوعۃ لابن ابی الدنیا، کتاب الصَّمْت وآداب اللِّسان، باب الغیبۃ وذمھا، الحدیث۱۶۴،ج۷، ص۱۱۸) حضرت سیِّدُنا اَنَس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ تاج دارِ کائنات ﷺکافرمان ہے:'' شبِ معراج میں ایسی قوم کے پاس سے گزرا،جواپنے چہروں کواپنے ناخنوں سے نوچ رہے تھے، میں نے جبریل علیہ السلام سے پوچھا:''یہ کون لوگ ہیں؟ '' انہوں نے جواب دیا:''یہ وہ ہیں جولوگوں کی غیبت کرتے تھے اوران کی عزّتوں کے پیچھے پڑتے تھے۔'' (موسوعۃ لابن ابی الدنیا، کتاب الصَّمْت وآداب اللِّسان، باب الغیبۃ وذمھا، الحدیث۱۶۵،ج۷،ص۱۱۸)پروردگارِ کائنات نے حضرت سَیِّدُناموسیٰ علیٰ نبیناوعلیہ الصلوٰۃو السلام کی طرف وحی بھیجی اور فرمایا:'' جو شخص غیبت سے توبہ کرتے ہوئے فوت ہوا، وہ جنت میں سب سے آخرمیں داخل ہوگا اورجو غیبت پراصرارکی حالت میں فوت ہوا، وہ جہنّم میں سب سے پہلے داخل ہو گا۔''غیبت کی تعریف: غیبت یہ ہے کہ تم اپنے کسی بھائی کاذکران الفاظ میں کروکہ اگراس تک یہ بات پہنچے تووہ اِسے ناپسندکرے۔ خواہ تم اس کے بدن یا خاندان کے عیب کاذکرکرو یااس کی فعلی، قولی، دینی یادنیوی کوتاہی بیان کرو۔یہاں تک کہ اس کے لباس، مکان اور جانور کا عیب بیان کرنا بھی غیبت ہے۔ جان لو!غیبت کے سلسلے میں اشارۃً گفتگوکرنااورسمجھنا صراحتاًگفتگو کرنے کی طرح ہے اورایسی حرکت جس سے مقصود سمجھ میں آجائے اس میں اورصریح گفتگو کرنے میں کوئی فرق نہیں اورغیبت سننے والاغیبت کرنے والے کے ساتھ(گناہ میں) شریک ہوتاہے، غیبت توجہ سے سننا اورغیبت کرنے والے کی بات پر اظہارِتعجب بھی غیبت ہے ،کیوں کہ یہ بھی غیبت کرنے والے کی مدد کرنا اوراس کے ساتھ شریک ہوناہے۔ حضرت سیِّدُنا ابودرداء رضی اللہ عنہ سے مروی ہے ،شہنشاہِ مدینہ،قرارِ قلب و سینہ، صاحبِ معطر پسینہ، باعثِ نُزولِ سکینہ، فیض گنجینہ ﷺ کافرمانِ بشارت نشان ہے:''جوشخص اپنے (مسلمان)بھائی کی غیرموجودگی میں اس کی عزت کی حفاظت کرے، پروردگارِ کائنات کے ذمۂ کرم پرہے ، کہ وہ قیامت کے دن اس کی عزت کی حفاظت فرمائے گا۔'' (موسوعۃ لابن ابی الدنیا، کتاب الصَّمْت وآداب اللِّسان، باب ذب المسلم عن عرض أخیہ، الحدیث۲۴۰، ج۷، ص۹ ۱۵)غیبت کے کفارے کا بیان: جان لو! غیبت کرنے والے پر لازم ہے کہ وہ شرمندہ ہو، توبہ کرے اور اپنے کئے پر افسوس کا اظہار کرے ،تاکہ پروردگارِ کائنات کے حق سے باہر آجائے۔ پھر جس کی غیبت کی تھی اس سے معافی مانگے تاکہ زیادتی سے برئ الذمہ ہو جائے۔ لیکن جب معافی مانگے تو غمگین اور شرمندہ ہو۔ اورحضرت سیِّدُنا حسن بصری رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ اِرشاد فرماتے ہیں:''غیبت کرنے والے کے لیے استغفار کافی ہے، معافی مانگنے کی ضرورت نہیں۔'' حضرت سَیِّدُنااَنَس بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، نور کے پیکر، تمام نبیوں کے سَرْوَر، دو جہاں کے تاجْوَر، سلطانِ بَحرو بَرﷺ کافرمانِ خوشبودارہے: ''کَفَّارَۃُ مَنِ اغْتَبْتَ اَنْ تَسْتَغْفِرَلَہٗ یعنی:غیبت کا کفارہ یہ ہے کہ جس کی تم نے غیبت کی اس کے لیے دعائے مغفرت کرو۔'' (موسوعۃ لابن ابی الدنیا، کتاب الصَّمْت وآداب اللِّسان، باب کفارۃ الاغتیاب، الحدیث۲۹۳،ج۷،ص۱۸۸۔۱۸۹) حضرت سیِّدُنا مجاہد رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں:''جب تم اپنے بھائی کا گوشت کھاؤ( یعنی اُس کی غیبت کرو)، تو اس کا کفارہ یہ ہے کہ اس کی تعریف کرو اور اس کے لیے بھلائی کی دعا مانگو۔'' بہتر یہی ہے کہ اظہارِ ندامت کے ساتھ ساتھ معافی مانگی جائے۔(16)چغلی کھانا: پروردگارِ کائنات نے ارشاد فرمایا:ہَمَّازٍ مَّشَّآءٍۭ بِنَمِیۡمٍ ﴿ۙ11﴾یعنی:بہت طعنے دینے والا بہت اِدھر کی اُدھر لگاتا پھرنے والا۔ (پ29، القلم:11) حضرت سیِّدُنا عبد اللہ بن مبارک رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ ارشاد فرماتے ہیں: '' غیر ثابت النسب(یعنی بغیر نکاح کے پیدا ہونے والا ) راز کو نہیں چھپاتا۔'' اس میں اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ جو شخص(راز کی) بات کو نہیں چھپاتا اور چغلی کھاتا ہے، تو یہ اس کے حرامی ہونے کی دلیل ہے، انہوں نے پروردگارِ کائنات کے اس فرمان سے اِستدلال کیا ہے:عُتُـلٍّ بۢـَعْدَ ذٰلِکَ زَنِیۡـمٍ ﴿ۙ13﴾یعنی: دُرُشت خُو ا س سب پر طرہ یہ کہ اس کی اصل میں خطا۔(پ29،القلم:13) زَنِیم سے مراد حرامی ہے اور پروردگارِ کائنات کا فرمانِ حقیقت نشان ہے :وَیۡلٌ لِّکُلِّ ہُمَزَۃٍ لُّمَزَۃِۣۙ﴿1﴾یعنی: خرابی ہے اس کے لیے جو لوگوں کے منہ پر عیب کرے، پیٹھ پیچھے بدی کرے۔ (پ30، الہمزۃ: ا) ھُمَزَۃٍ سے مراد بہت زیادہ چغلی کھانے والا ہے۔پروردگارِ کائنات نے ارشاد فرمایا:حَمَّالَۃَ الْحَطَبِ ۚ﴿4﴾یعنی: لکڑیوں کا گٹھا سر پر اٹھاتی۔ (پ30 ،اللہب:4) کہتے ہیں کہ وہ چغلی کھانے والی اور باتوں کو اِدھر اُدھر پہنچانے والی تھی۔پروردگارِ کائنات نے ارشاد فرمایا:فَخَانَتٰہُمَا فَلَمْ یُغْنِیَا عَنْہُمَا مِنَ اللہِ شَیْـًٔایعنی: پھر انہوں نے ان سے دغا کی تو وہ اللہ کے سامنے انھیں کچھ کام نہ آئے۔(پ28 ،التحریم:10)حدیث ِ پاک میں ارشاد ہے: ''لَایَدْخُلُ الْجَنَّۃَ قَتَّاتٌ یعنی:چغل خور جنت میں داخل نہ ہوگا۔''(صحیح البخاری، کتاب الادب، باب مایکرہ من النمیمۃ، الحدیث۶۰۵۶،ص۵۱۲) قتَّات سے مراد چغل خور ہے، اس کے متعلق بہت سی احادیث ِمبارکہ وارد ہیں۔چغلی کی تعریف: چغلی کی تعریف یہ ہے کہ ایسی بات ظاہر کرنا جس کا ظاہر کرنا ناپسند ہو۔خواہ وہ ناپسند کرے جس سے سنی گئی یا جس کےبارے ميں سنی گئی یا کوئی تیسراآدمی ناپسند کرے۔ خواہ بول کریا لکھ کر اس کا اظہار ہو یا اشارہ، کنایہ سے ہو۔ پس چغلی کی حقیقت پوشیدہ بات کو ظاہر کرنا اور اس سے پردہ ہٹانا ہے۔(17)منافقت: منافقت یہ ہے کہ کوئی شخص آپس میں مخالف دو اشخاص میں سے ہر ایک کے پاس جائے اورہر ایک سے اس کے موافق بات کرے، یہ عین نفاق ہے۔چنانچہ حضرت سیِّدُنا عمار بن یاسررضی اللہ عنہماسے مروی ہے،حضور سیِّدُ المبلغین، رَحْمَۃٌ لِّلْعٰلَمِیْن ﷺ کافرمانِ عبرت نشان ہے:مَنْ کَانَ لَہٗ وَجْھَانِ فِی الدُّنْیَا کَانَ لَہٗ لِسَانَانِ مِنْ نَّارٍ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ۔یعنی:جو شخض دنیا میں دو چہروں والا ہو بروزِ قیامت اس کی آگ کی دوزبانیں ہوں گی۔(سنن ابی داؤد، کتاب الادب، باب فی ذی الوجھین، الحدیث۴۸۷۳،ص۱۵۸۱) حضرت سیِّدُنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبئ رحمت، شفیعِ امّت، قاسمِ نعمت ﷺ کافرمانِ عالیشان ہے:''بروزِقیامت تم پروردگارِ کائنات کے بندوں میں سے سب سے برا اس شخص کو پاؤ گے جس کے دوچہرے ہیں جواِدھر کچھ کہتا ہے اور اُدھر کچھ کہتا ہے۔'' دوسری روایت کے الفاظ یہ ہیں:''جو ان کے پاس ایک چہرے سے آتا ہے اور دوسروں کے پاس دوسرا چہرہ لے کر آتا ہے۔''(صحیح مسلم، کتاب فضائل الصحابۃ، باب خیار الناس، الحدیث۶۴۵۴،ص۱۱۲۰) (موسوعۃ لابن ابی الدنیا، کتاب الصَّمْت وآداب اللِّسان، باب ذم ذی اللِّسانین، الحدیث۲۷۷، ج۷، ص۸ ۷ ۱۔۱۷۹)اخیر میں بارگاہ قاضی الحاجات میں دعا گو ہوں کہ موالے پاک اپنے محبوب پاک، صاحب لولاک، سیاح افلاک صلی اللہ علیہ وسلم کے صدقے و طفیل حضرت مخدوم پاک کے مرقد منور پہ رحمت و انوار کی بارشیں برسائے۔ ان کے درجات بلند فرمائے اور ہمیں ان کی یاد منانے اور ان کے نام نذر و نیاز کرنے کے ساتھ ساتھ ان کی تعلیمات پر عمل پیرا ہونے کی بھی توفیق خیر مرحمت فرمائے۔آمین۔ یا رب العالمین۔ بجاہ النبی الامین۔صلی اللہ علیہ وآلہ وصحبہ ومن تبعھم اجمعین۔

रहमत व मग़फ़िरत की हसीन रात—शबे बरातलेखकः नासिर मनेरीसंपर्कः 9905763238۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔गर चाहते हो बख़शिश आई शबे बरात|कर लो ज़रा सी कोशिश आई शबे बरात|| नासिर मनेरी की है ये अर्ज़ दोस्तो!करवा लो रब से बख़शिश आई शबे बरात||शबे बरात की फज़ीलतःशाबान के महीने की बहुत फ़ज़ीलत आई है, हुज़ूर ने इसे अपना महीना क़रार दिया है, ख़ास कर इसकी पँद्रहवीं रात (यानी शबे बरात) की बहुत फ़ज़ीलत आई है| अल्लामा अब्दुल हक़ मुहद्दिस देहलवी अलैहिर्रहमा समेत बड़े बड़े मुहक़्क़िक़ों ने इस पर किताबें लिखीं और इमाम इब्ने माजा जैसे मुहद्दिस समेत बहुत से हदीस के इमामों ने इसके लिए बाब क़ायम किया| यहाँ सही हदीसों की रोशनी में इसके फ़ज़ाइल व मामूलात पेश किए जा रहे हैं :इमाम इब्ने माजा सही सनद के साथ हज़रत अली बिन अबी तालिब से रिवायत करते हैं कि हुज़ूर ने फरमायाः जब शाबान की पँद्रहवीं रात आ जाए तो उस रात को इबादत में गुज़ारो और उस के दिन में रोज़ा रखो, क्योंकि अल्लाह तआला सूरज डूबने के वक़्त से आसमान पर नुज़ूल फरमाता है और एलान करता है कि है कोई बख़शिश चाहने वाला कि मैं उसे बख़्श दूँ? है कोई रोज़ी माँगने वाला कि उसे रोज़ी दूँ? है कोई बीमार कि उसे शिफा दूँ? है कोई ऐसा? है कोई वैसा? और ये फजर के वक़्त तक फरमाता है| (सु-नने इब्ने माजा,हदीसः1388) लिहाज़ा जो भी अल्लाह की रहमत और बख़शीश व मग़फिरत चाहता हो उसे चाहिए कि ये रात इबादत में गुज़ारे और इस के दिन में रोज़ा रखे|शबे बरात की नमाज़ःमग़रिब की नमाज़ पढ़ने के बाद 6 रकअतें 2-2 कर के पढ़ें| पहली 2 रकअतों से पहले यूँ दुआ करेः ऐ अल्लाह! इन 2 रकअतों की बरकत से मुझे दराज़िए उम्र बिलख़ैर अता फरमा| दूसरी 2 रकअतों से पहले यूँ दुआ करेः ऐ अल्लाह! इन 2 रकअतों की बरकत से मुझे बलाओं से महफूज़ फरमा| तीसरी 2 रकअतों से पहले यूँ दुआ करेः ऐ अल्लाह! इन 2 रकअतों की बरकत से मुझे अपने अलावा किसी का मुहताज ना रख| हर रकअत में सू-रए फातिहा के बाद सू-रए इख़लास (क़ुल हुवल्लाह) 3 बार और हर दो रकअतों के बाद सू-रए इख़लास 21 बार पढ़ें| सू-रए यासीन भी 1 बार पढ़ या सुन लें, और हर सू-रए यासीन के बाद ये दुआ पढें :अल्लाहुम-म या ज़ल-मन्नि वला युमन्नु अलैह, या ज़ल-जलालि वल-इकराम, वया ज़त्तौलि वल-इनआम, ला इला-ह इल्ला अन्-त ज़हरुल्लाजीन, वजारुल मुस-तजीरी-न वअमानुल ख़ाइफ़ीन, अल्लाहुम्-म इन कुन-त क-तब-तनी इन्-द-क फ़ी उम्मिल किताबि शक़िय्या, औ महरूमन औ मतरूदन औ मुक़तरन अलय्-य फ़िर्रिज़्क़, फ़म्हुल्लाहुम्-म बिफ़ज़लि-क शक़ावती वहिरमानी वतरदी वक़ता-र रिज़क़ी, वअसबितनी इन-द-क फ़ी उम्मिल किताबि सईदम मरज़ूक़म मुवफ़्फ़क़ल लिल ख़ैरात, फ़इन्न-क क़ुल्-त व क़ौलुकल हक़्क़ु फ़ी किताबिकल मुनज़्ज़ल, अला लिसानि नबिय्यिकल मुरसल, “यम्हुल्लाहु मा यशाउ वयुसबितु वइन्दहू फ़ी उम्मिल किताब” इलाही बित्तजल्लिल आज़म, फ़ी लैलतिन निस्फ़ि मिन शहरि शअबानल मुकर्रम, अल्लज़ी युफ़रक़ु फ़ीहा कुल्लु अमरिन हकीमिँव वयुबरम, अन तकशिफ़ अन्ना मिनल बलाइ वल-बलवाइ मा नअलमु वमा ला नअलम, वअन-त बिही आलम, इन्न-क अन्तल अअज़्ज़ुल अकरम, वसल्लल लाहु त्आला अला सय्यिदिना मुहम्मदिँव वअला आलिहि वअसहाबिही वसल्लम, वलहम्दु लिल्लाहि रब्बिल आ-लमीन|(मा ज़ा फ़ी शअबान, पेजः105,अज़ अल्लामा अलवी मालिकी मक्की अलैहिर्रहमा)शबे बरात का रोज़ाःशाबान के महीने और ख़ास तौर से शबे बरात के रोज़े की बड़ी फ़ज़ीलत आई है| इमाम नसई सही सनद के साथ हज़रत उसामा बिन ज़ैद से रिवायत करते हैं कि उन्होंने हुज़ूर से अर्ज़ कीः या रसूलल्लाह! जिस क़दर आप शाबान में रोज़े रखते हैं किसी और महीने में नहीं रखते? हुज़ूर ने फरमायाः ये ऐसा महीना है, जो रजब और रमज़ान के बीच में आता है और लोग इस से ग़फलत बरतते हैं, हालाँकि इस महीने में पूरे साल के अमल अल्लाह को पेश किये जाते हैं लिहाज़ा मैं चाहता हूँ कि मेरा अमल रोज़ादार होने की हालत में उठाया जाए| (सु-नने नसई, हदीसः2357)लिहाज़ा इस महीने में ज़्यादा से ज़्यादा रोज़े रखें, ख़ास कर शबे बरात का रोज़ा ज़रूर रखें|शबे बरात का वज़ीफ़ाःशबे बरात के मुक़द्दस मौक़े पर यह दुआ ज़यादा से पढ़ी जाए, साहिबे मिशकात अल्लामा तबरेज़ी फरमाते हैं कि यह दुआ हुज़ूर से साबित है| अल्लाहुम्म इन्न-क अफ़ुव्वन तुहिब्बुल अफ़्-व फ़अफ़ू अन्नी| (मिशकात शरीफ, 1/183) यह दुआ ज़्यादा से ज़्यादा पढ़ें |शबे बरात का हलवाःशबे बरात के पुर बहार मौक़े पर हलवा या फातिहा व ईसाले सवाब के लिए दूसरे खाने पकाना ना तो फ़र्ज़ या वाजिब है और ना ही नाजायज़ व हराम बल्कि दूसरे खानो की तरह इसे पकाना भी एक जायज़ और मुबाह काम है और अगर इस नेक नियती के साथ हो कि अच्छा खाना पका कर ग़रीबों, मिस्कीनों और ज़रूरत मंदों को खिलाए तो ये सवाब का काम है| और हल्वा (शीरीनी, मिठाई, मीठी चीज़) चूँकि हुज़ूर पसंद फरमाया करते थे जैसा कि हदीसे पाक में है इमाम बुख़ारी सही सनद के साथ हज़रत आएशा से रिवायत करते हैं कि हुज़ूर हल्वा (मीठी चीज़) और शहद पसंद करते थै|(बुख़ारी शरीफ, हदीसः5268)लिहाज़ा इसे पका कर बुज़र्गों के नाम ईसाले सवाब करना (फातिहा दिलाना) भी जायज़ काम है और इसे हराम या शिर्क कहना अक़्ल व शरीअत के ख़िलाफ है|क़ब्रिस्तान जानाःकब्रों की ज़ियारत के लिए जाना सुन्नत है| हुज़ूर ने क़ब्रों की ज़ियारत की है और इस का हुक्म भी दिया है| इस के फायदे और बरकतें भी बताई हैं, हदीसे पाक में इमाम मुस्लिम सही सनद के साथ हज़रत अबू हुरैरा से रिवायत करते हैं कि हुज़ूर ने फरमायाः क़ब्रों की ज़ियारत करो इसलिए कि वो दुनिया से बे रग़बत करती और आख़िरत की याद दिलाती है| (मुस्लिम शरीफ, हदीसः2148)जब क़ब्र पर जाएँ तो पहले सलाम पेश करें, इमाम तिर्मिज़ी सही सनद के साथ हज़रत इब्ने अब्बास से रिवायत करते हैं कि हुज़ूर जब मदीने के क़ब्रिस्तान से गुज़रे तो यूँ कहाः अस्सलामो अलैकुम या अहलल क़ुबूर, यग़फ़िरुल्लाहु लना वलकुम, अन्तुम सलफुना व नहनु बिलअसर| (तिर्मिज़ी शरीफ, हदीसः1055)फिर पाइँती की जानिब से जा कर मय्यत के चेहरे के सामने खड़े हों और फातिहा पढ़ें| (दुर्रे मुख़तार,3/179)आतिशबाज़ीःशबे बरात जहन्नम की भड़कती आग से बराअत(यानी छुटकारा पाने) की रात है मगर अफसोस सद करोड़ अफसोस कि इस रात बहुत से मुसलमान जहन्नम की आग से छुटकारा हासिल करने की बजाय ढ़ेर सारे रूपये पैसे ख़र्च कर के अपने लिए आतिशबाज़ी का सामान खरीदते हैं और ख़ूब पटाख़े वग़ैरा छोड़ कर इस मुक़द्दस रात का तक़द्दुस पामाल करते हैं| जब्कि आतिशबाज़ी (यानी पटाख़े वग़ैरा छोड़ना) हराम हराम सख़्त हराम और जहन्नम में ले जाने वाला काम है|अल्लाह से दुआ है कि हमें यह रात इबादत में गुज़ारने की तौफ़ीक़ अता फरमाए और घूमने फिरने व पटाख़े छोड़ने से बचने की तौफीक़ अता फरमाए| आमीन

رحمت و مغفرت کی حسین رات—شب براءتتحریر : ناصرؔ منیریرابطہ نمبر: 9905763238۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔گر چاہتے ہو بخشش آئی شبِ براتکر لو ذرا سی کوشش آئی شبِ براءتناصرؔ منیری کی ہے یہ عرض دوستو!کروا لو رب سے بخشش آئی شبِ براتشب براءت کی فضیلت :شعبان کے مہینے کی بہت فضیلت آئی ہے، حضور نے اسے اپنا مہینہ قرار دیا ہے۔ خاص کر اس کی پندرہویں رات(شبِ برات) کی بے انتہا فضیلت آئی ہے۔ شیخ عبد الحق محدث دہلوی علیہ الرحمہ جیسے محقق سمیت بڑے بڑے محققین نے اس پر کتابیں لکھیں اور امام ابن ماجہ جیسے محدث سمیت بیش تر ائمۂ حدیث نے اس کے لیے باب قائم کیا۔ ذیل میں صحیح حدیثوں کی روشنی میں اس کے فضائل و معمولات پیش کیے جا رہے ہیں۔امام ابن ماجہ صحیح سند کے ساتھ حضرت علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جب شعبان کی پندرہویں رات(شبِ برات) آ جائے تو اس رات کو عبادت میں گذارو اور اس کے دن میں روزہ رکھو، کیوں کہ اللہ پاک سورج ڈوبنے کے وقت سے آسمانِ دنیا پر نزول فرماتا ہے اور اعلان کرتا ہے کہ ہے کوئی بخشش چاہنے والا کہ اسے بخش دوں؟ہے کوئی روزی مانگنے والا کہ اسے روزی دوں؟ہے کوئی بیمار کہ اسے شفا دوں؟ہے کوئی ایسا؟ہے کوئی ویسا؟اور یہ فجر کے وقت تک فرماتا ہے۔(سنن ابن ماجہ، کتاب الصلاۃ، باب ما جاء فی لیلۃ النصف من شعبان، حدیث نمبر: 1388) لہذا جو بھی اللہ کی رحمت اور بخشش و مغفرت چاہتا ہو، اسے چاہیے کہ یہ رات عبادت میں گذارے اور اس کے دن میں روزہ رکھے۔شب براءت کی نماز :مغرب کی نماز پڑھنے کے بعد چھ رکعتیں دو دو کر کے پڑھیں۔ پہلی دو رکعتیں پڑھنے سے پہلے یوں دعا کریں : اے اللہ! ان دو رکعتوں کی برکت سے مجھے درازیِ عمر بالخیر عطا فرما۔ دوسری دو رکعتیں پڑھنے سے پہلے یوں دعا کریں : اے اللہ! ان دو رکعتوں کی برکت سے مجھے بلاؤں سے محفوظ فرما۔ تیسری دو رکعتیں پڑھنے سے پہلے یوں دعا کریں : اے اللہ! ان دو رکعتوں کی برکت سے مجھے اپنے علاوہ کسی کا محتاج نہ رکھ۔ ہر رکعت میں سورۂ فاتحہ کے بعد سورۂ اخلاص تین بار اور ہر دو رکعتوں کے بعد سورۂ اخلاص اکیس بار پڑھیں، سورۂ یاسین بھی ایک بار پڑھ یا سن لیں۔ اور ہر سورۂ یاسین کے بعد یہ دعا پڑھیں :اَللّٰھُمَّ یَا ذَا الْمَنِّ وَلَا یُمَنُّ عَلَیْہِ یَا ذَا الْجَلَالِ وَالْاِکْرَامِ وَ یَا ذَا الطَّوْلِ وَاالْاِنْعَامِ لَا اِلٰہَ اِلَّا اَنْتَ ظَھْرُ الَّاجِیْنَ وَجَارُ الْمُسْتَجِیْرِیْنَ وَاَمَانُ الْخَائِفِیْنَ اَللّٰھُمَّ اِنْ کُنْتَ کَتَبْتَنِیْ عِنْدَکَ فِیْ اُمِّ الْکِتَابِ شَقِیًّا اَوْ مَحْرُوْمًا اَوْ مَطْرُوْدًا اَوْ مُقْتَرًا عَلَیَّ فیِ الرِّزْقِ فَامْحُ اللّٰھُمَّ بِفَضْلِکَ شَقَاوَتِیْ وَحِرْمَانیِ ْ وَطَرْدِیْ وَاقْتَارَ رِزْقِیْ وَ اَثْبِتْنِیْ عِنْدَکَ فیِ ْاُمِّ الْکِتَابِ سَعِیْدًا مَّرْزُوْقًا مُّوَفِّقًا لِلْخَیْرَاتِ فَاِنَّکَ قُلْتَ وَقَوْلُکَ الْحَقُّ فِیْ کِتَابِکَ الْمُنَزَّلِ عَلٰیٰ لِسَانِ نَبِیِّکَ الْمُرْسَلِ "یَمْحُو اللہُ مَا یَشَاءُ وَ یُثْبِتُ وَعِنْدَہٗ فِیْ اُمِّ الْکِتَاب" اِلٰھِیْ بِالتَّجَلِّی الْاَعْظَمِ فِیْ لَیْلَۃِ النِّصْفِ مِنْ شَھْرِ شَعْبَانَ الْمُکَرَّمِ الَّذِیْ یُفْرَقُ فِیْھَا کُلُّ اَمْرٍ حَکِیْمٍ وَّ یُبْرََمُ اَنْ نَکْشِفَ عَنَّا مِنَ الْبَلَاءِ وَالْبَلْوَاءِ مَا نَعْلَمُ وَمَا لَا نَعْلَمُ، وَ اَنْتَ بِہ اَعْلَمْ، اِنَّکَ اَنْتَ الْاَعَزُّ الْاَکْرَمِ، وَصَلَّی اللہُ تَعَالیٰ علَیٰ سَیِّدِنَا مُحَمّدٍ وَّ عَلیٰ آلِہ وَاَصْحَابِہ وَسَلَّمَ، وَالْحَمْدُ لِلًّہ ِرَبِّ الْعَالَمِیْنَ۔(یہ دعا محدثِ مکہ علامہ محمد بن علوی مالکی علیہ الرحمہ نے اپنی تحقیقی کتاب “ماذا فی شعبان” کے صفحہ نمبر: 105پہ تحریر کی ہے اور اس کا بیش تر حصہ قرآن و حدیث سے ثابت کیا ہے۔ ان کے علاوہ دوسرے مصنفین نے بھی اپنی اپنی کتابوں میں درج کی ہے۔ )شب براءت کا روزہ :شعبان کے مہینے اور خاص طور سے شب براءت کے روزے کی بڑی فضیلت آئی ہے۔امام نسائی صحیح سند کے ساتھ حضرت اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ انھوں نے حضور ﷺ سے عرض کی یارسول اللہ! جس قدر آپ شعبان میں روزے رکھتے ہیں کسی اور مہینے میں روزے نہیں رکھتے؟ حضور نے فرمایا: یہ ایسا مہینہ ہے جو رجب اور رمضان کے بیچ میں آتا ہے اور لوگ اس سے غفلت برتتے ہیں۔ حالاں کہ اس میں پورے سال کے عمل اللہ کو پیش کیے جاتے ہیں لہذا میں چاہتا ہوں کہ میرا عمل روزہ دار ہونے کی حالت میں اٹھایا جائے۔(سنن نسائی، کتاب الصیام، باب صوم النبیﷺ،حدیث نمبر:2357 )لہذا اس مہینے میں زیادہ سے زیادہ روزہ رکھیں، خاص کر شب براءت کا روزہ ضرور رکھیں۔شب براءت کا وظیفہ :شب براءت کے مقدس موقع پر یہ دعاکثرت سے سے پڑھی جائے۔ صاحب مشکات فرماتے ہیں کہ یہ دعا رسول اللہ ﷺ سے منقول ہے: اَللّٰھُمَّ اِنَّکَ عَفُوٌّ تُحِبُّ الْعَفْوَ فَاعْفُ عَنِّی۔(مشکاۃ المصابیح، 1/183)یہ کثرت سے پڑھیں۔شب براءت کا حلوا :شب براءت کے پر بہار موقع پر حلوا یا فاتحہ و ایصال ثواب کے لیے دوسرے کھانے پکانا نہ تو فرض و واجب ہے اور نہ ہی ناجائز و حرام۔ بلکہ دوسرے کھانوں کی طرح اسے پکانا بھی ایک جائز اور مباح کام ہے۔ اور اگر اس نیک نیتی کے ساتھ ہو کہ اچھا کھانا پکا کر غریبوں، مسکینوں اور ضرورت مندوں کو کھلائے تو یہ ثواب کا کام ہے۔ اور حلوا (شیرینی، مٹھائی، میٹھی چیز) چوں کہ رسول پاک ﷺ پسند فرمایا کرتے تھے جیسا کہ حدیثِ پاک میں ہے : امام بخاری صحیح سند کے ساتھ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ حلوا (میٹھی چیز) اور شہد پسند فرماتے تھے۔(بخاری شریف، کتاب الطلاق، باب لم تحرم ما احل اللہ لک، حدیث:5268) لہذا اسے پکا کر بزرگوں کے نام ایصال ثواب کرنا(فاتحہ دلانا) بھی جائز اور ثواب کا کام ہے۔ اور اسے حرام یا شرک کہنا عقل و شرع کے خلاف ہے۔زیارت قبور :قبروں کی زیارت کے لیے جانا سنت ہے۔ حضور ﷺ نے قبروں کی زیارت فرمائی ہے۔ اور اس کا حکم بھی دیا ہے۔ اس کے فائدے اور برکتیں بھی بتائی ہیں۔ حدیثِ پاک میں ہے: امام مسلم صحیح سند کے ساتھ ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ حضور ﷺ نے فرمایا: قبروں کی زیارت کرو اس لیے کہ وہ دنیا سے بے رغبت کرتی اور آخرت کی یاد دلاتی ہیں۔ (مسلم شریف، کتاب الجنائز، باب استئذان النبی ربہ فی زیارۃ قبر امہ، حدیث: 2148) جب قبر پر جائیں تو پہلے سلام پیش کریں: امام ترمذی صحیح سند کے ساتھ حضرت عبد اللہ ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ حضور ﷺ جب مدینے کے قبرستان سے گذرے تو یوں کہا: اَلسَّلَامُ عَلَیْکُمْ یَا اَھْلَ الْقُبُوْرِ یَغْفِرُ اللّٰہُ لَنَا وَلَکُمْ اَنْتُمْ سَلَفُنَا وَ نَحْنُ بِالْاَثَرِ (ترمذی شریف، کتاب الجنائز، باب ما یقول الرجل اذا دخل المقابر، حدیث: 1055)پھر پائینتی کی جانب سے جاکر میت کے چہرے کے سامنے کھڑے ہوں اور فاتحہ پڑھیں۔(دُرِّ مُختار، کتاب الصلاۃ، باب: صلاۃ الجنازۃ،ج:3، ص:179)آتش بازی :شب براءت جہنم کی بھڑکتی آگ سے براءت (یعنی چھُٹکارا پانے) کی رات ہے۔ مگر افسوس صد کروڑ افسوس! کہ اس رات بہت سے مسلمان نارِ جہنم سے چھُٹکارا حاصل کرنے کی بجاے ڈھیر سارے روپے پیسے خرچ کر کے اپنے لیے آتش بازی کے سامان خریدتے ہیں اور خوب پٹاخے وغیرہ چھوڑ کر اس مقدس رات کا تقدس پامال کرتے ہیں۔ جب کہ آتش بازی (یعنی پٹاخے وغیرہ چھوڑنا) حرام حرام اشد حرام اور جہنم میں لے جانے والا کام ہے۔ اللہ سے دعا ہے ہمیں یہ رات عبادت میں گذارنے کی سعادت نصیب فرمائےاور اس دن گھومنے،پھرنے، پٹاخے چھوڑنے اور ہر بے کار کام سے بچائے۔ آمین۔

سلطان المخدومین حضرت سیدنا کمال الدین یحیی منیری علیہ الرحمہ کا ذکرِ خیر از قلم: ناچیز ناصر منیری کان اللہ لہ ڈائریکٹر: ریسرچ سینٹر، خانقاہ منیر شریف، پٹنہ رابطہ نمبر: 9905763238 ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ سلطان المخدومین، زین الساجدین، برہان العاشقین، زبدة السالکین، تاج العارفین، والدِ مخدومِ جہاں، شہزادہء قطب زماں، نبیرہء تاج الفقہا حضرت سیدنا مخدوم کمال الدین احمد یحییٰ منیری رضی اللہ تعالی عنہ و ارضاہ عنا اپنے وقت کے جلیل القدر، عظیم المرتبت، رفیع الدرجت، فقید المثال اور عدیم النظیر صوفی بزرگ گذرے ہیں۔ آپ کا شمار اپنے وقت کے عظیم صوفیہ میں ہوتا ہے۔ آپ مذہب مہذب اسلام کے مخلص داعی، تصوف و روحانیت کے سچے مبلغ، علوم دینیہ کے اچھے مدرس، اولیا و صوفیہ کے لائق و فائق نقیب اور 'العلماء ورثة الانبیا' کے بہترین مصداق تھے۔ منیر شریف اور اس کے اطراف و اکناف میں آپ نے جو شمع اسلام روشن فرمائی ہے وہ اب تک درخشاں و تاباں ہے۔ دعوت و تبلیغ، تصوف و روحانیت اور رشد و ہدایت کے باب میں آپ کی خدمات کافی اہمیت کی متحمل ہیں۔ ذیل میں آپ کی حی...